Tuesday, April 16, 2013

بیویوں کے دفاع میں


بات کچھ یوں ہے کہ آج کل جس تسلسل سے بیویوں کے خلاف پوسٹنگز،اقوال، لطائف اور مضامین منظر عام پرآرہے ہیں اور بیویو ں کو حرف تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس سے تو یوں لگتا ہے ساری دنیا کے جھگڑوں کے پیچھے بیویوں کا ہی ہاتھ ہے۔اردن اور شام کا تنازعہ ہو یا غز ہ کا گھیراؤ، شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان کوئی تناؤ ہو یا ایران کے ایٹمی آفزودگی کا معاملہ ہو ، عراق کے کیمیائی ہتھیار ہوں ، یا فاک لینڈ کے جزیروں کا جھگڑا۔۔۔ تسلسل کے ساتھ چلنے والی اس تشہیری مہم سے لگتا ہے ان سارے مسائل کے پیچھے بیویوں کا ہی ہاتھ ہے۔اور بیویوں کی اسطرح ٹارگٹ درگت بنتے دیکھ کر مجھے ان کی حمایت میں میدان میں اترنا پڑا ہے۔ اللہ میرے قلم کو مضبوط کرے ۔۔۔
 اللہ نے مرد کو آزاد پیدا کیا تھا،با اختیار بنایا تھا لیکن اس نے اپنی مرضی سے شادی کر لی ۔ اب جو غلطی کی ہے تو اس کے نتائج بھی تسلیم کرنا پڑے گے۔ اور جس انجام کا بھی سامنا ہوگا اس کا وہ خود ذمہ دار ہے۔
کچھ مردوں کی کمزور یاداشت کا بھی اثر ہے کہ بیویوں کی بد خوئی کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ان کی بیویاں ان کا کتنا خیال رکھتی ہیں ۔جاڑوں کی برف جما دینے والی سردی میں منہ اندھیرے گیزر کون چلاتا ہے ؟ تا کہ آپ کو برتن ٹھنڈے پانی سے دھونے میں کسی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
کبھی سوچا ہے؟ کچن میں سامان کو ترتیب سے کون رکھتا ہے ؟ اور اسے سنوار کر کون رکھتا ہے ؟ تاکہ آپ کو کچن میں کام کے دوران کوئی دقت پیش نہ آئے۔
کیا آپ دعوی کر سکتے ہیں کہ استری کبھی استری ٹیبل سے غائب ہوئی ہو؟۔ کپڑے دھونے کیلئے ہمیشہ سرف ایکسل استعمال کرنے کا مشورہ دے گی تا کہ وقت اور پیسے دونوں کی بچت ہوسکے۔ اگر آپ کا کھانا پکانے کو دل نہیں کر رہا تو ہوٹل سے کھانا کھانے کی تجویز پر ،وہ کبھی انکار نہیں کرتی ۔تو پھر بیویوں کی اتنی کردار کشی کیوں؟؟
شاپنگ کیلئے ہمیشہ مہینے کے ابتدائی دنوں کو ترجیع دیں گی۔ دس دکانیں گھوم کر ارزاں چیز خریدنی کی خواہاں ہوتی ہیں لیکن خاوند سمجھتا ہے کہ شائد کوئی چیز اس کے ناک تلے نہیں آتی۔
ایک دکاندار نے جب ایک عورت کو دو گھنٹے کپڑے دکھانے کے باوجود کوئی کپڑا عورت کو پسند نہیں آیا تو کہنے لگا میں بہت معذرت خواہ ہوں کہ میں آپکی پسند کا سوٹ نہیں دکھا سکا ۔ عورت نے جواب دیاکوئی بات نہیں میں بھی گھر سے سبزی خریدنے ہی نکلی تھی۔
 مرد اتنے ناشکرے ہوتے ہیں کہ بیوی کی ذرا سی غلطی پر اس کو کوسنے دینے بیٹھ جاتے ہیں ۔ کبھی کسی بیوی نے بھی کھانے میں نمک تیز ہونے یا مرچ زیادہ ڈالنے پر شکوہ کیا ہے؟ کبھی کپڑے صحیح استری نہ کرنے پر ڈ انٹا ہو؟؟ کوئی مثال ایسی موجود نہیں کہ بیوی نے کبھی کپڑ ے غلط استری کرنے پر یا برتن صحیح نہ دھونے پر خاوند کو مارا ہو ۔
