Tuesday, December 30, 2014

میرے قلم سے

آج ایک مریض نے بتایا کہ اسے کمر کی تکلیف تھی..بہت علاج کروایا...ایم آر آئی بھی ہوا ..بہت ڈاکٹر بھی تبدیل کرکے دیکھے لیکن نہ تو کسی کو بیماری سمجھ میں آئی اور نہ ہی کسی کی دوائی سے کوئی آرام آیا...کسی نے اسے کچی لسی پینے کا مشورہ دیا...جس سے اس کی کمر کی تکلیف ٹھیک ہوگئی...اب دو سال سے وہ کچی لسی پر ہے...میرے پاس وہ یہ پوچھنے آیا تھا کہ کیا کچی لسی زیادہ پینے سے اسے بواسیر ہوئی ہے؟؟؟؟

میم سین

Monday, June 30, 2014

ایک احساس

جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس (کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے۔ وہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے( سورۃ بقرہ آیت 261

میں ایسے الفاظ کا سہارا نہیں لے سکتا جن میں میرا دل دھڑکتا ہو۔کیونکہ الفاظ کی روح کو میں نے بھاری پتھر کے نیچے دبا دیا ہے۔میں ہمیشہ سے سنگ بہاروں کی تلاش میں رہتا تھا۔گل پوش وادیوں کی سحر انگیزیاں ڈھونڈنے کی سعی میں رہتا تھا۔صبح کی فضائوں میں شبنم کے قطروں سے پیاس بجھانا چاہتا تھا۔لیکن یہ کیسا شعلہ لپکا ہے کہ جس نے میرے سحر انگیز خوابوں کو جھلسا کر رکھ دی ہے۔ میری تمنائوں میں ایک بھونچال  لے آیا ہے۔یہ کیسی بپتا ہے کہ جس نے تاریخ کا منہ موڑ کے رکھ دیا ہے۔
بات بہت سادہ اور آسان ہے لیکن بات سمجھنے کی ہے۔میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ طالبان خارجی ہیں یا صحیح العقیدہ مسلمان ہیں۔ وہ اسلام کی اصل چہرے کو پیش کر رہے ہیں یا پھر وہ گمراہ گروہ ہے۔ یا پھر یہ کہ فوج کا اقدام درست ہے یا پھر وہ بھی کسی کے اشاروں پر چل رہی ہے لیکن اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ لاکھوں افراد اپنے گھروں سے نکل کر کھلے آسمان کے نیچے بے سروسامانی کا شکار ہیں۔کیا وہ ہمارے مسلمان بھائی نہیں ہیں؟کیا وہ انسان نہیں ہیں۔؟ اآخر ان کو کس بات کی سزا دی گئی ہے؟؟

اگر ہم نماز پڑھتے ہیں۔ روزے رکھ رہے ہیں۔تو یقیناً ہم مسلمان ہیں ۔ اور مسلمان ایک جسم کی مانند ہوتے ہیں۔اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارے جسم میں درد محسوس ہوتا ہے۔ تو آئیے اس درد کو محسوس کریں۔یہ کوئی فریاد نہیں ہے کوئی التجا نہیں ہے۔یہ زندگی کے حق کی پکار ہے۔اس جذبے کی تلاش ہے جس کے بنا فطرت کے سارے رنگ پھیکے ہیں۔بے رنگ ہیں۔ادھورے ہیں۔ وہ جذبہ ہے اخوت کا، بھائی چارے کا۔ہم اس سارے درد کا کوئی علاج نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار ضرور کر سکتے ہیں۔تشفی کے دو بول تو بول سکتے ہیں۔ نیکی کے جس جذبے سے فطرت نے ہمیں مالا مال کیا ہے اس جذبے کو بروئےکار لا کر ان کے سروں پر شفقت کا ہاتھ تو رکھ سکتے ہیں۔۔کیا ایسا نہیں ہوسکتا،اس سال اپنے عمرے کا خرچ ان مسلمان بھائیوں کے نام کر دیں۔ دوستوں کیلئے مختص افطاری پر اٹھنے والے اخراجات کو ان بے گھر افراد کے نام کر دیں۔ہماری نیکیوں کا سہارا وہ لوگ بنیں جو اپنے گھروں سے بے گھر ہوگئے ہیں۔ پر تکلف سحروافطار کے وقت ان مظلوم گھرانوں کو یاد رکھیں جو اس وقت مصیبت سے گزر رہے ہیں۔بےشمار ادارے اور فلاحی تنظیمیں ان بےسہارا افراد کی مدد کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔فلاح انسانیت فائونڈیشن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ کتنے احسن طریقے سے ان بے سہارا افراد کی مدد کر رہے ہیں۔ الخدمت والوں کا کام بھی قابل تعریف ہے۔اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں ایسی ہی بےشمار تنظیمیں ہیں جن کے ذریعے سے آپ اپنےبھائیوں تک پہنچ سکتے ہیں۔

لیکن مجھے ڈر لگتا ہے۔ کہیں اپنی امنگوں کے گھوڑے دوڑاتے ، حالات سے لاتعلقی کے مسلسل رویے، ہماری زندگیوں میں بھی وہ دن نہ لے آئیں، جب ہمارے شہروں میں بھی صبا کی بجائے صرصر چلے گی۔ کوئل کی کوک میں آہ ہوگی اور بلبل گیتوں کی بجائے نوحے گائیں گی۔کلیاں چٹخنے سے پہلے نوچ لی جائیں گی۔مسرتیں دھندلا جائیں گی۔ نگہتیوں سے محروم کر دیا جائے گا۔مجھے ڈر لگتا ہے جب میرے بدن میں کانٹے چبھ رہے ہونگےاور کسی کا اس تکلیف کا احساس تک نہ ہوپائے گا۔۔۔۔۔
میم سین

Sunday, June 15, 2014

اور بھی غم ہیں زمانے میں

ضرورت ہے ایک ایسےنوٹس بورڈ کی، جو ہر کلینک میں موجود ہو۔ جس پر تنبیہ ہو کہ اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے مریضوں کا آپس میں گفتگو کرنا سخت منع ہے ۔ورنہ ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ جب تک مریض کی باری نہیں آجاتی تب تک یقین سے کہنا مشکل ہوتا ہے کہ مریض ڈاکٹر سے چیک اپ کروا کر ہی کلینک سے نکلے گا۔ اگر باری آنے میں زیادہ دیر ہوجائے تو کسی پیر فقیر، حکیم یا کسی دوسرے قابل ڈاکٹر کی اطلاع بمع ایڈریس اور کرامات کے مل چکی ہوتی ہےیا پھر کوئی مجرب نسخہ ہاتھ آچکا ہوتا ہے ۔۔۔
اف توبہ ہے!!! پانچ دن کے بچے کو یوں لوگوں کے درمیان لیکر بیٹھی ہو، نظر لگ گئی تو؟؟؟ ۔۔۔۔۔ یہ کیا ؟    تم یہاں کس کے پاس علاج کروانے آگئے ہو، یہ پاس کی بستی میں ڈاکٹر جمن ہے نا۔اللہ نے بڑی شفا دے رکھی ہے،ان کے ہاتھ میں۔ بس ایک بار جائو دوبارہ دوائی لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی !!! تو بھائی تم یہاں کیا کر رہے ہو؟؟  :) ۔۔۔۔ اوئے ہوئے۔بچے کو خسرہ نکلا ہوا ہے اور تم دوائی لینے آگئی ہو، اس کو منکا کھلائو۔۔کوئی سوگی کھلائو تاکہ اس کے دانے باہر نکلیں اوراس بات کا خصوصی خیال رکھو کہ بچے کو نہلانا ہر گزنہیں ہے۔۔۔شوگر کیلئے کریلوں کا پانی بہت مفید ہوتا ہے۔دوائی بند کرو اور آج سے ہی یہ نسخہ شروع کردو اور اگر کولیسٹرول بھی زیادہ ہے تو بھائی تھوم چبایا کرو اور ادرک کا پانی پیا کرو۔۔۔۔۔ مجھے تو تمہارے بچے پر سایہ نظر آرھا ہے، اسے ڈاکٹر کی نہیں کسی دم کرنے والے کی ضرورت ہے ۔۔۔ڈاکٹر تو ایسے ہی شوگر کو ہر تکلیف کی وجہ قرار دیتے رہتے ہیں۔ نیم کے پتوں والا پانی لو اور دن میں تین چار دفعہ زخم کو دھو دیا کرو۔ دیکھنا کیسے زخم ٹھیک نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ تمہیں گرمی کا بخار ہے اور گرمی کا توڑ گرمی سے ہی ہوسکتا ہے اس لئے آم کا ملک شیک بار بار استعمال کرو۔۔۔۔۔تمہارے بچے کا سر بڑھ رھا ہے۔بابادھونی شاہ ہر جمعرات کو سر بڑھنے کا دم کرتا ہے۔بخار کی دوا بعد میں لے لینا۔ پہلے دم کروا لو کیونکہ آج جمعرات ہے۔۔۔۔ تمہارے بچے کو سوکڑہ ہے ، فلاں پیر صاحب کے پاس بڑ ا پکا دم ہے اس کا ۔۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے تمہیں جگر کی گرمی ہے، اور ڈاکٹر نے دوائیاں لکھ چھوڑنی ہیں ، بہتر ہے گنے کا رس پیئو۔ میری پھوپھو کو بھی یہی علامتیں تھیں ۔ وہ اور بات ہے اللہ نے ان کی عمر ہی اتنی لکھی ہوئی تھی۔ ۔۔یہ کیا ؟؟ بخار میں روٹی کھاتے رہے اور اوپر سے گرم دوائیاں کھانے کیلئے ڈاکٹر کے پاس آگئے ہو۔۔۔کنجوانی موڑ والے حکیم شادے کی پھکی استعمال کرو۔جگر کی ساری گرمی دور   نہ ہوئی تو مجھے کہنا۔معدے کا سارا ضعف دور ہوجائے گا۔۔۔۔بواسیر ہے تو کیا ہوا۔توڑکمُوں کا رس نکال کر دن میں تین چار دفعہ استعمال کرو۔بواسیر رہے گی یا پھر۔۔۔۔۔ جگر اور معدے کا علاج تو ایلوپیتھک طریقہ علاج میں ہے ہی نہیں۔رات کواسپغول کا برادہ دودھ میں ڈال کر استعمال کیا کرو اور صبح کو باداموں کی سردائی نہار منہ پیا کرو ۔۔۔ گردے میں پتھری ہے تو یہاںکیا لینے آئے ہو؟ ہومیوپیتھک کے قطرے پیئو، تین دن میں پتھری نکل جائے گی۔گارنٹی کے ساتھ۔۔۔ڈاکٹر جو بھی دوائی کی مقدار بتائے اس سے آدھی لینا چاہیئے، ورنہ خواہمخواہ انتریوں میں خشکی ہوجائے گی۔۔۔ بچہ دو ماہ کا ہوگیا ہے اور ابھی تک دوسرا دودھ نہیں دیا؟ ابھی سے فیڈر شروع کر دو ، ورنہ بعد میں بڑی مشکل ہوگی۔ دودھ نہ سہی کوئی گلوکوز یا پھر شیزان کی بوتل ہی پلا دیا کرو۔۔۔۔
میم سین

