Saturday, June 15, 2013

ڈارون کا پاکستان


ڈارون جھو ٹ نہیں بولتا تھا ۔ وہ ایک سچا انسان تھا ۔ اس نے انسانی ارتقا کا جو نظریہ پیش کیا تھا وہ بالکل صحیح تھا۔ جی ہاں میں بقائمی ہوش وہواس یہ بات کہہ رہا ہوں۔ ڈارون نے جو کہا تھا وہ حرف بہ حرف درست تھا ۔ یہ جو انگریز کی بالا دستی کے سو سال تھے ۔ ان میں بغاوت کے نام پر، نفرت کی جوفصل لوگوں کے ذہنوں میں بوئی گئی تھی کہ سرکاری مال کو نقصان پہنچاؤ۔جتنا نقصان پہنچاؤ گے انگریز سرکار کمزور ہوگی۔ جہاں موقع ملے، اسے نقصان پہنچاؤ۔۔ ریلوے کی پٹریاں ہوں یا سکولوں کی عمارت، نہروں کے حفاظتی پشتے ہوں یا سڑک کنارے لگے سائن بورڈ، نئی سڑکیں ہوں یا کسی گراؤنڈ کی چار دیواری۔نقصان پہنچاؤ۔ جہاں ممکن ہواور جہاں تک ممکن ہو۔اپنی استطاعت کے مطابق نقصان پہنچاؤ۔ اگر تم بلب توڑ سکتے ہو تو وہ توڑ ڈالو، بجلی کے سوئچ کو نقصان پہنچا ؤ۔سرکاری سٹیشنری کو لوٹو۔۔ یوں ایک ارادی حرکت نسلوں کے بعد ہمارے جینز میں شامل ہوگئی ہے۔ہم آج بھی نہروں کے پشتے اکھیڑ دیتے ہیں۔ سائن بورڈ توڑ دیتے ہیں۔ سرکاری گاڑی کا استعمال اس بے رحمی سے کرتے ہیں کہ ایک سال بعد ورکشاپ میں کھڑی ہوجاتی ہے۔ ٹرین سے بلب چوری کرنا، سیٹوں کو بلیڈ سے کاٹ دینا، دیواروں کو سیاہی سے خراب کرنااب ہماری خصلت میں    شامل ہوچکا ہے اور سرکار کے بارے میں ہمارا رویہ آزادی کے بعد بھی غلامی جیسا ہے۔ حکومتوں کو بدستور گالیاں دیتے ہوئے سرکاری ملازمت کیلئے پہلی صف میں کھڑے نظر آنے والے مملکت خداد پاکستان کی عوام سرکار کو نقصان پہنچانے میں ہمیشہ پیش پیش نظر آئی گی۔کیونکہ ڈارون کے نظریے کے مطابق اب یہ عادتیں ہمارے جینز میں شامل ہوگئی ہیں اور اصلاح طلب نہیں رہی ہیں ۔ ابھی جینز میں حلول کر جانے والی یہ غلامانہ سوچ ہی اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہی تھی کہ ہم نے ترقی کی دوڑ میں اکیڈمیوں کی شکل میں برائلر مرغیوں کی طرز پر کنٹرول شیڈز قائم کر دیئے ہیں۔ جہاں ذہین طالب علموں کو رکھ کر ان میں علم کی مخصوص غذا داخل کی جاتی ہے جس کے بعد وہ امتحانوں میں امتیازی نمبر لے کر پروفیشنل اداروں میں داخل ہو رہے ہیں۔چند سالوں بعد پروفیشنل اداروں میں مکمل اجارہ داری کرنے والی اس برائلر نسل کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہے ، اپنا کوئی وژن نہیں ہے۔پچاس کی دھائی میں افغانستان کے طالب علموں کو سکالرشپ دے کر ماسکو کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے بعد ذہن سازی کیلئے کسی کے جی بی کی ضرورت نہیں تھی، ملک کے سکالرز اور پروفیسرز کو کانفرنسوں میں بلا کر پورے روس کی سیر کرانے کے بعد ان کے نظریات بدلنے کیلئے کسی لابی نے کام نہیں کیا تھا۔یہ بھی ایک طرح کی مرعوبیت تھی جس نے ٹینکوں پر سوار ہو کر ریچھ کو کابل آنے کی دعوت دی تھی۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی طرف سے ذہین طلبا کو سکالرشپ دے کر نام نہاد ترقی یافتہ مملک کی یونیورسٹیوں میں بھیج کر کر ان کے ذہن جو پہلے ہی کوئی وژن یا شعور نہیں رکھتے تھے اب مرعوبیت کا داغ سینوں میں سجائے پاکستان جیسے ملکوں میں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کی وجہ اسلام کو بتاتے ہیں۔