مرد کا کیا ہے وہ تو ہوتے ہی ناشکرے ہیں ود غلطیاں کریں گے لیکن کبھی تسلیم نہیں کریں گے اور ایک بیچاری بیوی کی ذمہ دار سوچ دیکھیں کہ کو ئی مرد اس بات کا دعوی نہیں کر سکتا کہ اس لسٹ میں کسی چیز کی وضاحت کیلئے اسے بیوی سے رجوع کرنا پڑا ہو ۔ غلطی تو کجا املاء کی سہو یا ہجوں کی خراب ترتیب ہی دکھا دیں ۔
عورتیں فضول خرچ ہوتی ہیں  حالانکہ یہ سرا سر الزام ہے۔آج تک کسی نے ان کی اس عادت کی توجیح ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ پیشہ ور بھکاریوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں ان کے نزدیک جو محنت سے جی چڑائے اور  مانگنے کو پیشہ بنائے،اسیے افراد ہر گز امداد کے مستحق نہیں ہوسکتے۔ اور ان کے برعکس محنت مزدوری کرنے والے افراد کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرنے میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ شہر شہر جا کر کپڑوں کا ایک ایک تھان اکٹھا کرنے والا کلاتھ ہاؤس کا مالک ہو، منیاری کی دکان کا محنت کش ہو ۔ جوتوں کی صورت میں اپنے فن کا سٹال لگائے بیٹھا کسی بوٹ ہاؤس کا مالک ہو یا ہاتھ کے ہنر سے ڈیکوریشن پیس اور فرنیچر بنانا جا نتا ہو۔ بیویاں ان کی اس محنت کا صلہ دینے کیلئے اور ان کے کسب حلال پر ایمان کو مضبوط کرنے کیلئے تعاون جاری رکھتی ہیں۔لیکن یہ مسائل تصوف مرد سمجھ جاتے تو ولی ہونے کا دعوی نہ کر دیتے۔
کسی زمانے میں لوگ مہمانوں کی مہمان نوازی کیلئے گھروں کے چراغ گل کر دیا کرتے تھے لیکن آج اگر بیویاں اس نفسا نفسی کے دور میں اپنے والدین یا بہن بھائیوں کو بلا کر مہمان نوازی کا اجر لینے کی کوشش کرتی ہے تو خواہ مخواہ خاوند اس کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں ۔ بیویوں پر الزام لگانا تو کوئی مردوں سے سیکھے ۔
 دانتوں کی حفاظت خود نہیں کرتے اور بیوی اگر پیا ر کا اظہار اپنے انداز میں کرے تو دانتوں کو پہنچنے والے سارے نقصان کو بیوی کے ترازو میں ڈال دیں گے ، جو مرد ہلکا سا مساج بھی سہہ نہ پائے وہ مردوں کے نام پر دھبہ ہے ۔ ۔ بیویوں کو اپنے شوہر کی عزت کا اس قدر پاس ہوتا ہے کہ اپنے سہیلیوں کے سامنے کبھی چائے بنانے کا نہیں کہیں گی ہمیشہ خلوت میں درخواست کرتی ہے کہ ذرا چائے بنا لاؤ برتن میں خود ہی دھو لوں گی۔ عورتیں چونکہ انفرادیت پسند ہوتی اور غیر ضروری بحث سے بھی بجتی ہیں اسلئے خاوند کو سمجھانے کیلئے ہمیشہ منفرد انداز اپناتی ہیں۔لیکن اس انفرادیت کے چکر میں ان کی زبان میں تھوڑی بہت سختی آجائے تو اسے برداشت کرنا چاہیئے۔
 اچھا استاد ہمیشہ اس شاگرد کو ڈانٹا ہے جس سے اچھے مستقبل کی توقع ہو۔ اسلئے زبان اگر زیادہ دراز ہوجائیے تو گھر سے نکل کر کچھ دیر سڑک پر چہل قدمی کر لی جائے تو صحت کے لئے بھی اچھی اور گھر کے سکون کیلئے بھی ۔۔۔۔جاری ہے