Thursday, June 12, 2014

محاورے

میرا ہمیشہ سے خیال رھا ہے کہ محاورے لفظوں کا وہ گھورکھ دھندہ ہیں، جن کی حقیقت تو مشکوک ہوتی ہے لیکن ہمیشہ کسی بھی بحث میں دلائل کا وزن بڑھانے کے کام آتے ہیں ۔ لیکن اب مجھے یقین آگیا ہے کہ محاورے عاریتاً لئے الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتے بلکہ وقت کی آنچ میں پک کر سچائی کا ایک اظہار ہوتے ہیں
ناہید نے بی اے کر لیا تو گھرداری کی ذمہ داری اس کے حوالے کر دی گئی۔ ہر متوسط گھرانے کی طرح اس کے والدین کو بھی اس کے رشتے کی فکر شروع ہوگئی۔ کچھ وچولنوں سے بھی مدد چاہی تھی ۔ خاندان میں بھی لڑکے دیکھے جارہے تھے،۔کچھ دوستوں اور قریبی احباب کو بھی اس معاملے میں مدد کرنے کو کہہ رکھا تھا۔ لیکن بی اے کئے چار سال گزر چکے تھے لیکن ابھی تک کوئی مناسب لڑکا مل نہیں سکا تھا۔اور ناہید کی ماں ایک روایتی ماں کی طرح اس غم میں گھٹی جارہی تھی کہ سب سے بڑی کا رشتہ کہیں طے پائے تو دوسروں کی بھی باری آئے۔
فروری کا مہینہ تھا  اور دوپہر کا وقت  ۔ بچے سکول گئے ہوئے تھے کہ گھر پر دستک ہوئی ۔ دروازہ کھولا تو ایک مرد اور دو خواتین سامنے کھڑی تھیں۔ سلام کے انداز اور ظاہری حلئے سے کسی معزز گھرانے سے لگ رہے تھے۔ جب اپنی آمد کی وجہ اپنے بیٹے کیلئے رشتے کی تلاش بتایا تو    ناہید کی ماں نے فوراً ہی ڈرائینگ روم کا دروازہ کھولا اور ان کو اندر بٹھا دیا ۔ بوتلیں پیش کیں ،چائے کا پوچھا۔جب بات چیت شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ مہمان غلط گھر میں آگئے ہیں اور جس گھرانے کے بارے میں ان کو بتایا گیا تھا وہ اگلی گلی میں تھا۔ مہمانوں نے اپنی شرمندگی کااظہار کیا اور معذرت بھی کی اور درست پتا معلوم کرکے اجازت چاہی ۔
ایک دو دن اس بات کا چرچا گھر میں رھا لیکن پھر سب نے فراموش کر دی۔ لیکن یہ کوئی لگ بھگ پندرہ دن بعد کا واقعہ ہے جب وہی مہمان دوبارہ دروازے پر کھڑے تھے۔ اور پہلی بات جو انہوں نے ناہید کی ماں سے کہی وہ یہ تھی ۔ آج ہم لوگ غلطی سے آپ کے گھر تشریف نہیں لائے۔ بلکہ اپنے بیٹے کیلئے آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے آئے ہیں۔ بات چیت آگے بڑھی اور چند دن بعد منگنی میں بدل گئی۔
اور پرسوں جب ناہید کی ڈولی اٹھی تو مجھےاس محاورے پر یقین آگیا ہے کہ رشتے آسمانوں پر ہی بنتے ہیں
میم سین

