Tuesday, February 26, 2013

ذلت اور رسوائی ہمارا مقدر ہے؟؟؟

جمعہ کے بعد امام صاحب نے کچھ بیماروں کا حوالہ دیکر جب ان کی صحت یابی کیلئے دعا شروع کی تو وہ لمبی ہوتی چلی گئی ۔ بات بیماروں سے نکل کر مسلمانوں کی ضروریات، ان کی پریشانیوں ، اور انکی ہدائت کی طرف نکل گئی۔میرے ساتھ سعد بیٹھا تھا جو قائد اعظم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اور ڈاکٹرپرویز ہود بھائی کا ’مرید‘ بھی ہے۔ جب دعا کچھ لمبی ہوگئی تو اس سے نہ رہا گیا اور بولا ایک تو ان مولویوں نے اللہ کو بھی ذاتی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ جیسے وہ ان کیلئے فارغ بیٹھا ہے۔ اب بتاؤ، بھلا جو دعائیں نہیں کرتے ان کو شفا نہیں ملتی ۔ کیا وہ بھوکے ننگے ہیں۔یہ اللہ بھی مولویوں کا بنا یا ہوا ایک کردار ہے۔اگر یہ اتنے سچے ہوتے تو پھر وہ ان کی سنتا کیوں نہیں ہے؟۔نماز سے فارغ ہوکر جب میں نے اس سے پوچھا کہ جب تمہارا اللہ پر یقین اتنا متزلزل ہے تو پھر نماز پڑھنے کیوں آتے ہو تو ؟ اس کے جواب سے میں دیر تک محظوظ ہوتا رہا۔’’اگر مرنے کے بعد سچ میں اللہ نکل آیا توکیا کروں گا ؟۔ ہاتھ میں کچھ تو ہونا چاہئے‘‘ بات مزاح کی نظر ہو گئی ۔لیکن دیر تک اس کے الفاظ میرے  ذہن میں گونجتے رہے کہ اگر یہ اتنے سچے ہوتے تو پھر وہ ان کی سنتا کیوں نہیں ہے؟۔کیا اسلام اللہ کا پسندیدہ دین نہیں ہے۔؟ کیا اسلام دنیا کا کا بہترین دین نہیں ہے؟ اگر یہ باتیں جھوٹ نہیں ہیں تو پھر ہم پوری دنیا کے سامنے وضاحتیں کیوں کرتے پھر رہے ہیں؟، ملامت اور ذلت ہمارا مقدر کیوں بنا ہوا ہے؟ ہمارا رب ابابیلیں بھیج کر ہمارے دشمنوں کو نیست ونابود کیوں نہیں کرتا؟ آندھیاں اور تیز ہوائیں بھیج کر ان کے پیر وں کو اکھیڑتا کیوں نہیں ہے؟۔ جب اسلام سلامتی کا دین ہے اور پوری نسل انسانی کی رہنمائی کیلئے آیا ہے  تو ہم کیوں دنیا میں ذلیل وخوار ہو رہے ہیں؟ یا تو ہم غلط ہیں یا پھر ہمارے سمجھنے میں کہیں غلطی ہے۔ لیکن شائد مسئلہ ہمارے رویوں میں ہے ، مسئلہ اس چشم پوشی میں ہے جو ہم نے ہمیشہ سے روا رکھا ہے، مسئلہ اس غیر ذمہ داری میں ہے جو ہماری گھٹی میں بیٹھ چکی ہے، مسئلہ لاتعلقی کا وہ رویہ ہے جو ہمیشہ سے ہم نے اس دین کے ساتھ رکھا ہے۔ کبھی سوچاہے؟ الیوم اکملت لکم دینکم کی آیات جب اتری تھیں تو صحابہ کرام کی آنکھوں میں آنسو کیوں آگئے تھے؟ دلوں پر غم و الم کے بادل کیوں چھا گئے تھے؟   کیونکہ رب نے اس بات کا اعلا ن کرکے اس دنیا سے لاتعلقی اختیار کرلی تھی کہ اب تمہارا دین مکمل کر دیا گیا ہے اور اس میں زندگی گزارنے اور رہن سہن کے اصول وضع کر دیے گئے ہیں ۔ اب کامیابی کا دارومدار معجزوں پر نہیں ہوگا۔دعاؤں پر نہیں ہوگا۔اللہ سے قربت کے د عوؤں پر نہیں ہوگا۔اب فیصلے اللہ کی رسی یعنی قرآن کرے گا اور قرآن کی سمجھ نبی اکرم ﷺ کی زندگی سے ملے گی۔ اب نہ تو کوئی عذاب اتریں گے، نہ کوئی ابابیلیں آئیں گی ۔جہاں ر ہنے سہنے کیلئے قوانین متعین کر دیے گئے و ہاں دعاؤں کی قبولیت اور معجزوں کے حصول کیلئے بھی اصول بنا دیے گئے ہیں۔ قرآن اگر منشور ہے تو نبی اکرم ﷺ کا اسوہ حسنہ ، اس کی عملی صورت۔ جس میں اگرزندگی گزارنے اور عبادت کے طریقوں کے بارے میں ہدائتیں دی گئیں ہیں تو وہاں ماں کی ممتا بھری نصیحتیں بھی۔ سونے سے پہلے بستر جھاڑ لو، جوتے دونوں پاؤں پہن کر پھرو، پردے کے بغیر والی چھت پر مت سویا کرو، سونے لگو تو آگ بجھا لو، راستوں پر خیمہ مت لگاؤ۔ وہ نبی جوبچہ رو رہا ہو تو اپنی نماز مختصر کر دیتا ہو، رستہ بتانے والے کو صدقہ کا ثواب بتاتا ہو ۔اس نبی سے ہماری محبت کے دعوے محض دعوے ہیں اگر ان میں حقیقت ہوتی تو ہم اپنی شادیوں اور مرگ کے موقع پر راستے بند کر کے لوگوں کا چلنا پھرنا دشوار نہ کرتے ۔ شادیوں کا جشن منا تے وقت یہ بات نہ بھولتے کہ محلے میں کوئی اور بھی رہتا ہے۔ گھر کے سامنے کھڑے ہو گھر والوں کو مطلع کرنے کیلئے کار کا ہارن دے کر سارے محلے کو نہ جگا تے۔دعوی نبی ﷺ سے محبت کا  ہے جو رشوت کو جہنم میں لے جانے والا رستہ بتاتا ہو، جو سفارش کی حوصلہ شکنی کرتا ہو، جو حرام کا لقمہ پیٹ میں جانے پر چالیس دن دعاؤں کے قبول نہ ہونے کی وعیدسناتا ہو۔ لیکن ہمارے ہاں کھاد کی بلیک سے ہونے والی آمدن کو پاک کرنے کیلئے یا تو دیگیں پکائی جاتی ہیں یا عمرہ کی سعادت حاصل کی جاتی ہے۔سرکاری ملازم کے نزدیک پانچ وقت کی نماز تو فرض ہے لیکن اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی اور وقت کا ضیاع ، اس کی کمائی کو حرا م نہیں کر سکتا ہے۔ مزدور جب مالک سے کئے گئے معاہدے میں قدغن لگاتا ہے تو اس کے نزد یک آمدن حلال ہی ہے۔ جب فصل کا ریٹ توقعات کے مطابق نہ ملے تو اسے کولڈ سٹوریج یا گھروں میں سنبھال کر رکھا جائے تو اسے ذخیر ہ اندوزی میں شامل نہیں کیا جاتا۔اور شائد بجٹ سے پہلے گوداموں کو بھر لینا بھی ذخیرہ اندوزی کے زمرے میں نہیں آتا۔ مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی صرف خبر سن کر ان کی قیمتوں کے ٹیگ بدلے جائیں تو یہ بات بھی جائز سمجھی جاتی ہے۔ ہم اپنی دکانوں کے آگے سامان بڑھا کر پیدل چلنے والوں کا رستہ روکیں اور خود کو پھر بھی عاشقِ رسول کا نام دیں، راستوں میں گاڑی کھڑی کر کے اپنے کام نبٹانے لگ جائیں تو کسی کی مجال جو اخلاقیات کا درس دے سکے ، دودھ پیک کرنے والی کمپنیوں کو، غیر معیاری اشیاء ڈال کر گاڑھا کیا ہوا د ودھ بیچ کر اس بات پر خوشیا ں مناتے پھریں کہ غیر ملکی کمپنی بھی ان کی دھوکہ دہینہیں پکڑ سکتی، جب ہم گاہک کی مجبوری یا لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر مہنگی چیزیں بیچیں اور پھر شکوہ بھی کریں کاروبار میں پہلے جیسی برکت نہیں ہے۔ کیا جعلی ادویات، جعلی مصنوعات ، ملاوٹ ، ذخیرہ خوری کے غلط ہونے میں دو رائے ہو سکتی ہیں۔لیکن کس کو فکر ہے؟۔ کون پرواکرتا ہے؟ ۔جب رستے بتانے والے غلط راستوں پر ڈالنے لگیں۔ جب ہر شخص شیطان کو گالیاں دے اور خود اس کے قدموں پر چلے، تو بھلا رحمتیں کہاں سے آئیں ، دعاؤں کی قبولیت کہاں سے ہو ؟ کہاں گئیں وہ محمد عربی ﷺ کی باتیں ۔؟ کہ تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر حرام کر دئے گئے ہیں۔ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، نہ کالا گورے سے افضل ہے نہ گورا کالے سے، بزرگی اور فضیلت کا معیار صرف تقوی ہے، اپنے غلاموں کا خیال رکھو ان کو وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو ، مردے کا بھی استحقاق ہے اسے گالی مت دو، کسی کی آبرو کو زبان کی قینچی سے مت کاٹو، مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو، مظلوم کی بد دعا سے بچو، لیکن جہاں منافقت ہمارا دستور بنے وہاں انسانیت پرسوز ہی ہوگی۔ جب آدمیت کا آدمیت سے اعتماد کا رشتہ ختم ہو جائے تو پھر رب کا بھرم کیسا؟ ، جب سڑک پر کسی غریب کا سائیکل گاڑی سے ٹکرا جائے تو ہمیں ہوش کھو جاتا ہے، جب ہمارا ملازم کوئی نقصان کر ڈالے تو ہماری زبان اور ہاتھ ہمارے اختیار میں نہیں رہتی۔ ، جب رشوت والے محکموں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے ، جب انسانی عزت اور وقار کا معیار اس کا پیسہ اور اس کا عہدہ بن جائے، جب منافقت اور جھوٹ ترقی کے اصول بن جائیں۔جب زندگی میں کامیابی کیلئے سفارش کا اکلوتا زینہ ہو۔ تو پھر اپنے رب سے کیا شکوہ ؟، اپنی بے بسی کا رونا کیوں؟۔کیا یہ تلخ حقیقت نہیں ؟کہ آج بھی لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دینے کی بجائے ان کو جہیز کی صورت میں فارغ کر دیا جاتا ہے اور آج بھی بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ ، انصاف کا ترازو آج بھی پیسے اور عہدے کے سامنے جھک جاتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے ؟کہ آج بھی سڑک پر محنت مزدوری کرنے والا اور دفتر میں بیٹھ کر حکم چلانے والا برابری کا دعوی نہیں کر سکتے۔کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے ؟کہ قانون معاشرے میں ہر شخص کو ایک آنکھ سے نہیں دیکھتا۔ کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے ؟کہ ہم آج بھی برادری، صوبائیت اور رنگ ونسل کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔ جب انصاف کا قتل گھر سے لیکر ریاست کی سطح تک ہورہا ہو۔ جب مساوات کا درس صرف تقریروں اور کتابوں میں ہو۔ تو پھر کہاں کی دعائیں؟ اور کہاں کا معاشرہ ؟۔ذلت اور رسوائی نہ ملے تو ہماے مقدر میں کیا لکھا جا ئے؟ دین مکمل ہوچکا ہے اب نہ کوئی نبی سمجھانے آئے گا نہ ہی کوئی فرشتے رستہ دکھانے اتریں گے۔ اب صرف حساب ہوگا قیامت کے دن اِس قرآن کی باتوں کی بنیاد پر ، سرور کائنات سے محبت کے دعووں کی بنیاد پر