میم سین

Thursday, April 11, 2013

دوا

میں عام طور پر شادیوں کی تقریب میں شرکت کرنے سے اجتناب کرتا ہوں ،کیونکہ وہاں پر ایک طرف وقت کا بے دریغ ضیاع ہوتا ہے تو دوسری طرف وقت گزاری کیلئے چغلیوں اور غیبت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اور اس پر مزید رکاوٹ میرا پیشہ ہے کہ جیسے ہی کسی کو معلوم ہوجائے کہ ڈاکٹر ہیں تو بس پھر کسی کو مشورہ درکار ہے ،تو کوئی ان سے نالاں نظر آتا ہے۔ کسی کو اپنے عزیز کی بیماری کا معمہ حل کرنا ہے تو کوئی ڈاکٹری کو مقدس پیشہ قرار دے کر اس کی اہمیت پر روشنی ڈال رہا ہوتا ہے۔ کوئی ہیپاٹائٹس کے بارے میں پوچھ رہا ہے تو کوئی ادرک اور لہسن کے فوائد پر مشورہ مانگ رہا ہے۔ اسلئے جونہی کوئی دعوت نامہ ملے تو کوشش ہوتی ہے کہ کوئی معقو ل بہانہ مل جائے ۔ یا پھر عین ٹائم پر پہنچ پہنچا جائے۔لیکن کل ایک ایسے ولیمے میں شرکت کرنا پڑی جس میں جانا بھی ضروری تھا اور اور وہ وقت سے کچھ دیر پہلے بھی۔ جس میز پر مجھے جگہ ملی اس پر سیاسی بحث ہو رہی تھی ایک شخص پیپلز پارٹی کا حامی تھا دوسرا مسلم لیگ کی حمائیت میں ہلکان ہو رہا تھا۔ اور ایک نے تو عمران خان کو اگلا وزیر اعظم بھی قرار دے دیا تھا۔ اس گرما گرم بحث میں ، میں نے طاہر القادری کی سیٹ سنبھالتے ہوئے جب ساری جماعتوں کے خلاف بولنا شروع کیا تو کچھ ہی دیر بعد سیاسی گرمی کچھ کم ہو گئی۔اور سیاسی وابستگیوں کی شدت میں کچھ کمی ہوگئی۔ میرے ساتھ ایک بزرگ بیٹھے تھے ۔ پوچھنے لگے کیا کام کرتے ہیں؟ کسی بھی نئی بحث کے شروع ہونے کے ڈر سے کہہ دیا، کچھ لکھنے لکھانے کا کام کرتا ہوں ۔ بابا جی میرا جواب سن کر بڑبڑائے، اچھا تو شاعر ہیں؟ میں مسکرا دیا اور کوئی جواب نہ دیا۔ کھانے میں کچھ دیر تھی۔ جب سیاسی بحث میں کچھ وقفہ آیا  تو بابا جی انتہائی سنجیدہ لہجے میں بولے، ہمارے علاقے میں ایک بہت بڑا حکیم رہتا تھا۔ لوگ دور دور سے علاج کروانے اس کے پاس آتے تھے ۔ ایک دفعہ ایک شخص اس کے پاس دائمی قبض کی شکائیت لے کر آیا ۔ حکیم صاحب نے ایک پڑیا دی اور کہا کہ اس کو روزانہ دودھ کے ساتھ ا ستعمال کرو انشاللہ افاقہ ہو جائے گا۔ کچھ دن بعد وہ آدمی دوبارہ حکیم صاحب کے پاس گیا اور بتایا کہ کوئی فائدہ نہیں ہوا تو حکیم صاحب نے کچھ حیرت کا اظہار کیا اور ایک اور پڑیا بنا کر دی ۔کہ یہ ایک مجرب نسخہ ہے اس کےاستعمال کے بعد آج تک کسی مریض نے شکائیت نہیں کہ اسے آرام نہیں آیا۔ لیکن حکیم صاحب کی آنکھیں پھٹنے کو آگئیں ۔ جب چند دن بعد وہ آدمی دوبارہ اپنی شکائیت کے ساتھ حکیم صاحب کے مطب پرموجود تھا ۔حکیم صاحب اٹھے اور ایک مرتبان اٹھایا اور اس میں سے دوا نکال کر دی اور کہا انشاللہ آج کے بعد یہ تکلیف دوبارہ نہیں ہوگی۔ یہ ہمارا صدیوں پرانا خاندانی نسخہ ہے جو ہمارے بزرگ شاہی دربار میں استعمال کرتے تھے ۔ لیکن آج کئی سالوں بعد اس کی ضرورت پڑی ہے۔ لیکن چار دن ہی گزرے تھے کہ حکیم صاحب اس آدمی کو دیکھ کر قریب قریب بے ہوش ہو گئے۔ جب کچھ ہوش آیا تو پوچھا کہ تم کرتے کیا ہو؟ تو اس آدمی نے جواب دیا میں شاعر ہوں۔ حکیم صاحب نے جیب سے کچھ پیسے نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا۔ یہ لو پیسے جا کر کچھ کھانا کھاؤ، پیٹ میں کچھ جائے گا تو قبض خود ہی ٹھیک ہوجائے گی۔ اور ہماری میز کشت زعفران بن گئی۔ کھانا لگ چکا تھا ۔اور سب اس پر ٹوٹ پڑے ۔ لیکن بابا جی کا قصہ سن کر مسکراہٹ تادم تحریر میرے ہونٹوں سے نکل نہیں سکی
میم۔ سین