Wednesday, May 28, 2014

ڈائری کے اوراق

لوگ کہتے ہیں میری روح میں ایک بوڑھا   انسان چھپ گیا ہے۔ میری سوچوں میں ایک تھکن ہے۔ میرے ارادوں میں پہلے جیسی تڑپ باقی نہیں ہے۔میں الجھا رہتا ہوں ۔کہیں کھویا رہتا ہوں. میری باتوں میں دل دھڑکتا تھا۔لیکن اب وہ دھڑکن سنائی نہیں دیتی ۔میرے ارادے ہمالیہ کے پہاڑوں سے بلند تھے۔میرے خیالات میں پہاڑی چشموں کی سی تازگی تھی۔ میرے نظریات سحرانگیز تھے۔ لوگ کہتے ہیں، تمہیں قدرت نے ایک امتیاز بخشا تھا۔ سوچ میں، سمجھ میں ۔ ایک فطری فنکار کی طرح بن مانگے ,لوگوں کے حصے کی شمعیں روشن کر دیتے تھے۔ میں تنہائی کے لمحوں کے لہجے کو محسوس کر سکتا  تھا۔محرومیاں کہاں سے جنم لیتیں؟ لیکن وہ روشنیاں کہاں چلی گئیں جو میرے ذہن سے پھوٹتی تھیں؟۔
تیرہ مئی 1998
معلوم نہیں آج میں کیسے ٹی وی روم جا پہنچا جہاں واجپائی صاحب ایٹمی دھماکوں کے بعد تقریر کر رہے تھے۔ ا س کی تقریر کا ایک ایک لفظ زہر میں لپٹا ہوا تھا ۔ اس کی آواز میں ایک غرورتھا۔ اس کے لہجے میں ایک تمسخر تھا۔ایک حقارت تھی۔ اس کی تقریر نے میرے اندر ایک آگ لگا دی ہے۔ ایک ہلچل مچا دی ہے۔ میں اپنے ہی اندر سلگ رھا ہوں۔ ایک تڑپ ہے. ایک کسک ہے جس نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بے چینی ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے، تڑپ ہے کہ میں اس کی شدت کونظرانداز نہیں کر پا رھا ہوں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ہم جواب ضرور دیں گے۔ پاکستان جلد حساب چکا دے گا 
بائیس مئی 1998
جوں جوں دن گزرتے جا رہے ہیں، شہبات جنم لینے لگے ہیں۔ توہمات نے میرے یقین کی جگہ لینا شروع کر دی ہے۔ بے چینی میں کیسے کیسے خیالات نے میرے گرد ہالے بننا شروع کر دیئے ہیں۔وسوے ہیں کہ میرا پیچھا چھوڑ نہیں رہے ۔ میرا ذہن بھاری بھر کم خیالات سے بوجھل ہورھا ہے۔ میں اندیشوں کے سائے تلے محرومیوں کی فصل تیار کرنے میں محو ہوں۔ کون کہاں جا رھا ہے مجھے کوئی پروا نہیں ۔ کالج، کالج کی فضا، دوست ، احباب سب کسی مضمہل صبح کی طرح تھکے تھکے دکھائی دے رہے ہیں۔ کوئی ہنس رھا ہے یا رو رہا ہے مجھے کوئی خبر نہیں ہے۔ کوئی شادمانی میں گنگنا رھا ہے یاپھر کوئی آنکھوں سے آنسوؤں کی پھیلجڑیاں سجا رھا ہے۔ مجھے کچھ سجائی نہیں دے رھا ۔ انتظار میں ہر دن قیامت کا سماں لئے ہوئے ہے ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ میرے وہم کا غار تاریکی میں ڈوبتا جا رھا ہے ۔ کمتری کا ایک احساس ہے جو بڑھتا جا رھا ہے ۔ میں ہر آنے والے دن کے ساتھ خود کو حقیر سمجھ رھا ہوں۔میں جو ہمیشہ رفعتوں کو چھونے کی باتیں کرتا تھا کسی گھپ اندھیرے میں گم ہوتا جارھا ہوں۔
چھبیس مئی 1998
زندگی مین یہ وحشت کہاں سے آگئی ہے؟ لوگ زندگی میں کیوں مصروف ہیں؟ انہیں افق پر پھیلی محرومیت کا احساس کیوں نہیں ہورھا؟ یہ اداسی کا غبار انہیں دکھائی کیوں نہیں دے رھا؟ میں کیسے یقین کر لوں کچھ نہیں ہوگا۔ کوئی معجزہ ہونے والا نہیں ہے۔ یہ فرض کر لینا کتنا مشکل ہے کہ ہم صلاحیت نہیں رکھتے، ہماری کوششیں سب بیکار کی تھیں۔ میرے سب خواب محض خواب تھے ۔کتنا مشکل ہے دل کو سمجھانا ۔ احساس کمتری کے اس جذبے سے کیسے جان چھڑا پاؤں گا؟۔ اپنے حصے میں آئی حقارت کو کیس دھو سکوں گا؟ میں یہ سب کچھ کیسے مان لوں ؟ دل چاہ رھا ہے اپنی بے بسی کا ڈھنڈورہ پیٹوں۔ اتنا روؤں کہ اپنے آنسو خشک کر لوں۔ زندگی شائد میرے لئے زندگی نہ رہے۔ لوگ کہتے ہیں زندگی میں کچھ بعید نہیں ہے لیکن میں کوئی انہونی نہیں دیکھ رھا۔میں تاریکی سے نہیں ڈرتا میں موت سے بھی کبھی خوفزدہ نہیں ہوا لیکن میں اس احساس کمتری میں زیادہ دیر جی نہیں سکتا جس میں تیرہ مئی سے مبتلا ہوں۔
اٹھائیس مئی 1998
ٓآج میں سوئمنگ پول میں اکیلا ہی خود کو بہلانے کی کوشش کر رھا تھا جب کسی کی مسرت وشادمانی میں ڈوبی آواز میں نعرہ بلند ہواکہ پاکستان نے کامیاب ایٹمی دھماکے کر دیئے ہیں۔کون کہتا ہے کہ صرف حسن اور عشق کی شیرینی کا مزہ دیدنی ہوتا ہے، جو سرشاری ،احساس برتری میں ہوتی ہے اس کابھی کوئی جواب نہیں ۔کتنا حسین تصور ہے اور کتنا انوکھا اور عجیب احساس تھا۔ شدت جذبات سے آنسو میری آنکھوں سے نکل آئے۔ دنیا ناچتی ہوئی نظر آرہی تھی اور کائنات کسی جنوں میں رقصاں ۔میرا انگ انگ خوشی سے سرشار تھا۔ میرا رواں رواں کسی نشے میں دھت۔
اٹھائیس مئی کو میں نے اپنے خوابوں کی  ایک عمارت قائم کی تھی۔ایک ایسی عمارت جو ناقابل تسخیر تھی۔ اس شجر کی مانند تھی جس کا سایہ ابدی تھا۔ جس کی بنیاد میں میرے جذبے تھے، امنگیں تھیں۔ جس میں میرے ارادوں کی پختگی شامل تھی جس میں میرے رویوں کی سچائی شامل تھی۔میں نے اپنی فطرت کی ساری سچائیاں اس عمارت میں لگا دیں تھیں۔
لیکن بیس اگست انیس سو اٹھانوے ے کو میری اس عمارت پر پہلی ضرب پڑی تھی جب امریکی میزائل پاکستان کی فضا کو عبور کرکے خوست میں گرے تھے۔ ابھی لرزتی اس عمارت کو تھام رھا تھا کہ کارگل سے فوجیں واپس بلانے کا اعلان سامنے آگیا۔اور پھر نائن الیون اور ملا عمر کی حکومت کی بے دخلی نے اس کو ہلا کر رکھ دیا۔ میزائل بغداد کی فضائیں چیر رہے تھے اور عمارت میرے خوابوں کی لرز رہی تھی۔ لیکن میں نے کبھی حوصلہ نہیں چھوڑا۔ میں پھر بھی امید کی اس کرن کے ساتھ بندھا رھا جو میں نے اٹھائیس مئی کو دیکھی تھی۔ بارود کی بدبو کابل سے نکل کر میرے ملک کی فضاؤں میں پھیلنے لگی ۔ میرے ہی وطن کے گھر گھر سے لاشیں اٹھنے لگیں۔ کہیں بم دھماکوں کے دھویں نے میری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھا تو کبھی ڈرون حملوں نے اس کی سالمیت کو سوالیہ نشان بنائے رکھا۔ میری روح جھلسنے لگی۔میں دیوانہ وار اپنی عمارت کو شکست وریخت سے بچانے کیلئے تگ ودو کرتا رھا۔وہ لمحے کتنے اذیت ناک تھے جب ساری سرشاری، گرم جوشی اس عمارت کو سنبھالنے میں لگ گئی تھی۔وہ عمارت، جس میں میری زندگی کا حاصل جمع ہے۔میں ٹوٹ گیا ، میں بکھر چکا  رھا ہوں۔میری زندگی کی کلی مرجھا  رہی ہے۔ زندگی بے معنی ہو رہی ہے۔ آج میرے جذبات اور احساسات کا محور صرف اور صرف وہ شکستہ عمارت ہے جس کو میں نے تھام رکھا ہے۔ وہ میرا بھرم ہے اور میں اپنے بھرم کو اتنی آسانی سے ٹوٹنے نہیں دے سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں شائد لوگ ٹھیک کہتے ہیں ۔میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ آگہی کا شعور انسان کو بوڑھا کر دیتا ہے ۔میں تنہا تھا مگر دلیر تھا۔ میں زندگی کی دوڑ میں شریک تھا مگر مستقل مزاج تھا۔میں خود اعتمادی کی نعمت سے مالا مال تھا۔ میں ساری کائینات کو للکارنے کا حوصلہ رکھتا تھا۔لیکن حقائق و واقعات نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے ۔ماضی کے شعور سے رشتہ توڑنے کی میری کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔کوئی امنگ کوئی ترنگ میرے پاس زیادہ دیر ٹھہرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔میں ذہنی اور قلبی طور پر منتشر ہوں۔
آج  پھر  اٹھائیس مئی ہے۔مجھے ایسی بانہوں کی تلاش ہے جن میں آغوش مادر کی تسکین ہو۔جسے میں اپنے دکھوں میں شریک کر سکوں۔جو آگے بھر کر میری اس عمارت کو مجھے سے تھام لے اور میرے کان میں دھیرے سے کہے۔ بہت تھک گئے ہو کچھ دیر آرام کر لو۔ اور میں ان بانہوں سے لپٹ کر زاروقطار رو دوں۔ایک بار اپنےدل کی بھراس نکال لوں۔
میم سین

Sunday, May 25, 2014

کیا کروں ۔۔۔۔۔

میاں صاحب کرائے کے گھر سے اپنے نئے گھر منتقل ہوئے تو جب میں  ان سے پہلی بار ملنے گیا تو پانچ مرلے کے چھوٹے سے گھر کو جس کو ابھی مرمت کی کافی ضرورت تھی، دیکھ کر کافی حیرت ہوئی اور پوچھا میاں صاحب کرائے کے عالی شان گھر سے اس پانچ مرلے کے کھنڈر میں آنا کیسا لگا؟ تو مسکراتے ہوئے بولے جیسا بھی ہے، اپنا توہے۔۔۔۔۔۔۔
الطاف اور اس کے بھائی کے درمیان لڑائی گھر سے نکل کر محلے تک پھیل گئی تھی لیکن ان کے بیٹے کی شادی پر دونوں بھائیوں کو اکھٹا دیکھ کر اپنی حیرت کا اظہار کیا تو کہنے لگے خوشی کے ایسے موقع پر کیسے نہیں مناتا، آخر بھائی تو میرا ہی ہے۔۔۔۔۔۔ 
شریف صاحب کے بیٹے کی حوالات میں بندش پہلی بار نہیں ہوئی تھی لیکن اس بار مجھ سے رہا نہیں گیا اور کہ ہی دیا کہ ایک بار اس کو رسو اہونے دیں۔  کہنے لگے کیا کروں؟    میں بھی یہی سوچتا ہوں۔ لیکن آخر بیٹا تو میرا ہی ہے۔۔۔۔۔ 
کرپشن، لاقانونیت، رشوت ستانی، چوربازاری، رسہ گیری، لسانیت، فرقہ واریت، قتل وغارت ،تعصب، جاگیرداری نظام ، ناانصافی، سفارش ۔۔۔۔ لیکن آخر ملک تو اپنا ہی ہے نا
میم سین

Tuesday, May 20, 2014

میرے قلم سے (part 6)

مجھ سے پوچھا جا رھا ہے کہ میں اتنا مایوس کیوں ہوں؟  لیکن میں سمجھتا ہوں یہ مایوسی نہیں، بے زاری ہے لیکن اس کو مایوسی کہیں یا بے زاری، بات ایک ہی ہے۔ اگر میں کوئی کارٹون کریکٹر ہوتا تو اب تک کئی بار کسی چھت سے کود چکا ہوتا لیکن میں کارٹون تو ہوسکتا ہوں لیکن کریکٹرہرگز نہیں۔ اگر کسی ڈرامے کا کوئی کردار ہوتا تو اپنا سر کتنی بار کسی دیوار کے ساتھ پھوڑ چکا ہوتا۔لیکن یہاں بھی مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں جیتی جاگتی زندگی کا حصہ ہوں۔میرے غمگین ہونے کا سبب ہر گز یہ نہیں ہے کہ میں کوئی عظیم انسان بننے کو خواب دیکھ رھا ہوں کیونکہ ہر عظیم انسان زندگی میں غمگین اور اداس رھا کرتا تھا۔ ۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ چند دنوں سے مجھے احساس ہورھا ہے کہ میں اپنی جملہ ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہوچکا ہوں۔اگر یہ احساس وہم کی حد تک ہوتا تو شائد میں اس کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا کیونکہ جتنے وہم میری بیگم کو میرے بارے میں ہیں اور اگر ان میں کوئی حقیقت ہوتی تو میں اب تک دوسری شادی کر        چکا ہوتا ۔اورمیں کوئی پہیلیاں بھی نہیں  بجھوا رھا کیونکہ شادی شدہ انسان زیادہ پہیلیاں بجھوانے کا متحمل نہیں ہوسکتا تصدیق کیلئے کسی بھی شادی شدہ شخص کی گواہی کافی ہے۔

میں بھی ناکام مری سعی عمل بھی ناکام

یہ  رات کا کوئی ایک بجا تھا جب میرے موبائل کی گھنٹی بجی ۔جب فون اٹھا یاتو کرخت لہجے میں ایک آدمی بولا
 علشباہ شام سے روئے جارہی ہے۔چپ ہی نہیں کر رہی۔۔۔ 

