Thursday, January 31, 2013

بڑھاپا


جب تم میرے ساتھ تھے
میں نے سیکھنا چھوڑ رکھا تھا

چاند کے ہیولوں میں 
تیری تصویر بن لیتا تھا
ساحل کی گیلی ریت پر ہاتھ رکھ کر
میں تجھے سوچ لیتا تھا
سرد ہوا کے جھونکے مجھے چھونے آتے
تو
تیرے ہاتھوں کی لمس جان لیتا تھا
پانیوں سے ٹکراتی کرنیں دیکھ کر
میں
تیری مسکراہٹ پہچان لیتاتھا
جب سائے تھک کر نڈھال ہو جاتے
میں
تیری آنکھ سے نظارے دیکھ لیتا تھا
مگر
اب تم نہیں ہو
مجھے کچھ سیکھنا پڑے گا
تنہائی کس کو کہتے ہیں
ہجرکا روگ کیاہے
رت جگے کس کو کہتے ہیں
دیوانگی کیا ہے
وحشت کس کو کہتے ہیں 
بے بسی کیا ہے
اجنبی کس کو کہتے ہیں 


آج میں اداس بھی ہوں 
اور
تنہا بھی 
تیرا ساتھ ہے
نہ تیری واپسی کا سہارا
جینے کیلئے سیکھنا پڑے گا
اور سیکھنے کی اب عمر نہیں ہے
میم ۔ سین

Wednesday, January 30, 2013

اثاثہ


یہ کوئی ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے جب مجھے کھانسی کی تھوری سی تکلیف کا احساس ہوا لیکن مجھے نہیں پتا تھا کھانسی کا یہ ننھا سا بیج کتنا تناور درخت بن جائے گا۔اور معمولی سی کھانسی سے کھانسی کے بھوت میں تبدیل ہوجائے گا۔ ان چند دنوں میں کوئی انٹی بائیٹک نہیں چھوڑی اور کوئی ایسا کف سیر پ نہیں جس کا ذائقہ نہ چکھا ہو۔ دن تو جیسے تیسے گزر جاتا ہے، لیکن راتیں کسی نائٹ میئر میں ڈھل گئیں ہیں۔ کبھی کوئی ویمپائر بن کر ڈرانے آجاتا ہے۔ تو کبھی کوئی بھوت کانوں میں سرگوشیاں کرنے لگتا ہے۔ ساری رات کھانسی کا دورہ کچھ ایسے رہتا ہے کہ کھانسی کے شربت پی، پی کر اور ٹوٹکے کرنے کے بعد صبح آنکھ کھلنے کا نام نہیں لیتی۔
 پکا ارادہ کرتا ہوں کہ آج سارا دن اپنے کمرے میں گزاروں گا۔لیکن جس دن سے کھانسی کے اس بھوت نے مجھے اپنے حصا ر میں لیا ہے، مریضوں کی تعداد میں بھی غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے ۔جب بستر سے نکلنے میں کچھ دیر لگاتا ہوں ، کلینک سے فون کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو جاتی ہیں
فوراً کلینک پہنچیں، کسی دائی کے ہاں تھوری دیر پہلے بچہ پیدا ہوا ہے ، سانس کی کافی تکلیف ہے، ہم نے آکسیجن لگا دی ہے۔
کل جس بچے کو خون لگایا تھا وہ ایک سو چار بخار کے ساتھ آیا ہے ہم نے پٹیاں شروع کرا دی ہیں ۔ 

چھ ماہ کا بچہ پہنچا ہے، تیز بخار ہے ،تھوڑے تھوڑے جھٹکے محسوس ہو رہے ہیں۔
ایک اور بچہ آیا ہے ایک ہفتے سے دستوں میں مبتلا ہے اب تو اس کا پانی بالکل ختم ہے۔ 

خسرے کے ساتھ دو بچے ایک سو پانچ بخار کے ساتھ آئے ہوئے ہیں ۔ بخار کی دوائی پلا دی ہے لیکن کافی دیر سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔
 اور میں اپنے آپ کو او ر اپنے پروفیشن کو کوستا ، د و ڈبے پانی کے سر میں بہا کر ، ایک کپ چائے گلے میں انڈیل کر، تیزی سے تیار ہو کر کلینک کے لئے نکل پڑتا ۔ سارا راستہ اس سوچ میں گم، کیا یہ اخلاقی اور جذباتی بلیک میلنگ نہیں ہے؟ ۔ کیا میرے کلینک کے بغیر ان لوگوں کا گزارہ نہیں ہو سکتا؟۔ میں کلینک بند کر کے بیٹھ بھی جاؤں تو کسی نہ کسی کوئیک کی دوا نے اثر کرنا ہی ہے۔۔ اسی ذہنی کشمکش میں سارا دن مریضوں کے درمیان کچھ کھانستے اور کچھ دوایاں پھانکتے گزر جاتا۔ اور رات کو پھر بھوت وارد ہو جاتا اور وہی بے سکونی، بے آرامی۔رت جگا ، زہنی ہیجان،۔۔۔

جب میں لکھنے بیٹھتا ہوں تو کوشش کرتا ہوں تحریر میں ذہنی یکسوئی برقرار رکھنے کیلئے موضوع کو ایک ہی بیٹھک میں ختم کرڈالوں۔ مگر جب پچھلا مضمون ’’ یقین‘‘ لکھنے بیٹھا تو ذہن، کھانسی کے شر بتوں اور نیند کی بے آرامی سے اس قدر دھندلا چکا تھا کہ مضمون کو مکمل کرنے میں پورے دو دن لگ گئے۔ مریض کا نسخہ لکھنے کے بعد دوبارہ پڑھتا ہوں، کہیں دوا لکھنے میں کوئی غلطی تو نہیں کر بیٹھا۔
]اس کھانسی کے بھوت کی شہرت میرے بہت ہی عزیز بزرگ حافظ عبد اللہ صاحب تک پہنچی تو کل شام وہ میرے پاس تشریف لائے ۔حافظ صاحب ایک مقامی درس میں پڑھاتے ہیں اور ساتھ میں اپنے ذاتی کاروبار کی بھی نگرانی کرتے ہیں ۔ جب بھی ملتے ہیں، اتنے خلوص اور پیار سے کہ ان کی موجودگی میں دنیا کے سارے دکھ اور غم غائب ہوجاتے ہیں ۔ آتے ہی شکوہ کیا ، کل ہی تو آپ سے فون پر بات ہوئی تھی۔ لیکن آپ نے اپنی تکلیف کا ذکر تک نہیں کیا۔ یہ کچھ ملٹھی اور چھوٹی مکھی کا شہد لایا ہوں۔ ملٹھی کو کسی کونڈی یا گرائنڈر میں پیس لیں ۔ اور چائے کا آدھ چمچ سفوف لے کر اتنے شہد میں ملا لیں اور نیم گرم پانی یا دودھ میں ملا کر لینا شروع کر دیں ۔ انشاللہ کل صبح تک  آفاقہ ہونا شروع ہو جائے گا۔
میں نے شکریہ کے ساتھ ان سے دونوں چیزیں لے کر اپنے میز کی دراز میں رکھ لیں کیونکہ میرا ارادہ ان کو استعمال کرنے کا نہیں تھا بلکہ میں نے اگلی صبح دو دن کیلئے اپنے بھائی کے پاس لاہور جانے کاپروگرام بنا لیا تھا۔ شہر سے باہر کمپنی کے طرف سے دیے گئے بڑے سے گھر کو آباد رکھنے کیلئے بھائی نے کچھ مرغیا ں بھی رکھ چھوڑی ہیں۔ کچھ خرگوش بھی ہیں ۔ آسٹریلین طوطوں کے بھی بیسیوں جوڑے ہیں۔ دودھ کیلئے ایک بھینس بھی ہے۔ لان میں جہاں پھولوں کی کیاریاں ہیں وہاں موسمی سبزیاں بھی دیکھنے کو ملیں گی۔۔ دو دن اس کلینک کی روٹین سے دور رہوں گا توکھانسی کا بھوت خود ہی بھاگ جائے گا۔
شام کو کلینک سے فارغ ہو کر گھر جانے سے پہلے کچھ ضروری سامان لینے کی غرض سے قریبی بیکری کا رخ کیا۔ جیسے ہی بیکری کے اندر داخل ہوا ہوں۔ چھینکیوں اور کھانسی کا دورہ پر گیا۔ دکاندار کو مطلوبہ اشیا کی فہرست تھمائی اور تھوڑٰا جلدی کرنے کو کہا۔ میرے ساتھ ایک بزرگ کھڑے تھے مجھے مسلسل کھانستا دیکھ کر بولے کوئی دوا وغیرہ نہیں لی؟ میں نے مسکرا کو جواب دیا ۔ دوا تو بہت استعمال کی ہے لیکن بہتری کے آثار نظر نہیں آرہے۔ بزرگ اپنے سامان کے بل کی ادائیگی سے فارغ ہوئے تو ا یک بار پھر میری طرف متوجہ ہوئے۔ اگر بر انہ محسوس کریں تو ایک مشورہ دوں ۔ یہاں چونگی نمبر ۵ کے پاس ہی ڈاکٹر مبشر کا کلینک ہے۔ ایک بار ان سے ضرور مشورہ کر لیں ۔ صبح ذرا دیر سے آتے ہیں ، رش کی وجہ سے شائد آپ کو کچھ انتظار بھی کرنا پڑے ۔ لیکں ان سے مل کر باہر نکلیں گے تو آدھے ٹھیک ہو چکے ہونگے۔ میں خود تو ان کے پاس کبھی نہیں گیالیکن میرا پورا خاندان ان کے پاس ہی جاتا ہے۔
ان بزرگوں کا مشورہ سن کر میں نے جلدی سے اپنا سامان سمیٹا اور گاڑی میں آکر بیٹھا ہی تھا کہ ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور دو موٹے آنسو میری آنکھوں سے بہہ کر میرے گالوں تک آگئے۔وہیں سے کلینک فون کیا ، میرا لاہور کا پروگرام کینسل ہو گیا ہے۔ راشد کے ہاتھ میری دراز سے ملیٹھی اور شہد کی بوتل مجھے گھر پہنچا دیں۔ میں جو پچھلے ایک ہفتے میں شخصی طور پر کھنڈر بن چکا تھا، گھر پہنچتے پہنچتے ایک مضبوط عمارت میں بدل چکا تھا۔۔میں نے محسوس کیا ہے کہ رات میری نیند بھی بہتر رہی ہے اور جب سے قلم پکڑ کر یہ تحریر لکھ رہا ہوں کھانسی کا ایک بھی دورہ نہیں پڑا
میم سین

Monday, January 28, 2013

یقین

یہ ۱۹۹۹ کی بات ہے اپنے بڑے بھائی کی مدد سے ایک کمپیوٹر خریدا ۔ ایم ایم ایکس ۱۶۶ ، جس کے اندر ۶ ۱ ایم بی کی دور ریمیں لگی ہوئی تھی۔ ۱۶ ایم بی کی نئی ریم کوئی بارہ سے پندہ سو تک مل جاتی تھی اور تقریباً ساری تائیوان سے آتی تھیں۔ اسی سال آنے وا لے زلزلے میں ریم بنانے والی کمپنی کی تباہی کے بعد پاکستانی مارکیٹ میں ان کی قیمت دگنی ہو گئی تھی ۔

