Saturday, November 30, 2013

تکمیل کی جستجو

تم بھی جاناں عجیب باتیں کرتی ہو۔بھلا تکمیل کیا ہے اور رشتوں کا آپس  میں کیا تعلق ہے؟ دو متضاد لہجوں کی دو متضاد باتیں ۔کمال کی باتیں کرتی ہو۔۔۔۔تم بھی نا۔۔ بھلا انسان بھی مکمل ہوسکتا ہے ؟ وہ تو موت ہے جو اسے ختم کر سکتی ہے اور وہی اس کی تکمیل ہے۔

تم ابھی معصوم ہو۔ انجان ہو۔ تم وہ دیکھ کر سوچتے ہو جو تمہیں نظر آتا ہے۔ لیکن  انسان کا ایک چہرہ وہ ہے جو تم  دیکھتے ہو اور دوسرا وہ روحانی جسم ہے جسے ہم محسوس کرتے ہیں۔ عورت کا ظاہر مکمل ہے لیکن اس کی روح ادھوری ہے وہ تلاش میں ہے ،وہ تکمیل کیلئے سرگرداں ہے ۔اس کے اس ادھورے پن کو آپ جبلی بھی کہہ سکتے ہیں اور سماجی بھی۔ہمارا سماج عورت کی پیدائش پر اس کے اندر ایک زخم لگا دیتا ہے اور وہ زخم کسی ناسور کی شکل میں اس کی روح کو بے چین رکھتا ہے۔۔۔۔ کچھ ادھوراپن فطری ہے،جو نسل در نسل اور پشت در پشت چلا آرہا ہے۔اس کی ہنسی کے پیچھے ایک کرب ہوتا ہے ۔وہ کرب،جس کو مرد کبھی محسوس نہیں کرسکتا۔لیکن اس کی تکمیل کا رستہ مرد کے اندر سے ہوکر جاتا ہے۔اس لئے اپنی روحانی اور نفسانی الجھنوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے وہ مرد کی طرف دیکھتی ہے۔عورت ایک بے جان بت کی مانند ہوتی ہے۔ وہ مرد کے ذریئے اس میں جذبات بیدار کرتی ہے۔ اسے احساسات سے بھر دیتی ہے

جاناں تم بھی کمال کرتی ہو!!   تم کہتی ہو کہ عورت کا رشتہ مرد کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے وہ مرد کے ذریئے اپنی تکمیل چاہتی ہے ۔ اس کی تکمیل ہوجاتی ہے تواس کی ہراساں روح کو اطمینان نصیب ہوجاتا ہے۔لیکن جاناں! جب وہ مکمل ہوگئی تو۔ بھلا  وہ مرد کا ساتھ کیوں چاہے گی ؟جب تکمیل ہوگئی تو مرد کا سہارا کیسا ؟

عورت کی گاڑی کا انجن مرد ہوتا ہے۔ وہ جب تک سانس لیتی رہتی ہے اس کوہواکی ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ جب دھوپ کی تپش سے پریشان  ہو جاتی ہے تو اس کو سایے کی ضرورت ہوتی ہی ۔جب تھک کر نڈھال ہوجاتی ہے توایک بچھونے کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ چاہتی ہے کہ مرد اس سے باتیں کرے۔ باتیں نہیں کرسکتا ہے تو اس کی بات توجہ سے سنے۔وہ تو اپنی محرومیوں کا ذکر بھی اسی سے کرنا چاہتی ہے۔وہ اپنی حساسیت اورکمزوریوں کا مداوہ بھی اسی سے چاہتی ہے۔ ۔ وہ تو اپنے پل پل کے لئے اس کی محتاج ہوتی ہے۔۔ ۔وہ موزوں الفاظ کی تلاش میں رہتی ہے جن کا حصول مرد کے قرب کا سبب بنتا ہے ۔ وہ ہمیشہ  انجانے فیصلوں کے خوف میں گرفتار رہتی ہے جو کسی بھی وقت اس کی جنت کو کسی آزمائش میں مبتلاکر سکتے ہیں

