Sunday, December 22, 2013

شعور کا المیہ


کباڑیے کی دکان پر، میں کس غرض سے گیا تھا، وہ تو میں بھول چکا تھا۔لیکن میں ایک جیتے جاگتے انسان سے ایک احساس میں ڈھل چکا تھا۔سٹیل کے ان گلاسوں کو جب لڑکی کے جہیز میں دینے کیلئے خریدا گیا ہوگا تو وہ پل کتنے مسحور کن ہوں گے۔ کسی نئے گھر کےسفر پر روانگی سے پہلے خوف اور خوشی کے ملے جلے جذبات کو کیسے سنبھالا ہوگا ؟ ڈھولکی بجی ہوگی تو دل کے دروازوں پر کتنے ساز ابھرے ہونگے۔نقرئی قہقہوں کے پیچھے کتنے شبنمی آنسو گرے ہونگے۔اپنی محبت کے خمیر سے کسی کی آبیاری کرنے کو کتنی بے چین ہوگی۔ریشمی بندھن کے خیال سے اس کے شہابی رخسار کتنی بار دمک اٹھے ہونگے ۔ 
قدآورآرائشی گلدان کو دیکھ کر اندازہ ہورہاتھا کہ جب نیا گھر بنایا ہوگا تو کتنے چاؤ کے ساتھ اس کے دروبام کو سجایا گیا ہوگا۔دیواروں پر فریم آویزاں کئے ہونگے۔چھوٹا سا ایک گھر، کتنا پر سکون ہوگا۔دن کو سورج کی کرنیں اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہونگی اور رات کو چاند کی روشنی اپنے حصار میں ۔ کمروں کو سفید کلی سے دھویا گیا ہوگا۔ دروازوں اور کھڑکیوں کو پردوں کے ساتھ ڈھانپا ہوگا۔کسی کمرے کے فرش کو دری سے سجایا ہوگا۔ نئی کرسیاں اور میز بھی خریدی ہونگی، اور صحن میں بھی کرسیاں لگائی ہونگی۔ گرمیوں میں صبح کو ان کرسیوں پر بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہونگے۔کبھی شام کی چائے کیلئے ان پر بیٹھتے ہونگے۔بچے ان کرسیوں پر بیٹھ کر سکول کا کام کرتے ہونگے۔ ایسے ہی کبھی جب بارش برکھا برستی ہوگی تو سب صحن میں موجود چیزوں کو بارش کے پانی سے بچانے کیلئے بھاگ کر برآمدے میں دھکیلتے ہوں گے۔ برسات بھی کیا خوب ہوتی ہے۔۔۔۔
ایک طرف پرانے کمپیوٹرز کا ڈھیر لگا ہوتھا ۔جب پہلی بار ان کو خریدا گیا ہوگا تو کتنی چاہتیں ہوں گی ان کے ساتھ۔کتنے خواب ہوں گے جن کے سہارے وہ نئی دنیائیں آباد کی گئی ہونگی۔نئے زمانے کے نئے انداز، نئے علم ، نیا شعور، نئی ترقیاں۔۔۔۔ کچھ دنیا سے رابطے کے خواب ہونگے، کچھ دوستوں یاروں سے ملنے کی خوشی ہوگی۔ کچھ کر دکھانے کی، کچھ سیکھ لینے کی جستجو ہوگی۔۔۔
ایک پرانا قالین دیکھ کر دھیان ڈرائینگ روم میں اس پر لگنے والی لڈو اور کیرم کی بازیوں کی طرف نکل گیا۔جیت اور شکست کےدرمیان ایک جستجو سینے میں مچلتی ہوگی۔دھوپ اور چھاؤں کی طرح ارمان دلوں میں مچلتے ہونگے۔ کسی کا فتح کا کوئی نعرہ بلند ہوتا ہوگا،کوئی سر جھکا کراپنی شکست سر تسلیم خم کرتا ہوگا۔ کسی کو دروازے پر لگے پردے کے اس پار کسی کے آنچل کی سرسراہٹ کا انتظار ہوگا۔ بچے اس پر کشتیاں کرتے ہوں گے۔ لڑتے جھگڑتے ہوں گے۔ کبھی پانی کا گلا س کسی ٹھوکر سے گر جاتا ہوگا تو ماں سے ڈانٹ کا سوچ کر سب کو سانپ سونگھ جاتا ہوگا۔
ایک پرانے سے ٹی وی کو دیکھ کر تنہایاں اور دھوپ کنارے یاد آگئے، اور اندھیرااجالا ، الف نون، ففٹی ففٹی، کے دن یاد آگئے۔جب آٹھ بجے کے بعد گلیاں ویران ہوجایا کرتی تھیں۔ جب شادیوں کی تاریخ رکھنے سے پہلے اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا ، اس دن کسی ڈرامے کا دن تو نہیں ہے۔ٹی وی ایک ساتھی کی طرح تھا جو ہر روز ایک نیا جذبہ لے کر آتا تھا،ایک نئی خوشی پہنچاتا تھا۔ایک جذباتی گرفت تھی ہر کسی کی زندگی کے اوپر۔۔
پرانی اخباروں کو دیکھ کر دل میں ایک آہ سی اٹھی کہ یہی وہ اخبار ہے۔ہر صبح جس کے انتظار میں نظریں گھر کے بیرون دروازے کا طواف کرتی تھیں۔ہر آہٹ پر دل دھڑکنے لگتا تھا۔کہیں آج دھند زیادہ تو نہیں، کہیں آج ٹرانسپورٹ کی ہڑتال تو نہیں،۔ جب تک اخبار ہاتھوں میں پہنچ نہیں جاتا تھا، ایسے ہی کتنے اندیشے سینے میں اٹھتے رہتے تھے۔ چند منٹوں کا انتظار گویا صدیوں کا سماں لئے ہوتا تھا۔۔
ایک ٹوٹی ہوئی سائیکل کے ٹوٹے ہوئے حصے، جو کبھی کسی نے اپنی کئی مہینوں کی جمع پونجی خرچ کرکے خریدی ہوئی ہوگی۔ جب وہ اس کے پیڈل پر پاؤں کا زور دیتا ہوگا تو خود کو ہوا مین اڑتا ہوا محسوس کرتا ہوگا۔اس کا ذہن تیزی سے بھاگتا ہوگا۔ وہ آسمان کو چھونا چاہتا ہوگا۔وہ ہر گلی ہر محلے ہر بستی کو ڈھونڈنا چاہتا ہوگا۔دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوتی ہونگی۔ لبوں پر کوئی گیت مچلتا ہوگا۔کسی کی یاد ستاتی ہوگی۔۔۔۔
پرانے برتن، مشروبات کی خالی بوتلیں، گھروں کے آرائشی سامان، پرانے قالین، دریاں، پرانے صوفے، الیکٹرانکس کا خراب سامان، ایسا ہی ان گنت سامان جب خریدا گیا ہوگا۔ تو ان کیلئے چاہت کے کتنے آلاؤ بھڑکے ہونگے، کتنے خواب دیکھے گئے ہوں گے۔ کتنے سپنے خیالوں میں ڈگمگائے ہونگے۔ کتنے منظر اپنی بے تاب روح کی تسکین کیلئے دیکھے ہونگے۔لیکن جب وقت گزرتاہے۔ان کی ضرورت ان کی طلب ان کی چاہت میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ جنون میں بھی وہ تڑپ باقی نہیں رہتی۔امنگوں میں بھی وہ جذباتیت موجود نہیں رہتی۔۔اور شائد اگر وہی خواب دوبارہ دیکھنے کا کہا جائے تو ان میں وہ لذت باقی نہ ہو جو پہلی بار محسوس کی تھی۔وہ دیوانگی نظر نہ آئے جو پہلی بار دکھائی دی تھی۔ایک جذبہ وہ تھا جو پہلی بار محسوس کیا تھا اور ایک جذبہ وہ ہے ، جس کا احساس آج دلایا جارہا ہے۔دونوں میں کتنا تضاد ہے ، کتنا فاصلہ ہے۔۔ 
شائد،شائد یہ حقیقت سے فرار ہےیا تسکین اپنی پیاس بجھا چکی ہوتی ہے۔ہم اپنی زندگی خوابوں کے تعاقب میں گزار دیتے ہیں۔۔جب تک یہ خواب قائم رہتے ہیں، تب تک سرشاری برقرار رہتی ہے۔جب یہ خواب حقیقتوں میں ڈھل جاتے ہیں ۔جب جذبوں کو زباں مل جاتی ہے۔ تو یہ حقیقتیں بہت جلد اپنی قدریں بھلا دیتی ہیں، اپنا وجودگنوادیتی ہیں۔ 
یا شائد ہم خودفریبی کی لذت کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ ہم خود آگہی کے سفر کی تلخیاں برداشت نہیں کرسکتے۔ زندگی میں ہم ہزاروں خواب دیکھتے ہیں۔ جو ہماری ملکیت ہوتے ہیں اور ہم ان سے دستبرداری پرتیار نہیں ہوتے۔لیکن جب یہ خواب ہم سے چھین کر حقیقتوں میں ڈھال دیے جاتے ہیں،توجذبات کی بدمست موجوں میں وہ سکون آجاتا ہے جو دریائوں کے پہاڑی علاقوں سے نکل کر میدانی علاقوں میں بہنے میں آجاتا ہے۔۔۔۔
رات بھر کے خوابوں کو جب تعبیر ملتی ہے تو وہ فرحت بخش تسکین میں ڈھل جاتے ہیں۔لیکن ان خوابوں کا ایک شعور ہوتا ہے۔وہ شعور خودآگہی کے ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔جن باتوں پر آپ آج اصرار کر رہے ہوتے ہیں کل ان کی نفی میں دلائل گھڑ رہے ہوتے ہیں۔۔جن باتوں کو آج حتمی سمجھ رہے ہوتے ہیں، کل ان کے ارتقا کے بارے میں نوید سنا رہے ہوتے ہیں۔۔آج جن نظریات کے ترجمان ہیں، ہوسکتا ہے کل وہ نظریات اپنا مفہوم کھو چکے ہوں۔ہر دور کا ایک شعور ہوتا ہے۔اس دور کے فیصلوں، رویوں، قدروں، کو اس شعور کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن ہم آج کے شعور کو لیکر ماضی کے احساسات اور اور جذبات سے لیکر آج کے سماج کی آلائشوں اور خواہشوں کو ایک ہی لڑی پر پڑونا شروع کردیتے ہیں. آج کے شعور کو حتمی سمجھتے ہوئے ماضی کے شعور کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں،انکار تو کیا اس کے وجود سے ہی انکاری ہوجاتے ہیں۔۔جو لاشعوری طور پر ایک تعصب کو جنم دیتا ہے۔وہ تعصب جو ہماری بیمارنسل کی اصل بیماری ہے۔
میم سین

Thursday, December 19, 2013

لافانی لمحے



لافانی لمحے


زندگی میں ہر شے کا مول نہیں ہوا کرتا۔کچھ چیزیں انمول ہوا کرتی ہیں۔ جیسے رشتوں کی قیمت، خلوص کا معیار، جیسے محبتوں کا ترازو ،سچائی کی پاکیزگی،جیسے وفا کی لطافت۔۔۔۔۔۔
لیکن میں یہ سب کچھ ایک ان پڑھ اور دیہاتی عورت کو کیسے سمجھاتا؟ ایک ایسی عورت جس نے اپنی آنکھ ہی خودغرض ، اناپرست ، خواہشوں اور محرومیوں کے معاشرے میں کھولی ہو۔ اسے محبت کے ان لازوال جذبوں کی داستان کیسے سمجھاتا ؟۔ کچھ چیزیں لافانی ہوتی ہیں۔جن کا حصول انسانی معراج ہوتا ہے۔کچھ جذبے ایسے ہوتے ہیں جو سچائی کے آئینہ دارہوتے ہیں۔ایسے جذبے جو جینے کی امنگ پیدا کرتے ہیں۔ایسے جذبے جن پر تہذیب فخر کرتی ہے۔ایسے جذبےجو ذہنوں کو جلا بخشتے ہیں۔ 
لیکن میں یہ سب باتیں کیسے سمجھا سکتا تھا ؟  میں نے دعاؤں کی درخواست کرتے ہوئے بوڑھی اماں سے رخصت چاہی۔ یہ اس رات کا واقعہ ہے جس کی اگلی صبح اناٹومی بی کا پیپر تھا۔ سبھی لڑکے اپنے پیپر کی تیاری میں مصروف تھے ۔صرف مصروف ہی نہیں بلکہ پیپر کی ٹینشن نے ان کے چہروں کی ساری خوشیاں ہی چھین لی تھیں۔ ساری مسکراہٹیں خزاں زدہ ہو گئی تھیں۔ ایک لڑکے نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ حشر کے امتحان کے بعد دنیا کا سب سے مشکل امتحان یہی ہے۔
 جب مسلسل پڑھائی سے آنکھوں میں تھکاوٹ کے آثار نمایاں ہونے لگے تو رات دس بجے کے لگ بھگ میں نے چائے پینے کی غرض سے کینٹین کا رخ کیا۔ ابھی ہوسٹل کے دروازے سے باہر نکلا ہوں تو  نجیف سا پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک ادھیڑعمر کے شخص نے مجھے روک کر ایک پرچی میری طرف بڑھا دی۔اور مجھے بتایا کہ میری بیٹی جناح ہسپتال میں داخل ہے اس کا فوری طور پر بڑا آپریشن ہونا ہے لیکن خون کا بندبست نہیں ہو پارہا۔ میں نے پرچی لیکر پڑھی تو اس پر بی نیگیٹو لکھا ہواتھا۔جو کہ میرا بھی گروپ تھا۔ اس کی بیچارگی اور مفلوک الحالی دیکھ کر ایک لمحے کو میرا دل پسیجا لیکن پھر پیپر کا خوف میرے اوپر حاوی ہوگیا۔ اور میں نے ٹالنے کی غرض سے دوسرے ہوسٹل کی طرف روانہ کرنے کا ارادہ کیا ۔لیکن اسی گھڑی، اخلاق اور اقدار کی موجیں فرض اور احساس کی چٹانوں کے ساتھ ٹکرائیں تو میں ایک لمحے کو آنے والے کل کی پریشانی کو بھول کر اس کے ساتھ جانے کو تیار ہوگیا۔
جب واپس آیا ہوں تو دوستوں کے دیر سے آنے کی وجہ پوچھنے پر بتایا کہ لائیبریری چلا گیا تھا۔ جھوٹ بول کر میں نے نیکی کے اس جذبے کے بھرم کو تحفظ دینے کی کوشش کی تھی جو میری امتحان میں ناکامی کی صورت میں فرض اور تکمیلِ فرض کے فلسفے کو سوالیہ نشان بنا دیتی۔اور میں ضمیر کے بوجھ تلے زندگی کے احساس اور اورہر جذبے سے خالی ہوجاتا۔
اگلی صبح میرا پیپر، توقع کے برخلاف بہت اچھا ہوا اور اسی شادمانی کے نشے میں جناح ہسپتال کے گائنی وارڈ کا رخ کیا۔ وارڈ میں لگے بیسیوں بیڈز پر رات والے مریض کے اہل خانہ کو پہچاننا بہت مشکل تھا لیکن ایک بوڑھی اماں نے آگے بڑھ کر میرا استقبال کیا اور مجھے ایک عورت کے بستر تک لے گئی، جس کے پہلو میں ایک نوزائیدہ فرشتہ آنکھیں بند کئے ساری دنیا سے بے خبر سو رہا تھا۔فرط مسرت سے میرے چہرے پر ایک بے ساختہ مسکراہٹ آگئی۔میں اس بچے کی روح سے بات کرسکتا تھا کیونکہ میں جس کیفیت سے گزر رہا تھا،وہ زبان کی محتاج نہیں تھی۔میری روح جس سرشاری سے ہمکنار ہو رہی تھی، وہ لافانی تھی۔میرا من جو ابھی تک بے یقینی کی تاریکی میں لپٹا ہوا تھا ایک دم روشنیوں مین نہا گیا۔ میں نے انسانی جذبوں کے وارث ہونے کا ثبوت دیا تھا اور روح کی بالیدگی کی طرف پہلا قدم اٹھایاتھا،جس نے قناعت اور سنجیدگی کے جذبے اور احساس سے روشناس کروایا تھا۔
میں جونہی وارڈ سے باہر نکلا ہوں ۔بوڑھی اماں عقیدت کے موتی سنبھالے، پانچ سو کا نوٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے اسے قبول کرنے پر اصرار کرنے لگیں۔ میں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ میں تو انسانی جذبوں کا امین ہوں میں ان جذبوں کا بیوپاری کیسے بن سکتا ہوں؟میں نے جاگتی آنکھوں کے ساتھ فردوسی سرور کو محسوس کیا ہے، میں اس کا سودا کیسے کر لوں؟ لیکن سادہ دل دیہاتی عورت کو ان لمحوں کے مخمور جھونکوں کی کیا خبر جو مسرتوں کے سندیسے لیکر میری زندگی میں آئے تھے۔جو میری روح کو گداز کرگئے تھے۔مجھے کیف اور وجدان سے ہمکنار کر گئے تھے۔یہ چند لمحے ہی تو تھے ۔لیکن کتنے دلفریب، کتنے لطف انگیزتھے،کتنے پاکیزہ، کتنے مخمور لمحے تھے۔ لیکن کبھی کبھی یہ چند لمحے آپ کی عطائے زندگی بن جاتے ہیں۔