 ان دنوں سافٹ ویئر کی سی ڈی کی قیمت سو روپے اور اور ویڈیو سی ڈی اس سے بھی مہنگی ملتی تھی ۔ میرے سسٹم کی ہارڈ ڈسک کوئی ساڑھے سات سو ایم بی تھی۔جو کہ ناکافی تھی اور اسے جب اپ گریڈ کر کے اڑھائی جی بی میں تبدیل کیا تو کوئی اڑھائی ہزار روپے کا خرچہ ہوگیا تھا۔ابھی ہارڈ ڈسک کے پہنچائے گئے مالی صدمہ سے نہیں نکلا تھا کہ سسٹم کے بورڈ نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا۔جب ہر مکینک اسے صحیح کرنے میں ناکام ہو گیا تو وہ بھی نیا خر یدنا پڑا۔ یوں میں کوئی پانچ ہزار روپے کا مقروض ہوگیا۔
گھر سے اس فضول خرچی کیلئے مدد مانگنا ممکن نہ تھا۔ اور جھوٹ بول کر یا کوئی بہانہ لگا کر پیسے ہتھیانے کے ہنر سے میں بے خبر تھا۔فائنل ائر کے امتحان سر پر تھے اور میں قرض کی فکر تلے دبا ہوا۔ دوستوں نے جتنا تعاون کرنا تھا ، وہ انہوں نے کیا، لیکن زمانہء طالبعلمی کے تعاون کی بھی ایک حد ہوتی ہے ا ور اس دن جب سارے رستے بند پائے تو عصر کی نماز اپنے کمرے میں ادا کی اور گرگرا کراللہ کے سامنے سارے ہتھیار گرا دیے کہ اب سب کچھ تیرے حوالے۔ اگر تو میرا مسئلہ حل نہیں کرتا تو میرے پاس بھی اب کوئی او ر سہارا نہیں ہے۔ 
نماز سے فارغ ہونے کے بعد ایک د وست کو ضروری کال کرنے کی غرض سے ٹیلی فون بوتھ پہنچا۔ ابھی کریڈل ہاتھ میں تھاما تھا کہ نظر سامنے لگے ایک اشتہار پر پڑی۔ جس پر بچوں کیلئے ٹیوٹر کی مانگ کی گئی تھی ۔ ساتھ میں رابطہ نمبر بھی تھا گھر کا ایڈریس دیکھا تو فیصل ٹاؤن درج تھا یعنی جناح ہسپتال کے بالکل دوسری جانب ۔ یہ سوچ کر کہ ہزار روپے بھی مل گئے تو موقع اچھا ہے ۔ کوشش کر کے دیکھ لیتے ہیں اور دوست کی بجائے اشتہار پر درج نمبر ڈائل کر دیا۔ایک بارعب آواز نے فون اٹھایا اور بالمشافہ ملنے کو کہا۔ ملنے کا وقت طے پا گیا۔میٹرک کی ایک لڑکی او ر اسکے او لیول کے بھائی کو روزانہ ایک گھنٹہ وقت دینا تھا۔ معاملات طے پا گئے تو بولے کتنی فیس لو گے ابھی میں کچھ کہنہ ہی چاہتا تھا وہ صاحب بولے اڑھائی ہزار سے زیادہ میں نہیں دے سکتا۔ اس سے زیادہ لے کر میں کرتا بھی کیا۔ فوراً ہاں کر دی۔
 دو ماہ بعد جب قرض کی ادائیگی سے فارغ ہوا تو۔زندگی کے اس کمزور موڑ پر دعا کی قبولیت جس انداز میں ہوئی اس نے ہمیشہ کیلئے میرے ہاتھوں میں اپنے رب پر یقین کا اسم اعظم تھما دیا ۔
اور یہ اسم اعظم آج بھی میری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ یہ تو اتنی آسانی سے قبول ہوجاتی ہیں تو پھر لوگ کیوں شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری دعائیں داخل دفتر ہوجاتی ہیں۔ ہمْ اپنے رب سے ما نگ تو رہے ہوتے ہیں مگر شک کی نظر سے۔ دعا تو کرتے ہیں لیکن ہمیں اپنے رب کی قدرت پر یقین نہیں ہوتا ، اس کی صلاحیتوں پر شک ۔ اس کے اثر و رسوخ پر شک۔
جو ہستی کروڑوں اربوں کہکشائیں تخلیق کر کے ان میں اربوں ستاروں کی ترتیب قائم رکھ سکتی ہے ۔ جو ہستی دو خلیوں کو ملا کر کھربوں خلیوں کے انسان میں ڈھال سکتی ہے۔کیا اس کی قدرت پرپر شک ہوتا ہے؟ یا اس رب کی طاقت پر جو ایک چھوٹے سے بیج سے سو فٹ کا درخت کھڑا کر دیتا ہے۔، وہ رب جو پانی کو بہا کر پہاڑوں سے سمندروں تک پہنچاتا ہے اور پھر اس پانی کو دوبارہ سمندروں سے پہاڑوں تک پہنچا دیتا ہے۔ اس کی ربوبیت کے آثار ڈھونڈتے جاؤ اور اس کی عظمت کا سکہ دلوں میں کیسے نہیں بیٹھتا ؟ اگر دیکھنے والی آنکھ ہو تو کائنات کی ہر ہر چیز میں حسن وجمال نظر آئے گا ۔سبزہ ہو یا دریا، پہاڑ ہوں یا وادیاں ، بادل ہوں، سورج چاند ، ستارے ہوں۔ دھنک کے رنگ ہوں یا پھولوں کے۔پوری کائنات ایک حسن کمال کا شاہکار ہے۔ تو پھر اس تخلیقی شاہ پارے کے اصلی فنکار کے بارے میں کیا خیال ہے؟۔ فن پاروں کا یہ عالم ہے تو پھر اس فنکا ر کا اپنا عالم کیا ہو گا؟۔اس شعور اور اس کے تخلیقی ہنر کی داد اس کے اصل فنکار کو کیوں نہیں ملتی ؟ اس کی غائبانہ عظمت اور وجاہت کی دھاک ہمارے دلوں پر کیوں نہیں بیٹھتی؟۔
 پوچھو ان ستاروں سے سے جو رات کے اندھیروں میں روشنی پھیلاتے ہیں ، پوچھو ان دریاؤں سے سے جو ہزاروں فٹ کی بلندی سے بہتے ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرتے ہیں ، پوچھو ان ہوا میں تیرتے پرندوں سے ، پوچھو آفتاب کی کرنوں سے وہ کس کی ثنا بیان کرتے ہیں وہ ذات کس قدر عظیم ہو گی ۔وہ ہستی کس قدر پرشکوہ ہوگی جو یہ سارے نظارے ڈھال رہی ہے۔کیا اس کائنات کی ترتیب یا اس کا تناسب کبھی خراب ہوا یا کبھی تبدیل ہوا ؟۔
یہ وہ عظیم ہستی ہے جو روز اول سے ہے اور روز آخر تک رہے گی۔ جو صاحب علم بھی ہے اور صاحب اختیار بھی۔ تو اس کی عظمت، بزرگی، قوت، طاقت اور قدرت کو تسلیم کیوں نہیں کرتے؟ جب یقین ہے تو کامل کیوں نہیں ِ ؟ قبول نہ ہونے کے شک کا بیج کیوں؟ اپنے رب کے بارے میں انسانی طرز فکر کیوں؟ کہ شائد جیسے کسی بڑے افسر سے ملنے کیلئے کسی کی سفارش کی ضرورت ہو گی یا کسی چپڑاسی کی مٹھی گرم کرنا پڑے گی تو ہی کوئی بات بنے گی۔ اس زمین کو وجود میں آئے ساڑھے چودہ ارب سال ہو گئے ہیں ، تاریخ دان دس ہزار سال پہلے حضرت ٓدم کو ڈھونڈ نکالتے ہیں اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کو تو آئے ہوئے صرف چودہ سو سال ہوئے ہیں۔ تو اتنے سالوں تک اس کائنات کا نظام چلانے کیلئے ہمارے رب کا ہاتھ کون بٹاتا رہا ہے؟
 وہ تو بے نیاز ہے ، نہ کسی سے پیدا ہونے والا نہ کسی کو جنم دینے والا، نہ جس کو نیند آتی ہے نہ اونگھ، سنتا ہے اتنے قریب سے کہ ہماری شہ رگ بھی دور لگتی ہے، وہ کُن ،ابھی کہ نہیں پاتا اور کائناتیں وجود میں آجاتی ہیں ، جن کا نہ شمار ہے نہ کوئی حساب ہے ، وہ جو لامحدود علم کا مالک ہے تو پھر اس سے مانگنے کیلئے سفارش کیسی؟ ، قطار بندی کا انتظار کیوں؟ دعائیں تو التجائیں ہیں اپنے رب سے ۔جو خود  توکسی کا نہیں لیکن جس کی ساری کائنات محتاج ہے۔ مانگنے کا کوئی وقت نہیں ، مانگنے کی کوئی حد نہیں ، جب پریشان ہو تب بھی مانگو جب خوشحال ہو تب بھی مانگو وہ تو خوش ہوتا ہے مانگنے پر اور ناراض ہو جاتا ہے اگر کچھ اس سے نہ مانگا جائے۔
 لیکن جب مانگو تو ایسے کہ وہ اصرفتمہاری سن رہا ہے اور قبول کرے گا ۔اتنے یقین کے ساتھ ، جو اس بچے کو تھا جو نماز استسقا ادا کرنے گیا تو ساتھ چھتری بھی لے گیا تھا

میم ۔ سین

Saturday, January 26, 2013

فرار


ہمارے شہروں میں عمو ماً اور دیہاتوں میں خصوصاً دستی چادروں سے بنی پیٹیاں استعمال ہوتی ہیں ۔یہ پیٹیاں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک تو سردیوں کے کپڑے ، رضا ئیاں، کھیس سنبھالنے کے کام آتی ہیں۔ سارا سال بند رہنے کے بعد سردیوں کے شروع میں یہ پیٹیاں کھول کر سارا سامان نکال کر دھوپ لگوائی جاتی ہے ۔ اور سردیوں کے بعد اسی طرح دھوپ لگوا کر، فینائل کی گولیاں لکھ کر ان کو دوبارہ بند کردیا جاتا ہے۔ دوسری قسم کی پیٹیوں میں سامان کی نوعیت تو پہلی پیٹیوں جیسی ہوتی ہے لیکن ان کا استعمال صرف اس وقت ہوتا ہے جب گھر میں کوئی مہمان آتا ہے یا محلے میں کوئی شادی ہوتی ہے ۔۔ان پیٹیوں میں جب سامان رکھا جاتا ہے تو پہلے پرانی اخباریں بچھائی جاتی ہیں ، پھر فینائل کی گولیاں رکھی جاتی ہیں اوجن پیٹیوں کا استعمال سالانہ ہوتا ہے ان کی اخباریں تو عموماً سال بعد تبدیل ہوجاتی ہیں لیکن مہمانوں والی پیٹیوں کی اخباریں کئی کئی سال تبدیل نہیں ہوتیں۔کیونکہ یا تو وہ کھلتی ہی نہیں اور اگر کھلیں بھی تو ایک آدھ چیز استعمال ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہ اخباریں اتنی قدیم ہوتی ہیں کہ شائد خود اخبار والوں کے ریکارڈ میں بھی نہ ہوں۔ سردیوں کے آغاز پر نکلنے والی یہ اخباریں ہمیشہ میری دلچسپی کا مرکز رہی ہیں ۔ رشتے دار ہوں یا محلے دار، میری اس دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اخباریں مجھ تک پہنچتی رہی ہیں۔ اور ان اخباروں اور تراشوں کا ایک وسیع ذخیرہ میرے پاس جمع رہا ہے۔ان پرانی اخباروں کا تعلق بھٹو، ضیا اور بینظیر اور نواز شریف دور سے ہے ۔ ایک دو صفحہ ایوب دور سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ان اخباروں کی ورق گردانی سے ناصرف کچھ حقائق سے واسطہ پڑتا ہے بلکہ بہت سی دلچسپ معلومات سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔۔ لیکن سارے ادوار سے گزر کر ایک بات واضح ہوتی ہے کہ عوام کے مسائل ان چالیس سالوں میں تبدیل نہیں ہوئے۔مہنگائی، جرائم میں اضافہ، لاقانونیت، کرپشن،بیروزگاری کی داستانیں سب کچھ آج بھی ویسا ہے جیسا ایوب دور میں تھا۔ اور یقیناً اس پہلے بھی ہونگے۔ نواز شریف کے پہلے دور میں آٹے کے بحران نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا، سیلاب کی تباہ کاریاں ، جرائم اور ڈی نیشنلائزیشن کی خبریں کافی جگہ لیتی رہیں۔ بے نظیر دور میں میوزک ۸۹ نے حکومت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں تھیں حتی کہ وزیر اعظم کو اس کی ریکارڈنگ منگوا کر دیکھنا پڑی کہ آخر وزارت اطلاعات نے کون سے گناہ کا ارتکاب کر ڈالا ہے۔ اڈیٹر کے نام ایک خط میں نیوز کاسٹر کے سر سے ڈھلکتے آنچل پر سخت تنقید کی گئی ہے ۔ کہ آجکل ان کے سر کے بال کافی نظر آنا شروع ہو گئے ہیں ۔ ضیا دور میں ایک اڈیٹر کے نام خط میں عشاہ کی اذان کو ہاکی میچ کی وجہ نشر نہ کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنا یا گیا اور اشتہاروں کی وجہ سے وقت اوپر نیچے نہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اسی دور میں چھپنے والے ایک مضمون میں فلموں میں بڑھتی ہوئی فحاشی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور بطور مثال کچھ فلموں کے نام اور سین کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ایک خبر میں ٹرانسپورٹ کے بڑھائے گئے کرایوں کو عوام کے ساتھ زیادتی قرار دیا گیاہے۔ایک مضمون نگار نے نہایت سہمے ہوئے انداز میں طلباء تنظیموں پر پابندی پر حکومت سے نظر ثانی کی درخواست کی گئی ہے۔ضیا دور میں زیادہ تر خبروں کا تعلق سماجی ادبی محفلوں کی کاروائی، تاجر تنظیموں کے مطالبے،سیرت کانفرنس اور یوم ٓازادی کی تقاریب کی روداد، وزیروں کی کالجوں میں ہونے والی مجالس سے خطاب نماز کمیٹیوں کی کارکردگی،سماجی کارکنوں کے بیانات سے تھا۔ خبروں اور موضوعات کی قلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انار کلی میں قتل ہونے والے ایک تاجر کی کہانی اور اور اور اس پر ہونے والی روزانہ کی کاروائی کئی ماہ تک نوائے وقت کے صفحہ اول کی زینت بنتی رہی تھی۔بھٹو دور کے آخری دنوں میں الیکشن کمیشن پر اپوزیشن کی سخت تنقید، اور شفاف اور آزاد الیکشن کی ضرورت پر اخبارات بھری پڑی تھیں ۔اگر انتخابات میں دھاندلی کی گئی توسولہ دسمبر کا سانحہ دوبارہ دھرائے جانے کا خطرہ بیان کیا گیا ہے ۔ ایک اور اخبار کے اداریے میں شراب کے بڑھتے ہوئے رجحان اور نوجوانوں کی بے راہروی کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ ایک اخبار میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ، کرپشن اور رشوت کے رجحان پر ، حکومت پر سخت تنقید کی گئی ہے ایک مضمون نگار نے مخلوط نظام تعلیم کو ایک طوفان سے تشبیہ دیتے ہوئے خواتین کی الگ یونیورسٹی کا مطالبہ کیا ہے۔ایک اور اخبار میں چینی کی راشن بندی اور مٹی کے تیل کی عدم دستیابی پر حکومت کو سخت سست قرار دیا ہے۔ اور مسائل سے لاتعلقی اور حکومتی بے حسی کو رنگیلا شاہ کے دور سے ملاتے ہوئے لکھا ہے کہ عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دب چکی ہے اور حکومت رنگ رلیوں میں مصروف ہے۔انیس سو بہتر کے ایک اخبار میں اداریہ ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم پر ہے۔ ایڈیٹر نے لاقانونیت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی پر جو نقشہ کھینچا ہے آج کے اخبار میں بھی چھپ جائے تو کسی کو علم نہیں ہوگا کہ یہ چالیس سال پہلے لکھا گیا تھا۔انیس سو تہتر کی ایک اخبار کے صفحہ اول پر وحشیانہ قتل کی داستان چھپی ہوئی ہے۔لرزہ خیز واردات پر علاقے کے لوگوں کا یہ بیان کہ حکومت لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں پوری طرح ناکام ہوچکی ہے کو بھی کافی نمایا ں جگہ دی گئی ہے ۔انیس سوچھہتر کے ایک اخبار میں لکھے گئے مضمون میں یہ بتا یاگیا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری سے لوگوں میں خودکشی کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ایک اخبار کے صفحہ اول پر ڈی سی ٖصاحب کے دفتر کے باہر خود سوزی کرنے والے شخص کی خبر خاصی نمایاں ہے ۔ گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والی لڑکیوں کے نام بھی بھی ف ج کے ناموں سے ملتے ہیں۔ غیرت کی بنیاد پر قتل کی خبریں بھی اندرونی صفحات پر ملتی ہیں ۔لیکن میں حیران ہوں تو اس بات پر کہ کئی دھائیاں بیت گئیں لیکن ہمارے بنیادی مسائل وہی ہیں ۔ نا ختم ہونے والا ایک ایسا سلسلہ جس کی شرح میں ہر روز اضافہ ہوا ہے لیکن کم و بیش عوام کو ان مسائل کا سامنا ہے جس کا وہ قیام پاکستان سے بھی پہلے سے مقابلہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ہر سال جب نیا سال آتا ہے تو ہماری عوام یہ امید باندھ لیتی ہے کہ آنے والا سال ہر نعمت لئے چشم راہ ہوگا۔لذت آفرینی ہوگی۔ نیا سال ایک نیا شعور لے کر آئے گا۔ گمان اور خواب حقیقت میں ڈھلیں گے۔برس ہا برس کی حسرتیں ہیں مضطرب ایک کیفیت ہے جو شائد اپنی منزل پائیں گی۔ مگر یہ کبھی ہو نہ سکا جو مسائل ہمارے کل تھے وہ آج بھی ہیں اور کاش میرا گمان جھوٹ بول رہا ہو، کل بھی رہیں گے۔ 
لیکن میں پرامید رہتا ہوں ، میرا تصور بھی اثر انگیز ہے ، میرے خواب بھی قابل رشک ہیں ۔ میں نہیں چاہتا کہ زندگی کی معنویت سے عاری ہوجاؤں ۔ اسلئے اب پرانی اخباریں اکھٹی کرنا چھوڑ دیا ہے 

