Sunday, December 22, 2013

شعور کا المیہ


کباڑیے کی دکان پر، میں کس غرض سے گیا تھا، وہ تو میں بھول چکا تھا۔لیکن میں ایک جیتے جاگتے انسان سے ایک احساس میں ڈھل چکا تھا۔سٹیل کے ان گلاسوں کو جب لڑکی کے جہیز میں دینے کیلئے خریدا گیا ہوگا تو وہ پل کتنے مسحور کن ہوں گے۔ کسی نئے گھر کےسفر پر روانگی سے پہلے خوف اور خوشی کے ملے جلے جذبات کو کیسے سنبھالا ہوگا ؟ ڈھولکی بجی ہوگی تو دل کے دروازوں پر کتنے ساز ابھرے ہونگے۔نقرئی قہقہوں کے پیچھے کتنے شبنمی آنسو گرے ہونگے۔اپنی محبت کے خمیر سے کسی کی آبیاری کرنے کو کتنی بے چین ہوگی۔ریشمی بندھن کے خیال سے اس کے شہابی رخسار کتنی بار دمک اٹھے ہونگے ۔ 
قدآورآرائشی گلدان کو دیکھ کر اندازہ ہورہاتھا کہ جب نیا گھر بنایا ہوگا تو کتنے چاؤ کے ساتھ اس کے دروبام کو سجایا گیا ہوگا۔دیواروں پر فریم آویزاں کئے ہونگے۔چھوٹا سا ایک گھر، کتنا پر سکون ہوگا۔دن کو سورج کی کرنیں اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہونگی اور رات کو چاند کی روشنی اپنے حصار میں ۔ کمروں کو سفید کلی سے دھویا گیا ہوگا۔ دروازوں اور کھڑکیوں کو پردوں کے ساتھ ڈھانپا ہوگا۔کسی کمرے کے فرش کو دری سے سجایا ہوگا۔ نئی کرسیاں اور میز بھی خریدی ہونگی، اور صحن میں بھی کرسیاں لگائی ہونگی۔ گرمیوں میں صبح کو ان کرسیوں پر بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہونگے۔کبھی شام کی چائے کیلئے ان پر بیٹھتے ہونگے۔بچے ان کرسیوں پر بیٹھ کر سکول کا کام کرتے ہونگے۔ ایسے ہی کبھی جب بارش برکھا برستی ہوگی تو سب صحن میں موجود چیزوں کو بارش کے پانی سے بچانے کیلئے بھاگ کر برآمدے میں دھکیلتے ہوں گے۔ برسات بھی کیا خوب ہوتی ہے۔۔۔۔
ایک طرف پرانے کمپیوٹرز کا ڈھیر لگا ہوتھا ۔جب پہلی بار ان کو خریدا گیا ہوگا تو کتنی چاہتیں ہوں گی ان کے ساتھ۔کتنے خواب ہوں گے جن کے سہارے وہ نئی دنیائیں آباد کی گئی ہونگی۔نئے زمانے کے نئے انداز، نئے علم ، نیا شعور، نئی ترقیاں۔۔۔۔ کچھ دنیا سے رابطے کے خواب ہونگے، کچھ دوستوں یاروں سے ملنے کی خوشی ہوگی۔ کچھ کر دکھانے کی، کچھ سیکھ لینے کی جستجو ہوگی۔۔۔
ایک پرانا قالین دیکھ کر دھیان ڈرائینگ روم میں اس پر لگنے والی لڈو اور کیرم کی بازیوں کی طرف نکل گیا۔جیت اور شکست کےدرمیان ایک جستجو سینے میں مچلتی ہوگی۔دھوپ اور چھاؤں کی طرح ارمان دلوں میں مچلتے ہونگے۔ کسی کا فتح کا کوئی نعرہ بلند ہوتا ہوگا،کوئی سر جھکا کراپنی شکست سر تسلیم خم کرتا ہوگا۔ کسی کو دروازے پر لگے پردے کے اس پار کسی کے آنچل کی سرسراہٹ کا انتظار ہوگا۔ بچے اس پر کشتیاں کرتے ہوں گے۔ لڑتے جھگڑتے ہوں گے۔ کبھی پانی کا گلا س کسی ٹھوکر سے گر جاتا ہوگا تو ماں سے ڈانٹ کا سوچ کر سب کو سانپ سونگھ جاتا ہوگا۔
ایک پرانے سے ٹی وی کو دیکھ کر تنہایاں اور دھوپ کنارے یاد آگئے، اور اندھیرااجالا ، الف نون، ففٹی ففٹی، کے دن یاد آگئے۔جب آٹھ بجے کے بعد گلیاں ویران ہوجایا کرتی تھیں۔ جب شادیوں کی تاریخ رکھنے سے پہلے اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا ، اس دن کسی ڈرامے کا دن تو نہیں ہے۔ٹی وی ایک ساتھی کی طرح تھا جو ہر روز ایک نیا جذبہ لے کر آتا تھا،ایک نئی خوشی پہنچاتا تھا۔ایک جذباتی گرفت تھی ہر کسی کی زندگی کے اوپر۔۔
پرانی اخباروں کو دیکھ کر دل میں ایک آہ سی اٹھی کہ یہی وہ اخبار ہے۔ہر صبح جس کے انتظار میں نظریں گھر کے بیرون دروازے کا طواف کرتی تھیں۔ہر آہٹ پر دل دھڑکنے لگتا تھا۔کہیں آج دھند زیادہ تو نہیں، کہیں آج ٹرانسپورٹ کی ہڑتال تو نہیں،۔ جب تک اخبار ہاتھوں میں پہنچ نہیں جاتا تھا، ایسے ہی کتنے اندیشے سینے میں اٹھتے رہتے تھے۔ چند منٹوں کا انتظار گویا صدیوں کا سماں لئے ہوتا تھا۔۔