اور مسلم ممالک کے سارے اجتماعی گناہ ایک ٹوکری میں ڈال کر سارا ملبہ اسلامی تحریکوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ملا کو حرف تنقید بنانااور سارا کیچڑ اس کی گود میں ڈال کر اپنی تمام اجتماعی ذ مہ داریوں سے عہدہ برا ہوجانا، اس مرعوب نسل کا خاص طرہ امتیاز ہے۔میڈیا کی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے والی اس نسل کو وہی کچھ دکھایا جاتا ہے ،جو ان کو دکھایا جانا مقصود ہوتا ہے۔۔ ایک نسل تک تو یہ سب کچھ غیر محسوس انداز میں ہوتا  رہے گا اور پھر ڈارون کے قانون کے مطابق ان کے جینز میں ڈھل جائے گا اور پھر کوئی سوچ اور اور کوئی فکر ان کو تبدیل نہیں کر سکے گی۔کالاباغ ڈیم کا مسئلہ طالبان کا پیدا شدہ ہے۔ اور طالبان کے ہی کہنے پر نااہل افراد سفارت خانوں میں تعینات کئے جاتے ہیں جو ہماری شناخت پر لگے دھبوں پر کالک پھیر کر اسے مزید نمایاں کرتےنظرآتے ہیں۔ ان ملاؤں کے کہنے پر ہی پچھلے ساٹھ سالوں سے میرٹ کا استحصال ہوتا چلا آیا ہے اور ہر اہم عہدے کو مال مفت سمجھ کر لوٹا گیا۔اور یہ اسلامی شدت پسند ہی تھے جن کے کہنے پر لیاقت علی نے روس کا دورہ منسوخ کیا اور نہر سویز کے مسئلے پر مصر کی بجائے برطانیہ اور فرانس کی حمایئت پر مجبور کیا۔ ان وحشی مذہبی جنونیوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کردار ادا کیا اور بھٹو کو تمام صنعتی اور تجارتی اداروں کو قومیا کر ملک کی معیشت کا جنازہ نکالنے کیلئے کہا۔ اور ان ہی ملاؤں نے ہر ڈکٹیٹڑ کے ساتھ حلف وفاداری دینے پر قابل احترام ججوں کو مجبور کیا۔یہ ملا ہی تھے جنہوں نے کشمیر میں فوج داخل کرنے کے قائداعظم کی حکم  عدولی پر مجبور کیا تھا ۔گورنر غلام محمد جیسے لوگوں کو صدارت کے محل تک پہنچایا تھا۔قلات کے ولی سے صلح کا معاہدہ کر نے کے باوجود پھانسی  پرچڑھا دیا تھا۔یحیی خان کو طالبان کے ہی تو کہنے پر صدر بنایا گیا تھا۔ ان مذہبی جنونیوں نے روس کو افغانستان آنے کی دعوت دی اور پھر ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر کو پورے ملک میں پھیلا دیا۔ان مذہبی طبقہ فکر کی وجہ سے آج تک ہماری کوئی یونیورسٹی انٹرنیشنل رینکنگ حاصل نہیں کر سکی۔ ان ملاؤں نے سائنسدانوں کی حوصلہ شکنی کی اور ملک کو ٹیکنالوجی سے ہمیشہ دور رکھا۔اور یہ مولویوں کا ہی کیا دھرا ہے جو آج پبلک سروس کمیشن سے لیکر سول سروس جیسے ادارے بھی متنازعہ ہوگئے ہیں۔اور رینٹل پاور سکینڈل، این ایل سی سکینڈل، اوگرا فراڈ کیس، حارث سٹیل مل کیس، سوئس اکاؤنٹس سے لیکر کر سٹیل مل اور ریلوے کی تباہی میں یہ مذہبی حلقے ہی تو شامل رہے ہیں۔ ملک عزیز کی ترقی میں حائل صرف ملا ہے۔ اس لئے اس ملک سے مذہب کو نکال پھینکو۔۔۔۔ڈارون سچا تھا۔ ایک نسل کو دھوکے اور فریب میں رکھواور اپنی سوچ کی عینک ان کی آنکھوں پر چڑھا کراپنی مرضی کی دنیا دکھاؤ، اگلی نسل کو قابو کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی
میم۔سین

