Thursday, March 21, 2013

جہالت


چند گھنٹے پہلے کلینک میں بہت تشویش ناک حالت میں لائی جانے والی زینب کو مردہ قرار دے کر میں اپنے دفتر میں آکر اپنی کرسی پر ڈھیڑ ہو گیا ہوں ۔ میرے ذہن میں ایک طوفان چل رہا ہے،مجھے یوں لگ رہا ہے میرے ارد گرد دھواں بھر رہا ہے۔ میرا سانس گھٹ رہا ہے۔ کوئی گہری گھاٹیاں ہیں جو مجھے ڈرا رہی ہیں۔ میں موجوں سے خوفزدہ کسی ٹوٹے ہوئے تختے پر بیٹھا، ہراساں کبھی اِدھر کو لڑھک رہا ہوں اور کبھی اُدھر کو۔کوئی سمت دکھائی دے رہی ہے نہ کوئی منزل۔ میرے ذہن میں آندھیاں چل رہی ہیں اور میرے سینے میں ایک عجیب سا طلاطم برپا ہے۔

بائیو کیمسٹری کا یہ دوسرا ٹسٹ تھا، جو پوری کلاس کے ذہنوں پر سوار تھا، ٹسٹ سے ایک دن پہلے کی بات ہے جب ڈاکٹر مشہود کا قتل ہوگیا۔ پورے کالج کی فضا میں ایک خوف اور غیر یقینی کی صورتحال نمایاں تھی۔ ۔گرمیوں کی چھٹیاں قریب تھیں اور آدھی رات کو کالج انتظامیہ نے گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان کر دیا اورہم اپنا سامان باندھ کر گھروں کو لوٹ گئے۔ 
چھٹیوں کا یہ کوئی دوسرا دن تھا جب امی نے آنٹی کلثوم کی سفارش کی کہ ان کی بیٹی نویں جماعت میں پڑھتی ہے، خاصی ذہین ہے۔ لیکن وہ لوگ ٹیوشن افورڈ نہیں کر سکتے۔ کچھ دیر اسے پڑھا دیا کرو۔اور یوں عاشی سے میرا ایک ایسا تعلق قائم ہوا جو ذات کی تسکین اور غرض کے دوسرے کنارے پر آباد تھا۔ 
صبح کی سیر کیلئے نکلتا تو واپسی پر ایک گھنٹہ اسے پڑھاتا اور پھر اپنے گھر لوٹ آتا۔ ایک متوسط گھرانے کی ذہین لڑکی لیکن جس کی پیدائش اس وقت ہوئی تھی جب والدین کو بچوں سے زیادہ گھر چلانے کیلئے روزانہ کے اخراجات پورا کرنے کی فکر زیادہ رہتی تھی۔سات افراد پر مشتمل اس گھرانے میں عاشی کی حیثیت ایک خورد رو جھاڑی سے زیادہ نہیں تھی جو بغیر ضرورت کے اگ آتی ہے۔ لیکن وہ ایک ایسی کلی تھی جسے حالات نے وقت سے پہلے پھول میں ڈال دیا تھا ۔
گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کے باوجود سارے گھر کی روح رواں تھی۔امید اور یاس کی پہلی گھڑی، کسی نخلستان سے بکھرتی صحرا میں کوئی ہوا کا جھونکا۔ آواز بدل کر دوسروں کی نکلیں اتارتی، منہ کھول کر اپنے ہموار دانتوں کی نمائش کرتی، ہنستی تو بے ساختہ اس پر پیار آجاتا تھا ، وہ سطحی سی ایک عام سی لڑکی تھی لیکن جب سنجیدہ ہو جاتی تو اس کے باتوں میں ایک دادی اماں والا اعتماد نظر آتا تھا۔ وہ خواب دیکھتی تھی لیکن خوابوں پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ وہ تمناؤں اور خواہشوں کے ہجوم میں رہتے ہوئے بھی اپنی حسرتوں کو بے لگام نہیں ہونے دیتی تھی۔
چند دن میں گھر کے سب افراد اس قدر گھل مل گیا کہ میں ان کے گھر پہلے سے زیادہ وقت گزرنے لگا اور بات کتابوں سے نکل کر لڈو اور کیرم تک پہنچ گئی ۔اور یوں پڑھائی ختم ہونے کے بعد خوب گہما گہما ہوتی۔عاشی کی بڑی بہنیں اور اور بھائی بھی ان میں اس شامل ہوجاتے۔کبھی کسی فلم کی کہانی تخلیق ہو رہی ہے، تو کبھی سیاست پر گفتگو ہو رہی ہے۔ کبھی موسموں میں حسن ڈھونڈا جا رہا ہے تو کبھی فیشن کے بدلتے انداز پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ کبھی کسی ڈرامے کے کردار پر تنقید ہو رہی ہے تو کبھی کسی اشتہار کی نقل اتاری جارہی ہے۔عاشی کی اکثر باتیں اتنی بے ساختہ ہوتی تھیں کہ مجھ پر ہنسی کا دورہ پر جاتا اور اس کی باتوں کی لطافت کا مزہ بہت دیر تک محسو س کرتا رہتا۔ جب ان دیکھی بستیوں کی بات ہوتی تو وہ سب سے زیادہ پرجوش دکھائی دیتی۔ اور ہم باتوں باتوں میں تخیل کی بستیاں بساتے، دور کے دیس کے رہنے والوں سے ملنے کا پروگرام بناتے۔ ہم آرزوں اور امنگوں کے قلعے تعمیر کرتے۔
کبھی کبھی وہ اتنی سنجیدہ گفتگو کرتی کہ مجھے اس کی عمر پر شک ہونے لگتا کہ کوئی بوڑھی عورت قید کر کے اس ننھی سی جان میں بند کر دی گئی ہے۔ شائد یہ گھر کے حالات تھے جنہوں نے اسے عمر سے پہلے اس کے اندر ایک سنجیدہ عورت کو آن بٹھایا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی زندگی کتنی ناپائیدار ہے۔ جذبوں کی صداقت لفظوں کی نہیں ارادوں کی محتاج ہوتے ہیں۔ اس کے والدین کو کو اگر اس سے کوئی غرض تھی تو صرف اس حد تک کہ وہ میٹرک کر لے اور بس ۔ لیکن مجھے اس کی آنکھوں میں ذہانت کی ایک چمک دکھائی دیتی تھی۔ میں اس کے اندر کے فنکار کو نکال کر ساری دنیا کو دکھانا چاہتا تھا۔ میں تراش کر اس ہیرے کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا۔ اس کی باتوں میں کسی کوئل سی معصومیت جھلکتی تھی۔ وہ ہمیشہ آج میں جیتی تھی اسے کل کی کوئی فکر نہیں تھی۔
اور اس کی باتوں کی کشش نے میرے اور اس کے بیچ ایک بے نام سا رشتہ کھڑا کر دیا تھا۔ جو احترام اور اپنائیت کے کسی سنگم پر کھڑا تھا۔
چھٹیاں ختم ہو گئیں اور میں اپنے کالج لوٹ آیا۔ تعلیمی سرگرمیوں نے زندگی کو کچھ اس طرح سے الجھایا کہ میں عاشی اور اس کے گھر والوں کو یکسر بھول گیا ۔ جب کبھی گھر آنا ہوتا تو اتنے مختصر وقت کیلئے کہ ان کے ہاں جانے کا وقت ہی نہ ملتا تھا۔ایک دن امی نے فون پر درد ناک خبر سنائی کہ ایک ماہ سے عاشی کا بخار نہیں ٹوٹ رہا اور ان کے گھر والوں کے بقول ا س پرسایہ ہوگیا ہے ۔ 
جس دن گھر آنا ہوا میں سارے کام ادھورے چھوڑ کر ا س کے گھر چلا گیا۔ پہلی نظر میں پہچان ہی نہیں پایا ، کہاں وہ زندگی سے بھرپور چہرہ اور کہاں یہ خزاں زدہ صورت ، کہاں وہ پریوں کی کہانیاں سننے والی گڑیا اور کہاں یہ بے روح آنکھیں۔ کہاں وہ شرمیلی اور شگفتہ مسکراہٹ اور کہاں زندگی سے خائف یہ ہونٹ۔ اس کی بیماری کا سن کر شائد مجھے اتنا صدمہ نہیں ہوا تھا لیکن اسے دیکھنے کے بعد مجھے یوں لگا جیسے میرے جسم سے کسی نےروح کھینچ لی ہو۔ کسی صندوقچے میں بند کرکے اس میں روشنی بند کر دی ہو۔میں دم سادھے بے یقین لہجے میں اس کے پاس بیٹھ کر اس کا ہاتھ تھا ما ، تو میرے جسم میں ایک عجیب طرح کی اضطرابیت پھیل گئی۔ 
ساری باتوں کا علم ہوا تو میں نے اس کے والدین سے کہا اسے لاہور لے کر آئیں میں وہاں کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھاؤں گا ۔ یہ جنات اور سائے والی باتیں تو آپ لوگوں نے خواہ مخواہ بنا لی ہے۔ آج کے مصروف دور میں ، بھوت اور چڑیلیں اتنے فارغ نہیں کہ وہ قبضہ گروپ قائم کرتے پھریں۔ اور نہ ہی یہ اتنی بزدل ہے کہ ان کو یوں کھلے عام گھسنے کی اجازت دے۔ عاشی کے چہرے پر ایک بے جان سی حرکت پیدا ہوئی جیسے کسی نے مردے کے گالوں کو کھینچ کر اس میں مسکراہٹ پیدا کرنے کی کوشش کی ہو لیکن جلد ہی یہ مسکراہٹ دم توڑ گئی۔ میں نے سیب کاٹ کر اس کو دیا ، دودھ کا گلاس آگے بڑھایا، کچھ لطیفے سنائے ،کچھ کالج کی باتیں کیں۔ اس کو وہ وعدے یاد دلائے کہ امتحانوں کے بعد ہم نے جھیل کنارے بونوں کی بستی کی تلاش کرنے جانا ہے، سبز پری کو اپنے گھر بلانا ہے، اور وہ فلم بھی جس کا خاکہ ہم نے ایک دن بیٹھے بیٹھے بنایا تھا۔ وہ سنتی رہی ۔ اس کے چہرے سے دلچسپی کا تاثر تو ابھرتا تھا لیکن وہ ان کوزیادہ دیر تک قائم رکھ نہیں پاتی تھی۔
اس کے ابو سے لاہور آنے کا سارا پرگرام طے کرکے میں لاہور واپس آگیا ۔ لیکن عاشی اور اس کے گھر والے لاہور نہیں آئے۔ امی سے ان کے گھر کے حالات کا پتا چلتا رہتا تھا، کبھی خبر آتی، انہوں نے کسی ڈاکٹر کو دکھایا تھا اور اس نے ٹی بی کی دوا پر ڈال دیا ہے۔ لیکن پھر پتا چلتا کہ دوائی چھوڑ کر کسی پیر صاحب کے تعویذ پلانا شروع کر دیے ہیں۔ جب طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو ایک اور ڈاکٹر کے پاس لے گئے جس نے ٹی بی کی دوائی دوبارہ شروع کر دی۔
لیکن بیماریوں پر ان کا یقین کبھی قائم نہ ہو سکا اور اور وہ کبھی دم کروانے کہیں لے جا رہے ہیں تو کبھی کسی پیر صاحب سے جادو کا علاج کروا رہے ہے ہیں ۔ کبھی کسی درخت کے ساتھ دھاگے باندھنے جارہے ہیں تو کبھی بچوں میں کوئی شیرینی بانٹی جا رہی ہے۔ 
جب میں آخری بار عاشی سے ملنے گیا تو ہڈیوں کا ڈھانچہ دیکھ کر میرے اعصاب جواب دے گئے ۔ لرزا دینے والی ایک کیفیت میرے اوپر طاری ہوگئی تھی۔ نہ اس گدگدی کا احساس ہوا جو اسے دیکھ کر بیدار ہوتی تھی نہ وہ سرشاری جو اس کی آنکھوں میں جھانک کر ہوتی تھی۔ اور میں اس کے گھر والوں پر برس پڑا۔ جب بیماری کا علم ہوچکا ہے اور سارے ڈاکٹروں کے نزدیک اس کو ٹی بی کا مرض ہے ۔لیکن آپ لوگ ہیں کہ اپنے وہموں سےنکل ہی نہیں رہے ہیں۔ایک بار اس معصوم کو دوائی کھلا کر دیکھ تو لیں ۔ لیکن اس کی ماں اپنے نصیبوں کو روتی رہی۔ 
وہ سچائی کے راستوں کو نہیں پہچان سکتی تھی کسی تاریک کنویں کے باسی کی طرح اسکی نظریں آسمان سے ہو کر لوٹ آتی تھیں۔ لیکن اس آسمان کے نیچے بھی ایک وسیع دنیا ہے وہ یہ کبھی نہیں جان سکی۔ وہ تو بس انسانی رشتوں کو شک کی نظر سے دیکھتی رہی کہ پتا نہیں کس حاسد نے ان کا گھر اجاڑ دیا ہے۔
جب میری کسی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوا تو میں نے بوجھل قدموں سے واپس جاتے ہوئے آخری بار عاشی کی طرف دیکھا اس کی آنسوؤں سے بھری آنکھوں کو ڈبڈباتا دیکھ کر ایک بار تو میرا دل بھی بھر آیا۔ لیکن میں جہالت کے ان گھپ اندھیروں میں کوئی بھی چراغ جلانے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔
لوگ کہتے ہیں اکسویں صدی کا شعور پچھلی صدیوں سے مختلف ہے۔لیکن یہ کیسا شعور ہے،؟ یہ کیسا وجدان ہے؟ جو آج بھی غار کے انسان کی سوچ لئے ہوئے ہے۔ ہم نے چاند پر جانے کا رستہ ڈھونڈ نکالا، ایٹم کے ذرے کو توڑ کر ایندھن کے ذخائر حاصل کر لئے، سمندروں کے پانی کو چیڑ کر ان دیکھے جزیرے ڈھونڈ نکالے، اڑتے پرندوں کے ساتھ اڑنے کی خواہش پوری کر لی، دریاؤں کے بہتے پانی کو کسی سرکش گھوڑے کی طرح سدھا کر رام کر لیا۔ فلک بوش پہاڑوں کو سر کر کے ان کی ہیبت اور غرور کو اپنے قدموں تلے روند ڈالا۔ لیکن میرے دیس کے لوگ آج بھی اس شعور اور فہم سے محروم ہیں۔ یہ آج بھی غار کے زمانے میں رہ رہے ہیں ۔ صرف اتنا ہوا ہے کہ اٹھ کر پکے گھروں میں آباد ہو گئے ہیں لیکن ۔نہ تو مذہب ان کا کچھ بگاڑ سکا نہ ہی اکسویں صدی کا شعور۔
وہ ایک اداس شام تھی ، جب میں اسے منوں مٹی کے نیچے سلا کر آرہا تھا۔ جنازے سے لیکر قبر پر مٹی ڈالنے تک میں ایک تذبذب کا شکار رہا تھا ۔ غیر ارادی طور پر چپ چاپ، بوجھل قدموں کے ساتھ۔ باہر کی دنیا تبدیل ہو چکی تھی۔ بے بسی، اور ناامیدی کی ایک یلغار تھی۔ کسی جذباتی محرومی کا احساس۔ جونہی میں گھر پہنچا ہوں میرے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔اور میں دیر تک بلک بلک کر روتا رہا۔ میں اپنی آنکھیں بند کئے اشکوں کی قطار ر سجائے اپنے شعور کو شکست تسلیم کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ 
آج جب زینب نے میرے کلینک میں دم توڑا، تو مجھے یوں لگا جیسے میری عاشی آج دس سال بعد دوبارہ مر گئی ہے۔
میم۔سین