ایک ٹوٹی ہوئی سائیکل کے ٹوٹے ہوئے حصے، جو کبھی کسی نے اپنی کئی مہینوں کی جمع پونجی خرچ کرکے خریدی ہوئی ہوگی۔ جب وہ اس کے پیڈل پر پاؤں کا زور دیتا ہوگا تو خود کو ہوا مین اڑتا ہوا محسوس کرتا ہوگا۔اس کا ذہن تیزی سے بھاگتا ہوگا۔ وہ آسمان کو چھونا چاہتا ہوگا۔وہ ہر گلی ہر محلے ہر بستی کو ڈھونڈنا چاہتا ہوگا۔دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوتی ہونگی۔ لبوں پر کوئی گیت مچلتا ہوگا۔کسی کی یاد ستاتی ہوگی۔۔۔۔
پرانے برتن، مشروبات کی خالی بوتلیں، گھروں کے آرائشی سامان، پرانے قالین، دریاں، پرانے صوفے، الیکٹرانکس کا خراب سامان، ایسا ہی ان گنت سامان جب خریدا گیا ہوگا۔ تو ان کیلئے چاہت کے کتنے آلاؤ بھڑکے ہونگے، کتنے خواب دیکھے گئے ہوں گے۔ کتنے سپنے خیالوں میں ڈگمگائے ہونگے۔ کتنے منظر اپنی بے تاب روح کی تسکین کیلئے دیکھے ہونگے۔لیکن جب وقت گزرتاہے۔ان کی ضرورت ان کی طلب ان کی چاہت میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ جنون میں بھی وہ تڑپ باقی نہیں رہتی۔امنگوں میں بھی وہ جذباتیت موجود نہیں رہتی۔۔اور شائد اگر وہی خواب دوبارہ دیکھنے کا کہا جائے تو ان میں وہ لذت باقی نہ ہو جو پہلی بار محسوس کی تھی۔وہ دیوانگی نظر نہ آئے جو پہلی بار دکھائی دی تھی۔ایک جذبہ وہ تھا جو پہلی بار محسوس کیا تھا اور ایک جذبہ وہ ہے ، جس کا احساس آج دلایا جارہا ہے۔دونوں میں کتنا تضاد ہے ، کتنا فاصلہ ہے۔۔ 
شائد،شائد یہ حقیقت سے فرار ہےیا تسکین اپنی پیاس بجھا چکی ہوتی ہے۔ہم اپنی زندگی خوابوں کے تعاقب میں گزار دیتے ہیں۔۔جب تک یہ خواب قائم رہتے ہیں، تب تک سرشاری برقرار رہتی ہے۔جب یہ خواب حقیقتوں میں ڈھل جاتے ہیں ۔جب جذبوں کو زباں مل جاتی ہے۔ تو یہ حقیقتیں بہت جلد اپنی قدریں بھلا دیتی ہیں، اپنا وجودگنوادیتی ہیں۔ 
یا شائد ہم خودفریبی کی لذت کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ ہم خود آگہی کے سفر کی تلخیاں برداشت نہیں کرسکتے۔ زندگی میں ہم ہزاروں خواب دیکھتے ہیں۔ جو ہماری ملکیت ہوتے ہیں اور ہم ان سے دستبرداری پرتیار نہیں ہوتے۔لیکن جب یہ خواب ہم سے چھین کر حقیقتوں میں ڈھال دیے جاتے ہیں،توجذبات کی بدمست موجوں میں وہ سکون آجاتا ہے جو دریائوں کے پہاڑی علاقوں سے نکل کر میدانی علاقوں میں بہنے میں آجاتا ہے۔۔۔۔
رات بھر کے خوابوں کو جب تعبیر ملتی ہے تو وہ فرحت بخش تسکین میں ڈھل جاتے ہیں۔لیکن ان خوابوں کا ایک شعور ہوتا ہے۔وہ شعور خودآگہی کے ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔جن باتوں پر آپ آج اصرار کر رہے ہوتے ہیں کل ان کی نفی میں دلائل گھڑ رہے ہوتے ہیں۔۔جن باتوں کو آج حتمی سمجھ رہے ہوتے ہیں، کل ان کے ارتقا کے بارے میں نوید سنا رہے ہوتے ہیں۔۔آج جن نظریات کے ترجمان ہیں، ہوسکتا ہے کل وہ نظریات اپنا مفہوم کھو چکے ہوں۔ہر دور کا ایک شعور ہوتا ہے۔اس دور کے فیصلوں، رویوں، قدروں، کو اس شعور کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن ہم آج کے شعور کو لیکر ماضی کے احساسات اور اور جذبات سے لیکر آج کے سماج کی آلائشوں اور خواہشوں کو ایک ہی لڑی پر پڑونا شروع کردیتے ہیں. آج کے شعور کو حتمی سمجھتے ہوئے ماضی کے شعور کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں،انکار تو کیا اس کے وجود سے ہی انکاری ہوجاتے ہیں۔۔جو لاشعوری طور پر ایک تعصب کو جنم دیتا ہے۔وہ تعصب جو ہماری بیمارنسل کی اصل بیماری ہے۔
میم سین