Thursday, January 24, 2013

یاد اور اجنبی

سنو میں نہ کہتا تھا
تم جنوں کی بستی کے رہنے والے ہو

کوئی سوز ہے ہے دل میں 
کسی کی یاد ہے باقی 
کوئی درد ہے سینے میں
 تم نے چھپا رکھا ہے
کچھ تو ہے ایسا
تمہیں رونے نہیں دیتا 
 تمہیں سونے نہیں دیتا
کوئی غم تو ایسا ہے 
جس کی شدت 
تمہیں بے تاب رکھتی ہے
کوئی روح تو ایسی ہے
 تمہیں بے چین رکھتی ہے
کوئی آبلہ ایسا ہے
جو سلگھتا رہتا ہے

حد سے کوئی جب نکلنے لگتا ہے
کوئی یاد ایسی ہے
کوئی درد ایسا ہے
دکھ جس کا جب بیدار ہوتا ہے
 تم بستی چھوڑ جاتے ہو
رشتے سارے توڑ جاتے ہو
میری گماں کی وادی میں  
مجھے یہ محسوس ہوتا ہے
کوئی ایسی گمشدہ حقیقت ہے
جس کے پیچھے تمہارا دل 
ہر دم بیقرار رہتا ہے 
ہر دم بے چین رہتا ہے
میم ۔ سین

Wednesday, January 23, 2013

میرے قلم سے۔۔پارٹ ٹو

اپنے کلینک پر رونما ہونے والے واقعا ت و مشاہدات پر مبنی ’’ میرے قلم سے ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھے گئے مضمون کے بعد بہت سے دوستوں نے یہ سلسلہ جاری رکھنے کی فرمائش کی۔اور کہا کہ گاہے بگاہے اپنی ان یادشتوں کو قلم بند کرتا رہا کروں۔ تو اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے کچھ مشاہدات کو قلم سے کاغذ میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے
جس دن لطیفاں مائی کو اکڑے جسم، ٹیڑھے منہ،رال میں بھیگے ہونٹوں اور آسمان کی طرف دیکھتی ساکت نظروں کے ساتھ میرے پاس لایا گیا تو ایک لمحے کیلئے تو مجھے بھی یوں لگا کہ موت کا فرشتہ کہیں قریب ہی انتظار کر رہاہے۔ ساتھ ایک جمِ غفیر تھا،کوئی سورہ یاسین پڑھ کر پھونکیں مار رہا تھا تو کوئی تسبیح کے دانے گرا کروظیفہ کر رہا تھا لیکن  سب میں مشترک بات یہ تھی کہ سبھی مائی کی موت کی آسانی کیلئے دعا کر رہے تھے۔ضروری معائنے کے بعدمجھے اندازہ ہوگیا کہ مریضہ سائکو ہے اور ساری کیفیت خود ساختہ ہے۔کچھ ذہنی سکون کی ادویات اور کچھ  ٹوٹکے  بھی برتے   لیکن مریضہ کچھ ایسی ڈھیٹ واقع ہوئی کہ کسی حربے کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ جب اس کی گلے سے نکلتی کراہ او ر لوگوں کی بے چینی ناقابل بردا شت ہو گئی تو تو میں نے اپنے ڈسپنسر راشد کو بلایا اور  کہا اس کے بازو پر پانی کے ٹیکے لگانے شروع کر دو۔ ابھی پہلا ٹیکہ ہی لگا تھا کہ لطیفاں مائی چیخ مار کر اٹھ کر بیٹھ گئی اور حیرانی سے ارد گرد جمع لوگوں کو دیکھنے لگی اتنا ہجومِ پریشاں دیکھ کر مائی نے سین دوبارہ دہرانے کا ناٹک شروع ہی کیا تھا کہ میں نے راشد کو آواز دی۔ میری آواز سنتے ہی اس نے آنکھیں کھول دیں اور ہاتھ جوڑ کربولی میں ٹھیک ہوں اور جوس ، بسکٹ کھا کر اپنی صحت یابی کا یقین دلایا۔ ہمراہ آئے بیسیوں لوگ اس زندہ معجزے کو دیکھ کر انگشت بنداں تھے ۔ زباں زد عام اس معجزاتی ٹیکے کا ذکر تھا اور اگلے کئی دن تک کلینک پر لقوے اور فالج کے مریضوں اور پیدائشی معذور بچوں کا ہجوم رہا ۔ اب بھی کبھی کبھا ر لوگ ٹیڑھا منہ سیدھا کرنے والا ٹیکہ لگونے آجاتے ہیں
فاطمہ کی شادی تو سمندری ہوئی تھی لیکن پہلے بچے کی پیدائش ماں باپ کے ہاں ہی ہوئی تھی جو پہلے مہینے ہی بیمار ہو کر میرے کلینک آگیا تھا۔ اس کے بعد بھی کئی بار آیاحتی کہ سسرال جانے کے بعد بھی بچہ جب بھی بیمار ہوا تو شفا میرے کلینک سے ہی ہوئی۔اس دن جب ٹیکسی پر نوجوان ،بیوی اور بچے کو لے کر آیا تو بڑی مایوسی میں بولا کہ اس بچے کو تو آپ کے علاوہ آرام ہی نہیں آتا سارے سمندری سے دوا لے لی لیکن اسے فرق نہیں پڑا ۔۔اگلے دن عورت  جب دوبارہ چیک کروانے آئی تو تو میں نے اسے سمجھایا کہ سمندری میں کئی اچھے ڈاکٹرہیں اور بچے کو وہاں دکھا لیا کریں ۔میرا خیال تھا کہ اب وہ میری طبی سوجھ بوجھ اور فہم کو ستائش کی نظر سے دیکھے گی اور میری قابلیت پر کوئی قصیدہ کہے گی مگر اس نے تو یہ کہ کر میری سوچ کا قلعہ مسمار کر دیا ’’ ویسے وہ کون سا مجھے میکے آنے دیتے ہیں اس بچے کی بیماری کے بہانے ،میں دو چار دن امی کے گھر رہ لیتی ہوں‘‘
بابا محمد یوسف اللہ ان کو جنت نصیب فرمائے، شوگر کا مریض تھا ۔ میرے پاس جب بھی آتا اپنی کمزوری کا رونا روتا، جب شوگر چیک کی جاتی تو  وہ تین سو سے کم نہ ہوتی۔کھانے والی تمام ادویات کی ناکامی کے بعد جب میں نے بابا جی کو بتایا کہ اب تو انسولین کا استعمال ناگزیر ہو گیا ہے تو بابا جی نے سر پکڑ لیا اور کہنے لگے پرہیز بھی اتنا کرتا ہوں، سیر پر بھی باقاعدگی سے جاتا ہوں، دوائی میں بھی کبھی ناغہ نہیں کیا، اگر آپ کہیں تو قبض کیلئے ہڑوں کےمربعے کا استعمال ترک کر کے نہ دیکھوں؟۔۔۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر لوگوں کو جب چینی کا استعمال روکنے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو وہ شکر پر شفٹ ہوجاتے ہیں
ساٹھ سالہ بلقیس بیگم نے جب اپنے پٹھوں کی کمزوری کی شکائیت کی تو میرے پوچھنے پر جواب آیا ، بچپن سے ہی ہے ۔ابھی بچپن کا لفظ سن کر اپنی مسکراہٹ روکنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ا نہوں نے مزید انکشاف کیا کہ جب وہ پانچویں میں پڑھتی تھیں تو انہیں ٹا ئیفائیڈ ہوا تھا ، میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا کیا اس وقت ٹائفائیڈ ایجاد ہو گیا تھا؟۔ لیکن بلقیس بیگم نے میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا اسی لئے تو میری بیماری بگڑ گئی تھی کیونکہ میرا مرض کسی کی سمجھ میں جو نہیں آیا تھا
بیماری کے دوسرے دن بھی بچہ اکھڑے سانس کے ساتھ آیا تو بچے کے کپڑوں سے دھوئیں کی بو دیکھ کر میں نے ماں سے کہا کل آپ لوگوں کو کمرے میں کوئلے جلا کر رکھنے سے منع کیا تھا پھر بھی وہی غلطی کیوں دہرائی ۔ اس کی ماں فوراً بولی ’’ نئی جی ڈاکٹرصاحب تہاڈے کہن تے اسیں کولے نئیں بالے ۔۔لکڑاں بال کے کمرے وچ رکھیاں سن ( ہم نے کوئلے تو نہیں جلائے لیکن لکڑیاں جلا کر کمرے میں رکھی تھیں )‘‘
کچھ واقعات کی پی جی ریٹنگ ہوتی ہے اس لئے یہ مضمون پڑھنے والوں میں اگر کوئی غیر شادی شدہ ہے تو وہ مضمون کو یہاں مکمل سمجھے ۔ اگرچہ اس نصیحت کا کوئی اثر تو ہونے والا نہیں لیکن سینما کے باہر ’’ صرف بالغوں کیلئے ‘‘ کا بورڈ اور فلم شروع ہونے سے پہلے قومی ترانہ بجانے جیسی رسمی کاروائی تو ضروری ہے۔یا پھر اس قانون کا حوالہ استعمال کریں جس کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر افراد پر سگریٹ خریدنے پر تو پابندی ہے ، پینے پر نہیں۔
سخت گرمی کے موسم میں میاں بیوی میرے پاس آئے۔ بیوی کو الرجی کی شکائیت تھی دوائی لکھنے کے بعد میں نے دن میں تین چار بار نہانے کا مشورہ بھی دیا۔ مشورہ سن کر خاوند ہنس کر بولا ڈاکٹر صاحب آپ نے دن میں تین چار بارکہا ہے یہ تو اس گرمی میں بھی ہفتہ ہفتہ نہیں نہاتی۔ اس کی بات سن کر میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا جو اس کی سمجھ میں آیا یا نہیں لیکن میں یاد کر کے اکثر مسکرا پڑتا ہوں ’’ تو اس میں قصور تو تمہارا ہوا نا‘‘
بابا فضل کو اس کا بیٹا کمر درد کے ساتھ لایا تو چیک اپ کے بعد دوئی کی پرچی لیکر باپ بیٹا کمرے سے چلے گئے تو تھوری دیر بعد بیٹا کمرے میں دوبارہ داخل ہوا اورکہنے لگا ڈاکٹر صاحب ابا جی کی بیماری کے بارے میں کچھ حقیقت کرنا تھی میں نے کہا بتاؤ تو کہنے لگا ’’ شادی تو پچھلے مہینے میری ہوئی ہے ۔بڑھاپے میں اب اماں ابا کی عمر اجازت نہیں دیتی اور صحت بھی وہ نہیں رہی ۔کمر میں تکلیف ہی ہوگی نا ، کچھ آپ ہی ان کو سمجھائیں‘‘
ہمارے ہاں دیوروں پر لکھے اشتہاروں، ٹی وی اور دوسرے میڈیا کے ذریعے بنائی گئی ذہنی پستی کی فضا نے ہمارے نوجوانوں کو کس قدر متاثر کیا ہے اس کا اندازہ اس واقعے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ایک نوجوان کو جس کی ایک ہفتے بعد شادی تھی اور پچھلے تین دن سے پیٹ درد اور الٹی کی شکائیت سے سرکاری ہسپتال میں داخل رہنے کے بعد بھی اس کی طبیعت نہ سنبھلی تو میرے پاس لایا گیا۔ تمام رپورٹیں بھی نارمل تھیں اور بظاہر صحت اور علامتوں میں تعلق بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ باپ کو اس کی جلد صحت یابی کی فکر اس لئے بھی تھی کہ لڑکی والے انگلینڈ سے آئے تھے اور تاریخ التوا میں نہیں ڈالی جا سکتی تھی۔ جب میں نے واضح لفظوں میں بتایا کہ مجھے تو لڑکے کی بیماری سارا ڈرامہ لگ رہا ہے تو اس کے ایک دوست نے دفتر میں آکر تصدیق کی آپ کی بات صحیح ہے، وہ حکیم صاحب سے شادی کورس کر رہا ہے ا ور ابھی حکیم ٖصاحب نے اجازت نہیں دی اور اس کے باپ نے بغیر مشورہ کے تاریخ بھی طے کر دی ہے۔ 
بارات جیسے ہی واپس لوٹی امجد صاحب سب سے دامن چھڑا کر میرے پاس گھر پر آگئے اور کہنے لگے کوئی اچھی سی دوا دو۔ کچھ سمجھانے کی بحث سے بچتے ہوئے گھر سے بسکوپین کی دو گولیاں پتے سے نکال کر اسے لا کر دیں اور کہا اسے دودھ کے ساتھ استعمال کر لینا۔ اس گولی نے کیا افادیت دکھائی اس کا اندازہ چند دن بعد رات کو ایک سجے سجائے نوجوان کو اپنے گھر کے دروازے پر موجود پا کر ہوا جس نے کہا آپ کو امجد صاحب کا فون تو آیا ہی ہوگا ۔ ۔۔۔ 