جہالت


چند گھنٹے پہلے کلینک میں بہت تشویش ناک حالت میں لائی جانے والی زینب کو مردہ قرار دے کر میں اپنے دفتر میں آکر اپنی کرسی پر ڈھیڑ ہو گیا ہوں ۔ میرے ذہن میں ایک طوفان چل رہا ہے،مجھے یوں لگ رہا ہے میرے ارد گرد دھواں بھر رہا ہے۔ میرا سانس گھٹ رہا ہے۔ کوئی گہری گھاٹیاں ہیں جو مجھے ڈرا رہی ہیں۔ میں موجوں سے خوفزدہ کسی ٹوٹے ہوئے تختے پر بیٹھا، ہراساں کبھی اِدھر کو لڑھک رہا ہوں اور کبھی اُدھر کو۔کوئی سمت دکھائی دے رہی ہے نہ کوئی منزل۔ میرے ذہن میں آندھیاں چل رہی ہیں اور میرے سینے میں ایک عجیب سا طلاطم برپا ہے۔

بائیو کیمسٹری کا یہ دوسرا ٹسٹ تھا، جو پوری کلاس کے ذہنوں پر سوار تھا، ٹسٹ سے ایک دن پہلے کی بات ہے جب ڈاکٹر مشہود کا قتل ہوگیا۔ پورے کالج کی فضا میں ایک خوف اور غیر یقینی کی صورتحال نمایاں تھی۔ ۔گرمیوں کی چھٹیاں قریب تھیں اور آدھی رات کو کالج انتظامیہ نے گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان کر دیا اورہم اپنا سامان باندھ کر گھروں کو لوٹ گئے۔ 
چھٹیوں کا یہ کوئی دوسرا دن تھا جب امی نے آنٹی کلثوم کی سفارش کی کہ ان کی بیٹی نویں جماعت میں پڑھتی ہے، خاصی ذہین ہے۔ لیکن وہ لوگ ٹیوشن افورڈ نہیں کر سکتے۔ کچھ دیر اسے پڑھا دیا کرو۔اور یوں عاشی سے میرا ایک ایسا تعلق قائم ہوا جو ذات کی تسکین اور غرض کے دوسرے کنارے پر آباد تھا۔ 
صبح کی سیر کیلئے نکلتا تو واپسی پر ایک گھنٹہ اسے پڑھاتا اور پھر اپنے گھر لوٹ آتا۔ ایک متوسط گھرانے کی ذہین لڑکی لیکن جس کی پیدائش اس وقت ہوئی تھی جب والدین کو بچوں سے زیادہ گھر چلانے کیلئے روزانہ کے اخراجات پورا کرنے کی فکر زیادہ رہتی تھی۔سات افراد پر مشتمل اس گھرانے میں عاشی کی حیثیت ایک خورد رو جھاڑی سے زیادہ نہیں تھی جو بغیر ضرورت کے اگ آتی ہے۔ لیکن وہ ایک ایسی کلی تھی جسے حالات نے وقت سے پہلے پھول میں ڈھال دیا تھا ۔
گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کے باوجود سارے گھر کی روح رواں تھی۔امید اور یاس کی پہلی گھڑی، کسی نخلستان سے بکھرتی صحرا میں کوئی ہوا کا جھونکا۔ آواز بدل کر دوسروں کی نکلیں اتارتی، منہ کھول کر اپنے ہموار دانتوں کی نمائش کرتی، ہنستی تو بے ساختہ اس پر پیار آجاتا تھا ، وہ سطحی سی ایک عام سی لڑکی تھی لیکن جب سنجیدہ ہو جاتی تو اس کے باتوں میں ایک دادی اماں والا اعتماد نظر آتا تھا۔ وہ خواب دیکھتی تھی لیکن خوابوں پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ وہ تمناؤں اور خواہشوں کے ہجوم میں رہتے ہوئے بھی اپنی حسرتوں کو بے لگام نہیں ہونے دیتی تھی۔
چند دن میں گھر کے سب افراد اس قدر گھل مل گیا کہ میں ان کے گھر پہلے سے زیادہ وقت گزرنے لگا اور بات کتابوں سے نکل کر لڈو اور کیرم تک پہنچ گئی ۔اور یوں پڑھائی ختم ہونے کے بعد خوب گہما گہما ہوتی۔عاشی کی بڑی بہنیں اور اور بھائی بھی ان میں اس شامل ہوجاتے۔کبھی کسی فلم کی کہانی تخلیق ہو رہی ہے، تو کبھی سیاست پر گفتگو ہو رہی ہے۔ کبھی موسموں میں حسن ڈھونڈا جا رہا ہے تو کبھی فیشن کے بدلتے انداز پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ کبھی کسی ڈرامے کے کردار پر تنقید ہو رہی ہے تو کبھی کسی اشتہار کی نقل اتاری جارہی ہے۔عاشی کی اکثر باتیں اتنی بے ساختہ ہوتی تھیں کہ مجھ پر ہنسی کا دورہ پر جاتا اور اس کی باتوں کی لطافت کا مزہ بہت دیر تک محسو س کرتا رہتا۔ جب ان دیکھی بستیوں کی بات ہوتی تو وہ سب سے زیادہ پرجوش دکھائی دیتی۔ اور ہم باتوں باتوں میں تخیل کی بستیاں بساتے، دور کے دیس کے رہنے والوں سے ملنے کا پروگرام بناتے۔ ہم آرزوں اور امنگوں کے قلعے تعمیر کرتے۔
کبھی کبھی وہ اتنی سنجیدہ گفتگو کرتی کہ مجھے اس کی عمر پر شک ہونے لگتا کہ کوئی بوڑھی عورت قید کر کے اس ننھی سی جان میں بند کر دی گئی ہے۔ شائد یہ گھر کے حالات تھے جنہوں نے اسے عمر سے پہلے اس کے اندر ایک سنجیدہ عورت کو آن بٹھایا تھا۔ اس کے والدین کو کو اگر اس سے کوئی غرض تھی تو صرف اس حد تک کہ وہ میٹرک کر لے اور بس ۔ لیکن مجھے اس کی آنکھوں میں ذہانت کی ایک چمک دکھائی دیتی تھی۔ میں اس کے اندر کے فنکار کو نکال کر ساری دنیا کو دکھانا چاہتا تھا۔ میں تراش کر اس ہیرے کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا۔ اس کی باتوں میں کسی کوئل سی معصومیت جھلکتی تھی۔ وہ ہمیشہ آج میں جیتی تھی اسے کل کی کوئی فکر نہیں تھی۔
اور اس کی باتوں کی کشش نے میرے اور اس کے بیچ ایک بے نام سا رشتہ کھڑا کر دیا تھا۔ جو احترام اور اپنائیت کے کسی سنگم پر کھڑا تھا۔
چھٹیاں ختم ہو گئیں اور میں اپنے کالج لوٹ آیا۔ تعلیمی سرگرمیوں نے زندگی کو کچھ اس طرح سے الجھایا کہ میں عاشی اور اس کے گھر والوں کو یکسر بھول گیا ۔ جب کبھی گھر آنا ہوتا تو اتنے مختصر وقت کیلئے کہ ان کے ہاں جانے کا وقت ہی نہ ملتا تھا۔ایک دن امی نے فون پر درد ناک خبر سنائی کہ ایک ماہ سے عاشی کا بخار نہیں ٹوٹ رہا اور ان کے گھر والوں کے بقول ا س پرسایہ ہوگیا ہے ۔ 
جس دن گھر آنا ہوا میں سارے کام ادھورے چھوڑ کر ا س کے گھر چلا گیا۔ پہلی نظر میں پہچان ہی نہیں پایا ، کہاں وہ زندگی سے بھرپور چہرہ اور کہاں یہ خزاں زدہ صورت ، کہاں وہ پریوں کی کہانیاں سننے والی گڑیا اور کہاں یہ بے روح آنکھیں۔ کہاں وہ شرمیلی اور شگفتہ مسکراہٹ اور کہاں زندگی سے خائف یہ ہونٹ۔ اس کی بیماری کا سن کر شائد مجھے اتنا صدمہ نہیں ہوا تھا لیکن اسے دیکھنے کے بعد مجھے یوں لگا جیسے میرے جسم سے کسی نےروح کھینچ لی ہو۔ کسی صندوقچے میں بند کرکے اس میں روشنی بند کر دی ہو۔میں دم سادھے بے یقین لہجے میں اس کے پاس بیٹھ کر اس کا ہاتھ تھاما ، تو میرے جسم میں ایک عجیب طرح کی اضطرابیت پھیل گئی۔ 
ساری باتوں کا علم ہوا تو میں نے اس کے والدین سے کہا اسے لاہور لے کر آئیں میں وہاں کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھاؤں گا ۔ یہ جنات اور سائے والی باتیں تو آپ لوگوں نے خواہ مخواہ بنا لی ہے۔ آج کے مصروف دور میں ، بھوت اور چڑیلیں اتنے فارغ نہیں کہ وہ قبضہ گروپ قائم کرتے پھریں۔ اور نہ ہی یہ اتنی بزدل ہے کہ ان کو یوں کھلے عام گھسنے کی اجازت دے۔ عاشی کے چہرے پر ایک بے جان سی حرکت پیدا ہوئی جیسے کسی نے مردے کے گالوں کو کھینچ کر اس میں مسکراہٹ پیدا کرنے کی کوشش کی ہو لیکن جلد ہی یہ مسکراہٹ دم توڑ گئی۔ میں نے سیب کاٹ کر اس کو دیا ، دودھ کا گلاس آگے بڑھایا، کچھ لطیفے سنائے ،کچھ کالج کی باتیں کیں۔ اس کو وہ وعدے یاد دلائے کہ امتحانوں کے بعد ہم نے جھیل کنارے بونوں کی بستی کی تلاش کرنے جانا ہے، سبز پری کو اپنے گھر بلانا ہے، اور وہ فلم بھی جس کا خاکہ ہم نے ایک دن بیٹھے بیٹھے بنایا تھا۔ وہ سنتی رہی ۔ اس کے چہرے سے دلچسپی کا تاثر تو ابھرتا تھا لیکن وہ ان کوزیادہ دیر تک قائم رکھ نہیں پاتی تھی۔
اس کے ابو سے لاہور آنے کا سارا پرگرام طے کرکے میں لاہور واپس آگیا ۔ لیکن عاشی اور اس کے گھر والے لاہور نہیں آئے۔ امی سے ان کے گھر کے حالات کا پتا چلتا رہتا تھا، کبھی خبر آتی، انہوں نے کسی ڈاکٹر کو دکھایا تھا اور اس نے ٹی بی کی دوا پر ڈال دیا ہے۔ لیکن پھر پتا چلتا کہ دوائی چھوڑ کر کسی پیر صاحب کے تعویذ پلانا شروع کر دیے ہیں۔ جب طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو ایک اور ڈاکٹر کے پاس لے گئے جس نے ٹی بی کی دوائی دوبارہ شروع کر دی۔
لیکن بیماریوں پر ان کا یقین کبھی قائم نہ ہو سکا اور اور وہ کبھی دم کروانے کہیں لے جا رہے ہیں تو کبھی کسی پیر صاحب سے جادو کا علاج کروا رہے ہے ہیں ۔ کبھی کسی درخت کے ساتھ دھاگے باندھنے جارہے ہیں تو کبھی بچوں میں کوئی شیرینی بانٹی جا رہی ہے۔ 
جب میں آخری بار عاشی سے ملنے گیا تو ہڈیوں کا ڈھانچہ دیکھ کر میرے اعصاب جواب دے گئے ۔ لرزا دینے والی ایک کیفیت میرے اوپر طاری ہوگئی تھی۔ نہ اس گدگدی کا احساس ہوا جو اسے دیکھ کر بیدار ہوتی تھی نہ وہ سرشاری جو اس کی آنکھوں میں جھانک کر ہوتی تھی۔ اور میں اس کے گھر والوں پر برس پڑا۔ جب بیماری کا علم ہوچکا ہے اور سارے ڈاکٹروں کے نزدیک اس کو ٹی بی کا مرض ہے ۔لیکن آپ لوگ ہیں کہ اپنے وہموں سےنکل ہی نہیں رہے ہیں۔ایک بار اس معصوم کو دوائی کھلا کر دیکھ تو لیں ۔ لیکن اس کی ماں اپنے نصیبوں کو روتی رہی۔ 
وہ سچائی کے راستوں کو نہیں پہچان سکتی تھی کسی تاریک کنویں کے باسی کی طرح اسکی نظریں آسمان سے ہو کر لوٹ آتی تھیں۔ لیکن اس آسمان کے نیچے بھی ایک وسیع دنیا ہے وہ یہ کبھی نہیں جان سکی۔ وہ تو بس انسانی رشتوں کو شک کی نظر سے دیکھتی رہی کہ پتا نہیں کس حاسد نے ان کا گھر اجاڑ دیا ہے۔
جب میری کسی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوا تو میں نے بوجھل قدموں سے واپس جاتے ہوئے آخری بار عاشی کی طرف دیکھا اس کی آنسوؤں سے بھری آنکھوں کو ڈبڈباتا دیکھ کر ایک بار تو میرا دل بھی بھر آیا۔ لیکن میں جہالت کے ان گھپ اندھیروں میں کوئی بھی چراغ جلانے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔
لوگ کہتے ہیں اکسویں صدی کا شعور پچھلی صدیوں سے مختلف ہے۔لیکن یہ کیسا شعور ہے،؟ یہ کیسا وجدان ہے؟ جو آج بھی غار کے انسان کی سوچ لئے ہوئے ہے۔ ہم نے چاند پر جانے کا رستہ ڈھونڈ نکالا، ایٹم کے ذرے کو توڑ کر ایندھن کے ذخائر حاصل کر لئے، سمندروں کے پانی کو چیڑ کر ان دیکھے جزیرے ڈھونڈ نکالے، اڑتے پرندوں کے ساتھ اڑنے کی خواہش پوری کر لی، دریاؤں کے بہتے پانی کو کسی سرکش گھوڑے کی طرح سدھا کر رام کر لیا۔ فلک بوش پہاڑوں کو سر کر کے ان کی ہیبت اور غرور کو اپنے قدموں تلے روند ڈالا۔ لیکن میرے دیس کے لوگ آج بھی اس شعور اور فہم سے محروم ہیں۔ یہ آج بھی غار کے زمانے میں رہ رہے ہیں ۔ صرف اتنا ہوا ہے کہ اٹھ کر پکے گھروں میں آباد ہو گئے ہیں لیکن ۔نہ تو مذہب ان کا کچھ بگاڑ سکا نہ ہی اکسویں صدی کا شعور۔
وہ ایک اداس شام تھی ، جب میں اسے منوں مٹی کے نیچے سلا کر آرہا تھا۔ جنازے سے لیکر قبر پر مٹی ڈالنے تک میں ایک تذبذب کا شکار رہا تھا ۔ غیر ارادی طور پر چپ چاپ، بوجھل قدموں کے ساتھ۔ باہر کی دنیا تبدیل ہو چکی تھی۔ بے بسی، اور ناامیدی کی ایک یلغار تھی۔ کسی جذباتی محرومی کا احساس۔ جونہی میں گھر پہنچا ہوں میرے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔اور میں دیر تک بلک بلک کر روتا رہا۔ میں اپنی آنکھیں بند کئے اشکوں کی قطار ر سجائے اپنے شعور کو شکست تسلیم کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ 
آج جب زینب نے میرے کلینک میں دم توڑا، تو مجھے یوں لگا جیسے میری عاشی آج دس سال بعد دوبارہ مر گئی ہے۔
میم۔سین