میم سین

Sunday, December 15, 2013

آہوں کا دریا

ہر دن کی طرح کا یہ ایک عام سا دن ہے۔ اور میں اپنے معمول کے مطابق بستر سے نکلتا ہوں۔تیار ہوکر  کلینک کیلئے روانہ ہوتا ہوں۔ ابھی کچھ سفرطے کیا ہے کہ ایک جیپ تیزی سے مجھے اوور ٹیک کرتی ہے اور ڈرائیور کی سیٹ پر موجود شخص ہاتھ کے اشارے سے مجھے رکنے کا کہہ رہا ہے۔ میں ساری صورتحال کو نہ سمجھتے ہوئے بریک لگا کر گاڑی کو سڑک کی ایک طرف لے جاتا ہوں۔ جیپ میں سے بڑی سرعت کے ساتھ تین افراد نکلتے ہیں اور میری جانب بڑھتے ہیں ۔ میں ان سے بات کرنے کیلئے باہر نکلتا ہوں ۔ لیکن ایک شخص مجھے دھکا دے کر سڑک پر گرا لیتا ہے اور میرے ہاتھوں کو کھینچ کر کمر کے ساتھ لگا کر باندھ دیتا ہے ۔اور ایک سیاہ کپڑامیرے چہرے پرچڑھا کر مجھے اٹھا کر اپنی جیپ کے پچھلے حصے میں پھینکتے ہیں اور کسی نامعلوم جگہ پہنچا دیا جاتا ہے۔شہر میں اسے اغوا کی ایک کہانی سمجھ کراس پر مختلف تبصرے کئے جاتے ہیں۔اخبار کے کسی صفحے پر اغوا کی ایک سطری خبر بھی چھپتی ہے۔ مریض چند دن تک کلینک کا رخ کرتے ہیں اور پھر تالا لگا دیکھ کر دوسرے ہسپتالوں کا رخ کرلیتے ہیں۔ گھر میں ایک کہرام مچتا ہے اور رشتے دار بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ گمشدگی کاکوئی سراغ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن چند دن بعدزندگی معمول پر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ اور پھر ایک دن کسی نامعلوم شخص کی فون کال آتی ہے کہ ڈاکٹر ایجنسیوں کی تحویل میں ہے، فکر نہ کریں۔چند دن میں واپس آجائے گا۔ دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدل جاتے ہیں ۔ ماں باپ اپنے بیٹے کو دیکھنے کی حسرت لئے اپنی تمناؤں کا گلا گھونٹ کر اس دنیا سے کوچ کرجاتے ہیں۔ بیوی خاوند کی زندگی میں ہی بیوگی کو سینے سے لگا لیتی ہے اورزندگی بھر کیلئے آنسوؤں کا کفن پہن لیتی ہے۔ بچے باپ کے دنیا میں ہوتے ہوئے بھی یتیمی کو گلے لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔محرومیوں کا احساس لئے، یہ پھول زندگی بھر کیلئے بکھر جاتے ہیں۔اگر قسمت نے ساتھ دیا تو یہ بچے کسی لاغر ٹی بی زدہ شخص کو آخری سانسیں لیتے ہوئے دیکھ لیں گے۔ورنہ ان کی ساری عمر کسی معجزے کے انتظار میں ،تہذیب کے دامن پر سچائی اورانصاف کے چھینٹے ڈھونڈنے میں گزر جائے گی ۔
میم۔سین

Saturday, November 30, 2013

تکمیل کی جستجو

تم بھی جاناں عجیب باتیں کرتی ہو۔بھلا تکمیل کیا ہے اور رشتوں کا آپس  میں کیا تعلق ہے؟ دو متضاد لہجوں کی دو متضاد باتیں ۔کمال کی باتیں کرتی ہو۔۔۔۔تم بھی نا۔۔ بھلا انسان بھی مکمل ہوسکتا ہے ؟ وہ تو موت ہے جو اسے ختم کر سکتی ہے اور وہی اس کی تکمیل ہے۔

تم ابھی معصوم ہو۔ انجان ہو۔ تم وہ دیکھ کر سوچتے ہو جو تمہیں نظر آتا ہے۔ لیکن  انسان کا ایک چہرہ وہ ہے جو تم  دیکھتے ہو اور دوسرا وہ روحانی جسم ہے جسے ہم محسوس کرتے ہیں۔ عورت کا ظاہر مکمل ہے لیکن اس کی روح ادھوری ہے وہ تلاش میں ہے ،وہ تکمیل کیلئے سرگرداں ہے ۔اس کے اس ادھورے پن کو آپ جبلی بھی کہہ سکتے ہیں اور سماجی بھی۔ہمارا سماج عورت کی پیدائش پر اس کے اندر ایک زخم لگا دیتا ہے اور وہ زخم کسی ناسور کی شکل میں اس کی روح کو بے چین رکھتا ہے۔۔۔۔ کچھ ادھوراپن فطری ہے،جو نسل در نسل اور پشت در پشت چلا آرہا ہے۔اس کی ہنسی کے پیچھے ایک کرب ہوتا ہے ۔وہ کرب،جس کو مرد کبھی محسوس نہیں کرسکتا۔لیکن اس کی تکمیل کا رستہ مرد کے اندر سے ہوکر جاتا ہے۔اس لئے اپنی روحانی اور نفسانی الجھنوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے وہ مرد کی طرف دیکھتی ہے۔عورت ایک بے جان بت کی مانند ہوتی ہے۔ وہ مرد کے ذریئے اس میں جذبات بیدار کرتی ہے۔ اسے احساسات سے بھر دیتی ہے

جاناں تم بھی کمال کرتی ہو!!   تم کہتی ہو کہ عورت کا رشتہ مرد کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے وہ مرد کے ذریئے اپنی تکمیل چاہتی ہے ۔ اس کی تکمیل ہوجاتی ہے تواس کی ہراساں روح کو اطمینان نصیب ہوجاتا ہے۔لیکن جاناں! جب وہ مکمل ہوگئی تو۔ بھلا  وہ مرد کا ساتھ کیوں چاہے گی ؟جب تکمیل ہوگئی تو مرد کا سہارا کیسا ؟

عورت کی گاڑی کا انجن مرد ہوتا ہے۔ وہ جب تک سانس لیتی رہتی ہے اس کوہواکی ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ جب دھوپ کی تپش سے پریشان  ہو جاتی ہے تو اس کو سایے کی ضرورت ہوتی ہی ۔جب تھک کر نڈھال ہوجاتی ہے توایک بچھونے کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ چاہتی ہے کہ مرد اس سے باتیں کرے۔ باتیں نہیں کرسکتا ہے تو اس کی بات توجہ سے سنے۔وہ تو اپنی محرومیوں کا ذکر بھی اسی سے کرنا چاہتی ہے۔وہ اپنی حساسیت اورکمزوریوں کا مداوہ بھی اسی سے چاہتی ہے۔ ۔ وہ تو اپنے پل پل کے لئے اس کی محتاج ہوتی ہے۔۔ ۔وہ موزوں الفاظ کی تلاش میں رہتی ہے جن کا حصول مرد کے قرب کا سبب بنتا ہے ۔ وہ ہمیشہ  انجانے فیصلوں کے خوف میں گرفتار رہتی ہے جو کسی بھی وقت اس کی جنت کو کسی آزمائش میں مبتلاکر سکتے ہیں

۔ تم بھی  جاناں اپنے فلسفہ کے تحفظ کیلئے کیسی کیسی تاویلیں ڈھونڈتی ہو۔تم بھی نا !!!۔ اگر عورت کی تکمیل ہوسکتی ہے تو مرد کب مکمل ہوتا ہے؟۔ کیا مرد اندھا ہے؟یا بہرہ ہے؟ جو یہ سب نہیں جانتا کی عورت اس کو اتنا چاہتی ہے۔ کیا وہ ہمیشہ یہی نہیں سمجھتا کہ عورت احمدشاہ ابدالی کی طرح اس کی ذات میں آتی ہے اور اینٹ سے اینٹ بجا کر خود کو فاتح منواتی ہے۔ وہ اپنی شخصی محرومیوں کو کو کبھی تسلیم نہیں کرتی ہے ۔ وہ تو حقیقتوں کی ان گہرائیوں سے بھی واقف نہیں ہوتی جو مرد کی روح کو دکھی کرتی ہیں۔وہ ہمیشہ اپنے شک  کے رویے سے  احساس کمتری کا بیج بوتی ہے۔ وہ  مرد کو سہارا تو سمجھتی ہے لیکن کبھی اس کے اندر جھانک کر نہیں دیکھتی ہے۔ وہ مرد کو مکمل نہیں دیکھنا چاہتی ۔ مرد مکمل ہوگیا تو مرد کے پاس اس کیلئے جگہ کہاں ؟ وہ تو اپنے قطعی لہجے کے ساتھ مرد کے گرد ایک حصار بنا کر رکھتی ہے۔عورت جب مرد کو پا لیتی ہے تو وہ ا ساری کھڑکیاں بند کر دیتی ہے ۔ یہاں تک کہ مرد تک آنے والے رستوں اور دروازوں کو بھی۔ وہ تو یہ بھی بھول جاتی ہے کہ  گھرکو اگر آگ لگ گئی تو اس کو بجھایا کیسے جائے گا۔
 عورت مکمل ہو بھی جائے تو  تنہا پرواز کرنے کے قابل نہیں ہوتی ۔وہ تو محبت کرکے بھی مرد کو مظلوم نہیں سمجھتی۔ وہ کبھی مرد کو کمزور نہیں دیکھنا چاہتی۔وہ مرد کو کمزور کرکے اپنی سرشاری کو داؤ پر نہیں لگاسکتی ہے۔اس کی تمنائیں اور خواہشیں اس کیلئے ایک امید کا درجہ رکھتی ہیں اور وہ انہیں اپنا فرض سمجھتے ہوئےان سے وابستہ شخص کو کمزور نہیں کرسکتی۔وہ تو مرد کے سکوت سے بھی ھراساں ہوجاتی ہے۔کہیں کوئی خاموشی کسی طوفان میں نہ ڈھل جائے۔
یہ بھی خوب کہی تم نے جاناں۔ایک پھونک مار کر محبت جگاتی بھی ہو ۔اپنےسحر میں جکڑ بھی لیتی ہو اور پھر خود ہی اس سحر کو توڑ بھی دیتی ہو۔عورت اپنی تکمیل کی خاطر مرد کی اخلاقی اقدار اور عزت نفس کو داؤ پر لگا دیتی ہے۔اس کی آزادی اور اپنی وارفتگی کا دعوی بھی کرتی ہے لیکن اپنے کردار اور اپنےرویوں سے ان اصولوں کی نفی بھی کرتی ہے

 بچہ  یہ نہیں جانتا  کہ وہ عدم سے سے کیسے وجود میں آیا تھا۔لیکن جس لمحے وہ اپنی پہلی سانس لیتا ہے۔ عورت ایک ہی جست میں فرش سے عرش پر پہنچ جاتی ہے۔وہ فرشتوں سے ہمکلام ہوجاتی ہے۔اس کی روح جس بالیدگی کومحسوس کرتی ہے وہ لافانی ہوتی ہے۔وہ جن  جذبوں کا سامنا کرتی ہے،وہ اسے  وجود کا جواز بخشتے ہیں۔وہ زندگی کی رمزوں سے آشنائی کا دعوی کر سکتی ہے۔وہ خود کو قوی اور توانا محسوس کرتی ہے۔ عدم سے وجود کا یہ سفر عورت کی تکمیل کا سفر ہے۔لیکن عورت کی یہ تکمیل مرد کی راہ میں حائل ہوجاتی ہے وہ مرد کی زندگی میں کنول کھلا کر اس کی آبیاری کرنا بھول جاتی ہے۔ اور وہ ہمیشہ بہار کی آمد کے انتظار میں اپنی تمناؤں کا ہجوم خاک میں ملاتا رہتا ہے۔وہ زندگی بھر اخلاق، اقدار اور زندگی کی آدرشوں کے ساتھ محاذ آرا رہتا ہے۔ ہمیشہ متانت اور اطمینان کی اس لہر کے لمس سے محروم رہتا ہے جس میں محرومی یا مصلحت کے احساس کی نمی موجود نہ ہو۔
میم سین

Monday, November 25, 2013

حیرت

سکتے والی بات تو تھی ! میں کیا کہتا ؟ کیا جواب دیتا ؟۔ اپنا کیا ردعمل ظاہر کرتا؟ ۔ مجھے تو کچھ سجھائی ہی نہ دیا۔سب کچھ اتنا غیر متوقع اور اچانک تھا کہ میں ساری صورتحال کو سمجھ ہی نہیں پایا
تیز بخار ، کانپتے جسم اوراکھڑے ہوئے سانس کے ساتھ صفیہ بیگم جب پہلی بار میرے پاس آئی تھی۔تو شائد مارچ کا مہینہ تھا۔ جب میں نے چیک اپ کرنے کے بعد اسے دوائی لکھ کر دی تو اس کے آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگی کہ بیوہ عورت ہوں ۔ گھر میں کمانے والا کوئی نہیں ۔دوا کے پیسے نہیں ہیں ۔ کچھ خدا ترسی کر دیں۔ میں نے پرچی پکڑی اور اس پر پر فری لکھ کراسے تھما دی کہ فکر نہ کریں ۔ دوائی مفت مل جائے گی۔ اور وہ ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوگئی۔رمضان کے مہینے میں ایک بار پھر بخار کے ساتھ آئی اور اپنی دوائی لینے کے بعد کہنے لگی۔رمضان کا مہینہ ہے۔اپنی زکواۃ نکالتے وقت مجھے بھی یاد رکھیئے گا۔ اس وقت جو کچھ ہوسکتا تھا میں نے اس کی مدد کر دی۔ اور وہ ایک بار پھردعائیں دیتی رخصت ہوگئی۔ یہ کل دوپہر کی بات ہے۔ جب وہ میرے پاس آئی۔ لیکن اس بار وہ اکیلی نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ چہرہ کو چادر سے چھپائے اٹھارہ انیس سال کی جوان لڑکی بھی تھی۔ کرسی پر بیٹھتے ہی صفیہ بیگم نے اسے نقاب ہٹانے اور مجھے سلام کرنے کا کہا تو اس نے ہچکچاتے ہوئے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور ایک جھجک اور حیا سے سلام کیا ۔میں اب بھی اس انتظار میں تھا کہ وہ لڑکی کی تکلیف یا بیماری کے بارے میں کچھ بتائے تو میں اپنی رائے دوں۔ لیکن صفیہ بیگم نے بیماری کی تفصیل میں جانے کی بجائے بتانا شروع کیاکہ یہ میری بڑی بیٹی روبینہ ہے۔ پانچویں پاس ہے۔ اور قران پاک بھی پورا پڑھا ہوا ہے۔ اور ماشاللہ اس برس اٹھارہ سال کی ہوگئی ہے، اتنی سگھڑ ہے کہ سارے گھر کو اسی نے سنبھالا ہوا ہے۔
جی اچھا میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی  سر اثبات میں ہلایا اور پوچھا تو پھر؟ میرے  پوچھنے پر اس نے لڑکی کو کمرے سےباہر جانے کو کہا اور کرسی کھینچ کر میرے قریب کر لی اور بولی ڈاکٹر صاحب آپ کے پاس ہزروں لوگ آتے ہیں ۔ کوئی مناسب خاندان دیکھ کر اس کیلئے کوئی اچھا سا رشتہ ہی ڈھونڈ دیں۔
میم سین
نومبر 26،2013

Sunday, November 24, 2013

محبت کا احساس

 محبت کا احساس۔۔۔۔۔۔۔ تصور الجھے رہتے ہیں احترام کا گوشہ ہے دل میں موقع بے موقع تائید کیسی؟ رہتی ہے یہ کشمکش کیسی بے ترتیب ہیں دل کی دھڑکنیں الجھ کے رہ جاتی ہیں نظریں خائف ہیں دنیا سے کچھ ججھک بھی باقی ہے خلش ہےاور کچھ کسک ہے کچھ مچلتے ارمان ہیں زندگی پرخیال کتنی ہے مخمور نگاہ کتنی ہے تصور کی دنیا سہانی ہے مسرت کی کہانی ہے عزم ، ایک ارادہ ہے اشاروں کی زبانی ہے خوف بھی ہے دل میں امنگوں کی ہے ایک کڑی دلفریب ہے ہر گھڑی جستجو اور بیقراری ہے کتنا معصوم پر سکوں کیف طاری ہے ہاں محبت کا احساس جاری ہے !!!! میم۔سین

Wednesday, November 20, 2013

مشورہ


دوسری شادی کے خواہش مند افراد کی طرف سے میری چند دن پہلے کی تحریر پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے اور فرمائش کی ہے کہ تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کیا جائے۔

حالانکہ میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ جو لوگ پہلی شادی کرکے پچھتاتے ہیں ،وہ دوسری شادی کے بعد بھی پچھتاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی لوگ دوسروں کے پچھتاووں سے کچھ سیکھنے پرآمادہ دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ پہلی شادی ہمیشہ غلطی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جلدبازی یا تجربے کی کمی کی وجہ سے۔ لیکن دوسری شادی کے پیچھے عموما دنیا سے بیزاری ہوتی ہے لیکن خودکشی کا حوصلہ نہیں ہوتا۔
بحرحال بقول ایک شادی شدہ بزرگ کے، جو اقبال سے ہم کلامی چاہے، ارسطو اور افلاطون کے خیالات کی برابری چاہے، کنفیوسش سے گفتگو چاہے، اسے دوسری تو کیا تیسری شادی کے بھی خواب دیکھنے چاہیئں۔ اقبال کے کچھ بہی خواہوں کے نذدیک اقبال کی ذہنی اور فکری بلندی کا آغاز ہی تیسری شادی کے بعد ہواتھا۔
اس لئے تصویر کے دوسرے رخ کے بارے میں توشائد میں کچھ نہیں جانتا ۔ لیکن ایک صاحب کو جانتا ہوں جنہوں نے حال ہی میں دوسری شادی کی ہے۔ ایک آسودہ گھرانے سے تعلق ہے۔ اپنی کسی کلاس فیلو کے ساتھ شادی کے خواہش مند تھے لیکن والد صاحب کی مرضی کے سامنے اپنے ایک دوست کی بیٹی کے حق میں دستبردارہونا پڑا۔ اور شادی کے ایک آدھ سال بعد ہی گھر میں توتو اور میں میں کی گردان کا آغاز ہوگیا۔
لیکن جب بچوں کی پیدائش کے بعد بیوی کے قدم گھر میں مضبوط ہو گئے تو بات بیلن کے استعمال تک پہنچنے لگی اور یوں یہ صاحب مایوسی کے عالم میں گھر سے دور دور رہنے لگے۔
شادی اور اس جھک جھک کو کوئی دس سال گزر گئے تھے کہ اچانک ان صاحب کی مزاج میں حیرت انگیز تبدیلی رونما ہوئی اور اس مرد درویش نے گھر میں بیوی کی حکومت تسلیم کرتے ہوئے بیوی کی تعریف میں قلابے ملانا شروع کردیئے، بات بہ بات بیوی کیلئے تعریفی کلمات۔ کبھی کھانے پر انگلیاں چاٹ رہے ہیں تو کبھی ان کے لباس کے بارے میں قصیدے تراشے جارہے ہیں۔ اور کبھی بیوی کے سگھڑاپے کی شان بیان کی جارہی ہے تو کبھی بچوں کی تربیت کے حوالے سے مثالی ماں کا درجہ دیا جارہا ہے۔ 
بیوی بیچاری پہلے تو انگشت بدنداں سخت پریشان ہوئی لیکن جلد ہی خاوند کی چکنی چوپڑی باتوں کے دامن میں آگئی اور خاوند کا کمال بھولپن سے خیال رکھنا شروع کردیا۔
لگ بھگ دو ماہ بعد جب بیوی کے سارے شکوک وشہبات تحلیل ہوچکے تھے، ایک روز وہ صاحب گھر تشریف لائے تو کافی خوش دکھائی دے رہے تھے اور بہترین لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ آتے ہی بیوی کو آگاہ کیا میں نے صفیہ خاتون کے ساتھ ان کے گھر والوں کی رضامندی سے عقد ثانی کرلیا ہے
میم سین