Friday, January 18, 2013

ذرا سوچئے۔۔

یہ28 مئی1987 کی بات ہے۔ ایک رَسٹ نامی جرمن ہواباز نےِ فن لینڈ سے اپنے تربیتی طیارے کے ساتھ پرواز کی اور پورے سوویت یونین کے اوپر سے اڑتا ، کریملن  میں واقع ریڈ اسکوائر میں میں اپنا جہاز اتار دیا۔مقامی پولیس نے اسے اس وقت گرفتار کیا جب وہ چوک میں کھڑا لوگوں کو آٹو گراف دے رہا تھا۔۔کولڈ وار کے عروج کے دنوں میں وقوع ہونے والے اس تاریخ ساز قدم نے جہاں دنیا کو چونکا کر رکھ دیا تھا وہاں کمزور نظام دفاع اور زوال پذیر سپر پاور کی قلعی بھی کھول دی تھی۔مجھے یہ واقعہ پاکستا ن میں جاری لانگ مارچ پر بحث اور اس پرہونے والے تبصروں، ایوانوں پر خطابت کی گرتی بجلیوں،نظام پر حملہ آور تہلکہ خیز بیانوں اور غیر یقینی صورت حال سے پریشان عوام سے یاد آگیا۔آپ کتنا بھی طنز کر لیں، نام نہاد شیخ الاسلام کا تمسخر اڑا لیں، اس کے ہر قدم پر بدلتے بیانات کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا لیں ، اس کے انداز خطابت کی نقلیں اتاریں، یا اس کے انداز خطابت پر بھبکیاں کسیں۔ آپ اس کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دیں یا اسے دجال سے تشبیہ دیں، اس کے سر پر بدلتی ٹوپیوں کے سٹائل پر فقرے کسیں یا اس کے ماضی کے جھوٹ لے کر ان کا پوسٹ مارٹم کریں، لیکن ہم اپنی ان جملہ ذمہ داریوں سے دامن نہیں چھڑا سکتے جو ہم پرواجب تھیں۔ ہم اپنی کو تا ہیوں اور لا پرواہیوں کے ایک لمبے سلسلے سے پہلوتہی نہیں کرسکتے ، جن کا ارتکاب ہم آدھ صدی سے کر رہے ہیں۔آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ ایک غیر ملکی شہری دندناتہ ، لوگوں کے جذبات سے کھیلتا، ملکی مسائل کا استحصال کرتا ، آپ کے پورے نظام کو سبوتاز کر دیتا ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص ملکی ایجنڈے کو سڑک پر راہ چلتی دوشیزہ کی طرح اغواہ کر لے اور ملکی دفاع کے تمام ادارے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ جائیں، ایک بہروپیا پوری حکومتی مشنری اور قوم کو یر غمال بنا لیتا ہے، اور پوری دنیا میں ہماری بے بسی اور پچگانہ نظام حکومت کا مذاق اڑاتا ہے، ہماری اندرونی خلفشار ، منافقت، ہوس پرستی،،خودپرستی اور مفاد پرستی کو ساری دنیا پر عیاں کر کے تضحیق کا نشانہ بناتا ہے اور ہم تماشائی بنے اس کے ناٹک کے خاتمے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ غیروں سے کیا شکوہ ، جب گھر کے لوگ ہی نا ہل ہوجائیں ،دوسروں سے مسیحائی کی امید کیا ،جب ہم خود ہی ناکام ہوجائیں۔ جب ہمارے لیڈر ، ہمارے سیاستدان، ہمارے حکمران اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہوجائیں،جب ریاست اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی برتنے لگے،جب اپو زیشن مصلحت سے کام لے،سیاسی جماعتیں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہو جائیں ، تو کوئی بھی گھوڑے دوڑاتا آپ پر حملہ آور ہو جائے تو اس پر افسوس ہے کیوں ، اس پر تعجب کیسا۔ مجھے تو حیرت اس بات پر ہے کہ ساری قوم اس پتلی تماشے پر تو تبصرے کرتی رہی لیکن کسی نے حکمرانوں کی بے حسی اور سیا ستدانوں کی خود غر ضی کو نشانہ نہیں بنایا جن کی کوتاہی اور مسائل سے چشم پوشی نے ہمیں آج یہ دن دیکھنا نصیب کیا کہ ایک مداری نے اپناتماشہ دکھانے کے لئے پورے ملک کویر غمال بنائے رکھا ہے۔ حکومت گرانا کونسا مشکل کام ہے، مہنگائی میں پسی عوام ، سی این جی کے سٹیشنوں پر اپنے بال سفید کرتے لوگوں ، لوڈشیڈنگ کے عذاب میں پھنسی قوم کی آواز کو لے کر کوئی بھی سنجیدہ کوشش کرتا تو آج ہمیں لانگ مارچ کے نام پر یہ تماشہ نہ دیکھنا پڑتا، یوں جگ ہنسائی نہ ہوتی۔ اگر یہ لاتعلقی اور مصلحت کی فضا یونہی قائم رہی تو کل کلاں ان مسائل کو لے کرمرزا مسرور احمد یا جاوید احمد غامدی اسلام آباد کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے چڑھ دوڑیں تو حیرت کا اظہار مت کیجئے گا، یہودو نصاری کو گالیاں مت دیجئے گا،صیہونی آنکھ کو ساری کاروائی کا ذمہ دار مت ٹھہرائیے گا
میم ۔ سین

Thursday, January 17, 2013

نوحہ


مجھے نہیں خبر کہ اس انقلاب کے نعرے کے پیچھے کون سے ہاتھ ہیں؟۔ میں یہ بھی نہیں جاننا چاہتا کہ اس انقلاب سے کون سے مقاصد حاصل کئے جانے ہیں؟۔میں اس بحث میں بھی نہیں پڑنا چاہتاکہ اس ساری تگ ودو میں کتنے ارب لٹا دیے گئے؟۔ میں اس بات سے بھی پریشان نہیں ہوں کہ اس سارے کھیل سے روزانہ کتنے لوگ متاثر ہو رہے ہیں؟ میں تو اس بات میں بھی دلچسپی نہیں رکھتا اس ڈرامے کا سکرپٹ رائٹر کون ہے، ہدایت کار کون ہے اس کیلئے اداکار کہاں سے لائے گئے ہیں۔؟؟ مجھے یہ سب معلوم بھی ہو گیا تو کیا فرق پڑتا ہے۔لیکن انقلاب کا یہ نعرہ اگر آج ناکام ہو گیا تو کیامیری قوم سے چھینا گیا، ’’قیادت اور انقلاب‘‘ کے نعرے کا اعتماد اسے واپس مل سکے گا؟ کیا ملک کی اساس کو لگی دھجیاں پیوند لگوانے میں کامیاب ہوسکیں گی؟ کیا مذہبی جماعتیں دامن پر لگے اس سیاہ دھبے سے جان چھڑا پا ئیں گی؟ لاکھ تنقید کرو، تمسخر اڑاؤ لیکن دین کے نام پر لگا یہ زنگ اب تمہارا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ ہم نے ہمیشہ ملک عزیز کے دینی تشخص کا دفاع اپنی ذات سے بڑھ کر کیا ، اشتراکیت کی تپتی دھوپ تھی یا کمیو نزم کا فلسفہ، گرم پانیوں کا تعا قب کرتا سرخ ریچھ کا دور تھا یا مغربی ثقافت کی یلغارکے سامنے بند باندھنے کی بات۔ہمیشہ انگشت بنداں ، بے یقینی سے دوچارسوچوں کا سہارا بنے اس ملک عزیز کے نظریاتی بنیادوں کا تحفظ کیا۔ گھر کی بات ہے سر بازار گھر کی ناموس کا تماشہ کیوں بنائیں۔دین کے نام پر اٹھنے والی ہر تحریک کا دفاع کیا ، کہ یہ جس مکتبہ فکر سے بھی ہے ، اسلام کی بلندی کا سورج دیکھنا چاہتے ہیں۔ آج اگر یہ نئی صبحوں کے تعاقب میں ہیں توہم بھی ان آرزؤں میں پلے ہیں۔گزرے سالوں کی تلخ حقیقتوں کے بعد ، نئی رتوں کے تعاقب میں تھے۔جب ہم یہ سب نئے خواب دیکھ رہے تھے،تو مذہب کے لبادے میں ہم سے سب کچھ لوٹ لیا گیا۔ہم سفر میں بے سرو ساماں حیرت، سراسیمگی اور افراتفری کی فضا میں اس تذ بذب میں کھڑے ہیں کہ کہ سفر جاری رکھیں یا لوٹ جائیں ۔ مجھ سے میرے خوابوں کا حسن لوٹنے والے سے حساب کون لے گا۔میں تو خود کو احتساب کیلئے پیش کرتا ہوں لیکن میرے محتسب سے کون حساب لے گا۔میرے پاس دل فراش باتوں کے سوا باقی کیا رہ گیا۔ا س قوم کی سلامتی کی دعائیں ، ملک کی بقا کی دعائیں، عافیت کی آرزوئیں کسی تذبذب کا شکار ہو گئی ہیں۔ایک احساس بیزاری ہے، اکتاہٹ ہے، مخمصوں کی قید تنہائی ہے۔ بے یقینی کی ایک لمبی قطار ہے۔بربادیاں نوشتہ دیوار کی تعبیر بن رہی ہیں۔میرے اندر بھنور چل رہے ہیں۔سوالوں کی ایک یلغا ر ہے۔اور میں برھنہ جسم ان کا مقابلہ کر رہا ہوں ایک مضطر ب جسم ہے، ایک بے چین روح ہے، ایک انتشار زدہ ذہن ہے۔
آ ج میں اپنے امید اور اعتماد کے لٹتے قافلوں کا حساب کس سے مانگوں۔ بستیوں کو بہانے آئے، دائیں بازو کے ملاؤں سے یا تمسخر اڑاتے بائیں بازو کے انٹلکچوئلز سے ۔میں اپنے دین کی سربلندی کے لئے لڑتے جوانوں کا ساتھ دوں یا غیروں کی اٹھتی ملامت کی انگلیوں کا جواب دوں۔ ٓج میں نئی روشنوں کے تعاقب میں سرگرداں سوچوں کا سہارا بنوں یا وضاحتیں کروں اپنے ہی گھر میں درانداز لٹیروں کی کاروائی کی ۔ آج میں خاموش ہوں ، میں اداس ہوں، کچھ مغموم بھی ہوں افسردہ بھی اور کچھ رنجیدہ بھی۔ میں بھی سوچتا تھا ایک دن میرے وطن میں وہ سنہری انقلاب آئے گا ، مساوات ، انصاف کا انقلاب، جہاں خدمت کا جذبہ عبادت گنا جائے گا، جہاں اخوت کی ندیاں بہنے لگیں گی،  ندامت کی پراگندہ فضا دھل جائے گی، جہاں مزدور کو اگر حق ملے گا تو سرکار اپنے فرائض کو پہچانے گی۔جہاں خوشے سے نکلا دانہ رحمت ہوگا۔غیرت کا اگر باراں ہوگا تو حمیت کے گھوڑے کی باگیں میرے لوگوں کے پاس ہونگی۔میرے پاس کچھ الم تھے،کچھ دکھ بھی تھے، میں غموں سے بھی دوچار تھا۔میرے پاس تفکرات کا بھی انبار تھا،کچھ تحفظات کا لحاظ بھی لیکن میرے پاس اجالوں کے سفر کا ایک خواب تھا، میرے پاس میری حسرتوں کا ایک دریچہ تھا۔ میرے بند کمروں میں ایک کھڑکی ابھی کھلی تھی
لیکن ڈاکٹر صاحب آ پ نے مجھ سے میرا بھرم ہی چھین لیا ہے۔میں کس سے اپنے خوابوں کا حساب مانگوں؟ کس کے ہاتھ پر اپنی حسرتوں کا لہو ڈھونڈوں ؟ کس سے مسیحائی چاہوں؟
میم ۔ سین