کون علشباہ؟ 
کہاں سے بول رہے ہیں؟ 
جی جمعہ کے روز آپ کو چیک کروایا تھا  
یاد رہے جمعرات کا دن شروع ہوچکا تھا۔بڑی مشکل سے پوری بات کو سمجھنے کے بعد ان کو ایک دو ٹوٹکے بتائے تو دوسری طرف سے یہ کہہ کر فون بند کر دیا گیااپنے مریضوں کو یاد بھی رکھا کریں

اور اس دن جب ایک آدمی اپنے بچے کو بخار کے ساتھ لیکر آیا تو میری اس وضاحت کو ایک طرف کردیا کہ کہ جب دوائی پلائی ہی نہیں تو آرام کیسے آسکتا ہے؟؟؟  اور
بار بار ایک ہی جملہ دھرائے جارھا تھاآخر ایک ڈاکٹر کو چیک کروایا تھا کچھ تو آرام آنا چاہیئے تھا۔
 

اور اس دن جب ایک آدمی نے کمرے میں آتے ہی شکوہ کیا کہ آپ کی لکھی ہوئی دوائی دو بار خرید کر پلا دی ہے لیکن ذرا بھی آرام نہیں آیا ۔ لیکن میرے اس سوال کا جواب دینا گوارہ نہیں کیا کہ یہ تو چھ ماہ پرانی پرچی ہے؟ اورایک ہی بات پر ضد قائم رکھی کہ اس وقت  بخار تھا۔اس دوائی سے پہلے دن ہی بخار اتر گیا تھا  اوراب بھی بخار ہے تو یہی دوائی دو بار استعمال کر ڈالی ہے لیکن بالکل بھی آرام نہیں آیا۔

اماں جی نے کمرے میں داخل ہوتے ہی احسان جتایا ، ڈاکٹر صاحب آپ ہمیشہ شکوہ کرتے تھے میں وقت پرچیک اپ کروانے نہیں آتی۔ آپ نے پانچ دن بعد آنے کا کہا تھا میں پانچویں دن آگئی ہوں۔
میں نے کہا اچھی بات ہے ۔تشریف رکھیں۔ 
 پرچی ہاتھ میں پکڑی اور پوچھا  کہ طبیعت کیسی ہے؟ 
کہنے لگی بیماری کو تو کوئی خاص افاقہ نہیں ہوا لیکن آپ نے کہا تھا پانچویں دن ضرور آنا ہے اس لئے میں آگئی ہوں۔ 
اچھا دوائیاں ختم ہوگئی ہیں؟ میں نے پوچھا
تو جواب آیا دوائیوں والا شاپر تو میں اس دن میڈیکل سٹور پر ہی بھول گئی تھی لیکن آپ نے تاکید کی تھی کہ میں پانچویں دن ضرور آؤں اس لئے آج آگئی ہوں۔

ایک صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور اپنے موبائل فون سے ایک نمبر ڈائل کرنے کے بعد میری طرف بڑھا کرکہنے لگے، یہ جی بات کرلیں۔ 
میں نے فون کاٹ کر پوچھا پہلے بتائیں تو سہی آپ کون ہیں؟ اور کس سے بات کروا رہے ہیں؟
۔ اس پر وہ صاحب بولے میری رشتے کی پھوپھی ہیں۔ان کو فالج ہوگیا ہے ۔ ان کو یہاں لانے والا کوئی نہیں ہے۔
میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ ایک مریض کو جو اتنا شدید بیمار ہو ، بغیر دیکھے کیسے دوائی دی جاسکتی ہے۔لیکن اس کا اصرار بڑھتا رھا۔جب مجھے قائل کرنے میں ناکام ہوئے توکہنے لگے ۔
ڈاکٹر صاحب آپ ڈبل فیس لے لیجئے گا

اورمیاں بیوی چھ ماہ کے بچے کو دستوں کی بیماری کے ساتھ میرے پاس دوبارہ لائے تو میں پوچھا کہ اس کو ڈبے کا دودھ شروع کیا تھا وہ کیوں بند کر دیا تو کہنے لگے نہیں جی  دودھ تو وہی استعمال کر رہے ہیں اور قمیض کی دائیں  جیب میں ہاتھ ڈال کا پلاسٹک کے شاپر کی ایک پوٹلی نکالی جس میں دو تین چمچ خشک دودھ کے تھے اوردوسری جیب سے کھانسی کے سیرپ کی خالی بوتل نکالی، جس کے اوپر نپل لگا ہوا تھا۔ میرے پوچھنے پر اس کا فیڈر کہاں ہے۔جواب آیا وہ تو گھر رکھ آئیں ہیں کہیں سفر میں گم نہ ہوجائے
اور ایک دن ایک صاحب ایک موٹی فائل کے ساتھ میرے پاس الٹراساؤنڈ کروانے آئے ۔فائل میں پہلے سے کوئی دس بارہ کے قریب الٹراساؤنڈ کی رپورٹس موجود تھیں۔جن میں دائیں گردے میں پتھری کی تشخیص کی گئی تھی۔بڑے مایوس لہجے میں کہنے لگے دس بارہ الٹرہ ساؤنڈ کروا لئے ہیں لیکن ابھی تک پتھری اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔میرے سمجھانے پر کہ الٹراساؤنڈ کا کام تشخیص میں مدد دینا ہے اور آپ کے مرض کی تشخیص تو ہوچکی ہے اب اس کے علاج کیلئے بھی کوشش کریں۔کہنے لگے جے تیرے کول الٹراساؤنڈ نہیں ہے تو دس دے ایویں ، بہتیاں پہیلیاں نا بجھا(اگر تمہارے پاس الٹراساؤنڈ نہیں ہے تو بتا دو ۔ ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع مت کرو)
میم سین

Wednesday, April 9, 2014

میرے قلم سے

اسے میں سادگی کہوں، بھولپن یا پھر جہالت سے تعبیر کروں ۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب بھی ملک پاکستان کا ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے تو میں ہنس دیتا ہوں ۔ہم کس دور اور کس زمانے کے شعور میں جی رہے ہیں اور کونسی توقعات ان سے وابستہ کئے بیٹھے ہیں
کل میرے پاس تین دن کا ایک بچہ کافی سیریس حالت میں آیا۔جس کےجسم پر خاصی سوزش تھی اور کوئی خاص حرکت بھی نہیں کر رھا تھا۔ بچے کی صحت کے حوالے سے ان کو ساری صوتحال سے واضح کرنے کے بعد علاج شروع کر دیا۔دو گھنٹے بعد ڈسپنسر نے مجھے آگاہ کیا کہ بچے کے لواحقین بچے کو کوئی چیز سونگھا رہے ہیں۔ میں نے ان کو بلا کر جب اس ٹوٹکے کی وجہ پوچھی تو  اپنی ہنسی نہ روک سکا اور بےاختیار  بی بی سی کی چند دن پہلے معالجوں کی طرف سے غلط نسخے لکھنے والی رپورٹ کی طرف دھیان چلا گیا۔ ۔وہ بے چارے بھی اب کیا کریں!!! جب ان کا واسطہ ایسی سوچ کے ساتھ پڑتا ہو جو ابھی دسویں صدی میں جی رہے ہوں۔ ،بچے کا والد کہنے لگا ہمارے خاندان میں ایک عورت ہے وہ اکثر بے ہوش ہوجاتی ہے اور جب اسے امونیا سونگھایا جاتا ہے تو ہوش میں آجاتی ہے۔ ہم نے سوچا بچے کو بھی امونیا سونگھا کر دیکھ لیتے ہیں شائد اس کو بھی ہوش آجائے۔
میم سین

Thursday, March 27, 2014

یاد دھانی حصہ دوئم

ایک لمحے کو سوچ دل میں آتی ہے اورزندگی اپنی نزاکتوں کے ساتھ ،سامنے ڈگمگاتی ہوئی نظر بھی آتی ہے لیکن پھر بھی ہم موت سے اپنی نظریں چرا لیتے ہیں۔وقت ہماری زندگیوں کو کسی دیمک کی طرح کھا رھا ہے،جب کوئی چیز کم ہورہی ہو تو پھر وہ ایک دن ختم بھی ہوجاتی ہے۔جب موت اس قدر برحق ہے اور زندگی اس قدر غیر یقینی ہے تو پھر ہم کس لئے اس دنیا میں آئے ہیں؟
 ہمارا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟
 ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے؟؟

اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ، نہ تو میں ان سے روزی مانگتا ہوں اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں۔ یقیناًاللہ تعالیٰ تو خود سب کو روزی دینے والا ، صاحب قوت اور زبردست ہے ‘‘ ( الذاریات : 58۔56  
لیکن دنیا کتنی قیمتی جگہ ہے؟ اس میں کس طرح رہا جائے؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنے احباب کے ہمراہ بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے گزرے اور آپ اس کا کان پکڑ کر فرمانے لگے : تم میں سے کون اسے ایک درہم کے بدلے خریدنا پسند کریگا ؟ تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم عرض کرنے لگے : آقا صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو اسے مفت میں بھی نہیں لینا چاہتے ، یہ ہمارے کس کام کا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو پھر بھی عیب دار تھا ، اس کے کان چھوٹے ہیں ، تو پھر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : اللہ کی قسم ! اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ اور فرمایا آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی سمندر میں اپنی انگلی ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کے ساتھ کس قدر پانی آتا ہے۔ دنیا کی حیثیت آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسا کہ انگلی کے ساتھ لگے ہوئے پانی کے قطرے کی سمندر کے مقابلے میں
۔ہاؤس جاب کے دوران دس بارہ سال کی ایک بچی فاطمہ مرگی کے دوروں کے ساتھ ایمرجنسی میں داخل ہوئی۔اس کے دوروں کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ کوئی بھی دوائی اس پر اثر نہیں کر رہی تھی۔ مارکیٹ میں موجود ہر دوا اور ہر کمبینیشن استعمال کر ڈالا لیکن اسے افاقہ نہیں ہوتا تھا۔ اپنی مرضی سے جھٹکے شروع ہوجاتے اور اپنی مرضی سے رک جاتے۔ اور کوئی لگ بھگ ڈیڑھ سے دو ماہ کا عرصہ گزر نے کے بعد اس کے جھٹکے کنٹرول ہونا شروع ہوئے تو ہسپتال سے رخصتی ہوئ۔ میں جب بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کو سنتا یا پڑھتا ہوں کہ دنیا اس طرح بسر کرو جیسے کوئی پردیسی یا مسافر تو مجھے فاطمہ اور اس کی بیماری یاد آجاتی ہے۔ڈیڑھ دو ماہ کے اس دوران نہ تو اس کے گھر والوں نے ضرورت سے زائد کوئی چیز ہسپتال میں لے کر آئے اور نہ ہی لمبے قیام کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ جمع کرکے رکھا اور اتنے طویل قیام کے باوجود بھی ہمیشہ ان کی نظر وہاں سے جانے پر ہوتی تھی
ہم اپنا بچپن گزار چکے ہیں، کچھ جوانی گزار رہے ہیں اور کچھ بڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں۔ سنی سنائی باتیں نہ سہی لیکن جو وقت ہم گزار چکے ہیں، اس کے گواہ تو ہم ہیں۔ اوراس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ موت برحق ہےتو پھر اس کو یاد رکھنے میں کیا مضائقہ ہے۔نہ تو مولویوں کو برا بھلا کہنے سے رکنے والی ہے اور نہ ہی اس حقیقت سے نظریں چرا لینے سے ٹلے گی۔ لیکن ڈر تو اس بات سے لگتا  کہ کہیں  کل قیامت کے روز ہمارا شمار ان لوگوں میں تو نہیں ہوگا جن کے بارے مین قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے ۔
قیامت کے روز مجرم قسمیں اٹھا اٹھا کر کہیں گے کہ ہم تو بس ایک پَل کیلئے دنیا میں گئے تھے۔  
( الروم : 55 ) 
اور میں اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کرسکوں گا جب میرا قرآن یہ کہ رھا ہے
 اور موت کی بیہوشی برحق خبر لے کر آئی ، یہی وہ حقیقت ہے جس کے اعتراف سے تو راہ فرار اختیار کرتا تھا۔
 ( ق : 19 ) 
 ایک لمحے کو آنکھیں بند کر لیں اور تصور کریں کہ جب لوگ ہمیں مٹی کے حوالے کرکے خود لوٹ جائیں گے،کوئی دوست ، والدین، اولاد ہماری کوئی مدد کرنے سے قاصر ہونگے۔ مٹی میں دبے جانے والوں کےقدموں کو سن رہے ہونگے۔ چیخیں، پکاڑیں۔۔۔ لیکن کوئی سن نہیں پائے گا۔کتنا سخت اور ہولناک منظر ہوگا۔ساری خواہشیں اور تمنائیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔کاش ہمارا معاملہ ہماری موت کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا ۔ ساری کوتاہیوں اور سستیوں پر پردہ پر جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہونے والا۔وہاں تو حساب دینے ہیں۔۔اللہ سے دعا ہے ہمیں اس دن کی سختی سے بچائے۔ قبر میں آسانی نصیب فرمائے۔روزآخرت کے دن جہنم سے نجات فرمائے آمین۔
میم سین

Friday, March 21, 2014

افراطِ زر

پرسوں ایک محفل میں بیٹھا تھا ۔جہاں گفتگو کا موضوع حالات حاضرہ اور ملکی صورتحال تھی۔ بار بار گفتگو میں مہنگائی اور افراطِ زر کا زکر آرھا تھا ۔ایک بزرگ نے افراط زر کے بارے میں  پوچھا کہ یہ کیا بلا ہے؟  تو سب کو سانپ سونگھ گئے کیونکہ کوئی بھی اس کے بارے میں واضح لفظوں میں نہیں جانتا تھا۔اور جب میں نے تھوڑی سی وضاحت کی تو سب کی سمجھ میں آگیا۔ سوچا اس مختصر سی معلومات کو دوستوں سے شیئر کرلوں
ہمارے کرنسی نوٹ کی مالیت کا انحصار ہمارے پاس موجود سونے کے ذخیروں پر ہوتا ہے۔ بات کو سمجھنے کیلئے ایک مثال دوں گا کہ اگر ہمارے پاس ایک کلو سونا ہے اور سٹیٹ بینک اس کے بدلے میں ایک ہزار نوٹ چھاپ دیتا ہے۔یعنی ایک گرام سونے کے بدلے ایک روپیہ۔اگر آپ کوئی ایسی چیز خریدتے ہیں جس کی قیمت ایک گرام سونا ہے تو آپ اس کو ایک گرام سونے کی جگہ پر ایک روپیہ دے دیں گے۔ لیکن اگر سٹیٹ بینک ایک کلو سونے کے بدلے دو ہزار کے نوٹ چھاپ دیتا ہے تو  آپ کو ایک گرام سونے والی چیز کے بدلے دو روپے کے نوٹ دینا پڑیں گے۔ اسی طرح سونا ایک کلو ہی ہے اور سٹیٹ بینک پانچ ہزار کے نوٹ چھاپ دیتا ہے تو ایک گرام سونے والی چیز کیلئے آپ کو پانچ نوٹ دینا پڑیں گے۔یعنی اگر سونے کی مقدار بڑھائے بغیر نوٹ چھاپتے رہیں گے تو آپ کو چیز خریدتے وقت زیادہ نوٹوں کی ادائیگی کرنا پڑے گی۔ اور یہی روپے کی مالیت میں کمی کا نام افراط زر ہے۔کہنے کو تو میں نے کہ دیا ہے کہ کرنسی کی مالیت کا دارومدار سونے کی مالیت پر ہے لیکن عملی طور ایسا نہیں ہے بلکہ 1944کے بریٹن وڈزکے معاہدے کے بعد ڈالر کو کرنسی کا معیار بنا دیا گیا تھا۔ جس کے مطابق ایک اونس سونے کی قیمت پینتیس ڈالر مقرر کر دی گئی تھی اور دنیا میں جتنی بھی کرنسی کا کاروبار ہونا تھا اس کیلئے ڈالر معیار بنا دیا گیا۔ویتنام کی جنگ کے بعد جب ڈالر مشکلات کا شکار تھا تو جرمنی نے اس معاہدے سے انکار کرتے ہوئے امریکہ سے سونے کا مطالبہ کر دیا تھا اور جرمنی کی دیکھا دیکھی یورپ کے کئی دوسرے ممالک نے بھی ڈالر کی بجائے سونے میں کاروبار شروع کرنے کا مطالبہ کر دیا جن میں فرانس سرفہرست تھا۔
انیس سو اکہتر میں آخری شائع ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق امریکہ اپنے اصل سونے کی قیمت سے تین گنا زیادہ نوٹ چھاپ چکا تھا ۔ لیکن اس کے بعد کتنے نوٹ چھپے ہیں کسی کو کچھ علم نہیں۔ اور عربوں سے تیل کی ساری تجارت ہی نوٹ چھاپ کر کی گئی ہے۔2007 کے معاشی بحران سے لیکر آج تک تو کھربوں کےحساب سے ڈالر چھاپا جا چکا ہے ۔لیکن امریکہ نے پوری دنیا میں دھونس اور دھاندلی مچا کر ساری دنیا کو ڈالر کی اصل مالیت سے بے خبر رکھا ہوا ہے۔اگرچہ جرمنی کی جانب سے معاہدہ توڑے جانے کے بعد بریٹن وڈز کا معاہدہ ختم ہوگیا تھا اورآج ہر ملک اپنی کرنسی چھاپ سکتا ہے لیکن آج بھی بین الاقوامی کرنسی کا درجہ امریکہ کے ڈالر کو حاصل ہے۔اسلئے کسی ملک کی مضبوط معیشت کا اندازہ اسکے پاس موجود امریکی ڈالر کے ذخیروں سے لگایا جاتا ہے
سونے کی بات آئی تو معلومات کیلئے عرض کروں کہ سونے کے معیار کی اکائی قیراط ہوتی ہے اور خالص ترین سونا چوبیس قیراط کا ہوتا ہے لیکن عملی طور پر دستیاب نہیں ہوتا۔مشرق وسطی میں زیورات میں بائیس قیراط والاسونا استعمال ہوتا ہے جب کہ یورپ میں زیورات میں اٹھارہ قیراط سے کم اور امریکہ میں چودہ قیراط سے کم کا سونا استعمال کیا جاتا ہے۔دس قیراط سے کم کے سونے کو سونا نہیں کہا جاتا
میم سین

