Sunday, July 21, 2013

مولبیوں کا پاکستان

کل شام افطار سے فارغ ہوا تو حامدبھائی کا فون آگیا جو پی ایچ ڈی کے سلسلے میں جرمنی میں مقیم ہیں۔ملنے کیلئے مشتاق تھے اور مجھے بھی ان کی اچانک آمد پر خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔تشریف لائے جلدی کے باوجود ادھر ادھر کی کافی باتیں کیں۔ایک بڑا دلچسپ واقعہ سنایا کہ وہ جس سال جرمنی گئے تھے تو ہوسٹل میں قیام کا فوری بندوبست نہ ہوسکا اس لئے ایک ضعیف جوڑے کے ہاں کرایہ پر سکونت اختیار کی۔جو کہ کٹر قسم کے عیسائی تھے۔ سارے گھر میں عیسیٰ اور مریم کی تصاویر تھیں۔دیواریں صلیبوں سے بھری پڑی تھیں۔۔گھر کا کچن ہمارے مشترکہ استعمال میں تھا۔ایک شام مجھے کسی چیز کی ضرورت پیش آئی تو کچن کا رخ کیا ،وہاں پر ہلکی لائٹ کا بلب جل رہا تھا اورکھسر پھسر کی آواز آرہی تھی۔میں اندر گیا تودیکھا دونوں میاں بیوی کھانا کھانے میں مشغول تھے ۔ میں نے آدھی رات کو اس تکلف کی وجہ پوچھی تو ان کے جواب نے مجھے حیرت زدہ کر دیا کہ ہمارے روزوں کا مہینہ چل رہا ہے۔اور اس خیال سے کہ سارا دن تھکے ہارے آتے ہو کہیں ہماری وجہ سے تمہاریاآرام متاثر نہ ہوجائے اس لئے سارے کام اتنے خاموشی اور احتیاط سے کرتے تھے۔ حامد بھائی تو چلے گئے لیکن ان کا سنایا ہوا یہ واقعہ میرے ذہن سے اٹک کر رہ گیا ہے۔
آج سے چند سال پہلے تک جب رمضان کریم شروع ہوتا تھاتو اس کا مطلب ایک ماہ کیلئے زندگی کا سکون اور آرام غارت ہوجانا ہوتاتھا۔اسلام کے نام پر مولبیوں کے ہاتھوں نا صرف رمضان کا پورا مہینہ بلکہ پوری قوم کو یرغمال بنا لیا جاتا تھا۔مولوی ہوتے تو شائد کوئی شعور ہوتا، کوئی سوجھ بوجھ ہوتی۔لیکن یہ گنوار اور اجڈمولبی صرف اسلام کا نام استعمال کرنا جانتے تھے لیکن اس کی روح اور اس کے اصل سے قطعی بے خبر تھے۔ شہروں میں ان کے غضب کی شدت شائد اس قدر نہیں ہوتی تھی لیکن جو دھماکہ چوکڑی وہ دیہاتوں اور قصبوں میں مچاتے تھے اس سے کوئی بزرگ، بیمار یا طالب علم محفوظ نہیں رہتا تھا ۔ رات کے کسی پہر مساجد کے کے سپیکر آن ہوجاتے تھے اور اور پھر وہ اودھم مچایا جاتا تھا کہ خدا کی پناہ۔۔۔یہ مسجد ابوبکر ہے، رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی سپیکر کا کنٹرول بچوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور پھر جب تک سحری کا وقت ختم نہیں ہوجاتا سپیکر بند نہیں کئے جاتے۔یہ مسجد معاویہ ہے۔ ان کے قاری صاحب کو گمان ہے کہ وہ بہت خوش الحان ہیں اور رات کو ایک بجے سپیکر کھول کر قرآن شریف کی تلاوت شروع کر دیتے ہیں۔جب تھک جاتے ہیں تو سپیکر بچوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ یہ مسجد عمر ہے ۔ مولبی صاحب کو نیند نہیں آرہی اور انہوں نے ایک بجے سپیکر آن کرنے کے بعد رمضان کی آمد کے بارے میں قصیدے پڑھنے شروع کر دیئے ہیں۔