Sunday, January 13, 2013

لا تعلقی


ہم اور تم 
ایک ہی کمرے میں رکھے دو گلدان
پھولوں سے بھرے 
خوشبو میں بھیگے
نہ تیری نظر میں کچھ میں
نہ میری نظر میں تو
تیرے بس میں کچھ
نہ میرے 
خاموشی ایسے کہ جیسے
رات کے سناٹے میں
تنہائی کا ساتھ
نہ میں کچھ کہ سکا نہ کچھ تو
اور پھول مرجھا گئے

قصہ ایک فریب کا

اگر میں اس فراڈکے ایک عینی گواہ سے نہ ملا ہوتا تو شائدمیں بھی اسے کسی افسانہ نگار کی ذہنی اختراع یا کسی مقامی صحافی کی مبالغہ آرائی پر مبنی ایک رپورٹ سمجھتا۔چند سال پہلے وقوع پذیر ہونے والا یہ واقعہ ایک طر ف تو ہماری ہوس پرستی،سادہ لوہی اورزندگی میں شارٹ کٹ مارنے کی عادت کے المیے کی داستان ہے تو دوسری طرف واردات کرنے والے شخص کے تحمل اور پلاننگ کی بھی اعلی مثال ہے
ہوا کچھ یوں کہ گاؤں کے نمبر دار کے ہاں بارات آئی۔ نکاح اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد مہمانوں میں سے ایک بزرگ جن کی سفید داڑھی نے ان کی شخصیت کو خاصا بارعب بنا رکھا تھامسجد کا رخ کیا۔ نماز پڑھنے کے بعد امام صاحب کے ساتھ بیٹھ گئے۔ادھر ادھر کی باتوں کے دوران جب امام صاحب نے مسجد سے منسلک مدرسے کا ذکر کیا،جہاں گاؤں کے بچے حفظ اور ناظرہ کی تعلیم حاصل کر تے ہیں تو حاجی صاحب نے مدرسہ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مدرسے کے مثالی انتظام سے متاثر ہو کر حاجی صاحب نےِ رخصت ہوتے وقت جیب سے دس ہزار روپے نکالے اور امام صاحب کے حوالے کرتے ہوئے بولے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایسا شاندار مدرسہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ نیکیوں کے اس سلسلے میں میرا بھی کچھ حصہ ڈال لیں۔امام صاحب نے شکریے کے ساتھ پیسے وصول کئے اور بہت عزت واحترام کے ساتھ الوداع کہا۔بارات واپس چلی گئی لیکن حاجی صاحب اپنی خوشگوار شخصیت کا طلسم سارے گاؤں والوں پر چھوڑ گئے۔امام صاحب نے حاجی صاحب کی نیکی کا ذکر گاؤں کے ہر فرد کے ساتھ کیا اور ان کیلئے دعاؤ ں کی خصوصی درخواست بھی۔یہ کوئی ڈیڑھ ماہ بعد کی بات ہے کہ مسجد کے باہر ایک گاڑی آکر رکی اس میں سے حاجی صاحب نکلے اور امام صاحب کا پوچھ کر اندر چلے گئے اور کہنے لگے میں ذرا جلدی میں ہوں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی خواہش تھی سوچا اس مدرسے سے مناسب جگہ کو ن سی ہو سکتی ہے اور بیس ہزار روپے حوالے کرتے ہوئے دعاؤں کی درخواست کی۔امام صاحب نے بہت اصرا ر کیا کہ چائے تو پیتے جائیں لیکن حاجی صاحب جتنی جلدی میں آئے اتنی ہی جلدی میں آئندہ آنے کا وعدہ کر کے چلے گئے۔اس کے بعد تو معمول بن گیا۔ حاجی صاحب کبھی مہینے کبھی دو بعد آتے ، اپنے مشوروں سے مستفید کرتے ، اور کبھی دس ہزار کبھی بیس ہزار کاعطیہ دیتے اور رخصت ہو جاتے۔ گاؤں کے لوگوں کی حاجی صاحب کے ساتھ عقیدت کا یہ عالم بن چکا تھا کہ وہ جب تشریف لاتے تو اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر ان کی محفل میں آجاتے۔جب تک حاجی صاحب گاؤں میں رہتے ، اپنی جگہ سے نہ اٹھتے۔حاجی صاحب بھی ایسے پہنچے ہوئے انسان تھے کہ سوائے نیکیوں کے کوئی بات نہ کرتے ان کی باتوں کا مرکز مدرسہ ہوتا یا فکرِ آخرت۔ہمیشہ مدرسے کی بہتری کے بارے میں فکرمند رہتے۔اس کے علاوہ نہ حاجی صاحب نے کوئی بات کی نہ گاؤں والوں نے کبھی پوچھا۔ لیکن جس دن مدرسے کے نئے کمروں کے لئے پچا س ہزار کا عطیہ دیا ، امام صاحب سے نہ رہا گیا اور بولے حاجی صاحب آ پ پر اللہ کی خاص رحمت ہے ۔جس نے مالی خوشحالی کے ساتھ ساتھ سخاوت کے عظیم جذبے سے بھی آپ کو نوازہ ہے۔آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے؟حاجی صاحب مسکرائے اور بولے اللہ کا بڑا کرم ہے، تینوں بیٹے باہر رہتے ہیں ، ویزے بھیج دیتے ہیں اور میں ان ویزوں کے کمیشن سے گزر بسر کرتا ہوں۔ویزوں کا نام سن کر تو سارے گاؤں کے لوگوں کے چہرے چمک اٹھے، ایک بزرگ بولے جب اللہ نے اتنا فضل کر رکھا ہے تو کبھی اس گاؤں کے نوجوانوں پر بھی شفقت فرما دیں ۔حاجی صاحب نے سنجیدہ مگر لاتعلقی کے لہجے میں کہا، کوئی اچھے ویزے آ ئے تو آپ کو ضرور بتاؤں گا۔اس کے بعد حاجی صاحب گاؤں میں تشریف تو کئی بار لائے مگر ویزوں کے بارے میں کوئی بات نہ کی۔چائے پی ، کبھی کھانا کھایا، ایمان کی حفاظت کی نصیحت اوراور مدرسے کی بہتری کے لئے مشورے ۔ اور گاؤں والے ان کے منہ سے کچھ اور سننے کو ترستے رہے۔ پھر اس دن فجر کی نماز سے لوگ ابھی فارغ ہی ہوئے تھے کہ حاجی صاحب آگئے۔ مسجد میں ہی بیٹھ گئے اور بولے کچھ ویزے آئے تھے سوچا پہلے آپ لوگوں سے صلاح کر لوں ۔ دس ہزار ریال تنخواہ ہے۔ پندرہ دن بعد روانگی ہے۔بیس ویزے ہیں اور صرف ڈیڑھ لاکھ کا مل رہا ہے۔اگر آپ میں سے کوئی خواہش مند ہےتو پیسے جمع کرلیں،میں شام کو آؤں گا ۔لوگوں کی تو خوشی کے مارے مت ہی ماری گئی ، کسی نے نہیں پوچھا ، کام کیا ہے ؟،کس جگہ ہے؟کتنے عرصے کیلئے ہے؟سارا گاؤ ں پیسے جمع کر کے شام ہونے کا انتظار کرتا رہا، شام تو ہوگئی مگر حاجی صاحب نہ آئے۔ سب کے دلوں میں وسوسے، کہیں یہ موقع ہاتھ سے نکل نہ جائے، کہیں حاجی صاحب نے کمیشن زیادہ دیکھ کر کسی اور کو نہ دے دئیے ہوں ۔ کہیں ایسا نہ ہو گیا ہو، کہیں ویسا نہ ہو گیا ہو۔ رات اسی تفاخر میں گذری۔صبح ہوئی اورلوگ فجر کی نماز پڑھ کر ابھی نکل ہی رہے تھے کہ حاجی صاحب آگئے، رات کی غیر حاضری کی معذرت کی اور پیسے اکٹھے کرنے کے بعد فوری پاسپورٹ تیار کرنے کی تاکید کی۔کہ ویزہ پہنچانا تو میری ذمہ داری ہے لیکن پاسپورٹ آپ لوگوں کی۔ایک ہفتے بعد آنے کا کہ کر حاجی صاحب رخصت ہو گئے اور گاؤ ں والے آج بھی ان کی واپسی کے منتظر ہیں
میم ۔ سین

Saturday, January 12, 2013

ٹھگوں کی بستی


یورپ کے وائیکنگ دور کی طرح تاریخ کی کتابوں میں ہندستان میں ٹھگوں کے دور کا بھی ذکر ملتا ہے۔یہ دور حرص ، ہوس اور ، خود غرضی کی قصوّ ں اور داستانوں سے بھرا پڑا ہے۔ ٹھگوں کے یہ گروہ سارے ہندستان میں پھیلے ہوئے تھے اوران کا کام مسافروں کو لوٹ کر ان کو قتل کرنا اور لاش کو کسی بیابان میں دفن کر ناتھا۔ داستان گو سرائے خانوں اور گاؤں کے چوپالوں میں ان ٹھگوں کی سفاکی اور بے رحمی کی ایسی ایسی کہانیاں بیان کرتے تھے کہ لوگ حیرت اور خوف کے ملی جلی کیفیت کے ساتھ ان کو سننے کیلئے گھنٹوں بیٹھے رہتے تھے۔۔ بہرام ٹھگ کا نام تو زبان زدِعا م ر تھا جس کے بارے مشہور تھا کہ اس نے ایک ہزار افراد کو قتل کیا ہے۔ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق کوئی دو لاکھ افراد کا خون ان ٹھگوں کے سر ہے۔ صرف انگریزوں کے عہد میں مورخین کے نزدیک پچاس ہزار افراد مارے گئے تھے۔ اٹھارویں صدی کے آغاز میں ان ٹھگوں نے وہ اودہم مچا ررکھا تھا کہ لارڈ ولیم بینڈنکٹ کے زیر نگرانی ایک کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے ولیم ہیری سریمین کو ان ٹھگوں کا قلع قمع کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ اس نے اپنی ذہانت ،فراست اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے شہروں ، ویرانوں ا و ر اجاڑ جگہوں سے تین ہزار سے زائد ٹھگوں کو پکڑ کر سزا دلوائی اور ان کی کمر توڑ کے رکھ دی۔ تابش خیرکے ناول ’’ دا تھنگز ابوٹ ٹھگز ‘‘ کے اْقتباسات پڑھتے ہوئے میرا دھیان یونہی اپنے ارد گرد پھیلے معاشرے کی طرفٖ چلا گیا۔ہم بھی تو آج ٹھگوں کی بستی میں رہتے ہیں۔ ٹھگ بھی ایسے کہ جب لوٹنے کو کوئی نہ ملا تو ایک ٹھگ نے دوسرے ٹھگ کو لوٹنا شروع کر دیا۔ آج کے ٹھگ، آدمی کو لوٹ کر اس کا سر تو نہیں کاٹتے،اس کا دم گھونٹ کرنہیں مارتے ،وہ تو اس کی روح کو چھلنی اور احساس زیاں کو تار تار کر دیتے ہیں۔ اگر کلرک فائلوں اور کاغذوں ذریعے ٹھگی کرتا ہے تو اس کا افسر اپنے عہدے کی طاقت کے سہارے۔ ڈاکٹر اگر اپنے پیشے کے تقدس کا ٹھگ ہے، تو لحاظ تدریس سے وابستہ استاد کو بھی نہیں ہے ۔ لائن مین اگر آپ کو دھوکہ دہی کی نئی راہیں دکھا رہا ہے تو گوالہ بھی اپنے دودھ کے خالص ہونے کی جھوٹی قسمیں اٹھا رہا ہے ،اگر سنار کو اپنے پیمانے کا بھرم نہیں ہے تو کریانہ فروش کوبھی اپنی اجناس کے معیار پر شرمندگی نہیں۔میں اپنی تنقید کا نشانہ سڑک بنانے والے ٹھیکیدار کو بناؤں یا ریڑھی پر ہیڑا پھیری کرتے خوانچہ فروش کو۔میں آرھتی کے کردار پر نکتہ چینی کروں یا پٹواری کے استحصال پر۔میں پولیس کے کردار کو حرف تنقید بناؤں یا قلم کے سوداگرصحافی کو۔کبھی مذہب کا لبادہ اوڑھ کر مُلا برساتی نالوں کا سیلابی پانی بن کر ہمیں بہانے آجاتا ہے تو کبھی سیاست کے نام پر ہمارا روائتی وڈیرہ آندھی بن کر ہمیں گرانے آجاتا ہے۔کبھی حکمران خشک سالی کا قحط بن جاتے ہیں تو کبھی اپنے ہی محافظ گھوڑے دوڑاتے کھڑی فصلوں کو کو روندنے آجاتے ہیں۔مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے ہم کسی مہیب گھنے جنگل میں رہ رہے ہیں جہاں ایک طرف درندے اپنے درندگی سے ہراساں کر رہے ہیں تودوسری طرف ڈکوؤں اور لٹیروں کی آماجگاہ ہے جنہوں نے بیباکی اور دلیری سے لوٹ مچا رکھی ہے کبھی جنگل کے سناٹوں میں بلند ہوتی چیخیں دل دھلا دیتی ہیں تو کبھی پتو ں اور جھاڑیوں کی ہوا سے پیدا ہونے والی سرسرہٹ خوفزدہ کر دیتی ہے یہ ہماری کوتاہیاں ہیں یامکاریاں ، خود غرضیاں ہیں یا زیادتیاں ، یہ سب مل کر ہمارے گناہو ں کی سیاہ پوشیوں میں ڈھل چکی ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں دراڑیں پر چکی ہیں ایک وحشیانی سکتہ ہے، ایک مجرمانہ خاموشی ہے ہم تو اپنے ہی شہر میں اجنبی ہوچکے ہیں شرفِ انسانیت کے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔ دلوں پر گہرے زنگ آلود قفل لگ چکے ہیں۔ہم نے آگاہی اور خود شناسی کے رستے تو کب کے چھوڑ ڈالے ہیں ۔ توڑ پھوڑ کا یہ سلسلہ رکے تو،کوئی تعمیر نو کا نام لے ۔ میں تو یہ سوچتا ہوں کل کا تاریخ دان ہماری سیاہ کاریوں کو کیا نام دے گا۔ہماری ہوس پرستی اور سیسہ کاریوں کو کس عنوان کے تحت لکھے گا۔۔معاشرہ انسانیت کے نام پر افسوس کا باعث بن چکا ہے، ندامت کے احساس میں ڈھل چکا ہے۔ مجھے تو اب انتظار ہے کب لارڈ ولیم بینڈنکٹ ان ٹھگوں سے نجات دلانے کیلئے کسی ولیم ہیری سریمین کو نامزد کر یگا ۔ ورنہ ہم اپنی موت آپ مارے جائیں گے یا ہماری آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں کو خون آشام بھیڑیوں کے گروہ سے تشبیہ دیں گی یا وحشی درندہ صفت قبائل کے نام سے پکاریں گیTop of Form

