Thursday, March 27, 2014

یاد دھانی حصہ دوئم

ایک لمحے کو سوچ دل میں آتی ہے اورزندگی اپنی نزاکتوں کے ساتھ ،سامنے ڈگمگاتی ہوئی نظر بھی آتی ہے لیکن پھر بھی ہم موت سے اپنی نظریں چرا لیتے ہیں۔وقت ہماری زندگیوں کو کسی دیمک کی طرح کھا رھا ہے،جب کوئی چیز کم ہورہی ہو تو پھر وہ ایک دن ختم بھی ہوجاتی ہے۔جب موت اس قدر برحق ہے اور زندگی اس قدر غیر یقینی ہے تو پھر ہم کس لئے اس دنیا میں آئے ہیں؟
 ہمارا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟
 ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے؟؟

اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ، نہ تو میں ان سے روزی مانگتا ہوں اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں۔ یقیناًاللہ تعالیٰ تو خود سب کو روزی دینے والا ، صاحب قوت اور زبردست ہے ‘‘ ( الذاریات : 58۔56  
لیکن دنیا کتنی قیمتی جگہ ہے؟ اس میں کس طرح رہا جائے؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنے احباب کے ہمراہ بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے گزرے اور آپ اس کا کان پکڑ کر فرمانے لگے : تم میں سے کون اسے ایک درہم کے بدلے خریدنا پسند کریگا ؟ تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم عرض کرنے لگے : آقا صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو اسے مفت میں بھی نہیں لینا چاہتے ، یہ ہمارے کس کام کا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو پھر بھی عیب دار تھا ، اس کے کان چھوٹے ہیں ، تو پھر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : اللہ کی قسم ! اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ اور فرمایا آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی سمندر میں اپنی انگلی ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کے ساتھ کس قدر پانی آتا ہے۔ دنیا کی حیثیت آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسا کہ انگلی کے ساتھ لگے ہوئے پانی کے قطرے کی سمندر کے مقابلے میں
۔ہاؤس جاب کے دوران دس بارہ سال کی ایک بچی فاطمہ مرگی کے دوروں کے ساتھ ایمرجنسی میں داخل ہوئی۔اس کے دوروں کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ کوئی بھی دوائی اس پر اثر نہیں کر رہی تھی۔ مارکیٹ میں موجود ہر دوا اور ہر کمبینیشن استعمال کر ڈالا لیکن اسے افاقہ نہیں ہوتا تھا۔ اپنی مرضی سے جھٹکے شروع ہوجاتے اور اپنی مرضی سے رک جاتے۔ اور کوئی لگ بھگ ڈیڑھ سے دو ماہ کا عرصہ گزر نے کے بعد اس کے جھٹکے کنٹرول ہونا شروع ہوئے تو ہسپتال سے رخصتی ہوئ۔ میں جب بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کو سنتا یا پڑھتا ہوں کہ دنیا اس طرح بسر کرو جیسے کوئی پردیسی یا مسافر تو مجھے فاطمہ اور اس کی بیماری یاد آجاتی ہے۔ڈیڑھ دو ماہ کے اس دوران نہ تو اس کے گھر والوں نے ضرورت سے زائد کوئی چیز ہسپتال میں لے کر آئے اور نہ ہی لمبے قیام کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ جمع کرکے رکھا اور اتنے طویل قیام کے باوجود بھی ہمیشہ ان کی نظر وہاں سے جانے پر ہوتی تھی
ہم اپنا بچپن گزار چکے ہیں، کچھ جوانی گزار رہے ہیں اور کچھ بڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں۔ سنی سنائی باتیں نہ سہی لیکن جو وقت ہم گزار چکے ہیں، اس کے گواہ تو ہم ہیں۔ اوراس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ موت برحق ہےتو پھر اس کو یاد رکھنے میں کیا مضائقہ ہے۔نہ تو مولویوں کو برا بھلا کہنے سے رکنے والی ہے اور نہ ہی اس حقیقت سے نظریں چرا لینے سے ٹلے گی۔ لیکن ڈر تو اس بات سے لگتا  کہ کہیں  کل قیامت کے روز ہمارا شمار ان لوگوں میں تو نہیں ہوگا جن کے بارے مین قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے ۔
قیامت کے روز مجرم قسمیں اٹھا اٹھا کر کہیں گے کہ ہم تو بس ایک پَل کیلئے دنیا میں گئے تھے۔  
( الروم : 55 ) 
اور میں اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کرسکوں گا جب میرا قرآن یہ کہ رھا ہے
 اور موت کی بیہوشی برحق خبر لے کر آئی ، یہی وہ حقیقت ہے جس کے اعتراف سے تو راہ فرار اختیار کرتا تھا۔
 ( ق : 19 ) 
 ایک لمحے کو آنکھیں بند کر لیں اور تصور کریں کہ جب لوگ ہمیں مٹی کے حوالے کرکے خود لوٹ جائیں گے،کوئی دوست ، والدین، اولاد ہماری کوئی مدد کرنے سے قاصر ہونگے۔ مٹی میں دبے جانے والوں کےقدموں کو سن رہے ہونگے۔ چیخیں، پکاڑیں۔۔۔ لیکن کوئی سن نہیں پائے گا۔کتنا سخت اور ہولناک منظر ہوگا۔ساری خواہشیں اور تمنائیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔کاش ہمارا معاملہ ہماری موت کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا ۔ ساری کوتاہیوں اور سستیوں پر پردہ پر جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہونے والا۔وہاں تو حساب دینے ہیں۔۔اللہ سے دعا ہے ہمیں اس دن کی سختی سے بچائے۔ قبر میں آسانی نصیب فرمائے۔روزآخرت کے دن جہنم سے نجات فرمائے آمین۔
میم سین