Tuesday, March 19, 2013

برداشت


یہ بارہ ربیع الاول سے چند دن پہلے کی بات ہے جب مجھے بچوں کیلئے خریداری کے لئے فیصل آباد جانا پڑا تھا۔شہر میں داخل ہوا ہوں تو مجھ سے کچھ آگے لکڑیوں سے لدی ایک ریڑھی جا رہی تھی۔ ایک کار والے نے میری بائیں جانب سے گاڑی نکاتے ہوئے، اس ریڑھی والے کو بھی اسی رفتار سے کراس کرنے کی کوشش کی، جو اپنی ہی دھن میں ریڑھی کو غلط ٹریک پر لے کر جا رہا تھا ۔ میری نظریں کار کے پیچھے لکھے سبز رنگ سے نمایاں مرحبا سرکار کی آمد مرحبا کی تحریر پر مرکوز تھیں کہ کار کا پچھلا حصہ لکڑیوں سے ٹکرا گیا اور اور اس میں ڈنٹ پر گیا۔ کار والے نے وہیں بریک لگائی اور دروازہ کھول کر ریڑھی والے پر کسی عقاب کی طرح جھپٹا اور اس پر تھپڑوں کی بوچھاڑ کر دی۔میرے نذدیک اگر قصور واا ریڑھی والا تھا تو تیز رفتاری کی غلطی کار والے نے بھی کی  تھی۔ کار والے کے ہاتھ جب نہ رکے تو ریڑھی والے نے ایک لکڑی نکالی اور کار والے کے سر میں دے ماری اور اس کے سر سے خون کا ایک فوارہ بہنے لگا ، لیکن اس کے ہاتھ پھر بھی نہیں رکے ۔ لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اس سے پہلے کہ ٹریفک رک جاتی میں نے وہاں سے نکلنے میں غنیمت جانی۔
سلیم صاحب محلے سے گزر رہے تھے کہ جب کسی نے چھت سے کچڑا پھینکا،جو کچھ ان کے اوپر اور کچھ قریب گر گیا۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ایک پتھر اٹھا یا اور جس جانب سے کچڑا آیا تھا، دے مارا ۔ جو کھڑکی میں لگے شیشے کو توڑ تا ہو ا گھر کے اندر چلا گیا۔ عورتوں نے چیخیں مار دیں ا ور اسی لمحے گھر کا دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک آدمی نکلا اور سلیم صاحب کو گریبان سے پکڑ کر زمین پر گرا لیا۔اور اس کے بعد وہ تھے اور محلے والے۔ جو ان دونوں کو چھڑ ا رہے تھے۔
مقصود کریانے والے نے یہ حرکت سہواً کی تھی یا عمداً ، یہ تو وہی بہتر بتا سکتا ہے۔ لیکن جب میاں بشیر نے بل کے ٹوٹل میں فرق ڈھونڈٖ نکالا تو اس کے بعد ان کی زبان تھی اور مقصود کا خاندان جس کے بارے میں وہ ایسے ایسے کلمات ادا کر رہے تھے کہ مقصود کا ان پر تلملا جانا فطری تھا اور اس نےبھی جواب میں ایک بھرپور گھونسہ میاں صاحب کے منہ پر دے مارا۔اور پھر بات دکان سے نکل کر سڑک تک پھیل چکی تھی۔
چوہدری نذیر صاحب جب امجد صاحب کے گھر ان کو ٹیپ ریکارڈر کی آواز آہستہ کرانے  کیلئے  ان کے گھر گئے ، تو اپنی زبان پر کنٹرول رکھنا بھول گئے اور ایک معمولی سا مسئلہ ساری عمر کیلئے دو خاندانوں کے درمیان رقابت کا باعث بن گیا۔
فاروق صاحب اور حاجی اکبر صاحب مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ، ایک دن چائے کے کھوکھے پر کسی مسئلے پربحث شروع کی تو بات اس حد تک بڑھ گئی کہ دونوں طبقوں کے علمائے کرام بھی اس میں کود پڑے اور معمولی سی بحث شہر کے امن وامان کا مسئلہ بن کر انتظامیہ کا درد سر بن گئی
اللہ بخش کی بکریاں چوہدری برکت علی کے کھیت میں کیا گھسیں کہ اس کے تو نصیب ہی سو گئے،چوہدری نے غصے میں اس کی بکریوں کو زہر ڈلوا دیا اوراللہ بخش کے بیٹے کو علم ہوا تو اس نے چوہدری کی کھڑی فصل کو آگ لگا دی اور آجکل جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھا ہے اور اللہ بخش اپنی قسمت کو رو رہا ہے۔
اور ایسے ہی بیسیوں دوسرے واقعات جن سے روزانہ ہمارا واسطہ پڑتا ہے۔برداشت ، تحمل اور بردباری انسانی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتےہیں ۔ آج کا مسلمان اسلام کے نماز، روزہ، حج اور زکواۃ کے سبق کو تو بار بار دھرا کر اپنی دین سے وابستگی کا اظہار کرتا رہتا ہے لیکن بہت سارے اخلاقی مسائل کو یکسر نظرانداز کردیتا ہے۔ حالانکہ اگر ہم اسلام کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام اخلاق کے زور پر فتح سے ہمکنار ہواہے اور تلوار کا استعمال صرف متکبر اور قابض صفت عناصر کیخلاف ہوا تھا۔ بہت سارے ممالک میں جہاں آج مسلمان آباد ہیں  قتال  بالکلہی نہیں ہوا تھا بلکہ وہاں کے لوگ مسلمانوں کے  صرف اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرچکے تھے۔ یہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے اخلاق تھا جنہوں نے لوگوں کے دل جیت لئے تھے ۔ دعوی تو محبت کا ہم اس احمدِ عربی سے کرتے ہیں جو برداشت کا پیکر تھا توتحمل کی عمارت لیکن عمل کا راستہ ڈھونڈتے ہیں تو فرعون کا، پیچھا کرتے ہیں تو قارون کا۔
مسجد نبوی میں ایک شخص آتا ہے اور پیشاب کرنا شروع کر دیتا ہے۔ صحابہ کرام سے مسجد کی یہ بے حرمتی برداشت نہ ہوسکی اور اسے مارنے کیلئے دوڑے۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا۔اور جب وہ فارغ ہوا تو پانی لے کر اس جگہ کو دھو دیا۔ اور اسے انتہائی پیار سے سمجھایا کہ سلیقہ کس کو کہتے ہیں۔
 برداشت دیکھنی ہو تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھیں جب ایک اعرابی نے چادر لیکر آپ کی گردن میں ڈال کر اس قدر بل دیے کہ آپ کی گردن پر نشان پر گئے اور مطالبہ کیا اللہ نے تمہیں جو عطا کیا ہے اس میں سے میرا حصہ مجھے دو لیکن پھر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتھے پر کوئی بل نہ آیا ،کوئی شکن نمودار نہ ہوا۔ اور صحابہ کرام کو اشارہ کیا کہ اسے مال میں سے کچھ دیں ۔
 آپ 
صلی اللہ علیہ وسلمکا عفو و درگزر دیکھنا ہو تواس وقت دیکھیں جب آپ آرام کر رہے تھے اور اور ایک شخص نے آپ کی تلوار نکال کر پوچھا تھا کہ اب تمہیں میرے ہاتھوں سے کون بچائے گا تو ٓپ نے فرمایا تھا ،میرا اللہ اور دہشت سے جب تلوار چھوٹ کر گر پڑی تو آپ نے وہ اپنے ہاتھ میں لے لی اور پھر اس سے بدلہ لینے کی بجائے اس کو معاف کردیا۔
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فرمایا تھا۔ کسی کو پچھاڑ دینے سے کوئی پہلوان نہیں بن جاتا۔ پہلوان تو صرف وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے۔
ایک شخص کا ذکر کرتے ہوئے بتا یا کہ اسے اللہ نے صرف اس وجہ سے معاف فرما دیا کہ وہ لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا لیکن اگر کوئی واپس نہیں کرتا تھا تو اس سے لڑنے جھگڑنے کی بجائے قرض معاف کر دیتا تھا۔
سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات اور سورہ منافقون میں منافقوں کے نفاق اور اور ان کی سا زشوں کو آشکار کردیا  گیاتھا لیکن اس کے باوجود بھی  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی جیسے منا فق اور اس کے ہمنواؤں کوآخری لمحات تک برداشت کیا یہاں تک کہ جب وہ مرگئے توآپ  اس کے جنا زہ میں شر کت کے لئے پہنچ گئے تھے۔
 فتح مکہ کے موقع پر جب خون کی ندیاں بہانے کا وقت آیا تو ہندہ جیسی سفاک عورت کو بھی معاف کر دیا۔۔
اور قرآن کیا سکھا رھا ہے ؟ کہ تم درگزرکرنا اختیار کرو۔ اور کیا پیاری گواہی دی ہے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سخت دل ہوتے تو ان کے ارد گرد کے لوگ کب کے بکھر چکے ہوتے۔
اور قرآن میں اللہ تعالی نے تحمل اور برباری کو قائم رکھنے کیلئے کیا خوب بات کی ہے کہ بری بات کے جواب میں ایسی بات کہو جو نہائیت اچھی ہو۔
یہ شائد چھٹی جماعت کی بات ہے جب میں نے سائیکل چلانا سیکھا تھا۔ جب سائکل کے پیڈل پر پاؤں ٹکانا سیکھ لیا اور سائکل کا بیلنس برقرار رکھنے کا ہنر جان گیا تو سائیکل کی رفتار جس قدر بڑھاتا ،اتنا ہی لطف محسوس ہوتا۔ایک دن ایسے ہی جوش میں پیڈ ل مارتے ، خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرتا جار ہا تھا کہ سامنے سے ایک موٹر سائیکل سوار آرہا تھا۔ گلی کی ایک جانب کسی گھر کا تعمیراتی سامان بکھرا ہوا تھا جس کی وجہ سے جگہ کچھ تنگ ہوگئی تھی۔سامنے سے ایک موٹر سائیکل ۔ اچھی خاصی کھلی گلی میں جگہ کی بندش ۔ اور میرے سائیکل کی رفتار کسی لوکل روٹ کی بس کی طرح بے ہنگم،سب کچھ اتنا اچانک ہوگیا کہ میں گھبراہٹ میں بھول گیا کہ سائیکل کی بریک کہاں ہوتی ہے اور جس تیز رفتاری سے آرہا تھا ، اسی رفتار پر سائیکل ڈگمگایا اور موٹر سائیکل والے کو اپنے ساتھ لے ڈوبا۔ غلطی میری تھی ، اس لئے اس خوف نے میرے اوسان خطا کر دئیے کہ اب جو سلوک موٹر سائیکل والا میرے ساتھ کرے گا ،اور اس کا تو سوچ کر ہی میری روح کانپنے لگی، اور مجھے یوں لگا میرا دل ڈوب رہا ہے اور سانس بند ہورہا ہے ۔ اور ایک لمحے کو میں اپنے اوسان کھو بیٹھا۔ لیکن اسی لمحے جب کسی نے مجھے بازاو سے پکڑ کر جھنجوڑا اور ایک شفقت بھری آواز میں پوچھا ، بیٹا کہیں چوٹ تو نہیں آئی۔ اور میں نے آنکھیں کر کھول دیکھا تو  درمیانی عمر کا
،وہی موٹر سائیکل سوار میرے اوپر جھکا ہو ا تھا ۔اسے دیکھا تو دل کی دھڑکن ایک بار پھر ڈگمگائی لیکن جب اس نے پیار سے اپنے ہاتھ کے سہارے سے زمین سے اٹھایااور اس کے چہرے پر غصے یا کسی غیض و غضب کے آثار نہ پا یا تو  کچھ اطمینا ن ہوا۔ مجھے کھڑا کرنے کے بعد سائیکل اٹھا کر دیا اور بہت ہی دھیمے اور شگفتہ لہجے میں بولا’’ لگتا ہے نیا نیا سائیکل سیکھا ہے، بیٹا یاد رکھو جتنا مرضی تیز چلاؤ لیکن آبادی کے اندر ہمیشہ محتاط رہنا چاہیئے۔‘‘ اس نے بڑھ کر سائیکل اٹھائی اور مجھے تھمائی اور اپنا موٹرسائیکل اٹھا کر سٹا رٹ کی اور چلا گیا۔جس نرمی اور پیار سے اس نے بات سمجھائی تھی اسکا اثر آج بھی میر ی تربیت میں شامل ہے