۔ تم بھی  جاناں اپنے فلسفہ کے تحفظ کیلئے کیسی کیسی تاویلیں ڈھونڈتی ہو۔تم بھی نا !!!۔ اگر عورت کی تکمیل ہوسکتی ہے تو مرد کب مکمل ہوتا ہے؟۔ کیا مرد اندھا ہے؟یا بہرہ ہے؟ جو یہ سب نہیں جانتا کی عورت اس کو اتنا چاہتی ہے۔ کیا وہ ہمیشہ یہی نہیں سمجھتا کہ عورت احمدشاہ ابدالی کی طرح اس کی ذات میں آتی ہے اور اینٹ سے اینٹ بجا کر خود کو فاتح منواتی ہے۔ وہ اپنی شخصی محرومیوں کو کو کبھی تسلیم نہیں کرتی ہے ۔ وہ تو حقیقتوں کی ان گہرائیوں سے بھی واقف نہیں ہوتی جو مرد کی روح کو دکھی کرتی ہیں۔وہ ہمیشہ اپنے شک  کے رویے سے  احساس کمتری کا بیج بوتی ہے۔ وہ  مرد کو سہارا تو سمجھتی ہے لیکن کبھی اس کے اندر جھانک کر نہیں دیکھتی ہے۔ وہ مرد کو مکمل نہیں دیکھنا چاہتی ۔ مرد مکمل ہوگیا تو مرد کے پاس اس کیلئے جگہ کہاں ؟ وہ تو اپنے قطعی لہجے کے ساتھ مرد کے گرد ایک حصار بنا کر رکھتی ہے۔عورت جب مرد کو پا لیتی ہے تو وہ ا ساری کھڑکیاں بند کر دیتی ہے ۔ یہاں تک کہ مرد تک آنے والے رستوں اور دروازوں کو بھی۔ وہ تو یہ بھی بھول جاتی ہے کہ  گھرکو اگر آگ لگ گئی تو اس کو بجھایا کیسے جائے گا۔
 عورت مکمل ہو بھی جائے تو  تنہا پرواز کرنے کے قابل نہیں ہوتی ۔وہ تو محبت کرکے بھی مرد کو مظلوم نہیں سمجھتی۔ وہ کبھی مرد کو کمزور نہیں دیکھنا چاہتی۔وہ مرد کو کمزور کرکے اپنی سرشاری کو داؤ پر نہیں لگاسکتی ہے۔اس کی تمنائیں اور خواہشیں اس کیلئے ایک امید کا درجہ رکھتی ہیں اور وہ انہیں اپنا فرض سمجھتے ہوئےان سے وابستہ شخص کو کمزور نہیں کرسکتی۔وہ تو مرد کے سکوت سے بھی ھراساں ہوجاتی ہے۔کہیں کوئی خاموشی کسی طوفان میں نہ ڈھل جائے۔
یہ بھی خوب کہی تم نے جاناں۔ایک پھونک مار کر محبت جگاتی بھی ہو ۔اپنےسحر میں جکڑ بھی لیتی ہو اور پھر خود ہی اس سحر کو توڑ بھی دیتی ہو۔عورت اپنی تکمیل کی خاطر مرد کی اخلاقی اقدار اور عزت نفس کو داؤ پر لگا دیتی ہے۔اس کی آزادی اور اپنی وارفتگی کا دعوی بھی کرتی ہے لیکن اپنے کردار اور اپنےرویوں سے ان اصولوں کی نفی بھی کرتی ہے

 بچہ  یہ نہیں جانتا  کہ وہ عدم سے سے کیسے وجود میں آیا تھا۔لیکن جس لمحے وہ اپنی پہلی سانس لیتا ہے۔ عورت ایک ہی جست میں فرش سے عرش پر پہنچ جاتی ہے۔وہ فرشتوں سے ہمکلام ہوجاتی ہے۔اس کی روح جس بالیدگی کومحسوس کرتی ہے وہ لافانی ہوتی ہے۔وہ جن  جذبوں کا سامنا کرتی ہے،وہ اسے  وجود کا جواز بخشتے ہیں۔وہ زندگی کی رمزوں سے آشنائی کا دعوی کر سکتی ہے۔وہ خود کو قوی اور توانا محسوس کرتی ہے۔ عدم سے وجود کا یہ سفر عورت کی تکمیل کا سفر ہے۔لیکن عورت کی یہ تکمیل مرد کی راہ میں حائل ہوجاتی ہے وہ مرد کی زندگی میں کنول کھلا کر اس کی آبیاری کرنا بھول جاتی ہے۔ اور وہ ہمیشہ بہار کی آمد کے انتظار میں اپنی تمناؤں کا ہجوم خاک میں ملاتا رہتا ہے۔وہ زندگی بھر اخلاق، اقدار اور زندگی کی آدرشوں کے ساتھ محاذ آرا رہتا ہے۔ ہمیشہ متانت اور اطمینان کی اس لہر کے لمس سے محروم رہتا ہے جس میں محرومی یا مصلحت کے احساس کی نمی موجود نہ ہو۔
میم سین