Friday, February 22, 2013

ایک سفر داستان



دسمبر کی چھٹیوں کا اعلان ہوا تو میں نے بھی ہوسٹل سے گھر جانے کی ٹھانی۔ ان دنوں پنجاب بھر کو جانے والی ویگنوں اور کوسٹروں کے اڈے لاہور کے ریلوے اسٹیشن کے ارد گرد پھیلے ہوئے تھے اور میں بھی گھر جانے کیلئے ایک کوسٹر میں سوار ہو گیا۔ کوسٹر کو اڈے پر کھڑا رکھنے کیلئے مختص ٹائم ختم ہو رہا تھا ۔لیکن مسافر وں کی مطلوبہ تعداد مکمل نہیں ہوئی تھی ا ور اڈے کا منشی بار بار گاڑی کو نکالنے کا کہہ رہا تھا اور ڈرائیور اس امید پر تھاکہ ایک آدھ مسافر اور مل جائے تو پھر نکل پڑیں گے۔ اتنے میں کوسٹر کے کنڈیکٹر نے ایک نئے شادی شدہ جوڑے کو کوسٹر میں سوار کروایا اور خود ان کا سامان چھت پر رکھنے لگا۔
لڑکا شکل سے سے کوئی پچیس سال اور لڑکی یہی کوئی سترہ اٹھارہ سال کی دکھائی دے رہی تھی ۔ سنہری کڑھائی والے لال سوٹ اور چمکدار ڈوپٹے کے ساتھ لڑکی اور نیا کلف والا کاٹن کا سفیدسوٹ پہنے لڑکا، میری اگلی خالی سیٹ پر آکر بیٹھ گئے ۔ دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور حواس اڑے ہوئے تھے۔ اور سیٹ پر بیٹھنے کے بعد بھی دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں چھوڑا۔ 
جونہی وہ اپنی سیٹو ں پر بیٹھے ڈرائیور نے گاڑی اڈے سے نکال لی۔ کچھ دیر بعد ان کے حواس کچھ بحال ہوئے تووہ ایک دوسرے میں ایسے کھو چکے تھے کہ انہیں کوئی خبر نہیں تھی کہ وہ کہاں ہیں اور کون کون ان کو دیکھ رہا ہے
جس گھر میں ہم گئے تھے کیا یہ تمہاری خالہ کا اپنا ہے ؟"لڑکے نے اپنی ساتھ بیٹھی لڑکی سے پوچھا" 
 ہاں ۔ یہی نہیں بلکہ ان کا ایک گھر جوہر ٹاؤن میں بھی ہے۔"لڑکی نے جواب دیا۔"
تیری خالہ نے تیرے گھر والوں سے تیرا رشتہ کیوں نہیں پوچھا ؟ محمد علی بھی تو جوان ہے ۔ اپنا کاروبار ہے"۔" 
لڑکے نے پھر کریدا ۔لیکن لڑکی نے لاپرواہی سے جواب دیا 
مجھے کیا پتا؟ مجھے تو صرف یہ پتا ہے کہ میں اب تمہارے ساتھ ہوں "اور لڑکے کے چہرے پر ایک شرمیلی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔"
گھر کب پہنچیں گے؟" اب کے لڑکی نے بے چینی سے پوچھا"
"مجھے کیا پتا میں تو خود پہلی با ر لاہور آیا ہوں ،آتے ہوئے تو تین گھنٹے لگ تھے۔"
لڑکی نے ایک بار نظر بھر کر باہر پھنسی ٹریفک کو دیکھا اور پھر اپنا رخ لڑکے کی طرف موڑ کر بیٹھ گئی اور بولی
 لہور تو بہت بڑا شہر ہے جب میں بہت چھوٹی تھی شائد دوسری یا تیسری میں پڑھتی تھی تو اس وقت پہلی بار خالہ کے گھر آئی تھی۔ تب وہ سمن آباد والے گھر میں رہتے تھے جو کرائے پر تھا۔ لیکن جب خالو جی د بئی چلے گئے تو یہ علامہ اقبال ٹاؤن والا گھر خرید لیاتھا۔ خالہ نے ہمیں لہور کی خوب سیر کرائی تھی۔ چڑیا گھر بھی گئے تھے، اور بادشاہی مسجد بھی دیکھی تھی اماں نے داتا دربار پر دیگ بھی چڑھائی تھی اور انار کلی سے مجھے چوڑ یاں بھی لے کر دیں تھی۔ مینار پاکستان کو بس دور سے دیکھا تھا۔ جب اگلی بار تیرے ساتھ لہور آؤں گی تو پھر خا لہ کو ساتھ نہیں لائیں گے۔اور ہم دونوں خوب سیر کریں گے 
لڑکی بولتی رہی اور لڑکے نے لڑکی کا ہاتھ تھامے رکھا اور اس کی آنکھوں میں جھانکتا رہا ۔
 تو مجھے یوں آنکھیں پھاڑ پھاڑکے کیوں دیکھ رہا ہے ؟ "۔" 
لڑکی نے بات کرتے کرتے رک کر پوچھا تو لڑکا ایک دم شرما گیا اور نیچی نظروں کے ساتھ بولا "
"میں سوچ رہا تھا میں نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میری شادی تیرے جیسی سوہنی لڑکی کے ساتھ ہوگی" 
اور لڑکی ایک ہاتھ سے لڑکے کے کندھے کو جھٹکتے ہوئے بولی" زیادہ مکھن نہ لگا تو بھی تو اتنا سوہنا ہے۔ جب پھوپھی نے میری منگنی توڑی تھی تو میں نے قسم کھائی تھی میں نے اب کسی سے بیاہ نہیں کرنا۔ کیا پتا تھا مجھے تیرے جیسا چاہنے والا ملنے والا ہے۔ اماں کو اعتراض تھاکہ تمہارا اپنا گھر نہیں ہے۔ پر ابا نے تیرا دل دیکھ لیا تھا کہ تو میرا کتنا خیال رکھے گا اس لئے اماں سے لڑ کر ہاں کر دی تھی 
"لڑکی نے گردن گھما کر شیشے سے باہر دیکھا اور بولی "رمضان، جب ہم آئے تھے تو یہ اتنی اونچی والی اور خوبصورت عمارت آئی تھی؟
تجھے کو نسا ہوش تھا؟" لڑکے نے ہنس کر کہا اور لڑکی نے شرما کراپنا ہاتھ لڑکے کے ہاتھ سے چھڑا لیا۔"
" شادی والے دن مہندی کس نے لگائی تھی اب کے لڑکے نے بات کا آغاز کیا" 
"میری سہیلی صائمہ نے ۔" 
لڑکی نے اپنا ہاتھ دوبارہ لڑکے کے ہاتھ میں دے دیا۔ 
کونسی؟ "لڑکے نے تھوڑا سا بے تکلف ہوتے ہوئے پوچھا"
 "وہی جس نے تمہارا جوتا چھپایا تھا"
لڑکی نے تھورا سا جھجک کر جواب دیا تو لڑکے نے قہقہ لگا یا اور بولا
شیطان کہیں کی! پورے پانچ سو میں واپس ملا تھا مجھے"۔"
جب ہم لہور آئے تھے تو اتنے بڑے پل سے گزرے تھے؟ "لڑکی نے تھوڑا ساپریشان ہو کر پوچھا اور جسم گھما کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔" 
لڑکے نے کندھے سے پکڑ کر اسے ااپنی طرف گھما یا اور بولا ۔ 
تو کون سا روز سفر کرتی رہی ہے جو تجھے راستے یاد رہتے ہونگے؟"۔"
"تو یہ بتا جب دودھ پلائی کی رسم ہو رہی تھی تو وہ لال سوٹ والی لڑکی جو بار بار آکر تیرے کان میں کچھ کہتی تھی وہ کون تھی"
لڑکی نے حیرانی سے پوچھا کون ؟
وہ جس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس گرکر ٹوٹ گیا تھا؟ رانی نام ہے۔ہمارے محلے کی ہے۔ باجی کلثوم کی بھانجی ہے جنہوں نے مجھے شادی والے دن تیار کیا تھا۔
"اچھا۔ تو وہ بار بار تیرے کان میں کیا کہتی تھی؟"
لڑکے نے تھوڑے سے والہانہ انداز میں پو چھا تو لڑکی شرما کر بولی
"میں کیوں بتاؤں اور گھوم کر کھڑکی سے باہر دیکھا اوربولی رمضان ،جب ہم آئے تھے تو یہ نرسریاں، تو نے دیکھی تھیں؟"
لڑکے نے اسے اپنی طرف کھینچا اور ہنس کر بولا
"مجھے تیرے علاوہ کسی چیز کی ہوش ہوتی تو میں باہر کی کوئی خبر رکھتا"
لڑکی نے پرس میں سے بسکٹ کا ایک پیکٹ نکالا اور اس میں سے دو بسکٹ نکال کر لڑکے کو دیتے ہوئے بولی۔
"منیر کو فوج میں بھرتی ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا ہے؟ اس کی شادی کب کرنی ہے۔"
لڑکے نے اسی پرس میں سے جوس نکالتے ہوئے کہا
"ابھی تو بچہ ہے مجھ سے پور ے سات سال چھوٹا ہے۔ کچھ سال نوکری کر لے پھر دیکھیں گے۔ تو ہمیشہ لال کپڑے پہنا کر یہ رنگ تجھے بڑا سوٹ کرتا ہے" 
اور لڑکی کے ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا اور یہ مہندی کبھی مدہم نہیں پڑنی چاہئے ۔ مجھے مہندی بہت پسند ہے۔ 
لڑکی شرما کے بولی" تیری ماں نے کہا تھا ایک مہینہ تک وہ مجھے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگانے دے گی تب تک تو ٹھیک ہے لیکن پھر تو کام کرنا پڑے گا نا ۔ ہاتھوں پر مہندی تھوڑی رہے گی
۔ لڑکے نے جوس میں سے چند گھونٹ لینے کے بعد ڈبہ لڑکی کو تھما دیا اور بولا
" میں تمہیں کوئی کام کرنے ہی نہیں دوں گا۔ بس ہر وقت دلہن بنا کر رکھوں گا ۔ اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر زور سے ہنسے۔"
لڑکی نے گھوم کر کھڑکی سے باہر دیکھا اور بولی رمضان یہ جو سڑک کے ساتھ ریل کی پٹری جا رہی ہے ، جب ہم لاہور گئے تھے تب تو نہیں تھی
اور اب کی بار لڑکے کا بھی رنگ فق ہوگیا ۔ لیکن پھر تھوڑا سا سنبھل کر بولا
"جب ہم لہور گئے تھے تو ساتھ والی سیٹوں پر بیٹھے ہونگے اس لئے ہمیں یہ نظر نہیں آئی ہو گی" 
لیکن اس بار اس کی آواز میں پہلے والا اعتماد نہیں تھا۔اچانک ان سے آگے والی سیٹ سے ایک آدمی جو شائد لاہور سے ہی ان کی باتیں سن رہا تھا۔اٹھ کر بولا
"بھائی جی تسی کتھے جانا آ؟" 
۔ لڑکا تھوڑا سا سہم گیا اور پھر بولا ۔
"وہ جی ہم سیالکوٹ جا رہے ہیں"  
اس پر وہ آدمی اونچی آواز میں بولا 
 استاد جی گڈی روکو۔"
"تسی سیالکوٹ دیاں سواریاں ساہیوال جان والی کو سٹر وچ بٹھا چھوڑیاں نے
میم سین

