Wednesday, September 25, 2013

الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا

جاوید ہاشمی نے توہین رسالت کے بارے میں انتہائی متنازعہ بیان دے دیا
سعودی شخص نے اپنی موت کی پشین گوئی کیسے کر دی؟شادی کی تقریب میں طوائفوں کا رقص
پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا جنسی سکینڈل کے بعد کرپشن کا سکینڈل منظر عام
فیس بک پر آپ بھی کسی وقت نشانہ بن سکتے ہیں، مگر کیسے؟
اداکارہ عینی کی پرائیویٹ تصاویر منظرعام پر آگئیں
فیشن شوز کی آڑ میں کیا ہورہا ہے؟
آفریدی کو عوام کا جھٹکا
غلط ویڈیو نے آگ لگا دی
بے حیائی پھیلانے پر نسٹ کی انتظامیہ کا قدم
فلاں صحافی کی فلاں نے بینڈ بجا دی
بے غیرت سیاستدانوں کی بے غیرتی کا ایک اور ثبوت
معاشرے کی حیوانیت کی ایک اور زندہ مثال
جب اینکر پرسن کو خادم اعلی کے گارڈ نے دھکے مارے
حکومت کا ایک اور مہنگائی بم گرانے کی تیاری

شتر بے مہارمیڈیا کے معاشرے پر مہلک اور مضر اثرات ڈالنے کے بعد شوشل میڈیا کی مقبولیت سے ایک امید قائم ہوگئی تھی کہ شوشل میڈیا غیر ملکی ثقافتی یلغار اور تمام اخلاقی حدوں کو عبور کرتا،شعائر اسلام اور ملکی اساس کو بالائے طاق رکھنے والے میڈیا کے اودھم کے سامنے ایک دیوار بن جائے گا۔غیرت اور حمیت کی کھڑی فصلوں کو روندنے والے میڈیا کو قوائد وضوابط سے آگاہ کرے گا۔دوسروں کی عفت اور تقدس کو پامال کرتے میڈیا کو اخلاقیات کے سبق سے آگاہ کرے گا۔اپنی انا کی تسکین اور آگے بڑھ جانے کی دوڑ میں معاشرے کی اقدار کو روندتے ،منفی رجحانات کو فروغ دیتے، اس میڈیا کے پھیلائے ہوئے زہر کا توڑ نکالے گا۔نفسیاتی الجھنوں کے بھنور میں پھنسے عوام کے دکھوں اور ذہنی ہیجان کا کوئی مداوا ہوگا۔حقیقت کی آبیاری کرتے کرتے قیاس، مبالغہ آرائی،الزام،سنسنی،جھوٹ، اور غیروں کی سازشوں کو بھی پال پوس کر جوان کرتے میڈیا کو اس کی اصل ذمہ داریوں سے آگاہ کرے گا۔لیکن ہوا کیا ہے؟ شوشل میڈیا بھی میڈیا کے نقش قدم پر چل پڑا ہے۔ ریٹنگ کی دور میں سنسنی پھیلاتے ہوئے سارے اصول اور ضابطے ختم ہوتے جارہیں۔کسی کی پگڑی اچھالنی ہو یا پھر کسی کی کردار کشی،کوئی بے یقینی کی فضا بنانی ہو یا پھر افوہیں پھیلانی ہوں، شوشل میڈیا پیش پیش ہے۔
وہی جھوٹ، وہی سنسنی، وہی مقبولیت حاصل کرنے کے منفی ہتھکنڈے۔کہاں کے اصول، کہاں کے ضابطے، کہاں کا یقین۔سب کچھ وہیں پر ہے 
وہی دھندلکے، وہی انتشار، وہی وہم، وہی دل آزاریاں، وہی تہمتیں، وہی نظام ۔
 اور ہم فقط تماشائی
میم سین