Monday, November 25, 2013

حیرت

سکتے والی بات تو تھی ! میں کیا کہتا ؟ کیا جواب دیتا ؟۔ اپنا کیا ردعمل ظاہر کرتا؟ ۔ مجھے تو کچھ سجھائی ہی نہ دیا۔سب کچھ اتنا غیر متوقع اور اچانک تھا کہ میں ساری صورتحال کو سمجھ ہی نہیں پایا
تیز بخار ، کانپتے جسم اوراکھڑے ہوئے سانس کے ساتھ صفیہ بیگم جب پہلی بار میرے پاس آئی تھی۔تو شائد مارچ کا مہینہ تھا۔ جب میں نے چیک اپ کرنے کے بعد اسے دوائی لکھ کر دی تو اس کے آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگی کہ بیوہ عورت ہوں ۔ گھر میں کمانے والا کوئی نہیں ۔دوا کے پیسے نہیں ہیں ۔ کچھ خدا ترسی کر دیں۔ میں نے پرچی پکڑی اور اس پر پر فری لکھ کراسے تھما دی کہ فکر نہ کریں ۔ دوائی مفت مل جائے گی۔ اور وہ ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوگئی۔رمضان کے مہینے میں ایک بار پھر بخار کے ساتھ آئی اور اپنی دوائی لینے کے بعد کہنے لگی۔رمضان کا مہینہ ہے۔اپنی زکواۃ نکالتے وقت مجھے بھی یاد رکھیئے گا۔ اس وقت جو کچھ ہوسکتا تھا میں نے اس کی مدد کر دی۔ اور وہ ایک بار پھردعائیں دیتی رخصت ہوگئی۔ یہ کل دوپہر کی بات ہے۔ جب وہ میرے پاس آئی۔ لیکن اس بار وہ اکیلی نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ چہرہ کو چادر سے چھپائے اٹھارہ انیس سال کی جوان لڑکی بھی تھی۔ کرسی پر بیٹھتے ہی صفیہ بیگم نے اسے نقاب ہٹانے اور مجھے سلام کرنے کا کہا تو اس نے ہچکچاتے ہوئے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور ایک جھجک اور حیا سے سلام کیا ۔میں اب بھی اس انتظار میں تھا کہ وہ لڑکی کی تکلیف یا بیماری کے بارے میں کچھ بتائے تو میں اپنی رائے دوں۔ لیکن صفیہ بیگم نے بیماری کی تفصیل میں جانے کی بجائے بتانا شروع کیاکہ یہ میری بڑی بیٹی روبینہ ہے۔ پانچویں پاس ہے۔ اور قران پاک بھی پورا پڑھا ہوا ہے۔ اور ماشاللہ اس برس اٹھارہ سال کی ہوگئی ہے، اتنی سگھڑ ہے کہ سارے گھر کو اسی نے سنبھالا ہوا ہے۔
جی اچھا میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی  سر اثبات میں ہلایا اور پوچھا تو پھر؟ میرے  پوچھنے پر اس نے لڑکی کو کمرے سےباہر جانے کو کہا اور کرسی کھینچ کر میرے قریب کر لی اور بولی ڈاکٹر صاحب آپ کے پاس ہزروں لوگ آتے ہیں ۔ کوئی مناسب خاندان دیکھ کر اس کیلئے کوئی اچھا سا رشتہ ہی ڈھونڈ دیں۔
میم سین
نومبر 26،2013

Sunday, November 24, 2013

محبت کا احساس

 محبت کا احساس۔۔۔۔۔۔۔ تصور الجھے رہتے ہیں احترام کا گوشہ ہے دل میں موقع بے موقع تائید کیسی؟ رہتی ہے یہ کشمکش کیسی بے ترتیب ہیں دل کی دھڑکنیں الجھ کے رہ جاتی ہیں نظریں خائف ہیں دنیا سے کچھ ججھک بھی باقی ہے خلش ہےاور کچھ کسک ہے کچھ مچلتے ارمان ہیں زندگی پرخیال کتنی ہے مخمور نگاہ کتنی ہے تصور کی دنیا سہانی ہے مسرت کی کہانی ہے عزم ، ایک ارادہ ہے اشاروں کی زبانی ہے خوف بھی ہے دل میں امنگوں کی ہے ایک کڑی دلفریب ہے ہر گھڑی جستجو اور بیقراری ہے کتنا معصوم پر سکوں کیف طاری ہے ہاں محبت کا احساس جاری ہے !!!! میم۔سین

Wednesday, November 20, 2013

مشورہ


دوسری شادی کے خواہش مند افراد کی طرف سے میری چند دن پہلے کی تحریر پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے اور فرمائش کی ہے کہ تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کیا جائے۔