نصیحت


چوہدری رمضان پٹواری کا ایک عرصے سے میرے پاس آنا جاناہے ۔کوئی پنتالیس پچاس سال کے پیٹے میں ہیں اور کئی سالوں سے شوگر اور بلڈ پریشر کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ لیکن کبھی اپنی صحت پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ کچھ تو نوکری کی نوعیت ایسی ہے کہ پرہیز کرنا خاصا مشکل ہے۔اور کچھ اپنے بارے میں خود بھی لاپرواہ ہیں۔  دوائی پابندی سے استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی پرہیز کے معاملے میں سنجیدہ ہیں۔زمیندار گھرانے سے تعلق ہے۔ اور اچھی خاصی خاندانی جائیداد  ہے اور پٹواری کو تو ویسے بھی روزانہ تنخواہ ملتی ہے، اس لئے صاحب حیثیت لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن ان کے خاندان میں پریشانی کا سبب ان کے ہاں نرینہ اولاد کا نہ ہونا ہے۔ آخر اتنی بڑی جائیداد کو کون سنبھالے گا؟ کوئی لگ بھگ ڈیڑھ سال پہلےایک دن شام کو میرے پاس تشریف لائے تو خاصے پرجوش تھے۔ کہنے لگے یار میری شوگر کو فوراً قابو کرو اور ایسی دوائی دو کہ میں ایک نوجوان بن جاؤں ۔ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ خیریت تو ہے یہ آج اچانک صحت کی فکر کہاں سے امڈ آئی ہے؟ کہنے لگے کہ آپ کو تو پتا ہے اللہ نے مجھے بیٹے کی نعمت سے محروم رکھا ہوا ہے۔ اور اب میرے خاندان والوں نے میری دوسری شادی کا پروگرام بنایا ہے۔ رشتہ بھی طے ہوگیا ہے اور اور اگلے مہینے رخصتی بھی طے پا گئی ہے۔ بس مجھے ایک بار جوان کر دو۔ میں نے ضروری پرہیز اور دوایاں تجویز کیں اور سختی سےشوگر کنٹرول کرنے کو کہا۔ پٹواری صاحب دو ماہ بعد دوبارہ نظر آئے تو خوشی اور مسرت ان کے لہجے اور چہرے کے تاثرات سے نمایاں تھی۔ کہنے لگے ڈاکٹر کیا بتاؤں ، اللہ نے تو مجھے دنیا میں ہی حورعطا کر دی ہے۔ اس نے مجھے وہ خوشیاں دے ڈالی ہیں کہ  جن کا میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔جتنی دیر میرے پاس بیٹھے رہے،اپنی حور پری کے گن گاتے رہے۔ اس کے بعد پٹواری صاحب تو نظر نہیں آئے ۔لیکن کسی دوست کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ اللہ نے ان کو بیٹا عطا کیا ہے۔ کوئی ڈیڑھ سال بعد پرسوں کلینک آئے تو خاصے کمزور  دکھائی دیئے۔ میں نے ان کی صحت کو دیکھتے ہوئے پوچھا کہ لگتا ہے شوگر کو پھر سے نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن انہوں نے مختصر سا جواب دیا بس کچھ ایسا ہی ہے۔ اور روٹین کی باتیں کیں۔کچھ ادھر ادھر کے قصے سنائے ، جن میں مایوسی کا عنصر خاصا غالب تھا۔ اٹھ کر جانے لگے تو کہنے لگے، ڈاکٹر ایک نصیحت کروں گا، پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کبھی نہ کرنا ۔زندگی جہنم بن جاتی ہے
میم سین
نومبر 20، 2013

Thursday, November 14, 2013

ادھورے خواب


ہم ادھورے معاشرے کے ادھورے لوگ ہیں۔ جن کی خواہشیں بھی ادھوری اور خواب بھی ادھورے ہیں۔ ہم برائی کے خلاف لڑنا بھی چاہتے ہین تو ادھورے منصوبوں کے ساتھ، نیکی بھی کمانا چاہتے ہیں لیکن ادھورے جذبوں کے ساتھ۔ ہم کب مکمل ہوں گے؟ ہم کب احساس کے سمندر سے پانی کی بوندیں کو اپنے جسموں پر بہانے کے قابل ہونگے، شائد ایک یہی سوال ہے جس کا جواب ابھی تک تشنہ لب ہے۔ بات جہیز  لینے کی نہیں ہے بلکہ معاشرے کے  اس تضاد کی ہے جس میں ہم سانسیں لے رہے ہیں۔ بات جہیز دینے کی نہیں ہے بلکہ ان سماجی رسوم کی ہے جس کے ساتھ ہم جکڑے ہوئے ہیں۔جہیز کی لعنت معاشرے کی تکمیل کے بغیر ختم نہیں ہوسکتی۔ اور معاشرہ نام ہے انصاف، عزت نفس اور شرافت کے ساتھ رہنے کا۔معاشرے کی تکمیل اس وقت تک  نہیں ہوسکتی جب تک اس کی تہذیبی اکائی کی بنیاد انسانیت پر نہ ہو۔ تہذیب خوبصورت ہوگی جب ہم زندگی کے ہر پہلو کو خؤبصورت بنائیں گےلیکن جس تہذیب کی بنیاد میں جھوٹ اور فریب کی چھینٹے ہوں ، جس ثقافت پر ناانصافی اور نظریاتی الجھنوں کے بادل ہوں، وہاں تہذیبی قدروں کی بات کرنا ہی بے معنی ہے ، تکمیل انسانی کا درس  لاحاصل ہے۔  جہیز کو لعنت قرار دینے سے پہلے ، جہیز پر تنقید کرنے سے پہلے معاشرے کے ان پہلوؤں کو سمجھنا ضروری ہے جس نے ہمارے گرد کسی آسیب کی طرح ایک ھیولہ بنا رکھا جس میں ہمارا اجتماعی اور انفرادی کردار کسی دھندلکے کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسی ان دیکھی رویات ہیں جن سے دامن چھڑانا ہمارے بس میں نہیں رہتا۔ ایسے ہی بے شمار رشتے ہیں جو ہمیں مجبور کر دیتے ہیں۔ جہیز کے خلاف نعرہ بلند کر دینے سے پہلے ہم ایک حقیقت نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ہم نہ تو ایک فلاحی معاشرے مین رہ رہے ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس اسلامی حمیت اتنی ہےکہ ہم اس کی خاطر ان رسم ورواج کے خلاف  علم بلند کر سکیں۔ اور جب معاشرتی حقائق کا ادراک کئے بغیر ہم تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں تو پھر جو نتائج حاصل ہوتے ہیں وہ بہت بھیانک اور درد سے بھرپور ہوتے ہیں۔ایک ایسا انجام جو عورت کو اس کی اپنی ہی نظر میں حقیر بنا دیتا ہے ۔جو اس کی زندگی کو ہر جذبے اور احساس سے خالی کر دیتا ہے۔اور ایک انتقام کی جلن کسک بن کر اس کے وجود میں پروان چڑھتی رہتی ہے۔عورت کی سب سے بڑی دشمن عورت ہے اور عورت ہی اس بیماری کا کوئی حل ڈھونڈنے میں رکاوٹ ہے۔ بات صرف لڑکے کی جانب سے قدم اٹھانے کی نہیں ہے، بات صرف جہیز لینے سے انکار کا حوصلہ پیدا کرنے کی نہیں ہے۔ بات تو اسی معاشرے میں ان دلیرانہ اقدام کے بعد رہنے کی ہے۔رائج قوانین سے رو گردانی سے معاشرتی قوانین کی رگ حمایئت کے بھڑک اٹھنے پر ان کا سامنا کرنے کی ہے ۔ بڑے بھائی کی بیوی جب جہیز کا ٹرک گھر لیکرآتی ہے اور چھوٹا بھائی جہیز کو لعنت قرار دے کر لینے سے انکار کرتا ہے تو کیا بھابھیاں  جینے دیں گی؟؟؟ کیا ساس کے طعنے اس کی فطرت سے نکل سکیں گے؟ جہیز کا المیہ عورت کا ہے اور عورت کا ہی پیدا کیا ہوا ہے۔ اور اس کا حل مرد کیسے ڈھونڈ سکتا ہے؟؟ مسئلے کا حل صرف جہیز سے انکار نہیں ہے بلکہ اپنی خاندانی روایات کے خلاف بغاوت بھی ہے۔ عورت کو ایک الگ گھر لیکر دینے کیلئے بھی مہم سازی کی ضرورت ہوگی۔جہیز سے انکار سے پہلے لڑکے کو اپنی مالی حیثیت کو بھی اتنا مضبوط کرنا ہو گا جس میں وہ لڑکی کو خاندانی مایوسی اور طعنوں سے تحفظ بھی دے سکے۔اسے اپنی وارفتگی سے آگاہ کرنا ہوگا۔معاشرے کی طرف سے دلائے گئے احساس محرومی کے ازالے کیلئے اس کی دکھی روح کو سہارا بھی دینا ہوگا۔لیکن کیا ہم میں اتنا حوصلہ ہے کہ ہم ہوا کی مخالف سمت سفر کر سکیں؟سماج کے بنائے ہوئے اصولوں کو چیلنج کر کے ان کا دفاع کر سکیں؟ آندھیاں آئیں یا طوفان ان کے سامنے چٹان کی طرح ڈٹ جانے کا حوصلہ ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جہیز کے شکنجہ کی ایک بڑی وجہ مشترکہ خاندانی نظام ہے۔ کیا مشترکہ خاندانی نظام کے خلاف لڑنے کا بھی کوئی عزم ہے ؟مشترکہ خاندانی نظام کی خواہشوں، تمنائوں، اور امیدوں کا گلا گھونٹنے کی بھی سکت  ہے؟؟ ۔ عورت نے اسی معاشرے میں رہنا ہےاسی دوغلے اور منافق معاشرے کی موشگافیوں کے ہمراہ جینا ہے ۔ مرد مضبوط ہو بھی جائے تو کیا ہوا؟ عورت نے تو معاشرے کے بے آبرو اور بے پردہ درد کو سہنا ہے۔ ماں باپ سے لیکر سسرال کے طعنوں کو جھیلنا ہے، بھابھیوں ، دیور ، جیٹھ، کے ساتھ معرکہ آرائی میں نبرد آزما ہونا ہے۔ لڑکے کے تایا ، چچا، پھوپھیاں بھی  میدان میں ہونگی ۔ دور کے رشتوں کا تو ابھی ذکر ہی نہیں ہے۔ اور لڑکی کے والدین نے بھی خاندان والوں کو جواب دینا ہے۔۔کیا سماج کی سیاہ چادر میں دفن ہونے سے وہ خود کو روک پائی گی؟  ہمیں صرف جہیز کے خلاف ہی نہیں بلکہ صدیوں سے قائم رویات کو بھی توڑنا پڑے گا۔ ۔لیکن کیا لڑکے کے یہ سارے انقلابی اقدام ان سارے لوگوں کی زبان بند کر سکے گا جن کے سوالیہ لہجوں میں طنز کا زہر زیادہ غالب اور آگہی کی طلب کم ہوتی ہے لڑکی کے گر دکسی پر آشوب اژدھے کی طرح پھن پھیلائے ساری عمر تعاقب کرتے ہیں۔
میم سین
نومبر 14، 2013

Thursday, November 7, 2013

بلا عنوان

ایک مشہور مصنف نے کہیں لکھا تھا کہ "اپنا پہلا افسانہ لیکر ایک ادبی مجلے کے ایڈیٹرسے ملنے گیا تو ، افسانہ پڑھنے کے بعد ایڈیٹر نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے چھاپنے کا عندیہ دیا ۔ میں نے جب معاوضے کی بات کی تو اس نے جواب دیا کہ یہ تو قارئین کی پسند اور تنقید پر منحصر ہے۔اور میں نے واپس آکر اپنے دوستوں کو اس کام پر لگا دیا کہ وہ افسانہ کے بارے میں تعریفی کلمات اور مراسلے ایڈیٹر کے نام بھیجیں۔اور جب ایڈیٹر صاحب سے دوبارہ ملاقات کیلئے گیا تو مجھ سے مخاطب ہو کر اپنی حیرت سے آگاہ کیا کہ ہمارا رسالہ اتنا بکتا نہیں ، جتنا پڑھا جاتا ہے اور مجھے باقاعدگی سے لکھنے کی درخواست کی تو مجھے ان کی بات سمجھ میں آگئی کہ میری ترکیب کامیاب ہوگئی ہے
کچھ ایسی ہی کہانی  ہمارے ایک عالم دین کے ساتھ جوڑی جاتی ہے۔جن کو ایک اہم شخصیت کی مداخلت پر پی ٹی وی پرایک دینی پروگرام پیش کرنےکی ذمہ داری سونپی گئی۔لیکن جس دن پہلی قسط نے نشر ہونا تھا ، کچھ ناگزیر وجوھات کی بنا پر نشر نہ ہوسکی۔لیکن اگلے چند دنوں میں بوریاں بھر کر تعریفی خطوط پروڈیوسر کو پیش کئے گئے تو پروڈیوسر کا ایک بار ماتھا ضرور ٹھنکا۔
کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے ہمسائیہ ملک میں ٹی وی پر ہونے والے گائیکی اور دوسرے مقابلوں کی ہے جس میں جب سامعین کے ووٹ کو کلیدی جگہ دی گئی تو پھر موبائل کی سموں کی فروخت میں اضافہ ہوگیا تھا۔بلکہ جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں کیلئے لوگ مہیا کرنے والوں کی طرح مقابلوں میں ووٹ مہیا کرنے کیلئے بھی ادارے وجود میں آگئے جو پیسے لیکر مطلوبہ ووٹ فراہم کرتے تھے
مجھے یہ سب باتیں اسلئے یاد آگئیں کہ چند دن پہلے ایک دوست کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا ۔ اسے کچھ کام تھا مجھے ڈرائینگ روم میں بٹھا کر خود کہیں چلا گیا ۔جہاں اس کا چھوٹا بھائی  لیپ ٹاپ پر مصروف تھا۔میں نے غور سے دیکھا تو چا رمختلف براؤذر کھلے ہوئے تھے۔ مجھے حیرت ہوئی اور ان براؤذر کا مقصد پوچھا تو اس نے جواب دیا ۔ اس لئے کہ ایک براؤذر میں فیس بک کا  صرف ایک ہی اکاؤنٹ کھل سکتا ہے۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا تو اس کامطلب ہے کہ فیک اکاؤنٹ آپریٹ ہورہے ہیں ؟ ہم سے تو ایک اپنا اکاؤنٹ ہی سنبھالا نہیں جاتا اور  تم چار چار اکاؤنٹس کا انتظام کیسے سنبھالتے ہو؟ اس پر وہ مسکرادیا اورایک فائل کھول کر دکھائی جس میں کوئی پندرہ بیس کے قریب آئی ڈیز لکھی ہوئی تھیں اور ان کے سامنے ان کے پاسورڈ درج تھے۔ ابھی اسی ذہنی کشمکش مبتلا تھا کہ اس کے پیچھے کون سا راز پنہا ہے، اس نے خود ہی وضاحت کر دی کہ وہ ایک سیاسی تنظیم کے یوتھ ونگ کیلئے کام کرتا ہے ۔الیکشن سے پہلے ساری آڈیز استعمال میں تھیں لیکن آجکل صرف چار تک محدود ہے ۔
"سیف" انداز جہاں کا رنگ بدل جاتا ہے 
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نئی ہے
میم سین

Wednesday, November 6, 2013

بلا عنوان

ایک میاں بیوی بچے کو اٹھائے میرے کمرے میں داخل ہوئے اور پوچھا ڈاکٹر مبشر آپ ہی ہیں ؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا ۔ تو مرد نے سلام لینے کیلئے ہاتھ آگے بڑھا دیا ۔ اور بتایا کہ میں ہڑپہ سے آیا ہوں اور مہر بہادر علی کے منشی نے بھیجا ہے ۔اس سے پہلے پوچھتا کہ وہ کون ہیں؟ اس نے خود ہی جواب دے دیاکہ اس کے بیٹے کی بیماری کو آپ سے آرام آیا تھا۔انہوں نےبہت سے ڈاکٹروں سے اپنے بچے کا علاج کروایا تھالیکن کہیں سے بھی شفا نصیب نہیں ہوئی تھی لیکن آپ سے صرف ایک بار چیک اپ کروایا تو وہ ٹھیک ہوگیا تھا۔ بڑی تعریف سنی ہے آپ کی!! اس سے پہلے کہ وہ اپنے قصیدے کا رنگ کچھ اور بڑھاتا، میں نے مداخلت کی کہ کیسے آنا ہوا ہے ؟ تو اس نے بتایا کہ وہ اپنے بچے کو چیک کروانے آئے ہیں۔ میں نے اپنائیت کے ساتھ بیٹھنے کو کہا اور پوچھا کہ بچے کو کیا تکلیف ہے؟تو کہنے لگا کہ آپ کی بہت تعریف سنی ہے خود ڈھونڈ کر بتائیں کہ بچے کو کیا مسئلہ ہے؟ ۔سمجھانے کی کچھ کوشش کی کہ بیماری کی نوعیت کے بارے میں کچھ تو بتا دیں لیکن وہ مصر رہے کہ آپ خود پتا لگائیں۔پھر اپنے تجربے کی بنیاد پر پوچھنا شروع کیا کہ کوئی نہ کوئی سرا ہاتھ آہی جائے گا
 بخار تو نہیں ہو رہا؟
نہیں
کھانسی؟
نہیں
دستوں کی شکائیت؟
نہیں ہے
الٹیاں تو نہیں کرتا؟
نہیں
مٹی تو نہیں کھاتا 
نہیں
دودھ کون سا پیتا ہے؟
 بھینس کا پیتا ہے 
اب مجھے تشویش ہونے لگی کہ بظاہر کوئی بیماری بھی نہیں ہے اور صحت بھی اچھی ہے تو پھر کیا مسئلہ ہوسکتا ہے؟ اور میرے سوالوں کے جواب میں زیادہ لب کشائی کے وہ قائل نہیں تھے۔ بلکہ میرے سوال ان کوناگوار گزر رہے تھے۔
کوئی خارش یا الرجی کی شکائیت تو نہیں ہے؟ 
نہیں
بھوک ٹھیک لگتی ہے؟
جی اسکا تو سارا دن منہ بند ہی نہیں ہوتا 
رات کو سکون سے سوتا ہے؟
جی ہاں ساری رات میں صرف ایک بار اٹھ کر فیڈر پی لیتا ہے۔
اب میں اپنی ناکامی اوراپنے  اوپر اعتماد اور یقین کے درمیان ملزم بنا بیٹھا تھا ۔ اور اس یقین کے بھرم کو قائم رکھنے کی خاطر بتایا کہ آپ کا بچہ بالکل ٹھیک ہے پھر بھی یہ ایک ٹانک لکھ رھا ہوں، کچھ عرصہ استعمال کروائیں ۔
مرد نے پرچی میرے ہاتھ سے پکڑی اور کچھ کہے بغیر بیوی اور بچے کے ہمراہ باہر نکل گیا۔ کچھ دیر بعد وہ مرد میرے ڈسپنسر کے ساتھ دوبارہ اندر آیا۔ اور کہنے لگا فیس کس بات کی؟ ساری باتیں تو ہم سے پوچھیں اور اصل بیماری پھر بھی ڈھونڈ نہیں سکے۔ ہم لوگ تو اس لئےآئے تھے کہ اس کی پھوپھی نے شک کا اظہار کیا تھا کہ بچے کو تندوا ہے،جس کی وجہ سے  یہ زیادہ باتیں نہیں کرتا، اورآپ صحیح تشخیص نہیں کر سکے۔ میں نے ایک سرد آہ بھری اور ڈسپنسر کو کہا انہیں جانے دو۔ مرد نے میرا لکھا ہوا نسخہ میری میز پر پھینکا اور کمرے سے نکل گیا۔ اور میں دیر تک بیٹھا سوچتا رہا کہ میری غلطی کہاں پر تھی؟؟ کیا میں واقعی تشخیص کرنے میں ناکام ہوگیا تھا یا پھر اس کا ذمہ دار شعبہ طب کا وہ نظام ہے جو ڈاکٹرز کو نبض کے علوم  سکھانے میں ناکام ہے؟ نبض بھی مریض کی نہیں اس کے باپ کی
میم سین