Saturday, September 21, 2013

محبت کا فلسفہ

اگر انسان بھینس کو بھی لگا تار دیکھتا رہے اور اس کے ساتھ رہنا شروع کر دے تو تو اس کے ساتھ محبت ہوجائے گی۔بابا شہزاد اویسی نے جب اپنا یہ نظریہ پیش کیا تو میری بے اختیار ہنسی نکل گئی۔اور پوچھا اس نئی تھیوری کہ وجہ پیدائش کیا ہے؟ شہزاد اویسی کو ایسے ہی فلسفیانہ نظریات پیش کرنے کی بدولت بابا کا لقب ملا تھا۔ ایک بار اس نے منافق سیاستدانوں کو پہچاننے کیلئے ایک طریقہ ایجاد کیا تھا کہ چہرے کو کاغذ سے اس طرح چھپا دو کہ صرف آنکھیں دکھائی دیں اور ان آنکھوں کو دیکھ کر آپ کے ذہن میں جو پہلا تاثر ابھرے وہی اصل شخصیت ہے۔
اپنے بابر بھائی کو تو جانتے ہو نا، وہی میرے بڑی بہن کے دیور جی، جو پی ایچ ڈی کرنے جرمنی گئے ہوئے تھے۔میں نے اثبات میں سر ہلایا۔شہزاد کے خاندان کے ساتھ میرا تعارف اس وقت ہوا تھا جب اس کی بہن کا بڑا بیٹا جو بیکن ہاؤس میں پڑھتا تھا، پاکستان سٹڈیز کے مضمون سے بڑا پریشان تھا۔تمام مضامین میں نمایاں نمبر لینے کے باوجود پاکستان سٹڈیز میں کافی مشکلات کا سامنا تھا۔ایک دن شہزاد نے میری جغرافیہ میں دلچسپی کو دیکھتے ہوئے درخواست کی کہ میرے بھانجے کوچند دن کیلئے پاکستان سٹڈیز پڑھا دیا کرو، ایک بار بنیاد بن جائے تو پیپر حل کرنا آسان ہوجائے گا۔اور یوں میرا ان کی بہن کے گھر آنا جانا شروع ہوا۔اپنے پہلے ہی ٹسٹ میں ریکارڈ نمبر لینے کے بعد بھانجا شریف اپنے ماموں پر دباؤ ڈال کرہر ٹسٹ سے پہلے مجھے ہوسٹل سے اٹھا کر اپنے گھر بلوا لیتا تھا۔اور انہی کے گھر بابر صاحب سے بھی ملاقات ہوئی تھی ۔جو چٹھیوں میں پاکستان آئے ہوئے تھے اور  شہزاد کی بہن ان کی شادی اپنی ایک سہیلی سے کروانے کی خواہش مند تھیں۔جو پلی بڑھی تو انگلینڈ میں تھیں لیکن صحت دیکھ کردھیان بنگال کےسیلاب زدہ علاقوں کے قحط زدہ مکینوں کے طرف نکل جاتا تھا۔جسم بہت پتلا تو نہیں تھا لیکن آپ اسے صحت مند بھی نہیں کہہ سکتے، رنگت کالی تو نہیں تھی لیکن ایسی بھی نہیں کہ ایک بار نگاہ ڈالنے کے بعد دوسری بار نگاہ ڈالنے کی خواہش دل میں اٹھے۔قد پست تو نہیں تھا لیکن ایسا بھی دراز قد نہیں کہ کیٹ واک کیلئے منتخب کر لیا جاتا۔اگر آپ کی قریب کی نظر درست نہیں ہے تو  آپ کو ان کی دونوں آنکھوں میں فرق کا  کبھی پتا نہیں چل سکتا تھا۔باتونی تو نہیں تھیں کیونکہ جب وہ سانس لینے کیلئے رکتی تھی تو آپ کو بات کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔فیشن کی ایسی دلدادہ تھی کہ  نظر اگرچہ  کمزور نہیں تھی لیکن پھر بھی موٹے فریم والے چشموں کے فیشن کو اپنانے کیلئے شائد اپنے دادا ابا کی عینک ہر وقت آنکھوں پر لگائے رکھتی تھی۔اگر میں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا نہ ہوتا تو شہزاد کی باتوں پر کبھی یقین نہ کرتا۔اس لئے شہزاد کو اس رشتے سے شدید اختلاف تھا کہاں میونخ یونیورسٹی کا اسسٹنٹ پروفیسر اور سات فٹ قد اور کشادہ چھاتی کے ساتھ پروقار چہرہ۔ آنکھوں سے متانت اور ذہانت دونوں ٹپکتی تھیں۔گفتگو کے آداب کوئی ان سے سیکھے ۔اور کہاں ایسی ہونق اور بے ہنگم لڑکی جس میں ایک امیر گھرانے اور انگلینڈ کی نیشنیلٹی کے علاوہ کوئی خوبی نہ تھی۔ اور موصوف نے اگرچہ لڑکی دیکھی نہیں ہوئی تھی لیکن پھر بھی شادی کے نام سے ایسے بدک جاتے تھے کہ جیسے کالاباغ ڈیم کے نام پر ہمارے سیاستدان۔بابر صاحب دنیا کے ہر موضوع پر گفتگو کرنے پر تیار ہوتے تھے ۔سرد جنگ کے خاتمے کی وجوہات سے لیکر چین کی اقتصادی طاقت بننے تک، اقوام متحدہ کے کردار سے لیکر افریقہ کے ممالک کی پسیماندگی کی وجوہات تک، ترقی یافتہ ممالک کے اخلاقی انہدام کے جواز سے لیکر مذہب بیز ار طبقے کے بڑھتے ہوئے اثرات تک۔وہ کونسا موضوع تھا جس پر انہیں دسترس حاصل نہیں تھی لیکن جب بھی شادی کا ذکر ہوتا تو اپنا رویہ درشت کر لیتے یا پھر بات کو گھما کر ادھر ادھر لے جاتے اور کسی کو جرات ہی نہ ہوتی کہ وہ ان سے اس موضوع پر بات کرسکتا۔۔بھانجے شریف نے او لیول عبور کر لیا اور یوں میرا ان کی فیملی سے تعلق ختم ہوگیا۔ابھی کئی سالوں بعد جب شہزاد اویسی نے بابر صاحب کی اسی برٹش نیشنل لڑکی سے شادی کا انکشاف کیا تومجھے بہت حیرت ہوئی اور بابر صاحب کی شادی کیلئے رضامندی کی وجوہات اور واقعات پر روشنی ڈالنے کو کہا تو، شہزاد اویسی عرف بابا نے اپنے مخصوص سٹائل میں قصہ شروع کیا کہ کیسے اس کی باجی نے اپنی سہیلی کو لندن پلٹ قرار دے کر موصوف کو یہ کہہ کر ان کی مہمان نوازی پر لگا دیاکہ جب سے انگلینڈ سے آئی ہے ابھی تک اس نے لاہور نہیں دیکھا۔صبح سویرے دونوں شہر کی سیر کیلئے نکل جاتے اور شاہی قلعہ، شالیمار باغ، بادشاہی مسجد، ہرن مینا، انارکلی،کی سیر کرتے ہوئے، سردار کی مچھلی، خان باباکی کڑاہی، بھیا کے کباب کھاتے کھاتے دونوں نے زندگی اکٹھے گزارنے کا فیصلہ کرلیا ۔ جو فیصلہ ان کے گھر والے بابر صاحب سے کروا نہ سکے تھے ، وہ چند دن کی رفاقت نے کروا دیا۔شہزاد نے ایک آہ بھری اور بولا میرا آج سے محبت سے اعتماد اٹھ گیا ہے ۔یہ پیار اور محبت انسان کا سب سے بڑا دھوکہ ہیں اگر انسان بھینس کو بھی مسلسل گھورتا رہے اور اس کی قریبی صحبت میں کچھ عرصہ گزارے تو کچھ عرصے بعد وہ اس کی محبت میں بھی گرفتار ہوجائے گا۔
میم سین