Friday, June 14, 2013

نمی کا احساس

ہم کتنے ہی شکر گزار بندے کیوں نہ بن جائیں لیکن کچھ نعمتوں کی طرف شائد ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا ۔کچھ انمول تحفے زندگی میں ایسے ہیں جن کا مول ہمیں معلوم ہی نہیں ہے۔اللہ تعالی نے نے انسانی دل اور ذہن بھی کیا عجیب چیز بنائی ہے۔ غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں یا پریشانیوں کے انبار لگ جائیں۔ دکھوں کی ایک طویل کہانی لکھی گئی ہو یا پھر آہوں اور آنسوؤں کی ایک لمبی داستاں کا ساتھ ہو۔ لیکن جونہی غم والم کے گھپ حبس زدہ موسموں پر خوشیاں بارش کی پہلی بوندوں کی صورت میں برسنا شروع ہوئیں۔ سب غم مٹنے لگتے ہیں اور سب زخم بھرنے لگتے ہیں۔رات بھر آپ دانت کے درد میں کڑاھتے رہے ہوں لیکن ایک گولی درد کی کھانے کے بعد سارا کرب ذہن سے نکل جاتا ہے۔ سارا دن بخار میں تڑپ کر گزار دیں جونہی اس سے نجات پائی تو سب غم دور ہوگئے۔ماں باپ سے زیادہ عزیز رشتے شائد دنیاا میں کوئی نہیں ہوتا۔لیکن ان کی اس دنیا سے رخصتی کا رنج و الم کچھ دنوں بعد ہمارے معمولات کو پریشان نہیں کر تا۔ یہ وقت کا پہیہ بھی عجب چیز ہے۔ سب غموں اور پریشانیوں کو اپنے ساتھ یوں بہا کر لے جاتا ہے کہ احساسات چند بوندوں کی نمی سمیٹ کر گرم تپتی لو سے جل جانے والے پیڑ کی نئی کونپلوں کی طرح تروتازہ اور شاداب ہوجاتے ہیں۔
میم۔سین