تندوا= tongue tie

Wednesday, October 30, 2013

ارتقا (I)

جذباتی یا پھر نفسیاتی طور پر مرعوبیت ہماری فطرت میں شامل ہوچکی ہے یا پھر ہمارے اعصاب پر طاری ہے۔ہم لوگ اس قدر سہل پسند ہوگئے ہین کہ زندگی کے ہر معاملے میں Template کا سہارا مانگتے ہیں۔ اپنی کوئی سوچ نہین ہے، اپنا کوئی شعور نہیں ہے۔ہماری سرشت کی وسعت سرنگوں ہے۔ ہمارا شعور سوالی بن چکا ہے۔ ہمارا کردار حقیقتوں سے بے خبر ہے۔ تجزیے، تجربے، نتیجے سب قیاس پر مبنی ہیں۔ حقیقیتیں ہوتیں تو دیر پا ہوتیں، خیر لاتیں، ذہنی بالیدگی سے ہمکنار ہوتے۔ گلوبل ویلیج کے فلسفے پر عمل پیرا ، مسرتوں کے طالب جو نہیں جانتے کہ روح کی تسکین بھی کوئی معنی رکھتی ہے،کچھ جذبات جبلی ہوتے ہیں۔ روحانیت کی بھی ایک سیڑھی ہوتی ہے۔لیکن یہ سیڑھی ہمیشہ طبعی ضرورتوں کے ساتھ چڑھتی ہے۔معنویت اور مقصدیت سے بے خبر۔جن کے صرف جذبات مغلوب ہیں لیکن حقیقت سے خالی ہیں،جن کی سوچ صرف خواہشوں کے تابع ہے اوراپنی ان کے خواہشوں کے تعاقب میں بھٹکتا پھرتا ہے۔سرگرداں ہے۔جب خود صاحب رائے بن جائیں تو رستے اور منزلیں کہاں ملتی ہیں ؟ اور بھول جاتے ہیں کہ مرعوبیت کا شکار لوگ صرف شکوک و شہبات کا شکار ہوسکتے ہیں۔ وہ کبھی تخلیق کے منظر کی لذت آفرینی سے آشنا نہیں ہوسکتے۔ وہ تو کھونٹے سے بندھے بیل ہیں۔لگام پکڑا کر چلنے کے عادی۔ لیکن جس دن کشش ثقل کے ساتھ سفر کی بجائے برعکس سفر کا آغاز ہوگیا اس دن اسباب بھی مل جائیں گے، تخلیق کا عمل بھی شروع ہوجائے گا، روح اور جسم کا رشتہ بھی قائم ہوجائے گا
میم سین

Monday, October 28, 2013

ارتقاء سے پہلے

سوال ہی سوال ہیں اور جواب بھی سوال ہیں
حیات جاودانی کیسے ملتی ہے؟
آب حیات کے حصول سے
آب حیات کہاں سے ملے گا؟
جہاں زیست اور موت میں تفاوت باقی نہیں رہتی
یہ لمحے کب نصیب ہوتے ہیں؟
جب خوابیدہ شبستانوں میں نیند تکلف کے معنوں سے آزاد ہوجائے
دوام زندگی کا پہلو پھر کیسے حاصل ہوگا؟
خرمن صبر و استقلال سے
یہ تو حدود وقیود کا تعین ہوا؟
بیش بہا بھید کھل جائیں تو شان دلربائی کیسی
پھر تو حیات جاودانی ، پیرھن کاغذی ٹھہرا؟
زندگی کسی سربسیدہ رازوں کی طرح پراسرارکیوں ہے؟ کبھی کسی قابل ستائش جذبوں سے ہمکنار تو کبھی کسی مہیب غار کی تاریکی کو لئے ہوئے کوئی گھمبیر خاموشی،کبھی ایسی شان بے نیازی کہ پاس کھڑے بھی قرب کا احساس نہیں تو کہیں سنگلاخ چٹانوں میں گم آ بلہ پا لیکن کسی آتشیں جذبے سے مغلوب۔ کبھی محبت کے جذبے کا ساتھ اور وجود کے دردیوار سحر زدہ، تو کبھی کبھی اداسی کسی منحوس طلسم کی طرح ایک ھالہ بنائے اداسیوں کی تہوں کی ایک قطار بساتی جارہی ہو۔لیکن زندگی کے مدوجذر نے تخریب کے عمل کو اس قدر مائل بہ عمل کررکھا ہے کہ جذبات کسی گلیشئر سے آتی سرد ہوا کے زیر اثر اپنا وجود یوں کھو بیٹھے ہیں کہ زندگی ، بقا، طلب، مقصد کسی سوالیہ نشان کی طرح ہر وقت نگاہوں کا تعاقب کرتے نظرآتے ہیں۔
عورت کا وجود ایک ٹشوپیپر کی طرح ہونا چاہیئے کسی سیاہی چوس کی طرح جو سب کچھ جذب کر لے لیکن احساس نہ ہونے دے۔ اسے صرف جذب کرنا چاہیئے لیکن وہ جب عمل اور ردعمل کے فلسفے کے ساتھ الجھ بیٹھے تو الزام کس کو دیا جائے؟؟۔ عورت تو دیوار گریہ ہے جس کے ساتھ لگ کر چند لمحوں کیلئے اپنے حزن ،ملال ، بے تابی ، کو اس دیوار میں جذب کر دینے کے بعد روح اور جسم کے رشتے کو برقرار رکھا جاسکے۔ خود فراموشی کی داستانیں کہاں گئیں۔؟
وصل کیا ہے؟ فراق کیا ہے ؟ کوئی ناطاقتی ہے یا فنا کا سفر ہے؟ شکست سے آگہی ہے یا پھر فتح کا خمار ہے ۔آرزو کیا ہے ؟ ، جستجو کیا ہے؟ وصل کی تمنا رکھیں یا فراق کی طلب کریں ۔وصل ایک گرد ہے جو تھم گئی ہے، فراق وہ قطرہ جو سیپ کا رستہ ڈھونڈتا ہے۔وصل وہ تناور درخت ہے جو اپنی شاخوں کو مٹیالی چادر بن کر اڑتے بادلوں کا سینا چیڑ کر گرتے قطروں کے آگے خود کو مجبور سمجھتا ہیے، اپنی ٹہنیوں کے ساتھ ،پہاڑوں کو تھپڑے لگاتی ،وادیوں ڈھلانوں کو چھوکر آتی  تیز ہوا کے جھونکوں کے آگے سر کو جھکا دیتا ہیں۔ فراق وہ بیج ہے جو شکست آشنا تو ضرور ہے لیکن ہار ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔کسی پر کی طرح تیرتا ہوا کسی نئی منزل کی تلاش میں لیکن ارادوں کو نگل نہیں سکتا۔ کیا یہ زندگی کا تضاد نہیں ہے ہم دریا دلی کی تو بات کرتے ہیں لیکن خود کوخش وخاک کی طرح بہہ جانے نہیں دیتے۔ہم فراق سے خوفزدہ ہیں لیکن وصل کی لذت کو بھی فانی سمجھتے  ہیں ؟ 
ذہنی بالیدگی بھی ایک المیہ ہے اور ایک لافانی المیہ۔ جب آپ زندگی کو مضبوطی سے دبوچ کر کرب سے نجات سے تگ دو کر رہے ہوتے ہیں۔چہرہ تھکن سے چور اور اعصاب کسی لڑکھڑاتے غمگین لہجے سے دوچار ہو اور سستانے کیلئے ایک جھٹکے سے زندگی سے دامن کو چھڑا کر پل بھر کو سانس لینے کیلئے آزاد ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ جس فرط وانسباط کیلئے آپ کا رواں رواں پھڑک رھا تھا۔وہ سب کسی اجنبی دیس کے مکین ہیں۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر آپ کسی نئی سمت کو نکل گئے ہیں اور اب تنہائی اور اداسی کا ایک لامتناہی سلسلہ آپ کیلئے دامن پھیلائے ہوئے ہے۔ خوداعتمادی کس بات کی؟ ہم تو قسمت کی لکیروں پر ناچ رہے ہوتے ہیں۔کیا ایسی دلربا چیزیں بھی اس دنیا میں آباد ہیں جن پر کبھی خزاں نہیں آتی، جو غیر فانی ہو؟ سب کچھ تباہ ہوجائے لیکن ان کی دلکشی برقرار رہے ان کا تناسب انتشار زدہ نہ ہو؟ہماری کوتاہیاں ہیں، کمزویاں ہیں یا شائد تساہل پسندی کہہ لیں لیکن ہم بھانجھ ہیں ۔ خیالات کے معاملے میں، جستجو کے ارادوں میں ، طلب کے حصول میں۔لیکن ہم پھر بھی زرخیز میدان دیکھنا چاہتے ہیں۔کیکڑ کے درخت سے سایہ مانگتے ہیں۔سرخ وسفید گلاب کے پھولوں کو ہمیشہ کھلا دیکھنا چاہتے ہیں ۔نیلگوں آسماں کے بہت قریب جاکر کسی حسینہ کی زلفیں سمجھ کر اپنے ہاتھوں سے چھونا چاہتے ہیں۔حسرتوں کی ایک آگ ہے جو دھک رہی ہے۔جن ذہنوں میں صرف خواہش ہو، وہاں تعبیر کی جستجو بھی ہوتی ہے وہ نہ ہو تو پھر وہاں صرف وہم ہوتے ہیں۔تو کیا اس شعوری بھانجھ پن کی موجودگی میں خواہشوں  کے آلاؤں جلانا حرص کے منہ زور گھوڑوں کی باگیں چھوڑ دینا ہے؟ طمع کی شعاؤں کو دھند لکوں سے نکال کر اسے وادیوں میں بکھیر دینا ہے ؟؟
میم سین

گیان ، دھیان، اور وہم

آجکل دل آوارہ گردی کیلئے مجبور کر رھا ہے۔ اپنی پہچان کھو کر کسی بھیڑ میں گم ہوجانے کو دل چاہتا ہے۔ خودساختہ ذمہ داریوں کو میں مانتا نہیں اور میرے اس فرار کو کوئی مانتا نہیں۔ میں نے زندگی میں کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے، حساب کتاب کا قائل نہیں ہوں لیکن پھر بھی اپنے ہونے یا نہ ہونے سے دنیا کو کیا فرق پڑتا ہے، جاننے کا خواہاں ہوں۔ موسم تبدیل ہورھا ہے ایک دوست کا کہنا ہے کہ انٹیکچوئل بننے کا زکام ہوگیا ہے، چند دن میں ٹھیک ہوجائے گا۔ لیکن یہ سلسلہ تو ایستھما یا السر کی طرح بڑھتا ہی جارھا ہے۔ مسئلہ بیزاری کا ہے جس نے فلسفہ کا سہارا لے لیا ہے۔ صوفیت کا للکارہ ہے ، گیان دھیان کا بندہ نہیں ہوں لیکن پھر بھی تشکیک کا شکار ہوں۔ زندگی کی معنویت سے ہمکنار تھا لیکن ذہنی بالیدگی نے تنہاہی کا شکار کر دیا ہے، ایک اجنبیت ہے،زندگی کے دوھرے معیار نے ایک کردار میں ڈھال دیا ہے۔ جو بغیر کسی سکرپٹ کے اپنا کردار ادا کر رہا ہو۔ کہانی کچھ اور ہے اور میں شائد کچھ اور ادا کر رھا ہوں۔ تماشائی تو شائد اس سے باخبر ہوں نہ ہوں لیکن مجھے احساس ہورھا ہے میں میں غلط سیٹ پر غلط کردار نبھا رھا ہوں۔اور میں اپنا کردار دوبارہ لکھنے کی کوشش کررھا ہوں۔ عمل تجدید سے گزرنا چاہ رھا ہوں۔ لیکن سرا ہے کہ کہیں کھو گیا ہے، رستے نظر آتے ہیں، لوگ بھی، کردار بھی، لیکن ان تک پہنچنے کا رستہ کہیں بند ہے ہے۔۔انسان کیا ہے؟ شعوری تجسس اور خودآگہی کا مرکب؟ وہ تو صرف دریافت کرتا رھتا ہے، اپنے آپ کو ، اپنی امنگوں اور خواہشوں کی حدوں کو؟ اس کی جستجو تو صرف ان بھیدوں کی تلاش ہے جو اس کے نذدیک نامعلوم ہیں۔۔ وہی اسرار جو ایک بعد ایک نئی چادر اوڑھے اس کے تجسس کو بھڑکاتے رھتے ہیں۔کہیں علم کی دنیا کو اپنے قلب پر ھاوی کرتا ہے تو کبھی وہ اپنے احساس، یا ایمان سے کام لیتا ہے۔ اس کیلئے تو اپنے آپ سے پڑے ہر چیز ایک راز ہے۔ وہ جنس مخالف ہو یا اس کا اپنا وجود، اس دھرتی کا وجود جس میں اس نے جنم لیا یا اس میں پائے جانے والے ارواح۔ ایک طرف اس مادیت کا کھوج ہے جس کیلئے استدلال ذہن سے ڈھونڈتا ہے اور دوسری طرف فکری کشمکش ہے جو حق اور باطل کے نام سے جاری ہے۔خواہشات کے تضاد کے ساتھ جنم لینا والا انسان گومگوں کے عالم میں تنہا سرگرداں نظر آتا ہے۔وہ اس علم پر یقین رکھے ؟جو اس کے حواس خمسہ دے رہے ہیں یا اس وجدان پر یا اس ایمان پر جو اس کے اندر سے بیدار ہورھا ہے یا اس کی گٹھی میں ڈال دیا جاتا ہے۔زندگی کیا ہے اور اس کی ضروریات کیا ہیں؟ بدمستیاں کہاں سے شروع ہوتی ہیں اورعیاشی ضرورت کو کب عبور کرتی ہے؟ہمارا علم اس قدر باریکیوں میں تقسیم ہے کہ ہمارے اندر نافہمی کا ایک سمندر موجزن ہے۔تقلید کی اندھا دھند پیروی پر تنقید کرتے ہوئے جب ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہ دے، حواس جب علم سے بہرہ ور نہ ہوسکیں تو تقلید نہ ڈھونڈیں تو کب تک مخمصوں میں پھنسے رہیں۔علم تو وہی ٹھہرا جو ترقی کا سفر دکھاتا ہو، جن کی تصدیق حواس خمسہ کی گواہی ہو۔تپنے صحراؤں ، گھنے جنگلوں ، صعوبتوں کے صحرا کے سفر کس کام کے؟؟؟
میم۔سین

شادیاں

ان دنوں شادیوں کا سیزن اس قدر عروج پر ہے کہ لگتا ہے اس بار کوئی کنورہ باقی نہیں رہے گا۔ چند روز سے ان شادیوں کی وجہ سے سڑکوں پر صرف بارات کی گاڑیوں کا راج ہے۔ کسی بھی شعبہ زندگی کے متعلق کوئی کام درپیش آجائے تو جواب ملتا ہے چند دن انتظار کر لیں بس یہ ایک دو شادی والے گھروں کے کام نبٹا لیں پھر آپ کا کام بھی کئے دیں گے۔ ابھی کل کی بات ہے ،دو تین کے ہاں حاضری لگائی اور مبارک باد دے کر رخصت چاہی۔لیکن پھر بھی تین جگہ میزبانوں کے اصرار پر کھانا کھائے بغیر نہ بنی۔ ایک نوجون دلھے سے پوچھا کہ سناؤ بھائی کیسا لگا شادی کے بعد ؟ دلھا میاں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو رھے تھے فوراً بولے میں تو اتنا شاداں ہوں کہ سوچتا ہوں ،پہلے شادی کیوں نہ کی۔ دلھے کی یہ بات سن کے میز پر بیٹھے ایک بزرگ بڑبڑائے کوئی بات نہیں بیٹا چھ ماہ بعد جملے میں سے "نہ" کا لفظ بھول جاؤگے 
میم سین

Wednesday, September 25, 2013

الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا

جاوید ہاشمی نے توہین رسالت کے بارے میں انتہائی متنازعہ بیان دے دیا
سعودی شخص نے اپنی موت کی پشین گوئی کیسے کر دی؟شادی کی تقریب میں طوائفوں کا رقص
پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا جنسی سکینڈل کے بعد کرپشن کا سکینڈل منظر عام
فیس بک پر آپ بھی کسی وقت نشانہ بن سکتے ہیں، مگر کیسے؟
اداکارہ عینی کی پرائیویٹ تصاویر منظرعام پر آگئیں
فیشن شوز کی آڑ میں کیا ہورہا ہے؟
آفریدی کو عوام کا جھٹکا
غلط ویڈیو نے آگ لگا دی
بے حیائی پھیلانے پر نسٹ کی انتظامیہ کا قدم
فلاں صحافی کی فلاں نے بینڈ بجا دی
بے غیرت سیاستدانوں کی بے غیرتی کا ایک اور ثبوت
معاشرے کی حیوانیت کی ایک اور زندہ مثال
جب اینکر پرسن کو خادم اعلی کے گارڈ نے دھکے مارے
حکومت کا ایک اور مہنگائی بم گرانے کی تیاری