Tuesday, February 19, 2013

اتفاق

ماضی کے کچھ نقوش خیالی پیکروں میں یوں اتر جاتے ہیں کہ تخلیقی مسرت میں ایک اضافہ ہو جاتا ہے۔تحریری اسلوب کو ایک تازگی مل جاتی ہے اور تخیل کے تارجب چھڑتے ہیں تو ان میں سے ایسی ایسی یادیں ساز بجاتی ابھرنے لگتی ہیں کہ دل بے اختیار ان تصویروں کو اپنی نگاہوں کے سامنے جھومتے گاتے دیکھنے میں محو ہو جاتا ہے ۔ ایسے ہی کچھ نقوش میرے زمانہ طالب علمی سے  ہیں۔گورنمنٹ نارمل سکول کا شمار علاقے کے ممتاز اور تاریخی اہمیت کے حامل اداروں میں ہوتا ہے۔ کئی دانشوروں، ادیبوں ، انجینئروں ، ڈاکٹروں، آرمی اور بیوروکریسی کے افسروں کو میں جانتا ہوں ،جنہوں نے اس ٹاٹ والے سکول میں پڑھنے کے بعد زندگی میں نمایاں شعبوں تک رسائی حاصل کی ۔ حافظے کو کھنگالنے سے زندگی کی جو تصویر ذہن میں بنتی ہے اس میں ایک طلسمی کشش پیدا ہو جاتی ہے اور میں اس کشش کے زیر اثر فخر محسوس کرتا ہوں کہ مجھے بھی جہاں اپنی پرائمری تک تعلیم اسی سکول کے ماسٹر عطا محمد، ماسٹر رشید ، ماسٹر ولی محمد جیسے شفیق اساتذہ سے حاصل کرنے کا موقع ملا ، وہیں پر عثمانی صاحب کے صبح کی دعا میں دیے گئے درس قرآن سے مستفید ہونے کا موقع بھی ملا۔ اور شائد یہ انہی دروس کا کمال تھا جس نے ذہن میں قرآن کی عظمت اور محبت کا ننھا سا بیج بو دیا تھا جس نے آنے والے دنوں میں نمی پا کر جڑیں نکالیں اور ایک سدابہار پودے کی شکل اختیار کر لی۔۔ اس سکول کی ایک خاص بات یہاں پر پانی کا ایک تالاب تھا جس میں ہم اپنی تختیاں دھوتے تھے۔ چند دن پہلے وہاں جانے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ اب وہ تالاب اپنی یادوں کے ساتھ ختم ہوچکا ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کسی سانحے کے نتیجے میں اس کو ختم کیا گیا یا سکول میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے اس کو ہموار کردیا گیا لیکن آج بھی اس میں تختیوں کو دھو کر ان کو جلدی خشک کرنے کیلئے ہوا میں تختیاں لہراتے اور ساتھ ساتھ پنجابی یا اردو میں ماہیے کی طرز پر نظمیں پڑھتے بچے میری نظروں کے سامنے دوڑتے نظر آتے ہیں۔اور میں زندگی کے دائمی بہاؤ میں ٹھہر سا جاتا ہوں۔میری اندرونی کیفیتیں جیتی جاگتی تصویروں میں ڈھل جاتی ہیں۔میں اپنی بصیرت میں ان گزرے زمانوں کو اپنے اندر سمو کر ایک لطیف احساس میں تبدیل کر لیتا ہوں۔ اس سکول کی ایک اور خاص بات اس کے پھولوں کے باغیچے تھے۔ جہاں پر چڑیوں کی چہچہاہٹ صبح سے لیکر شام تک ایک لمحے کو بند نہیں ہوتی تھی۔فضا ، سیاہ بھنوروں اور شہد کی مکھیوں کی کی بھنبھناہٹ سے گونجتی رہتی تھی۔پھولوں کی رنگت اور ان کی خوشبو دونوں دلوں کو بہلاتے تھے۔ بیلا ، موتیا، چنبیلی، ڈھلیا، گلاب ، گل داؤدی ، گل لالہ ،نرگس ۔۔پھولوں کی وہ کونسی قسم تھی جو ان باغیچوں میں موجود نہ تھی ۔ خاص طور پر بہار کے موسم میں تو جو روح پرور مناظر دیکھنے کو ملتے تھے ان کو میرا قلم لفطوں میں ڈھالنے سے عاری ہے ۔اور صبح جب ہماری کلاسیں شروع ہوتی تھی تو ایک کوئل کی کوک سے گونجتے سارے سکول کو میں آج بھی اپنے کانوں میں محسوس کرتا ہوں ۔ کوئل کی کوک میں جو جذ بات کی شدت ہوتی ہے اسے محسوس کرنے کیلئے کوئی صاحب ذوق ہونا ضروری نہیں ہے ۔جب ہم پانچویں جماعت میں پہنچے تو وظیفہ کے امتحان کی اہمیت کو اس طرح پیش کیا گیا تھا کہ مجھے وہم کی حد تک یقین ہو گیا تھا کہ بس اس امتحان سے گزر گئے تو باقی زندگی میں بس آرام ہی آرام ہے۔ماسٹر عطا محمد صاحب نے ناصرف سال کے شروع میں اس امتحان میں بیٹھنے والے بچوں کا سیکشن الگ بنا کر ان پر خصوصی توجہ دینی شروع کر دی تھی بلکہ ان بچوں کو سکول ٹائم ختم ہونے کے بعد بھی پڑھاتے تھے۔ اور ریاضی اور املا جیسے مضمون اتنی بار دھراتے تھے کہ ہمیں ہر حرف اور ہر سوال کا صفحہ تک زبانی یاد ہو گیا تھا۔ وظیفہ کا یہ امتحان جہاں تعلیمی استعداد اور قابلیت جانچنے کا ایک پیمانہ تھا۔ وہاں طلبا میں اردو کی بہتری کا بھی ایک ذریعہ تھا کیونکہ اس امتحان میں املاء پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔ وظیفے کے امتحان میں بیٹھنے کے لئے، پہلے اپنے زون اور اس کے بعد تحصیل کے سکولوں کے طلبا کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑ تا تھا۔ اور ان میں سے کامیاب امیدوار وں کو وظیفے کے امتحان میں بیٹھنے کا موقع ملتا تھا۔ اس امتحان کی تیاری کیلئے سکولوں کے درمیان زبردست مقابلہ ہوتا تھا اور اس میں سبقت لے جانے والے سکولوں کے اساتذہ کی قدر وقیمت پورے شہر میں کی جاتی تھی۔ یہ اس دن کی بات ہے جس دن عطا محمد صاحب نے وظیفے کے امتحان سے ایک دن پہلے تحصیل لیول پر کامیاب ہونے والے طلبا کو جمعہ والے دن بھی سکول بلا رکھا تھا۔ ہم کوئی بیس کے قریب طلبا ایک گراؤنڈ میں جمع تھے ۔ ماسٹر صاحب نے ایک ٹسٹ حل کرنے کو دیا ، جو میں نے چند منٹ میں حل کر ڈالا اور حل کرنے کے بعدبہار کی آمد پر کھلنے والے پھولوں اور فضا میں بسی ان کی خوشبو کو محسوس کرنے لگا۔ کچھ دور میناؤں کا ایک گروہ کسی کھانے والی چیز پر لڑ رہا تھا ۔ مینا کو ہماری عام زبان میں شارق کہا جاتا ہے۔پندرہ بیس شارقیں کبھی زمین پر جھپٹتیں اور کبھی ایک دوسرے پر اور ان کی آپس میں لڑائی اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور چیختی چلاتی ایک دوسرے کو اپنی چونچوں سے  ماربھگانے کا منظر دیکھنے کے لائق تھا۔۔ ایک زمانے میں ہمارے گھروں میں بکثرت دکھائی دینے والا یہ پرندہ فصلوں پر  جراثیم کش ادویات کے بے تحاشہ  استعمال سے اب ناپید ہوچکا ہے بلکہ اس کو دیکھے مدتیں بیت جاتی ہیں۔ شارقوں کی دو قسمیں ہوتی تھیں ایک جس کی چونچ کے اختتام پر چھوٹی سی سفید کلغی ہوتی ہے اور دوسری قسم میں اس کی کلغی کی رنگت پیلی ہوتی ہے۔ پیلی والی کے بارے میں لوگوں میں مشہورہے کہ یہ حرام ہے۔ شائد اس کوکو حرام قرار دینے کی وجہ وہ ہمدردی ہے جو اس کی چھوٹی جسامت اور اس کی کی شکل میں معصومیت کی وجہ سے پائی جاتی ہے۔ لیکن سفید والی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا شکار کیاجاسکتاہے اور کھایا بھی جا سکتا ہے۔حقیقت کیا ہے ؟ اس بارے میں کبھی نہیں جان سکا۔ ایک بار ایک دوست نے ایک گوند لا کر دی کہ اگر کسی گتے پر لگا کر اس کے اوپر روٹی کے ٹکڑے ڈال دئے جائیں ۔ تو جب پرندہ کھانے کیلئے اس پر بیٹھتا ہے تو اس کے پاؤں اس میں چپک جائیں گے۔ لیکن میں نے جس گتے پر وہ گوندرکھی اس پر شارق آکربیٹھی بھی اور اس کے پاؤں بھی چپک گئے تھے لیکن اس نے زور لگایا اور میری حد سے نکل گئی۔بعد میں اس کے ساتھ کیا بیتی، مجھے نہیں معلوم لیکن شارق پکڑنے کی میری حسرت کبھی دوبارہ پوری نہیں ہو سکی۔میں دیر تک ان شارقوں کو آپس میں لڑتے جھگڑتے دیکھتا رہا۔یکایک شاقوں کے اس گروہ کی حدود میں ایک کوا گھس آیا ۔ شارقوں نے آپس میں لڑنا ختم کر دیا اور مل کر اس کوے پر حملہ کر دیا اور اسے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔کچھ دیر بعد شائد وہی کوا اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ آگیا اور مال غنیمت میں حصہ کا دعوی کرنے لگا۔ لیکن شارقوں نے اس شدت سے ان پر حملہ کیا کہ سارے کے سارے کوے بھاگنے پر مجبور ہو گئے ۔ اور میں آج بھی ان شارقوں سے حاصل کئے گئے اس سبق کو بھول نہیں پایا کہ آپس میں لاکھ رنجشیں سہی مگر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا ہے۔ کیا ہم بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے ان پرندوں سے بھی کمتر ہیں کہ ہمارا دشمن بھی ہمیں متحد نہیں کر پاتا۔
میم۔ سین

Tuesday, February 12, 2013

ویلنٹائن ڈے منانے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔۔۔

پچھلے چند سالوں میں وطن عزیز کی فضا ئیں دہشت گردی سے ہراساں اور پراگندہ ہیں۔، مہنگائی ، سیاسی بے یقینی اور عدم ستحکام کے بعد ہماری پوری قوم ایک گھٹن کا شکار ہے۔اور ہر اس موقعہ کو جس سے تازگی اور خوشی کا احساس ہو ، اپنانے کیلئے فوراً تیار ہوجاتی ہے۔ وہ خواہ کرکٹ میچ ہو یا کوئی میٹرو بس سروس کا آغاز کا افتتاح، نئے سال کی تقاریب ہوں یا عید کی خوشیاں ، وہ ان دنوں کو لیکر مسرت اور شادمانی کے اپنے اظہار کیلئے ہر دم تیار نظر آتے ہیں۔ ان ہی دنوں میں ایک دن چودہ فروری کا ہے جس کو منانے کیلئے نوجوان طبقہ خصوصی طور پر بے چین نظر آتا ہے لیکن دلوں میں شگوفے ہر عمر کے لوگوں میں پھوٹتے ہیں ۔ میڈیا کے ذریعے جس طرح اس دن کی تشہیر ہو رہی ہے اس کے بعد یہ دن ایک باقاعدہ تہوار کی شکل اختیار کر گیا ہے اور اس نے شہروں سے نکل کر قصبوں اور دیہاتوں کا بھی رخ کر لیا ہے ۔محبت کے لئے مختص اس دن کی تیاریاں مہینے کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوجاتی ہیں۔ اب اگر حبس زدہ ماحول سے نکلنے کے لئے بے چین یہ نوجوان نسل اپنی محبت کا اظہار کرنے کیلئے اس دن کو استعمال کرنے کوشش کرتے ہیں تو محبت کے اس مقدس جذبے میں مذہبی رنگ ڈال کر سارے مزے کو خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب بھلا اسلام نے خوشیاں منانے پر کب پابندیاں لگائی ہیں او ر یہ تو خالص ذاتی معاملہ ہوتا ہے جس کا مذہب سے کیا تعلق؟ کیا اسلام نے اولمپک میں شرکت پر پابندی لگائی ہے؟۔ کیا کرکٹ کھیلنے یا ہاکی کھیلنے سے پہلے کسی ملا سے فتوی لینا پڑے گا؟ ہارس اینڈ کیٹل شو اور اور بسنت کو مذہبی رنگ دینے سے کیا بہار کی آمد رک جائے گی؟ سرخ پھول دینے سے یا کارڈ بھیجنے پر زنا کے فتوے کس طرح جائز ہیں؟ ایسے ہی بے شمار دلائل ہیں جو ویلنٹائن ڈے منانے کے حق میں دیئے جاتے ہیں۔ اور بادی النظر میں یہ دلائل اس دن کو منانے کے لئے کافی ہیں۔ نہ تو مجھے اس دن کو منانے پر اعتراض ہے اور نہ ہی میں دنیاوی دلائل سے اس کی حرمت کا قا ئل ہوں ۔ چونکہ یہ ہماری ثقافت سے میل نہیں کھاتا، چونکہ یہ دن مغربی تہذیب کی پیدوار ہے، چونکہ اس سے نوجوان بے راہروی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایسے کتنے ہی بے ضرر دلائل ہیں جن سے اس دن کو منانا غلط ثابت کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ دن منانے سے پہلے چند باتوں کو نظر انداز مت کریں ۔ جنسِ مخالف کیلئے کشش، اس کی طرف میلان اور اس کے لئے دل میں نرم پہلو رکھنا انسانی جبلت ہی نہیں بلکہ اس کائنات کی شائد سب سے بڑی اور واضح حقیقت بھی ہے۔ اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ جو لطف اور مزہ جنس مخالف کی صحبت میں ہے وہ کہیں اور نہیں ملتا۔لیکن زندگی گزارنے کے ڈھنگ فطرت یا جبلت کے تابع نہیں ہوتے بلکہ ان قوائد وضوابط کے تحت ہوتے ہیں جو اس کے خالق نے متعین کئے ہیں۔انسان اور حیوان کے درمیان فرق پیدا کر کے اگر حضرت انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیا جاتا ہے تو وہ یہی اصول اور قوائد و ضوابط ہیں جن پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے وہ دوسرے جاندروں سے جدا گانہ حیثیت اختیار کرتا ہے۔اگر ہم اسلام کو مکمل ضابطہ حیات مانتے ہیں اور اسلام کی حقانیت پر یقین رکھتے ہیں تو پھر اپنی خوشیاں منانے سے پہلے، تہوار وں کا اہتمام کرنے سے پہلے،کسی جشن کا حصہ بننے سے پہلے، کسی فنکشن میں جانے سے پہلے، اس بات کا علم ضرور حاصل کر لیں کہ ہمارے رب کی اس بارے میں کیا خواہش ہے؟۔ غموں کی نوبت آئے تو ذہن میں پہلا خیال یہ آنا چاہئے کہ جب ہمارے محبوب ﷺ پر غم ٹوٹتے تھے تو وہ کیسے اس کا سامنے کرتے تھے ؟ ۔ کسی چیز کے جائز یا ناجائز ہونے کا تعین کرنے کا حق صرف اور صرف اسی ذات کو ہے جس کے ہاتھ میں ہماری جان ہے اور وہ احکام جس مقدس ہستی کے ہاتھوں ہم تک پہنچے اس کو سرور کائنات ﷺ کہا جاتا ہے ۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے ، اس کے ماں باپ،بہن بھائی، اولاد ، اسکی اپنی جان اور کائنات کی ہر چیز سے زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں۔ کوئی بھی دین یا مذہب جب پابندیاں لگاتا ہے تو اسکا مطلب لوگوں کو تنگ کرنا یا تکلیف پہنچانا نہیں ہوتا۔ بلکہ معاشرے میں اس ڈسپلن کو قائم کرنا ہوتا ہے جو کہ اس کی بقا کیلئے ضروری ہے ۔ وہی ڈسپلن جو سڑکوں کے چوڑاھے پر ٹریفک سگنل کی ذریعے پیدا کیا جاتا ہے۔جو آپ پر ناگوار تو ضرور گزرتا ہے لیکن ٹریفک کو رواں رکھنے کیلئے ناگزیر ہوتا ہے۔ ایک دن نبی اکرم ﷺ صحابہ کے ساتھ تھے آپ نے ایک چھڑی کی مدد سے ایک لکیر زمین پر کھینچی اور پھر دو لکیریں اس کے ساتھ مزید کھینچیں اور کہا یہ درمیان والی لکیر صراط مستقیم ہے اور ساتھ والی لکیر یں شیطان کا رستہ ہے اور جو شخص صراط مستقیم والی لکیر سے ہٹتا ہے شیطان اس اچک کر دور لے جاتا ہے۔ اور صراط مستقیم سے بھٹکا ہوا ہر قدم ہمیں شیطان کے ہاتھوں ہمارے اصلی رستے سے بہکا کر اتنا دور لے جاتا ہے کہ ہم گمراہی کے صحرا میں نخلستان ڈھونڈنے کے چکر میں بار بار سراب کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔انبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ جس نے کسی قوم کی شباہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔‘‘ اس رسم کی جو بھی حقیقت ہو ، جو بھی پس منظر ہو ۔ ہمیں اس سے غرض نہیں لیکن یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ یہ رسم ہم تک کہاں سے پہنچی ہے۔ اگر ہم اس دن کو منائیں گے تو ہمارا شمار یقیناًیہود و نصاری سے ہو گا۔ہمارا اس دن کو منانے کیلئے بڑھنے والا ہر قدم اللہ کے رسولﷺ کی نافرمانی پر ہوگا۔ نکاح سے پہلے ایسے دن منانا،دراصل حیا کا جنازہ اٹھانے کے مترادف ہے۔ وہ حیا جس کے بارے میں صحیح مسلم میں مروی ہے کہ ہر دین کی ایک پہچان ہے اور دین اسلام کی پہچان حیا ہے۔ بخاری میں ایک اور حدیث میں مروی ہے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔جس دین کی پہچان ہی حیا ہو تو اس دین میں بے حیائی کے کاموں کی گنجائش کیسے ہوسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کو سرخ پھول دینے میں کوئی قباحت نظر نہ آتی ہو۔ لیکن مرد وخواتین کے اختلاط کی ممانعت سے وہ یقیناً بے خبر نہیں ہونگے کیونکہ سورۃ احزاب میں ارشاد ہوتا ہے۔ ’’عورتوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگیں‘‘ اور سورۃ نور میں ارشاد ہوتا ہے ’’ اے نبی ﷺ اپنے مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظروں کو نیچا رکھیں‘‘ کیا ان آیتوں کے بعد کھلم کھلا رومانوی جملے ادا کرنے کی گنجائش باقی رہتی ہے؟ حیا کا تقاضا ہے کہ ہر اس رستے کو بند کیا جائے جو برائی کی طرف لے کر جاتا ہو۔ اور۔ وہ حیا جس کی عدم موجودگی میں و ہ فطری جھجک ختم ہوجاتی ہے جو ہر شخص کی جبلت میں ہے ، وہ حیا جو معصومیت کی ضامن ہے، وہ حیا جو انبیا کا شیوہ ہے۔ وہ حیا جس کو قرآن نے بار بار پرہیز گار مردوں اور عورتوں کا وصف قرار دیا ہے۔وہ حیا جو فرشتوں کی خوبیوں میں سے ہے ، وہ حیا جسے رب نے اپنے لئے پسند کیا ہے ۔ وہ حیا جس کی حفاظت نہ کی جائے تو زنا کو جانے والے تمام رستے کھل جاتے ہیں۔ وہ آنکھ کا ہو، کان کا ہو یا ہاتھ کا، وہ زنا ہی ہے جس سے بچنے کا سخت حکم ہے۔ حیا سے اعراض کرنے والے کے بارے میں اللہ کے نبیﷺ نے یوں لاتعلقی فرمائی ہے ’’جب تم حیا نہ کرو تو ، جو تمہارا جی چاہے کرو‘ ‘ تو کیا ایک حیا سوز دن منانے کی خاطر ہم کائنات کے سب سے پیارے شخص کی ناراضگی کے متحمل ہو سکتے ہیں؟