Monday, March 17, 2014

یاد دھانی

طب کے شعبے سے منسلک ہونے کی وجہ سے میں نے زندگی اور موت کے درمیان جس قرب کو  محسوس کیا ہے، اس نے زندگی کی نزاکت اور بے ثباتی کا احساس بارہا دل میں ڈالا ہے۔ موت کے ساتھ پہلی بار واسطہ محمد موسی کے انتقال کے وقت ہوا تھا۔ محمد موسی،  لگ بھگ اسی برس کے قریب ایک بھرپور بڑھاپا گزار رہے تھے، ہمارے بزرگوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے اکثر کلینک پرآجاتے اور چائے کی فرمائش ہوتی تھی۔لیکن ان کی آمد ہمیشہ مغرب کی نماز کے بعد ہوا کرتی تھی۔ اپنے ماضی کے قصے، کچھ حالات حاضرہ پر تبصرہ ، کچھ اپنی طبیعت کا موضوع۔ لیکن اس دن ظہر کی نماز کے بعد آئے تو مجھے کچھ اچنبھا ہوا۔ سلام دعا کے بعد کہنے لگے کہ آج جب میں نماز پڑھ رھا تھا تو مجھے ایسے لگا جیسے میرا جسم ایک لمحے کو سن ہوگیا ہے،لیکن پھر سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ میں نے مذاق سے کہا کہ آپ نے میرے ساتھ چائے پینے میں کافی غیر حاضریاں کر ڈالی ہیں ،اسلئے ایسا ہوا ہوگا۔ پہلے چائے پیتے ہیں ، پھر طبیعت بھی چیک کر لیتے ہیں۔ لیکن ابھی میری بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ کہنے لگے بالکل ایسے ہی ہوا تھا اور ان کا جسم ڈھلک گیا، ڈسپنسر کی مدد سے بستر تک لے کر گیا تو ان کا جسم روح سے خالی ہوچکا تھا۔
اس دن بیس بائیس سال کے نوجوان کو سینے میں معمولی درد کے ساتھ لیکر آئے تو چیک اپ کے بعد میں نے بتایا کہ دل کے اٹیک عموماً اس عمر میں نہیں ہوتے لیکن اس کی ساری علامات کچھ غیر معمولی ہیں۔اس لئے ایک بار دل والے ہسپتال ضرور چیک کروا لیں۔لیکن جونہی نوجوان کمرے سے نکلنے لگا توگر گیا ۔اٹھا کر بسترتک لیجایا گیا تو اس کی روح اور جسم کا ناطہ ٹوٹ چکا تھا۔ 
لیکن جس موت نے میرے احساسات کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا وہ ایک ایسے نوجوان کی موت تھی،جس نے گھریلو جھگڑے کے بعد گندم میں رکھنے والی زہریلی گولیاں کھا لی تھیں اورمیں کرب کے ان لمحوں کو زندگی بھر فراموش نہیں کر سکتا جب تکلیف اور اذیت میں وہ ہاتھ جوڑ جوڑ کر منتیں  کر رہا تھا کہ میری جان بچا لو۔ ابا مجھے معاف کر دو۔ اماں میرے لئے کچھ کرو۔ڈاکٹر مجھے سے غلطی ہوگئی مجھے بچا لو۔۔۔لیکن اگلے چند لمحوں میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکا تھا۔
ایسے ہی کتنے ہنستے بستے لوگوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے اس دنیا سے رخصت ہوتے دیکھ چکا ہوں۔ کچھ اتنے اچانک اور کچھ عمر کے اس حصے میں جب ابھی زندگی کی کونپلیں بھی صحیح طرح سے نہیں کھلی تھیں ۔بیس سالہ عائشہ میرے کلینک سے دوا لیکر نکلی ابھی کچھ دور ہی گئی تھی کہ ڈوپٹہ موٹر سائکل کے پہیے میں آگیا اور سر سڑک سے ٹکڑایا اور زندگی کا ساتھ ختم۔
 ننھا مہتاب اس دنیا میں آیا توسارے آنگن میں روشنی پھیل گئی۔کیس گھر پر ہی ہوگیا۔سب بچے کی خوشیوں میں لگ گئے لیکن جب ماں کے زرد چہرے پر نظر پڑی تو سب کے اوسان خطا ہوگئے۔ میرا کلینک قریب تھا، اٹھا کر میرے پاس لے آئے، لیکن اس وقت تک ممتا روٹھ چکی تھی۔
  پتا ہی نہیں چلا کہ عثمان کھیلتے کھیلتے کیسے پانی کے ٹب تک جا پہنچا، جب ماں کی نظر پڑی تو ننگے پاؤں لیکر دوڑی۔ لیکن میرے سامنے اس نے اپنی آخری سانس لی تو میرے اندر اس کی ماں کو کچھ بھی بتانے کا حوصلہ نہیں تھا۔
عبدللہ اپنے باپ کی دوائی کے بابت پوچھنے میرے پاس آیا۔ اورکچھ دیر بعد ڈکیتی کی وادات میں اس کے قتل کی خبر سنی تو دیر تک، میں سکتے میں رھا۔
پندرہ سولہ سالہ فاطمہ کو اپنے باپ کے ساتھ گنے کی ٹرالی کے ساتھ موٹر سائیکل کے ایکسڈینٹ کے بعد جب کلینک پر لایا گیا تو ابتدائی طبی امداد کے بعد سی ٹی سکین کیلئے ریفر کیا تو وہ خود اپنے قدموں پر چل کر بیرونی گیٹ تک  گئی۔ لیکن پھر چکر کھا کر ایسی گری کہ دوبارہ اٹھ نہیں پائی۔افضال صاحب کا گھر میرے کلینک کے بالکل قریب ہے۔ جب لائٹ اپنے مقرہ وقت پر نہیں آئی تو جنریٹر سٹارٹ کرنے لگے تو اچانک بجلی آگئی اور کرنٹ لگنے سے کوئی آواز بلند کئے بغیر اپنے حقیقی مالک سے جاملے ۔
 ایسے ہی کتنے لوگوں کے زندگی سے تعلق ٹوٹنے کا گواہ ہوں اور شائد ہم سب ہی موت کے ایسے سینکڑوں، ہزاروں واقعات کے عینی شاہد ہوتے ہیں۔ ہم ہر روز جنازوں کا اعلان سنتے ہیں۔ اپنے پیاروں اور قریبی رفقا کے کندھوں کو سہارا دیتے ہیں۔لیکن پھر بھی سماج کی بنائی ہوئی مصنوئی آلائشوں کیلئے زندگی کی اس سب سے بڑی حقیقت اور سچائی سے منہ موڑ لیتے ہیں۔اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھیں تو فریب کا حلقہ اور زندگی کا طلسم دونوں ٹوٹ جائیں گے۔زندگی ایک روکھی حقیقت کی نمائندہ بن جائے گی۔موت دنیا کی سب سے بڑی اور اٹل حقیقت ہے۔دنیا میں خدا اور مذہب کے منکرین تو بہت مل جائیں گے لیکن موت سے انکاری شائد ہی مل سکے۔

ایک لمحے کو سوچ دل میں آتی ہے اورزندگی اپنی نزاکتوں کے ساتھ سامنے ڈگمگاتی ہوئی نظر بھی آتی ہے لیکن پھر بھی ہم موت سے اپنی نظریں چرا لیتے ہیں۔وقت ہماری زندگیوں کو کسی دیمک کی طرح کھا رھا ہے۔جب کوئی چیز کم ہورہی ہو تو  وہ ایک دن ختم بھی ہوجائے گی۔جب موت اس قدر برحق ہے اور زندگی اس قدر غیر یقینی ہے ،تو پھر ہم کس لئے اس دنیا میں آئے ہیں؟ ہمارا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟ ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے؟؟
جاری ہے
میم سین

Wednesday, March 12, 2014

میرے قلم سے

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں اپنے پیشہ وارانہ امور کی سرانجام دہی میں ناکام ہوں۔ اور اس بات کا احساس، شدت سے ہوتا ہے ،جب میں مریضوں کے سوالوں کے سامنے لاجواب ہوجاتا ہوں ۔ ابھی کل کی ہی بات ہے کہ ایک خاتون ایک ماہ کے بچے کو پیٹ میں درد اور بہت زیادہ رونے کی شکائیت کے ساتھ لے کر آئی ۔ میں نے جب بچے کے دودھ کے بارے میں پوچھا تو ماں نے جواب دیا، دودھ تو میں صرف ماں کا ہی دیتی ہوں لیکن ویسے یہ جو س بھی پی لیتا ہے اور دہی اور دلیا بھی شوق سے کھا لیتا ہے۔شہد بھی دے دہتی ہوں۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا اسے یخنی بھی پلا دینی تھی۔ماں نے میرے طنز کو نظرانداز کرتے ہوئے بڑے اشتیاق سے پوچھا، ڈاکٹر صاحب دیسی مرغی کی یا پھر برائلر سے بھی کام چل جائے گا؟؟؟
اور اس دن جب تین ماہ کے بچے کو تیز بخار کے ساتھ دوبارہ میرے پاس لایا گیا تو والدین کی زبان پر ایک ہی شکوہ تھا کہ ہم تو بڑی امید کے ساتھ آپ کے پاس آئے تھے۔ تین دن پہلے دوائی لیکر گئے تھے لیکن ذرا سا بھی آرام نہیں آیا بلکہ بچے کی طبیعت تو پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوگئی ہے۔میں نے پوچھا کہ جو دوائی میں نے دی تھی وہ ختم ہوگئی ہے؟ تو جواب آیا وہ تواس دن آپ کے کلینک سے گھر جاتے ہوئے گم ہوگئی تھی ۔لیکن بچے کا آپ سے چیک اپ کروایا تھا، کچھ تو فرق پڑنا چایئے تھا
لگتا ہے طبی علوم کے حصول کے ساتھ ساتھ مجھے سفلی علوم سیکھنے پر بھی توجہ دینی چاہیئے؟؟
میم سین