Sunday, April 7, 2013

ناتمام


رانی مر گئی۔ اسے مر ہی جانا تھا۔آج نہ مرتی تو پھر زندگی ناسور بن کر اس کا پیچھا کرتی رہتی۔ پچھتاوے ساری عمر کی پرچھایاں بن کر اس کا تعاقب کرتی رہتیں۔احساس ندامت کی بیتے لمحے ، بے جان خوہشوں کا آلاؤ، تعفن پھیلاتی یادیں، سایہ بن کر اس کے وجود کا حصہ بن جاتیں۔ اور وہ زندہ رہ کر بھی شائد زندہ نہ رہتی۔ 
رانی چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرکے گزارا کرتی تھی اور باپ ہمیشہ کسی مزدوری کی تلاش میں سر گرداں رہتا تھا۔رانی کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب اس کی ماں پہلی بار اسے ہمارے گھر یہ کہہ کر لائی تھی کہ اس کو آپ کے گھر چھوڑے جا رہی ہوں ۔آپ کے گھر کا کام بھی کر دیا کرے گی اور آپ سے کچھ پڑھ بھی لے گی تا کہ پانچویں جماعت پاس کر لے۔
وہ ٹشو پیپر کی طرح کی لڑکی تھی جس کام میں لگایا اس میں لگ گئی۔ برتن پکڑائے تو ریت ،صابن اور اس کے ہاتھ کا مانجھا ہوتا۔گھر کی صفائی کا کہا تو اس کے ہاتھ میں جھاڑو ہوتا اور گھر کا صحن اور کمروں کے فرش ہوتے۔ کسی چیز کو جھاڑنے کا کہا تو پھر گرد کا آخری ذرہ جب تک نکل نہ جاتا وہ اپنی جگہ سے نہیں ہٹتی تھی۔ 
وہ ایک کورا کاغذ تھی جس پر جو بھی لکھ دیا جاتا وہ اسے قبول کر لیتی تھی۔وہ ایک ایسی لڑکی تھی جس میں قوت مدافعت نہیں تھی، موم کی گڑیا، جیسے کسی نے چاہا ڈھال لیا۔ ظالم سماج نے جو کچھ اس کے کورے ذہن پر لکھا وہ اس قدر بھیانک تھا کہ اس کے منحوس سائے نے پورے خاندان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 
کچھ ٹہنیاں اتنی لچک دار ہوتی ہیں جن کو جس طرف موڑا جائے وہ مڑجاتی ہیں اگراس کو بلندیوں پر چڑھانا چاہو تو آسمان تک لے جاؤ۔اگر ان کو سمیٹ نہ سکو تو وہ اس قدر الجھ جاتی ہیں کہ ساری عمر بھی سنوارنا چاہو تو سنوار نہ سکو گے۔ کچھ ایسا ہی ہوا اس کے ساتھ بھی۔
گھر میں پہلا موبائل آیا تو گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ اسی کی پاس رہتا۔ سارا دن اس پر گیم کھیلتی ، گانے سنتی اور تصویریں کھینچتی رہتی۔ اور پھر سانپ کا کھیل کھیلتے کھیلتے وہ زندگی کے کچھ سربسیدہ رازوں تک پہنچ گئی۔ وہ راز ، جن کو کھولنے کی اس کی ابھی عمر نہیں تھی لیکن معاشرے کے بے رحم تھپڑوں نے اسے گھوڑے کی ننگی پشت پر سواری کرنا سکھا دیا تھا۔ اور وہ ایلس کے ونڈر لینڈ کے خوابوں کے راستوں میں یوں کھو گئی کہ اب وہ تھی اور کسی ہولناک جزیروں کو جاتے راستے۔ کسی کو نہیں خبر کس طرح اس کی رسائی ان نمبروں تک ہو گئی جن کے اوپر ہوس کے پجاری بیٹھے تھے۔
وہ اس علم کی جستجو میں سرخ لکیر عبور کرتی رہی جس کی حقیقت تو تھی لیکن جس کا احساس، شعور کو نہیں تھا، اس نے اپنے تئیں وہ دنیا دریافت کر لی تھی جس کے بارے میں ،اس کے اندازوں کے مطابق ابھی کسی کو اس کا ادراک نہیں تھا۔
جہاں غربت اور افلاس کی ندیاں بہتی ہوں اور جذبات اپنی انگڑائیاں لے رہے ہوں وہاں پرمحبت کا زہر میٹھی زبان میں رکھ کر پیش کیا جائے تو نئی دنیا کے تعاقب میں نکلے پرندوں کا بھٹک جانا غیر فطری نہیں ہے۔ اگر یہ بات پہلے معلوم ہوجاتی کہ بڑی بڑی آنکھوں والی حور صفت رانی اپنے گھر کی جنت چھوڑ حسن صبا کی جنت کے خواب دیکھنے لگ گئی ہے تو شائد وہ دن دیکھنے کی نوبت ہی نہ آتی ،جب وہ دودھ لینے گجروں کے ڈیرے گئی تھی ۔ اور وہاں پر گھات لگائے کچھ شکاری اس دن ہوس کی بھوک میں بلبلا رہے تھے۔آج وہ صرف موبائل پر اس کی آواز سن کر بہلنا نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ اس آگ کو بجھانا چاہتے تھے جو موبائل پر لیٹ نائٹ پیکجز نے ایک عرصے سے بھڑکا رکھی تھی۔ 