حالانکہ میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ جو لوگ پہلی شادی کرکے پچھتاتے ہیں ،وہ دوسری شادی کے بعد بھی پچھتاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی لوگ دوسروں کے پچھتاووں سے کچھ سیکھنے پرآمادہ دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ پہلی شادی ہمیشہ غلطی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جلدبازی یا تجربے کی کمی کی وجہ سے۔ لیکن دوسری شادی کے پیچھے عموما دنیا سے بیزاری ہوتی ہے لیکن خودکشی کا حوصلہ نہیں ہوتا۔
بحرحال بقول ایک شادی شدہ بزرگ کے، جو اقبال سے ہم کلامی چاہے، ارسطو اور افلاطون کے خیالات کی برابری چاہے، کنفیوسش سے گفتگو چاہے، اسے دوسری تو کیا تیسری شادی کے بھی خواب دیکھنے چاہیئں۔ اقبال کے کچھ بہی خواہوں کے نذدیک اقبال کی ذہنی اور فکری بلندی کا آغاز ہی تیسری شادی کے بعد ہواتھا۔
اس لئے تصویر کے دوسرے رخ کے بارے میں توشائد میں کچھ نہیں جانتا ۔ لیکن ایک صاحب کو جانتا ہوں جنہوں نے حال ہی میں دوسری شادی کی ہے۔ ایک آسودہ گھرانے سے تعلق ہے۔ اپنی کسی کلاس فیلو کے ساتھ شادی کے خواہش مند تھے لیکن والد صاحب کی مرضی کے سامنے اپنے ایک دوست کی بیٹی کے حق میں دستبردارہونا پڑا۔ اور شادی کے ایک آدھ سال بعد ہی گھر میں توتو اور میں میں کی گردان کا آغاز ہوگیا۔
لیکن جب بچوں کی پیدائش کے بعد بیوی کے قدم گھر میں مضبوط ہو گئے تو بات بیلن کے استعمال تک پہنچنے لگی اور یوں یہ صاحب مایوسی کے عالم میں گھر سے دور دور رہنے لگے۔
شادی اور اس جھک جھک کو کوئی دس سال گزر گئے تھے کہ اچانک ان صاحب کی مزاج میں حیرت انگیز تبدیلی رونما ہوئی اور اس مرد درویش نے گھر میں بیوی کی حکومت تسلیم کرتے ہوئے بیوی کی تعریف میں قلابے ملانا شروع کردیئے، بات بہ بات بیوی کیلئے تعریفی کلمات۔ کبھی کھانے پر انگلیاں چاٹ رہے ہیں تو کبھی ان کے لباس کے بارے میں قصیدے تراشے جارہے ہیں۔ اور کبھی بیوی کے سگھڑاپے کی شان بیان کی جارہی ہے تو کبھی بچوں کی تربیت کے حوالے سے مثالی ماں کا درجہ دیا جارہا ہے۔ 
بیوی بیچاری پہلے تو انگشت بدنداں سخت پریشان ہوئی لیکن جلد ہی خاوند کی چکنی چوپڑی باتوں کے دامن میں آگئی اور خاوند کا کمال بھولپن سے خیال رکھنا شروع کردیا۔
لگ بھگ دو ماہ بعد جب بیوی کے سارے شکوک وشہبات تحلیل ہوچکے تھے، ایک روز وہ صاحب گھر تشریف لائے تو کافی خوش دکھائی دے رہے تھے اور بہترین لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ آتے ہی بیوی کو آگاہ کیا میں نے صفیہ خاتون کے ساتھ ان کے گھر والوں کی رضامندی سے عقد ثانی کرلیا ہے
میم سین