خود کلامی


چند دن پہلے فیس بک پر ایک کارٹون دیکھا جس میں ایک تابوت رکھا ہوا تھا اور اور مرحوم کی اہلیہ سیاہ ماتمی لباس میں ملبوس اپنی سہیلی سے شکوہ کر رہی ہوتی ہے کہ دو ہزار سے زائد فیس بک پر فرینڈ تھے لیکن جنازے پر ایک بھی نہیں آیا۔
جب میں اپنے اوپر نظر دوڑاتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ میرا تعلق بھی حقیقی زندگی سے کم ہوتا جارہا اور فیس بک کے دوستوں کے ساتھ وقت زیادہ گزرتا ہے۔ اور اگر یہی صورتحال جاری رہی تو ایک وقت آئے گا جب میرے تمام دوست احباب فیس بک سے ہونگے۔ تو کیا میرے مرنے کے بعد کوئی میرے جنازے میں شرکت کیلئے پہنچ سکے گا؟ یا پھر فیس بک پر ہی غائبانہ نمازہ جنازہ کا اہتمام کر دیا جائے گا؟
میم۔سین

Sunday, September 15, 2013

کچھ تجاویز

معیارتعلیم کی زبوں حالی اورانحطاط پذیری ہمارے ملک میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے، نت نئے سیارے دریافت کر رہی ہے اور ہم ابھی تک اسی فرسودہ وطبقاتی نظام تعلیم کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں
۔۔۔۔۔۔ دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
پاکستان کے فرسودہ ں ظام تعلیم کی مثال، میں اور کیا دوں کہ ابھی تک کورس میں بچوں سے خطوط لکھوائے جاتے ہیں۔وہ خطوط جو ان بچوں نے زندگی میں کبھی لکھنا تو دور کی بات، کبھی لکھا ہوا خط دیکھا بھی نہیں ہوگا۔ابا سے گھر سے نئی کتابوں اور فیس کے پیسے منگوانے کیلئے خط، چٹھیاں گزرارنے کیلئے دوست کو خط، چھوٹی بہن کو سالگرہ پر مبارکباد کاخط۔،بڑے بھائی کو میچ جیتنے پر مبارکباد کا خط۔۔ ابھی تک سلیبس میں میسج کرنے کے آداب نہیں سکھائے گئے۔لیٹ آور پیکجز کے حصول کیلئے بھی کوئی معلومات فراہم نہیں کی جارہی ہیں۔۔فیس بک پر سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے اور پوسٹوں پر کمنٹس ڈالنے کے صحیح طریقوں سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ماں اور بڑی بہن سے بیلنس کے پیسے حاصل کرنے اور نئی دوستیوں کے آغاز کے آداب کے بارے میں بھی کچھ نہیں بتایا جا رہا۔اور اگر دوستی جنس مخالف سے ہو، تو کون سی ضروری باتوں کا خیال رکھا جانا چاہیئے۔سکائپ اور دوسرے میسنجرز کے ذریئے گفتگو کرنے کیلئے کونسے سلیقے درکار ہیں۔چیٹنگ اور ای میل کے ذریئے پیغامات میں اپنی شخصیت کے کمزور پہلؤں کو کیسے چھپا کر ایک آئیڈیل انسان کا روپ دینا ہوتا ہے۔اس پر بھی ایک مضمون ہونا چاہیئے۔امید ہے حکومت ان تجاویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے فوری طور پر تعلیمی کورس کو نئے تقاضوں کے ہم آہنگ کرے گی۔
میم۔سین