شتر بے مہارمیڈیا کے معاشرے پر مہلک اور مضر اثرات ڈالنے کے بعد شوشل میڈیا کی مقبولیت سے ایک امید قائم ہوگئی تھی کہ شوشل میڈیا غیر ملکی ثقافتی یلغار اور تمام اخلاقی حدوں کو عبور کرتا،شعائر اسلام اور ملکی اساس کو بالائے طاق رکھنے والے میڈیا کے اودھم کے سامنے ایک دیوار بن جائے گا۔غیرت اور حمیت کی کھڑی فصلوں کو روندنے والے میڈیا کو قوائد وضوابط سے آگاہ کرے گا۔دوسروں کی عفت اور تقدس کو پامال کرتے میڈیا کو اخلاقیات کے سبق سے آگاہ کرے گا۔اپنی انا کی تسکین اور آگے بڑھ جانے کی دوڑ میں معاشرے کی اقدار کو روندتے ،منفی رجحانات کو فروغ دیتے، اس میڈیا کے پھیلائے ہوئے زہر کا توڑ نکالے گا۔نفسیاتی الجھنوں کے بھنور میں پھنسے عوام کے دکھوں اور ذہنی ہیجان کا کوئی مداوا ہوگا۔حقیقت کی آبیاری کرتے کرتے قیاس، مبالغہ آرائی،الزام،سنسنی،جھوٹ، اور غیروں کی سازشوں کو بھی پال پوس کر جوان کرتے میڈیا کو اس کی اصل ذمہ داریوں سے آگاہ کرے گا۔لیکن ہوا کیا ہے؟ شوشل میڈیا بھی میڈیا کے نقش قدم پر چل پڑا ہے۔ ریٹنگ کی دور میں سنسنی پھیلاتے ہوئے سارے اصول اور ضابطے ختم ہوتے جارہیں۔کسی کی پگڑی اچھالنی ہو یا پھر کسی کی کردار کشی،کوئی بے یقینی کی فضا بنانی ہو یا پھر افوہیں پھیلانی ہوں، شوشل میڈیا پیش پیش ہے۔
وہی جھوٹ، وہی سنسنی، وہی مقبولیت حاصل کرنے کے منفی ہتھکنڈے۔کہاں کے اصول، کہاں کے ضابطے، کہاں کا یقین۔سب کچھ وہیں پر ہے 
وہی دھندلکے، وہی انتشار، وہی وہم، وہی دل آزاریاں، وہی تہمتیں، وہی نظام ۔
 اور ہم فقط تماشائی
میم سین

Saturday, September 21, 2013

محبت کا فلسفہ

اگر انسان بھینس کو بھی لگا تار دیکھتا رہے اور اس کے ساتھ رہنا شروع کر دے تو تو اس کے ساتھ محبت ہوجائے گی۔بابا شہزاد اویسی نے جب اپنا یہ نظریہ پیش کیا تو میری بے اختیار ہنسی نکل گئی۔اور پوچھا اس نئی تھیوری کہ وجہ پیدائش کیا ہے؟ شہزاد اویسی کو ایسے ہی فلسفیانہ نظریات پیش کرنے کی بدولت بابا کا لقب ملا تھا۔ ایک بار اس نے منافق سیاستدانوں کو پہچاننے کیلئے ایک طریقہ ایجاد کیا تھا کہ چہرے کو کاغذ سے اس طرح چھپا دو کہ صرف آنکھیں دکھائی دیں اور ان آنکھوں کو دیکھ کر آپ کے ذہن میں جو پہلا تاثر ابھرے وہی اصل شخصیت ہے۔
اپنے بابر بھائی کو تو جانتے ہو نا، وہی میرے بڑی بہن کے دیور جی، جو پی ایچ ڈی کرنے جرمنی گئے ہوئے تھے۔میں نے اثبات میں سر ہلایا۔شہزاد کے خاندان کے ساتھ میرا تعارف اس وقت ہوا تھا جب اس کی بہن کا بڑا بیٹا جو بیکن ہاؤس میں پڑھتا تھا، پاکستان سٹڈیز کے مضمون سے بڑا پریشان تھا۔تمام مضامین میں نمایاں نمبر لینے کے باوجود پاکستان سٹڈیز میں کافی مشکلات کا سامنا تھا۔ایک دن شہزاد نے میری جغرافیہ میں دلچسپی کو دیکھتے ہوئے درخواست کی کہ میرے بھانجے کوچند دن کیلئے پاکستان سٹڈیز پڑھا دیا کرو، ایک بار بنیاد بن جائے تو پیپر حل کرنا آسان ہوجائے گا۔اور یوں میرا ان کی بہن کے گھر آنا جانا شروع ہوا۔اپنے پہلے ہی ٹسٹ میں ریکارڈ نمبر لینے کے بعد بھانجا شریف اپنے ماموں پر دباؤ ڈال کرہر ٹسٹ سے پہلے مجھے ہوسٹل سے اٹھا کر اپنے گھر بلوا لیتا تھا۔اور انہی کے گھر بابر صاحب سے بھی ملاقات ہوئی تھی ۔جو چٹھیوں میں پاکستان آئے ہوئے تھے اور  شہزاد کی بہن ان کی شادی اپنی ایک سہیلی سے کروانے کی خواہش مند تھیں۔جو پلی بڑھی تو انگلینڈ میں تھیں لیکن صحت دیکھ کردھیان بنگال کےسیلاب زدہ علاقوں کے قحط زدہ مکینوں کے طرف نکل جاتا تھا۔جسم بہت پتلا تو نہیں تھا لیکن آپ اسے صحت مند بھی نہیں کہہ سکتے، رنگت کالی تو نہیں تھی لیکن ایسی بھی نہیں کہ ایک بار نگاہ ڈالنے کے بعد دوسری بار نگاہ ڈالنے کی خواہش دل میں اٹھے۔قد پست تو نہیں تھا لیکن ایسا بھی دراز قد نہیں کہ کیٹ واک کیلئے منتخب کر لیا جاتا۔اگر آپ کی قریب کی نظر درست نہیں ہے تو  آپ کو ان کی دونوں آنکھوں میں فرق کا  کبھی پتا نہیں چل سکتا تھا۔باتونی تو نہیں تھیں کیونکہ جب وہ سانس لینے کیلئے رکتی تھی تو آپ کو بات کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔فیشن کی ایسی دلدادہ تھی کہ  نظر اگرچہ  کمزور نہیں تھی لیکن پھر بھی موٹے فریم والے چشموں کے فیشن کو اپنانے کیلئے شائد اپنے دادا ابا کی عینک ہر وقت آنکھوں پر لگائے رکھتی تھی۔اگر میں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا نہ ہوتا تو شہزاد کی باتوں پر کبھی یقین نہ کرتا۔اس لئے شہزاد کو اس رشتے سے شدید اختلاف تھا کہاں میونخ یونیورسٹی کا اسسٹنٹ پروفیسر اور سات فٹ قد اور کشادہ چھاتی کے ساتھ پروقار چہرہ۔ آنکھوں سے متانت اور ذہانت دونوں ٹپکتی تھیں۔گفتگو کے آداب کوئی ان سے سیکھے ۔اور کہاں ایسی ہونق اور بے ہنگم لڑکی جس میں ایک امیر گھرانے اور انگلینڈ کی نیشنیلٹی کے علاوہ کوئی خوبی نہ تھی۔ اور موصوف نے اگرچہ لڑکی دیکھی نہیں ہوئی تھی لیکن پھر بھی شادی کے نام سے ایسے بدک جاتے تھے کہ جیسے کالاباغ ڈیم کے نام پر ہمارے سیاستدان۔بابر صاحب دنیا کے ہر موضوع پر گفتگو کرنے پر تیار ہوتے تھے ۔سرد جنگ کے خاتمے کی وجوہات سے لیکر چین کی اقتصادی طاقت بننے تک، اقوام متحدہ کے کردار سے لیکر افریقہ کے ممالک کی پسیماندگی کی وجوہات تک، ترقی یافتہ ممالک کے اخلاقی انہدام کے جواز سے لیکر مذہب بیز ار طبقے کے بڑھتے ہوئے اثرات تک۔وہ کونسا موضوع تھا جس پر انہیں دسترس حاصل نہیں تھی لیکن جب بھی شادی کا ذکر ہوتا تو اپنا رویہ درشت کر لیتے یا پھر بات کو گھما کر ادھر ادھر لے جاتے اور کسی کو جرات ہی نہ ہوتی کہ وہ ان سے اس موضوع پر بات کرسکتا۔۔بھانجے شریف نے او لیول عبور کر لیا اور یوں میرا ان کی فیملی سے تعلق ختم ہوگیا۔ابھی کئی سالوں بعد جب شہزاد اویسی نے بابر صاحب کی اسی برٹش نیشنل لڑکی سے شادی کا انکشاف کیا تومجھے بہت حیرت ہوئی اور بابر صاحب کی شادی کیلئے رضامندی کی وجوہات اور واقعات پر روشنی ڈالنے کو کہا تو، شہزاد اویسی عرف بابا نے اپنے مخصوص سٹائل میں قصہ شروع کیا کہ کیسے اس کی باجی نے اپنی سہیلی کو لندن پلٹ قرار دے کر موصوف کو یہ کہہ کر ان کی مہمان نوازی پر لگا دیاکہ جب سے انگلینڈ سے آئی ہے ابھی تک اس نے لاہور نہیں دیکھا۔صبح سویرے دونوں شہر کی سیر کیلئے نکل جاتے اور شاہی قلعہ، شالیمار باغ، بادشاہی مسجد، ہرن مینا، انارکلی،کی سیر کرتے ہوئے، سردار کی مچھلی، خان باباکی کڑاہی، بھیا کے کباب کھاتے کھاتے دونوں نے زندگی اکٹھے گزارنے کا فیصلہ کرلیا ۔ جو فیصلہ ان کے گھر والے بابر صاحب سے کروا نہ سکے تھے ، وہ چند دن کی رفاقت نے کروا دیا۔شہزاد نے ایک آہ بھری اور بولا میرا آج سے محبت سے اعتماد اٹھ گیا ہے ۔یہ پیار اور محبت انسان کا سب سے بڑا دھوکہ ہیں اگر انسان بھینس کو بھی مسلسل گھورتا رہے اور اس کی قریبی صحبت میں کچھ عرصہ گزارے تو کچھ عرصے بعد وہ اس کی محبت میں بھی گرفتار ہوجائے گا۔
میم سین

خود کلامی


چند دن پہلے فیس بک پر ایک کارٹون دیکھا جس میں ایک تابوت رکھا ہوا تھا اور اور مرحوم کی اہلیہ سیاہ ماتمی لباس میں ملبوس اپنی سہیلی سے شکوہ کر رہی ہوتی ہے کہ دو ہزار سے زائد فیس بک پر فرینڈ تھے لیکن جنازے پر ایک بھی نہیں آیا۔
جب میں اپنے اوپر نظر دوڑاتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ میرا تعلق بھی حقیقی زندگی سے کم ہوتا جارہا اور فیس بک کے دوستوں کے ساتھ وقت زیادہ گزرتا ہے۔ اور اگر یہی صورتحال جاری رہی تو ایک وقت آئے گا جب میرے تمام دوست احباب فیس بک سے ہونگے۔ تو کیا میرے مرنے کے بعد کوئی میرے جنازے میں شرکت کیلئے پہنچ سکے گا؟ یا پھر فیس بک پر ہی غائبانہ نمازہ جنازہ کا اہتمام کر دیا جائے گا؟
میم۔سین

Sunday, September 15, 2013

کچھ تجاویز

معیارتعلیم کی زبوں حالی اورانحطاط پذیری ہمارے ملک میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے، نت نئے سیارے دریافت کر رہی ہے اور ہم ابھی تک اسی فرسودہ وطبقاتی نظام تعلیم کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں
۔۔۔۔۔۔ دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
پاکستان کے فرسودہ ں ظام تعلیم کی مثال، میں اور کیا دوں کہ ابھی تک کورس میں بچوں سے خطوط لکھوائے جاتے ہیں۔وہ خطوط جو ان بچوں نے زندگی میں کبھی لکھنا تو دور کی بات، کبھی لکھا ہوا خط دیکھا بھی نہیں ہوگا۔ابا سے گھر سے نئی کتابوں اور فیس کے پیسے منگوانے کیلئے خط، چٹھیاں گزرارنے کیلئے دوست کو خط، چھوٹی بہن کو سالگرہ پر مبارکباد کاخط۔،بڑے بھائی کو میچ جیتنے پر مبارکباد کا خط۔۔ ابھی تک سلیبس میں میسج کرنے کے آداب نہیں سکھائے گئے۔لیٹ آور پیکجز کے حصول کیلئے بھی کوئی معلومات فراہم نہیں کی جارہی ہیں۔۔فیس بک پر سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے اور پوسٹوں پر کمنٹس ڈالنے کے صحیح طریقوں سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ماں اور بڑی بہن سے بیلنس کے پیسے حاصل کرنے اور نئی دوستیوں کے آغاز کے آداب کے بارے میں بھی کچھ نہیں بتایا جا رہا۔اور اگر دوستی جنس مخالف سے ہو، تو کون سی ضروری باتوں کا خیال رکھا جانا چاہیئے۔سکائپ اور دوسرے میسنجرز کے ذریئے گفتگو کرنے کیلئے کونسے سلیقے درکار ہیں۔چیٹنگ اور ای میل کے ذریئے پیغامات میں اپنی شخصیت کے کمزور پہلؤں کو کیسے چھپا کر ایک آئیڈیل انسان کا روپ دینا ہوتا ہے۔اس پر بھی ایک مضمون ہونا چاہیئے۔امید ہے حکومت ان تجاویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے فوری طور پر تعلیمی کورس کو نئے تقاضوں کے ہم آہنگ کرے گی۔
میم۔سین

Thursday, September 12, 2013

پاکستان کا قیام ناگزیر کیوں تھا؟

ہر عہد کا ایک شعور ہوتا ہے ۔جس کے ذریئے اس دور کے اہم فیصلے کیئے جاتے ہیں۔وہ شعور اس عہد کی ضروریات اور تقاضوں کو بہتر انداز میں جانتا ہے۔اب اگر دوسری صدی میں بیٹھ کر ہم پہلی صدی کے فیصلوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو ہمیں اسی صدی کے شعور کو سمجھنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ ہمارا آج کا اجتماعی شعور بھی اس صدی کے فیصلوں کی نزاکت اور ضروریات کو نہیں سمجھ سکتا،جس کے تحت وہ فیصلے کئے گئے تھے.امریکہ کی جنگ آزادی سے لیکر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے فیصلے ہوں یا پھر صلیبی جنگیں۔امن کے معاہدے ہوں یا پھر مملکتوں کا قیام۔نقل  مکانیاں ہوں یا پھر معاہدوں کا ظہور۔ کچھ ایسا ہی معاملہ آج کل تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے حوالے سے درپیش ہے۔جس میں پاکستان کے قیام کو ایک غلطی سے تشبیہ دیا جارہا ہے۔پاکستان کے موجودہ حالات کو اس کے قیام کی غلطی قرار دیا جارہا ہے۔
چلیں ہم محمد علی جناح کی شخصیت کو بھی بھول جاتے ہیں۔اور مسلمانوں کیلئے کسی ایسی تحریک کی ضرورت کو بھی بحث کا حصہ نہیں بناتے جس کا مقصد ایک الگ وطن کا قیام ہو۔برصغیر کے اوپر مسلمانوں کے کم وبیش پانچ سو سال سے زائد حکومت کے بعد جب  انگریزوں نے برصغیر کی باگ دوڑ سنبھالی تو ہندستان کی بڑی قوم ہندو جو ایک عرصے سے محکوم چلی آرہی تھی،اپنی اس خلش کو مٹانے کیلئے فوراً انگریزوں کی گود میں بیٹھ گئی اور ان کے ساتھ بھرپور تعاو ن شروع کردیا ۔اور اپنی صدیوں کی محرومیوں کے ازالے کیلئے مسلمانوں سے بدلہ چکانے کی جدوجہد کا آغاز شروع کردیا۔انیس سو ستاون کی جنگ آزادی کا سہرا مسلمانوں اور ہندؤں دونوں کے سر تھا لیکن شکست کے بعد سارا ملبہ مسلمانوں پر تھونپ دینے کے بعد انگریزوں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہوئے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی شمولیت کو یقینی بنایا اور یوں انتظامی لحاظ سے ہندو انگریزوں کے دست راست بن گئے.
 ۔1880 کے ایک سروے کے مطابق ہائی سکولوں میں ہندؤں کی تعداد 36686 اور مسلمان صرف 363 تھے۔۔اور تھوڑی سی قوت میں آتے ہی انہوں نے صدیوں پرانا بدلہ لینا شروع کر دیا۔ کیا ہم شدھی شنگھٹن تحریک کو بھول جائیں؟ کیا اردو رسم الخط کے خلاف ہندؤں کی مہم کو فراموش کر دیں؟ کیا تقسیم بنگال کی مخالفت کے منافقانہ طرز عمل کو بھی بھلا دیں؟ بندے ماترم کو سکولوں میں رائج کرنے کو بھی اخلاص کا درجہ دے ڈالیں؟ ہندؤں کے اس نسلی تعصب کو سرسید جیسا آزاد ذہن  بھی محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکا اور سر سید احمد خان نے حقائق کا جائزہ لیتے ہوئے بنارس کے شہر میں واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ اگر ہندوؤں کی تنگ نظری اور تعصب کا یہی عالم رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہندوستان ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا میں تقسیم ہو جائے گا۔
چلو یہ سب غلط فہمی کا نتیجہ تھا، چلو یہ بھی مان لیا کہ یہ سب مسلمانوں کے گمان اور وہم تھے ۔ حقیقیت وہ نہیں جو دکھائی جا رہی ہے۔ ایک نظر انیس سو سینتیس کے انتخابات کے بعد بننے والی کانگریس کی حکومت اور اس کے مسلم کش اقدامات پر ڈال لیتے ہیں۔ گرام سدھار سکیم کو نظرانداز کر دیں؟جس کامقصد مسلمان زمینداروں سے زمینیں ہتھیانا تھا۔ کیا گائے کے ذبح پر پابندی کا قانون صرف ہندووں کیلئے تھا؟ ہندو مسلم فسادات میں کس کا خون بہتا رہا؟ ہزاروں مسلمان موت کی گھاٹ اتار دیئے گئے اور نوکھالی میں چند ہندو مر گئے تو گاندھی جی نے کیا کہہ کر ہندوؤں کو بھڑکایا تھا ؟؟ ذرا سنئے تو ۔مسلمان یا تو عرب حملہ آوروں کی اولاد ہیں یا ہم ہی میں سے تبدیل ہوئے لوگ ہیں ان کی درستی کا ایک ہی علاج ہے یا تو انہیں ان کے آبائی وطن عربستان واپس بھیج دیا جائے یا انہیں شدھی شنگھٹن کے ذریعے واپس ہندو دھرم میں لایا جائے یہ بھی نہ ہو سکے تو انہیں غلام بنا کر رکھا جائے۔ میں تو پلا بڑھا ہی ہندوؤں میں ہوں۔ بنگال کے قحط کے دوران کیئے گئے ہندوانتظامیہ  کے سلوک کو کیسے بھول جائیں؟؟ ہندستان چھوڑ دو کی تحریک کے دوران بھی ہندو لیڈروں کے انگریز سرکار کے ساتھ براہ راست روابط تاریخ کا حصہ ہیں۔
 اور بھئی بھول بھی گئے ریلوے سٹیشنوں اور بسوں کے اڈوں پر بکتا ہندو پانی، مسلم پانی؟؟ اور وہ دن بھی بھول گئے جب ہندوؤں کی دکانوں پر سوڈے کی بوتل مسلمان کے گلاس میں ڈیڑھ دو فٹ کے فاصلے سے انڈیلی جاتی تھی اور پینے کے بعد مسلمان اپنے ہاتھ سے گلاس دھو کر واپس اپنی جگہ پر رکھتا تھا۔اور جس قصبے میں مسلم کشی کی ضرورت ہوتی تھی وہاں پر صرف گاؤ ماتا کی قربانی کی افواہ ہی کافی سمجھی جاتی تھی۔۔کیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کے وجود کو قبول ہی نہیں کیا تھا۔اور انگریز کے زیرسایہ ساری کلیدی پوسٹوں پر پراجمان ہوچکا تھا ۔
 اگر ہندستان سے انگریز رخصت ہوجاتا تو کیا صورتحال ہوتی؟؟ کیا کسی کے پاس اس سوال کیا جواب ہے کہ کیا مسلمانوں کیلئے ایک الگ ملک کے مطالبے کے علاوہ کوئی حل بھی تھا؟؟ اس وقت پاکستان کے قیام کا مطالبہ نہ کیا جاتا تو کیا صورتحال یہ نہ ہوتی کہ مسلمان انگریزوں کی غلامی سے نکل کر ہندؤں کی غلامی میں چلے جاتے؟؟ چلیں جن کو یہ وہم ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ کانگریس میں مسلمانوں کے حقوق کے دفاع کیلئے بڑے جید لیڈر موجود تھے اور ہندستان کی تقسیم کی مخالفت کرنے والے مذہبی سکالرز  اتنا اثرورسوخ ضرور رکھتے تھے کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کر سکتے تھے۔میں بہت پرانی بات نہیں کرتا ۔ میں گزرے دنوں کی کوئی داستان بھی نہیں سناتا۔کسی گمنام لیڈر کی بند کمروں میں کی گئی باتوں  کا حوالہ بھی نہیں دیتا ۔ میں پیش کر رہا ہوں 30نومبر 2006 کو من موہن سنگھ کی طرف سے قائم جسٹس راجندر سچرکی زیرنگرانی قائم کئے گئے کمیشن  کی رپورٹ کے چند اقتصابات جو انہوں نے مسلمانوں کی بھارت میں حالت زار کے بارے میں پیش کئے تھے۔اس رپورٹ کے مطابق بھارت کے دیہی علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کی 94.9 فیصد تعداد خطِ افلاس سے نیچے اور شہری علاقوں میں 61.1فیصد غریبی سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔دیہی علاقوں کی 54.6فیصد اور شہری علاقوں کی 60فیصد آبادی نے کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا۔دیہی علاقوں میں مسلم آبادی کے 0.8اور شہری علاقوں میں 3.1مسلم گریجوایٹ ہیں اور 1.2پوسٹ گریجوایٹ ہیں۔