Thursday, February 27, 2014

کچھ فون روٹنگ کے بارے میں


کچھ فون rooting کے بارے میں

ایک دوست نے اینڈرائیڈ فون کی روٹنگ کے بارے مین سوال کیا ہے،کہ اس کے بارے میں بتایا جائے۔
ٹیکنیکی دیکھا جائے تو یہ ایک مشکل ٹرم دکھائی دیتی ہے،لیکن اگرسادہ لفظوں میں بیان کیا جائے تو اس کا مطلب اینڈرائیڈ فون کا کنٹرول اپنے ہاتھ مین لینا ہوتا ہے۔ یعنی اینڈرائیڈ سسٹم میں اپنی مرضی سے تبدیلیاں لانا ۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے ایک سادہ مثال دوں گا کہ جب آپ کوئی بھی اینڈرائیڈ فون خریدتے ہیں تو اس میں انسٹال اپلیکیشن کو آپ ڈیلیٹ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح فونٹ سائز، فونٹ سٹائل، لاک سٹائل، وغیرہ تبدیل نہیں کرسکتے۔لیکن روٹنگ کے ذریئے اپنے موبائل کا کنٹرول آپ اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔آئی فون کیلئے جیل بریک کی ٹرم استعمال کی جاتی ہے 
روٹنگ کی اہمیت؟
اس کی اہمیت اس وقت بہت زیادہ تھی جب اینڈرائیڈ فون بہت کم فون میموری کے ساتھ آتے تھے۔ چند دن کے استعمال کے بعد فون میموری ختم ہونے کا الارم بجنے لگتا تھا۔اس کے علاوہ مشاہدہ کیا ہوگا کہ اینڈرائیڈ فون کے سپیکر کی آواز بہت کم ہوتی تھی اس لئے کسی بھی اینڈرائیڈ فون کو روٹ کرنا ناگزیر ہوتا تھا۔ لیکن اب چونکہ موبائل فون وافر فون میموری کے ساتھ دستیاب ہیں، اسلئے روٹ کی اہمیت کم ہوگئی ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ ایسے اہم ضروری کام ہیں جن کیلئے فون کو روٹ کیا جاسکتا ہے
1۔روٹ کرنے کے بعد آپ فون کی غیر ضروری اپلیکیشن کو ڈیلیٹ کرسکتے ہیں
2۔فون کے استعمال کے دوران بار بار تنگ کرنے والے اشتہارات کی یلغار کو روک سکتے ہیں
4۔فون کی آواز کو بڑھا سکتے ہیں
5۔اپنی مرضی کا سسٹم انسٹال کر سکتے ہیں۔ پاکستانی برینڈز کیلئے بہت آپشن موجود نہیں لیکن انٹرنیشنل برینڈز کیلئے ان گنت سہولتیں موجود ہیں۔
نوٹ۔۔۔ فون سیٹ کو روٹ کرنے کے بعد وارنٹی ختم ہوجاتی ہے
مزید معلومات ،مدد کیلئے میم سین سے رابطہ کر سکتے ہیں
میم سین

کچھ سمارٹ فون کے بارے میں


آج کے دور میں موبائل فون کا استعمال صرف بات چیت کی حد تک ہی نہیں رہ گیا ہے بلکہ اس نے کمپیوٹر کے متبادل کے طور پر بھی اپنی جگہ بنا لی ہے۔ اور سمارٹ فون کی صورت میں ہمارے روزانہ کے معمولات میں حصہ دار بن گیا ہے۔سمارٹ فون کی اصطلاح اس فون کیلئے استعمال کی جاتی ہے جو اپنے بنیادی کام یعنی فون سننے اور کرنے کے علاوہ دیگر کام بھی سرانجام دے، جیسے کیمرہ، جی پی ایس ،وائی فائی وغیرہ۔سمارٹ فون میں عموماً کوئی اوس چل رہی ہوتی ہے۔جیسے ہم کمپیوٹرز میں ونڈوز کے نام سے واقف ہیں۔۔سمارٹ فون کونسا بہتر ہے۔؟ کتنی پرائس میں لینا چاہیے؟ کس کمپنی کا ہونا چاہیئے؟ کچھ ایسے سوال ہیں جو سمارٹ فون کے بارے میں ہمیشہ اٹھتے رہتے ہیں۔ اس لئے اس مضمون کی صورت میں ایک کوشش کی گئی ہے کہ بنیادی معلومات ایک عام آدمی تک پہنچائی جائے تاکہ اسے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو
سمارٹ فون لینے سے پہلے اپنی ضرورت کو ضرور سامنے رکھیں۔
کیمرہ آپ کیلئے زیادہ اہم ہے؟
سٹائل ضروری ہے؟
براؤزنگ کیلئے استعمال کرنا ہے؟
ویڈیوز یا آڈیو کا استعمال زیادہ کرنا ہے؟
جی پی ایس کتنا اہم ہے؟
وائی فائی رینج کتنی ہونی چاہیئے؟
1:کونسا سمارٹ فون؟
اس وقت دستیاب سمارٹ فون میں استعمال ہونے والے اوس سسٹم میں اینڈرائیڈ، آئی اوس، ونڈوز، بلیک بیری قابل ذکر ہیں۔ اگرچہ ونڈوز اور بلیک بیری نے کافی نام کمایا ہے لیکن ایسے سیٹ جن پر یہ سسٹم دستیاب ہیں ان کی تعداد محدود ہے اور دستیاب سافٹ ویئرز بھی بہت کم ہیں۔بلیک بیری تو فی الحال صرف بلیک بیری سیٹ کیلئے دستیاب ہے۔لیکن ونڈوز نے بھی زیادہ مقبولیت حاصل نہین کی ہے۔ سیٹ خریدنے سے پہلے چونکہ پرائس رینج کا پہلو بہت نمایاں ہوتا ہے اور آئی فون سسٹم چونکہ صرف آئی فون کیلئے دستیاب ہے اس لئے آئی فون کو اپنی قیمت کی وجہ سے سمارٹ فون کی اس بحث سے نکال دیتے ہیں۔ اسلئے اینڈرائیڈ ایک آپشن رہ جاتی ہے جس پر معلومات حاصل کر کے اسے اپنی جیب کیلئے قابل قبول بنایا جاسکے۔
اینڈرائیڈ کیوں؟؟
1۔قیمت اور خصوصیات کے لحاظ سے فون سیٹوں کی ایک وسیع رینج دستیاب ہے۔۔
ْْ2۔دستیاب سافٹ ویئرز کی تعداد کروڑوں میں ہے
3استعمال میں بہت آسان ہے
4۔سافٹرز کو انسٹال کرنا ڈیلیٹ کرنا، ڈیٹاٹرانسفر کرنا، کمپیوٹر یا کسی دوسرے فو ن کے ساتھ لنک کرنا انتہائی آسان ہے
5۔لیکن میرے لئے اس سسٹم کا استعمال اس لئے بھی زیادہ اہم ہے کہ کسی بھی دوسری کمپنی کے پیڈ(پیسوں والے) سافٹرز کے کریک اتنے آسانی سے دستیاب نہیں ہیں جتنے اینڈرائیڈ میں ہیں۔اور ان کا انسٹال کرنا بھی بہت آسان ہے
چائینیز یا برینڈڈ؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ برینڈڈ سیٹ کا معیار چائینہ کے سیٹ سے بہت بہتر ہوتا ہے، خاص طور پر سکرین ٹچ، ڈسپلے اور بیٹری لائف میں۔لیکن جب سے کچھ پاکستانی برینڈ مارکیٹ میں آئے ہیں چائینیز سیٹ کا معیار بہت بہتر ہوا ہے۔ان کا مقابلہ انٹرنیشنل برینڈز کے ساتھ تو شائد نہ کیا جاسکے لیکن قیمت کو دیکھتے ہوئے ان کے معیار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
انٹرنیشنل برینڈز کونسا؟؟
اس وقت سیم سنگ کل موبائل کے تیس فیصد شیئر پر قبضہ کئے ہوئے ہے۔ ایچ ٹی سی، سونی، موٹرولا، ایل جی، ہوائی ، الکا ٹیل جیسے برینڈ بھی دستیاب ہیں۔اور اب تو نوکیا نے بھی ضد چھوڑ کر اینڈرائیڈ میں قدم رکھ دیا ہے۔سب کا معیار ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔کوئی کیمرہ شاندار دے رہا ہے، کسی کی کمپنی سپورٹ بہت اچھی ہے۔کسی کا جی پی ایس بہت اچھا کام کرتا ہے تو کسی کے وائی فائی کی رینج بہت زیادہ ہے۔ چونکہ سب کے اندر اینڈرائیڈ سسٹم چل رہا ہیں، اسلئے کوئی بھی ایسابرانڈ لے سکتے ہیں جو آپ کے ذوق کو مطمئین کر سکے۔۔ڈسپلے ، کیمرہ کوالٹی اور استعمال میں میرےنزدیک سام سنگ اورایچ ٹی سی کا معیار بہت بہتر ہے۔اگرچہ ایچ ٹی کے سیٹ وزن میں عموماً کچھ بھاری ہوتے ہیں
سستا میں کونسا؟؟؟
پاکستان میں اس وقت کیو موبائل، وائس موبائل، ہوائی موبائل، جی فائیو،کے سستے اور معیاری سیٹ دستیاب ہیں۔ لیکن جب آپ کوئی بھی خریدنے جائیں تو آپ کو ایک فون سیٹ کے بارے میں چند چیزوں کے بارے میں علم ہونا چاہیئے۔ اس وقت دستیاب زیادہ تر سیٹ میں استعمال ہونے والی اینڈائیڈ سسٹم جیلی بین ہے، جس کو چلانے کیلئے پانچ سو ایم بی کی ریم دستیاب ہوگی۔ اس لئے کوئی بھی سیٹ جس میں جیلی بین انسٹال ہو اس کی ریم ایک جی بی سے کم نہیں ہونا چاہیئے۔جیلی بین کے بھی دو ورژن دستیاب ہیں دوسرے والا زیادہ بہتر اورسموتھ ہے۔آئس کریم سینڈوچ یا جنجر بریڈپر چلنے والے موبائل کیلئے پانچ سو بارہ کی میموری بھی کافی ہوتی ہے چونکہ ہر روز نیا سافٹ ویئر مارکیٹ میں آرھا ہے تو جس قدر پروسسیسر اچھا ہوگا، اتنا زیادہ فون کا اور آپ کا ساتھ لمبا ہوگا۔اس وقت کواڈ کور پروسسر کے ساتھ لوکل موبائل فون کی ایک وسیع رینج دستیاب ہے۔ اس وقت سکرین سائز میں موبائل تین انچ سے پانچ اشاریہ سات انچ تک دستیاب ہیں۔پانچ ایم بی سے تیرہ ایم بی کے کیمرہ کی رینج دستیاب ہے اورمختلف کمپنیوں کے کیمرہ کولٹی میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔سکرین میں آٹھ سو سے بارہ سو میگا پکسل کا ڈسپلے دستیاب ہے۔اس وقت سبھی موبائلز میں لیتھیم بیٹریز استعمال ہورہی ہیں۔جن کی عمر اور کوالٹی سب کمپنیوں کی ایک جیسی ہے۔دو ہزار ملی ایمئیر کی بیٹری ایک سیٹ کو مناسب استعمال پر ایک دن سے زائد چلانے کیلئے کافی ہے۔ تقریباً سبھی موبائل چار جی بی کی انٹرنل میموری دے رہی ہیں۔ جو سسٹم کو چلانے والی فائلز کے انسٹال ہونے کے بعد یوزر کو ایک سے ڈیڑھ جی بی ملتی ہے۔اور سب کے ساتھ ایس ڈی کارڈ ڈالنے کی سہولت ہوتی ہے۔جو عام طور پر بتیس جی بی تک کے کارڈ کو سپورٹ کرتے ہیں ۔ لیکن عام دستیاب چائینہ کے میموری کارڈ کا آٹھ جی بی سے زیادہ کا ساتھ نہیں چلتا۔
نوٹ
موبائل ہمیشہ کسی قابل اعتبار دکاندار سے لیں۔ دوبارہ پیک اور ری فرب سیٹ کو نیا کہہ کر بیچنے کی شکایات عام ہیں
پاکستان میں کوئی بھی کمپنی سیٹ کی وارنٹی کے سلسلے مین سنجیدہ نہیں۔اس لئے دعووں پر نہ جائیں ۔ اگر کبھی ضرورت پیش اآجائے تو اپنے زور بازو پر حاصل کریں
کسی بھی کمپنی کا سیٹ ڈیفیکٹو نکل سکتا ہے۔ اس کیلئے کسی کمپنی کو الزام نہیں دیا جاسکتا۔ سیم سنگ جیسی بڑی کمپنیوں کے سیٹ کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پر جاتا ہے
مزید معلومات ،مدد کیلئے میم سین سے رابطہ کر سکتے ہیں
میم سین