Thursday, September 12, 2013

پاکستان کا قیام ناگزیر کیوں تھا؟

ہر عہد کا ایک شعور ہوتا ہے ۔جس کے ذریئے اس دور کے اہم فیصلے کیئے جاتے ہیں۔وہ شعور اس عہد کی ضروریات اور تقاضوں کو بہتر انداز میں جانتا ہے۔اب اگر دوسری صدی میں بیٹھ کر ہم پہلی صدی کے فیصلوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو ہمیں اسی صدی کے شعور کو سمجھنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ ہمارا آج کا اجتماعی شعور بھی اس صدی کے فیصلوں کی نزاکت اور ضروریات کو نہیں سمجھ سکتا،جس کے تحت وہ فیصلے کئے گئے تھے.امریکہ کی جنگ آزادی سے لیکر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے فیصلے ہوں یا پھر صلیبی جنگیں۔امن کے معاہدے ہوں یا پھر مملکتوں کا قیام۔نقل  مکانیاں ہوں یا پھر معاہدوں کا ظہور۔ کچھ ایسا ہی معاملہ آج کل تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے حوالے سے درپیش ہے۔جس میں پاکستان کے قیام کو ایک غلطی سے تشبیہ دیا جارہا ہے۔پاکستان کے موجودہ حالات کو اس کے قیام کی غلطی قرار دیا جارہا ہے۔
چلیں ہم محمد علی جناح کی شخصیت کو بھی بھول جاتے ہیں۔اور مسلمانوں کیلئے کسی ایسی تحریک کی ضرورت کو بھی بحث کا حصہ نہیں بناتے جس کا مقصد ایک الگ وطن کا قیام ہو۔برصغیر کے اوپر مسلمانوں کے کم وبیش پانچ سو سال سے زائد حکومت کے بعد جب  انگریزوں نے برصغیر کی باگ دوڑ سنبھالی تو ہندستان کی بڑی قوم ہندو جو ایک عرصے سے محکوم چلی آرہی تھی،اپنی اس خلش کو مٹانے کیلئے فوراً انگریزوں کی گود میں بیٹھ گئی اور ان کے ساتھ بھرپور تعاو ن شروع کردیا ۔اور اپنی صدیوں کی محرومیوں کے ازالے کیلئے مسلمانوں سے بدلہ چکانے کی جدوجہد کا آغاز شروع کردیا۔انیس سو ستاون کی جنگ آزادی کا سہرا مسلمانوں اور ہندؤں دونوں کے سر تھا لیکن شکست کے بعد سارا ملبہ مسلمانوں پر تھونپ دینے کے بعد انگریزوں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہوئے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی شمولیت کو یقینی بنایا اور یوں انتظامی لحاظ سے ہندو انگریزوں کے دست راست بن گئے.
 ۔1880 کے ایک سروے کے مطابق ہائی سکولوں میں ہندؤں کی تعداد 36686 اور مسلمان صرف 363 تھے۔۔اور تھوڑی سی قوت میں آتے ہی انہوں نے صدیوں پرانا بدلہ لینا شروع کر دیا۔ کیا ہم شدھی شنگھٹن تحریک کو بھول جائیں؟ کیا اردو رسم الخط کے خلاف ہندؤں کی مہم کو فراموش کر دیں؟ کیا تقسیم بنگال کی مخالفت کے منافقانہ طرز عمل کو بھی بھلا دیں؟ بندے ماترم کو سکولوں میں رائج کرنے کو بھی اخلاص کا درجہ دے ڈالیں؟ ہندؤں کے اس نسلی تعصب کو سرسید جیسا آزاد ذہن  بھی محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکا اور سر سید احمد خان نے حقائق کا جائزہ لیتے ہوئے بنارس کے شہر میں واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ اگر ہندوؤں کی تنگ نظری اور تعصب کا یہی عالم رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہندوستان ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا میں تقسیم ہو جائے گا۔