نصیحت


چوہدری رمضان پٹواری کا ایک عرصے سے میرے پاس آنا جاناہے ۔کوئی پنتالیس پچاس سال کے پیٹے میں ہیں اور کئی سالوں سے شوگر اور بلڈ پریشر کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ لیکن کبھی اپنی صحت پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ کچھ تو نوکری کی نوعیت ایسی ہے کہ پرہیز کرنا خاصا مشکل ہے۔اور کچھ اپنے بارے میں خود بھی لاپرواہ ہیں۔  دوائی پابندی سے استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی پرہیز کے معاملے میں سنجیدہ ہیں۔زمیندار گھرانے سے تعلق ہے۔ اور اچھی خاصی خاندانی جائیداد  ہے اور پٹواری کو تو ویسے بھی روزانہ تنخواہ ملتی ہے، اس لئے صاحب حیثیت لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن ان کے خاندان میں پریشانی کا سبب ان کے ہاں نرینہ اولاد کا نہ ہونا ہے۔ آخر اتنی بڑی جائیداد کو کون سنبھالے گا؟ کوئی لگ بھگ ڈیڑھ سال پہلےایک دن شام کو میرے پاس تشریف لائے تو خاصے پرجوش تھے۔ کہنے لگے یار میری شوگر کو فوراً قابو کرو اور ایسی دوائی دو کہ میں ایک نوجوان بن جاؤں ۔ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ خیریت تو ہے یہ آج اچانک صحت کی فکر کہاں سے امڈ آئی ہے؟ کہنے لگے کہ آپ کو تو پتا ہے اللہ نے مجھے بیٹے کی نعمت سے محروم رکھا ہوا ہے۔ اور اب میرے خاندان والوں نے میری دوسری شادی کا پروگرام بنایا ہے۔ رشتہ بھی طے ہوگیا ہے اور اور اگلے مہینے رخصتی بھی طے پا گئی ہے۔ بس مجھے ایک بار جوان کر دو۔ میں نے ضروری پرہیز اور دوایاں تجویز کیں اور سختی سےشوگر کنٹرول کرنے کو کہا۔ پٹواری صاحب دو ماہ بعد دوبارہ نظر آئے تو خوشی اور مسرت ان کے لہجے اور چہرے کے تاثرات سے نمایاں تھی۔ کہنے لگے ڈاکٹر کیا بتاؤں ، اللہ نے تو مجھے دنیا میں ہی حورعطا کر دی ہے۔ اس نے مجھے وہ خوشیاں دے ڈالی ہیں کہ  جن کا میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔جتنی دیر میرے پاس بیٹھے رہے،اپنی حور پری کے گن گاتے رہے۔ اس کے بعد پٹواری صاحب تو نظر نہیں آئے ۔لیکن کسی دوست کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ اللہ نے ان کو بیٹا عطا کیا ہے۔ کوئی ڈیڑھ سال بعد پرسوں کلینک آئے تو خاصے کمزور  دکھائی دیئے۔ میں نے ان کی صحت کو دیکھتے ہوئے پوچھا کہ لگتا ہے شوگر کو پھر سے نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن انہوں نے مختصر سا جواب دیا بس کچھ ایسا ہی ہے۔ اور روٹین کی باتیں کیں۔کچھ ادھر ادھر کے قصے سنائے ، جن میں مایوسی کا عنصر خاصا غالب تھا۔ اٹھ کر جانے لگے تو کہنے لگے، ڈاکٹر ایک نصیحت کروں گا، پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کبھی نہ کرنا ۔زندگی جہنم بن جاتی ہے
میم سین
نومبر 20، 2013