Monday, June 10, 2013

شکریہ



پاکستا کی گرم مرطوب فضا ت ئی وباؤں کیلئے بہت موزوں ہے۔ آئے د ملک عزیز کسی ہ کسی وبا کی زد میں رہتا ہے۔ کبھی گیسٹرو کی وبا تو کبھی خسرہ۔ کبھی ٹو ٹی ٹو ٹی کی تو کبھی بس ت کی وبا پھیل جاتی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستا ے تو ای آر او، ایفیڈری ، اوگرا، ای ایل سی کی وبائیں پھیلا کر قوم کو محبوس رکھا ہے۔ ابھی چ د د پہلے الیکش کی وبا ے ملک عزیز کو بری طرح جکڑ رکھا تھا ، لوڈشیڈ گ ے تو ایک عرصے سے ایسے ڈیرے ڈال رکھے ہیں کہ لگتا ہے جا ے کا ارادہ ہی ہیں ہے۔ اور ابھی حال ہی میں آئی سی سی کے تعاو سے ا گلی ڈ سے کل ے والی کرکٹ کی وبا سے ہماری فضاؤں کو شدید خطرات درپیش تھے لیک پاکستا کے کرکٹ بورڈ کی بہتری حکمت عملی ے اس وبا کو پھیل ے سے ابتدا ہی میں روک دیا ہے۔۔۔۔۔شکریہ پاکستا کرکٹ بورڈ
میم سین

سوچنے کی بات



میں کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ ہم کس قدر احمق ہیں۔ سکول کا پرنسیپل پانچویں پاس لگا دیتے ہیں اور پھر جب مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو الزام کورس کو دے کر اسے تبدیل کرنے کا مطالبہ شروع کر دیتے ہیں۔عمارت کھڑی کرنے کیلئے دھوبی کی خدمات حاصل کر لیتے ہیں اور پھر ناقص میٹریل کو الزام دے کر تحقیقات شروع کر دیتے ہیں۔ بھوک لگے تو منیاری کی دکان میں کھڑے ہو کر کھانے کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ کیا ترقی کا معیار اونچی عمارتیں، اچھی نوکریاں، بینک بیلنس اور ایک بڑا گھر ہے؟؟؟ کیا ان کے حصول میں دین مانع ہوتا ہے؟ کیا سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول میں دین کوئی پابندیاں لگاتا ہے۔؟حکمرانوں کے تعیش اور انداز حکمرانی کو دین کے کھاتے میں ڈالنا کہاں کا انصاف ہے؟
ہم سب شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں لیکن اس شرط پر کہ شریعت کا جو خاکہ ہمارے ذہنوں میں ہے یعنی شریعت کے نفاذ کا مطلب شہد کے تالاب اور دودھ کی نہریں ہے۔۔۔۔خوشحالی۔۔ ایک شاندار انداز زندگی اور امن وامان۔۔۔ کیا کبھی ذہنوں میں یہ بھی آیا ہے کہ شریعت کا نفاذ اللہ کا حکم ہے اور خواہ اس کیلئے پتھر کے زمانہ میں جانا پڑے۔۔۔۔۔۔۔
میم سین

Sunday, June 9, 2013

رات کی بات

کل جب بچوں کے کپڑے خرید ے کے بعد بل ادا کر ے کاء ٹر پر پہ چا ہوں تو ایک صاحب پہلے سے کھڑے تھے۔ ساڑھے چھ ہزار کا بل ب ا اور ادا کر ے سے پہلے کہ ے لگے کوئی رعائیت؟ کاء ٹر پر کھڑے شخص کے یہ کہ ے پر کہ سر ہمارے ریٹ فکس ہوتے ہیں اس شخص ے بل ادا کیا اور دکا سے باہر کل گیا۔ میں اپ ا بل ادا کر کے باہر کلا ہوں تو وہی شخص ایک ازارب د بیچ ے والے شخص کے ساتھ بحث کر رہا تھا۔ آزارب د بیچ ے والا ایک سوپچاس کی بجائے ایک سو چالیس روپے پر اپ ا مال بیچ ے پر تیار ہوگیا لیک وہ شخص ابھی بھی مزید قیمت کم کر ے پر اصرار کر رہا تھا۔ جب بات ہ ب ی تو ایک سو چالیس روپے ادا کرتے ہوئے بولا بہت لوٹتے ہو۔کچھ خدا خوفی کیا کرو۔۔۔۔ اور میں کچھ دیر سوچوں میں گم رہا۔۔۔۔ ائیکی یا ٹامی ہل فگر والے فیکٹری سے پا چ ڈالر میں ایک ٹی شرٹ تیار کروا کر اسے سو روپے میں بیچیں تو ا سے قیمت میں رعائیت لیتے ہوئے ہمیں شرم آتی ہے۔۔۔۔۔۔ پچیس ہزار کا فرج خرید ے کے بعد ریڑھی والے کو سو کی بجائے ڈیڑھ سو دی ے میں تامل کا اظہار کریں گے۔۔۔ پچاس لاکھ مکا کی تعمیر پر لگا ے کے بعد ایک د مزدور لگا کر گلی صاف کروا ے میں ہماری جا جاتی ہے۔۔۔۔ اس سوچ کو کیا کہیں گے؟؟؟؟ فسیات کی یہ کو سی بیماری ہے جو ہمیں اجتماعی طور پر لاحق ہو چکی ہے؟؟؟؟
میم سین