Sunday, March 17, 2013

میٹھے بول

میاں مشتاق کو میں کافی عرصے سے جانتا ہوں ۔ کتابوں سے محبت جنون کی حد تک ان پر سواررہتی ہے۔اور شائد یہی بات ہم میں مشترک ہے۔ورنہ عادات و اطوار سے لیکر دوسرے مشاغل تک کوئی بات ایسی نہیں جس پر ہم نے کبھی اتفاق کیا ہو۔ سوچ کا یہی فرق اکثر ہمیں بحث کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ نا تو میں ان کو کبھی قائل کر سکا ہوں اور نہ ہی وہ میری کسی رائے سے کبھی متفق ہوئے ہیں۔ وہ یقین اور اعتماد کے کسی دوسرے کنارے پر آباد نظر آتے ہیں جہاں تک میری رسائی نہیں ہے یاشائد میں جان بوجھ کر اسے نظر انداز کرتا ہوں ۔مغرب زدہ ہیں۔ او ر وہ بھی اس حد تک کہ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ اسے پاکستان میں پیدا ہونے پر بھی اعتراض ہے۔مغربی ترقی اور کلچر کا ذکر اتنے جذباتی انداز میں کرتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے وہ  نماز بھی یورپ کی طرف منہ کر کے پڑھتے ہونگے۔اکثر لوگوں کو تو ان کی ذات سے اس قدر نفرت ہے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے انگریز خود تو چلا گیا ہے لیکن جب وہ ہندستان چھوڑ رہے تھے تو غلطی سے میاں صاحب کو ساتھ لیجانا بھول گئے تھے۔ان کی باتوں سے چڑ تو مجھے بھی بہت ہوتی ہے لیکن ان سے بہت سی نایاب کتب پڑھنے کو مل جاتی ہیں اس لئے ہمیشہ ان کی باتوں کو برداشت کرتا چلا آیا ہوں لیکن کل تو حد ہوگئی ۔ جب انہوں نے ڈیل کانیگی کی کتاب ’میٹھے بول میں جادو ہے ‘ میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا ذرا ایک بار اس کو پڑھ کر دیکھیں کہ دانشور کس کو کہتے ہیں، جن کو تم طنز سے فرنگی بولتے ہو ،زندگی گزارنے کیلئے کیسی سنہری باتیں کی ہیں اس کتاب میں۔یہ جو تم اپنے اکابرین کی باتیں کرتے رہتے ہو، کبھی کسی نے ایسی پیاری اور میٹھی باتیں بتائی ہیں ؟ کسی نے؟ بولو ؟ جواب دو ؟ ۔ کیا کسی مسلمان مصنف نے ایسے فکر انگیز نقاط اٹھائیں ہیں؟ چونکہ میں یہ کتاب پڑھ چکا تھا اور اس کے مفہوم کو بھی اچھی طرح جانتا تھا، اس لئے میں اس کی باتوں سے قطعی طور پر متاثر نہیں ہوا۔ میں اس سے بھی پہلے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی بہت سی کتابیں پڑھ چکا تھا اسلئے ا س کتاب کا غیر جانبرانہ تجزیہ کرنے کے باوجود نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی کھلی کتاب نے مجھے کہیں زیا دہ متاثر کیا تھا۔ سیرت طیبہ کو محض علم میں اضافہ کی بجائے اگر اس پر عمل کے ارادے سے پڑھیں تو ایسے ایسے گوہر دریافت ہونگے کہ سنہرے موتیوں کے انبار لگ جائیں۔ وہ جس کی باتیں جادو ہیں، جو ذہن اور جسم پر طلسم جاری کردیتی ہیں۔روح میں ہیجان اور بدن میں ایک تبدیلی رونما کر دیتی ہیں ۔ جس کے بارے میں دشمن بھی اقرار کرتا ہو کہ ہم نے کبھی اس کے منہ سے جھوٹ نہیں سنا اور صادق اور امین کے لقب سے جانتے ہوں۔کیا کسی نے اس سے زیادہ میٹھی باتیں بھی کی ہونگی ؟جو یہ کہتا ہو، جب شوربہ بناؤ تو تھوڑا ساپانی زیادہ ہ ڈال لو تاکہ ہمسائے کو بھی اس میں شامل کیا جا سکے، جو اگر کوئی دشمن بھی بیمار پڑجاتا ہو تو اس کی تیمارداری کے لئے پہنچ جاتا تھا ۔ دینے پر آیا تومانگنے پر جانوروں کا پورا ریوڑ عطا کر دیا، معاف کرنے پر آیا تو اپنے بد ترین دشمن کو بھی معاف کردیا، بات سنتے تو اتنے دھیان سے سے کہ دوسرا یہی سمجھتا میں ہی سب سے اہم ہوں، مسجد میں پیشاب کرنے والے شخص کو مارنے کیلئے لوگ دوڑتے ہیں تو ان کو روک دیتے ہیں ، خود اپنے ہاتھ سے جگہ صاف کرکے ا سے سمجھاتے ہیں، ا ن کے طرز تکلم پر لکھنا چاہوں تو کتابیں لکھ دوں تو بھی ان تمام پہلووں کی نشاندہی نہیں کر سکتا جس کے وہ مالک تھے ، جن کے بارے میں کوئی دعوی نہیں کر سکتا ہے کہ انہوں نے کسی کو مارا ہے، کسی کو جھڑکا ہے، یا کسی کو گالی دی ہے، جو راستوں پر رکاوٹ کھڑی کرنے سے روکتا ہو،دوسروں کی آبرو کو زبان کی قینچی سے کاٹنے سے روکتا ہو، جو ہستی آپ کو بتاتی ہو کہ مومن نہیں ہوتا وہ شخص جو طعنہ دینے والا ہو اور بے ہودہ بات کرنے والا ہو ۔ہمسائے کو ایذا دینے والا ہو ،دوسروں پر رحم نہ کھانے والا ہو۔جو یہ کہتا ہو تم میں سے بہترین وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اعلی ہے۔ جو معاشرے سے فساد ختم کرنے کیلئے بتاتا ہو،جنت میں شریر انسان اور چغل خور داخل نہیں ہو پائے گا،پہلوان تو وہ ہے جو غصے میں اپنے اوپر قابو رکھ سکے،بدگمانی سے بچو، کھوج نہ لگاؤ، عیب نہ ڈ ھونڈو، حسد نہ کروبغض نہ رکھو، عداوت نہ کرو۔جس کو معاشرے کی عزت اور آبرو کا اس قدر بھرم ہو کہ وہ حکم دیتا ہوبے حیائی سے بچو، حیا کو قائم رکھو،دوسروں کے عیب چھپا کر رکھو، جو خود سلیم الفطرت ہو اور کہتا ہو ا نکسار پسند جنت میں جائے گا،تین دن سے زائد کوئی کسی سے ناراضگی جاری نہ رکھے ، جو اخوت کا جذبہ یہ کہہ کر بیدار کرتا ہو ، ، جب بھی ملو سلام میں پہل کرو،کسی کا مرض پتا چلے، عیادت کو پہنچو، کسی کے جنازہ کا علم ہوجائے تو پیچھے نہ رہو، جو محبت بڑھانے کے بہانے ڈھونڈ کر دیتا ہو کوئی دعوت کرے تو انکار نہ کرو،کھانا کھلاؤ جسے جانتے ہو یا نہیں، جو غلط فہمیوں کو بھگاتا ہو،جب مل کر بیٹھتے ہو تو سرگوشیوں میں بات نہ کرو، جو ہر شخص کو یہ کہہ کر ذمہ داری سونپتا ہو دوسروں کی اصلاح میں پیچھے نہ رہو، جھگڑالو شخص قابل نفرت ہے،کاہلی ، بزدلی اور کنجوسی مومن کی شان نہیں ہے،کسی کی شخصیت کے جادو کی گواہی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ جس کے بارے میں لوگ کہتے ہوں معاملات طے کرنے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سے آسان شخص ہم نے کسی کو نہیں دیکھا۔
میں اکثر سوچتا ہوں ۔ کچھ نازک لمحوں میں ہم اگر اپنی زبان اور اپنے رویوں پر قابو رکھیں تو بہت سے معاملات ناصرف با آسانی حل ہوسکتے ہیں بلکہ محبت اور یگانگی کی ایک نا ختم ہونے والی فضا بھی قائم ہوجاتی ہے۔ اگرہماری گاڑی کے ساتھ کوئی سائیکل والا ٹکرا گیا ہے تو گالی گلوچ سے کام لینے سے کیا ہمارا نقصان واپس ہوجائے گا؟ ۔ کیا راہ میں چلتے ریڑھی والا اگر مجھے کو ئی رستہ نہ دے رہا ہو تو اس کے اوپر لعن طعن کرنے کی بجائے کچھ سیکنڈ انتظار کر لینا بہتر نہیں ہوگا ؟ میرا ملازم اگر کوئی قیمتی چیز توڑ دیتا ہے تو کیا ہم اسے شائستہ لہجے میں اس کی غلطی کا احساس دلا نہیں سکتے ، کیامیری بدزبانی نقصان پورا کر دے گی؟ محبت اور پیار کو خرید نا کون سا مشکل کام ہے۔ دستر خوان پر کوئی صاحب پانی مانگے تو اس کے آگے جگ بڑھانے کی بجائے ، گلاس میں ڈال کر دینے سے میرے کھانے میں کتنے دیر کی رکاوٹ آتی ہے؟ ۔ سب کے سامنے میز سے گری چیز کو اٹھا کر اپنے ہاتھ سے واپس رکھنے میں پہل کرنے میں کون سی قباحت آجائے گی۔ جب کسی سے بات کریں تو چہرے پر تھوڑی سی مسکراہٹ سجا لینے میں کوئی خرچ نہیں آتا۔ مسجد کے دروازے سے نکلتے وقت دوسروں کو پہلے گزرنے کی دعوت دینے سے وقت کا ضیاع کتنا ہوگا؟ دکا ن پر کھڑے ہو کر پہلے سے آئے گاہکوں کو اپنی خریداری مکمل کر لینے کا موقع دینے سے زیادہ وقت نہیں لگے گا۔اس میں کوئی حرج ہے ؟ کہ دوسروں کی بات سنتے ہوئے اپنے انداز میں یوں تبدیلی لے آئیں کہ اسے محسوس ہو آپ اس کی بات توجہ سے سن رہے ہیں۔ کسی کو بھی مخاطب کرتے وقت آپ اور جناب کا استعمال کرنا۔خواہ وہ مزدور ہو یا کوئی مزارع۔ کیا انسانیت کو احترام اور وقار کا درجہ دینے سے میری عزت میں کمی آجائے گی؟ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو معاف کر دینے سے کون سی قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ راہ چلتے شخص سے سلام لینے کی بجائے رک کر مصافہ کرنا یا معانقہ کرنا اور چند لمحوں کیلئے اس کی صحت اور گھر والوں کی خیریت کے بارے میں استفسار کرنا، نماز سے واپسی پر کسی بیمار کے گھر کے باہر سے گزرتے وقت چند لمحوں کیلئے رک کر حال چال پوچھنا۔ کسی کو بھی صلہ میں دعاؤں سے نوازنا، کسی کے ہنر یا فن کی تعریف کرنا وہ کوئی مستری بھی ہو سکتا ہے، کوئی بڑھئی بھی،کوئی دیوروں پر قلعی کرنے والا بھی اور کوئی گوشت کاٹنے والا قصائی بھی۔ کبھی بیٹھ کر گنتی کریں توان چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہم کتنے دلوں کو جیت سکتے ہیں۔ کبھی صبح سویرے سڑک پر جھاڑو پھیڑتے بھنگی کے جھاڑو کو چلانے کے ہنر کو محسوس کیا ہے؟ کبھی سائیکل پر مچھلیاں بیچتے شخص کو مخصوس ٹوکے کی مدد سے اسکے ٹکڑے کرتے دیکھا ہے؟ کبھی کسی دھی بھلے یا چاٹ کی ریڑھی پر کھڑے شخص کے ہاتھوں کو چلتا ہوا دیکھا ہے؟ ۔کبھی کسی تنور پر روٹیاں پکاتے آدمی کو تنور میں روٹیاں ڈالتے دیکھا ہے؟۔ رنگ ساز کے کپڑوں کو رنگ دینے کے ہنر کو دیکھا ہے؟۔ کدال سے سڑک کو چیڑتے مزدور کے بازوؤں کی شان کو دیکھا ہے؟ ۔کیا کوئی شاعری محسو س کی ہے ۔؟ کیا اس کے فن کو تسلیم کیا ہے۔ تو کیا ہرج ہے دو الفاظ ہم ان کے سامنے ان کے ہنر کے بارے میں بول دیں۔ کیا حرج ہے ؟ اگر ہم ان کے ہنر کو ان کے سامنے تسلیم کرلیں۔ کیا حرج ہے اگر ہم ان کے ہنر کو وہی عزت دے دیں گے جو ہم کسی کاروباری شخص کو، کسی ڈاکٹر کو یا کسی مسند پرا پراجمان شخص کو دیتے ہیں ۔ جب ہم یہ باتیں محسوس کرنا سیکھ جائیں گے تو ہمارے بول خود ہی میٹھے ہوجائیں گے ۔ جس کی شیرینی کو کو سبھی محسوس کریں گے ۔بات تو شائد ٹھیک ہے لیکن بات تو سمجھنے کی ہے ، اور بات تو ان پر عمل کرنے کی ہے۔ آپ کے دو میٹھے بول ، آپ کے دو  قدم اگر آپ کی عزت میں اضافہ کریں گے تو وہیں پر اسلام کی سلامتی کی شناخت کو جواز بھی فراہم کریں گے