کچھ لوگوں کا خیال ہے رانی نے خودکشی نہیں کی تھی بلکہ اس کو بے ہوش حالت میں ریل کے سامنے پھینک دیا گیا تھا۔ لیکن رانی کا قتل ہوا تھا یا اس نے خودکشی کی تھی ۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔؟ کیا روح سے خالی جسموں کو بھی کسی نے ڈھانپا ہے؟ کیا جن کے سروں سے عفت کی چادر اتر جائے ان کو بھی کوئی گھروں میں داخل ہونے دیتا ہے؟ کیا رونے سے، سسکیاں لینے سے ، ماتم سجانے سے ، وہ گھڑیاں واپس آ سکتی ہیں جن کو ہم نے کھو دیا ہے۔زمانے کو گالیاں دینے سے یا قاتلوں کو بددعائیں دینے سے کیا مردے لوٹ آئیں گے؟ یا عصمت کے لٹے قافلوں کی واپسی ممکن ہو سکے گی؟
جب آسمان پر بادل پہرے دے رہے ہوں تو اپنے سامان کی حفاظت خود کر لینی چاہیئے ، کون ذی شعور انسان انتظار کرتا ہے ؟ بادل کب چھٹیں گے ؟ ، بوندیں کب رکیں گی؟ ۔اس وقت تک تو سب کچھ بہہ چکا ہو گا ۔ لیکن المیہ تو وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے ہماری ذمہ داریوں کا آغاز ہوتا ہے۔جہاں سے ہمارے فرائض کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ جہاں سے رشتوں کا بوجھ بانٹا جاتا ہے۔۔
جب تیز ہوا میں پھولوں سے بھری ڈالیاں جھومنے لگتی ہیں تو مالی کی نیندیں اڑ جاتی ہیں لیکن ہم کیسے نگہبان ہیں کہ ہمارے ارد گرد خوف اور درد کی داستانیں بکھری پڑی ہیں اور ہم پھر بھی اپنی حد سے نکلتی خواہشوں کی حدت کو محسوس نہیں کر پا رہے۔
اگر غربت اور مفلسی انسانی عقل کو مار دیتی ہے تو وہیں پر اندھا دھند اعتماد بھی انسان کو بند گلیوں کو جانے والے رستوں پر ڈال دیتا ہے۔ لیکن یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے۔ یہاں تو ہر روز حوا کی بیٹیاں سپنوں کے تعاقب میں اپنے خاندان کی عزت و ناموس کو گروی رکھ رہی ہیں۔ انسانوں کے بھیس میں درندے اپنے شکار کے پیچھے دبے قدموں یوں پیچھا کر رہے ہیں کہ کسی کو خبر ہی نہیں ہوتی، کب آ شیانہ لٹ گیا۔ 
الزام ان بے لگام معاشرتی قدروں کا دیا جائے جو میڈیا کے ہاتھوں اپنی شناخت کھو رہی ہیں یا یا ذ مہ دار ی ا ن والدین پر ڈالی جائے جو مو بائل سرہانے رکھ کر سوتی اولاد کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہر وقت بجتے میسجز اور رات کو دیر تک سکرین سے نکلتی رو شنیوں کے زہر اآلود اثرات کو محسوس نہیں کر پاتے۔ فون کی بجتی گھنٹیوں پر بے چین ہونے والی نسل کو اس کے والدین محسوس نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟۔ غیروں کی ثقافت کو اپنے ڈرائینگ روموں میں سجا نے والے گھرانے ، ان کے اثرات کو کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں زمانہ بہت تیز ہوگیا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو ہم وقت کے ساتھ بدلتے تقاضوں او ان کی نئی ضروریات کو محسوس کرنا کب سیکھیں گے؟۔ جب کوئی درخت بہت تیزی سے شاخیں نکال رہا ہو تو ان کو سہارے کی ضرورت پڑتی ہے اگر ان کو بروقت سہارا نہ دیا جائے تو وہ غلط رخ اختیار کر لیتی ہیں۔ اس تیز رفتار زمانے میں ہم خواب خرگوش کے مزے اڑاتے اپنی جملہ ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے رہے تو سڑک پر مداری کا تماشہ دیکھتے ہوئے کسی دن ہماری اپنی جیب کٹ چکی ہو گی۔
میم۔سین