Sunday, February 10, 2013

میٹرو بس سروس لاہور

اور بالآخر ستائیس کلومیٹر فاصلہ طے کرنے والی میٹرو بس سروس نے آغاز کر دیا۔شاہدرہ سے لیکر گجومتہ تک ہر کلومیٹر کے بعد ایک سٹاپ پر رکتی ڈیڑھ سو میٹر لمبی ڈیڑھ ارب مالیت کی بسیں یہ فاصلہ پہلے پنتالیس اور اب پچپن منٹ میں مکمل کیا کریں گی اور ایک گھنٹے میں آٹھ ہزار افراد کو اور دن میں صبح چھے بجے سے لیکر رات ساڑھے گیارہ بجے تک ڈیڑھ لاکھ افراد کو سفر کی سہولتیں دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ گیارہ ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل ہونے والے پنجاب گورنمنٹ کے اس انقلابی اقدام کو پوری ملک میں سراہا جا رہا ہے۔تعمیرات کی اس شاندا ر اور لازوال مثال کو نہ سراہا جا نا یقیناًز یاد تی ہو گی اور اگر اس کی افادیت اور مستقبل کی ضرورتوں اور ترقی یافتہ ممالک میں اس کے کردار کو دیکھنے کے بعد اس کو حدف تنقید بنا یا جائے تو یہ بھی انصا ف پر مبنی نہیں ہوگا۔ تاج محل کی عظمت ، روح پرور مناظر ، اس کی وجاہت اور خواب ناک حسن سے شائد ہی کوئی انکار کرسکتا ہو لیکن اگر تاج محل پر آنے والے خرچے اور اس سے حاصل ہونے فائدے کو زیر بحث لایا جائے تو اس میں بہت سی قابل اعتراض باتیں اور بحث طلب معاملے نظر آئیں گے او رہندستان کی مفلوک اور غریب عوام کو سامنے رکھتے ہوئے بجا طور پر مغلیہ بادشاہ کی عیاشی اور فضول خرچی گردانی جائے گی۔اگر ایک شخص کی تنخواہ بیس ہزار ہے تو اس سے مہران گاڑی تو وہ رکھ بھی سکتا ہے اور اس کا خرچہ بھی برداشت کر سکتا ہے لیکن اگر وہ کرولا خریدے تو تنقید اس گاڑی پر نہیں بلکہ اس کی مالی حیثیت سے تجاوز کرنے پر ہو گی۔اگر میں کسی دفتر میں سرکاری ملازم ہوں لیکن کھانا کھانے کیلئے کسی فائیو سٹار ہوٹل کا رخ کروں گا تو لوگ یقیناً اعتراض اس ہوٹل پر نہیں بلکہ میری عقل اورفیصلے پر انگلیاں اٹھائیں گے۔اسلم موچی اگر اپنی بارات مرسیڈیز پر لے جانے کی ضد کرے تو اعتراض گاڑی کی کو ا لٹی یا اس کی قیمت پر نہیں بلکہ اسلم موچی کی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنے پر ہوگا۔اسلئے اعتراض منصوبے کی افادیت پر نہیں بلکہ اس کی لاگت اور اور اس کی افا دیت کے توازن پر ہے۔ پنجاب گورنمنٹ کے اس دعوی پر کہ یہ منصوبہ تیس ارب روپے سے مکمل ہوا ہے، ذہن بے اختیار ڈرامہ بلبلے کے جملوں اور لفظوں کے ہیر پھیڑکی طرف اٹھ جاتا ہے ۔ پنجاب حکومت کے اعداد و شمار سوائے گمراہی ، غلط بیانی اور لفظوں کے ہیر پھیڑ کے علاوہ کچھ نہیں۔ کیا گھر مکمل ہونے کے بعد اس کی مجموئی مالیت کا تعین صرف کھڑے ڈھانچے سے کیا جاتا ہے ؟اصل قیمت جاننے کیلئے اس میں زمین کی قیمت شامل نہیں کریں گے؟ یا دروازوں اور کھڑکیوں کی قیمت کو یہ کہ کر ، یہ بھائی بشیر کی دکان سے آئے تھے شامل نہیں کریں گے؟ یا المونیم کے کام کو ،ٹائلوں اور فرش کے خرچ کو مجموئی لاگت سے الگ رکھیں گے ؟ کیا برقی آلات اور اس کی آرائیش پر اٹھنے والے اخراجات اس کی مجموئی قیمت کی مد سے باہر رکھیں گے؟ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس منصوبے پر مجموعی خرچ ہونے وا لی رقم ایک سو ارب کے لگ بھگ ہے جو مجموعی پنجاب بجٹ کا نصف ہے۔ گیارہ  ماہ کی قلیل مدت میں مکمل ہونے کی حقیقت تو چند ماہ پہلے ایک سڑک بنانے والا ٹھیکیدار ، ایک نیوز چینل پر دے چکا ہے جس سے جب سڑک پر سست روی سے ہونے والے کام کے بارے میں پوچھا گیا تو اس جواب دیا تھا کہ اگر ہمارے بھی واجبات لاہور میں انڈر پاس کے منصوبوں کی طرح بروقت ادا کر دئے جائیں تو ہم بھی یہ سڑک ریکارڈ مدت میں بنا دیتے ہیں۔ اپنے پاس سے رقم خرچ کر کے ہم کتنے دن کام جاری رکھ سکتے ہیں؟ پنجاب میں چھتیس اضلاع ہیں اور اگر ان کے ترقیاتی بجٹ بھی ایک ہی ضلع پر لگا دیے جائیں تو کیا اس احساس محرومی کو دوسرے اضلاع محسوس کئے بغیر رہ سکیں گے؟ ایک بادشاہ شاہی حجام سے ناراض ہو گیا تو اس نے تحفے میں اسے ہاتھی دے دیا تھا ۔ اب مرتا کیا نہ کرتا ، قبول کرنا پڑا اور گھر کی روٹی جو پہلے ہی مشکل سے پوری ہوتی تھی اب اور بھی کٹھن ہوگئی۔ اس ہاتھی کا پیٹ کہاں سے پالتا؟ ابھی سستی روٹی اور سستا بازار جیسے ناکام منصوبوں سے بڑی مشکل سے جان چھڑائی تھی کہ یہ میٹرو کا ہاتھی خرید لیا گیا ہے۔ روزانہ تیس ہزار لوگوں کو سہولت فراہم کرنے کے بعد اربوں روپے لاگت کا یہ منصوبہ کیسے ایک کروڑ سے زائد آبادی والے لاہور کے ٹریفک کے مسائل حل کر پائے گا؟کیا لاہور صرف فیروز پور روڈ اور لوئر مال کے ارد گرد آباد ہے کہ میٹروو بس سروس شروع کر کے پورے لاہور کی ٹریفک کے مسائل کے حل کی نوید سنائی جا رہی ہے؟ کیا گو رنمنٹ سیکٹر ۵۴ جنریٹروں کو قابل عمل حالت میں رکھنے کی اہل ہے ا ور ان کے ڈیزل کی چوری کے خدشوں کا بھی کوئی سدباب ہے؟ لاہور کے بڑے بڑے تجارتی مرا کز میں نصب کئے گئے برقی زینے اب صرف سیڑھیوں کا کام دیتے ہیں۔ کیا حکومت پنجاب ان قیمتی زینوں کی فعال حالت کو یقینی بنا پائے گی؟ ۔ لاہور میں ڈیزل ویگنوں کا جوکرایہ متعین کیا گیا تھا وہ ایک روپیہ فی کلومیٹر تھا۔اور اس لحاظ ستائیس کلومیٹر کا ویگن کا کریہ بھی ستائیس روپے بنتا ہے اور میٹرو بس جیسی لگزری سروس پر دس روپے مسافروں سے لینے کے بعد باقی رقم کتنے عرصے تک گورنمنٹ اپنی جیب سے ادا کرتی رہی گی؟ کیا پنجاب بجٹ ہر سال اربوں روپے کی سبسڈی کا متحمل ہو سکے گا؟ْ ۔کیا پنجاب کے ترقیاتی بجٹ پر ضلع بہاولنگر، ضلع بھکر، ضلع راجن پور، ضلع خوشاب، ضلع مظفر گڑھ، ضلع رحیم یار خان جیسے بیسیوں دوسرے اضلاع کا کوئی حق نہیں ہے؟ کیا ان پسیماندہ ضلعوں کو خصوصی توجہ دے کر لوگوں کے بڑے شہروں کو نقل مقانی کے رجحان کو روکا نہیں جا سکتا تھا؟ کیا جتنی توجہ لاہور کی ترقی اور اس کے مسائل کے حل پر دی گئی ہے اتنی توجہ ضلع ڈیرہ غازی خان، لودھراں یا خوشاب کو بھی دی گئی۔؟ اگر حکومت نے پچھلے پانچ سالوں میں لو کل گورمنٹ سسٹم پر سنجیدگی سے کام کیا ہوتا تو آج لاکھوں افراد کی لاھور نقل مقانی اور سفر کو یقیناً روکا جا سکتا تھا ،جو لاھور کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ٹریفک کے بے ہنگم مسائل کے ذمہ دار ہیں۔پنجاب میں صنعتی زون قائم کر کے ان پر بھی میٹرو بس جیسی توجہ دی جاتی تو لاہور سے لوگ نکل کر جنوبی پنجاب اور دوسرت اضلاع کا رخ کرتے تو لاہور کے ٹریفک کے مسائل خودبخود کم ہوجاتے۔اور میں ان افراد سے بھی عرض کروں گا جو اس منصوبے کو شک کی نظر سے دیکھنے کے باوجود اس بات پر راضی ہیں کہ چلو دوسرے صوبوں کی نسبت پنجاب میں ترقیاتی کام تو ہو رہا ہے۔ صرف اتنا عرض کرو نگا   کہ اپنا تقابل کرنا ہے تو بھارت کے صوبہ پنجاب، ہریانہ، چندی گڑہ ، گجرات اور مہارشٹرا جیسے صوبوں کے وزرائے اعلی سے کیجئے جنہوں نے نا مسائد حالات کے باوجود وہاں اداروں کو استحکام دیتے ہوئے اتنے ہی عرصے میں وہ منصوبے شروع کئے ہیں جن سے ناصرف عام آدمی مستفید ہو رہا ہے بلکہ حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود وہ ختم نہیں ہو سکتے۔ اور پنجاب میں شروع ہونے والے ہر منصوبے کا آغاز شہباز شر یف سے ہوتا ہے اور ان کی مدتِ عمر بھی ان کے ہی دور حکومت تک ہے۔آج اگر وہ وزیر اعلی نہیں رہتے تو ان کا مستقبل بھی وہی ہے جو ییلو کیپ سکیم کا بنا تھا