Wednesday, January 9, 2013

ڈاکٹر محمد محسن کے نام


یہ کوئی ساتویں یا آٹھویں جماعت کی بات ہے جب مجھے وہ اٹیچی کیس ملا تھا جو میری امی نے بوسیدہ جان کر پھینک دیا تھا۔ لیکن یہ بوسیدہ باکس میری کائنات بن گیا۔اس میں میری کل متاعِ حیات تھی۔اس میں پیپل کے وہ پتے تھے جو میں نے جاڑے کے دنوں میں اس ویران ریلوے سٹیشن سے اٹھائے تھے جہاں ریل گاڑی خراب ہو کر ساری رات کھڑی رہی تھی۔ اس میں نیل کانٹھ کے وہ دو پر بھی تھے جسے میں زخمی حالت میں پکڑ کے لایا تھا اور جب وہ صحت یابی کے قریب تھا تو ایک بلی کا نوالہ بن گیا تھا۔اس میں وہ چھوٹا سا پودا بھی کاغذوں کے درمیان محفوظ کر رکھا تھا جو کول تار کی سڑک کا سینہ چیڑ کر اگ آیا تھا، اس میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کے وہ تعریفی خطوط بھی موجود تھے جو انہوں نے میرے بنائے ہوئے پوسٹرز کے جواب میں بھیجے تھے۔اس بکسے میں اس کالے بھنورے کا حنوط شدہ جسم بھی تھا جسے میں نے جیم کی خالی بوتل مین ڈھکن میں سوراخ کر کے رکھا تھا مگر ایک دن ٹھنڈ میں باہر بھول گیا اور وہ سخت سردی برداشت نہ کر پایا تھا۔ اس میں میرے ہاتھ سے بنے اور دوسروں کے بھیجے عید کارڈ بھی تھے اور اخباروں اور میگزینوں کے تراشے بھی بھی ،جو گاہے بگاہے میں جمع کرتا رہتا تھا۔ایسی ہی بے شمار چیزیں جن سے میری گہری یادیں وابستہ تھیں۔جب ہم اپنے آبائی گھر سے ذیشان کالونی والے گھرشفٹ ہوئے تو میرے گھر والوں نے فالتو سامان کے ساتھ میری اس کل کائنات کو مجھ سے دولخت کر دیاتھا۔۔
میں اپنے قلم کو متحرک رکھنے کیلئے ہمیشہ کوشاں رہا ہوں۔ معا شرے اور اس کو درپیش مسائل کے حوالے سے ،اپنے مشاہدات اور ان سے اخذ نتائج کے حوالے سے ۔میری یہ خواہش رہی ہے کہ میں لفظوں کا ہنر جان سکوں۔صفحہء قرتاس پر اپنا جادو جگا سکوں۔ لیکن جاوید چوہدری کی ایک کتا ب سے معلوم ہو کہ لکھنے کے لئے بابوں کی تحر یک کی ضرورت ہوتی ہے جب تک بابے آپ کو متحرک نہ کریں آپ کا قلم کبھی رواں نہیں ہوسکتا۔ ممتاز مفتی مجبور نہ کرتا تو آج دنیا جاوید چوھدری کے نام سے نا آشنا ہوتی ۔ممتاز مفتی کا نام سن کر میرا بابوں سے تو اعتبار اٹھ گیا لیکن بابوں کی ضرورت کا اعتقا ذہن پر ضرور بس گیا۔اشفاق احمد کو دیکھو یا قدر ت للہ شہاب کو ،بانو آپا ہوں یا مسعود مفتی ،سبھی بابوں کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔اگرچہ مجھے میرا بابا مل بھی گیا تھا مگر وہ جستجو کا مسافر ہے، کسی دور کی بستی میں جا بسا ہے ۔لیکن مجھے معلوم ہے وہ ’’ لو وِد اکسپائری ڈیٹ‘‘ کے فلسفے پر یقین رکھتا ہے، جلد لوٹ آئے گا۔مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر محمد محسن کے اندر بھی ایک بابا چھپا ہوا ہے۔، ساری دنیا سے بیگانہ اپنی دھن میں مگن۔ بار ہا چاہا کہ کہہ دو آپ میرے بابا بھی بن جائیں لیکن میرے اور ان کے بیچ ججھک کی خلیج ہے جو ہمیشہ حائل ہو جاتی ہے۔ ادب کاایک رشتہ ہے اور ایک لحاظ ہے جو ہمیشہ ایک تفریق پیدا کر دیتا ہے۔ وسوسوں اور وہموں کا ایک دریا ہے جس کے دوسرے کنارے پر کھڑےہو کر انہیں ا دیکھتا ہوں ، سنتا ہوں اور محسوس بھی کرتا ہوں۔یہ فاصلے ہیں جو ان کی بزرگی اور متانت کے سبب ہیں جو کسی غیر محسوس انداز میں میرے اندر رچ بس گئے ہیں ان کے کسی خیال پر تبصرہ کرنے سے پہلے ہزار بار اپنے لفظوں کے چناؤ پر نظر ثانی کرتا ہوں۔ میرے اور ان کے بیچ کسی نوجوان دوشیزہ کی حیا ہے، جو دل میں اپنے محبوب کو کہنے کے لئے ہزاروں باتیں ڈھونڈ کر رکھتی ہے ۔ لیکن سامنے آنے پر زبان ساتھ نہیں دیتی اور صرف نظریں گرا کر لوٹ آتی ہے۔ڈاکٹر محسن حقیقی بابا ہیں جس نے اپنی طلسماتی شخصیت سے کتنے ذہنوں اور کتنی فکروں کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔وہ قلم اور کاغذ کا کھلاڑی ہے ۔ لفظوں کو اپنے قلم سے ایسے نچاتا ہے کہ پڑھنے والا دم بخد رہ جاتا ہے۔ فکرکے بند دریچے اپنے کواڑ کھول دیتے ہیں۔ذہن لفظوں کی جنبش پر جھوم اٹھتے ہیں۔ وہ ہماری سوچ سے پڑے کسی جہاں میں آباد ہے جہاں کے شعوری زاویے کو سمجھنے کیلئے ایک مخصوص شعوری وجدان چاہئے جو ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔وہ تو پیدائشی بابا معلوم ہوتا ہے جس قدم پر پرہماری سمجھ کی انتہا ہوتی ہے اس قدم پر اس کی سوچ کی ابتدا ہوتی ہے۔میں جب سے اس سے ملا ہوں مجھے لگتا ہے،میری فکری افلاس ختم ہوگئی ہے۔اس کے احتسابی سوالوں کی یلغار اس قدر تیز ہوتی ہے کہ ظاہری اور باطنی وجود کسی بھنور میں پھنس جاتا ہے مگر وہ خود ہی سمندر کی لہر بن کر قاری کو ساحل پر چھوڑ آتا ہے۔
اگرچہ میں ان کے بارے میں بہت کم جانتا ہوں شائد جتنا گھر کی کھڑکی میں بیٹھ کر سامنے والی سڑک سے گزرتے روزانہ دفتر کو جاتے شخص کو۔لیکن مجھے وہ وقت کی زنجیروں سے آزاد دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ متضاد ذہنوں کی اماجگاہ نہیں ہے اس کا انسانی رشتوں پر اعتقاد ہے، تبھی تو وہ عمل اور رد عمل کے اثرات بپر بحث کرنے کو ہر وقت تیار نظر آتا ہے۔اس کا ظرف وسیع بھی اور اعلی و ارفع بھی۔میری مرعوبیت کی وجہ اس کی یہ خوبی ہے کی وہ نمکین جھیل میں سے بھی میٹھے پانی کی بوندیں ڈھونڈ نکالتا ہے۔وہ شکستہ دل انسانوں کے جمِ غفیر سے بھی مسکراتی نظریں ڈھونڈ لیتا ہے۔غلیظ جسموں اور ٹوٹے ہوئے دلوں میں پاگیزگی کی مسرت ڈھونڈ نکالتا ہے۔مجھے نہیں معلوم ڈاکٹر محسن کا ماضی کیا ہے؟ اس کی محبت اور نفرت کے تضاد کا محور کون ہے؟مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کی خوشیاں کیا ہیں اس کے غموں کا ماخذ کون ہے۔میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ میں کب انکی طلسماتی شخصیت کے حصار میں آگیا تھا۔مجھے توکبھی کبھی لگتا ہے ڈاکٹر محسن کسی دیو ملائی کہانی کا کردار ہے۔جو بھیس بدل کرانسانوں کی بستی میں رہنے کا ہنر سیکھ رہا ہے۔جب اپنے دیس کی یاد ستاتی ہے تو سب کچھ چھوڑ کر لوٹ جاتا ہے ۔ انسانوں کی بنائی ہوئی مصنوئی دنیا کے قصے جا کر کوہ قاف والوں کو سناتا ہے۔اس کی شخصیت میں اس قدر بے ساختگی ہے کہ کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے جیسے کوئی بچہ اپنی الماری کھول کر گھر آئے مہمان کو اپنے جمع کئے ہوئے کھلونے، سکول سے حاصل کی ہوئی ٹرافیاں اورسالگرہ پروصول کئے ہوئے تحائف دکھارہاہو۔مجھے بچپن سے مافوق الفطرت ہستیوں سے لگاؤ تھا۔ اپنے تخیل کی دنیا میں ڈھیروں کردار تخلیق کر رکھے ہیں۔میری اس دنیا میں کوئی فساد نہیں ہے کوئی کشمکش نہیں ہے کوئی روح اضطرابیت کا شکار نہیں ہے۔کوئی زندگی کا انتشار نہیں ہے۔یہاں کوئی المیہ نہیں ہے کوئی بے رو ح حسم نہیں ہے۔یہ محسوسات کی دنیا ہے۔احسا سا تِ جمال کی دنیا ۔ یہاں روح کا ایک مقام ہے۔یہاں جذبوں کی داستان ہے۔اور ڈاکٹر محمد محسن میری اس تصوراتی دنیا کا ایک جیتا جاگتا کردار ہے۔ایسا کردار جو لطیف جذبوں کا آئینہ دار ہے۔جو صداقتوں کا نہ خشک ہونے والا ایک چشمہ ہے۔
میں نہیں سمجھتا میرے قلم میں اس قدر صلاحیت ہے کے وہ میرے زہن میں قائم مجسمے کو لفظوں میں ڈھال سکے۔ لیکن آج مجھے شدت سے اپنا وہ گمشدہ اٹیچی کیس یاد آ رہا ہے کا ش اگر وہ آج میرے پاس ہوتا تو میں ڈکٹر محسن کو اپنی مٹھی میں بھینچ کر سب سے چھپاکر اپنے اس بکسے میں رکھ لیتا
میم ۔ سین

Tuesday, January 8, 2013

حقیقت

ہم اور تم
ایک ہی راستے پر کھڑے
ایک دوسرے سے
منزل کا پوچھ رہے ہیں
تھا یہ بھی دیکھنا ہم کو
قیامت سے پہلے قیامت کا دن
میم ۔ سین