Tuesday, March 12, 2013

کچھ چورنگی کی بارے میں


یہ نویں جماعت کی بات ہے ناصر کاظمی کی شاعری دل کو کچھ ایسے بھا گئی کہ ششماہی امتحان میں جب ’ میرا پسندید شاعر‘ پر مضمون لکھنے کو کہا گیا تو تو میں نے ناصر کاظمی کا ہی انتخاب کیا۔ لیکن میرے اردو کے استاد نے اس بنا پر نمبر کاٹ لئے کہ جو مضمون علامہ اقبال پر میں نے لکھوایا تھا وہ کیوں نہیں لکھا۔ادارہ تحقیق وتخلیق کے زیراہتما م مضمون نویسی کے ایک مقابلے میں شرکت کی تو اس کا نتیجہ کا علم اس وقت ہوا جب کالج سے نکلے ہوئے عرصہ بیت چکا تھا اور ایک دن  کالج کی دردیوار سے اپنے تعلق کو ڈھونڈنے نکلے تو جب نوٹس بورڈ پر پہنچے تو تو ایک اعلان نے چونکا دیا کالج کے طالب علم کا اعزاز۔ مضمون نویسی کے آل پاکستان مقابلے میں اول پوزیشن۔ لیکن جب شہر تو کیا جنگل بھی خالی ہوچکا تھا تو مور کو ناچتے  نے دیکھنا تھا؟ میڈیکل کالج میں نام نہاد ادبی ذوق کے حامل طلبا جس طرح پراف میں کامیابی کیلئے پروفیسروں سے اپنےتعلق کو بڑھانے کیلئے اد ب کا سہارا لیتے تھے ، اس نے خودنمائی سے اس حد تک نفرت پیدا کر دی ، کہ خود کو رازی اور ابولفضل کے قلمی ناموں میں چھپا لیا۔جب کلینک شروع کر کے عملی زندگی کا آغاز کیا تو معلوم ہوا حقیقت اور خواب میں کتنا فرق ہے۔لوگوں کے نزدیک انسانیت کی نہیں ، عہدے کی اہمیت ہوتی ہے۔ سڑک کنارے اگر آپ کھڑے ہیں ، توریڑھی والا بھی آپ کو، او مولوی صاحب تینوں نظر نہیں آندا۔ کہہ کر پکاڑتا ہے۔ اور ویگن کا کنڈیکٹر بھی آپ سے آپ کے حلیے کی وجہ سے بدتمیزی کرنا فرض سمجھتا ہے۔اور جب آپ کے بارے میں پتا چل جائے کہ آپ کسی اہم سماجی عہدے پر فائز ہیں تو، ستاں ہی خیراں۔ کچھ یہی صورت حال ایک پسیماندہ علاقے میں ڈاکٹر کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر ہو رہا ہے۔کسی شادی کی تقریب میں چلے جائیں یا کسی کے گھر کسی کی وفات پر تعزیت کرنے پہنچ جائیں تو جونہی پتا چلا کہ آپ طب کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں ، ساری گفتگو ختم، ساری بحث بند۔ کسی کو اپنی دادی کے بلڈ پریشر کیلئے مشورہ درکار ہے ، تو کسی کو اپنے ہمسائے کی دائمی کھانسی کی فکر ہے۔ کوئی ڈاکٹروں کے رویے سے نالاں ہے ، تو کسی کو اس بات سے دلچسپی ہے کہ اس کی پھوبھی کی بیٹی کے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش اپریشن سے کیوں ہوئی تھی حالانکہ پہلے دونوں بچے نارمل ڈلیوری سے پیدا ہوئے تھے۔ کوئی یہ جاننے کیلئے بے چین نظر آتا ہے کہ ہومیوپیتھی طریقہ علاج کی افادیت کیاہے اور ایلوپیتھی کس قدر مہلک طریقہِ علاج ہے۔ تو کوئی آپ کو ہلدی اور تھوم کے فوائد سے آگاہ کر رہا ہوتا ہے۔ یوں آپ کو آپ کی مرضی کے خلاف دھکیل کر دیوار کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے۔ نا چاہتے ہوئے بھی آپ تنہائی کے ایک مزاج میں داخل ہوجاتے ہیں۔ میں بھٹکتا رہا ، سرگرداں رہا،نہ منزل نہ ٹھکانہ ، گھو م پھر کر وہیں خول میں واپس ۔لیکن جب حبس جنوں حد سے بڑھا تو قلم کا غذ کا سہارا لیکر بیٹھ گیا ۔ جو باتیں میں کسی سے کہہ نہیں پاتا تھا، وہ خیالات جن کا تبادلہ خیال کسی سے نہیں کر پاتا تھا ان کو لفظوں میں سمونا شروع کر دیا۔ اسی لکھنے لکھانے کے چکر میں گھومتے گھماتے ڈاکٹر رضوان اسد خان نے ہاتھ پکڑ کر چورنگی پہنچا کر خود تو پتا نہیں کہاں غائب ہوگئے لیکن مجھے اپنے صبر ایوب کا صلہ ضرور مل گیا ۔چورنگی پہنچنے کے بعد یوں محسوس ہو جیسے گمشدہ بھیڑ کو کوئی ریوڑ مل گیا ہو۔اور وہ جنگل کی خوف اور دہشت زدہ ماحول سے نکل کر اپنے گھر کو لوٹ آئی ہو۔ یا جیسے تنہائی کا زہر پیتے پیتے، کوئی مٹھاس سے بھرپور مشروب مل گیا ہو۔ چورنگی کے ماحو ل میں ایک بے ساختہ پن ہے۔ یہاں صداقتوں کا ایک ایسا چشمہ بہہ رہا ہے جو کبھی خشک ہونے کیلئے نہیں ہے۔یہاں زندگی کی یکسانیت نہیں ملتی ، یہاں رشتوں پر اعتقاد پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اخوت اور مساوات کی ایک پرکیف فضا قائم نظر آتی ہے۔ جہاں ہر موضوع پر اگر پڑھنے کو ملتا ہے تو ہر مزاج کے شخص سے ملاقات ہو جاتی ہے، حسیب صاحب تو حسن اخلاق اور شگفتہ لہجے کا جال بچھائے بیٹھے ہیں جس کے دام میں چورنگی میں داخل ہونے والا ہر شخص آجاتا ہے۔ شکستہ دل انسانوں کے جم غفیر کو سنبھالنے کے ہنر سے بھی خوب واقف ہیں۔روح کی سوگواری کو سمجھتے ہیں۔ اس لئے جس نے سمندر نہیں دیکھا ان کو جھیل کا نظارہ کرا کر خوش کر دیتے ہیں۔ کاشفہ کاشفہ صاحبہ تو مجھے حسینہ معین کے کسی ڈرامے کی ہیروئین لگتی ہیں ۔ زندگی سے بھرپور ۔اجتماعی احساس کی امنگ سے معمور۔جو ابتدائی قسطوں میں لابالی سی سے دکھائی دیتی ہے ، کوئی بڑا کام کرنا چاہتی ہیں ۔کوئی غیر معمولی کارنامہ سرانجام دینا چاہتی ہے لیکن ہر بار کوئی غلطی سر ذد ہو جاتی ہے اور وہ چورنگی کو اپنے آغا جانی سمجھتے ہوئے اپنے گلے شکوے کرنے چلی آتی ہیں ۔ ذولقرنین علی چغتائی صاحب نے اگر پرفائل پر اپنی تصویر نہ لگائی ہوتی تو شائد یہی گمان ہوتا کہ چنگیز خان نے انسانی خون سے کھیل کھیلنے کی بجائے اب قلم اور کاغذ کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔ان کی تصویر دیکھ کر لگتا ہے ۔انہوں نے دائی کے ہاتھوں کسی غزل کی گھٹی لی ہوگی۔اور منہ سے پہلے الفاظ جو نکلے ہونگے وہ طاہر القادری پر تنقیدی جملے ہونگے۔ انہیں دیکھ کر ماسٹر اسلم صاحب یاد آجاتے ہیں جو گرمیوں کی چٹھیوں کاکام بھی اس انہماک سے دیکھتے تھے کہ اس پر بھی زیر زبر اور کومے کی غلطیوں کی موٹے مارکر سے نشاندہی کر دیتے تھے۔بلیو نیل صاحب کا اصل نام کیا ہے، کون ہیں ، کس دیس سے آئے ہیں ہمیں کچھ علم نہیں لیکن اکثر اوقات یوں لگتا ہے کلاس کا سب سے ذہین لڑکا کچھ خفا خفا سا ر ہتا ہے۔ ان کے طنز کا زہر اس قدر پاٹ دار ہوتا ہے کہ لگتا ہے دوسرا سانس لینے کا موقع نہیں دیں گے۔ طبیعت میں لابالی پن اور مزاج میں ایک انداز لاپرواہی دکھائی دیتا ہے۔ بہت اچھے تجز یہ نگار ہیں لیکن من موجی ہیں۔جی میں آیا تو ہر پوسٹ پر اپنی رائے دے ڈالی ،نہیں تو اپنی پوسٹ کو بھی پلٹ کر نہیں پوچھا۔ نہ صرف بہت اچھا ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ بلکہ بہت اچھوتے حس مزاح کے بھی مالک ہیں۔ حکیم عارف عبداللہ صاحب تو ہمیں ایک بلند دراز، اچکن پہنے اور سر پر قراقلی ٹوپی پہنے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ خدشہ رہتا ہے ان کی تحریریں پڑھ کر جو شخصیت ہم نے ذہن میں ڈھالی ہے اس کے ساتھ وہی سلوک نہ جو مولانا آزاد کو دیکھ اس وقت کے علمی اقابرین کا ہوتا تھا۔ آزاد صاحب نے ایک تو تخلص اتنا بھاری رکھا ہوا تھا۔اور اوپر سےتیرہ چودہ برس کی عمر میں اتنا علمی اور ادبی کام کر ڈالا تھا کہ قلمی طور پر ان کا ذکر ہر علمی نشست میں بطور خاص ہوتا تھا لیکن جب با لمشافہ ملاقات ہوتی تو ایک چھوکڑے کو دیکھ کر بار بار دریافت کیا جاتا کیا واقعی یہی لڑکا آزاد ہےْ ؟حکیم صاحب ایک سخت گیر بزرگ کی طرح چورنگی پر پہڑہ دیتے نطر آتے ہیں ۔ چورنگی کی روایات کے پاسدار ہیں۔ اور گھر کے بزرگ کی طرح جب وہ کسی بحث میں نمودار ہوتے ہیں تو سب پر ایک سناٹا چھا جاتا ہے۔لبنی صاحبہ تو مجھے فاطمہ ثریا بجیا کے کسی ڈرامے کی بڑی آپا دکھائی دیتی ہیں ۔جو کبھی تو نصیحتیں کرتی نظر آتی ہیں اور کبھی ڈانٹتی، سمجھاتی، بڑی آپا ہونے کے ناطے سارے چورنگی والوں سے اپنا تعلق رکھتی ہیں اور فرداً فرداً ہر ممبر کی مزاج پرسی کرتی نظر آتی ہیں۔عمران اسلم صاحب کے بارے میں اکثر مشکوک رہتا ہوں کہیں کسی جاسوس ادارے کیلئے کام تو نہیں کر رہے۔ جب چورنگی میں آتے ہیں خوب ہلا گلا کرتے ہٰیں، خود بھی ہنستے ہیں دوسروں کو بھی ہنساتے ہیں لیکن پھر یوں غائب ہوجاتے ہیں کہ جیسے جمعہ کے دن کسی کے جوتے چوری ہوجائیں تو کچھ دنوں کیلئے مسجد تبدیل کر لیتا ہے۔ ابو عبد اللہ اپنی بذلہ شوخیوں کے ہمراہ نظر آتے ہیں تو محمد ناز صاحب اپنی فکری پوسٹنگ کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ مہتاب عزیز صاحب اور ندیم صاحب اپنی سنجیدہ تحریروں کے ساتھ نظر آتے ہیں تو شاہ جی اپنے مخصوص انداز میں لطافت کا احساس بکھر اتے نظر آتے ہیں۔بھائی صاحب کی رعب دار شخصیت کا چرچا تو بہت سنا ہے لیکن یوں لگتا ہے زیادہ وقت ممبران پرایجنسیوں والا کام کرتے ہیں۔چورنگی کا ہر فرد اگر نفاست پسند ہے تو تو منکسر مزاج بھی۔غلطیوں کی نشان دہی بھی کی جاتی تو اس میں اصلاح کا پہلو زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ یہاں رنگ نسل اور مذہب کے متنازعہ روپ اور ان کی نفسیات کے تضادات پر بحث نہیں کی جاتی۔انسان ایک مضطرب اور بے چین روح ہے جو ہمیشہ تلاش کی جدوجہد میں سرگردوں رہتا ہے۔ اور چورنگی ایسے ہی تشنہ لب انسانوں کی آماجگاہ ہے۔ تہذیب کے تقاضوں کو جتنا چورنگی میں پورا ہوتا دیکھا ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔بے تکلفی کا ایک ایسا ماحول ملتا ہے کہ پہلی بار داخل ہونے والے کو ذرا سی بھی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔لیکن مجال ہے کبھی کسی نے اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوڑا ہو، کبھی کسی نے تہذیب سے گری ہوئی کوئی بات کی ہو۔ منشور کی بات ہورہی تھی تو چورنگی کا ہر ممبر خود ایک منشور ہے وہ اتنی ذہنی بالیدگی رکھتا ہے کہ وہ اس فورم کی رویات اور اس کے ماحول کو برقرار رکھ سکے۔ یہاں ضمیر پر یقین رکھا جاتا ہے۔ ان کی ایک نظریاتی اساس ہے، اوران کیلئے فورم کا تعارف ہی اس کا منشور ہے۔ اس فورم پر لکھنے کو تو ابھی بہت کچھ ہے لیکن میں چورنگی کو ایک انقلاب کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہا ہوں ۔ ایک قلمی اور ایک ذہنی انقلاب۔جو انسان کی جینے کی سطحی سوچ کو تبدیل کر دے گی۔ ہوس اقتدار اور نمود ونمائش سے بہت دور لے جائے گا ۔ ذہنی انقلاب۔یہ میری ذہنی اختراع ہوسکتی ہے، کسی دیوانے کا خواب بھی ہو سکتا ہے لیکن مجھے اس اختراع پر یقین ہے کیونکہ یہ میرے وجدان کی آواز ہے اور میرا وجدان مجھ سے کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔
(یہاں پیش کی گئی ساری رائے میری ذاتی ہے، ممبران کو اختلاف کا حق حاصل ہے)