Saturday, February 9, 2013

جاوید چوہدری کے نام


کل جاوید چوہدری کا کالم پڑھا تو افسوس بھی ہوا اور ہنسی بھی آئی۔ افسوس اس بات کا کہ شوشل میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے جس طرح حقائق کو انہوں نے چھپایا اور جس ڈھٹائی کے ساتھ میڈیا کے کردار کا دفاع کیا، کم از کم میں ایک سینئر صحا فی ا ور ایک کامیاب تجز یہ نگار سے توقع نہیں کر سکتا تھا اور ہنسی اس بات پر کہ الزامات کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی بچہ ان کے ہاتھ سے چپس کا پیکٹ چھین کر لے گیا ہو اور وہ اب دنیا کے سامنے اپنی مظلومیت اور بے بسی کا رونا رو رہے ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ شوشل میڈیا اور میڈیا کا آپس میں تقابل ہی مضحکہ خیز ہے۔ پاکستان میں پرنٹ میڈیا کا قیام پاکستان بننے سے بھی کئی دھائیاں پہلے وجود میں آچکا تھا۔ اور ایک دھائی پہلے الیکٹرونک میڈیا کا آغا ز ہواتھا۔ جو دراصل پرنٹ میڈیا کی ہی ایک میچو ر یا ایڈوانس حالت ہے۔ جبکہ شوشل میڈیا کو پاکستا ن میں وجود میں آئے بمشکل دو سال ہوئے ہیں ۔ جس کی بھاگ دوڑ ایسے ہاتھوں میں ہے جو ہمارے معاشرے کے صحیح عکاس تو ضرور ہیں لیکن ، ابھی تربیت کے انتہائی ابتدائی دور میں ہیں یا یوں سمجھیں کہ ابھی تو حروف تہجی سیکھ رہے ہیں ۔ اسلئے ان کی غلطیوں پر سیکھ پا ہونے کی بجائے ان کی اصلاح کیلئے تدابیر ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ گھر کے سب سے چھوٹے بیٹے کی ہر بات پراعتراض اور ہر اقدام کو حرف تنقید بنایا جائے۔مجھے جن لفطوں نے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کیا ہے وہ ان کہ یہ الفاظ ہیں کہ کیا برما کے مسلما ن صرف ہمارے بھائی ہیں؟ کیا ہمارے علاوہ ۵۷ ممالک کا کوئی فرض نہیں؟ اور کیا پاکستانی میڈیا حکومت ہے؟ یا ایوان صدر ، وزیر اعظم ہاؤس ، یا وزارت خارجہ ہے؟ ہم سے پہلے حکومت کو بولنا چاہیئے۔ ہائے جاویدصاحب آپ نے تو میرا کئی سالوں کا بھرم ہی توڑ کے رکھ دیا۔ آپ نے تو اپنے ہاتھوں میڈیا کے اصولوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ کیا آپ کے کہنے کا مطلب یہ لیا جائے؟ کہ صحافی کا کام صرف وہ لکھنا ہے جو اس سے کہا جائے۔ کیا صحافت بھی کوئی حکومتی ادارہ ہے، جیسے فوج حکومت کے ماتحت ہے اور وہ صرف اس کام میں ہاتھ ڈالتی ہے جس کا اس کو کہا جائے ۔چونکہ کشمیر کا مسئلہ، فلسطین کا مسئلہ ، چیچنیا اور ہر جگہ پستے مسلمانوں کا لہو کا تعلق سفارت کاری سے ہے اس لئے پاکستا نی میڈیا میں ایسے مسائل کو پیش کرنا دراصل حکومتی معاملات میں مداخلت ہے اور ایک ذمے داری صحافی کے کے طور پر وہ اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ہلاک ہونے والے لوگوں کو سب سے زیادہ کوریج میڈیا نے ہی دی اور اتنی بڑی بات کرتے ہوئے ذرا ندامت محسوس نہیں کی کہ ان کے نزدیک دہشت گردی کا شکارافراد صرف وہی ہیں جن کو حکومت تسلیم کرتی ہے اور اتحادی ان پر تصدیق کی مہر لگاتے ہیں۔ کیا میں یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ ہمارے میڈیا نے ڈرون حملوں میں بے گور وکفن لا شوں کو کتنی بار دکھایا ہے؟ چارپائیوں پر جلے نو جوانوں اور ماؤں کے سینوں سے چمٹے بچوں کی تصاو یر کتنی بار دکھائی گئیں؟ کتنے بیگناہ ہلاک ہونے والے افراد کے خاندان والوں کے انٹرویو پیش کئے گئے ؟ مغربی میڈیا میں ڈرو ن حملوں کے خلاف مظاہروں کو کتنی کو ریج دی گئی۔ ؟ اپنی پروفیشنل ذمہ داریوں کا رونا رونے والے شہباز شریف کی بیٹی کی خبر کو نام ظاہر کئے بغیر ایک اہم شخصیت کی بیٹی کا حوا لہ کیوں دیتے رہے؟ ۔ اگر کوئی سونیہ نامی خاتون ایک ڈی ایس پی پر زیادتی کا الزام لگا دے تو اس کیلئے آدھا گھنٹہ کی رپورٹ اور اگر عائشہ احد کا معاملہ ہو تو اس پر آپ اخلا قیات کا سبق دینے لگتے ہیں؟۔ میڈیا کی ذمہ د ار رپو ر ٹنگ کا تو یہ عالم ہے کہ ہسپتالوں میں سیروسز کا قریب المرگ مریض ایمرجنسی میں مر جائے تو اسے ڈاکٹروں کی لاپرواہی اور سفاکی قرار دی جاتی ہے۔ اور اگر کوئی بہروپیا یہ د عواکرے کہ اس کی کمر پر کلمہ اور اسکی روٹیاں جل کر اللہ لکھ جاتی ہیں ۔ تو اس کیلئے ایک گھنٹے کی خصوصی نشریات۔ سوات سے نکلنے والی ویڈیو کو شائد ہر زاویے سے پڑکھنے کے بعد میڈیا کی زینت بنا یا گیا تھا؟ ۔اور کوہستان میں زندہ دفنا دینے والی خواتین کی خبر بھی سپریم کورٹ کے بنائے گئے کمیشن کی منظوری کے بعد پیش کیا گیا تھا؟۔ کیا میڈیا کئی روز تک اجتمائی طور پر سیالکوٹ میں ہونے والے نوجوانوں کے قتل پر لوگوں کے جذبات سے نہیں کھیلا تھا؟اگر جنرل پاشا سربراہ ہو ں تو یہ آزاد میڈیا تحریک انصاف کی کارنر میٹنگز کو بھی لائیو دکھاتا ہے اور اگر وہ نہ ہوں تو تحریک کے بندے ٹالک شوز میں اس لئے شرکت نہیں کر سکتے کہ ان کے پاس قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی نہیں ہے۔ جاوید صاحب نے ملکی بد امنی کی بات کی ہے۔ تو کیا کسی میں اخلاقی جرات ہے کہ کراچی میں نامعلوم قاتلوں کو نام سے پکار سکیں۔ کیا ان میں اتناحوصلہ ہے کہ وہ الطاف حسین کے خطاب کو لائیو دکھانےسےانکار کرسکیں۔ لندن میں سکاٹ لینڈ یارڈ کے چھاپے کے دوران ایم کیو ایم کے سیکریٹیریٹ کا نام لینے پران کے پر کیوں جلتے تھے؟ آزاد میڈیا کے دعوے دار تیزاب سے متاثرہ گنتی کی چند خواتین پر بننے والی فلم پر آسکر آوارڈ ملنے پر تو لڈیاں ڈالتی نظر آئے۔لیکن کسی کو ملکی وقار پر لگا سیاہ دھبہ کیوں نظر نہ آیا جس نے ساری دنیا میں پاکستانیوں کے سر جھکا دیے۔میرا سوا ل تو یہ ہے کیا کل کلاں اگر فیصل آباد میں میڈیا کی توجہ کا مرکز بننے والے دو لڑکیوں کی آپس میں شادی کے معاملے پر کوئی فلم بنائے اور یہ فلم آسکر آوارڈ حاصل کرتی ہے تو ہم اسے بھی اسی طرح جشن منائیں گے؟ آخر موضوع جو بھی ہو پاکستان کا اعزاز تو ہے ۔کیا ملالہ کے مسئلے پر میڈیا نے پوری قوم کو یرغمال نہیں بنائے رکھا؟ کیا طاہر القادری کا لانگ مارچ اتنی توجہ کا مستحق تھا۔؟ ملکی سالمیت کی بات آتی ہے تو پراپیگنڈہ چینل بی بی سی اور وائس آف امریکہ کے پروگرام پاکستانی عوام کو دکھانے پر کس صحافی نے احتجاج بلند کیا تھا؟ بمبئی واقعات کے ملزم اجمل قصائی کو پاکستانی ثابت کرنے کیلئے کون پیش پیش تھا؟ رشیا ٹو ڈے سے نشر ہونے والی یہ رپورٹ کہ امریکہ نے اپنا امیج بہتر بنانے کیلئے پاکستانی میڈیا کو کر وڑوں ڈالرتقسیم کئے گئے ہیں ،کو کس پروگرام میں موضوع بحث بنایا گیا تھا؟ آخر میں جاوید چوہدری میرا صرف ایک سوال ہے۔ اپنے پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کیلئے مہمانوں کو آپس میں لڑانا، ان کی بیہودہ گفتگو پر خاموشی اختیار کرنا ،مہمانوں کے ساتھ بد تمیزی کی آخری حدوں کو چھو جانا اخلاقیات کی کس درسگاہ میں پڑھایا جاتا ہے؟۔ ہمیشہ اپنی دیانت اور ایمانداری کا رونا روتے ہوئے کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہاگر آپ کی مزدوری پانچ سو بنتی ہو اور کوئی آپ کو پانچ ہزار ادا کرنے کا اصرار کرے تو معاملہ صرف مقابلہ بازی میں سبقت لے جانا کا نہیں ہوتا ۔کبھی ان کے اسرار اور بھید ڈھونڈنے کی بھی کوشش کریں جو اس کے پیچھے کار فرما ہوتے ہیں ۔صرف اپنی قابلیت اور کارکردگی کے نشے میں ان بھیانک ہاتھوں میں کھیل کر ان کے مزموم عزائم کا حصہ نہ بنیں ۔ جو اس ملک کی جڑوں کو ہر وقت کھوکھلہ کرنے کی سازش میں مصروف رہتی ہیں۔