Monday, January 7, 2013

المیہ

معاشرہ نام ہے شعوری وجدان کا، الہامی اور روحا نی قوتوں کا، مذہبی پابندیوں کا ، فطری تسکین کا۔ معاشرہ جنم لیتا ہے جب ہم مقصدیت سے آگاہ ہو جاتے ہیں،رویوں میں بے ساخنگی آجاتی ہے، اخلاقی اقدار وضع ہو جاتی ہیں اور ہم ان روایات کے پاسداربن جاتے ہیں، اپنی مذہبی اور اخلاقی اقدار کے زمہ دارر بن جاتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں، ایسے بے شمار واقعات وقوع پذیرہوتے ہیں جو اس کی اقدار اور روایات کے خلاف ہوتے ہیں لیکن ہم ان کو(ٹے بو)قرار دے کر اپنی زباں بندی کر لیتے ہیں ہماری حقائق سے یہ چشم پوشی اندر ہی اندر معاشرے کودیمک لگادیتی ہیں۔میں نے کئی بار یہ سوچا کہ گھن کی طرح کھاتے ان  (ٹے بو )کو زیربحث لاؤں، لفظوں کے پردوں میں ہی سہی۔مگر میرے قلم نے میرا ساتھ نہ دیا۔لکھنا تو میں اس دن بھی چاہتا تھا۔جس دن ایک نوجوان جوڑا اپنے دوست کے توسط سے اپنے گناہوں کا بوجھ چھپانے کیلئے غلطی سے میرے پاس آگیا تھا۔لکھنا تو میں اس دن بھی چاہتا تھا جس دن یتیم ملیحہ میرے پاس آئی تھی، جو اپنے سگے ماموں کے ہاتھوں حاملہ ہو گئی تھی۔لکھنا تو میں اس دن بھی چاہتا تھا جب ہسٹریا کی مریضہ سمیرا نے انکشاف کیا تھا کہ وہ اپنی زندگی کسی مرد کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی سہیلی کے کے ساتھ گزارنا چاہتی ہے۔ لکھنا تو میں اس دن بھی چاہتا تھا جس دن چودہ سالہ علی زین نے ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ سے تنگ آکر خودکشی کر لی تھی کیونکہ وہ چالیس سالہ بیوہ رخسانہ کے بغیر زندہ نہیں رہنا چاہتا تھا۔لکھنا تو میں اس دن بھی چاہتا تھا جس دن شہر کے ایک معزز گھرانے کی اکلوتی بیٹی نے اپنے خاندان کی نامو س ر ات کی تاریکی میں گھر سے بھاگ کر ہمیشہ کیلئے دفن کر دی تھی۔لکھنے کو بیشمار موقع آئے لیکن میں بھی اسی معاشرے کا حصہ بنا رہا، عام لوگوں کی طرح سڑک کنارے تڑپتے شخص کو دیکھ کر ہمیشہ خاموش گزرتا رہا۔ہمارے معاشرے کے کل کے یہ (ٹے بو)  آج عفریت بن چکے ہیں۔اور ہمارا بے حس معاشرہ ان کا سامنا کرنے سے آج بھی گریزاں ہے۔ ہماری مذہبی وابستگیاں اور دینی حمیت تو اسی دن عیاں ہو گئی تھی جب بغداد میں جلتے جسموں کی تپش پاکستان میں بیٹھا مسلمان محسو س نہیں کر سکا تھا۔جب کابل میں رقص کرتی موت کے مناظردیکھ کر ، ہمارے دلوں میں ہیجان برپا نہیں ہوئے تھے۔ہماری معاشرتی اقدار کس قدر کمزور ہوچکی ہیں شائد ہمیں اس کی سنگینی کا ادراک ہی نہیں ہے۔کسی کمزور چھت کے نیچے کھڑے ہو کر بڑی بڑی گاڑیوں کو سڑکوں پر رواں دیکھتے ہوئے مغربی اقدار پر طعنہ زن آج اپنی ہی غیر ت و حمیت کا جنازہ اٹھا رہے ہیں۔میں اس دن اپنی آنکھوں کی نمی سنبھال نہیں سکا تھا جس دن میں نے ایک کنال کے گھر میں دو بھائیوں کے بوڑھے اپاہج باپ کو ملازموں کے ہاتھوں بے بسی کی تصویر بنے دیکھا تھا۔ رویا تو میں اس دن بھی بہت تھا جس دن ایک شخص اپنی بوڑھی ماں کو میرے پاس لیکر آیا تھا اور کہا تھا کہ اسے کوئی کوئی ایسی دوا دیں،یہ ٹھیک ہو جائے یا کوئی دعا کریں یہ میرے باپ کے پاس پہنچ جائے۔بچے اب سکول جانے لگے ہیں روز روز دفتر سے چھٹی نہیں ملتی ہے۔ آنکھیں تو میری اس دن بھی چھلک پڑی تھیں جس دن اونچی کو ٹھی میں قیمتی کپڑوں میں ملبوس عورت کی متعفن ساس کو مردہ قرار دیا تھا۔شتر بے مہار معاشرے کی گرتی اخلاقی اقدار کا زمہ دار کس کو ٹھہراؤں۔اس باپ کی لا پرواہی کو ،جس کے سامنے موبائل پر میسج کی گھنٹی بجنے پر بیٹی دستر خوان سے اٹھ جاتی ہو۔ یا اس ماں کی سادگی کو جس کا بیٹا ساری ساری رات نوٹس لینے کیلئے فون پر مصروف رہتا ہو۔میں الزام ان والدین کو کیوں نہ دوں جو راہ چلتے مغربی لباس کی کانٹ چھانٹ پہنے بیٹی کی طرف اٹھنے والی نظروں کے پیچھے غلیظ ذہنوں کی وجہ جان نہ پائے ہوں۔ میں کس کو الزام دوں، ان نوخیز ذہنوں کو جن کو ٹی وی سکرین پر نمودار ہونے والی اداکاراؤں کی مصنوئی مسکراہٹ اور نت نئے فیشن تو نظر آتے ہیں مگر مصنوئی روشنیوں میں یر غمال عورت کے پیچھے نادیدہ قوتوں کی پہچان نہیں ہے۔آج میں برق گراتی تہذیب اورجاں بلب ثقافت کا لہو کس کے ہاتھوں پر ڈھونڈوں؟۔ میری لب کشائی کس کام کی؟ ہم کب تک اپنی تمناؤں اور خواہشوں کے انبار لئے اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی برتتے رہیں گے؟ آج ہم اس معاشرتی بوسیدہ عمارت کے نیچے کھڑے ہیں جو ہوا کے ایک جھونکے سے گر جائے گی۔ ہماری تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی روایات اس قدر کمزور ہو چکی ہیں کہ کسی دیمک زدہ الماری کی طرح کسی دن اپنے ہی بوجھ کے نیچے دب جائیں گی۔
میم ۔ سین

Sunday, January 6, 2013

دیوانگی

مجھ سے میرے گناہوں کا حساب نہ مانگو
میں تو قفس میں بند ایک پنچھی
دیس سے در بدر ایک مسافر
اپنی خواہشوں کے جال میں الجھا ایک اجنبی
میں نے پہلی اڑان میں آسمان کو چھونا چاہا
بادلوں کو اپنے اندر سمونا چاہا
میں نے چاہا ،تاروں کو توڑ لاؤں
چاند کو گود میں کھلاؤں
میرا گناہ تو فقط یہ تھا
میں نے مسرتوں کو لگام دی
میں نے خواہشوں کو کچل ڈالا
رَت جگوں کا حساب چھوڑ ڈالا
اپنی انا کا بت توڑ ڈالا
مجھ سے میرے گناہوں کا حساب مانگ کر
مجھ سے کیا پوچھتے ہو
بستی سے نکالا ہوا اک مسافر
جو رستہ بھٹک کر
کہیں دور جا بسا ہے
اپنے گناہوں کا ، حساب کیادے گا
تم اپنی محبتوں کا خراج مانگتے ہو
دیوانہ اپنی دیوانگی کا  جواب کیادے گا
میم ۔ سین

Saturday, January 5, 2013

سجدہَ سہو


پٹواری صاحب چند دنوں سے پریشان تھے۔ پریشانی کی وجہ ان کی صحت کا ٹھیک نہ رہنا تھا۔۔ ۔بیماری بھی کچھ ایسی تھی کہ جس کا کوئی سرا مل ہی نہیں رہا تھا۔ ہر وقت ان کی زبان پر ایک ہی شکایئت رہتی کہ جسم میں تھکاوٹ ہے اور طبیعت میں سستی۔
پہلے تومیں ہمیشہ ذہنی تناؤ کہ کر ٹال دیتا تھا پھر میرے کہنے پر فیصل آباد کارڈیک سنٹر سے بھی ہو آئے لیکن کچھ نہ نکلا۔ میڈیسن والوں نے سارے ٹسٹوں کے بعد ڈپر یشن کی دوائیوں پر ڈال دیا۔لیکن پٹواری صاحب کے منہ سے شکائیت کے کلمات جاری رہے۔۔۔۔۔۔۔

ابھی یہ عقدہ حل نہیں ہوا تھا کہ ایک دن صبح پانچ بجے فون بجا، نمبر دیکھا تو پٹواری صاحب تھے۔ سخت پریشانی کے عالم میں مجھے فوراً اپنے گھر آنے کی کی درخواست کی۔ ان کے گھر پہنچ کر معلوم ہواکہ ان کی بیٹی نے نیند کی گولیاں کھا لی ہیں اور اب بے ہوش ہے۔ معائینے کے بعد اندازہ ہو گیا کہ گولیوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے کہ جان لیوا ثابت ہو۔اور تسلی دی کہ جونہی گولیوں کا اثر ختم ہوگا تو یہ ہوش میں آجائی گی۔۔۔۔۔۔
۔یہ کوئی ایک ہفتہ بعد کی بات ہے جب پٹواری صاحب میرے کلینک تشریف لائے اور مجھے اگلی شام اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ کہ بیٹی کا نکاح ہے۔ میں نے صرف چند مہمانوں کو بلایا ہے آپ نے ضرور آنا ہے۔میرے چہرے پرابھرتی حیرت اور سوالوں کی موجودگی کو دیکھ کر مسکرا دئیے اور میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی بول اٹھے۔ کسی دن آپ سے فرصت میں ملنے آئوںگا۔ اگلے دن چند دوستوں اور کچھ رشتہ داروں کی موجودگی میں نکاح ہوا۔ جتنی سادگی سے نکاح ہوا، اتنی ہی سادگی سے رخصتی ہو گئی۔اور میں ذہن میں سوالیہ نشانوں کی قطار لئے اپنے گھر لوٹ آیا۔
چند دن ذہن میں سوال گھومتے رہے لیکن پھر مصروفیات میں سارے واقعات یاد کی کسی دراز میں بند ہوگئے۔۔لیکن ایک شام پٹواری صاحب آئے اور آتے ہی چائے کی فرمائش کی جس کا مطلب تھا کہ آج وہ جلدی میں نہیں ہیں۔
کہنے لگے، ڈاکٹر صاحب آپ یقیناً ان واقعات کے بارے میں جاننا چاہ رہے ہونگے جو چند دنوں سے میرے ساتھ پیش آرہے ہیں۔
میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ گویا ہوئے
۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کہ میں کچھ عرصے سے اپنی طبیعت کے بارے میں بہت پریشان تھا۔لیکن بات یہ ہوئی تھی کہ میری رات کو سونے سے پہلے دودھ پینے کی عادت کا فائدہ اٹھا کر میری بیٹی نے ملازمہ کی مدد سے دودھ میں نیند کی گولیاں ملانا شروع کر دی تھیں اور خود رات کیے لمحات اپنے دوست اور موجودہ خاوند کے ساتھ گزارنا شروع کر دئے تھے ۔جس دن میں نے آپ کو صبح سویرے گھر پر بلایا تھا اس رات کو کام زیادہ ہونے کی وجہ سے تھکاوٹ کی وجہ سے میں دودھ پئے بغیر سو گیا آدھی رات کو اٹھا تو مجھ پر بہت سی حقیقتیں آشکار ہوئیں۔
غصے کا یہ عالم تھا کہ میری زبان سے الفاظ نکل نہیں رہے تھے مجھے آج بھی اس بات کا اندازہ نہیں ہو سکا کہ میں نے انہیں زندہ کیسے چھوڑ دیا۔ لڑکا تو فوراً بھاگ گیا تھا ۔ بیٹی کو کمرے میں بند کرکے اپنے کمرے میں آگیا ۔ اس کی ماں کو جگایا اور غصے میں اسے بھی کمرے سے نکال دیا۔ غیرت کے نشے میں اپنی عزت کو بچانے کیلئے بیٹی کو قتل کرنے اور واقعے کو چھپانے کے طریقوں پر غور کر رہا تھا کہ اس کی ماں چیختی چلاتی کمرے میں آئی کہ بیٹی بیہوش ہے اور پھر آپ کو بلانا پڑا۔۔۔۔
آپ کے جانے کے بعد میرے دل میں خیال آیا کہ ساری عمر تو گھر میں حرام مال آیا ہے۔ جس گھرکے معاملات حرام کی کمائی سے چل رہے ہوں، وہاں کی حفاظت کیا فرشتے کریں گے ؟ کیا ان گھروں میں فاطمہ یا رابعہ بصری پیدا ہونگی؟ خاندان کی عزت میرے ہاتھ میں ہے کیا اس کو مار دینے سے یہ محفوظ ہو جائے گی؟ اسے قتل کرنے کے بعد تو میں ساری عمر بھی اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرتا رہوں تو شائد ان کو معاف نہ کرا سکوں گا۔۔۔۔
۔پٹواری صاحب نے ایک لمبی آہ بھری اور بولے ۔ ابھی تو میں نے ایک کفارہ ادا کیا ہے ، ابھی اور بیشمار ادا کرنے ہیں۔ میرے لئے دعا کیجئے گا، میں اپنی نوکری چھوڑنے کا سوچ رہا ہوں۔۔۔۔
پٹواری صاحب نے چائے کا کپ ختم کیا اور اجازت لیکر رخصت ہو گئے لیکن میں دیر تک یہ سوچتا رہا 
اس دنیا میں ایسے خوش قسمت لوگ کتنے ہوں گے جن کو مرنے سے پہلے سجدہ سہو ادا کرنے کا موقع مل جاتا ہے؟؟
میم ۔ سین