یہ مسجد عثمان ہے۔ رات دو بجے سے لیکر سحری کے پانچ بجنے تک مولبی صاحب پہلے اپنی کرخت آواز میں کوئی نعتیہ شعر پڑھتے ہیں اس کے بعد سارے محلے کو باخبر کرتے ہیں کہ سحری ختم ہونے میں کتنا وقت باقی رہ گیا ہے ۔اور یہ ہلہ گلہ صرف رمضان تک ہی محدود نہیں رہتا تھا بلکہ جمعرات کی شام اور جمعہ کے روز بھی اسلام کے نام پر پورے محلے اور گاؤں کو یرغمال بنا لیا جاتا تھا،ان مولبیوں کی ذہنی پسیماندگی کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بات ان کیلئے قابل فخر ہوتی تھی کہ سارے شہر میں سپیکرز کی سب سے اونچی آواز ان کی مسجد کی ہے۔ محلے میں کسی کی کیا مجال ہے وہ اس اودھم کے خلاف ایک لفظ بھی بول جائے۔بھلا اعتراض کرکے دائرہ اسلام سے رخصتی کا سامان کرنا ہے۔دن کو چندے کے نام پر سپیکر کھلے ہیں تو راتوں کو سیرت کانفرنس کے نام پر سارے محلے کا سکون غارت کیا جا رہا ہے۔اور پھر بھی اس کو اسلام سمجھنا یہ صرف مولبیوں کی ہی سوچ ہوسکتی تھی ۔لیکن سنا ہے فرعون نے بھی اپنے جرم و جبر کے دنوں میں موسیٰ کو پال کر ایک نیکی کی تھی کچھ ایسی ہی نیکی مشرف نے اپنے دور میں ان مولبیوں کو لگام دے کر کی تھی۔
میم۔ سین

Thursday, July 18, 2013

میرانقطہ نظر


چلیں ، سوچنے سے پہلے ایک بار اپنی سوچ کا زاویہ بدل کر دیکھیں۔ ملالہ کے اس واقعے کو مذہبی رنگ سے دور رکھیں۔اس کی عمر اور جنس کی بنیاد پر بھی تشخیص نہ کیجئے۔ موجودہ قبائلی چپقلش کا بھی سہارا نہ لیں اور اس واقعے کو ایک نیوٹرل آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کریں۔چلیں نیوٹرل نہ سہی ایک پاکستانی کی نظر سے ہی دیکھ لیں۔کیا آپ کو ملالہ، خواتین کی تعلیم کیلئے ایک شمع کی مانند دکھائی دیتی ہے ؟ کیا وہ پاکستان میں خواتین کی تعلیم کیلئے ایک سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے؟ ملالہ ایک علامت ہے ، جہالت کے اندھیروں میں روشنی کی، شعور کی، بیداری کی؟؟؟ ملالہ نام ہے اس نور کا ،جس کی روشنی سے دھرتی کے سب اندھیرے شق ہوگئے ہیں۔ملالہ علامت ہے اس جدوجہد کا، جو پانی کی موجیں سنگلاخ چٹانوں پر آزماتی ہوئی اپنے لئے رستہ تلاش کرتی ہے،شائد میں یہ سوچ سکتا اور شائد یہ بات صحیح ہو تی ۔۔ اس کو درست سمجھا جا سکتا تھا اگر ملالہ علامت ہوتی محض قبائلی علاقوں کی۔ملالہ نمائندگی کر رہی ہوتی صرف طالبان کے زیراثر حلقوں کی۔ ملالہ نام  نہ ہوتا اس علامت کا ،جو ترجمانی کر رہی ہے پانچ صوبوں کی،ساڑھے نو کروڑ عورتوں کی ۔ ملالہ نمائندہ ہے پورے پاکستان کی، اس کی شہریت پاکستانی ہے اور ایک پاکستانی ہونے کے ناطے وہ بحیثیت قوم ہماری جہالت، ظلم، زیادتی، بربریت کی آواز زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ ملالہ روشنی کی ایک کرن سے زیادہ ہماری محرومیوں کی ترجمان زیادہ ہے۔ وہ علامت ہے ہماری بے روح جسموں کی،ہماری کوتاہیوں اور کمزوریوں کی، وہ نمائندگی کرتی ہے ہماری خود داری اور غیرت پر لگے دھبوں کی، جہالت اور نادانی کی کی۔۔ چند لمحوں کیلئے ملالہ کو بھول جایئے، جا کر لاطینی امریکہ کے کسی دور دراز ملک کی گیبریلا کو ذہن میں لائیں۔جو وہاں کی سماج کے خلاف لڑتے ہوئے ان کی نمائندہ بن جاتی ہے ۔ اور ملالہ کے واقعہ کو ذہن میں لائیں اور اب اس ملک کا جونقشہ اور تصویر آپ کے ذہن میں بنے گی اس کا ذ را تصور اپنے ذہن میں لائیں۔نگاہوں کے سامنے وہ خاکہ ذرا لے کر آئیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی عالمی سطح پر شناخت ہمیشہ تیزاب سے متاثرہ خواتین کی کہانیوں، زیادتی کا شکار عورتوں، اقلیتوں کے ساتھ غیر مساوی سلوک، پنچایئت کے غیر انسانی فیصلے، وٹہ سٹہ اور کم عمر کی شادیاں ہی بنتی ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی نمائندگی ہمیشہ مختاراں مائی، رمشا مسیح ، آسیہ بی بی یا یا فاخرہ جیسی خواتین سے ہی کروائی جاتی ہے؟ کیا عارفہ کریم اس بات کی مستحق نہیں سمجھی جا سکتی کہ اس کی زندگی پر فلم بنائی جائے۔جس نے پاکستان کی عورت کی قابلیت کا لوہا ساری دنیا سے منوایا۔ کیا مظفر آباد کے نواح کی زینب کو اس بات کا مستحق نہیں سمجھا گیاکہ اس کی زندگی پر امید اور حوصلے کے نام پر کوئی این جی او قائم کی جاتی جس نے زلزلے سے تباہ حال سکول میں تختہ سیاہ رکھ کر بچوں کی تعلیم شروع کر دی تھی۔ مستحق تو علی نوازش بھی تھا کہ وہ ملک کی نمائندگی عالمی فورمز پر کرتا، حق تو حکیم محمد سعید کا بھی بنتا ہے کہ اس کے تعلیمی خدمات پر کوئی فلم بنتی اور وہ کسی عالمی آوارڈکی مستحق قرار پاتی۔ چلو اس شخص کو ہی کسی فورم پر بلا کر اس کے تجربات سے فائدہ اٹھا لیا جاتا جو پنڈی کے گردوجوارمیں پچھلی کئی دھائیوں سے جھگیوں اور محنت کش بچوں کو تعلیم کے زیور سے آرستہ کر رہا ہے۔سچ بات ہے عالمی میڈیا کو پاکستان کی نمائندہ کوئی خواتین چاہیئے تھیں تو وہ ان تین بہنوں کو ہی لیکر کوئی ڈا کومنٹری بنا لیتا ، جنہوں نے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے ہوئے ایک ساتھ سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تھا۔حق تو یہ بنتا تھا کہ گوجرانوالا کی شازیہ کیلئے قومی پرچم سرنگوں ہوجاتا اور بی بی سی کی ہیڈ نیوز میں اس کی عظیم قربانی کا ذکر ہوتا۔ مستحق تو عبدلستار ایدھی بھی ہے کہ اس کی زندگی پر پر کوئی ڈاکومنٹری بنتی اور کینز کے میلے میں پیش کی جاتی، اور نوبل انعام نہ سہی اس کی نامزدگی کر کے ہی پاکستان کا نام بلند کر دیا جاتا۔