Tuesday, February 4, 2014

متضاد رویے


 محبت لا محدود ہوتی ہے ۔ وہ بے کنارہ ہوتی ہے۔وہ کہیں نہیں ڈوبتی ہے۔ وہ کہیں ختم نہیں ہوتی۔محبت محبوب مانگتی ہے محبوب کا قرب اور اطاعت مانگتی ہے۔محبت تو خود غرضی کی موت ہے، محبت تو انمول بناتی ہے۔تڑپ پیدا کرتی ہے۔ لیکن یہ کیسی محبت ہے؟ جو ہماری راحت کی تسکین کا سبب نہیں بن رہی؟ یہ کیسی محبت ہے جس میں ہجر کا درد ہے؟ یہ کیسی محبت ہے کہ جس کے ساتھ نفرتیں ٹکرا کر چور چور نہیں ہوتی ہیں ؟ یہ محبت کا جبر ہے یا پھر اس کی معنویت سے بے خبری ؟ کہ ہم محبت کا دعوی بھی کرتے ہیں اس کا ورد بھی کرتے ہیں ۔ہم نےمحبت کے دعوی سےکبھی دستبرداری بھی اختیار نہیں کی لیکن مرجھائی ہوئیں ، مضمہل صبحیں ہمارا استقبال کیوں کرتی ہیں ؟ ہمارے چاروں طرف محرومیت اور ، بےچارگی اور اداسی کا غبار کیوں ہے؟
 میں دیر تک خود کو عریاں محسوس کرتا رہا۔ ایک شرمندگی اور احساس ندامت تھا جس نے مجھے اپنے حصار میں لئے رکھا ۔ چند دن پہلے ایک فورم پر لگنے والے اس لطیفے کو جس پر بہت سوں کی دینی حمیت بھڑک اٹھی تھی، دین کے بارے میں ہمارے عمومی رویے پر ایک گہرا طنز چھپا تھا۔ وہ طنز جو اس معاشرے کی اصل بیماری پر ہے,جو ایک غیر محسوس طریقے سے ہمارے اندر سرائیت کر گئی ہے۔دلوں کے اس کھوٹ پرہے جس کی جڑیں ہمارے عقیدوں میں بہت گہرائی میں جاچکی ہیں ۔ایک صاحب کو کو ان کی بیوی نے فجر کی نماز کیلئے جگایا تو تو وہ بولے کہ قضا پڑھ لوں گا۔ بیوی نے کہا شریعت میں جان بوجھ کر چھوڑی گئی نماز کی قضا نہیں ہوتی،جس پر خاوند نے طنزاً کہا شریعت میں تو چار شادیوں کی بھی بات موجود ہے وہ کیوں بھول رہی ہو۔ اس پر بیوی بولی۔کوئی بات نہیں سوئے رہو اللہ بڑا غفور اور رحیم بھی ہے۔بات انتہا پسندی کی نہیں ہے۔زندگی کی اقدار کے مجروح ہونے کی بھی نہیں ہے۔ بات صرف یہاں تک ختم نہیں ہوجاتی۔مصنوعی لہجوں میں حقیقت اور تصنع کے بیچ کسی مقام کو موردالزام ٹھہرا کر بری الزمہ نہیں ہوا جاسکتا بلکہ یہ معمولی سا لطیفہ ان کمزوریوں اور کوتاہیوں کے بے شمار پہلوئوں سے پردہ اٹھاتا ہے، جن کو احساس برتری کے غیر محسوس رویوں سے انسانی خواہشوں کے جال میں الجھا کر یکسر بھلا دیا گیا  ہے۔ اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسے بے شمار کردار بکھرے ہوئے نظرآئیں گے جنہوں نے ہمارے معاشرے کو جکڑ رکھا ہے اور شائد بہت سے معاملات میں ہم خود بھی یہی کردار ادا کر رہے ہیں ۔یہ حاجی بشیر صاحب کھاد کی ایجنسی کے مالک ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے ایک چھوٹی سی دکان کے مالک تھے لیکن کھاد کے پچھلے بحران نے مالی حیثیت اتنی اچھی کر دی ہے کہ اگلا کاروبار شروع کرنے سے پہلے حج کی فرضیت کو نہیں بھولے۔ یہ ہیں اسلم صاحب ، انڈے کے آڑھتی ہیں۔ اس بار سردیوں کا سیزن اتنا شاندار رھا ہےکہ سامنے والی مسجد کا مینار وہی تعمیر کروا رہے ہیں ۔فقیر اللہ صاحب ہمیشہ رمضان کا مہینہ مکہ اور مدینہ میں گزارتے ہیں لیکن اس بار ان کی ہمشیرہ کی طرف سے اپنی خاندانی جائیداد میں سے حصہ کا دعوی کرنے کی وجہ سے، نہیں جا سکے، جس کا انہیں بہت صدمہ ہے۔ مہرذکااللہ صاحب کو اللہ نے گمراہی سے نکال دیا ہے۔اپنے والد کی وفات پر قل کا ختم کروانے سے صاف انکار کردیا اورمقامی مسجد میں اجتماعی دعا کروا دی اور شہر کے ایک مشہور عالم سے گمراہی سے بچانے کیلئے درس کا اہتمام کیا ۔فضل صاحب نے بارہ ربیع الاول کے روز پوری گلی کو سجایا اور سارا دن اس کوعام ٹریفک کیلئے بند رکھا ۔ اکبر صاحب نے بینک کا قرضہ واپس نہ کرنا ہوتا تودرس کی تعمیر میں اپنا خطیر حصہ ڈالتے۔ ایسے ہی بے شمار کردار جو ہماری منافقت اور متضاد رویوں کو عیاںکرتے ہیں ۔اور یہ متضاد رویے ہی اصل میں ہمارے زوال اور پستی کا سبب ہیں ۔ دین نام ہے احکامات کو بلاتامل قبول کرلینے کا ۔اپنی پسنداور ناپسند کو پس پشت ڈال دینے کا۔ اپنی عقل اور رائے کو چھوڑ دینے کا۔ جب حکم سامنے ہو پھر عذر کیسا؟ پھر حیلے بہانے کیسے؟ ایک صحابی کے انگلی میں سونے کی انگوٹھی دیکھ کر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کیلئے سونا پہننے کو حرام قرار دیا تھا تو اس نے نا صرف اس کو ہاتھ سے اتار کر پھینک دیا بلکہ ساتھیوں کے یہ کہنے پر کہ اسے اپنی بیوی یا بہن کو دے دو تو بھی اٹھانے سے انکار کر دیا تھا کہ جس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اتار پھینکا ہو اسے میں اٹھا نہیں سکتا۔ شراب کی حرمت نازل ہوتی ہے تو گھڑوں کے گھڑے انڈیل دیے جاتے ہیں ۔ خیبر کے موقع پر گدھے کے گوشت کی حرمت نازل ہوتی ہے تو پکا ہوا گوشت بھی پھینک دیا جاتا ہے۔قتال کا وقت آتا ہے تو پکی ہوئی کجھوریں چھوڑ کر نکل پڑتے ہیں ۔
 پستی اور گمراہی کے ذمہ دار ہم خود ہیں ۔ ہمارے رویے اور ہمارے فیصلے ہیں ۔ ہماری پسند ناپسندہے ، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر حاوی ہوجاتے ہیں ۔ہم سماج کے قیدی ہیں ۔ہمیں دنیا کے اصول وضوابط اور ذاتی خواہشات عزیز ہیں ۔زندگی کی اقدار، حالات کی مجبوریاں ، معاشرتی تقاضے مقدم ہیں ۔حصول تسکین کی خواہشات اور جذباتی بہائو ہیں ۔۔لیکن ضرورت اس بات کی ہے، حکم ربی سامنے ہو اور خواہشیں روند دی جائیں ، بات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو رہی ہو تو ذاتی پسند ایک طرف ہوجائے،اعجاز قرآن کی بازگشت ہو ہو توجذبوں کی تسکین کی تلاش نہ ہو۔سیرت کے سنہری موتی ہوں اور ضد میں حقیقتوں کو جھٹلایا نہ جا رھا ہو۔بات محبت کی ناکامی کی نہیں ہے ان رویوں کی واپسی کی ہے۔وہ رویے، جو ہماری تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھے گئے تھے
میم سین