Thursday, February 7, 2013

فرشتے

آپ شائد میری ذہنی حالت پر شک کریں یا میری بات کو مذاق میں اڑا دیں۔ کسی دیوانے کی بڑھک سمجھیں گے یا کسی تخیل پسند کا کوئی خواب لیکن میں جو بتانے جا رہا ہوں وہ حقیقت ہے ۔میں نے فرشتوں کو دیکھا ہے ، ہاں ایک بار نہیں دو بار۔یا شائد اس سے بھی زیادہ مرتبہ مگر تب میں ان کو پہچان نہیں پایا ہونگا۔ یہ چند دن پہلے کی بات ہے۔ میں صبح سویرے کمالیہ سے نکلا ہوں لیکن جب دریا بل کے قریب پہنچا ہوں تو گنے کی ٹرالی الٹی پڑی تھی اور رستہ مکمل طور پر بند تھا اور گنے کی ٹرالی پر جتنا وزن ڈالا ہوتا ہے اس کا اندازہ تو آپ کو ہوگا ۔اور اس کوہٹانے میں شام لگ ہو جانی تھی۔ ابھی میں اسی شش وپنج میں تھا کہ ۔ وہاں کھڑے آدمیوں نے ایک راستے کے بارے میں رہنمائی کی کہ اس پر تھوڑا چلنے کے بعد ایک گاؤں آئے گا اور پھر اس سے نکل کر ایک پکی سڑک شروع ہو گی جو آپ کو دوبارہ اسی سڑک پر لے آئے گی۔ اور میں نے گاڑی ان کی بتائی ہوئی سمت موڑ دی۔ کچے رستے پر کوئی دو کلومیٹر چلنے کے بعد ایک گاؤں کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے اور پھر کچھ مکانوں کا سلسلہ۔ بتائی ہوئی ہدائت کے مطابق میں چلتا رہا اور جب گاؤں کے اندر سے تنگ سے رستے سے گزر رہا تھا کہ ایک بکری کے بچے کو رستے میں بیٹھے پایا۔ میرے بار بار ہارن دینے پر بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اور مجھے بریک لگا کر اترنا پڑا ۔ جب میں آگے بڑھا ہوں تو مجھ سے پہلے ایک چار یا پانچ سال کی بچی جو شائد کسی مدرسے میں پڑھنے جا رہی تھی ، جس کی ماں نے بڑی تیاری سے اس کے سر پر رومال باندھ رکھا تھا فراک پہنے ہاتھ میں قاعدہ لئے جھک کر بکری کے بچے پکڑکر اٹھا لیا اور جونہی اس کی نظریں میرے ساتھ چار ہوئیں ۔ تو مجھے اس غیر متوقع جگہ پر دیکھ کر اسکے منہ سے بے ساختہ نکل گیا ’’ ڈاکٹر جی، تسی ‘ ‘ اس کے کہنے کے انداز میں اس قدر بے ساختگی اور معصومیت تھی کہ میں نے بے اختیار اسے اپنی گود میں اٹھا لیا ۔ بکری کا بچہ اس کے ہاتھوں سے نکل کر بھاگ گیا ۔ ہوا میں ایک عارضی سکون تھا۔کہیں کہیں سے چڑیوں کے چہچہانے کی آواز آ رہی تھی۔اس نے اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے سے مجھے حیرت سے دیکھا جیسے صبح رات کی آغوش سے بیدار ہو رہی ہو۔اس کے لبوں پر مسکراہٹ اور چہرے پر معصومیت کروٹیں لے رہی تھی۔ میرا دل کسی دریا کی طرح امنڈ آیا تھا۔محسو س ہو رہا تھا قدرت کائنات کو گدگدا رہی ہے۔رشک صد گلزار بنا رہی ہے۔ اس کی آنکھوں میں صدا بہار پھول کی شادابی تھی کسی فاختہ کی سی معصومیت۔ میں نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا تو، چند لمحوں کیلئے وقت اور جسم کی قید سے آزاد ہو گیا ۔مجھے یوں لگا جیسے میں نے کسی فرشتے کوچوم لیاہے۔ ۔ ۔اس دن دوپہر کو والد صاحب کا فون آیا کہ ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے اور میں نے اسی وقت گھر کا قصد کیا۔جولائی کا مہینہ تھا اور سخت گرمی کا موسم۔ چھوٹی گاڑی کا ائرکنڈشنر تو گرمی کا نام سن کر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔۔ جب تک تو نئی سڑک رہی تو کوئی مشکل درپیش نہ آئی ۔لیکن جونہی پرانی سڑک کا آغاز ہوا ،جو خاصی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی تھی ، گاڑی نے ہچکولے لینے شرو ع کر دیے، بڑے بڑے گڑھوں سے تو بچتا رہا لیکن ایک چھوٹے گڑھے پر کلچ ، بریک اور ریس کا بیلنس خراب ہو گیا اور گاڑی ایک جھٹکے سے بند ہو گئی۔ بار بار سلف دیا لیکن گاڑٰ ی نے سٹارٹ ہو نا تھا اور نہ وہ ہوئی اور پسینے میں شرابور باہر نکلا تو لو بھی ایک سرد جھونکے کی طرح محسوس ہوئی ۔ دور دور تک کوئی سایہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کوئی دو فرلانگ پر شائد کوئی پانی کی کھال تھی جس پر چھوٹے بچے کھیلتے دکھائی دیے لیکن اتنے کمسن کہ میری مدد کیلئے بیکار۔ بونٹ کھول کر اٹکل پچو مارنا شروع کر دیا۔ حل ایک ہی تھا کہ گاڑی کو دھکا لگا کر سٹارٹ کیا جائے۔لیکن کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی،کہاں سے دھکے کیلئے مدد ڈھونڈوں۔اتنے میں ایک آواز آئی مولوی صاحب ! کیا گاڑی کو دھکے کی ضرورت ہے ؟ میں نے بے اختیار بونٹ کے اوپر سے جھانکا تو ایک کوئی سات سال کا بچہ صرف نیکر پہنے ، گیلے جسم کے ساتھ کھڑا تھا۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا ۔ میرا جواب سن کر اس نے کھیلتے بچوں کی طرف دوڑ لگا دی اور کچھ دیر بعد دو سال سے سات سال کے درمیان ننگ دھرنگ بچے شور مچاتے جمع ہوگئے ۔ کچھ نے نیکرپہن رکھی تھی ، کوئی جانگیہ میں اور کچھ فطری لباس میں تھے۔ میں گاڑی میں بیٹھ گیا اور انہوں نے گاڑی کو دھکا لگانا شروع کر دیا ۔ گاڑی کھڑ، کھڑ کرتی سٹارٹ ہو گئی ۔ اسے سٹارٹ حالت میں چھوڑ کر باہر نکلا میرا ارادہ تھا کہ ان کو کچھ پیسے دوں ۔جو میری مدد کو دوڑے چلے آئے تھے۔ لیکن مجھے یہ دیکھ کر اچنبھا ہوا کہ سب غائب ہو چکے تھے۔سب سے پہلے مدد کو آنے والا بچہ نظر آیا تو میں نے اسے آواز دی ۔ اس نے مڑ کر دیکھا اور میرے ہاتھ میں پرس دیکھ کر انکار میں سر ہلاتا الٹے قدموں لوٹنے لگا ۔ اس کے انکار میں ہلتے سر، اس کی آنکھوں سے ابھرتے شرارت کے شرارے دیر تک میری آنکھوں کے سامنے جلتے رہے۔گرم ہوا کے بگھولے کسی خوشگوار جھونکوں میں بدل گئے تھے ۔ میں خود کو کسی لازوال رشتے میں بند ھا محسوس کر رہا تھا ۔ یگانگت کا ایک ا حساس تھا جو میرے سارے جسم میں رقصاں تھا۔اس کی دلنواز مسکراہٹ اور ادائے لا تعلقی میرے دل پر اثر کر گئی۔ اسکی روح کی لطافت کا احساس کسی الہام کی طرح میرے اندر اتر رہا تھا۔اس کے بے لباس جسم میں بھی ایک ادا تھی ایک بے ساختگی تھی۔ وقت کی گھڑیاں تھم گئی تھیں اور زندگی منجمند ہو گئی تھی ۔وہ چند لمحے تھے یا شائد چند ساعتیں ، لیکن میرے لئے صدیاں بن گئیں ۔ میں جانتا تھا آج کے بعد اس بے نشان کا نشان ڈھوندنا مشکل ہوگا۔لیکن میں ایک فرشتے سے مل چکا تھا۔

Wednesday, February 6, 2013

صبح نو

کبھی کبھی جب انسانی رشتوں سے اعتماد اٹھ جاتا ہے تو طبیعت میں ایک جھنجلاہٹ اور چڑچڑاپن ہر وقت ڈسنا شروع کر دیتا ہے۔ ذہن ایک  بنجر زمین کا منظر دکھائی دینے لگتا ہے۔ شخصیت کی عمارت کسی ریت کی بنیادوں پر کھڑی دکھائی دیتی ہے انسانیت سے بیزاری، مذہب سے، روح سے ،جسم سے، اپنے آپ سے بیزاری ،اپنے کام سے بیزاری۔ٍ ۔ کل جب کلینک کیلئے گھر سے نکلا ہوں تو سبزی والے کا ٹھیلہ دیکھ کر رک گیا۔ یہ سوچ کر محنت کر کے کمانے والے ایسے لوگوں کا ہم پر بہت حق ہے ،کچھ سبزیوں کے پیسے دے کر اسے کہا کہ انہیں گھر پکڑا دینا ۔ شام کو جب گھر واپس آیا تو معلوم ہوا کہ وہ چن چن کر گلی سڑی سبزی گھر پر دے گیا ہے ۔ غصہ تو حمید صاحب پر بھی آرہا ہے ۔ جودو دن کا کہہ کر ادھار لیکر گئے تھے اور میں نے بجلی اور ٹیلیفون بلوں کی ادائیگی کیلئے رکھے گئے پیسوں میں سے یہ سوچ کر ان کو دے دئیے تھے کہ دو دن کی تو بات ہے۔اور ایک ہفتے بعد جب مجھے بل وصول ہوئے ہیں تو یاد دہانی پر ادھر ادھر کی ہانک رہے ہیں۔ جنریٹر ٹھیک کرنے کیلئے آئے مستری ندیم کو جب کسی پرزے کی ضرورت پڑی تو وہ بازار سے لینے کی غرض سے چند منٹ کا کہہ کر چلا گیا اور شام کو خالی ہاتھ واپس آگیا کیونکہ وہ دوست کے ساتھ کسی جھگڑے کیلئے بنائی گئی پنچائیت کا اکٹھ دیکھنے گاؤں چلا گیا تھااور اب دکانیں بند ہوگئیں تھیں۔ میں نے میاں الیکٹرونکس والوں سے جب مائیکرو ویو کے بارے میں دریافت کیا تو میرا مطلوبہ ماڈل فوری طور پر دستیاب نہ تھا او انہوں نے صرف دو دن کی مہلت لی کہ پرسوں آپ کو مل جائے گا۔اور جب پندرہ دن بعد دوبارہ فون کیا تو صرف دو دن کی مزید مہلت مانگ رہے تھے۔ ر مضان کے پہلے ہفتے ہی بشیر درزی کو عید کے کپڑے سلوانے کیلئے دے دئیے کہ رش کی وجہ سے بعد میں دیر سویر ہوجاتی ہے اور اس کا ایک ہفتے کا وعدہ جمعۃ الوداع میں تبدیل ہوچکا تھا ۔ گھر میں مرمت کا کچھ کام کروانا تھا اور ایک مستری سے بات ہوئی تو اس نے جمعہ کا وعدہ کیا اور میں سارے کام چھوڑ کر دن بھر اس کا انتظار کرتا رہا اور اسے آنا تھا او نہ وہ آیا ۔ اگلے دن جب اس سے رابطہ ہوا تو اس نے معذرت کی کہ اسے کسی کام پر جانا پر گیا تھالیکن اس میں مجھے اطلاع نہ پہنچانے کی شرمندگی کا کوئی عنصر شامل نہیں تھا۔ اس دن شام کو کلینک سے نکلنے لگا تو ایک فون آیا کہ ایک ایمرجنسی ہے۔ آپ ہمارا انتظار کریں اور اگلے دن جب وہ آئے تومعذرت تو دور کی بات یہ بتانا بھی گوارہ نہیں کیا کہ کل وہ کیوں نہیں پہنچ پائے تھے۔ ابھی کل ہی بیکری سے کچھ فاسٹ فوڈ لیکر گھر گیا جس کے تازہ ہونے کے بارے میں دکاندار نے قسمیں اٹھا کر یقین دھانی کروائی تھی لیکن جب گھر جا کر بدبودار نکلے اور واپس بھیجے تو یہ کہتے ہوئے اسے کوئی شرمندگی نہیں تھی کہ غلطی سے پرانا مال آپ کو چلا گیا تھا۔ دودھ والے کو آپ جتنی مرضی شکائیات لکھوا دیں مگر اس کے پاس آپ کی ہر شکائیت کا معقول جواب ہوتا ہے۔ بھینس کو کل ہی منہ کھڑ کا ٹیکہ لگا تھا۔چارہ پر روزانہ سپرے ہو رہا ہے۔ مکئی دستیاب نہیں اسلئے برسن دینا پڑتا ہے اور آپ کو تو پتا ہی ہے ، خوراک صحیح نہ ہو تو دودھ میں فرق تو آئے گا ۔ اسلم موچی نے جب بیٹی کی رخصتی پر آنے والے اخراجات اور اپنے ہاتھ کی تنگی کا رونا رویا تو مجھے خاصا ترس آگیا اور جتنا ہو سکا ، اس کی مدد کی ۔ لیکن اتفاق سے اس کے گھر کے قریب سے گزر ہوا تو اس کے گھر پر لگی لائیٹیں اور گھر کے باہر مہندی کیلئے جمع مہمانوں کے ہجوم کو دیکھ میرے دماغ کا کھولنا کوئی اچنبھے والی بات نہیں تھی۔مقصود دھوبی مجھ سے صرف اسلئے ایک سال سے ناراض ہے کہ میں نے اسکی ماں کے چالیسویں کیلئے پکنے والی دیگوں میں اپنا حصہ ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔محمد موسی کے ساتھ مالی تعاون کیا گیا تو پیسے اس نے پیر صاحب کے لئے بکرا خرید کر خرچ کر لئے کیونکہ ان کی خدمت میں کچھ پیش کئے مدت بیت گئی تھی۔ رمضان ایک دیہاڑی دار مزدور ہے ۔ گھر میں باتھ روم کی تعمیر کیلئے ہاتھ بٹایا تو اس میں ٹائیلیں لگوا کر اس کے خرچے میں مزید اضا فہ کرلیا۔ محبت اور رحم، دین کی اساس بھی ہے اور بنیاد بھی لیکن اہل مذہب ، صاحبان ثروت کے ہاتھوں چڑھ کر کچھ ایسے سنگدل ہوگئے ہیں کہ اس دین کی قسمت میں صرف محرومیاں رہ گئی ہیں۔ دینی مدارس اور مساجد کسی اقتصادی ہلچل کا حصہ بن چکے ہیں۔دین تو قوت فکر کا نام تھااور ضرورت اس بات کی تھی کہ وہ طلب اور جستجو کی وادیوں میں اپنے گھوڑے دوڑاتے پھریں ۔ مگر ہمارے مذہبی حلقے کسی افیون کا شکار ہو کر سوئے ہوئے ہیں ۔مساجد کی تعمیر شروع ہو جائے تو اس غرض سے اگر تعمیر رک گئی تو چندہ بند ہوجائے گا، کوئی نہ کوئی حصہ زیر تعمیر رکھا جاتا ہے۔ صدقہ اور خیرات کے استعمال میں خیانت کا کبھی احساس تک بیدار نہیں ہوا۔ گھروں میں جا کر قران پڑھ کر مردہ کو بخشانا اور عوض میں دیگوں کے منہ کھول کر دیکھنا مذہب کا افیون نہیں، تو کیا ہے؟۔ ایسے ہی کتنے معاملات ہیں جن میں ہماری غیر ذمہ داری ، لاپرواہی اب بے حسی میں بدل چکی ہے۔ میرا اعتماد انسان سے اور اسکی انسانیت سے اٹھتا جا رہا تھا۔میں گویا خیالات کا قیدی بن چکا تھا ، وحشت کا مارا۔ طبیعت میں ہر وقت ناگواری، بے چینی، اتنا فہم او رضبط کہاں سے لاؤں کہ میں محسوسات کے حد سے بڑھتے حبس کو توڑ سکوں ۔ بجز خاموشی اور برداشت کے کوئی راہ نظر نہیں آ رہی تھی ۔ اور میری جھنجلا ہٹ اور بے چینی میں ہر روز اضافہ ہوئے جا رہا تھا۔ لیکن جب یہ گھٹن اور یہ حبس حدِ جنوں کے کناروں کو چھونے لگا تو منظور حسین ایک تازہ ہوا کا جھانکا بن کر آگیا۔ کئی دن کے حبس کے بعد موسم کھل گیا اور ذہن پر بچھی خزاں ایک دم بہار میں بدل گئی ۔کل جب میں کلینک میں مریض دیکھ رہا تھا تو وہ کمرے میں داخل ہو اور ایک لفافہ میری طرف بڑھایا کہ یہ رکھ لیں ۔ آپ نے یقیناً مجھے پہچانا نہیں ہوگا ۔ پانچ سال پہلے میں آپ کے پاس آیا تھا اور آپ نے پورا سال میری ٹی بی کا علاج اپنے پاس سے کیا تھا۔ اور اب جب میں اپنے پیروں پر کھڑ ا ہوچکا ہوں تو یہ پانچ ہزار اسلئے لایا ہوں کہ جو سلسلہ آپ نے شروع کیا تھا اس کو جاری رکھیں۔
میم۔ سین