مغربی بنگال کی کل آبادی کا 25فیصد مسلمان ہیں، مگر سرکاری نوکریوں میں یہ شرح 4.2ہے۔آسام میں یہ شرح 40فیصد، مگر نوکریاں 11.2فیصد۔کیرالا میں 20فیصد آبادی کے پاس 10.4فیصد سرکاری نوکریاں ہیں، البتہ کرناٹک(سابقہ میسور ٹیپو سلطان والا) میں 12.2فیصد مسلم آبادی کے پاس نسبتاً بہتر، یعنی 8.5فیصد نوکریاں ہیں۔بھارتی فوج اور متعلقہ سلامتی کے اداروں نے اپنے یہاں سچرکمیٹی کو سروے کی اجازت ہی نہیں دی، مگر عام رائے ہے کہ ان اداروں میں شرح کسی طور بھی 3 فیصد سے زائد نہیں۔اس تصویر کا یہ رخ اور بھی بھیانک ہے کہ مہاراشٹر میں مسلمان کل آبادی کا 10.6فیصد سے کم ، مگر یہاں کی جیلوں میں موجود قیدیوں کا 32.4فیصد حصہ مسلمان ہے۔دہلی کی آبادی میں مسلمان حصہ 11.7فیصد، مگر یہاں کی جیل میں قیدیوں کا 27.9فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔صوبہ گجرات کی جیلوں میں بند کل افراد کا 25.1فیصد مسلمان ہیں، جبکہ آبادی میں یہ تناسب محض9.1کا ہے۔کرناٹک کی جیلوں میں 17.5مسلمان بند ہیں، جبکہ آبادی میں یہ تناسب 12.23ہے۔
مہاراشٹر میں جیلوں میں ایک برس سے زائد بند قیدیوں کا 40.6بھارتی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔۔۔۔۔جی ہاں جو لوگ آج ہندستان کی تقسیم کے خلاف باتیں کر رہے ہیں کیا ان کے پاس کمیشن کی اس رپورٹ کے بعد کوئی جواب ہے۔؟؟؟
ہاں یہ درست ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر لیا گیا تھا۔لوگوں کا ایک خواب تھا کہ وہ اپنے دین پر اپنی آزادی کے ساتھ عمل کر سکیں گے۔ انصاف اور مساوات کا پیامبر بنے گا۔لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ ویسا نہیں ہوا جیسی خواہشیں تھیں۔ لیکن اس کا الزام پاکستان کے سر کیوں؟ جی ہاں مرسیڈیز گاڑی شوروم سے نکال کر ڈرائیور فٹ پاتھ پر چڑھا دے تو الزام گاڑی پر کیسا؟ کمپیوٹر کا غلط بٹن دبا کر اپنا سارا ریکارڈ خراب کر ڈالیں تو الزام کمپیوٹر کو کیوں؟ اگر نادرا کے نظام کو نااہل ہاتھوں میں تھما دیا گیاتھا تو اس میں نادرا  پر الزام کیسا؟ امتحانی نظام کو کمپیوٹرائز کرتے وقت سفارش پر عملہ بھرتی کرلیا جائے تو کیا کمپیوٹر سسٹم پر طعنہ ظن ہوجائیں گے؟ واہ بھئی خوب، موبائل جیب سے گر کر پانی کی بالٹی میں جا گرے تو سیاپا کمپنی کے خلاف شروع کر دو؟ ماچس کی ڈبی بندر کو پکڑا دو اور آگ لگنے کی ذمہ داری عمارت کھڑی کرنے والے پر لگا دو؟ کیا انصاف کی بات کرتے ہو؟امتحان میں فیل اپنی نااہلی سے ہوجاؤ اور واویلہ ممتحن کے خلاف شروع کردو؟ 
آج اگر یہ ملک ہم سے صحیح طور پر سنھالا نہیں گیا تو اس کا الزام اس کے بنانے والوں کو کیوں دیں۔ آج اکیسویں صدی میں بیٹھ کر آج کے شعور کے ساتھ پچھلی صدی کے شعور کے کئے گئے فیصلوں کا گالی دینے کی بنیاد کیا ہے؟۔تم کیا جانو اس زمانے کی ضرورتیں اور تقاضے؟ خدارا ہوش کے ناخن لو۔جو تمہارے پاس ہے اس کی حفاظت کرو ۔اپنی عزت کی حفاظت ، ،میں وطن پرستی کی دعوت نہیں دے رہا لیکن میں ان فیصلوں پر تنقید سے روک رہا ہوں جن کا شعور ہمارے پاس نہیں ہے۔میرا صرف ایک سوال ہے بنئے کے اس متعصب اور منافقانہ رویوں کے بعد ایک الگ خطے کے قیام کے علاوہ دوسرا حل کون سا  تھا؟؟
میم سین

Tuesday, September 10, 2013

ایک اور نوحہ


شاہ زیب کے قتل کے واقعہ نے قوم کے نام جو پیغام دیا ہے وہ یہ کہ ہمارا موجودہ نظام ،ہمیں کوئی تحفظ نہیں دے سکتا !!!!!!!!۔قانون نافظ کرنے والے اداروں سے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ آپ کو کوئی انصاف مہیا کرنے میں مدد دیں گے !!!!!! ۔اس لئے کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہوجائے تو اپنا انتقام اپنے ہاتھوں سے لے لیں یا پھراپنی غیرت اور انصاف کے تقاضوں کو کسی اندھے کنویں مین پھینک دو، جہاں سے اس کوئی آہ، کوئی فریاد پچھتاوہ بن کر آپ کا تعاقب نہ کرسکے۔۔اس نطام کے سامنے سب کچھ فانی ہے۔زندگی ایک شکستہ روح ہے، جو ہر بار ہار جاتی ہے،۔۔۔۔سانسیں ادھوری رہ جاتی ہیں۔۔۔۔۔شکست آشنا ٹھہیرتی ہے۔۔۔ زندگی کے سب سے بڑے تضاد کے سامنے حوصلہ شکن ہیں۔ ہم چاہیں جتنے بھی پھول اپنے عیوب پر چڑھا لیں لیکن کسی نہ کسی دن یہ نظام ہمارے جسموں کو برھنہ کر دیتا ہے۔آنکھوں میں آنسو اور دل میں ملال لئے ہم کب تک تبدیلی کے نعرے لگانے والوں کے مہرے بن کر اپنی قربانیاں پیش کرتے رہیں گے؟ کب تک ہم بے عزتی اور اور بدنامی سے معانقہ کرنے پر مجبور ہوتے رہیں گے؟ آخر کب تک ؟؟؟ کب تک دلوں میں حزن وملال کے ساتھ تاریکی کے جزیروں کی سیاحی کرتے رہے گے؟ کب تک ہم نظام کے زیر عتاب رہتے ہوئے اپنی یاداشتوں کو زنجیروں میں جکڑ کر سب اچھا ہے کے کلمات تحریر کرتے رہیں گے؟ ہم کب اپنے اس اذلی خوف سے نجات حاصل کر پائیں گے؟ آج ایک بار پھر ذہن تھکاوٹ اور بے بسی کا شکار ہو گیا ہے،شب تاریک میں اندھیروں کا ساتھ ہے اور دلوں میں اک اضطراب ہے۔شکستہ جسم آج ایک بارپھر ضمیر کے بوجھ تلے دب گیا ہے۔اعتبار کا لمس اور محبت کا نظریہ کسی نالے کے گندے پانی مین بہہ گیا ہے۔ لیکن ایک حقیقت آج پھر آشکار ہو گئی ہے کہ یہ نظام آپ کے زخموں پر مرہم پٹی نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی آپ کا سہارا بن سکتا ہے۔۔خواہشیں پھنکارتی، اس نظام کو نضاد کے زہر سے آبیاری کرتی رہیں گی۔حکومتیں بدلتی رہیں گی لیکن یہ نظام چلتا رہے گا اور شہری گومگوں اس نظام کو اپنے کردار سے دوام بخشتے رہیں گے۔۔۔۔بدمست خواہشوں کے گھوڑے پر سوار عیاشی کا شہرزاد اپنے وجود اور خرمستیوں سے ملک عزیز کی فضاؤں کو آلودہ اورتعفن زدہ کرنے میں مصروف عمل رہے گا۔ اور ہم اس ناسور سے اپنی نظریں چرا کر کسی لاوارث جسم کی روح کی طرح بھٹکتے رہے گے۔۔۔۔۔
میم۔سین

Thursday, September 5, 2013

نظم "چالیس سال" کے جواب میں

اے درناسفتہ۔۔۔ یہ جو تیرا یقین ہے ،کوئی اس یقین کو گماں میں ڈھال رہا ہے۔اس کی باتوں میں مت آنا،ابھی تو جواں ہیں، ابھی تو سنجیدگی کے بہاؤ میں اترنے کے قابل نہیں ہے۔ اے در ناسفتہ ابھی تو اپنے گیسو دراز کے سایوں میں امنگوں کی پینگ باندھ کر آسمان کی بلندیوں تک سفر کی آشا کو مت چھوڑ دینا۔ابھی تیرے بانکپن نے جھومنا شروع کیا ہے ،اہانت انگیز رویوں کو ہنس کر ٹال دیا کر،ابھء تو اپنے ہمدم کی فکر کر،ابھی دلائل ،توجیہات کی تیری عمر نہیں ہے۔تیری عمر ابھی سرگوشیوں کی ہے۔ابھی تیری عمر اڑتے پتنگ کی طرح ہلکورے لینے کی ہے۔ابھی تو اندھیروں کے خوف سے اجالوں کی خوشیوں کو رنجیدہ مت ہونے دے۔اے در نا سفتہ تو ابھی سرگرداں رہ،کسی ان دیکھی بستی کیلئے۔جب تک تیرے اندر یہ بیقراری کا سمندر موجیں مارتا رہے گا کوئی تیرا کچھ نہین بگاڑ سکتا۔اے در ناسفتہ ابھی اپنے قلب کو ذہن کے تابع نہ کر ابھی تو کمسن نازک کونپل ہے، اپنی خواہشوں کو اسے ادھیڑ عمر پیڑوں کے سائے سے دور رکھ۔ابھی حقیقتوں کے سفر کی تیری عمر نہیں، تجھے برسوں کے ادھیڑ پن سے کیا لینا دینا تو صبا سے باتیں کیا کر۔ابھی ہنسنے کی تاویلات دینے کی تیری عمر نہیں ہے

Monday, September 2, 2013

معاملات

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ہم ایک خوفزدہ معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ ایک ایسے انجانے خوف میں مبتلا ہیں جس نے ہمارے ذہنوں کو کچھ اس طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ ذرا سی بات پر تلواریں نیام سے نکال لیتے ہیں۔ہمیں کسی نے سچ بولنے سے منع نہیں کیا لیکن اپنے اس سچ کو بیان کرنے کیلئے تلوار ہاتھ میں پکڑ کر دوسروں کے ذہنوں میں زہر گھولنے سے بچنا چاہیئے۔ جس سے ارد گرد کے لوگ بھی ہم سے متنفر ہوجاتے ہیں۔ہمیں پہلے تو اپنے اس خوف سے نجات حاصل کرنا ہوگی اور دوسرا بحث کی رسی کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر رکھنا چاہیئے کہ جہاں سے فضا خیالات کے دھویں سے بھرنا شروع ہوجائے اور منظر دھندلانا شروع ہو جائیں وہیں سے اس رسی کو ڈھیلا کرنا شروع کر دیں تا کہ بحث کا رخ تبدیل ہوجائے یا پھر وہ دھواں اس فضا سے نکل جائے۔جب ہم دوسروں کا لفظوں سے شعوری یا غیر شعوری استحصال شروع کردیتے ہیں تو ہمارے پاس برف کا پانی رہ جاتا ہے ، برف تو کبھی کی پگھل کر ضائع ہوچکی ہوتی ہے۔ہمیں اپنی نفسیاتی اور جبلی انا پسندی کے زہر کو خیر خؤاہی کے جذبے سے دور رکھنے کی ضرورت ہے
میم۔سین

Sunday, August 25, 2013

میرے قلم سے(پارٹ 3)

پچھلے ایک ہفتے کے دوران اپنے پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی کے دوران دو بار ایسے مواقع پیش آئے ہیں کہ جب میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا ہوں اور میرے پاس اس ساری صورتحال پر پیش کرنے کیلئے کوئی مناسب رد عمل موجود نہیں تھا۔پہلی بار تو تب ہوا۔جب ایک عورت جو اپنے پندرہ دن کے بچے کو دستوں کی شکائیت کے ساتھ لائی تو میں نے اس کی ماں کو سمجھایا کہ بچہ ٹھیک اس کے سنبھالنے میں کچھ مسئلے ہیں ان کو حل کریں تو یہ انشاللہ ٹھیک ہوجائے گا۔ بچے کو صرف ماں کا دودھ دینے کی سختی سے ہدائت کی اور دوسری ضروری باتیں سمجھائیں تو ماں بولی عرق دے دیا کریں تو میں کہا نہیں، گرائپ واٹر ؟ میں کہا ضرورت نہیں۔ وہ پھر بولی اس کو شہد دے دیا کریں؟ میں جواب دیا اس کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اور ایک بار پھر سمجھاتے ہوئے کہا کہ بی بی میں نے آپ کو ایک بار جب سمجھا دیا ہے کہ کہ اس کو چھ ماہ عمر تک  ماں کے دودھ کے علاوہ  کوئی چیز کھانے کو نہیں دینا تو اس کا کیا مطلب ہوا؟ ا س پر بچے کی ماں بولی کہ یہ آم کا جوس بڑے شوق سے پیتا ہے وہ دے دیا کروں ؟ اور اس سے پہلے میں کوئی جواب دے پاتا ، اس کی ساس جو اس کے ساتھ آئی تھی بولی، میں نے تو اس کو منع کیا تھا کہ آم کا جوس نہ دیا کرو آم گرم ہوتا ہے اس کو لسی دیا کرو ، وہ ٹھنڈی ہوتی ہے۔ مگر میری تو کوئی بات یہ سنتی ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔ 
اور یہ شائد پرسوں کی بات ہے کہ میاں بیوی اپنے بچے کو لیکر آئے جس کو ایک دن پہلے پانی کی کمی کی وجہ سے ڈرپ لگی تھی۔ خون کی رپورٹ دیکھنے کے بعد ان کو بتایا کہ بچے میں خون کی کافی کمی ہے اس لئے تھوڑا سا خون کا بندوبست کر لیں۔ ماں بولی کتنا چاہیئے؟ میں بتا دیا کہ تھوڑا سا چاہیئے میں لکھ کر دے رہا ہوں۔ باپ نے پوچھا کہ خون کہاں سے حاصل کرنا ہے؟ میں نے بتا یا کہ آپ اپنا چیک کر وا لیں یا پھر اپنے خاندان میں پتا کریں جس کاگروپ بھی اس بچے سے مل جائے تو وہ لگوایا جاسکتا ہے۔ ماں بولی اگر خون بازار سے لے لیا جائے تو کیسا ہے ؟تو میں کہا کہ اگر آپ سے انتظام نہ ہو پائے تو کسی بھی بلڈ بینک سے رابطہ کر لیں۔ اس پر باپ بولا خون کا انتظام کب تک کرنا ہے؟،تو میں نے جواب دیا پہلی فرصت میں کر لیں تو اچھی بات ہے۔ آج انتظام ہو جائے یا صبح تک کر لیں۔ جب سارے سوال ختم ہوگئے تو تو دونوں میاں بیوی باہر چلے گئے لیکن کچھ ہی دیر بعد خاوند دوبارہ کمرے میں داخل ہوا کہنے لگا ڈاکٹر صاحب ابھی آپ نے خون کا انتظام کرنے کو کہا تھا۔ تو پوچھنا یہ تھا خون لگوانا کس کو ہے ؟؟؟؟؟
میم ۔سین