Thursday, December 19, 2013

لافانی لمحے



لافانی لمحے


زندگی میں ہر شے کا مول نہیں ہوا کرتا۔کچھ چیزیں انمول ہوا کرتی ہیں۔ جیسے رشتوں کی قیمت، خلوص کا معیار، جیسے محبتوں کا ترازو ،سچائی کی پاکیزگی،جیسے وفا کی لطافت۔۔۔۔۔۔
لیکن میں یہ سب کچھ ایک ان پڑھ اور دیہاتی عورت کو کیسے سمجھاتا؟ ایک ایسی عورت جس نے اپنی آنکھ ہی خودغرض ، اناپرست ، خواہشوں اور محرومیوں کے معاشرے میں کھولی ہو۔ اسے محبت کے ان لازوال جذبوں کی داستان کیسے سمجھاتا ؟۔ کچھ چیزیں لافانی ہوتی ہیں۔جن کا حصول انسانی معراج ہوتا ہے۔کچھ جذبے ایسے ہوتے ہیں جو سچائی کے آئینہ دارہوتے ہیں۔ایسے جذبے جو جینے کی امنگ پیدا کرتے ہیں۔ایسے جذبے جن پر تہذیب فخر کرتی ہے۔ایسے جذبےجو ذہنوں کو جلا بخشتے ہیں۔ 
لیکن میں یہ سب باتیں کیسے سمجھا سکتا تھا ؟  میں نے دعاؤں کی درخواست کرتے ہوئے بوڑھی اماں سے رخصت چاہی۔ یہ اس رات کا واقعہ ہے جس کی اگلی صبح اناٹومی بی کا پیپر تھا۔ سبھی لڑکے اپنے پیپر کی تیاری میں مصروف تھے ۔صرف مصروف ہی نہیں بلکہ پیپر کی ٹینشن نے ان کے چہروں کی ساری خوشیاں ہی چھین لی تھیں۔ ساری مسکراہٹیں خزاں زدہ ہو گئی تھیں۔ ایک لڑکے نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ حشر کے امتحان کے بعد دنیا کا سب سے مشکل امتحان یہی ہے۔
 جب مسلسل پڑھائی سے آنکھوں میں تھکاوٹ کے آثار نمایاں ہونے لگے تو رات دس بجے کے لگ بھگ میں نے چائے پینے کی غرض سے کینٹین کا رخ کیا۔ ابھی ہوسٹل کے دروازے سے باہر نکلا ہوں تو  نجیف سا پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک ادھیڑعمر کے شخص نے مجھے روک کر ایک پرچی میری طرف بڑھا دی۔اور مجھے بتایا کہ میری بیٹی جناح ہسپتال میں داخل ہے اس کا فوری طور پر بڑا آپریشن ہونا ہے لیکن خون کا بندبست نہیں ہو پارہا۔ میں نے پرچی لیکر پڑھی تو اس پر بی نیگیٹو لکھا ہواتھا۔جو کہ میرا بھی گروپ تھا۔ اس کی بیچارگی اور مفلوک الحالی دیکھ کر ایک لمحے کو میرا دل پسیجا لیکن پھر پیپر کا خوف میرے اوپر حاوی ہوگیا۔ اور میں نے ٹالنے کی غرض سے دوسرے ہوسٹل کی طرف روانہ کرنے کا ارادہ کیا ۔لیکن اسی گھڑی، اخلاق اور اقدار کی موجیں فرض اور احساس کی چٹانوں کے ساتھ ٹکرائیں تو میں ایک لمحے کو آنے والے کل کی پریشانی کو بھول کر اس کے ساتھ جانے کو تیار ہوگیا۔