Saturday, March 9, 2013

کھونٹے سے بندھے بیل


خدا بخش کے کھونٹے سے بندھے بیل دیکھ کر میں سوچتا تھا کہ ان کی بھی کیا زندگی ہے۔ پیدا ہوئے ، کھونٹے سے باندھ دیا گیا اور پھر ساری عمر انہی کھونٹوں کے ساتھ گزر گئی۔ ان کو کیا خبر انسان خلا میں چلا گیا ہے۔روس کب کا سپرپاور  کی کرسی سے دستبردار ہوچکا ہے۔ انہیں کیا خبر نائن الیون کے بعد دنیا کی سیاست تبدیل ہوگئی ہے۔وہ تو یہ بھی نہیں جانتے پیزہ ہٹ کئی سالوں سے پاکستان میں اپنی برانچیں کھول چکا ہے۔ کے ایف سی اور میکڈونلڈ کھانے کیلئے یورپ جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ تو اس بات کی بھی خبر نہیں رکھتے ہونگے کہ دیوار برلن ڈھا دی گئی ہے اور اب  فلسطین والوں کیلئے دیوار ممنوعہ کھڑی کر دی گئی ہے۔ وہ تو یہ بھی نہیں جانتے ہونگے کہ پاکستان بنانے پر اب لوگ اعتراض کرنے لگے ہیں۔اور شائد اس بات سے بھی بے خبر ہونگے کہ کچھ لوگوں کو پاکستان کے نام کے ساتھ اسلامی لکھنے پر اعتراض ہوگیا ہے۔لیکن وہ بھی کیا کریں کھونٹے سے جو بندھے ہوئے ہیں
سیتا سے صرف محبت کی ہوتی، تو اور بات تھی۔ میں نے تو اس سے عشق کیا تھا۔ عشق بھی ایسا کہ اپنے وجود کے درو بام پر صرف اس کی تصویریں سجا رکھی تھیں۔ اس کا وجود  میرا خمار تھا۔ اس سے بات چیت  کا خمار ۔اس کی موجودگی کا خمار، اس سے تعلق اوراس  سے وابستگی کے احساس کا خمار۔وہ انسانی جذبوں کا اظہار تھی۔ وہ مجھے زندگی کے اس نقطے پر دکھائی دیتی تھی جہاں پر میری سوچ ختم ہوتی تھی۔ یہ اس کی شخصیت کا بے ساختہ پن تھا یا زندگی کے متعلق اس کا غیر سنجیدہ طرز عمل کہ میرے لئے وہ ایک ماڈل کا روپ اختیار گئی۔ میں یقین سے نہیں کہ سکتا میں اس کے حصار میں کس دن اور کس طرح آگیا تھا لیکن مجھے اپنی بے خودی کا اندازہ اس دن ہوا تھا جب میں نے پہلی بار بات کرتے ہوئے غور سے اس کی آنکھوں میں جھانکا تھا۔جب میں نے اس سے زندگی کے معنی پوچھے تھے۔
 ہوئے تم دوست جس کے‘ ،ڈاکٹر حقی حق نے کس نظریے کے تحت لکھی تھی اس کا تو مجھے بہت بعد میں علم ہوا لیکن یونیورسٹی میں کتاب میلے  میں اس کتاب کا صرف ایک ہی نسخہ بچا تھا ۔گرچہ کتاب پسند میں نے کی تھی لیکن میں اس کی قیمت ادا کرنے میں کچھ تذبذب کا شکار تھا اور اس نے کوئی بحث کئے بغیر اس کی قیمت ادا کردی۔ ایسی نایاب کتاب کو کھونے کے بعد جب میں نے اس سے درخواست کی کہ کیا یہ ممکن ہے کہ جب آپ اسے پڑھ لیں تو چند دنوں کیلئے مجھے مل سکے اور مجھے خوشگوار حیرت ہوئی جب اس نے مجھے ماس کمینیکیشن کا پتہ بتاتے ہوئے کہا آپ اپنے ڈیپارٹمنٹ کا بتا دیں میں پڑھنے کے بعد آپ تک پہنچا دوں گی۔جب میں نے اسے بتایا کہ میں میڈیکل کالج سے آیا ہوں اسلئے آپ کو مشکل ہوگی ، تو اس نے بے یقینی میں میری طرف دیکھا ۔ اور دو ہفتے بعد ملنے کا وعدہ کرکے ہم اگلے سٹالوں کی طرف بڑھ گئے۔کچھ ٹسٹ شروع ہو گئے اور پھر کچھ دوسری مصروفیات او ر ’ہوئے تم دوست جس کے‘ میرے ذہن سے  مہوہو گئی۔اس دن اپنے کالج کے ڈاکخانے ایک پارسل بھیجنے کیلئے گیا تو معلوم ہوا کہ عارضی طور پر بند ہے اور مجھے یونیورسٹی کا رخ کرنا پڑا۔ ڈاکخانے سے نکلا ہوں  تو ایک نسوانی آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اسے دیکھ کر مجھے کتاب یاد آگئی ۔اس نے مجھے دیکھا تو پہچان کر بولی کتابیں جمع کرنے کا شوق ہے یا پڑھنے کا بھی ؟ اور میں اس کی بات پر صرف مسکرا دیا۔ اور وضاحت میں اپنی تعلیمی مجبوریاں بتائیں تو کہنے لگی کوئی بات نہیں اگر آپ کو پڑھنے سے واقعی لگاؤ ہے تو میں آپ تک کتاب خود پہنچا دوں گی۔ اس کے اعتماد اور اس کے رویے میں موجود والہانہ پن نے مجھے اپنے سحر میں اسی لمحے گرفتار کرلیا تھا۔ اسے آپ محبت تو نہیں کہہ سکتے لیکن  اسکا شخصی رعب ایسا ضرور  تھا   کہ جس کے حصار میں  آگیا تھا۔ اور پھر جب وہ گلے دن کتاب دینے کالج کی لائبریری آئی تو اس کی خود اعتمادی نے اگر میرے اندر کوئی ہلچل پیدا نہیں کی تو اس سے تعلق  قائم رکھنے کی امنگ ضرور بیدار کر دی تھی ۔ کینٹین سے چائے پینے کے بعد جب دو گھنٹے بعد ہم باہر نکلے تو دونوں ایک ایسے رشتے میں بندھ چکے تھے جسے دوستی اور محبت کے بیچ کا رستہ قرار دے سکتے ہیں۔ اس میں خال وخد کا کوئی جمال تھا اور نہ ہی وہ کوئی ایسے درو دیوارپھلانگ کر آئی تھی جہاں دن کو عید اور راتوں کوجشن منائے جاتے ہوں ۔ لیکن میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا تھا کہ وہ ایک غیر معمولی لڑکی تھی۔زندگی کے ولولوں اور امنگوں سے بھرپور، امید اور یاس کی پہلی کرن۔وہ ذہنی اختراؤں پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ جس طرح مجھے کتاب پہنچانے کالج چلی آئی تھی اس سے مجھے معلوم ہوا تھا کہ وہ زندگی کے ڈسپلن کو مصنوعی سمجھتی ہے۔ وہ خود اعتمادی کا پہلا لفظ تھی تو خود آگہی کا پہلا جملہ بھی۔وہ جس طرح زندگی کے مصنوعی اصولوں اور اقدار کو روند جاتی تھی اس سے مجھے وہ ایک سرکش لڑکی دکھائی دیتی تھی لیکن اس کی حد سے بڑھی خود اعتمادی اور سرکشی نے میرے وجود کے گرد ایک ہیولہ کھڑا کر دیا تھا جس کی قید مجھے بھلی بھی لگتی تھی اور سرشاری بھی محسوس ہوتی تھی۔ کتاب کے بہانے شروع ہونے والی یہ ملاقاتیں ایک ایسے تعلق میں بدل گئیں جس کو توڑنا  آسان نہیں رھا تھا۔ ایک دن گرمی اور حبس نے جب ذہن اور دماغ کو مفلوج بنا رکھا تھا تو تیز آندھی اور بارش نے ہر چیز جل تھل کر دی ۔ میں اور سیتا  بارش کے بعد کے نظارے دیکھنے باہر نکلے تو باتیں کرتے بہت دور تک نکل گئے ۔ حالات حاضرہ ، فلسفہ ، تاریخ ، منطق جیسے موضوعات تک محدود ہماری گفتگو نے اس دن پہلی بار اپنا رخ تبدیل کیا۔
 میرے پوچھنے پر کیا وہ واقعی ہندو ہے ؟ اس نے ہنس کر کہا ،آپ کو کیا لگتا ہے۔ میرے ماتھے پر سندور اور جسم پر ساڑھی ہوتی تو پھر یقین کرتے؟
 میں نے بھی بات کو مزاح میں ٹالتے ہوئے کہا ہاں جب اس حلئے میں دیکھوں گا تو یقین اسی دن کروں گا۔ کہنے کو تو میں کہہ دیا تھا لیکن میرے اندر جلتا دیا چند لمحوں کیلئے ڈبڈبایا لیکن پھر سنبھل گیا۔ ہماری اقدار مصنوعی صحیح، ہمارا سماج بھی شائد فطری نہیں ہے لیکن اس سے الگ ہو کر رہنے کی ہمت ابھی ہم میں نہیں ہے۔ہمارے ہاں تو برادریاں اور فرقے رشتوں کے درمیان دیواریں کھڑی کر دیتے ہیں اور یہاں تو مذہبی وبستگیوں کے وسیع خلیج دکھائی دے رہی تھی ۔ دیر تک  اس کے خاندانی پس منظر کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں اور کچھ میں اپنے بارے میں بتاتا رہا۔ لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ شائد میرے قدم منوں وزنی ہو گئے ہیں۔ میں لاکھ آزاد منش انسان سہی لیکن ایک مذہبی قیدی میرے اندر کہیں جکڑا ہوا تھا ۔
 میرے ذہن میں اللہ کا تصور مائی پھاتاں کے تنور جیسا تھا جہاں اگر کوئی سلیقے سے بیٹھے تو اس کیلئے روٹیاں اور جو کہنا نہ مانے اس کیلئے تنور کی آگ ۔بس اس سے زیادہ کبھی مذہب کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔میر ے اندر مذہب کا قیدی ہمیشہ سویا رہتا تھا ۔ جب سیتا کا مذہبی پس منظر واضح ہوا تو میرے اندر کا قیدی ایک دم بیدار ہوگیا۔ میں نے بہت چاہا اسے سلا دوں لیکن اس نے مجھ سے میری نیندیں چھین لیں۔ میں  لاکھ بہانے ڈھونڈتا لیکن وہ میری کسی بات پر راضی نہیں ہوتاتھا۔ کسی ضدی بچے کی طرح ۔میں نے بہت سمجھایا ۔ مذہب کی تفریق صرف عبادت کیلئے ہے۔ اپنے رب کے سامنے حاضری کا ہمارا اپنا انداز ہے اور اور ان کا اپنا ۔ اب جس کا دل جیسے چاہے ، وہ ویسا ہی کرے ، کوئی مجبور تھوڑی کر سکتا ہے۔ لیکن میری ساری منطق میری ساری دلیلیں اس مذہبی جنونی کے سامنے بے کار تھیں۔
 اور بھر اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک دن اس سے پوچھ بیٹھا کیا تم مسلمان ہوسکتی ہو؟ ۔ اور اس نے وہی الفاط یہ کہہ کر میری طرف دھکیل دئیے کہ تم میرے مذہب میں آجاؤ اور میرے پاس کوئی دلیل نہیں تھی ۔ میں نے بھاگنا شروع کردیا۔ اندھا دھند بولتا رہا لیکن کسی ایک ہی مرکز کے گرد، جہاں سے میں چلتا تھا وہیں آ کھڑا ہوتا ۔ اس نے اپنے مذہب میں آنے کی دعوت دے کر میری جیب کاٹ ڈالی تھی اور میں سڑک پر کھڑا ہراساں، اس بات پر پریشان تھا کہ سفر جاری رکھوں یا واپس لوٹ جاؤں ۔
 میرا وجود تو مذہب کے معاملے میں کورا کاغذ تھا جو کسی نے اسلام کی الماری میں سجا دیا تھا۔ مذہب کی روح سے تو وہ بھی خالی تھی لیکن وہ ایک ایسا درخت تھی جس کی جڑوں نے زمین کو مضبوطی سے جکڑ رکھا ہو اور وہ ایک قدم بھی اپنی جگہ سے ہلنے کو تیار نہیں تھی۔۔ لیکن میرے اندر سیتا کے نام کی بیشمار فائلیں جمع ہوچکی تھیں جن کو میں اتنی آسانی سے ضائع کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ میں تو بچپن سے ہی قیمتی قرار دی گئیں چیزوں کو سنبھال کر رکھنے کا عادی تھا ، سیتا کی محبت سے اتنی آسانی سے دستبردار کیسے ہو سکتا تھا؟ اور میں نے اپنے مذہب کے کورے کاغذوں کو بھرنے کا ارادہ کر لیا۔ میرا سارا وقت شہر کی لائبریریریوں میں گزرنے لگا، میڈیکل کی تعلیم بھول کر مذہب اور اس کے تقابلی جائزوں میں مصروف رہتا۔ اور  پہلی بار اسلام کی حقانیت سے روشناس ہوا۔ ابتدا میں باتیں میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ میرا ذوق، میرے عقائد اور افکار اس تیزی سے تغیرات کا شکار ہوئے کہ میں واضح طور پر اپنے اندر ایک تبدیلی محسوس کرنے لگا۔میر ا مطالعہ، میری معلومات بڑھاتا رہا اور میں ایک مستقل ذاتی فکر اور رائے پر پہنچ چکا تھا۔میں جو پھول چنتا ،اس کی خوشبو سنگھانے سیتا کے پاس لے جاتا لیکن وہ تو نہ جانے کس دیس کی رہنے والی تھی؟ کس مٹی کو گوندھ کر اس کی مورتی کو سجایا گیا تھا ؟کہ نہ تو اس میں کوئی نفرت یا وحشت دکھائی دیتی تھی اور نہ ہی وہ اس حالت میں دکھائی دیتی تھی جسے میلان یا ہمدردی کہا جا سکے۔ میرا مطالعہ جہاں پر ہمارے تعلقات کیلئے ہلاکت خیز ثابت ہو رہا تھا۔ وہیں پر میرے لئے انقلاب آفریں  بن رھاتھا۔جہاں شعور کا اعتدال دل ودماغ کی قوتوں کو بیدار کر رہا تھا وہیں محبت میں بڑھے قدموں کی واپسی کا خوف ایک آسیب بن کر ڈرا رہا تھا۔
کبھی مجھے لگتا میری کوشش دریا میں بے بس تنکے سی ہے اور میں دریا کے بہاؤ کیسا تھ کہیں دور نکل جاؤں گا اور کبھی مجھے لگتا میں کسی مہیب غار میں بند ہوگیا ہوں جہاں صرف اندھیروں کا پہرہ ہے جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دیتا لیکن میری مسلسل جدوجہد ایک روشنی کی کرن بن مجھے رستہ دکھانے آگئی تھی۔اسلام کے احساسات وخیالات اور اساس وبنیاد کو سمجھنے لگا۔ میں نے روح کی رفعت کو پا لیا تھا۔ زندگی اور مذہب کے درمیان ہم آہنگی کو ڈھوند نکالا تھا ۔ میر ے ذہن کی بنجر زمین ایک سرسبز کھیتی میں تبدیل ہو گئی تھی۔
 لیکن سیتا وہیں کھڑی رہی۔ وہ بہت دلیر تھی اپنے افکار میں بہت صاف تھی لیکن وہ کسی بند کمرے میں پڑی بے جان مورتیوں میں روح پھونکنے کیلئے قائل نہیں ہوئی۔ میں سمجھتا تھا محبت میں امید اور کامیابی کی سرشاری بہت سے کام آسان کر دیتی ہے لیکن زندگی کے حسین اور خوشگوار تجربات نے بھی اسے خواہشوں کی پرورش کیلئے مجبور نہیں کیا ۔ میں کبھی نہیں جان سکا وہ کون سا وجدان تھا جو اسے مدافعت پر ابھارتا تھا۔لیکن اس کی مزاحمت نے مجھے صداقتوں کی راہ پر ڈال دیا تھا۔
وہ ایک اداس شام تھی جس دن میں نے اس سے آخری ملاقات کی تھی۔بہار کی آمد آمد تھی۔ میرے اندر بھی بہار کے پہلے پھولوں نے کھلنا شروع کر دیا تھا۔ طوفان نوح تھم چکاتھا۔ احمد شاہ ابدالی کی فوجیں تھک گئی تھیں، ایک خاموشی تھی ایک ٹھہراؤ تھا ۔ میں نے دیوار گریہ ڈھا کر مسجد اقصی تک رسائی حاصل کر لی تھی لیکن اس کے سامنے کوہ طور پر آگ جلتی رہی لیکن وہ وہیں کھڑی اسے دیکھتی رہی ۔اور ہمارے درمیان تعلق کا سورج غروب ہوگیا۔ ہم دونوں ہی کھونٹے سے بندھے بیل تھے لیکن فرق یہ تھا کہ میں نے بیمار ہو کر شہر کی روشنیاں دیکھ لی تھیں۔اور وہ  وہیں کھونٹے پر کھڑی رہی
میم۔ سین