Thursday, November 14, 2013

ادھورے خواب


ہم ادھورے معاشرے کے ادھورے لوگ ہیں۔ جن کی خواہشیں بھی ادھوری اور خواب بھی ادھورے ہیں۔ ہم برائی کے خلاف لڑنا بھی چاہتے ہین تو ادھورے منصوبوں کے ساتھ، نیکی بھی کمانا چاہتے ہیں لیکن ادھورے جذبوں کے ساتھ۔ ہم کب مکمل ہوں گے؟ ہم کب احساس کے سمندر سے پانی کی بوندیں کو اپنے جسموں پر بہانے کے قابل ہونگے، شائد ایک یہی سوال ہے جس کا جواب ابھی تک تشنہ لب ہے۔ بات جہیز  لینے کی نہیں ہے بلکہ معاشرے کے  اس تضاد کی ہے جس میں ہم سانسیں لے رہے ہیں۔ بات جہیز دینے کی نہیں ہے بلکہ ان سماجی رسوم کی ہے جس کے ساتھ ہم جکڑے ہوئے ہیں۔جہیز کی لعنت معاشرے کی تکمیل کے بغیر ختم نہیں ہوسکتی۔ اور معاشرہ نام ہے انصاف، عزت نفس اور شرافت کے ساتھ رہنے کا۔معاشرے کی تکمیل اس وقت تک  نہیں ہوسکتی جب تک اس کی تہذیبی اکائی کی بنیاد انسانیت پر نہ ہو۔ تہذیب خوبصورت ہوگی جب ہم زندگی کے ہر پہلو کو خؤبصورت بنائیں گےلیکن جس تہذیب کی بنیاد میں جھوٹ اور فریب کی چھینٹے ہوں ، جس ثقافت پر ناانصافی اور نظریاتی الجھنوں کے بادل ہوں، وہاں تہذیبی قدروں کی بات کرنا ہی بے معنی ہے ، تکمیل انسانی کا درس  لاحاصل ہے۔  جہیز کو لعنت قرار دینے سے پہلے ، جہیز پر تنقید کرنے سے پہلے معاشرے کے ان پہلوؤں کو سمجھنا ضروری ہے جس نے ہمارے گرد کسی آسیب کی طرح ایک ھیولہ بنا رکھا جس میں ہمارا اجتماعی اور انفرادی کردار کسی دھندلکے کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسی ان دیکھی رویات ہیں جن سے دامن چھڑانا ہمارے بس میں نہیں رہتا۔ ایسے ہی بے شمار رشتے ہیں جو ہمیں مجبور کر دیتے ہیں۔ جہیز کے خلاف نعرہ بلند کر دینے سے پہلے ہم ایک حقیقت نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ہم نہ تو ایک فلاحی معاشرے مین رہ رہے ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس اسلامی حمیت اتنی ہےکہ ہم اس کی خاطر ان رسم ورواج کے خلاف  علم بلند کر سکیں۔ اور جب معاشرتی حقائق کا ادراک کئے بغیر ہم تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں تو پھر جو نتائج حاصل ہوتے ہیں وہ بہت بھیانک اور درد سے بھرپور ہوتے ہیں۔ایک ایسا انجام جو عورت کو اس کی اپنی ہی نظر میں حقیر بنا دیتا ہے ۔جو اس کی زندگی کو ہر جذبے اور احساس سے خالی کر دیتا ہے۔اور ایک انتقام کی جلن کسک بن کر اس کے وجود میں پروان چڑھتی رہتی ہے۔عورت کی سب سے بڑی دشمن عورت ہے اور عورت ہی اس بیماری کا کوئی حل ڈھونڈنے میں رکاوٹ ہے۔ بات صرف لڑکے کی جانب سے قدم اٹھانے کی نہیں ہے، بات صرف جہیز لینے سے انکار کا حوصلہ پیدا کرنے کی نہیں ہے۔ بات تو اسی معاشرے میں ان دلیرانہ اقدام کے بعد رہنے کی ہے۔رائج قوانین سے رو گردانی سے معاشرتی قوانین کی رگ حمایئت کے بھڑک اٹھنے پر ان کا سامنا کرنے کی ہے ۔ بڑے بھائی کی بیوی جب جہیز کا ٹرک گھر لیکرآتی ہے اور چھوٹا بھائی جہیز کو لعنت قرار دے کر لینے سے انکار کرتا ہے تو کیا بھابھیاں  جینے دیں گی؟؟؟ کیا ساس کے طعنے اس کی فطرت سے نکل سکیں گے؟ جہیز کا المیہ عورت کا ہے اور عورت کا ہی پیدا کیا ہوا ہے۔ اور اس کا حل مرد کیسے ڈھونڈ سکتا ہے؟؟ مسئلے کا حل صرف جہیز سے انکار نہیں ہے بلکہ اپنی خاندانی روایات کے خلاف بغاوت بھی ہے۔ عورت کو ایک الگ گھر لیکر دینے کیلئے بھی مہم سازی کی ضرورت ہوگی۔جہیز سے انکار سے پہلے لڑکے کو اپنی مالی حیثیت کو بھی اتنا مضبوط کرنا ہو گا جس میں وہ لڑکی کو خاندانی مایوسی اور طعنوں سے تحفظ بھی دے سکے۔اسے اپنی وارفتگی سے آگاہ کرنا ہوگا۔معاشرے کی طرف سے دلائے گئے احساس محرومی کے ازالے کیلئے اس کی دکھی روح کو سہارا بھی دینا ہوگا۔لیکن کیا ہم میں اتنا حوصلہ ہے کہ ہم ہوا کی مخالف سمت سفر کر سکیں؟سماج کے بنائے ہوئے اصولوں کو چیلنج کر کے ان کا دفاع کر سکیں؟ آندھیاں آئیں یا طوفان ان کے سامنے چٹان کی طرح ڈٹ جانے کا حوصلہ ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جہیز کے شکنجہ کی ایک بڑی وجہ مشترکہ خاندانی نظام ہے۔ کیا مشترکہ خاندانی نظام کے خلاف لڑنے کا بھی کوئی عزم ہے ؟مشترکہ خاندانی نظام کی خواہشوں، تمنائوں، اور امیدوں کا گلا گھونٹنے کی بھی سکت  ہے؟؟ ۔ عورت نے اسی معاشرے میں رہنا ہےاسی دوغلے اور منافق معاشرے کی موشگافیوں کے ہمراہ جینا ہے ۔ مرد مضبوط ہو بھی جائے تو کیا ہوا؟ عورت نے تو معاشرے کے بے آبرو اور بے پردہ درد کو سہنا ہے۔ ماں باپ سے لیکر سسرال کے طعنوں کو جھیلنا ہے، بھابھیوں ، دیور ، جیٹھ، کے ساتھ معرکہ آرائی میں نبرد آزما ہونا ہے۔ لڑکے کے تایا ، چچا، پھوپھیاں بھی  میدان میں ہونگی ۔ دور کے رشتوں کا تو ابھی ذکر ہی نہیں ہے۔ اور لڑکی کے والدین نے بھی خاندان والوں کو جواب دینا ہے۔۔کیا سماج کی سیاہ چادر میں دفن ہونے سے وہ خود کو روک پائی گی؟  ہمیں صرف جہیز کے خلاف ہی نہیں بلکہ صدیوں سے قائم رویات کو بھی توڑنا پڑے گا۔ ۔لیکن کیا لڑکے کے یہ سارے انقلابی اقدام ان سارے لوگوں کی زبان بند کر سکے گا جن کے سوالیہ لہجوں میں طنز کا زہر زیادہ غالب اور آگہی کی طلب کم ہوتی ہے لڑکی کے گر دکسی پر آشوب اژدھے کی طرح پھن پھیلائے ساری عمر تعاقب کرتے ہیں۔
میم سین
نومبر 14، 2013