تصویر کا دوسرا رخ


عرب ممالک میں رہنے والوں میں سے شائد ہی کوئی ایسا ہو جس نےعربوں کے نسلی تعصب کو محسوس نہ کیا ہو ۔لیکن یہ بڑائی، یہ فخر امریکی یا برٹش پاسپورٹ کے سامنے کیوں گر جاتا ہے اس کی سمجھ مجھے کبھی نہیں آسکی ہے ۔ آپ سعودی عرب میں بیس سال قیام کرلیں، لہجہ، رہن سہن اور لباس سب کچھ ان کے مزاج کے کے مطابق بھی ڈھال لیں لیکن پھر بھی معاشرے میں وہ مقام حاصل نہیں کر سکتے جو ایک عربی النسل کو حاصل ہے۔ اگر آپ ایک عربی خاندان کے نوے سال کے ایک ایسے بزرگ ہیں جو دماغی طور پر فوت ہوچکا ہے لیکن مشینوں کے ذریئے زندہ رکھا جا رہا ہے توآپ کے خاطر لاکھوں ڈالر کا خرچ بھی برداشت کیا جائے گا لیکن اگر آپ کی شہریت کسی دوسرے ملک کی ہے تو پھر کوئی آپ کے کسی ناگزیر آپریشن کیلئے بھی پیسہ نہیں دے گا۔ پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے دوران ایک عربی کو ہمیشہ ایک عجمی کے اوپر فوقیت دی جائے گی۔ صرف فوقیت ہی نہیں دی جائے گی بلکہ آپ کو دوسرے درجے کا شہری ہونے کا احساس بھی دلایا جائے گا۔ زندگی میں ترجیحات کو ہی لے لیں ایک عربی کی زندگی کا خواب کیا ہوتا ہے؟؟؟؟ امریکہ کے کسی ہوٹل میں قیام یا پھر کسی بڑے شاپنگ مال سے خریداری۔۔عالیشان گھر اور گاڑی۔۔۔۔ اگر کسی چیز کا بے چینی سے انتظار رہتا ہے تو وہ کسی بھی پرتعیش گاڑی کے نئے ماڈل کا انتظار ہے۔۔۔عربوں کو ان ساری باتوں سے کیا غرض کہ تیسری دنیا کے کیا مسائل ہیں؟؟، یہودو نصاری اسلامی دنیا کے خلاف کس طرح نمبرد آزماہیں۔؟؟؟؟ سودی اور استعاری نظام کے ذریئے، کس طرح عربوں کی ساری دولت کو سینچا جا رہا ہے؟  اگر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ عربوں نے اپنے ملکوں کی اقتصادی طاقت کو برقرار رکھنے کیلئے کیا منصوبہ بندی کی ہے تو پاکستان میں لاٹری کے ذریئے راتوں رات امیر ہونے والے شہری کی طرز زندگی کو دیکھ لیں۔۔۔لیکن ایک عجب معاملہ ہے، دنیا میں جہاں کہیں کسی مسلمان علاقے میں ظلم زیادتی شروع ہوجائے تو یہ عرب مسلمان ہی ہیں جو سب سے پہلے وہاں پہنچتے ہیں۔ افغانستان کا محاذ ہو یا بوسنیا کے مسلمانوں پر جبر کے دن، چیچنیا کے مسلمانوں کی زبوں حالی ہویا عراق میں امریکی فوجوں کی آمد۔ سب سے ہراول دستہ ان عرب مسلمانوں کا نظر آئے گا۔