Sunday, February 3, 2013

کونج


کونج
جناح ہسپتال کے آؤٹ ڈور سے نکل کر نیا تعمیر ہونے والا برن یونٹ دیکھنے کی غرض سے باہر آیا تو میری نظر اس پر پڑی۔ سفید شلوارقمیض ، سفید جیکٹ، سیاہ بوٹ ،سر پر سفید ڈوپٹہ، ایک لمحے کو اس سے میری نظریں ٹکرائیں تو چند لمحوں کیلئےمیں وقت کی قید سے نکل گیا۔لیکن وہ رکی نہیں۔ چند قدم چلنے کے بعد مڑی اور ایک بار میری طرف دیکھا تو ہم دونوں کے قدم رک گئے ۔ اس کے بال ابھی بھی کالے تھے ۔ قدرتی سیاہ بھی ہوسکتے تھے لیکن ، اس کے چہرے کی زردی اور  تھکاوٹ اسکی عمر کی چغلی کھا رہی تھی ۔ 
میں اس سے  حمید لطیف ہسپتال میں اس دن ملا تھا جب پرفیسر عزیز صاحب کی اہلیہ کا کیمو تھراپی کا تیسرا سائیکل تھا۔ ۔ میں جب ہسپتال پہنچا ہوں تو ڈاکٹر زیبا ہدایت دے کر رخصت ہو رہی تھیں۔میں نے آنٹی کو سلام کیا اوراور کرسی کھینچ کر ان کے قریب بیٹھ گیا۔ ابھی حال چال پوچھ رہا تھا کہ وہ کمرے میں داخل ہوئی اور آتے ہی دوائیوں والا لفافہ نکالا اور اس میں سے ٹیکے ، ڈرپیں ، سرنجیں، برینولا نکال کر ان کو میز پر ترتیب سے رکھنا شروع کر دیا۔ 
تمہارا نام کس نے رکھا تھا ؟ میں نے پوچھا تو وہ ایک دم چونک گئی، آپ کو میرا نام کیسے پتا چلا ؟ 
 اس کی نظریں بے اختیار سینے کے بائیں جانب لٹکے آئی ڈ ی کارڈ کی طرف اٹھ گئیں۔
 ڈاکٹر زیبا آنٹی سے کہہ کر گئیں تھیں کہ آ پ فکر مت کیجئے گا، سسٹر گل ناز آپ کا بہت خیال رکھے گی۔ میری وضاحت پر اس کے چہرے کا تناؤ کچھ کم ہوا۔
 لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اور اپنا کام جاری رکھا۔ ایک ٹیکے کو توڑ کر سرنج میں بھرا اور  ڈرپ اٹھا کر سٹینڈ کے ساتھ لٹکانے لگی۔ میں کچھ دیر تو خاموشی سے اسے دیکھتا رہا اور جب اس نے ٹیکے نکال نکال کر سرنج میں بھرنے اور پھر ان کو ڈرپ میں منتقل کرنا شروع کیے تو میں نے پوچھا کب سے یہاں کام کر رہی ہیں ؟
 اس بار غیر متوقع طور پر فور اً بولی۔ میں جناح ہسپتال میں کام کرتی ہوں۔ سسٹر طاہرہ شادی کے بعد ایک مہینے کی چھٹی پر تھیں تو ڈاکٹر زیبا کے کہنے پر ہسپتال سے چٹھی لے کر ایک ماہ کیلئے یہاں آئی ہوں ۔
 اوہ‘ ،آپ جناح میں ہوتی ہیں!!  میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا ۔میں بھی علامہ اقبال میں تیسرے پراف کی تیاری کر رہا ہوں ۔
 میری بات سن کر بے یقینی میں ایک بار میری طرف دیکھا۔ اور بولی میں آنکولوجی میں ہوتی ہوں ۔
 اس نے بڑھ کر آنٹی کا ہاتھ پکڑا اور ان کے منہ سے ہلکی سی ُ اف کی آواز نکلی اور برینولا لگ چکا تھا۔ جس سرعت سے سوئی لگائی اتنی ہی پھرتی سے ٹیپیں لگا نے کے بعد ڈرپ چالو کردی اور گھڑی ہاتھ میں پکڑ کر گرتے قطروں کا حساب لگانے لگی۔۔ جب اس کام سے فارغ ہوئی تو دوبارہ ٹیکے بھرنے لگی۔
 میرے دوبارہ پوچھنے پر کس شہر سے ہیں؟ تو مختصر سا جواب دیا، قصور سے، لیکن اس بار آواز میں جھجک کچھ کم تھی۔
کتنے بہن بھائی ہیں میں نے حوصلہ پا کر ایک اور سوال داغ ڈالا
ہم سات بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔اور میرا نام میری امی نے رکھا تھا‘‘  ایک ہی سانس میں سب کچھ بتا کر اس نے آنٹی کو تھوڑا کروٹ لینے کو کہا اور انجکشن لگا کر دوبارہ ان کے کپڑوں کو سیدھا کیا۔
والدکیا کرتے ہیں ؟ میں نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھنے کی کوشش کی۔
 امی تو چھوٹے بھائی کی پیدائش پر فوت ہو گئی تھیں اور ا بو ٹی بی کے مرض سے تو نکل آئے ہیں لیکن اب بستر پر زیادہ وقت گذرتا ہے۔
 مجھے وہ سائبریا سے گرم خطوں کو ہجرت کر کے آئی، کوئی پرامید کونج دکھائی دی تھی۔کسی گرم آبی خطوں کے رقص کرتے پرندے کی طرح، کسی دھن میں کھوئی ، کسی امید میں گم۔ وہ ساحل پر کھڑی تھی اور میں کشتی میں کھڑا اس سے باتیں کر رہا تھا۔ وہ بیل پر لگی پہلی کلی تھی جو کھلنے سے پہلے مجھ سے مل رہی تھی۔ اسکی باتوں کا انداز خشک مٹی پر پڑنے والی بوندوں کے بعد اٹھنے والی مہک کا سا تھا۔یا شائد وہ کسی شاداب وادی سے ٹکرا کر میدانی رستوں کو آتی ہوا تھی۔
 لیکن اس سے پہلے میں کوئی اور بات کرتا وہ آنٹی سے طبیعت کا پوچھ کر دوبارہ آنے کا کہہ کر چلی گئی ۔ میں کچھ دیر پاس رکھے اخبار کو لے کر ورق گردانی کرتا رہا۔ پھر اٹھ کر باہر کوریڈور میں آگیا۔ کینٹین دیکھ کر چائے پینے رک گیا ۔ چائے پی کر جب دوبارہ کمرے میں پہنچا تو وہ بلڈ پریشر چیک کر رہی تھی۔ کوئی گولی کھانے کو دی اور سٹول کھینچ کر اس پر بیٹھ گئی۔
 کتنے عرصے سے نرسنگ فیلڈ میں ہیں؟ 
 میرے پوچھنے پر بولی ’’سات سال ہو گئے ہیں
 شادی ہو گئی ہے؟ میرے غیر متوقع سوال پر وہ ایک دم چونکی اور پھر کچھ دیر چہرے کے غیر یقینی تاثر کے ساتھ بیٹھی رہی ، گرداب میں پھنسنے کے بعد اس کی کشتی نے ہچکولا کھایا اور جب تھوڑا سا سنبھلی تو بولی،امی کی وفات کے بعد سارے گھر کی ذمہ داری اب میرے اوپر ہے۔ میری چھوٹی دونوں بہنوں کی نسبت ٹھہر چکی ہے ۔ ان کی ذمہ داری ادا ہوگی تو پھر ان سے چھوٹی بہنوں کے بارے میں سوچوں گی۔
 اور اٹھ کر دوبارہ بلڈ پریشر چیک کرنے میں مصروف ہوگئی۔ ڈرپ مکمل ہونے میں کتنی دیر لگ جائے گی؟ میں جانتے ہوئے بھی کہ ابھی تو ڈرپ شروع ہوئی ہے اور اگر کوئی مسئلہ درپیش نہ بھی آیا تو  بھی چھ سات گھنٹے لگ جانے ہیں۔ لیکن میں اس کے منہ سے جواب سننا چاہتا تھا۔
 وہ جب بولتی تھی تو اس کی آواز میں ایک ٹھہراؤ تھا، متانت تھی، وقار تھا، ایک اعتماد تھا ایک سوچ تھی۔" یہی کوئی چھ گھنٹے"  یہ کہہ کر کمرے سے نکل گئی۔لیکن ایک دم پلٹی اور بولی آ پ اس دوران یہیں رہیں گے؟
 ہاں ، پروفیسر صاحب کو سیکریٹیر یٹ کا م ہے اس لئے انہوں نے شام تک یہاں ٹھہرنے کیلئے میری ذمہ داری لگائی ہے، اور وہ ’ہوں‘ کہ کر کمرے سے نکل گئی۔
وہ صحرا میں تپتی دھوپ کا بادل تھی یا کسی مہیب غار کا رستہ۔ وہ جستجو کے سفر کا ایک قدم تھی یا بند دریچوں کا اکلوتا روزن۔ میں دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ آنٹی گہری نیند میں جا چکی تھیں کیونکہ ان کے خراٹوں کی آواز اب سنائی دے رہی تھی۔ اور میں اخبار  نکال کر اس میں محو ہو گیاجب آنٹی نے الٹی کے لئے زور لگایا تو میں ایک دم گھبرا گیا اور بھاگ کر نرسنگ کائونٹر پر اطلاع دی اور اگلے لمحے گل ناز وہاں موجود تھی، نبض دیکھی اور بلڈ پریشر چیک کیا اور کچھ انجکشن نکال کر لگا ئے اور وہیں بیٹھ کر طبیعت کے سنبھلنے کا انتظار کرنے لگی۔
گھر کتنے عرصے بعد جانا ہوتا ہے میں نے گفتگو جاری رکھنے کی کوشش کی۔
 یہی کوئی ایک ماہ بعد ، اکثر تنخواہ ملنے کے بعد۔لیکن کئی بار دو دو ماہ بھی نہیں جا ہوتا۔ اب کی بار اس کی آواز میں پہلے سے زیادہ اعتماد اور بات کو جاری رکھنے میں دلچسپی کا میلان بھی نظر آیا۔
 بڑی ہونے کے نا طے گھر میں تو ہیڈ مسٹرس والی سختی چلتی ہوگی؟
 اس نے چہرے پر بے اختیا ر امڈآنے والی ہنسی کو  دبایا تو میرے بھی چہرے پر دبیز مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ کھلتی تو بہار آجاتی ، وہ چاندنی کی ٹھنڈک تھی۔ کسی دیے کا ڈبڈبا تا شعلہ ۔اس کی آنکھوں میں بلا کی گویائی تھی۔ چہرے پر مسکراتی دھنک کے رنگ ، ہونٹوں پر کسی معصوم بچے کی مسکراہٹ کا ترنگ ۔
 کیا روزانہ یہاں تک ٹیکسی پر آتی ہو؟ میں نے پوچھا۔ 
نہیں ، ہوسٹل سے بس پر بیٹھ کر مسلم ٹاؤن موڑ والے سٹاپ پر اتر جاتی ہوں اور وہاں سے پیدل ہسپتال تک مارچ کرتی ہوں اور ایسے ہی شام کو روانگی ہوتی ہے۔ ۔ اس نے ایک ہی سانس میں ساری تمہید یوں باندھی کہ کہیں میں سفر پر کوئی اور سوال نہ کر ڈالوں۔
’’ مشکل تو ہوتا ہو گا ، روزانہ کا آنا جانا‘‘۔ میں نے ہمدردی کی تو بولی
’’ ایک ماہ کی تو بات ہے، ابھی تو بہت مزہ آرہا ہے کام بھی کم ہے ‘‘۔ اس کی بات سن کر میں مسکرایا اور کہا تو اگرسہل طبیعت کی عادت پر گئی تو ؟
 اس نے کوئی جواب نہ دیا اور بلڈ پریشر چیک کر کے دوبارہ چلی گئی۔
 آنٹی دوبارہ نیند میں چلی گئیں اور میں کچھ دیر دوائیوں سے پمفلٹ نکال کر اپنی پتھالوجی کو آزماتا رہا اور چائے کی غرض سے کینٹین آگیا۔ کچھ دیر ادھر ادھر گھوم کر دوبارہ کمرے میں آگیا ۔
ؔخاموشی دیواروں سے لگی تھی ۔ ایک سناٹا تھا ،ایک سکون تھا۔ میں ڈرپ سیٹ میں گرتے قطروں کو گنتا گنتا سو گیا ۔دروازہ کھلنے کی آواز نے مجھے بیدار کیا تو گل ناز بلڈ پریشر چیک کر رہی تھی اور ڈرپ آدھی سے زیادہ ختم ہو چکی تھی۔ آنٹی جاگ رہی تھیں اور میرے پو چھنے پر کوئی مسئلہ تو نہیں ، کمزور سی آواز میں بولیں نہیں۔ اب متلی والی کیفیت بھی کچھ سنبھل گئی ہے۔ جسم میں بہت درد ہو رہا ہے۔
 میرے جواب دینے پہلے وہ بولی ابھی میں نے درد کیلئے انجکشن نہیں لگایا ۔ابھی لگائے دیتی ہوں ۔
 آپ کے ایگز یمز کب شروع ہو رہے ہیں ؟‘‘۔ پہلی بار اس نے میرے بارے میں پوچھا۔
 اگلے ماہ کی انیس تاریخ سے۔
 کون سے شعبے سے دلچسپی ہے ؟ اس نے مزید کریدا تو اس کے پوچھنے کا انداز مجھے بہت اچھا لگا
جیسے آفتاب سمٹ کر کرہ ارض کی آغوش میں آکر اس چھوٹے سے کمرے میں چھپ رہا ہو۔جیسے کوئی باکمال ہستی اپنا لافانی گیت گنگنا رہی ہو۔پانی کی لہریں پتھروں سے ٹکراتی، شور مچاتی ساز بجا رہی ہوں۔ ابھی تو اس بارے میں کچھ نہیں سوچا۔ فی ا لحال تو صرف پیپروں کی فکر ہے ۔ ۔ 
اس کے بیٹھنے کے انداز سے مجھے یوں لگا جیسے وہ بھی میری طرح اس گفتگو کو جاری رکھنا چاہ رہی ہے۔ گھر والوں کا رویہ تمہارے بارے میں کیسا ہے؟
 میرے سوال نے یکدم اس کے چہرے پر ایک کرب سمو دیا۔ دریا کے آگے لگے سارے بند ٹوٹ گئے۔تند موجوں کے مقابل پل ایک دم بہہ گیا۔ تناور درخت جو کتنی دیر سے آندھیوں کے آگے کھڑے تھے، اپنی جڑوں سمیت اکھڑ گئے۔بے بسی، بے کسی، نا امیدی کی ایک یلغار تھی جس نے میرے سارے جسم کو ، میری ساری روح کو ہلا کر رکھ دیا۔
وہی جو دبئی گئے شخص سے اس کے گھر والوں کا ہوتا ہے۔ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کا انتظار اور بس۔ انہیں اس سے کیا غرض؟ ، میں تندرست ہوں یا بیمار ، خوش ہوں یا اداس، میری حسرتیں کیا ہیں ؟ میری چاہتیں کیا ہیں ؟ میرے بھی کچھ خواب ہیں ، میرے بھی کچھ سپنے ہیں ، میں بھی دل رکھتی ہوں ، میری بھی کوئی آرزوئیں ہیں میں بھی جذبات کی خریدار ہوں۔ شعور و خرد کی طمع مجھے بھی ہے۔یہ نفسانی خواہشیں نہیں ہیں ۔انسان آخر انسان ہے ۔ اس کی ایک فطرت ہے۔وہ فطرت جو کہیں نہ کہیں بیدار ہوتی ہے ، شعور کو مغلوب کرتی ہے ۔ یہ ۔۔۔۔۔ 
وہ بولے جا رہی تھی اور ہاتھ سے اپنے بازو پر چڑھے کنگن کو انگلیوں سے گھمائے جا رہی تھی۔۔ بات کرتے کرتے وہ ایک دم گھبرا گئی جیسے سر بازار اسنے خود کو برہنہ کر دیا ہو۔ اپنی بات نامکمل چھوڑتے ہوئے تیزی سے اٹھی اور کمرے سے نکل گئی۔ میں اس ساری ساری صورتحال کو ناسمجھتے ہوئے آنٹی کی طرف دیکھا تو وہ بے خبر سو رہی تھیں ۔میں بے یقینی کی کیفیت میں  ہراساں ہورہا تھا۔۔ تھوڑی دیر میں پروفیسر صاحب بھی آگئے اور ڈرپ بھی ختم ہو گئی ۔
 وہ خاموشی سے کمرے میں آئی ۔ ڈرپ ہٹائی، بلڈ پریشر چیک کیا، ایک انجکشن لگا کر ، برینولہ نکال دیا اور جتنی خاموشی سے آئی، اتنی خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ میں نے ان نیم جان آنکھوں میں ایک بار جھانک کر روشنی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن اس وقت صرف اندھیروں کے  سواکچھ دکھائی نہ دیا۔ پروفیسر صاحب کو ٹیکسی میں سوار کراکے میں پیدل ہی مسلم ٹاؤن موڑ کی جانب روانہ ہو گیا۔ 
 اتنے سالوں بعد کل شام جب پیڈیاٹرک وارڈ سے نکل کر جناح ہسپتال کے آؤٹ ڈور والے حصے سے گزرا تو اسے دیکھ کر قدموں کو روک لیا۔اتنے سالوں میں اس پر کیا بیتی میں نہیں جانتا لیکن اس خزاں لئے زرد چہرے کو دیکھ کر صدیوں سے سہے جانے والے دکھوں کے بوجھ کا اندازہ ضرور ہوتا تھا۔ میں گومگو  کیفیت میں اس کے پیچھے تو گیا لیکن پھر وہاں سے ایمرجنسی کو جانے والی سڑک پر چلنے لگا۔۔
میم۔ سین