Friday, January 4, 2013

قید

ہر لمحہ، ہر گھڑی
ایک خیال، ایک ہی منظر
نظروں کے سامنے گھومتا ہے
جیسے میں ہرن کا بچہ ہوں
جسے جنگل سے پکڑ کر
چڑیا گھر کی دیواروں میں قید کر دیا گیا ہو
چھوٹے چھوٹے بچوں کے ننھے منے قہقہے
خالی ڈبوں اور ضائع شدہ لفافوں کی بوچھاڑ
میں بھاگتا ہوں اور دوڑتا ہوں
پھر تھک کے بیٹھ جاتا ہوں
بے چینی ہے، بے تابی ہے
کب تک یہ قہقہے سنتا رہوں گا
جو میں خود سے نہیں ،سننا چاہتا 
میم ۔سین

اداسی کے دفاع میں

اداسی کیا ہے؟ اداسی کون ہے؟ اداسی کب آتی ہیں ؟ ہم اداسی کے سامنے کب ہتھیار گرادیتے ہیں ؟اداسی کب ہمارے روح و قلب کو اپنی حصار میں لے لیتی ہے۔؟ ایک کیفیت ہے،ایک مقام ہے، چند لمحوں کا۔ وہ لمحے جو کبھی زندگی کو خوشگوار بناتے ہیں تو کبھی غموں کی پرپیچ وادیوں میں قید تنہائی دیتے ہیں ۔جب آپ کا محبوب رقیب میں بدل جائے، جب عشق کا لیکچر ’ع ‘ پر اٹک کر رہ جائے،جب شام ڈھلے پنچھی زور لگائیں اور دل کی دھڑکن میں تبدیلی آئے۔جبب خوف کے بھید جاننے کیلئے ااپنے ا ندر جھانکنے سے ڈر لگے،جب ٹھنڈی ہوا کے جھونکے لو میں بدلنے لگیں، جب نرم ہاتھوں کی گداز ہتھیلیاں پتھر لگیں،جب دعوی پریم کہانی ہو مگر بس کھیل تماشا ہو،جب ارادہ میل ملاپ ہو اور کوئی آکر بساط لپیٹ دے۔جب رستوں کی پتیاں سرسراتی ہوں اور تنہائی کا خوف بن کر ڈراتی ہوں۔ جب جدائی کی وحشت ہو اور انسانی فطرت زیر ہو۔۔یہ تو ایک مقام ہے کامیابی اور ناکامی سے پہلے کا ،سناٹا ہے، ایک شور ہے۔ویرانہ ہے یا یا کوئی شہر آباد ہوتا ہے درمیان میں کچھ نہیں ہوتا، جو ہوتا ہے وہہی ہوتا ہے،جو موجود ہے۔ حقیقتیں کھل جاتی ہیں۔تو بھید مٹ جاتے ہیں۔یہ تو ایک بیچ کا لمحہ ہے۔ جہاں مصنوئی محبت کا دعوی ہوتا ہے نا جھوٹا بھائی چارہ۔خودنمائی کی تصویر ہوتی ہے نا خوشامدانہ رویے۔یہاں تحلیلِ جستجو ہوتی ہے تو کبھی شخصی بت چکنا چور ہوتے ہیں۔یہاں جمِ غفیر ہوتا ہے، سوچوں کا، فیصلوں کا، مشوروں کا۔یہ تو آپ کی سوچ اور شعور کے بیچ کا ایک لمحہ ہے، سمجھ کا ایک موقع ہے۔یہ تو اپنے اندر تشنہ لب انسان کو ڈ ھونڈنے کاوسیلہ ہے۔اگر اداسی دیوانگی کا پہلا قدم ہے،تو جنوں کا زینہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔
میم ۔ شین

Thursday, January 3, 2013

لمحہ فکریہ


ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے اس شعبے کے حقوق کے لئے اٹھنے والی ہر آواز کا ساتھ دینا میرا حق ہی نہیں میرا فرض بھی ہے۔لیکن ان حقوق کے حصول کیلئے میں کبھی یہ نہیں چاہوں گا کہ اس شعبہ کے اوپر ایسے داغ لگ جائیں جو ہمیشہ کیلئے اس کا حصہ بن جائیں۔ایسے داغ، جو آنے والی نسلیں وراثت میں حاصل کریں اور کل کو یہ نسلیں منہ چھپاتی پھریں اور ہمیں کوستی رہیں اور تاریخ ہمیں سیاہ حروف سے لکھے۔خاندانی جائیداد کی تقسیم میں اگر آپ کے ساتھ ناانصافی ہو تو کیا آپ اپنے باپ کو سڑکوں پر گھسیٹنا شروع کر دیں گے؟ لوگ آپ کے باپ کو نہیں آپ کی حرکت کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے کیونکہ تصفیے کیلئے بے شمار دوسرے طریقے اور ذریعے استعمال کئے جا سکتے تھے۔ لوگوں کے سامنے اپنی محرومیوں کا تماشہ بنا کرکیا ہم اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں؟۔یقیناًصحت کے شعبے کے ساتھ ناانصافیوں کا جو سلسلہ شہباز شریف کے پہلے دورِ حکومت سے شروع ہوا تھا وہ ابھی تک جاری ہے۔ وہ ملک جہاں پر قابل علاج بیماریوں سے مرنے والے والوں کی تعداد نا گہانی آفتوں سے زیادہ ہو۔جہاں آج بھی روزانہ ہزاروں عورتیں زچگی کے عمل کے دوران مر جاتی ہوں۔جہاں خسرہ، چکن پاکس، اور ڈائیریا سے آج بھی ہزاروں اموات ہو رہی ہوں، جہاں پر ساری توانائیاں صرف کر کے بھی پولیو پر قابو پایا نہ جا سکا ہو۔جہاں کی قوم کنفیوز ہو کہ کانسا طریقہ علاج بہتر ہے، ایلوپیتھک، حکمت یا ہومیو پیتھک ؟وہاں کی حکومت سے یقیناً اس بات کی توقی نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس شعبہ کے مسائل سے آگاہ ہے اور ان کے حل اور اس کی بہتری کے لئے کوئی اقدام کرے گی۔ کیا یہ ناانصافی صرف محکمہ صحت کے ساتھ ہو رہی؟ یا باقی محکمے بھی اس کی زد میں ہیں؟اگر آپ دوسرے محکموں کا جائزہ لیں گے تو ایک بات واضح ہو گی کہ صورتحال چند ایک محکموں کو چھوڑ کر ایک سی ہے۔ہر محکمہ ہی عدمِ توجہی کا شکار ہیں۔ ہرمحکمے میں احساسِ محرومی کی ٖفضا ہے۔حکمران طبقے کی بے حسی نے ہر محکمے اور ہر عام آدمی کے اندر ایک گھٹن اور احساسِ محرومی پیدا کر رکھا ہے۔لیکن کوئی مناسب پلیٹ فارم نہ ملنے کی وجہ وہ اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں اور اس گھٹن کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔لیکن جب کبھی یہ ابال برتن سے باہر آگیا تو یقیناً انقلاب کے نعرے کو حقیقت مل جائے گی۔ ڈاکٹرز کی یہ بہت بڑ ی خوش قسمتی ہے ہے کہ انہیں’’ ینگ ڈاکٹرز ‘‘ کی صورت میں اپنے مسائل کو پیش کرنے اور ارباب اختیار تک اپنی آواز پہنچانے کیلئے ایک ایک پلیٹ فارم میسر آ گیا ہے ۔یقیناً یہ اس شعبہ کیلئے ایک اچھی نوید کہی جا سکتی ہے ۔لیکن اپنی آواز کو بلند کرنے کیلئے زبان یا ہاتھوں کا نہیں بلکہ ذہن کا استعمال کرنا ہوگا۔ ایسوسی ایشن ایک مضبوط سانچے میں ڈھل چکی ہے۔ اب اسے حکمت عملی اور سوجھ بوجھ سے قدم آگے بڑحانے ہونگے ۔جب آپ حق پرہوتے بھی عوامی ہمدردیوں کو اپنا مخالف بنا لیں گے تو مقاصد میں کیسے کامیاب ہونگے ۔۔۔۔لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہیں اس ایسوسی ایشن کے عہدیدار ڈاکٹرز کے ساتھ وہی سلوک کرنے تو نہیں جا رہے جو جو غریبوں کی آواز کو لیکر پیپلز پارٹی نے کیا یا مہاجروں کے حقوق کو بنیاد بنا کر ایم کیو ایم نے کیا؟؟؟؟؟
میم ۔ سین

Wednesday, January 2, 2013

روشنی کا تعاقب


رات جب لکھنے بیٹھا تو، کئی موضوع ایسے تھے جن پر لکھنے کو دل چاہ رہا تھا۔ لیکن جب لکھنے کو بیٹھا تو ذہن یوں صاف ہوگیاکہ کچھ سجائی نہیں دے رہا تھا۔میں تھا اور میری تنہائی تھی۔سناٹا تھا او ر وحشت تھی خوف تھا یا کوئی شکستہ آرزو کا تعاقب ۔ موضوعات تو کیا، الفاظ بھی ذہن سے نکل کر میرے ارد گرد رقص کرنے لگے۔ میں ایک لفظ کو پکڑتا ،تو دوسرا بھاگ جاتا، دوسرے کی طرف دیکھتا تو پہلا دامن چھڑا لیتا۔ میں دیر تک لفظوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتا رہا جب میں لفظوں کو ہی اکھٹا نہ کرسکا تو موضوعات کی تلاش کہاں سے ہوتی۔ یہ کیفیت ہم سب کے ساتھ پیش آتی ہے۔ذہن پر جمود چھا جاتا ہے ۔ ہم گومگو کی حالت میں ہوتے ہیں۔ ہم فیصلوں تک نہیں پہنچ پاتے، ہمارے ارادے ڈگمگانہ شروع ہو جاتے ہیں۔کسی تاریک کمرے میں بند ہو جاتے ہیں۔کوئی روشنی نظر نہیں آتی، کوئی امید نہیں رہتی۔ کوئی فرار کا رستہ نہیں ملتا۔ جب ناامید ہو کر بیٹھ جاتے ہیں تو چند لمحوں کے لئے ڈیپرشن آپ پر ہاوی ہو جاتا ہے۔ آپ کو ہرسوال کا جوب نفی میں ملتا ہے ،آپ کو گلاس آدھا بھرا نظر آنے لگے گا۔ ہر دوست دشمن لگے گا۔ آپ کا ماضی اذیّت سے بھرپورملے گا۔ آپ نا چاہتے ہوئے بھی خود کو دنیا کا سب سے حقیر اور کمزور انسان سمجھنے لگ جائیں گے۔ یہ اکثر ہوتا ہے میرے ساتھ بھی ۔ جب میں زندگی سے عاری ، احساس سے خالی جیتے جاگتے لوگوں کے درمیان اپنے آپ کو گرفتار پاتا ہوں۔اپنی خواہشوں کے ہاتھوں یر غمال لوگوں کا ساتھ دینے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔ جب میں ملکی یکجہتی کی پامالی کا گواہ بنتاہوں۔دین کی اساس کو مجروح ہوتے دیکھتا ہوں۔نظریاتی بنیادوں کا انہدام اور خود ستائشی اور انا پرستی کی فضا دیکھتا ہوں تو خود کو بے بس پاتا ہوں ۔ تب میں اس بند کمرے اور گھپ اندھیروں میں گم ہوجاتا ہوں۔لیکن کتنے بھی دروازے بند کیوں نہ ہو جائیں، ایک کھڑکی ہمیشہ ایسی ہوتی ہے جہاں سے آپ اپنی نئی سوچ کا آغاز کر سکتے ہیں اپنی زندگی کا سلسلہ پھر ایک نئے موڑ سے سلسلہ شروع کر سکتے ہیں۔ جب آپ وہ کھڑکی ڈھونڈ لیتے ہیں تو رقص کرتے الفاظ اور جھومتے، گاتے جملے جوتھوڑی دیر پہلے آپ کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں، آپ کو تضحیک کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں اچانک سے شکستہ دم ہتھیار پھینک دیتے ہیں اور اپنے آپ کو سرنڈر کرتے ہوئے بغاوت کا عَلم گرا دیتے ہیں اور آپ کا ذہن دوبارہ آپ کے کنٹرول میں آجاتا ہے۔ آپ کا قلم پھر سے رواں ہوجاتا ہے آپ کے فیصلے پھر سے آپ کے ہاتھ میں آجاتے ہیں۔۔بس ضرورت ہوتی ہے تو اس کھڑکی کو ڈھونڈنے کی، جو وہیں موجود ہوتی ہے۔ضرورت ہے توبس تھوڑی سی کوشش کرنے کی
میم ۔ سین