یہ امریکہ کے افغانستان کے اوپر چڑھائی کے ابتدائی دن تھے۔ دبئی کے شیخ راشد المکتوم کی این جی او نے قندھار کے باہر پناہ گزینوں کیلئے بڑا اہتمام کر رکھا تھا۔ایک مکمل بستی بسا رکھی تھی۔ جو بھی نئے پناہ گزین آتے،ان کا اندراج کیا جاتا، ان کو خیمہ الاٹ کیا جاتا اور ایک ماہ کا راشن مفت فراہم کر دیا جاتا۔ سارا نظام ایک  شیخ عبدالرحمن کے ہاتھ میں تھا۔۔۔بلند قد، پوری داڑھی، لمبا سفید چغا۔ بڑا ہی نیک اور غمگسار قسم کا انسان تھا۔۔۔۔ مٹی میں لپڑے، گندے مندے بچوں کو گود میں اٹھا لیتا تھا ان کو پیار کرتا، ٹافیاں تقسیم کرتا، اپنے ہاتھ سے خیموں کی تنصیب کے کام میں ہاتھ بٹاتا۔۔۔۔کسی طرح ہمارے ساتھ شناسائی ہو گئی تو میں اپنی ڈسپنسری چھوڑ کر کچھ دن کیلئے اس کے کیمپ کے ساتھ منسلک ہوگیا۔۔ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں دونوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا۔دلچسپ انسان تھا، ہر وقت چہرے پر ایک مسکراہٹ آباد رہتی تھی۔ہر بات میں سے مزاح کا پہلو ڈھونڈ لیتا تھا۔ رمضان کے دن تھے اور روزانہ شیخ کے ہاں افطاری پر مہمان بنتے۔۔ایک دن میں نے بھی افطاری تیار کی تھی۔۔۔سموسے، پکوڑے۔۔(اور ہاں پکوڑوں کیلئے بیسن کیسے ڈھونڈا؟ یہ ایک الگ داستان ہے) فروٹ چاٹ، کٹلس، باداموں اور ملائی والی کجھوریں۔۔۔ شیخ کیلئے سب کچھ بالکل نیا تھا بہت تعریف کی۔۔۔ ایک دن اچانک شیخ دبئی کیلئے روانہ ہوگیا۔ میں نے اس کے سیکرٹری سے پوچھا کیا کوئٹہ سے دبئی کیلئے براہ راست فلائٹس جاتی ہیں؟ ۔۔۔ اس نے بتایا فلائٹس کا تو پتا نہیں شیخ عبدالرحمن کا تو اپنا جہاز ہے۔ ارب پتی انسان ہے۔۔۔ اور میں اس کی بات سن کر سناٹے میں آگیا۔۔ کیا سادہ مزاج اور درویش انسان تھا۔۔۔۔اور شیخ عبدالرحمن ایک عربی النسل تھا
میم ۔ سین