چلو یہ سب غلط فہمی کا نتیجہ تھا، چلو یہ بھی مان لیا کہ یہ سب مسلمانوں کے گمان اور وہم تھے ۔ حقیقیت وہ نہیں جو دکھائی جا رہی ہے۔ ایک نظر انیس سو سینتیس کے انتخابات کے بعد بننے والی کانگریس کی حکومت اور اس کے مسلم کش اقدامات پر ڈال لیتے ہیں۔ گرام سدھار سکیم کو نظرانداز کر دیں؟جس کامقصد مسلمان زمینداروں سے زمینیں ہتھیانا تھا۔ کیا گائے کے ذبح پر پابندی کا قانون صرف ہندووں کیلئے تھا؟ ہندو مسلم فسادات میں کس کا خون بہتا رہا؟ ہزاروں مسلمان موت کی گھاٹ اتار دیئے گئے اور نوکھالی میں چند ہندو مر گئے تو گاندھی جی نے کیا کہہ کر ہندوؤں کو بھڑکایا تھا ؟؟ ذرا سنئے تو ۔مسلمان یا تو عرب حملہ آوروں کی اولاد ہیں یا ہم ہی میں سے تبدیل ہوئے لوگ ہیں ان کی درستی کا ایک ہی علاج ہے یا تو انہیں ان کے آبائی وطن عربستان واپس بھیج دیا جائے یا انہیں شدھی شنگھٹن کے ذریعے واپس ہندو دھرم میں لایا جائے یہ بھی نہ ہو سکے تو انہیں غلام بنا کر رکھا جائے۔ میں تو پلا بڑھا ہی ہندوؤں میں ہوں۔ بنگال کے قحط کے دوران کیئے گئے ہندوانتظامیہ  کے سلوک کو کیسے بھول جائیں؟؟ ہندستان چھوڑ دو کی تحریک کے دوران بھی ہندو لیڈروں کے انگریز سرکار کے ساتھ براہ راست روابط تاریخ کا حصہ ہیں۔
 اور بھئی بھول بھی گئے ریلوے سٹیشنوں اور بسوں کے اڈوں پر بکتا ہندو پانی، مسلم پانی؟؟ اور وہ دن بھی بھول گئے جب ہندوؤں کی دکانوں پر سوڈے کی بوتل مسلمان کے گلاس میں ڈیڑھ دو فٹ کے فاصلے سے انڈیلی جاتی تھی اور پینے کے بعد مسلمان اپنے ہاتھ سے گلاس دھو کر واپس اپنی جگہ پر رکھتا تھا۔اور جس قصبے میں مسلم کشی کی ضرورت ہوتی تھی وہاں پر صرف گاؤ ماتا کی قربانی کی افواہ ہی کافی سمجھی جاتی تھی۔۔کیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کے وجود کو قبول ہی نہیں کیا تھا۔اور انگریز کے زیرسایہ ساری کلیدی پوسٹوں پر پراجمان ہوچکا تھا ۔
 اگر ہندستان سے انگریز رخصت ہوجاتا تو کیا صورتحال ہوتی؟؟ کیا کسی کے پاس اس سوال کیا جواب ہے کہ کیا مسلمانوں کیلئے ایک الگ ملک کے مطالبے کے علاوہ کوئی حل بھی تھا؟؟ اس وقت پاکستان کے قیام کا مطالبہ نہ کیا جاتا تو کیا صورتحال یہ نہ ہوتی کہ مسلمان انگریزوں کی غلامی سے نکل کر ہندؤں کی غلامی میں چلے جاتے؟؟ چلیں جن کو یہ وہم ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ کانگریس میں مسلمانوں کے حقوق کے دفاع کیلئے بڑے جید لیڈر موجود تھے اور ہندستان کی تقسیم کی مخالفت کرنے والے مذہبی سکالرز  اتنا اثرورسوخ ضرور رکھتے تھے کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کر سکتے تھے۔میں بہت پرانی بات نہیں کرتا ۔ میں گزرے دنوں کی کوئی داستان بھی نہیں سناتا۔کسی گمنام لیڈر کی بند کمروں میں کی گئی باتوں  کا حوالہ بھی نہیں دیتا ۔ میں پیش کر رہا ہوں 30نومبر 2006 کو من موہن سنگھ کی طرف سے قائم جسٹس راجندر سچرکی زیرنگرانی قائم کئے گئے کمیشن  کی رپورٹ کے چند اقتصابات جو انہوں نے مسلمانوں کی بھارت میں حالت زار کے بارے میں پیش کئے تھے۔اس رپورٹ کے مطابق بھارت کے دیہی علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کی 94.9 فیصد تعداد خطِ افلاس سے نیچے اور شہری علاقوں میں 61.1فیصد غریبی سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔دیہی علاقوں کی 54.6فیصد اور شہری علاقوں کی 60فیصد آبادی نے کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا۔دیہی علاقوں میں مسلم آبادی کے 0.8اور شہری علاقوں میں 3.1مسلم گریجوایٹ ہیں اور 1.2پوسٹ گریجوایٹ ہیں۔