جب واپس آیا ہوں تو دوستوں کے دیر سے آنے کی وجہ پوچھنے پر بتایا کہ لائیبریری چلا گیا تھا۔ جھوٹ بول کر میں نے نیکی کے اس جذبے کے بھرم کو تحفظ دینے کی کوشش کی تھی جو میری امتحان میں ناکامی کی صورت میں فرض اور تکمیلِ فرض کے فلسفے کو سوالیہ نشان بنا دیتی۔اور میں ضمیر کے بوجھ تلے زندگی کے احساس اور اورہر جذبے سے خالی ہوجاتا۔
اگلی صبح میرا پیپر، توقع کے برخلاف بہت اچھا ہوا اور اسی شادمانی کے نشے میں جناح ہسپتال کے گائنی وارڈ کا رخ کیا۔ وارڈ میں لگے بیسیوں بیڈز پر رات والے مریض کے اہل خانہ کو پہچاننا بہت مشکل تھا لیکن ایک بوڑھی اماں نے آگے بڑھ کر میرا استقبال کیا اور مجھے ایک عورت کے بستر تک لے گئی، جس کے پہلو میں ایک نوزائیدہ فرشتہ آنکھیں بند کئے ساری دنیا سے بے خبر سو رہا تھا۔فرط مسرت سے میرے چہرے پر ایک بے ساختہ مسکراہٹ آگئی۔میں اس بچے کی روح سے بات کرسکتا تھا کیونکہ میں جس کیفیت سے گزر رہا تھا،وہ زبان کی محتاج نہیں تھی۔میری روح جس سرشاری سے ہمکنار ہو رہی تھی، وہ لافانی تھی۔میرا من جو ابھی تک بے یقینی کی تاریکی میں لپٹا ہوا تھا ایک دم روشنیوں مین نہا گیا۔ میں نے انسانی جذبوں کے وارث ہونے کا ثبوت دیا تھا اور روح کی بالیدگی کی طرف پہلا قدم اٹھایاتھا،جس نے قناعت اور سنجیدگی کے جذبے اور احساس سے روشناس کروایا تھا۔
میں جونہی وارڈ سے باہر نکلا ہوں ۔بوڑھی اماں عقیدت کے موتی سنبھالے، پانچ سو کا نوٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے اسے قبول کرنے پر اصرار کرنے لگیں۔ میں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ میں تو انسانی جذبوں کا امین ہوں میں ان جذبوں کا بیوپاری کیسے بن سکتا ہوں؟میں نے جاگتی آنکھوں کے ساتھ فردوسی سرور کو محسوس کیا ہے، میں اس کا سودا کیسے کر لوں؟ لیکن سادہ دل دیہاتی عورت کو ان لمحوں کے مخمور جھونکوں کی کیا خبر جو مسرتوں کے سندیسے لیکر میری زندگی میں آئے تھے۔جو میری روح کو گداز کرگئے تھے۔مجھے کیف اور وجدان سے ہمکنار کر گئے تھے۔یہ چند لمحے ہی تو تھے ۔لیکن کتنے دلفریب، کتنے لطف انگیزتھے،کتنے پاکیزہ، کتنے مخمور لمحے تھے۔ لیکن کبھی کبھی یہ چند لمحے آپ کی عطائے زندگی بن جاتے ہیں۔