سٹیفن ہانکنگ کو جنم کیوں نہیں دیا جا سکا ؟؟

وائس آف امریکہ کی اردو کی سائٹ پر چھپنے والے مضمون لڑکیوں کو لفنگے کیوں پسند ہیں پڑھ کر حیرت ہوئی ہے کہ اتنا بڑا راز یوں آشکار ہوگیا کہ آنسٹائن سے لیکر نیوٹن تک سب لوگ اخلاق باختہ والدین کی اولاد تھے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ سائنس کی ترقی میں سارا کردار ہی ان اخلاق سے عاری لوگوں کا ہے۔ اور سائنس کا سبجکٹ سیکسوئل ڈرئیو کے ناف سے نکلتا ہے لیکن پھر بھی دنیا میں کوئی بھونچال نہیں آیا۔ ویسے کیدو ہیرو تھا؟ یہ مجھے اس مضمون کو پڑھنے کے بعد علم ہوا ہے۔۔۔۔۔ مضمون نگار کے انداز بیاں اور اپنے ذاتی تجربات کو اجتماعی سوچ بنا کر جس طرح پیش کیا ہے کم از کم میں اس کے انداز تحریر کا مداح ضرور ہوگیا ہوں۔۔۔لیکن کچھ نشنہ لب سوال ایسے ضرور ہیں کہ جن کا جواب جاننے کا خواہاں ہوں۔اگر مصنف کی جانب سے کوئی دینا چاہے تو جی آیاں نوں۔۔۔۔۔ان رومانوی داستانوں کے مصنف خواتین ہیں یا مرد۔۔۔۔ اگر سارے کے سارے یا ایک آدھ کو چھوڑ کر سارے مصنف مرد نکلیں تو اس جنسی حبس کے پیچھے مرد کی خواہشیں انگڑایاں لیتی نظر آئیں گی یا کسی عورت کی شہوانی سوچ کا بد مست گھوڑا؟ عورت کی جنسی خواہشوں کو بے لگام کرنے کے پیچھے کوئی عورت کا ذہن کارفرما ہوتا تو اس مضمون کی افادیت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا لیکن یہاں تو مرد کی روایتی فینٹسی کارفرما ہے۔ جس کے ذریئے اور وہ اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ انسانی سوچ اور رویوں کا انداز رشتوں کے ساتھ بدل جاتا ہے۔ جیسے مرد کا اپنی ماں اور بہن کے ساتھ رویہ وہ نہیں ہوگا جو بیوی یا کسی دوسری عورت کے بارے میں ہوگا۔ اسی طرح گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والے کو کسی افسانے میں ڈھالا جائے تو لڑکی کے والدین، رشتہ دار، محلے دار، لڑکے والے، شہر کے لوگ سب الگ الگ انداز سے اس کو بیان کریں گے۔ اگر عورت کی سیکسوئل ڈرائیو کا تعلق ان رومانوی داستانوں اور ہالی وڈ کی فلموں کے ساتھ جوڑا جائے تو پھر یوں لگے گا کہ عورت کو کسی بھی مرد سے دلچسپی نہیں وہ صرف دوسری عورت کے ساتھ اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔۔ جس کی ایک واضح مثال چند دن پہلے فرانس کے فلمی میلے میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والی فلم ہے۔ جو دو عورتوں کے درمیان محبت پر مبنی ہے۔ کیا فلمیں معاشرے کی عکاس نہیں ہوتیں ہیں؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔ اگر کسی کو فرائیڈ کے نظریات نے متاثر کیا ہے تو وہ ایک بار اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں ضرور پڑھ لے۔ ایک ذہنی مریض کے تجربات کو کہاں تک اپنی عملی زندگی میں استعمال کرسکتے ہیں؟؟؟ ویسے پاکستان میں سیکسوئل ڈرائیو کے پیچھے بھاگنے والی خواتین پاکستانی تاریخ میں کافی مقدار میں نظر آتی ہیں۔کئی ایک نے تو ملکی سیاست پر گہرے اثرات بھی چھوڑے ہیں اور آجکل بھی ایسی خواتین کافی مل جائیں گی۔۔۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی آئن سٹائن یا نیوٹن یا سٹیفن ہاکنگ کو جنم کیوں نہیں دیا جا سکا؟؟؟؟
میم سین