Friday, March 8, 2013

تضاد

چند دنوں سے میرے عاجزی نے انکار کا درجہ اختیار کرنا شرع کر دیا ہے۔ اضطرابیت کا طوفان ہے اور بے سکونی کی موجیں تھپڑے مار رہی ہیں۔یہ درست ہے مایوسی کو اتنی آسانی سے، میں قبول نہیں کرتا لیکن جب آپ کو شدت سے اس بات کا احساس ہو رہا ہو۔کہ آپ کی سب سے قیمتی متاع چرا لی گئی ہے تو جتنے مرضی دعوی کر لیں کہ آپ بہت مضبوط اعصاب کے مالک ہیں، لیکن بالآخر یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ شخصیت کے توڑ پھوڑ سے بچاؤ کے سارے ہتھیار بیکار ہوچکے ہیں ۔ سارے استدلال بے معنی ہوگئے ہیں۔ہاں شائد اس بات کا اقرار مجھے پھر سے میرا یقین واپس لادے کہ میں آج شکست وریخت کا شکار ہو گیا ہوں۔ میرے شخصیت کے بت پاش پاش ہوگئے ہیں اور اس سلسلہِ انتشار میں، میری ذات بھی ریزہ ریزہ ہوگئی ہے۔ قاری محمد حسین صاحب سے میری پہلی ملاقات اس دن ہوئی تھی جب میں علی محمد نمبردار کے گھر کھانے کی دعوت پر گیا تھا جو انہوں نے ریڑھ کی ہڈی کے کامیاب آپریشن کے بعد صحت یابی کے شکرانے کے طور پر کی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد چائے کے انتظار میں بیٹھے ، باتوں میں مشغول تھے کہ اذان کی آواز بلند ہوئی تو کسی نے مشورہ دیا پہلے نماز ادا کر لیتے ہیں۔ چائے واپسی پر پیتے ہیں اور سب نے بات سے اتفاق کیا اور گھر سے نکل کر قریبی مسجد کا رخ کیا۔ جماعت کے دوران امام صاحب کی قرات نے جو سرور باندھا اس نے ایک بار تو ہم سب کو یہ بھلا دیا کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کہاں کھڑے ہیں۔ قاری صاحب سے تعارف ہوا تو یہ سن کر ان سے عقیدت اور احترام کا جذبہ مزید بڑھ گیا کہ مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور ایک سکول میں پڑھاتے ہیں۔ مسجد اور ساتھ ملحقہ مدرسے کی ذمہ داری بھی سنبھال رکھی ہے۔ جس قدر خوبصورت آواز کے مالک تھے اتنے ہی پیارے مزاج کے مالک اور شائستہ گفتگو کے ماہر بھی ہیں۔ ایسی دلکش شخصیت کے حامل ہیں کہ پہلی ہی ملاقات میں دل موہ لیا۔ اور مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔دین سے خاص لگاؤ اور مسائل کو بیان کرنے کا انداز انتہائی سہل اور دلچسپ ہوتا ہے کہ دل کرتا ہے کہ وہ بولتے رہیں اور ہم سنتے رہیں۔ ان سے محبت اور اور عقیدت اس دن اور بڑھ گئی جس دن میں نے انہیں پہلی بیٹی کی پیدائش پر مبارک باد دی تو بولے امام احمد حنبل جب کسی کو بیٹی کی پیدائش کی مبارکباد دیتے تو کہتے تھے انبیا بیٹیوں کے باپ تھے۔ کچھ عرصے بعد اللہ نے انہیں ایک اور بیٹی سے نوازا، تو میں نے مبار ک باد دی تو جس انداز میں بیٹی کی فضیلت اور اسلام میں دئیے گئے مرتبے اور اہمیت کو اجاگر کیا میں دیر تک مہبوت بنا ان کی باتیں سنتا رہا۔ ان کی باتوں سے ایک خوشبو محسوس ہورہی تھی کہ دو بیٹیوں کی بلوغت تک پرورش اور کفالت کرنے والا ، قیامت والے دن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسے کھڑا ہوگا جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں۔ پھر انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا حوالہ دیا کہ جس شخص کو اللہ نے دو بیٹیاں دیں اور جب تک وہ اس کے ساتھ رہیں وہ ان پر احسان کرتا رہے ۔ تو وہ دونوں بیٹیاں اسے جنت میں داخل کرا دیں گی۔ کہنے لگے بیٹیوں کی پیدائش پرخفا ہونا جاہلانہ دور کی عادتیں اور اور قرآن مجید میں اس کی سختی سے حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور بیٹی کی اہمیت یوں اجاگر کی ہے کہ قرآن مجید میں بیٹیوں کا ذکر بیٹوں سے پہلے آیا ہے اللہ کے نبی کی بیٹیوں سے والہانہ محبت کا اندازہ اس بات سے لگاؤ کہ ایک دفعہ فرمایا کہ اولاد میں برابری کی بنیاد ہر چیز کو تقسیم کرو لیکن اگر میں تقسیم کے معاملے میں کسی کو ترجیع دیتا تو لڑکیوں کو دیتا۔ بچوں کی پیدائش کے بعد انہوں نے گاؤں چھوڑ کر رہائش شہر میں اختیار کرلی لیکن گاؤں کے مدرسے کا انتظام اپنے ہاتھوں میں رکھا۔ شہر آنے کا اگر چہ  گاؤں والوں کو نقصان ہوا تھا لیکن میری ملاقاتیں ان سے پہلے سےبڑھ گئیں اور ہمارا تعلق آپس سے میں بہت مضبوط ہو گیااور جب ایک مقامی مسجد میں جمعہ پڑھانا شروع کیا تو ان کے ان کے علم اور خلوص سے سارے مکاتب فکر کے لوگ متاثر نظر آنے لگے ۔ ان کی فصاحت و بلاغت کا ہر شخص قائل نظر آتا ہے۔ان کا بیان کرنے کا ایک اپنا اسلوب ہے۔بیان اور اس سے اخذ نتائج میں ایک ترتیب ہوتی ہے جو کبھی خراب نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جو ایک بار ان کا جمعہ کا خطبہ سن لے وہ اگلی بار خطبہ کے وقت سے پہلے مسجد میں بیٹھا دکھائی دیتا ہے۔ کبھی کبھی مغرب کے بعد میرے پاس کلینک آجاتے تو ان سے دینی مسائل پر سیر حاصل گفتگو ہوتی ہے۔یوں میر ا ان سے عقیدت کا ایک گہرا تعلق قائم ہوتا چلا گیا۔ لیکن اس تعلق میں پہلی ضرب اس دن پڑی جب وہ مٹھائی لیکر آئے اور اولاد نرینہ کی نعمت سے نوازے جانے کی خوشخبری سنائی۔چونکہ بیٹیوں کی پیدائش پر انہوں نے ایسی کسی خوشی کا اہتمام نہیں کیا تھا اس لئے مجھے کچھ اچنبھا ہوا۔لیکن جب انہوں نے ایک حدیث مبارکہ سنائی تو میرے دل سے غلط فہمی کا بیج اگنے سے پہلے ہی اکھڑ گیا جب انہوں نے ایک واقعہ سنا کر دین پر قائم رہنے کی درخواست کی۔ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہو اتھا اس کا بیٹا آیا تو اس نے اس کو پکڑ کر بوسہ دیا اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔ پھر اس کی بیٹی آئی تو اس کو پکڑ کر اس کو پہلو میں بٹھا لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے دونوں کے درمیان عدل نہیں کیا۔ایک بوسہ دینے اور پاس بٹھانے میں تفریق کرنے سے اگر عدل کا ترازو ہل جاتا ہے تو دعا کریں اللہ ہمیں اپنے بچوں کے درمیان انصاف اور عدل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یوں ان کی شخصیت کا طلسم میرے اوپر قائم رہا۔لیکن کل جب چھ ماہ کی عمر میں پہلی بار بیٹے کو چیک کروانے آئے تو ان کے ہمراہ ان کی بیٹی بھی تھی۔ بیٹے کے بارے میں خاصے متفکر تھے کہ سفر کیا تھا اور اور صبح سے چھینکیں لے رہا ہے۔ میں نے چیک اپ کے بعد کہا کوئی فکر والی بات نہیں ہے۔ ابھی دوائیوں سے محفوظ ہی رکھیں تو بہتر ہے۔ میری بات سے مطمئن نظر نہ آئے لیکن میری تسلی دینے کے بعد مسلسل کھانستی بچی کو آگے کرتے ہوئے بولے اسے بھی کوئی کھانسی کا شربت دے دیں پورا ہفتہ گزر گیا ہے سونے نہیں دیتی ،ساری رات کھانسی کرتی رہتی ہے
میم۔ سین

Sunday, March 3, 2013

بسنت

انسان کی ہمیشہ سے پرندوں کی طرح اڑنے کی خواہش رہی ہے، آسمانوں کو چھونے کا جنون طاری رہا ہے۔ہوا میں اڑتے تیرتے پرندوں نے ہمیشہ سے انسان کو مسحور کیا ہے۔ جب خود اڑنے کے قابل نہ ہوسکا تو پھر کاغذ کو ،کبھی کپڑے کو دھاگے سے باندھ کر اڑانے لگا۔ اور نہیں معلوم اڑنے والے اس اس خاکے کو پتنگ کا نام کس نے دیا۔
 تاریخ میں چین میں سرنگ کی کھدائی کے لئے اگر مدد لی گئی تو کوریا میں فوج کا مورال بلند کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔جاپان والوں کیلئے تو نشہ ثابت ہوا اور اسے صرف شاہی خاندان کیلئے مختص کر دیا گیا۔ مارکو پولو نے یورپ والوں کو اس کے سحر کے بارے میں بتا یا ۔ تو ہندستان والوں نے تو اسے صنعت کا درجہ دے ڈالا۔
کل جب آسمان پر ایک گلابی رنگ کی پتنگ اڑتے دیکھا تو میرے ماضی کے دریچوں میں سے ایک دریچہ یوں کھلا کہ میں وقت کی قید سے آزاد ہو کر اپنے آبائی گھر کی چھت پر جا پہنچا۔جہاں چھٹی والے دن ، میں شاپر کاٹ کر ان میں جھاڑوکے تنکے باندھ کر کپڑے سینے والے دھاگے کی مدد سے پتنگ اڑایا کرتا تھا۔ ہوا میں بلند کر کے اس کو دیر تک تیرتے دیکھنا اور اس کو ہوا میں رقص کرانا میرا شوق ہی نہیں جنون بھی تھا۔ میرے نزدیک اس میں ایک شاعری چھپی ہوتی تھی جسے میں اپنے ہاتھوں کی حرکت سے پیدا کرتا تھا۔اور یوں میں تخلیق کے ایک تجربے سے خود کو گزار کر محظوظ ہوتا تھا۔ لیکن جب میری پتنگ ہوا میں بلند ہوتی توپیشہ ور پتنگ باز اپنی ڈور کی دھار چیک کرنے کیلئے میری پتنگ پر سڑک پر چلتی تنہا دوشیزہ پر غنڈوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ۔ کبھی تو وہ کامیاب ہوجاتے اور میری ہاتھ سے بنی پتنگ ہواؤں میں کہیں کھو جاتی اور کبھی میں ان سے بچا کر اسے واپس اتارنے میں کامیاب ہوجاتا۔
جب یہ حملے بڑھ گئے تو میں نے بھی ڈور کا استعمال شروع کر دیا لیکن پہلے ہی دن ابھی میری پتنگ نے ساتھ والے گھر کی چھت کو عبور کیا تھا کہ ماسٹرفضل کے صحن میں لگے نیم کے درخت سے ایک طوطا اڑا اور میرے پتنگ کی ڈور میں پھنس گیا میں نے تیزی سے ڈور کو کھینچا لیکن میری کوشش بیکار گئی اور ڈور میں پھنسا طوطا ہمسائیوں کی چھت پر آگرا۔ اس ناگہانی آفت سے، کچھ لمحوں کیلئے تو میں پریشان ہوگیا لیکن پھر طوطے کو پانے کی خوشی میں دوڑا دوڑا گیا اور اپنے دادا کے فوج کے زمانے سے سنبھالے چمڑے کے دستانے پہن کر پہلی بار غیر قانونی طور پر ہمسائیوں کی چھت پر کود نے کا رسک لے لیا ۔ ۔ ڈور سے خود کو آزاد کرانے کی کوشش میں طوطا مکمل طور پر جکڑا گیا تھا۔
 بڑی مشکل سے اس ڈورسے رہائی دلا کر اسے برتنوں کی ڈولی سے چیزیں نکال کر اس میں بند کر دیا۔ اور میں اپنی پتنگ بازی بھول کر اپنے طوطے کے منہ سے باتیں سننے کیلئے بے چین رہنے لگا۔ خصوصی پنجرہ خریدا گیا، امرود، سیب، سبزیاں اور سب سے بڑھ کر دیسی گھی کی چوری کھانے کو لا کر دیں لیکن پہلے دو دن تو اس نے کسی کی طرف دھیان نہیں دیا۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ کھانے پینے لگ گیا ۔جوں جوں پنجرے کے ماحول سے مانوس ہوتا گیا ، اس کی حرکتوں اور اس کی چہچہاہٹ میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس کے منہ سے باتیں سننے کیلئے میں نے سارا سارا دن اس کو پڑھانا شروع کر دیا ، گھنٹوں اس سے باتیں کرتا کبھی سیٹیوں کی آوازیں نکالتا لیکن اس نے ٹیں ٹیں کے علاوہ کوئی لفظ ادا نہ کئے۔ کسی نے کہا اس کو سبز مرچیں کھلاؤ، کسی نے کہا اس کے اوپر ٹھنڈہ پانی ڈالا کرو۔ کسی نے بتایا اس کے پنجرے میں روشنی بند کر دو، گھپ اندھیرہ رکھو، کسی نے مشورہ د یا کہ روزانہ ٹین کے برتن اس کے سر پر بجایا کرو۔سارے ٹوٹکے کر ڈالے، سارے مشورے آزما کر دیکھ لئے لیکن اسے باتیں کرنا تھیں اور نہ اس نے کیں۔ ایک دن ایک بزرگ مہمان آئے ان سے مشوہ کیا تو بولے۔ طوطوں کی ساری نسلیں باتیں نہیں کرتی ہیں۔ اور جس نسل یہ طوطا تعلق رکھتا ہے اسے تو تم علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی داخل کرا دو تو یہ باتیں نہیں کرے گا۔اور میں ان کی باتو ں سے اتنا مایوس ہوا کہ پنجرہ اٹھا کر سکول کے گراؤنڈ لے جا کر اس کا دروازہ کھول دیا۔
طوطے کے ساتھ گزارے وقت نے پتنگ بازی کا نشہ ذہن سے بھلائے رکھا ۔لیکن جب دوبارہ پتنگ اڑانے کی کوشش کی تو اب وہ پہلے والی بات نہیں تھی۔ اڑانے سے زیادہ چھت پر لیٹ کر آسمان پر رنگ برنگی پتنگوں کو دیکھتا رہتا۔ کبھی کبھی خیالوں میں، میں بھی اڑنے لگتا۔ اڑتا اڑتا کسی دور کی بستی پہنچ جاتا ،جہاں بیٹھ کر میں کہانیاں بنتا، کردار تخلیق کرتا اور ان کرداروں کو لیکر دنیا بھر میں گھومتا پھرتا۔ کبھی بادلوں پر بیٹھ کر جنوں کے قلعے ڈھونڈتا۔کبھی کوہ قاف کی پریوں کی تلاش میں نکل پڑتا۔کبھی اڑتا ہوا کسی جھیل کنارے پہنچ جاتا اور کبھی کسی دشت نوردی میں خود کو ہلکان کرتا پھرتا۔
لیکن پھر آسمان پر ان رنگ برنگی اڑتی پتنگوں کو نظر لگ گئی ۔ بسنت کے نام سے بہار کی آمد پر چند دنوں کیلئے ایک آندھی اٹھتی تھی جو اس معصوم سی پتنگ پر سینکڑوں الزام چھوڑ جاتی۔ااور وہ اپنی ذات پر لگے ان الزاموں کو سارا سال دھونے میں لگی رہتی۔ لیکن ہر سال اس آندھی کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور اس نے ایک طوفان بدتمیزی اختیار کر لیا۔صرف لاہور یا شائد کسی حد تک گوجرانوالہ میں منایا جانے والا بسنت کا میلہ ملٹی نیشنل کمپنیز نے یرغمال بنا لیا۔ تراش خراش کراسے نئے کپڑے پہنا کر ہر شہر میں کسی بازاری عورت کی طرح سجا کر بٹھا دیا۔ جب رئیس زادوں ،نودولتیوں اور کمپلکس کے مارے لوگوں کے ہاتھوں اس معصوم کی عزت اچھالی جانے لگی تو یہ معصوم سی پتنگ ایک بدکردار اور فاحشہ کا روپ اختیار کر گئی۔جس کے خاطر گردنیں کٹنے لگیں، خون بہنے لگا، کتنی ماؤں کی گود اجر گئی اور کتنے سروں سے سایہ اٹھ گیا۔کتنے چولہے خاموش ہوگئے او ر کتنے مسکراتے چہروں کی خوشیاں ہمیشہ کیلئے روٹھ گئیں۔
کھیل تو کھیل ہوتا ہے۔ وہ کھیل چاہے کرکٹ کا ہو یا ہاکی کا، سکواش کھیلی جائے یا سنوکر۔کشتی کا اکھاڑہ ہو یا فٹبال کا میدان۔کچھ اصول ہوتے ہیں، کچھ ضابطے اور کچھ اخلاقی پہلو ہوتے ہیں۔نظم و ضبط ہوتا ہے ۔کچھ سیکھنا مطلوب ہوتا اور کچھ سکھانے کی جستجو ہوتی ہے۔لیکن جب کھیل کے نام پر ، سماجی اور مذہبی اقدار کی دھجیا ں بکھیری جانے لگیں۔جب ثقافت کے نام پر ایک طوفان بدتمیزی کھڑا ہونے لگے۔جب خوشیوں کے نام پر لوگوں کیلئے اذیت کا سبب بننے لگ جائے،تہذیب و اخلاق کی حدیں عبور ہونے لگ جائیں۔ راستوں پر خوف کے بادل منڈلانے لگ جائیں تو وہ کھیل نہیں رہتا۔ وہ کھیل کے نام پر ایک دھبہ بن جاتا ہے۔ایک ڈراؤنا خواب بن جاتا ہے،بے حسی اور بے بسی کی ایک مثال بن جاتا ہے۔ کسی خون آشوب کہانی کا کوئی باب دکھائی دینے لگتا ہے۔
کچھ ایسا ہی حشر چین کی ہواؤں میں پہلی بار بلند ہونے والے پتنگ بازی کے اس کھیل کے ساتھ ہم نے کیا۔کھیل اورجشن کے نام پر مدہوش ہو کر کر ہم اس قدر اندھے ہوگئے کہ نہ تو ہمیں اپنا دین لٹتا نظر آیا اور اور نہ ہی وطن کی تباہی کا کوئی خیال کبھی ذہن میں آیا۔
اور آج یہ معصوم سی ، خوابوں کو بیدار کرتی ، دلکشی پھیلاتی آسمان پر پرندوں کی طرح تیرتی پتنگ اپنی عصمت یوں گنوا بیٹھی ہے کہ میں اس سے اپنے رومانس کا ذکر کرنے بیٹھوں تو انگلیاں میری جانب یوں اٹھ جاتی ہیں کہ میں کسی طوائف سے محبت کا دعوی کر بیٹھا ہوں۔
میم۔ سین