میم سین

Sunday, December 15, 2013

آہوں کا دریا

ہر دن کی طرح کا یہ ایک عام سا دن ہے۔ اور میں اپنے معمول کے مطابق بستر سے نکلتا ہوں۔تیار ہوکر  کلینک کیلئے روانہ ہوتا ہوں۔ ابھی کچھ سفرطے کیا ہے کہ ایک جیپ تیزی سے مجھے اوور ٹیک کرتی ہے اور ڈرائیور کی سیٹ پر موجود شخص ہاتھ کے اشارے سے مجھے رکنے کا کہہ رہا ہے۔ میں ساری صورتحال کو نہ سمجھتے ہوئے بریک لگا کر گاڑی کو سڑک کی ایک طرف لے جاتا ہوں۔ جیپ میں سے بڑی سرعت کے ساتھ تین افراد نکلتے ہیں اور میری جانب بڑھتے ہیں ۔ میں ان سے بات کرنے کیلئے باہر نکلتا ہوں ۔ لیکن ایک شخص مجھے دھکا دے کر سڑک پر گرا لیتا ہے اور میرے ہاتھوں کو کھینچ کر کمر کے ساتھ لگا کر باندھ دیتا ہے ۔اور ایک سیاہ کپڑامیرے چہرے پرچڑھا کر مجھے اٹھا کر اپنی جیپ کے پچھلے حصے میں پھینکتے ہیں اور کسی نامعلوم جگہ پہنچا دیا جاتا ہے۔شہر میں اسے اغوا کی ایک کہانی سمجھ کراس پر مختلف تبصرے کئے جاتے ہیں۔اخبار کے کسی صفحے پر اغوا کی ایک سطری خبر بھی چھپتی ہے۔ مریض چند دن تک کلینک کا رخ کرتے ہیں اور پھر تالا لگا دیکھ کر دوسرے ہسپتالوں کا رخ کرلیتے ہیں۔ گھر میں ایک کہرام مچتا ہے اور رشتے دار بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ گمشدگی کاکوئی سراغ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن چند دن بعدزندگی معمول پر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ اور پھر ایک دن کسی نامعلوم شخص کی فون کال آتی ہے کہ ڈاکٹر ایجنسیوں کی تحویل میں ہے، فکر نہ کریں۔چند دن میں واپس آجائے گا۔ دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدل جاتے ہیں ۔ ماں باپ اپنے بیٹے کو دیکھنے کی حسرت لئے اپنی تمناؤں کا گلا گھونٹ کر اس دنیا سے کوچ کرجاتے ہیں۔ بیوی خاوند کی زندگی میں ہی بیوگی کو سینے سے لگا لیتی ہے اورزندگی بھر کیلئے آنسوؤں کا کفن پہن لیتی ہے۔ بچے باپ کے دنیا میں ہوتے ہوئے بھی یتیمی کو گلے لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔محرومیوں کا احساس لئے، یہ پھول زندگی بھر کیلئے بکھر جاتے ہیں۔اگر قسمت نے ساتھ دیا تو یہ بچے کسی لاغر ٹی بی زدہ شخص کو آخری سانسیں لیتے ہوئے دیکھ لیں گے۔ورنہ ان کی ساری عمر کسی معجزے کے انتظار میں ،تہذیب کے دامن پر سچائی اورانصاف کے چھینٹے ڈھونڈنے میں گزر جائے گی ۔
میم۔سین