مغربی بنگال کی کل آبادی کا 25فیصد مسلمان ہیں، مگر سرکاری نوکریوں میں یہ شرح 4.2ہے۔آسام میں یہ شرح 40فیصد، مگر نوکریاں 11.2فیصد۔کیرالا میں 20فیصد آبادی کے پاس 10.4فیصد سرکاری نوکریاں ہیں، البتہ کرناٹک(سابقہ میسور ٹیپو سلطان والا) میں 12.2فیصد مسلم آبادی کے پاس نسبتاً بہتر، یعنی 8.5فیصد نوکریاں ہیں۔بھارتی فوج اور متعلقہ سلامتی کے اداروں نے اپنے یہاں سچرکمیٹی کو سروے کی اجازت ہی نہیں دی، مگر عام رائے ہے کہ ان اداروں میں شرح کسی طور بھی 3 فیصد سے زائد نہیں۔اس تصویر کا یہ رخ اور بھی بھیانک ہے کہ مہاراشٹر میں مسلمان کل آبادی کا 10.6فیصد سے کم ، مگر یہاں کی جیلوں میں موجود قیدیوں کا 32.4فیصد حصہ مسلمان ہے۔دہلی کی آبادی میں مسلمان حصہ 11.7فیصد، مگر یہاں کی جیل میں قیدیوں کا 27.9فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔صوبہ گجرات کی جیلوں میں بند کل افراد کا 25.1فیصد مسلمان ہیں، جبکہ آبادی میں یہ تناسب محض9.1کا ہے۔کرناٹک کی جیلوں میں 17.5مسلمان بند ہیں، جبکہ آبادی میں یہ تناسب 12.23ہے۔
مہاراشٹر میں جیلوں میں ایک برس سے زائد بند قیدیوں کا 40.6بھارتی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔۔۔۔۔جی ہاں جو لوگ آج ہندستان کی تقسیم کے خلاف باتیں کر رہے ہیں کیا ان کے پاس کمیشن کی اس رپورٹ کے بعد کوئی جواب ہے۔؟؟؟
ہاں یہ درست ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر لیا گیا تھا۔لوگوں کا ایک خواب تھا کہ وہ اپنے دین پر اپنی آزادی کے ساتھ عمل کر سکیں گے۔ انصاف اور مساوات کا پیامبر بنے گا۔لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ ویسا نہیں ہوا جیسی خواہشیں تھیں۔ لیکن اس کا الزام پاکستان کے سر کیوں؟ جی ہاں مرسیڈیز گاڑی شوروم سے نکال کر ڈرائیور فٹ پاتھ پر چڑھا دے تو الزام گاڑی پر کیسا؟ کمپیوٹر کا غلط بٹن دبا کر اپنا سارا ریکارڈ خراب کر ڈالیں تو الزام کمپیوٹر کو کیوں؟ اگر نادرا کے نظام کو نااہل ہاتھوں میں تھما دیا گیاتھا تو اس میں نادرا  پر الزام کیسا؟ امتحانی نظام کو کمپیوٹرائز کرتے وقت سفارش پر عملہ بھرتی کرلیا جائے تو کیا کمپیوٹر سسٹم پر طعنہ ظن ہوجائیں گے؟ واہ بھئی خوب، موبائل جیب سے گر کر پانی کی بالٹی میں جا گرے تو سیاپا کمپنی کے خلاف شروع کر دو؟ ماچس کی ڈبی بندر کو پکڑا دو اور آگ لگنے کی ذمہ داری عمارت کھڑی کرنے والے پر لگا دو؟ کیا انصاف کی بات کرتے ہو؟امتحان میں فیل اپنی نااہلی سے ہوجاؤ اور واویلہ ممتحن کے خلاف شروع کردو؟ 
آج اگر یہ ملک ہم سے صحیح طور پر سنھالا نہیں گیا تو اس کا الزام اس کے بنانے والوں کو کیوں دیں۔ آج اکیسویں صدی میں بیٹھ کر آج کے شعور کے ساتھ پچھلی صدی کے شعور کے کئے گئے فیصلوں کا گالی دینے کی بنیاد کیا ہے؟۔تم کیا جانو اس زمانے کی ضرورتیں اور تقاضے؟ خدارا ہوش کے ناخن لو۔جو تمہارے پاس ہے اس کی حفاظت کرو ۔اپنی عزت کی حفاظت ، ،میں وطن پرستی کی دعوت نہیں دے رہا لیکن میں ان فیصلوں پر تنقید سے روک رہا ہوں جن کا شعور ہمارے پاس نہیں ہے۔میرا صرف ایک سوال ہے بنئے کے اس متعصب اور منافقانہ رویوں کے بعد ایک الگ خطے کے قیام کے علاوہ دوسرا حل کون سا  تھا؟؟
میم سین