Sunday, July 21, 2013

مولبیوں کا پاکستان

کل شام افطار سے فارغ ہوا تو حامدبھائی کا فون آگیا جو پی ایچ ڈی کے سلسلے میں جرمنی میں مقیم ہیں۔ملنے کیلئے مشتاق تھے اور مجھے بھی ان کی اچانک آمد پر خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔تشریف لائے جلدی کے باوجود ادھر ادھر کی کافی باتیں کیں۔ایک بڑا دلچسپ واقعہ سنایا کہ وہ جس سال جرمنی گئے تھے تو ہوسٹل میں قیام کا فوری بندوبست نہ ہوسکا اس لئے ایک ضعیف جوڑے کے ہاں کرایہ پر سکونت اختیار کی۔جو کہ کٹر قسم کے عیسائی تھے۔ سارے گھر میں عیسیٰ اور مریم کی تصاویر تھیں۔دیواریں صلیبوں سے بھری پڑی تھیں۔۔گھر کا کچن ہمارے مشترکہ استعمال میں تھا۔ایک شام مجھے کسی چیز کی ضرورت پیش آئی تو کچن کا رخ کیا ،وہاں پر ہلکی لائٹ کا بلب جل رہا تھا اورکھسر پھسر کی آواز آرہی تھی۔میں اندر گیا تودیکھا دونوں میاں بیوی کھانا کھانے میں مشغول تھے ۔ میں نے آدھی رات کو اس تکلف کی وجہ پوچھی تو ان کے جواب نے مجھے حیرت زدہ کر دیا کہ ہمارے روزوں کا مہینہ چل رہا ہے۔اور اس خیال سے کہ سارا دن تھکے ہارے آتے ہو کہیں ہماری وجہ سے تمہاریاآرام متاثر نہ ہوجائے اس لئے سارے کام اتنے خاموشی اور احتیاط سے کرتے تھے۔ حامد بھائی تو چلے گئے لیکن ان کا سنایا ہوا یہ واقعہ میرے ذہن سے اٹک کر رہ گیا ہے۔
آج سے چند سال پہلے تک جب رمضان کریم شروع ہوتا تھاتو اس کا مطلب ایک ماہ کیلئے زندگی کا سکون اور آرام غارت ہوجانا ہوتاتھا۔اسلام کے نام پر مولبیوں کے ہاتھوں نا صرف رمضان کا پورا مہینہ بلکہ پوری قوم کو یرغمال بنا لیا جاتا تھا۔مولوی ہوتے تو شائد کوئی شعور ہوتا، کوئی سوجھ بوجھ ہوتی۔لیکن یہ گنوار اور اجڈمولبی صرف اسلام کا نام استعمال کرنا جانتے تھے لیکن اس کی روح اور اس کے اصل سے قطعی بے خبر تھے۔ شہروں میں ان کے غضب کی شدت شائد اس قدر نہیں ہوتی تھی لیکن جو دھماکہ چوکڑی وہ دیہاتوں اور قصبوں میں مچاتے تھے اس سے کوئی بزرگ، بیمار یا طالب علم محفوظ نہیں رہتا تھا ۔ رات کے کسی پہر مساجد کے کے سپیکر آن ہوجاتے تھے اور اور پھر وہ اودھم مچایا جاتا تھا کہ خدا کی پناہ۔۔۔یہ مسجد ابوبکر ہے، رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی سپیکر کا کنٹرول بچوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور پھر جب تک سحری کا وقت ختم نہیں ہوجاتا سپیکر بند نہیں کئے جاتے۔یہ مسجد معاویہ ہے۔ ان کے قاری صاحب کو گمان ہے کہ وہ بہت خوش الحان ہیں اور رات کو ایک بجے سپیکر کھول کر قرآن شریف کی تلاوت شروع کر دیتے ہیں۔جب تھک جاتے ہیں تو سپیکر بچوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ یہ مسجد عمر ہے ۔ مولبی صاحب کو نیند نہیں آرہی اور انہوں نے ایک بجے سپیکر آن کرنے کے بعد رمضان کی آمد کے بارے میں قصیدے پڑھنے شروع کر دیئے ہیں۔یہ مسجد عثمان ہے۔ رات دو بجے سے لیکر سحری کے پانچ بجنے تک مولبی صاحب پہلے اپنی کرخت آواز میں کوئی نعتیہ شعر پڑھتے ہیں اس کے بعد سارے محلے کو باخبر کرتے ہیں کہ سحری ختم ہونے میں کتنا وقت باقی رہ گیا ہے ۔اور یہ ہلہ گلہ صرف رمضان تک ہی محدود نہیں رہتا تھا بلکہ جمعرات کی شام اور جمعہ کے روز بھی اسلام کے نام پر پورے محلے اور گاؤں کو یرغمال بنا لیا جاتا تھا،ان مولبیوں کی ذہنی پسیماندگی کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بات ان کیلئے قابل فخر ہوتی تھی کہ سارے شہر میں سپیکرز کی سب سے اونچی آواز ان کی مسجد کی ہے۔ محلے میں کسی کی کیا مجال ہے وہ اس اودھم کے خلاف ایک لفظ بھی بول جائے۔بھلا اعتراض کرکے دائرہ اسلام سے رخصتی کا سامان کرنا ہے۔دن کو چندے کے نام پر سپیکر کھلے ہیں تو راتوں کو سیرت کانفرنس کے نام پر سارے محلے کا سکون غارت کیا جا رہا ہے۔اور پھر بھی اس کو اسلام سمجھنا یہ صرف مولبیوں کی ہی سوچ ہوسکتی تھی ۔لیکن سنا ہے فرعون نے بھی اپنے جرم و جبر کے دنوں میں موسیٰ کو پال کر ایک نیکی کی تھی کچھ ایسی ہی نیکی مشرف نے اپنے دور میں ان مولبیوں کو لگام دے کر کی تھی۔
میم۔ سین

Thursday, July 18, 2013

میرانقطہ نظر


چلیں ، سوچنے سے پہلے ایک بار اپنی سوچ کا زاویہ بدل کر دیکھیں۔ ملالہ کے اس واقعے کو مذہبی رنگ سے دور رکھیں۔اس کی عمر اور جنس کی بنیاد پر بھی تشخیص نہ کیجئے۔ موجودہ قبائلی چپقلش کا بھی سہارا نہ لیں اور اس واقعے کو ایک نیوٹرل آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کریں۔چلیں نیوٹرل نہ سہی ایک پاکستانی کی نظر سے ہی دیکھ لیں۔کیا آپ کو ملالہ، خواتین کی تعلیم کیلئے ایک شمع کی مانند دکھائی دیتی ہے ؟ کیا وہ پاکستان میں خواتین کی تعلیم کیلئے ایک سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے؟ ملالہ ایک علامت ہے ، جہالت کے اندھیروں میں روشنی کی، شعور کی، بیداری کی؟؟؟ ملالہ نام ہے اس نور کا ،جس کی روشنی سے دھرتی کے سب اندھیرے شق ہوگئے ہیں۔ملالہ علامت ہے اس جدوجہد کا، جو پانی کی موجیں سنگلاخ چٹانوں پر آزماتی ہوئی اپنے لئے رستہ تلاش کرتی ہے،شائد میں یہ سوچ سکتا اور شائد یہ بات صحیح ہو تی ۔۔ اس کو درست سمجھا جا سکتا تھا اگر ملالہ علامت ہوتی محض قبائلی علاقوں کی۔ملالہ نمائندگی کر رہی ہوتی صرف طالبان کے زیراثر حلقوں کی۔ ملالہ نام  نہ ہوتا اس علامت کا ،جو ترجمانی کر رہی ہے پانچ صوبوں کی،ساڑھے نو کروڑ عورتوں کی ۔ ملالہ نمائندہ ہے پورے پاکستان کی، اس کی شہریت پاکستانی ہے اور ایک پاکستانی ہونے کے ناطے وہ بحیثیت قوم ہماری جہالت، ظلم، زیادتی، بربریت کی آواز زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ ملالہ روشنی کی ایک کرن سے زیادہ ہماری محرومیوں کی ترجمان زیادہ ہے۔ وہ علامت ہے ہماری بے روح جسموں کی،ہماری کوتاہیوں اور کمزوریوں کی، وہ نمائندگی کرتی ہے ہماری خود داری اور غیرت پر لگے دھبوں کی، جہالت اور نادانی کی کی۔۔ چند لمحوں کیلئے ملالہ کو بھول جایئے، جا کر لاطینی امریکہ کے کسی دور دراز ملک کی گیبریلا کو ذہن میں لائیں۔جو وہاں کی سماج کے خلاف لڑتے ہوئے ان کی نمائندہ بن جاتی ہے ۔ اور ملالہ کے واقعہ کو ذہن میں لائیں اور اب اس ملک کا جونقشہ اور تصویر آپ کے ذہن میں بنے گی اس کا ذ را تصور اپنے ذہن میں لائیں۔نگاہوں کے سامنے وہ خاکہ ذرا لے کر آئیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی عالمی سطح پر شناخت ہمیشہ تیزاب سے متاثرہ خواتین کی کہانیوں، زیادتی کا شکار عورتوں، اقلیتوں کے ساتھ غیر مساوی سلوک، پنچایئت کے غیر انسانی فیصلے، وٹہ سٹہ اور کم عمر کی شادیاں ہی بنتی ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی نمائندگی ہمیشہ مختاراں مائی، رمشا مسیح ، آسیہ بی بی یا یا فاخرہ جیسی خواتین سے ہی کروائی جاتی ہے؟ کیا عارفہ کریم اس بات کی مستحق نہیں سمجھی جا سکتی کہ اس کی زندگی پر فلم بنائی جائے۔جس نے پاکستان کی عورت کی قابلیت کا لوہا ساری دنیا سے منوایا۔ کیا مظفر آباد کے نواح کی زینب کو اس بات کا مستحق نہیں سمجھا گیاکہ اس کی زندگی پر امید اور حوصلے کے نام پر کوئی این جی او قائم کی جاتی جس نے زلزلے سے تباہ حال سکول میں تختہ سیاہ رکھ کر بچوں کی تعلیم شروع کر دی تھی۔ مستحق تو علی نوازش بھی تھا کہ وہ ملک کی نمائندگی عالمی فورمز پر کرتا، حق تو حکیم محمد سعید کا بھی بنتا ہے کہ اس کے تعلیمی خدمات پر کوئی فلم بنتی اور وہ کسی عالمی آوارڈکی مستحق قرار پاتی۔ چلو اس شخص کو ہی کسی فورم پر بلا کر اس کے تجربات سے فائدہ اٹھا لیا جاتا جو پنڈی کے گردوجوارمیں پچھلی کئی دھائیوں سے جھگیوں اور محنت کش بچوں کو تعلیم کے زیور سے آرستہ کر رہا ہے۔سچ بات ہے عالمی میڈیا کو پاکستان کی نمائندہ کوئی خواتین چاہیئے تھیں تو وہ ان تین بہنوں کو ہی لیکر کوئی ڈا کومنٹری بنا لیتا ، جنہوں نے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے ہوئے ایک ساتھ سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تھا۔حق تو یہ بنتا تھا کہ گوجرانوالا کی شازیہ کیلئے قومی پرچم سرنگوں ہوجاتا اور بی بی سی کی ہیڈ نیوز میں اس کی عظیم قربانی کا ذکر ہوتا۔ مستحق تو عبدلستار ایدھی بھی ہے کہ اس کی زندگی پر پر کوئی ڈاکومنٹری بنتی اور کینز کے میلے میں پیش کی جاتی، اور نوبل انعام نہ سہی اس کی نامزدگی کر کے ہی پاکستان کا نام بلند کر دیا جاتا۔لیکن نہیں ایسے کسی بھی کردار کو جو ہمارے روشن ذہنوں اور ایک مہذب معاشرے کی نمائندگی کرے اسے کبھی بھی عالمی سطح پر نمائندگی نہیں دی جاتی، کوئی بھی ہستی اس معیار پر پورا نہیں اترتی جو ایک حقیقی معنوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتی ہو۔ پاکستان کی نمائندگی کا مغرب کا معیار کچھ اور ہے۔ یہاں سے نمائندگی کا حق صرف وہ رکھتا ہے جو پاکستانی عوام کی ظلم وجبر کی داستان ہو، جو یہاں کے رہنے والوں کی فسطائیت کی زندہ مثال ہو، جہاں سے مذہبی تعصب کی بو آتی ہو۔جہاں سے فرقہ واریت کا زہر پھیلتا ہو۔ جس سے جنسی تفریق کا پہلو نمایاں ہوتا ہو۔ جہاں سے ہمارے معاشرے کے تاریک پہلوؤں کو اجاگر کیا جا سکے۔ جہاں سے ہماری وحشت اور بربریت کی داستانیں سنا کر خوف وہراس کی فضا ئیں قائم کی جاسکے۔
آخر کب تک کامیابی کا معیارمغرب کا اقرار سمجھا جاتا رہے گا؟؟؟
میم سین

Thursday, July 4, 2013

مصر کا نوحہ


جب میں بہت چھوٹا تھا تو ماسی رحمتے کا وجود میرے لئے ہمیشہ رحمت بن کر سایہ کرتا رہا۔ مجھے جب کبھی گھر سے مار پڑتی،گھر میں کسی سے ڈانٹ ملتی یا جب کبھی احساس محرومی کا زہر رگوں میں اترتا تو بھاگ کر ماسی کی جائے پناہ میں چلا جاتا۔ ان کی آغوش میں میں اپنے آنسو پونچھتا ۔جب حبس زدہ ماحول میں میرا دم گھٹنے لگتا تو میں بھاگ کر ماسی کے آنگن میں اتر جاتا جہاں ماسی کی باتوں کے تروتازہ جھونکے میری روح میں ایک تازگی پھونک دیتے تھے۔ میرا  اور ماسی کا کیا تعلق تھا؟۔ کونسا سا رشتہ تھا؟ یہ مجھے اس دن معلوم ہوا جب وہ سفید کپڑے میں لپٹی چارپائی میں لیٹی ہوئی تھی اور سارا محلہ ان کے گرد جمع تھا۔ ماسی کے مرنے کے بعد وہ پہلی رات تھی جب ساری رات میرے کمرے میں سسکیوں کی آواز گونجتی رہی تھی اور میں ساری رات خوفزدہ رضاعی میں چھپا رہا تھا۔کیونکہ یہ زندگی کا پہلا کرب تھا جو میں نے محسوس کیا تھا۔کئی دنوں تک یہ سسکیاں رات کو میرا پیچھا کرتی رہی تھیں۔ ان کے جانے کے بعد کئی دن تک دنیا پھیکی محسوس ہوتی رہی تھی۔ ایک بے معنی زندگی، جس میں نہ اداسی تھی نہ کوئی دکھ۔ بس ایک ایسا احساس جدائی تھا جس کا کوئی نام نہیں تھا۔زندگی کے اصول اور ضابطے بدل گئے تھے۔ ایک تنہائی تھی، ایک وحشت تھی۔اور پھر ان سسکیوں نے میرے کمرے میں ہمیشہ کیلیے ڈیرے ڈال لئے۔ مجھے لگتا تھا محرومیوں کا شکار کوئی انسان یا کوئی تاب ناک خواب حقیقت سے پہلے جب میرے ارد گرد دم توڑتا ہے تو تو میرا شعور جذبات کی تاب نہیں لا سکتا اور وہ کسی کتھارسس کیلئے میرے ارد گرد ایک ہالہ جما لیتا ہے ۔ جس کی روشنی میں وہ کوئی راستہ ڈھونڈنا چاہتا ہے، کوئی حل تلاش کرنا چاہتا ہے۔ لیکن میرے کمرے میں سسکیاں اس دن نہیں اٹھی تھیں جس دن ٹوکیو کے سٹیشن پر زہریلی گیس سے کچھ لوگ حملہ آور ہوئے تھے۔ یہ اس دن بھی بلند نہیں ہوئی تھیں جس دن ڈیوڈ کوریش نے خود کو اپنے سینکڑوں ساتھیوں سمیت ہلاک کر لیا تھا، اور وہ رات بھی خموشی سے گزر گئی تھی جب کم سنگ کی موت پر ساری شمالی کوریا کی عوام روتی رہی تھی۔ وہ رات بھی چپ چاپ ہی گزر گئی تھی جس دن ہیوگو شاویز کیلئے دن بھر آہیں بلند ہوتی رہی تھیں ۔ ان آہوں اور سسکیوں نے  تو برازیل کے لاکھوں لوگوں کے احتجاج کو بھی محسوس نہیں ہونے دیا تھا۔۔ لیکن اس دن ، میں رات بھر نہیں سو سکا تھا جب خلیج کی پہلی جنگ کی خبر ملی تھی۔ میری روح کس قدر مضطرب رہتی تھی جب روس کی واپسی کے بعد خانہ جنگی کی خبریں اخباروں کی زینت بنتی تھیں۔۔ میں اپنے کمرے کی وں کو کیسے بھول سکتا ہوں جس دن روسی فوجیں گروزنی میں داخل ہوئی تھیں۔ہاں اس دن میرا کمرہ ضرور چیخوں سے بھر گیا تھا جس دن طالبا ن نے کابل کا کنٹرول چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ سسکیاں اس دن بھی میرا پیچھا کرتی رہی تھیں جس دن امریکی فوجییوں نے بغداد کو اپنے بوٹوں سے روندا تھا ۔ میری راتوں کی نیند تو شامل اور زرقاوی کی موت نے بھی برباد کی تھی۔میری روح تو ان ہچکیوں میں کئی روز تک کرب کا شکار رہی تھی ۔جس دن اسامہ بن لادن کی پراسرار موت کی خبر نشر ہوئی تھی۔میں ان سسکیوں کے خوف سے فلسطین اور کشمیر سے آنے والی خبروں سے دور رہنے کی کوشش کرتا رہاہوں۔  میں ہر اس پیج کو بلاک کرتا چلا آیا ہوں جہاں شام کے قتل و غارت کی خبروں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ میں نے برما میں کٹتے مسمانوں کی خبروں کو بھی شوشل میڈیا کا پراپیگنڈہ قرار دے کر اپنے کمرے کے سکون کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ جب اخباروں میں ڈرون حملوں کی خبریں چھپنا شروع ہوئیں تو اخبار خریدنا بند کر دیا تھا۔ جس رات میرا کمرہ آہوں اور سسکیوں سے بھر جائے تو میری روح ایک بوجھ تلے دب جاتی ہے۔ ساری دنیا غمگین اور اداس ہوجاتی ہے۔میں خود کو ایک سسکتا ہوا انسان محسوس کرتا ہوں ۔ آگ کے بگولوں میں لپٹا ایک مسافر۔خلش بڑھ جاتی ہے ۔دل کو کوئی انجانا سا احساس مسلنے لگتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ تو تب ہوتا ہے جب مجھ سے کوئی پیارا چھن جاتا ہے۔ جب کوئی سر بازار میرے خوابوں کو لوٹ لیتا ہے۔جب میرے ارمانوں اور آرزوؤں کا سورج غروب ہوجاتا ہے۔لیکن یہ کیسی تلخ خبر تھی ؟جو قاہرہ کی فضاؤں سے بلند ہوئی ہے اور میرے لئے آہوں اور سسکیوں کی ایک خلش لے آئی ہے۔ بھلا میرا اور مصر کا کیا رشتہ تھا کہ میں ایک خبر سن کر ٹوٹ کر رہ گیا ہوں۔ بھیانک رات کی تاریکی اور خاموشی میں کل میرا کمرہ سسکیوں سے اتنا گونجتا رہا ہے کہ میری روح شدت جذبات سے کانپتی رہی ہے۔ ساری رات میرا دماغ غم والم سے پگھلتا رہا ہے۔ بول اے سر زمین مصر میرا اور تیرا کیا رشتہ ہے؟ کہ تیری فضاؤں سے اٹھنے والی ایک خبر نے میری زندگی اس قدر بے معنی اور پھیکی بنا ڈالی ہے۔ بول اے اہرام مصر کی سر زمین تیرا اور میرا کیا تعلق ہے ؟ تیری ہواؤں نے میرے خوابوں کو اس قدر وحشت ناک کر دیا کہ کہ میں سونے سے ڈر رہا ہوں ۔مجھے یوں لگ رہا ہے کوئی بہت زور سے طوفان آیا ہواہے۔ہوا کے تیز تھپڑوں نے بڑے بڑے پتھروں کو لڑکھڑا کر میرے اوپر پھینک دیا ہے۔میں کسی تاریک غار میں بند ہو گیا ہوں ۔ اور بہت تیز بارش اور تیز آند ھی کی آواز میرے کانوں سے ٹکڑا رہی ہے ۔میں ڈر رہا ہوں کہ کچھ ہی لمحوں بعد پہاڑوں سے بہتا ہوا یہ پانی مجھے بھی اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گا۔
میم ۔سین