Saturday, February 2, 2013

یا جوج ماجوج

سائیں کو سب لوگ پاگل کہتے ہیں ۔ کوئی تیس پینتیس سال عمر ہو گی، نشہ کرتا ہے، سارا دن شہر میں آوارہ گردی اور شام کو کبھی قبرستان میں،اور کبھی اپنے گھر کے باہر سو جاتا ہے۔ اس کہ ماں اسے جھلا اور کبھی سودائی کہ کر پکارتی ہے۔ میرے خیال میں نہ تو وہ پاگل ہے نہ ہی دیوانہ بلکہ نشہ کی لعنت میں خود کو گرفتار رکھ کر وہ حقیقتوں سے فرار چاہتا ہے۔۔ سائیں کے بارے میں مشہور ہے جب اس کی منگیتر مر گئی تھی تو جب لوگ اسے قبرستان میں دفنا کر آئے تو وہ رات کو اس کی لاش کو قبر سے نکال لایا تھا۔ ایک بار جب میں نے اس بارے میں پوچھا تو کہنے لگا، وہ مری نہیں تھی، گاؤں والوں نے اسے زندہ دفنا دیا تھا۔ میں نے ہنس کر پوچھا، تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ وہ زندہ تھی؟۔ میرے سوال پر ایک دم سنجیدہ ہو گیا۔ وہ دفن ہونے کے بعد مری تھی۔ پہلے اس کے سانس چل رہے تھے۔ ڈاکٹر کبھی عشق کیا ہے؟ تو نے کبھی عشق کیا ہوتا تو تجھے علم ہوتا ،کیسے سانسوں کا دور سے پتا چل جاتا ہے۔ لیکن لوگوں کے نزدیک سائیں کے پاگل پن کی وجہ کوئی عشق وشق نہیں بلکہ گھر میں آنے والے صدمے تھے۔ پہلے بھائی کو کینسر ہو گیا ۔ ابھی جمع پونجی لٹاکر اسے دفنایا تھا کہ باپ بھی قبر میں اتر گیا۔اور پھر مسائل کا مقابلہ کرنے کی بجائے نشہ کی لعنت کا شکار ہو گیا۔وہ بیس روپے لینے کیلئے دوسرے تیسرے دن شام کو کلینک کے باہر انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ جس دن زیادہ پیسوں کی ضرورت ہو اس دن کوئی خبر یا انکشاف سنبھال رکھا ہوتا ہے جو کبھی سچ ثابت ہوتاہے اور کبھی ایسی افواہ جس کی کبھی تصدیق نہ ہوسکی ہو ۔ لیکن سائیں کے انکشافات کا انداز بڑا دلچسپ ہوتا ہے۔ جب میں کلینک سے نکلتا ہوں تو سائیں میرے ساتھ ساتھ چلناشروع کر دیتا ہے۔ آپ کو پتا ہے انورپٹواری کی بیٹی ٹائیفائیڈ سے نہیں مری تھی بلکہ اسے قتل کیا گیاتھا۔، قتل اس کے باپ نے کیا تھا کیونکہ اس نے قصائیوں کے لڑکے سے چھپ کر شادی کر لی تھی۔ اور جو علی پنساری والوں کا لڑکا اغوا ہوا تھا ۔ وہ سب ڈرامہ تھا۔پاکستان کے کرکٹ میچ پر جوا ہار گیا تھا۔ جب پیسے اکھٹے نہ ہوسکے تو یہ اغوا کا کھیل کھیلا تھا۔ اور سکینہ کی دھی چھت سے گر کر نئی مری تھی ۔ بچہ ضائع کرانے گئی تو دائی سے خون زیادہ ضائع ہوگیا تھا۔محمد حسین کی کھڑی فصل کو آگ ،اس کے بھتیجے نے رشتے سے انکار کی وجہ سے لگائی تھی۔ اگر میں ان واقعات کی تصدیق مانگوں تو سائیں کا ہمیشہ جواب ہوتا ہے، آ پ بھی بھولے انسان ہیں سارے شہر کو پتا ہے ۔ بس کوئی بولتا نہیں ہے۔سائیں کی اکثر باتیں صحیح ثابت ہوتی ہیں جیسے برکت مسیح کے گھر کے باہر سے بالن عیسائیوں کے لڑکے نے چرایا تھا، کلثوم بی بی کی بہو کو کھیت کے بنے پر نمبردار کے بیٹے نے چھیڑا تھا۔ منظور کی بھینس کو زہر کس نے ڈالا تھا۔ زبیدہ کی بیٹی کے گھر سے بھاگنے میں اس کی مدد کس سہیلی نے کی تھی۔ اسلم سائیکل ورکس والے کی دکان کے تالے کس نے توڑے تھے۔ ایسے ہی بیشمار واقعات جن کو لے کر جب بیٹھتا تو ان سے جان تبھی چھوٹتی تھی ، جب اسے سو کا نوٹ دیا جاتا ۔ لیکن کل جب میں کلینک سے باہر نکلا ہوں تو ایک دم سے میرے سامنے آگیا۔ اور بولا ڈاکٹر صاحب جو بات میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں وہ اتنا بڑا انکشاف ہے کہ آپ مجھے دو سو سے سے کم نہیں دیں گے ۔ میں کچھ جلدی میں تھا ۔ یہ سوچ کر ابھی تازہ تازہ سوٹا لگا کر آیا ہو گا اس لئے ابھی ترنگ میں ہے نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔۔ لیکن اس نے یہ کہ کر میرے قدم روک لئے میں نے یا جوج ماجوج قوم کو ڈھونڈ نکالا ہے۔’’ کہاں دیکھ لیا تم نے ؟ ‘‘ میں نے پوچھا تو بولا ڈاکٹر صاحب وہ مخلوق ہم ہی ہیں ۔ میں نے ایک قہقہ لگایا یہ آج تمہیں کہاں سے وہم ہوگیا ہے کہ ہم ہی یاجوج ماجوج ہیں ۔ کہنے لگا ۔ آپ کو یا د ہے رمضان میں پیرزادہ صاحب نے تحریک انصاف میں شمولیت کی خوشی میں سارے شہر کو افطاری کی دعوت دی تھی اور لوگوں نے افطاری سے آدھا گھنٹہ پہلے ساری دیگیں ختم کر ڈالی تھیں۔ لیکن یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی، میں نے کہا عوامی جگہوں پر ایسا ہو ہی جاتا ہے۔’’اور جو سستا آتا سکیم کی بوریاں چھین کر لے گئے تھے‘‘ ۔ سائیں جھنجلاکر بولا۔ میں نے کہا یہ بھی کوئی انہونی نہیں ہے۔ مال مفت دل بے رحم۔ہر ملک میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں ۔ سائیں کو میری بات پر غصہ آگیا اور بولا یہ بھی معمول کی بات ہے کہ ملک پیک والے جان بوجھ کر سرف، گھی، سنگ مر مر کا پاؤڈر ملا دودھ خرید رہے ہیں ، ۔ یہ بھی کوئی اہم بات نہیں جو ہم اپنے بچوں کو پانی ملا گوشت کھلا رہے ہیں، کیمیکل والی ٹافیاں دے رہے ہیں۔ گھروں میں گھٹیا کوالٹی پیک کر کے جوس پلا رہے ہیں۔بُھس والی مرچیں ، پانی والے سپرے، اور جعلی کھادیں ، یہ سب کام انسان نہیں کر سکتا،اپنے جسم کو اپنے ہاتھوں سے انسان نہیں کاٹ سکتا۔ ابھی وہ کچھ اور بولنا چاہتا تھا لیکن میں نے ٹوکتے ہوئے کہا۔ یہ سب لالچ میں اندھی قوم کا شاخسانہ ہے۔مہنگائی اور افراط زر نے لوگوں کو شارٹ کٹ مار نے کا عادی بنا دیا ہے۔ جب کوئی بات نہ بنی تو سائیں گویا ہوا۔ آپ کو علم ہے آج صبح منیر دودھ والا اپنے موٹر سائکل پر جا رہا تھا تو ایک ٹریکٹر کے ساتھ ٹکڑا کر مر گیا ہے؟۔ ہاں مجھے معلوم ہوا ہے۔ ٹریکٹر کے ساتھ سہاگہ باندھا ہوا تھاتیز رفتاری کی وجہ سے جھولتا سہاگہ موٹر سائکل سے ٹکرا گیا تھا۔ میں نے لاپرواہی سے جواب دیا۔ ’’ پولیس کے جائے وقوع پر دیر سے پہنچنے کی وجہ سے اس کی لاش دو گھنٹے سڑک پڑی رہی تھی‘‘۔ سائیں کو غصہ آنے لگا تھا۔ میں نے کہا محکمانہ مجبوریوں میں دیر سویر ہو ہی جاتی ہے آخر وہ بھی انسان ہیں۔ اس پر سائیں پھٹ پڑا ۔ اچھا یہ سب انسان ہیں ؟ کیا وہ بھی انسان تھے جنہوں نے منیرے کی ہاتھ سے گھڑی اور اور جیب سے موبائل نکال لیا تھا جب ابھی اس کی سانسیں ختم نہیں ہوئیں تھیں؟ اور اب سائیں کی منطق کے آگے میرے پاس جواب ختم ہو چکے تھ
 میم ۔ سین