Thursday, April 4, 2013

جنت کی پامالی


آخری بار جب قلم ہاتھ میں پکڑا تو مجھے یوں لگا تھا جیسے میرے قلم میں لکنت ہے یا میرا ذہن کسی الجھن کا شکار ہے جو میری سوچ کو کسی ایک نقطے پر رکنے نہیں دیتا۔میری توجیہات اور دلائل اس قدر لغزش کا شکار ہیں کہ میں دوسروں تک اپنے خیالات کا اظہار کیا کروں ؟میں تو خود الجھن کا شکار ہو  جاتا ہوں۔ابھی میں اسی ذہنی کشمکش میں تھا کہ ایک ایسے واقعے کا گواہ بن گیا جس نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔۔ اور میں اپنے اندر  یوں بکھر کر رہ گیا کہ کئی دنوں تک اپنی ہی ذات سمیٹنے میں لگا رہا۔میرا ذہن تھکاوٹ، اور بے بسی کی ایک نیم جاں کیفیت میں ڈھل گیا۔میں جذبات سے مغلوب ہو رھا تھا اور زندگی کو سطح استوا پر کھڑا رکھنے کیلئے سارے حیلے بیکار اور ساری دلیلیں بے معنی ثابت ہو رہی تھیں۔کچھ حقائق اس قدر پراگندہ ہوتے ہیں کہ ان کی کرواہٹ انسان کو فرار کے رستے پر ڈال دیتی ہے لیکن میں اتنا مضبوط نہیں ہوں کہ اپنی آگہی کے شعور کو دیر تک برداشت کرتا رہتا ،بس اپنے اندر ہی اندر بہتا رہا ، اپنے ضمیر کو لگے ناسور کو رستا دیکھتا رہا۔ کچھ حقیقتیں اس قدر متعفن ہوتی ہیں کہ وہ قلب وشعور کو ماؤف کر دیتی ہیں ا ور جب جذبات کی شدت کا بہاؤ کچھ تھما تو کاغذ قلم لیکر بیٹھ گیا ہوں۔
محمدی بیگم دس کی سال کی تھی جب ہندستان کی تقسیم ہوئی تھی۔ مسلمانوں کو اگر اپنے وجود کی بقا کیلئے ایک الگ خطے کی ضرور ت تھی تو ہندوؤں کے نزدیک اس زمین کی تقسیم گاؤ ماتا کو دوحصوں میں کاٹنا تھا۔لیکن اس سارے کھیل میں کوئی گاؤ ماتا کٹی یا نہیں لیکن سرحد پار کرتے ہوئے اگر محمدی بیگم اپنی ماں کی ممتا سے محروم ہوگئی تھی وہیں پر اپنے بہت سے رشتوں کو اس نے سرحد کے آر پار کہیں کھو دیا تھا۔ کم عمری میں ہی شادی ہو گئی ۔ جوانی اپنی غربت سے لڑتی اور اپنے خاوند کی عزت و آبرو کی حفاظت میں گزر گئی۔ دو بیٹوں کی نعمت سے اللہ نے نوازا۔ جوانی تو جیسے تیسے گزر گئی لیکن جب بیٹے جوان ہوئے تو بڑا بیٹا دبئی چلا گیا تو اللہ نے پیٹ بھر کر کھانے کا کا موقع دے دیا۔چھوٹے بیٹے نے بھی جس کے پاس وہ رہ رہی تھی ایک سکول بنا لیا اور  یوںپاکستان آکر محمدی بیگم نے بھی خوشحالی کا منہ دیکھ لیا۔اپنے خاوند کی وفات کے بعد گھریلو آسودگی کے باوجود وہ حالات کا تنہا مقابلہ نہ کر پائی اور پہلی بار جب وہ بلڈ پریشر کے ساتھ میرے پاس آئی تو معائینہ اور ٹسٹوں کی رپورٹ کے بعد جب میں نے اس کے بیٹے کو نصیحت کی کہ اماں کو توجہ دیا کریں کیونکہ بظاہر ان کو کوئی بیماری نہیں ہے لیکن اعصابی کھنچاؤ کی وجہ سے ان کو آج  بلڈ پریشر ہوا ہے تو خدانخوستہ کوئی مستقل نو عیت کا عارضہ بھی لاحق ہو سکتا ہے۔۔ انہوں نے اماں کو کوئی دوا مسلسل استعمال کروائی یا نہیں ، ان کی نگہداشت میں کوئی اضافہ کیا یا نہیں، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ وہ میرے پاس جب بھی آئیں ان کا بلڈپریشر ہمیشہ زیادہ ہوتا۔ بار بار دوائی بھی تبدیل کی۔ ۔ مزید مشورے کیلئے دوسرے ڈاکٹروں کے پاس بھی گئے۔ ان کے نزدیک بھی ذہنی تناؤ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اور میں ان کے ماضی اور ان کے خاوند کی موت کو اس کا ذمہ دار قرار دیتا رہا۔ ایک رات جب اماں کے اچانک بے ہوش ہونے کی خبر آئی تو معلوم ہوا بلڈ پریشر کی زیاد تی کی وجہ سے فالج ہوگیا ہے ۔ ابتدائی طبی ا مدادکے بعد ان کو فیصل آباد ریفر کر دیا ۔ ز ندگی تو بچ گئی لیکن ہمیشہ کیلئے بستر پر لگ گئیں۔گاہے بھگاہے ان کو دیکھنے ان کے گھر جانا ہوتا تو ان کی ابتر حالت ، بدن پر رِستے زخم اور بستر سے بلند ہوتا تعفن ، دل یہ سب دیکھ کر بہت پریشان ہوتا۔ لیکن نصیحت کے سوا کیا کر سکتا تھا۔ اس دن میں دوپہر کو کلینک پر ہی تھا جب ان کے بیٹے کا فون آ یا اور مجھے فوراً گھر آنے کی درخواست کی۔ جب میں گھر پہنچا ہوں تو مجھے اندازہ ہو کہ وہ تو کئی گھنٹے پہلے انتقال کر گئیں تھیں۔ جب میں نے انا للہ وانا والیہ راجعون پڑھا اور بتا یا کہ ان کی سانس رکے کافی دیر ہوگئی ہے تو ان کا بیٹا گیا اور ایک چیک بک نکال کر لایا اور اماں کے انگوٹھے پر سیاہی لگا کر نشان ایک چیک کے اوپر لگا لیا۔ میری حیرت سے پھٹی آنکھوں کو دیکھ کر کہنے لگا ۔ آپ کو تو پتا ہے بینک کے کاؤنٹ سے مرنے کے بعد پیسے نکلوانا کتنا مشکل کا م ہے۔ خاندانی زمینوں کا حصہ اماں کو ملا تھا ،اب ایک لاکھ کی خاطر کون بینکوں کے نخرے برداشت کرتا پھرے۔ میں جو ہمیشہ انسانیت کی بلندیوں کا ورد کرتا رہتا تھا ۔سناٹے میں آگیا۔ یوں لگا کسی سرکش گھوڑے نے مجھے اپنی پیٹھ سے پٹخ دیا ہے۔میں اعتماد کی چٹان سے جو گرا ہوں تو لڑھکتا ہی چلا گیا ہوں۔مجھے لگ رہا تھا کہ میں موم کا مجسمہ ہوں جو شدت جذ بات سے پگھلا جا رہا ہے ۔مجھ سے کسی نے تپتی دھوپ میں سائباں چھین لیا ہو ۔منجھدھار کے بیچ پہنچ کر چپو کسی نے چھین لئے ہوں ۔ ا سے میں حقیقت پسندی کہوں یا بے حسی سے تعبیر کروں ۔ لالچ کہوں یا معاشرے کی زوال پذیر روایات کو الزام دوں۔یا ان اقدار کا ماتم کروں جن کو ہم نے فراموش کر دیا ہے۔میں اسے کچھ بھی کہوں ،رشتوں کو لگی ٹھیس کو میں کیسے سنبھال سکوں گا۔ میرا وجود تو ریزہ ریزہ ہوگیا ہے میں خود کو کیسے سمیٹوں خود کیسے سنبھالوں گا۔
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی والدہ کی شکایت کی کہ میری ماں بدمزاج ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس زمانے میں وہ تجھے نو ماہ تک پیٹ میں لیے پھرتی رہی کیا اسوقت بھی وہ بدمزاج تھی؟اس نے پھر یہی کہا کہ میری ماں بدمزاج ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب وہ تیرے لیے ساری ساری رات جاگتی تھی اور راتوں کو اٹھ کر تجھے دودھ پلاتی تھی تو اسوقت بدمزاج نہیں تھی؟اسکے بعد وہ کہنے لگا کہ میں اسکی محنت و مشقت کا بدلا اتار چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تو نے کیسے بدلا اتار دیا؟اس نے جواب دیا میں نے اسے اپنے کاندھوں پر بٹھا کر حج کروایا ہے۔یہ سن کر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تو  ماں کو اس تکلیف کا بدلا بھی دے سکتا ہے جو اس نے درد زہ کی صورت میں برداشت کی تھی؟ سیکڑوں صفات وخصوصیات اور مجاہدوں ا وریا ضتوں کی خوشبووٗں سے ماں کا خمیر تیار ہوتا ہے اور جب وہ ماں زمین پر اپنے پاؤں رکھتی ہے تو اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی جاتی ہے۔ اسی ماں کے متعلق حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہاری ماں کی نافرمانی حرام فرما دی ہے۔ماں جس کی پیشانی میں نور  ہے تو  آنکھوں میں ٹھنڈک ، جس کی باتوں میں محبت ہے تو دل میں رحمت ، جس کے ہاتھوں میں شفقت ، جس کے پیروں میں جنت اور جس کی آغوش میں پوری دنیا کا سکون رکھ دیا گیا ۔یہاں تک کہ محبت اور پیار کے سارے استعارے لفظ ماں پر آکر ختم ہو جاتے ہیں اور پھر اس کی عظمت کا اعتراف خالق  کائنات نے مخلوق سے اس طرح کرایا کہ خدا کی بندگی اور رسول کی پیروی کے بعد اطاعت وفر مانبرداری اور خدمت گزاری کا سب سے بڑا درجہ اگر کسی کو حاصل ہے تو وہ ماں ہے۔ وہ ماں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ صرف اس کو محبت بھری نظرسے دیکھ لینے سے حج کا ثواب مل جا تا ہے۔وہ ماں جس کے بارے میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں فرماتے ہیں اگر میری ماں زندہ ہوتی، میں نماز میں اللہ کے حضور کھڑا ہوتا۔ ماں آواز دیتی میں نماز چھوڑ کر دوڑ کے ماں کے پاس جاتا اور دنیا والوں کو بتاتا کہ ماں کی عظمت کیا ہوتی ہے ماں  محض ایک لفظ نہیں بلکہ محبتوں کا مجموعہ ہے۔ خلوص کا نہ خشک ہونے والا چشمہ، پیار کے اظہار کا پہلا مجموعہ۔ماں ،کا لفظ سنتے ہی ایک ٹھنڈی چھاؤں اور ایک تحفظ کا احساس اجاگر ہوتا ہے ۔صحرا کی تپتی ریت پر بادلوں کا سائباں محسوس ہوتا ہے ۔ ایک عظمت کا پیکر اور سب کچھ قربان کردینے والی ہستی کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ماں کے لفظ میں وہ مٹھاس ہے کہ اپنائیت کے احساس میں گدگدی کرتی سوچ کی وادیوں میں ایک ہلچل مچا دیتی ہے۔ انسانی رشتوں کو پیمانوں پر کھڑا کردیں تو سب سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی ماں کی ہے۔ اس کائینات پر اللہ کی نعمتوں کا ذکر کریں تو ماں اس کی عطا کردہ نعمتوں میں افضل ترین نعمت ہے۔ یہ ہماری روایات کا تقاضا بھی ہے اور ہماری تہذیبی اور مذہبی ضرورت بھی اور ہماری خواہش بھی کہ ہر دن کا آغاز ماں کی دعاؤں کے سائے تلے ہو۔ قرآن حکیم اور دوسری تمام الہامی صحیفوں میں ماں کا تقدس سب کی مشترکہ میراث ہے۔۔کسی نے سچ کا تھا دنیا کی کوئی بھی جنت ماں کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ ماں کی ہستی کا جو نقشہ اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے رضا سرسوی صاحب نے کھینچا ہے اس کے بعد الفاظ ختم ہو جاتے ہیں


موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں 
تب کہی جا کر رضا تھوڑا سکون پاتی ہے ماں 

فکر میں بچوں کی کچھ اس طرح گْھل جاتی ہے ماں 
نوجواں ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں 

روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیے 
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں 

ہڈیوں کا رس پلا کر اپنے دل کے چین کو 
کتنی ہی راتوں میں خالی پیٹ سو جاتی ہے ماں 

جانے کتنی برف سی راتوں میں ایسا بھی ہوا 
بچہ تو چھاتی پے ہے گیلے میں سو جاتی ہے ماں 

جب کھلونے کو مچلتا ہے کوئی غربت کا پھول 
آنسوں کے ساز پر بچے کو بہلاتی ہے ماں 

فکر کے شمشان میں آخر چتاؤں کی طرح 
جیسے سوکھی لکڑیاں ، اس طرح جل جاتی ہے ماں 

اپنے آنچل سے گلابی آنسوں کو پونچھ کر 
دیر تک غربت پے اپنی اشک برساتی ہے ماں 

سامنے بچوں کے خوش رہتی ہے ہر ایک حال میں 
رات کیوں چھپ چھپ کے لیکن اشک برساتی ہے ماں 

کب ضرورت ہو میری بچے کو ، اتنا سوچ کر 
جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں 

مانگتی ہی کچھ نہیں اپنے لیے اللہ سے 
اپنے بچوں کے لیے دامن کو پھیلاتی ہے ماں 

دے کے اک بیمار بچے کو دعائیں اور دوا 
پینتی پے رکھ کے سر قدموں پے سو جاتی ہے ماں 

گر جوان بیٹی ہو گھر میں کوئی رشتہ نا ہو 
اک نئے احساس کی سولی پے چڑھ جاتی ہے ماں 

ہر عبادت ہر محبت میں نیہا ہے اک غرض 
بے غرض بے لوث ہر خدمات کو کر جاتی ہے ماں 

زندگی بھر چنتی ہے خار ، راہ ذیست سے 
جاتے جاتے نعمت فردوس دے جاتی ہے ماں 

بازوں میں کھینچ کے آجائے گی جیسے کائنات 
ایسے بچے کے لیے بانہوں کو پھیلاتی ہے ماں 

زندگانی کے سفر میں گردشوں کی دھوپ میں 
جب کوئی سایہ نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں 

پیار کہتے ہے کسے اور مامتا کیا چیز ہے 
کوئی ان بچو سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں 

صفحہ ہستی پے لکھتی ہے اصول زندگی 
اس لیے اک مکتب اسلام کہلاتی ہے ماں 

اس نے دنیا کو دیے معصوم رہبر اس لیے 
عظمتوں میں ثانی قرآن کہلاتی ہے ماں 

گھر سے جب پردیس جاتا ہے کوئی نور نظر 
ہاتھ میں قرآن لے کر در پے آجاتی ہے ماں 

دے کے بچے کو ضمانت میں اللہ پاک کی 
پیچھے پیچھے سر جھکائے در تک جاتی ہے ماں 

کانپتی آواز سے کہتی ہے بیٹا الوداع 
سامنے جب تک رہے ہاتھوں کو لہراتی ہے ماں 

جب پریشانی میں گھر جاتے ہیں ہم پردیس میں 
آنسوں کو پونچھنے خوابوں میں آجاتی ہے ماں 

دیر ہو جاتی ہے گھر آنے میں اکثر جب ہمیں 
ریت پر مچھلی ہو جیسے ایسے گھبراتی ہے ماں 
مرتے دم بچہ نا آ پائے اگر پردیس سے 
اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پر رکھ جاتی ہے ماں 

باب مر جانے پے پھر بیٹے کی خدمت کے لیے 
بھیس بیٹی کا بدل کر گھر میں آجاتی ہے ماں 

ہم بلاؤں میں کہیں گھرتے ہیں تو بے اختیار 
خیر ہو بچے کی ، کہ کر در پے آجاتی ہے ماں 

چاہے ہم خوشیوں میں ماں کو بھول جائیں دوستو ! 
جب مصیبت سر پے آتی ہے تو یاد آتی ہے ماں 

دور ہو جاتی ہے ساری عمر کی اس دم تھکن 
بیاہ کر بیٹے کو جب گھر میں بہو لاتی ہے ماں 

چین لیتی ہے وہی اکثر سکون زندگی 
پیار سے دلہن بناکر جس کو گھر لاتی ہے ماں 

پھر لیتے ہیں نار جس وقت بیٹے اور بہو 
اجنبی اپنے ہی گھر میں ہے بن جاتی ہے ماں 

ہم نے یہ بھی تو نہیں سوچا الگ ہونے کے بعد 
جب دیا ہی کچھ نہیں ہم نے تو کیا کھاتی ہے ماں 

ضبط تو دیکھوں کہ اتنی بے رخی کے باوجود 
بد دعا دیتی ہے ہرگز اور نا پچھتاتی ہے ماں
میم ۔ سین