Tuesday, July 2, 2013

آنکھ سے آنکھ تک

فیس بک سے دوری کی ایک وجہ تو شائد وہ فرسٹیشن تھی جو ایک حقیقی اور تصوراتی دنیا کے اختلاط سے پیدا ہوتی ہے۔ یا شائد یہ ثابت کرنا بھی مقصود تھا کہ فیس بک کا نشہ چھوڑنا میرے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔یا پھر شائد میرے اوپر وہ وہم طاری ہوگیا تھا کہ میں اتنا عظیم انسان نہیں ہوں جتنا میں حقیقت میں ہوں۔ اگرچہ یہ بات پہلے بھی کئی بار ثابت کر چکا ہوں لیکں یار لوگ اس بات پر اعتبار نہیں کر رہے تھے۔ اعتبار تو شائد وہ اب بھی نہ کریں لیکن ساری دنیا کو راضی کرنا میری زندگی کے مقصد میں شامل نہیں ہے اور نہ ایسا کوئی ارادہ ہے۔۔شائد میں اپنے آپ سے کئے گئے ایک ماہ کی فیس بک سے دوری کے عہد پر قائم رہتا اگر ایک عظیم مقصد کی طرف میرا دھیان نہ چلا گیا ہوتا۔ وہ مقصد تھا طاہر شاہ کیلئے نشان امتیاز کا حصول۔زندگی کے جس حصے میں آکر موصوف نے جو کچھ لکھا ہے اوہ اس لئے بھی قابل قبول ہونا چاہیئے کہ کہ زندگی میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جب زندگی میں خوشی اور غم کے معیار تبدیل ہو جا تے ہیں ۔ وہ ہنس رہا ہوتو لوگ سمجھتے ہیں کہ رو رہا ہے اور رو رہا ہو تو خواہ مخواہ اس کے ساتھ مل کر جگتیں لگانا شروع کر دیتے ہیں۔۔پچیس سال کی ریاضت کے بعد اس عظیم شخص نے جو کچھ تخلیق کیا ہے، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پاکستانی قوم سب کچھ بھول کر اس کو اپنی آنکھوں میں بٹھا لیتی لیکن جن آنکھوں میں بھی وہ سمایا ہے آشوب چشم کی شکائیت ہی لے کر آیا ہے۔جب سے یہ گانا منظر عام پر آیا ہے۔ میرا جوڑوں کا درد ٹھیک ہوگیا ہے،میرے ہمسائے میاں باقر صاحب کا دائمی تبخیر معدہ کا مسئلہ بھی کسی حد تک رفع ہوگیا ہے۔ میرے ایک دوست نے تو باقائدہ ایک کلینک کھول کر اس گانے کے ذریئے علاج شروع کررکھا ہے کہ دو سیکنڈ سے روزانہ سے شروع کر کے بتدریج اس کا دورانیہ بڑھا کر بہت سے ناقابل علاج امراض کا علاج ڈھو نڈ نکالا ہے۔۔اس گانے کی کی افادیت کو نہ صرف عالمی سطح پر سراہا گیا ہے بلکہ عالمی میڈیا نے اس کا برملا اعتراف کرتے ہوئے اس کے تخلیق کار کو وکی لیکس کے بانی جولین سانچے کے ہم پلہ قرار دیا ہے۔ بین الاقوامی اداروں میں جس طرح اس گانے کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند ہو جانا چاہیئے۔لیکن صورت حال اس کے بالکل بر عکس ہے۔ میں پوچھتا ہوں ملالہ کیلئے رونے والے آج کدھر ہیں ؟ آئی ٹی میں سرٹیفیکیٹس حاصل کرنے والوں کو آسمان پر چڑھانے والے خاموش کیوں ہیں ؟۔ کرکٹ کے ہیروز کو آنکھوں پر بٹھانے والوں کی زبانیں آج چپ کیوں ہو گئی ہیں ؟ڈاکٹر قدیر خان اور ڈاکٹر عطاالرحمن کیلئے گن گانے والے آج کہاں سوئے ہوئے ہیں ؟ آخر یہ قوم طاہر شاہ کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے میں اتنا بخل سے کام کیوں لے رہی ہے ؟ وہ کون سی مصلحت ہے جس نے عظمت کے اس مینار کو ڈیوڈ کوپر فیلڈ کے ہاتھوں غائب کرا رکھا ہے؟ قوم کو یہ بات کیوں نہیں بتائی جا رہی کہ سکاٹ لینڈ یارڈ نے تفتیش کے دوران ملزمان کو جب صرف طاہر شاہ کی صرف آ ڈیو ہی سنائی تھی کہ انہوں نے نہ صرف عمران فاروق کے قتل میں معاونت کا اعتراف کر لیا بلکہ منی لانڈرنگ کے کھیل کے بارے میں بہت سی باتیں اگل دیں۔کراچی کی سنٹرل جیل میں قیدیوں کو بار بار وارننگ دی گئی کہ وہ غیر قانونی حرکتوں سے باز آجائیں لیکن کوئی کاروائی بھی موئثر ثابت نہیں ہو سکی۔ جب سپیکرز پر طاہر شاہ کی آواز کو بلند کیا گیا تو ایک گھنٹے کے اندر پستولوں ، نسوار، چرس، چاقوؤں اور دوسری غیر قانونی اشیا کا ڈھیر لگ گیا۔ایک دفاعی تجزیہ نگار کے مطابق پاکستانی فوج نے بھارت کی سرحد کے ساتھ جہاں جہاں بھارتی چوکیاں موجود ہیں وہاں پر بڑے سپیکر وں کی تنصیب کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔تا کہ کسی بھی بھارتی اشتعال کی صورت میں جوابی کاروائی کے طور پر آئی ٹو آئی بلند آواز سے چلایا جائے گا۔غیر ملکی سیاحوں کے قتل میں ملوث افراد کی تلاش میں ناکامی کے بعد جب پہاڑوں میں ہیلی کاپٹرز کے ذریئے اس گانے کو بار بار چلایا گیا تو دو افراد نے فوری طور پر ہتھیار ڈال دیئے۔ شنید ہے کہ باقی اس گانے کی تاب نہ لاتے ہوئے اس جہان فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ جس کے بعد حقوق انسانی کی تنظیموں نے ایک الگ بحث شروع کر دی ہے۔ خفیہ اداروں کی طرف سے طرف سے ملزموں سے اقرار جرم کرانے کیلئے اس گانے کا استعمال جہاں طاہر شاہ کی صلاحیتوں کا اعتراف ہے وہیں پر قوم کی بے حسی پر ایک زور دار طمانچہ بھی ہے جو اس گانے کو نہ صرف حرف تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے بلکہ تمسخر بھی اڑا رہی ہے۔ 

اور قوم کی اس بے حسی نے مجھے مجبور کر دیا کہ کہ میں اپنا خودساختہ بائیکاٹ ختم کر کے طاہر شاہ کی حمائیت میں نکل پڑوں۔ اور ان کے لئے سب سے بڑا شہری اعزاز دلانے کیلئے اپنی ساری توانیاں صرف کر دوں۔

Saturday, June 15, 2013

ڈارون کا پاکستان


ڈارون جھو ٹ نہیں بولتا تھا ۔ وہ ایک سچا انسان تھا ۔ اس نے انسانی ارتقا کا جو نظریہ پیش کیا تھا وہ بالکل صحیح تھا۔ جی ہاں میں بقائمی ہوش وہواس یہ بات کہہ رہا ہوں۔ ڈارون نے جو کہا تھا وہ حرف بہ حرف درست تھا ۔ یہ جو انگریز کی بالا دستی کے سو سال تھے ۔ ان میں بغاوت کے نام پر، نفرت کی جوفصل لوگوں کے ذہنوں میں بوئی گئی تھی کہ سرکاری مال کو نقصان پہنچاؤ۔جتنا نقصان پہنچاؤ گے انگریز سرکار کمزور ہوگی۔ جہاں موقع ملے، اسے نقصان پہنچاؤ۔۔ ریلوے کی پٹریاں ہوں یا سکولوں کی عمارت، نہروں کے حفاظتی پشتے ہوں یا سڑک کنارے لگے سائن بورڈ، نئی سڑکیں ہوں یا کسی گراؤنڈ کی چار دیواری۔نقصان پہنچاؤ۔ جہاں ممکن ہواور جہاں تک ممکن ہو۔اپنی استطاعت کے مطابق نقصان پہنچاؤ۔ اگر تم بلب توڑ سکتے ہو تو وہ توڑ ڈالو، بجلی کے سوئچ کو نقصان پہنچا ؤ۔سرکاری سٹیشنری کو لوٹو۔۔ یوں ایک ارادی حرکت نسلوں کے بعد ہمارے جینز میں شامل ہوگئی ہے۔ہم آج بھی نہروں کے پشتے اکھیڑ دیتے ہیں۔ سائن بورڈ توڑ دیتے ہیں۔ سرکاری گاڑی کا استعمال اس بے رحمی سے کرتے ہیں کہ ایک سال بعد ورکشاپ میں کھڑی ہوجاتی ہے۔ ٹرین سے بلب چوری کرنا، سیٹوں کو بلیڈ سے کاٹ دینا، دیواروں کو سیاہی سے خراب کرنااب ہماری خصلت میں    شامل ہوچکا ہے اور سرکار کے بارے میں ہمارا رویہ آزادی کے بعد بھی غلامی جیسا ہے۔ حکومتوں کو بدستور گالیاں دیتے ہوئے سرکاری ملازمت کیلئے پہلی صف میں کھڑے نظر آنے والے مملکت خداد پاکستان کی عوام سرکار کو نقصان پہنچانے میں ہمیشہ پیش پیش نظر آئی گی۔کیونکہ ڈارون کے نظریے کے مطابق اب یہ عادتیں ہمارے جینز میں شامل ہوگئی ہیں اور اصلاح طلب نہیں رہی ہیں ۔ ابھی جینز میں حلول کر جانے والی یہ غلامانہ سوچ ہی اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہی تھی کہ ہم نے ترقی کی دوڑ میں اکیڈمیوں کی شکل میں برائلر مرغیوں کی طرز پر کنٹرول شیڈز قائم کر دیئے ہیں۔ جہاں ذہین طالب علموں کو رکھ کر ان میں علم کی مخصوص غذا داخل کی جاتی ہے جس کے بعد وہ امتحانوں میں امتیازی نمبر لے کر پروفیشنل اداروں میں داخل ہو رہے ہیں۔چند سالوں بعد پروفیشنل اداروں میں مکمل اجارہ داری کرنے والی اس برائلر نسل کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہے ، اپنا کوئی وژن نہیں ہے۔پچاس کی دھائی میں افغانستان کے طالب علموں کو سکالرشپ دے کر ماسکو کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے بعد ذہن سازی کیلئے کسی کے جی بی کی ضرورت نہیں تھی، ملک کے سکالرز اور پروفیسرز کو کانفرنسوں میں بلا کر پورے روس کی سیر کرانے کے بعد ان کے نظریات بدلنے کیلئے کسی لابی نے کام نہیں کیا تھا۔یہ بھی ایک طرح کی مرعوبیت تھی جس نے ٹینکوں پر سوار ہو کر ریچھ کو کابل آنے کی دعوت دی تھی۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی طرف سے ذہین طلبا کو سکالرشپ دے کر نام نہاد ترقی یافتہ مملک کی یونیورسٹیوں میں بھیج کر کر ان کے ذہن جو پہلے ہی کوئی وژن یا شعور نہیں رکھتے تھے اب مرعوبیت کا داغ سینوں میں سجائے پاکستان جیسے ملکوں میں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کی وجہ اسلام کو بتاتے ہیں۔اور مسلم ممالک کے سارے اجتماعی گناہ ایک ٹوکری میں ڈال کر سارا ملبہ اسلامی تحریکوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ملا کو حرف تنقید بنانااور سارا کیچڑ اس کی گود میں ڈال کر اپنی تمام اجتماعی ذ مہ داریوں سے عہدہ برا ہوجانا، اس مرعوب نسل کا خاص طرہ امتیاز ہے۔میڈیا کی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے والی اس نسل کو وہی کچھ دکھایا جاتا ہے ،جو ان کو دکھایا جانا مقصود ہوتا ہے۔۔ ایک نسل تک تو یہ سب کچھ غیر محسوس انداز میں ہوتا  رہے گا اور پھر ڈارون کے قانون کے مطابق ان کے جینز میں ڈھل جائے گا اور پھر کوئی سوچ اور اور کوئی فکر ان کو تبدیل نہیں کر سکے گی۔کالاباغ ڈیم کا مسئلہ طالبان کا پیدا شدہ ہے۔ اور طالبان کے ہی کہنے پر نااہل افراد سفارت خانوں میں تعینات کئے جاتے ہیں جو ہماری شناخت پر لگے دھبوں پر کالک پھیر کر اسے مزید نمایاں کرتےنظرآتے ہیں۔ ان ملاؤں کے کہنے پر ہی پچھلے ساٹھ سالوں سے میرٹ کا استحصال ہوتا چلا آیا ہے اور ہر اہم عہدے کو مال مفت سمجھ کر لوٹا گیا۔اور یہ اسلامی شدت پسند ہی تھے جن کے کہنے پر لیاقت علی نے روس کا دورہ منسوخ کیا اور نہر سویز کے مسئلے پر مصر کی بجائے برطانیہ اور فرانس کی حمایئت پر مجبور کیا۔ ان وحشی مذہبی جنونیوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کردار ادا کیا اور بھٹو کو تمام صنعتی اور تجارتی اداروں کو قومیا کر ملک کی معیشت کا جنازہ نکالنے کیلئے کہا۔ اور ان ہی ملاؤں نے ہر ڈکٹیٹڑ کے ساتھ حلف وفاداری دینے پر قابل احترام ججوں کو مجبور کیا۔یہ ملا ہی تھے جنہوں نے کشمیر میں فوج داخل کرنے کے قائداعظم کی حکم  عدولی پر مجبور کیا تھا ۔گورنر غلام محمد جیسے لوگوں کو صدارت کے محل تک پہنچایا تھا۔قلات کے ولی سے صلح کا معاہدہ کر نے کے باوجود پھانسی  پرچڑھا دیا تھا۔یحیی خان کو طالبان کے ہی تو کہنے پر صدر بنایا گیا تھا۔ ان مذہبی جنونیوں نے روس کو افغانستان آنے کی دعوت دی اور پھر ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر کو پورے ملک میں پھیلا دیا۔ان مذہبی طبقہ فکر کی وجہ سے آج تک ہماری کوئی یونیورسٹی انٹرنیشنل رینکنگ حاصل نہیں کر سکی۔ ان ملاؤں نے سائنسدانوں کی حوصلہ شکنی کی اور ملک کو ٹیکنالوجی سے ہمیشہ دور رکھا۔اور یہ مولویوں کا ہی کیا دھرا ہے جو آج پبلک سروس کمیشن سے لیکر سول سروس جیسے ادارے بھی متنازعہ ہوگئے ہیں۔اور رینٹل پاور سکینڈل، این ایل سی سکینڈل، اوگرا فراڈ کیس، حارث سٹیل مل کیس، سوئس اکاؤنٹس سے لیکر کر سٹیل مل اور ریلوے کی تباہی میں یہ مذہبی حلقے ہی تو شامل رہے ہیں۔ ملک عزیز کی ترقی میں حائل صرف ملا ہے۔ اس لئے اس ملک سے مذہب کو نکال پھینکو۔۔۔۔ڈارون سچا تھا۔ ایک نسل کو دھوکے اور فریب میں رکھواور اپنی سوچ کی عینک ان کی آنکھوں پر چڑھا کراپنی مرضی کی دنیا دکھاؤ، اگلی نسل کو قابو کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی
میم۔سین