Thursday, November 7, 2013

بلا عنوان

ایک مشہور مصنف نے کہیں لکھا تھا کہ "اپنا پہلا افسانہ لیکر ایک ادبی مجلے کے ایڈیٹرسے ملنے گیا تو ، افسانہ پڑھنے کے بعد ایڈیٹر نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے چھاپنے کا عندیہ دیا ۔ میں نے جب معاوضے کی بات کی تو اس نے جواب دیا کہ یہ تو قارئین کی پسند اور تنقید پر منحصر ہے۔اور میں نے واپس آکر اپنے دوستوں کو اس کام پر لگا دیا کہ وہ افسانہ کے بارے میں تعریفی کلمات اور مراسلے ایڈیٹر کے نام بھیجیں۔اور جب ایڈیٹر صاحب سے دوبارہ ملاقات کیلئے گیا تو مجھ سے مخاطب ہو کر اپنی حیرت سے آگاہ کیا کہ ہمارا رسالہ اتنا بکتا نہیں ، جتنا پڑھا جاتا ہے اور مجھے باقاعدگی سے لکھنے کی درخواست کی تو مجھے ان کی بات سمجھ میں آگئی کہ میری ترکیب کامیاب ہوگئی ہے
کچھ ایسی ہی کہانی  ہمارے ایک عالم دین کے ساتھ جوڑی جاتی ہے۔جن کو ایک اہم شخصیت کی مداخلت پر پی ٹی وی پرایک دینی پروگرام پیش کرنےکی ذمہ داری سونپی گئی۔لیکن جس دن پہلی قسط نے نشر ہونا تھا ، کچھ ناگزیر وجوھات کی بنا پر نشر نہ ہوسکی۔لیکن اگلے چند دنوں میں بوریاں بھر کر تعریفی خطوط پروڈیوسر کو پیش کئے گئے تو پروڈیوسر کا ایک بار ماتھا ضرور ٹھنکا۔
کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے ہمسائیہ ملک میں ٹی وی پر ہونے والے گائیکی اور دوسرے مقابلوں کی ہے جس میں جب سامعین کے ووٹ کو کلیدی جگہ دی گئی تو پھر موبائل کی سموں کی فروخت میں اضافہ ہوگیا تھا۔بلکہ جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں کیلئے لوگ مہیا کرنے والوں کی طرح مقابلوں میں ووٹ مہیا کرنے کیلئے بھی ادارے وجود میں آگئے جو پیسے لیکر مطلوبہ ووٹ فراہم کرتے تھے
مجھے یہ سب باتیں اسلئے یاد آگئیں کہ چند دن پہلے ایک دوست کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا ۔ اسے کچھ کام تھا مجھے ڈرائینگ روم میں بٹھا کر خود کہیں چلا گیا ۔جہاں اس کا چھوٹا بھائی  لیپ ٹاپ پر مصروف تھا۔میں نے غور سے دیکھا تو چا رمختلف براؤذر کھلے ہوئے تھے۔ مجھے حیرت ہوئی اور ان براؤذر کا مقصد پوچھا تو اس نے جواب دیا ۔ اس لئے کہ ایک براؤذر میں فیس بک کا  صرف ایک ہی اکاؤنٹ کھل سکتا ہے۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا تو اس کامطلب ہے کہ فیک اکاؤنٹ آپریٹ ہورہے ہیں ؟ ہم سے تو ایک اپنا اکاؤنٹ ہی سنبھالا نہیں جاتا اور  تم چار چار اکاؤنٹس کا انتظام کیسے سنبھالتے ہو؟ اس پر وہ مسکرادیا اورایک فائل کھول کر دکھائی جس میں کوئی پندرہ بیس کے قریب آئی ڈیز لکھی ہوئی تھیں اور ان کے سامنے ان کے پاسورڈ درج تھے۔ ابھی اسی ذہنی کشمکش مبتلا تھا کہ اس کے پیچھے کون سا راز پنہا ہے، اس نے خود ہی وضاحت کر دی کہ وہ ایک سیاسی تنظیم کے یوتھ ونگ کیلئے کام کرتا ہے ۔الیکشن سے پہلے ساری آڈیز استعمال میں تھیں لیکن آجکل صرف چار تک محدود ہے ۔
"سیف" انداز جہاں کا رنگ بدل جاتا ہے 
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نئی ہے
میم سین