Tuesday, September 10, 2013

ایک اور نوحہ


شاہ زیب کے قتل کے واقعہ نے قوم کے نام جو پیغام دیا ہے وہ یہ کہ ہمارا موجودہ نظام ،ہمیں کوئی تحفظ نہیں دے سکتا !!!!!!!!۔قانون نافظ کرنے والے اداروں سے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ آپ کو کوئی انصاف مہیا کرنے میں مدد دیں گے !!!!!! ۔اس لئے کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہوجائے تو اپنا انتقام اپنے ہاتھوں سے لے لیں یا پھراپنی غیرت اور انصاف کے تقاضوں کو کسی اندھے کنویں مین پھینک دو، جہاں سے اس کوئی آہ، کوئی فریاد پچھتاوہ بن کر آپ کا تعاقب نہ کرسکے۔۔اس نطام کے سامنے سب کچھ فانی ہے۔زندگی ایک شکستہ روح ہے، جو ہر بار ہار جاتی ہے،۔۔۔۔سانسیں ادھوری رہ جاتی ہیں۔۔۔۔۔شکست آشنا ٹھہیرتی ہے۔۔۔ زندگی کے سب سے بڑے تضاد کے سامنے حوصلہ شکن ہیں۔ ہم چاہیں جتنے بھی پھول اپنے عیوب پر چڑھا لیں لیکن کسی نہ کسی دن یہ نظام ہمارے جسموں کو برھنہ کر دیتا ہے۔آنکھوں میں آنسو اور دل میں ملال لئے ہم کب تک تبدیلی کے نعرے لگانے والوں کے مہرے بن کر اپنی قربانیاں پیش کرتے رہیں گے؟ کب تک ہم بے عزتی اور اور بدنامی سے معانقہ کرنے پر مجبور ہوتے رہیں گے؟ آخر کب تک ؟؟؟ کب تک دلوں میں حزن وملال کے ساتھ تاریکی کے جزیروں کی سیاحی کرتے رہے گے؟ کب تک ہم نظام کے زیر عتاب رہتے ہوئے اپنی یاداشتوں کو زنجیروں میں جکڑ کر سب اچھا ہے کے کلمات تحریر کرتے رہیں گے؟ ہم کب اپنے اس اذلی خوف سے نجات حاصل کر پائیں گے؟ آج ایک بار پھر ذہن تھکاوٹ اور بے بسی کا شکار ہو گیا ہے،شب تاریک میں اندھیروں کا ساتھ ہے اور دلوں میں اک اضطراب ہے۔شکستہ جسم آج ایک بارپھر ضمیر کے بوجھ تلے دب گیا ہے۔اعتبار کا لمس اور محبت کا نظریہ کسی نالے کے گندے پانی مین بہہ گیا ہے۔ لیکن ایک حقیقت آج پھر آشکار ہو گئی ہے کہ یہ نظام آپ کے زخموں پر مرہم پٹی نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی آپ کا سہارا بن سکتا ہے۔۔خواہشیں پھنکارتی، اس نظام کو نضاد کے زہر سے آبیاری کرتی رہیں گی۔حکومتیں بدلتی رہیں گی لیکن یہ نظام چلتا رہے گا اور شہری گومگوں اس نظام کو اپنے کردار سے دوام بخشتے رہیں گے۔۔۔۔بدمست خواہشوں کے گھوڑے پر سوار عیاشی کا شہرزاد اپنے وجود اور خرمستیوں سے ملک عزیز کی فضاؤں کو آلودہ اورتعفن زدہ کرنے میں مصروف عمل رہے گا۔ اور ہم اس ناسور سے اپنی نظریں چرا کر کسی لاوارث جسم کی روح کی طرح بھٹکتے رہے گے۔۔۔۔۔
میم۔سین