Saturday, March 2, 2013

تفریق


ملک نعیم میرا سابق محلے دار بھی ہے اور عمر کے خاصے فرق کے باوجودکسی حد تک دوستوں کی صف میں بھی شامل ہے۔ جب ہم اپنے آبائی محلے فاضل دیوان میں رہتے تھے تو ان دنوں وہ ہمارے ساتھ والی گلی میں رہتےتھے۔لیکن محلے دار ہونے کے باوجود میری اس سے پہلی باقاعدہ ملاقات لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں ہوئی تھی جہاں وہ اپنے کسی دوست کے ساتھ کھانا کھانے آئے تھے۔کیمپس کی اپنی یادوں کو دہراتے ہوئے وہ اچھا خاصا جذباتی ہو گئے تھے۔ لیکن جس چیز نے ہمارے درمیان دوستی کی بنیاد رکھی وہ ان کا چائے کے ساتھ رکھ رکھاؤ تھا۔کھانے کے بعد  چائے پینے سے انکار کردیا کہ یہاں جو چائے پیش کی جاتی ہے وہ چائے کے نام پر ایک دھبا ہے۔ صبح سے آگ پر رکھے برتن میں دودھ ڈال کر پرانی پتی کو بار بار کھولنے کے بعد اسے چائے کا نام دینا صرف زیادتی ہی نہیں بلکہ ناقابل تلافی جرم بھی ہے۔امجھے  سے پوچھا کہ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو ایک کپ چائے پیتے ہیں ۔ میرے ہامی بھرنے پر وہ ہمیں نیو کیمپس سے انارکلی لے گئے اور پاک ٹی ہاؤس سے میراپہلی بار تعارف ہوا۔ اور جو مزا چا ئے پینے کا اس کےرومانوی ماحول میں آیا اور جو اثر وہاں چائے پیش کرنے کے انداز نے دیا ، اس نے جہاں پاک ٹی ہاؤس سے ایک مستقل تعلق قائم کر دیا وہاں ملک نعیم سے بھی دوستی کاایک رشتہ پیدا کردیا۔جب پہلی بار برڈ فلو نے پولٹری کی صنعت کو متاثر کیا تو ان دنوں ملک نعیم کھدر کا کام کر رہا تھا۔گھر کے قریب ہی کچھ کھڈیاں لگا رکھی تھیں ۔ لیکن شہر میں ڈائینگ کا میعار بہتر نہ ہونے کی وجہ سے کپڑا ملتان بھیجنا پڑتا تھا۔ اور واپسی پر کپڑے کی لاگت میں اتنا اضافہ ہو جاتا تھا کہ کاروبار کو جاری رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔اور جونہی برڈ فلو نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لیا۔  ملک نعیم نے اپنی کھڈیاں بیچ کر ساری رقم پولٹری کی صنعت میں لگا دی۔جب لوگوں نے اس سے اس حماقت کی وجہ پوچھی تو تو اس کی لاجک میں بڑا وزن تھا ۔ سولہ ارب کی آبادی نے کہاں سے کھانا ہے؟ یہ آج ڈری ہے لیکن کل جب کھانے کو کچھ نہیں ملے گا تو یہ برڈ فلو زدہ مرغیاں تو کیا کوے بھی کھانے لگی گی۔ اور اس کے اس نازک لمحے میں کئے گئے فیصلے نے اسے کروڑ پتی نہیں تو ایک متمول انسان میں ضرور بنا دیا تھا۔ چائے کے بہانے شروع ہونے والی ملاقاتیں ہمارے درمیان اکثر بحث و مباحثے میں تبدیل ہوجاتی تھیں ۔ ملک نعیم کے دلائل میں تجربے کا وزن ہوتا تھا۔اور میں اپنے اخبار بینی کے شوق سے سے مدد لیتا۔ ایک دن جب کیمپس کے پل سے گزرتے ہوئے ایک سنگترے بیچنے والے کے پاس رکے تو اس سے بھاؤ پر بحث شروع کر دی ۔مجھ سے رہا نہیں گیا۔میں نے کہا ملک صاحب کبھی آپ نے ان بڑے بڑے برانڈ کی دکانوں پر جا کر بھی بحث کی ہے؟۔یہ جو آپ نے پولو کی شرٹ پہن رکھی ہے اور جو مارک اینڈ سپنسر کی ٹائی لگا رکھی ہے اور ان کا کوٹ پہن رکھا ہے۔ ان پر کتنی ڈسکاؤنٹ کروائی تھی؟۔ اور جب آپ نے یہ کرولا خریدی تھی تو اس کی قیمت کم کروانے کیلئے کتنی بحث کی تھی؟۔ جنہوں نے تو ایمپائرز کھڑی کرنی ہوتی ہیں ۔ اقتصادی حبس پیدا کرنا ہوتا ہے اور ان سے آپ رعائیت کروا نہیں سکتے اور جنہوں نے صرف اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنا ہو تا ہے اور اپنے گھر کا نظام چلانا ہوتا ہے ان سے آپ لاگت کا اندازہ لگا کر ایک ایک روپے کا حساب لے رہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے آپ سے کوئی ناجائز منافع لے بھی لیا تو کون سا پلازہ کھڑا کردیں گے۔ ملک صاحب نے تحمل سے میری بات سنی اور بولے یہ جو برانڈ ہوتا ہے یہ ایسے ہی وجود میں نہیں آجاتا۔ یہ کوالٹی اور معیار کا ضامن ہوتا ہے۔ اگر وہ اس کی قیمت لیتے ہیں تو وہ اس معیار کی سند فرہم کرنے کی لیتے ہیں جووہ اپنے صارف تک پہنچا رہے ہوتے ہیں۔جو کولٹی نائکی دیتی ہے وہ کوئی پاکستانی کمپنی کہاں دے سکتی ہے۔ جو معیار تھامس نیش کے گارمنٹس کا ہے وہ پاکستانی کپڑوں کا کہاں؟ جو سٹائل ورساچے، گوچی، ارمانی کے جوتوں کا ہے وہ ہمارے مقامی جوتوں میں کہاں۔ جو وقار راڈو، ٹائمکس، اور سواچ کی گھڑیوں کا ہے ، وہ کسی اور گھڑی میں کہاں؟اس دن مجھے ان کی شخصیت کے اس نئے پہلو کا اندازہ ہوا کہ وہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سحر میں کس قدر گرفتار ہیں۔ اور گاہے بگاہے اپنی ملٹی نیشل اشیا کی نمائش کرتے رہتے۔ اور ان کی افادیت ، ان کی انفرادیت اور ان کی خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ،جہاں اپنے سٹیٹس کا اظہار کر جاتے وہاں ان کی باتوں سے اپنی اقدار سے لاتعلقی کا اظہار بھی ملتا۔ میرا نقطہ نظر ہمیشہ مختلف ہوتا اور اپنی رائے کو دلائل کے سہارے دیتا رہتا۔ اس معیار کو برقرار رکھنے کی جو قیمت صارف سے وصول کی جاتی ہے کیا آپ اس سے متفق ہیں؟ کیا یہ سرمایہ درانہ نظام کا حصار نہیں ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ جب ہم تازہ دودھ بیس روپے لٹر لے کر پیتے تھے تو ہماری صحت بھی ٹھیک تھی اور بیماریاں بھی کم تھیں۔اور دھوکہ دھی کی عادتیں بھی۔اب ہمیں ڈبے کے دودھ کی عادت ڈال کر ہم سے وہی دودھ بیس روپے میں لیکر ساٹھ روپے میں بیچنے لگے ہیں۔ ہمیں کسی چیز کی ضرورت ہے یا نہیں یہ اس کا محتاج بنا کر اس کا عادی بنا دیتی ہیں۔ اور پھر اس کی منہ مانگی قیمت لیتی ہیں۔ لیکن ملک صاحب میری بات سے زیادہ متاثر نظر نہیں آئے اور ریٹ طے کرکے کچھ پھل خرید لئے۔ ان کو ان برینڈ ز کی اصل قیمت دکھانے کیلئے علامہ اقبال ٹاؤن کی کریم بلاک میں واقع مارکیٹ بھی لیکر گیا ۔ اور ہنجروال میں واقع کپڑے کی مارکیٹ بھی دکھائی لیکن ان کوقائل نہ کرسکا۔ ہم نے کبھی اس نظر سے برانڈ کے شکنجے کو محسوس نہیں کیا ، جس کی ضرورت تھی۔ایک طرف اگر سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کو سودی کاروبار میں جکڑ رکھا ہے تو دوسری طرف برانڈ کا طلسم پھونک کر لوگوں کو گرفتار کرکھا ہے جس نے نا صرف معاشرے میں ایک طبقاتی تفریق کی واضح لائن کھینچ رکھی ہے۔بلکہ وہاں مقابلے کی دوڑ میں شامل نئے کھلاڑیوں کی حو صلہ شکنی کی جاتی ہے بلکہ اس کا رستہ بھی روک رکھا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ امیر غریبوں پر حکومت کرتے تھے امیر غریبوں کا استحصال کرتے تھے لیکن برانڈ کے ذریئے جو طبقاتی تفریق پیدا کر دی گئی ہے وہ اس سے کہیں سنگین اور مہلک ہے اور اب  یہ استحصال اس طبقاتی تفریق سے کیا جاتا ہے جس نے ایک قسم کی طبقاتی جنگ پیدا کردی ہے لیکن یہ جنگ دوسرے کو شکست دینے کیلئے نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کیلئے ہے۔ وہی تفریق جو ہم نے اردو اور انگلش میڈیم سکولوں میں زبان اور کلچر کا کمپلکس رائج کر کے شروع کی تھی۔اور کوئی فریق اس جنگ سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں ہے۔ معاشرے میں ایک وسیع خلیج حائل ہوتی جا رہی ہے ۔ غیر فطری اور غیر منطقی تقسیم۔ خواہشات کا جزو ہمارے خون کا حصہ ہے ۔ ہم اس جزو کو اپنے آپ سے الگ نہیں کر سکتے لیکن برانڈ کے نام پر اس جڑی بوٹی کو ایک فصل کے طور پر اگایا جاتا ہے ۔ اور پھر اسے منہ مانگے داموں فروخت کر کے خواہشوں کے نئے انبار لگائے جاتے ہیں۔ جس طرح کریڈٹ کارڈ کے نام سے خواہشوں اور تمناؤں کو ہوا دی جاتی ہے اور جب راکھ میں دبی چنگاریاں شعلوں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں تو پھر اس آگ کوسارے معاشرے میں پھیلا دیا جاتاہے ایسے ہی برانڈ کے نام پر حسرتوں کو بھڑکایا جاتا ہے ۔تہذیبوں کے سودے کئے جاتے ہیں ۔بے مقصد جستجو ، لاحاصل جدوجہد۔ روح سے خالی ڈھانچے ۔ پھر ان کی ثقافت پر یلغار کرو یا ان کے مذہب پر۔ کسی کو اس بات کی کیا خبر ،کسی کو اس بات سے کیا لینا دینا کہ بے خبری میں ہماری تہذیب ، ثقافت اور مذہبی اقدار میں کتنی دراڑیں پر چکی ہیں ۔معاشرے میں درجہ بندی دراصل مساوات کا قتل ہے ، انصاف کا قتل ہے۔انسانی جبلت میں خود غرضی داخل کرکے لا شعوری طور پر اسے ان دیکھی قوتوں کے اشارے پر ناچنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ملک صاحب میری کسی د لیل سے قطعی طور پر متاثر نہیں ہوتے تھے۔ وہ اپنی خودنمائی کا چلتا پھرتا احساس تھے و ہ اپنی ذات پر تو تنقید برداشت کر سکتے تھے لیکن نظریات کی قربانی نہیں دے سکتے تھے ۔ میں نے کلینک شروع کر دیا اور ملک صاحب اپنا کاروبار وسیع کرتے ہوئے پنڈی شفٹ ہو گئے اور اسلام آباد کے قریب کوئی ہیچریاں لگا لیں ۔ اور ہمارے درمیان مصروفیات نے وسیع خلیج حائل کر دی۔ پچھلے دنوں اتفاق سے میرا پنڈی جانا ہوا تو سوچا ملک صاحب سے بھی شرف ملاقات حاصل کر لوں ۔ جب ان کے دفتر پہنچا تو ان کو کھدر کے لباس میں دیکھ کر خوشگوار دھچکہ پہنچا۔ بڑے خلوص سے ملے ۔ جب اپنے ملازم کو چائے لانے کا کہہ چکے تو میں نے ملک صاحب سے اس تبدیلی کی وجہ پوچھی تو مسکرا دئے۔ ڈاکٹر صاحب آپ کی کوئی دلیل تو مجھے اس سرمایہ دارانہ نظام کے اس چہرے  سے بد ظن نہیں کر سکی لیکن جس دن میں اپنے ابا کیلئے کفن لینے گیا تھا تو اس دن مجھے احساس ہوا کہ لباس تو سب نے یہی پہننا ہے۔ لیکن اس کیلئے برانڈ کی کیا ضرورت ہے؟
میم ۔ سین