Wednesday, November 6, 2013

بلا عنوان

ایک میاں بیوی بچے کو اٹھائے میرے کمرے میں داخل ہوئے اور پوچھا ڈاکٹر مبشر آپ ہی ہیں ؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا ۔ تو مرد نے سلام لینے کیلئے ہاتھ آگے بڑھا دیا ۔ اور بتایا کہ میں ہڑپہ سے آیا ہوں اور مہر بہادر علی کے منشی نے بھیجا ہے ۔اس سے پہلے پوچھتا کہ وہ کون ہیں؟ اس نے خود ہی جواب دے دیاکہ اس کے بیٹے کی بیماری کو آپ سے آرام آیا تھا۔انہوں نےبہت سے ڈاکٹروں سے اپنے بچے کا علاج کروایا تھالیکن کہیں سے بھی شفا نصیب نہیں ہوئی تھی لیکن آپ سے صرف ایک بار چیک اپ کروایا تو وہ ٹھیک ہوگیا تھا۔ بڑی تعریف سنی ہے آپ کی!! اس سے پہلے کہ وہ اپنے قصیدے کا رنگ کچھ اور بڑھاتا، میں نے مداخلت کی کہ کیسے آنا ہوا ہے ؟ تو اس نے بتایا کہ وہ اپنے بچے کو چیک کروانے آئے ہیں۔ میں نے اپنائیت کے ساتھ بیٹھنے کو کہا اور پوچھا کہ بچے کو کیا تکلیف ہے؟تو کہنے لگا کہ آپ کی بہت تعریف سنی ہے خود ڈھونڈ کر بتائیں کہ بچے کو کیا مسئلہ ہے؟ ۔سمجھانے کی کچھ کوشش کی کہ بیماری کی نوعیت کے بارے میں کچھ تو بتا دیں لیکن وہ مصر رہے کہ آپ خود پتا لگائیں۔پھر اپنے تجربے کی بنیاد پر پوچھنا شروع کیا کہ کوئی نہ کوئی سرا ہاتھ آہی جائے گا
 بخار تو نہیں ہو رہا؟
نہیں
کھانسی؟
نہیں
دستوں کی شکائیت؟
نہیں ہے
الٹیاں تو نہیں کرتا؟
نہیں
مٹی تو نہیں کھاتا 
نہیں
دودھ کون سا پیتا ہے؟
 بھینس کا پیتا ہے 
اب مجھے تشویش ہونے لگی کہ بظاہر کوئی بیماری بھی نہیں ہے اور صحت بھی اچھی ہے تو پھر کیا مسئلہ ہوسکتا ہے؟ اور میرے سوالوں کے جواب میں زیادہ لب کشائی کے وہ قائل نہیں تھے۔ بلکہ میرے سوال ان کوناگوار گزر رہے تھے۔
کوئی خارش یا الرجی کی شکائیت تو نہیں ہے؟ 
نہیں
بھوک ٹھیک لگتی ہے؟
جی اسکا تو سارا دن منہ بند ہی نہیں ہوتا 
رات کو سکون سے سوتا ہے؟
جی ہاں ساری رات میں صرف ایک بار اٹھ کر فیڈر پی لیتا ہے۔
اب میں اپنی ناکامی اوراپنے  اوپر اعتماد اور یقین کے درمیان ملزم بنا بیٹھا تھا ۔ اور اس یقین کے بھرم کو قائم رکھنے کی خاطر بتایا کہ آپ کا بچہ بالکل ٹھیک ہے پھر بھی یہ ایک ٹانک لکھ رھا ہوں، کچھ عرصہ استعمال کروائیں ۔
مرد نے پرچی میرے ہاتھ سے پکڑی اور کچھ کہے بغیر بیوی اور بچے کے ہمراہ باہر نکل گیا۔ کچھ دیر بعد وہ مرد میرے ڈسپنسر کے ساتھ دوبارہ اندر آیا۔ اور کہنے لگا فیس کس بات کی؟ ساری باتیں تو ہم سے پوچھیں اور اصل بیماری پھر بھی ڈھونڈ نہیں سکے۔ ہم لوگ تو اس لئےآئے تھے کہ اس کی پھوپھی نے شک کا اظہار کیا تھا کہ بچے کو تندوا ہے،جس کی وجہ سے  یہ زیادہ باتیں نہیں کرتا، اورآپ صحیح تشخیص نہیں کر سکے۔ میں نے ایک سرد آہ بھری اور ڈسپنسر کو کہا انہیں جانے دو۔ مرد نے میرا لکھا ہوا نسخہ میری میز پر پھینکا اور کمرے سے نکل گیا۔ اور میں دیر تک بیٹھا سوچتا رہا کہ میری غلطی کہاں پر تھی؟؟ کیا میں واقعی تشخیص کرنے میں ناکام ہوگیا تھا یا پھر اس کا ذمہ دار شعبہ طب کا وہ نظام ہے جو ڈاکٹرز کو نبض کے علوم  سکھانے میں ناکام ہے؟ نبض بھی مریض کی نہیں اس کے باپ کی
میم سین

تندوا= tongue tie