Thursday, September 5, 2013

نظم "چالیس سال" کے جواب میں

اے درناسفتہ۔۔۔ یہ جو تیرا یقین ہے ،کوئی اس یقین کو گماں میں ڈھال رہا ہے۔اس کی باتوں میں مت آنا،ابھی تو جواں ہیں، ابھی تو سنجیدگی کے بہاؤ میں اترنے کے قابل نہیں ہے۔ اے در ناسفتہ ابھی تو اپنے گیسو دراز کے سایوں میں امنگوں کی پینگ باندھ کر آسمان کی بلندیوں تک سفر کی آشا کو مت چھوڑ دینا۔ابھی تیرے بانکپن نے جھومنا شروع کیا ہے ،اہانت انگیز رویوں کو ہنس کر ٹال دیا کر،ابھء تو اپنے ہمدم کی فکر کر،ابھی دلائل ،توجیہات کی تیری عمر نہیں ہے۔تیری عمر ابھی سرگوشیوں کی ہے۔ابھی تیری عمر اڑتے پتنگ کی طرح ہلکورے لینے کی ہے۔ابھی تو اندھیروں کے خوف سے اجالوں کی خوشیوں کو رنجیدہ مت ہونے دے۔اے در نا سفتہ تو ابھی سرگرداں رہ،کسی ان دیکھی بستی کیلئے۔جب تک تیرے اندر یہ بیقراری کا سمندر موجیں مارتا رہے گا کوئی تیرا کچھ نہین بگاڑ سکتا۔اے در ناسفتہ ابھی اپنے قلب کو ذہن کے تابع نہ کر ابھی تو کمسن نازک کونپل ہے، اپنی خواہشوں کو اسے ادھیڑ عمر پیڑوں کے سائے سے دور رکھ۔ابھی حقیقتوں کے سفر کی تیری عمر نہیں، تجھے برسوں کے ادھیڑ پن سے کیا لینا دینا تو صبا سے باتیں کیا کر۔ابھی ہنسنے کی تاویلات دینے کی تیری عمر نہیں ہے

Monday, September 2, 2013

معاملات

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ہم ایک خوفزدہ معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ ایک ایسے انجانے خوف میں مبتلا ہیں جس نے ہمارے ذہنوں کو کچھ اس طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ ذرا سی بات پر تلواریں نیام سے نکال لیتے ہیں۔ہمیں کسی نے سچ بولنے سے منع نہیں کیا لیکن اپنے اس سچ کو بیان کرنے کیلئے تلوار ہاتھ میں پکڑ کر دوسروں کے ذہنوں میں زہر گھولنے سے بچنا چاہیئے۔ جس سے ارد گرد کے لوگ بھی ہم سے متنفر ہوجاتے ہیں۔ہمیں پہلے تو اپنے اس خوف سے نجات حاصل کرنا ہوگی اور دوسرا بحث کی رسی کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر رکھنا چاہیئے کہ جہاں سے فضا خیالات کے دھویں سے بھرنا شروع ہوجائے اور منظر دھندلانا شروع ہو جائیں وہیں سے اس رسی کو ڈھیلا کرنا شروع کر دیں تا کہ بحث کا رخ تبدیل ہوجائے یا پھر وہ دھواں اس فضا سے نکل جائے۔جب ہم دوسروں کا لفظوں سے شعوری یا غیر شعوری استحصال شروع کردیتے ہیں تو ہمارے پاس برف کا پانی رہ جاتا ہے ، برف تو کبھی کی پگھل کر ضائع ہوچکی ہوتی ہے۔ہمیں اپنی نفسیاتی اور جبلی انا پسندی کے زہر کو خیر خؤاہی کے جذبے سے دور رکھنے کی ضرورت ہے
میم۔سین