لیکن نہیں ایسے کسی بھی کردار کو جو ہمارے روشن ذہنوں اور ایک مہذب معاشرے کی نمائندگی کرے اسے کبھی بھی عالمی سطح پر نمائندگی نہیں دی جاتی، کوئی بھی ہستی اس معیار پر پورا نہیں اترتی جو ایک حقیقی معنوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتی ہو۔ پاکستان کی نمائندگی کا مغرب کا معیار کچھ اور ہے۔ یہاں سے نمائندگی کا حق صرف وہ رکھتا ہے جو پاکستانی عوام کی ظلم وجبر کی داستان ہو، جو یہاں کے رہنے والوں کی فسطائیت کی زندہ مثال ہو، جہاں سے مذہبی تعصب کی بو آتی ہو۔جہاں سے فرقہ واریت کا زہر پھیلتا ہو۔ جس سے جنسی تفریق کا پہلو نمایاں ہوتا ہو۔ جہاں سے ہمارے معاشرے کے تاریک پہلوؤں کو اجاگر کیا جا سکے۔ جہاں سے ہماری وحشت اور بربریت کی داستانیں سنا کر خوف وہراس کی فضا ئیں قائم کی جاسکے۔
آخر کب تک کامیابی کا معیارمغرب کا اقرار سمجھا جاتا رہے گا؟؟؟
میم سین

Thursday, July 4, 2013

مصر کا نوحہ


جب میں بہت چھوٹا تھا تو ماسی رحمتے کا وجود میرے لئے ہمیشہ رحمت بن کر سایہ کرتا رہا۔ مجھے جب کبھی گھر سے مار پڑتی،گھر میں کسی سے ڈانٹ ملتی یا جب کبھی احساس محرومی کا زہر رگوں میں اترتا تو بھاگ کر ماسی کی جائے پناہ میں چلا جاتا۔ ان کی آغوش میں میں اپنے آنسو پونچھتا ۔جب حبس زدہ ماحول میں میرا دم گھٹنے لگتا تو میں بھاگ کر ماسی کے آنگن میں اتر جاتا جہاں ماسی کی باتوں کے تروتازہ جھونکے میری روح میں ایک تازگی پھونک دیتے تھے۔ میرا  اور ماسی کا کیا تعلق تھا؟۔ کونسا سا رشتہ تھا؟ یہ مجھے اس دن معلوم ہوا جب وہ سفید کپڑے میں لپٹی چارپائی میں لیٹی ہوئی تھی اور سارا محلہ ان کے گرد جمع تھا۔ ماسی کے مرنے کے بعد وہ پہلی رات تھی جب ساری رات میرے کمرے میں سسکیوں کی آواز گونجتی رہی تھی اور میں ساری رات خوفزدہ رضاعی میں چھپا رہا تھا۔کیونکہ یہ زندگی کا پہلا کرب تھا جو میں نے محسوس کیا تھا۔کئی دنوں تک یہ سسکیاں رات کو میرا پیچھا کرتی رہی تھیں۔ ان کے جانے کے بعد کئی دن تک دنیا پھیکی محسوس ہوتی رہی تھی۔ ایک بے معنی زندگی، جس میں نہ اداسی تھی نہ کوئی دکھ۔ بس ایک ایسا احساس جدائی تھا جس کا کوئی نام نہیں تھا۔زندگی کے اصول اور ضابطے بدل گئے تھے۔ ایک تنہائی تھی، ایک وحشت تھی۔اور پھر ان سسکیوں نے میرے کمرے میں ہمیشہ کیلیے ڈیرے ڈال لئے۔ مجھے لگتا تھا محرومیوں کا شکار کوئی انسان یا کوئی تاب ناک خواب حقیقت سے پہلے جب میرے ارد گرد دم توڑتا ہے تو تو میرا شعور جذبات کی تاب نہیں لا سکتا اور وہ کسی کتھارسس کیلئے میرے ارد گرد ایک ہالہ جما لیتا ہے ۔ جس کی روشنی میں وہ کوئی راستہ ڈھونڈنا چاہتا ہے، کوئی حل تلاش کرنا چاہتا ہے۔ لیکن میرے کمرے میں سسکیاں اس دن نہیں اٹھی تھیں جس دن ٹوکیو کے سٹیشن پر زہریلی گیس سے کچھ لوگ حملہ آور ہوئے تھے۔ یہ اس دن بھی بلند نہیں ہوئی تھیں جس دن ڈیوڈ کوریش نے خود کو اپنے سینکڑوں ساتھیوں سمیت ہلاک کر لیا تھا، اور وہ رات بھی خموشی سے گزر گئی تھی جب کم سنگ کی موت پر ساری شمالی کوریا کی عوام روتی رہی تھی۔ وہ رات بھی چپ چاپ ہی گزر گئی تھی جس دن ہیوگو شاویز کیلئے دن بھر آہیں بلند ہوتی رہی تھیں ۔ ان آہوں اور سسکیوں نے  تو برازیل کے لاکھوں لوگوں کے احتجاج کو بھی محسوس نہیں ہونے دیا تھا۔۔ لیکن اس دن ، میں رات بھر نہیں سو سکا تھا جب خلیج کی پہلی جنگ کی خبر ملی تھی۔ میری روح کس قدر مضطرب رہتی تھی جب روس کی واپسی کے بعد خانہ جنگی کی خبریں اخباروں کی زینت بنتی تھیں۔۔ میں اپنے کمرے کی وں کو کیسے بھول سکتا ہوں جس دن روسی فوجیں گروزنی میں داخل ہوئی تھیں۔ہاں اس دن میرا کمرہ ضرور چیخوں سے بھر گیا تھا جس دن طالبا ن نے کابل کا کنٹرول چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ سسکیاں اس دن بھی میرا پیچھا کرتی رہی تھیں جس دن امریکی فوجییوں نے بغداد کو اپنے بوٹوں سے روندا تھا ۔ میری راتوں کی نیند تو شامل اور زرقاوی کی موت نے بھی برباد کی تھی۔میری روح تو ان ہچکیوں میں کئی روز تک کرب کا شکار رہی تھی ۔جس دن اسامہ بن لادن کی پراسرار موت کی خبر نشر ہوئی تھی۔میں ان سسکیوں کے خوف سے فلسطین اور کشمیر سے آنے والی خبروں سے دور رہنے کی کوشش کرتا رہاہوں۔  میں ہر اس پیج کو بلاک کرتا چلا آیا ہوں جہاں شام کے قتل و غارت کی خبروں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ میں نے برما میں کٹتے مسمانوں کی خبروں کو بھی شوشل میڈیا کا پراپیگنڈہ قرار دے کر اپنے کمرے کے سکون کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ جب اخباروں میں ڈرون حملوں کی خبریں چھپنا شروع ہوئیں تو اخبار خریدنا بند کر دیا تھا۔ جس رات میرا کمرہ آہوں اور سسکیوں سے بھر جائے تو میری روح ایک بوجھ تلے دب جاتی ہے۔ ساری دنیا غمگین اور اداس ہوجاتی ہے۔میں خود کو ایک سسکتا ہوا انسان محسوس کرتا ہوں ۔ آگ کے بگولوں میں لپٹا ایک مسافر۔خلش بڑھ جاتی ہے ۔دل کو کوئی انجانا سا احساس مسلنے لگتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ تو تب ہوتا ہے جب مجھ سے کوئی پیارا چھن جاتا ہے۔ جب کوئی سر بازار میرے خوابوں کو لوٹ لیتا ہے۔جب میرے ارمانوں اور آرزوؤں کا سورج غروب ہوجاتا ہے۔لیکن یہ کیسی تلخ خبر تھی ؟جو قاہرہ کی فضاؤں سے بلند ہوئی ہے اور میرے لئے آہوں اور سسکیوں کی ایک خلش لے آئی ہے۔ بھلا میرا اور مصر کا کیا رشتہ تھا کہ میں ایک خبر سن کر ٹوٹ کر رہ گیا ہوں۔ بھیانک رات کی تاریکی اور خاموشی میں کل میرا کمرہ سسکیوں سے اتنا گونجتا رہا ہے کہ میری روح شدت جذبات سے کانپتی رہی ہے۔ ساری رات میرا دماغ غم والم سے پگھلتا رہا ہے۔ بول اے سر زمین مصر میرا اور تیرا کیا رشتہ ہے؟ کہ تیری فضاؤں سے اٹھنے والی ایک خبر نے میری زندگی اس قدر بے معنی اور پھیکی بنا ڈالی ہے۔ بول اے اہرام مصر کی سر زمین تیرا اور میرا کیا تعلق ہے ؟ تیری ہواؤں نے میرے خوابوں کو اس قدر وحشت ناک کر دیا کہ کہ میں سونے سے ڈر رہا ہوں ۔مجھے یوں لگ رہا ہے کوئی بہت زور سے طوفان آیا ہواہے۔ہوا کے تیز تھپڑوں نے بڑے بڑے پتھروں کو لڑکھڑا کر میرے اوپر پھینک دیا ہے۔میں کسی تاریک غار میں بند ہو گیا ہوں ۔ اور بہت تیز بارش اور تیز آند ھی کی آواز میرے کانوں سے ٹکڑا رہی ہے ۔میں ڈر رہا ہوں کہ کچھ ہی لمحوں بعد پہاڑوں سے بہتا ہوا یہ پانی مجھے بھی اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گا۔
میم ۔سین

Tuesday, July 2, 2013

آنکھ سے آنکھ تک

فیس بک سے دوری کی ایک وجہ تو شائد وہ فرسٹیشن تھی جو ایک حقیقی اور تصوراتی دنیا کے اختلاط سے پیدا ہوتی ہے۔ یا شائد یہ ثابت کرنا بھی مقصود تھا کہ فیس بک کا نشہ چھوڑنا میرے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔یا پھر شائد میرے اوپر وہ وہم طاری ہوگیا تھا کہ میں اتنا عظیم انسان نہیں ہوں جتنا میں حقیقت میں ہوں۔ اگرچہ یہ بات پہلے بھی کئی بار ثابت کر چکا ہوں لیکں یار لوگ اس بات پر اعتبار نہیں کر رہے تھے۔ اعتبار تو شائد وہ اب بھی نہ کریں لیکن ساری دنیا کو راضی کرنا میری زندگی کے مقصد میں شامل نہیں ہے اور نہ ایسا کوئی ارادہ ہے۔۔شائد میں اپنے آپ سے کئے گئے ایک ماہ کی فیس بک سے دوری کے عہد پر قائم رہتا اگر ایک عظیم مقصد کی طرف میرا دھیان نہ چلا گیا ہوتا۔ وہ مقصد تھا طاہر شاہ کیلئے نشان امتیاز کا حصول۔زندگی کے جس حصے میں آکر موصوف نے جو کچھ لکھا ہے اوہ اس لئے بھی قابل قبول ہونا چاہیئے کہ کہ زندگی میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جب زندگی میں خوشی اور غم کے معیار تبدیل ہو جا تے ہیں ۔ وہ ہنس رہا ہوتو لوگ سمجھتے ہیں کہ رو رہا ہے اور رو رہا ہو تو خواہ مخواہ اس کے ساتھ مل کر جگتیں لگانا شروع کر دیتے ہیں۔۔پچیس سال کی ریاضت کے بعد اس عظیم شخص نے جو کچھ تخلیق کیا ہے، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پاکستانی قوم سب کچھ بھول کر اس کو اپنی آنکھوں میں بٹھا لیتی لیکن جن آنکھوں میں بھی وہ سمایا ہے آشوب چشم کی شکائیت ہی لے کر آیا ہے۔جب سے یہ گانا منظر عام پر آیا ہے۔ میرا جوڑوں کا درد ٹھیک ہوگیا ہے،میرے ہمسائے میاں باقر صاحب کا دائمی تبخیر معدہ کا مسئلہ بھی کسی حد تک رفع ہوگیا ہے۔ میرے ایک دوست نے تو باقائدہ ایک کلینک کھول کر اس گانے کے ذریئے علاج شروع کررکھا ہے کہ دو سیکنڈ سے روزانہ سے شروع کر کے بتدریج اس کا دورانیہ بڑھا کر بہت سے ناقابل علاج امراض کا علاج ڈھو نڈ نکالا ہے۔۔اس گانے کی کی افادیت کو نہ صرف عالمی سطح پر سراہا گیا ہے بلکہ عالمی میڈیا نے اس کا برملا اعتراف کرتے ہوئے اس کے تخلیق کار کو وکی لیکس کے بانی جولین سانچے کے ہم پلہ قرار دیا ہے۔ بین الاقوامی اداروں میں جس طرح اس گانے کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند ہو جانا چاہیئے۔لیکن صورت حال اس کے بالکل بر عکس ہے۔ میں پوچھتا ہوں ملالہ کیلئے رونے والے آج کدھر ہیں ؟ آئی ٹی میں سرٹیفیکیٹس حاصل کرنے والوں کو آسمان پر چڑھانے والے خاموش کیوں ہیں ؟۔ کرکٹ کے ہیروز کو آنکھوں پر بٹھانے والوں کی زبانیں آج چپ کیوں ہو گئی ہیں ؟ڈاکٹر قدیر خان اور ڈاکٹر عطاالرحمن کیلئے گن گانے والے آج کہاں سوئے ہوئے ہیں ؟ آخر یہ قوم طاہر شاہ کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے میں اتنا بخل سے کام کیوں لے رہی ہے ؟ وہ کون سی مصلحت ہے جس نے عظمت کے اس مینار کو ڈیوڈ کوپر فیلڈ کے ہاتھوں غائب کرا رکھا ہے؟ قوم کو یہ بات کیوں نہیں بتائی جا رہی کہ سکاٹ لینڈ یارڈ نے تفتیش کے دوران ملزمان کو جب صرف طاہر شاہ کی صرف آ ڈیو ہی سنائی تھی کہ انہوں نے نہ صرف عمران فاروق کے قتل میں معاونت کا اعتراف کر لیا بلکہ منی لانڈرنگ کے کھیل کے بارے میں بہت سی باتیں اگل دیں۔کراچی کی سنٹرل جیل میں قیدیوں کو بار بار وارننگ دی گئی کہ وہ غیر قانونی حرکتوں سے باز آجائیں لیکن کوئی کاروائی بھی موئثر ثابت نہیں ہو سکی۔ جب سپیکرز پر طاہر شاہ کی آواز کو بلند کیا گیا تو ایک گھنٹے کے اندر پستولوں ، نسوار، چرس، چاقوؤں اور دوسری غیر قانونی اشیا کا ڈھیر لگ گیا۔ایک دفاعی تجزیہ نگار کے مطابق پاکستانی فوج نے بھارت کی سرحد کے ساتھ جہاں جہاں بھارتی چوکیاں موجود ہیں وہاں پر بڑے سپیکر وں کی تنصیب کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔تا کہ کسی بھی بھارتی اشتعال کی صورت میں جوابی کاروائی کے طور پر آئی ٹو آئی بلند آواز سے چلایا جائے گا۔غیر ملکی سیاحوں کے قتل میں ملوث افراد کی تلاش میں ناکامی کے بعد جب پہاڑوں میں ہیلی کاپٹرز کے ذریئے اس گانے کو بار بار چلایا گیا تو دو افراد نے فوری طور پر ہتھیار ڈال دیئے۔ شنید ہے کہ باقی اس گانے کی تاب نہ لاتے ہوئے اس جہان فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ جس کے بعد حقوق انسانی کی تنظیموں نے ایک الگ بحث شروع کر دی ہے۔ خفیہ اداروں کی طرف سے طرف سے ملزموں سے اقرار جرم کرانے کیلئے اس گانے کا استعمال جہاں طاہر شاہ کی صلاحیتوں کا اعتراف ہے وہیں پر قوم کی بے حسی پر ایک زور دار طمانچہ بھی ہے جو اس گانے کو نہ صرف حرف تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے بلکہ تمسخر بھی اڑا رہی ہے۔ 

اور قوم کی اس بے حسی نے مجھے مجبور کر دیا کہ کہ میں اپنا خودساختہ بائیکاٹ ختم کر کے طاہر شاہ کی حمائیت میں نکل پڑوں۔ اور ان کے لئے سب سے بڑا شہری اعزاز دلانے کیلئے اپنی ساری توانیاں صرف کر دوں۔