Friday, March 21, 2014

افراطِ زر

پرسوں ایک محفل میں بیٹھا تھا ۔جہاں گفتگو کا موضوع حالات حاضرہ اور ملکی صورتحال تھی۔ بار بار گفتگو میں مہنگائی اور افراطِ زر کا زکر آرھا تھا ۔ایک بزرگ نے افراط زر کے بارے میں  پوچھا کہ یہ کیا بلا ہے؟  تو سب کو سانپ سونگھ گئے کیونکہ کوئی بھی اس کے بارے میں واضح لفظوں میں نہیں جانتا تھا۔اور جب میں نے تھوڑی سی وضاحت کی تو سب کی سمجھ میں آگیا۔ سوچا اس مختصر سی معلومات کو دوستوں سے شیئر کرلوں
ہمارے کرنسی نوٹ کی مالیت کا انحصار ہمارے پاس موجود سونے کے ذخیروں پر ہوتا ہے۔ بات کو سمجھنے کیلئے ایک مثال دوں گا کہ اگر ہمارے پاس ایک کلو سونا ہے اور سٹیٹ بینک اس کے بدلے میں ایک ہزار نوٹ چھاپ دیتا ہے۔یعنی ایک گرام سونے کے بدلے ایک روپیہ۔اگر آپ کوئی ایسی چیز خریدتے ہیں جس کی قیمت ایک گرام سونا ہے تو آپ اس کو ایک گرام سونے کی جگہ پر ایک روپیہ دے دیں گے۔ لیکن اگر سٹیٹ بینک ایک کلو سونے کے بدلے دو ہزار کے نوٹ چھاپ دیتا ہے تو  آپ کو ایک گرام سونے والی چیز کے بدلے دو روپے کے نوٹ دینا پڑیں گے۔ اسی طرح سونا ایک کلو ہی ہے اور سٹیٹ بینک پانچ ہزار کے نوٹ چھاپ دیتا ہے تو ایک گرام سونے والی چیز کیلئے آپ کو پانچ نوٹ دینا پڑیں گے۔یعنی اگر سونے کی مقدار بڑھائے بغیر نوٹ چھاپتے رہیں گے تو آپ کو چیز خریدتے وقت زیادہ نوٹوں کی ادائیگی کرنا پڑے گی۔ اور یہی روپے کی مالیت میں کمی کا نام افراط زر ہے۔کہنے کو تو میں نے کہ دیا ہے کہ کرنسی کی مالیت کا دارومدار سونے کی مالیت پر ہے لیکن عملی طور ایسا نہیں ہے بلکہ 1944کے بریٹن وڈزکے معاہدے کے بعد ڈالر کو کرنسی کا معیار بنا دیا گیا تھا۔ جس کے مطابق ایک اونس سونے کی قیمت پینتیس ڈالر مقرر کر دی گئی تھی اور دنیا میں جتنی بھی کرنسی کا کاروبار ہونا تھا اس کیلئے ڈالر معیار بنا دیا گیا۔ویتنام کی جنگ کے بعد جب ڈالر مشکلات کا شکار تھا تو جرمنی نے اس معاہدے سے انکار کرتے ہوئے امریکہ سے سونے کا مطالبہ کر دیا تھا اور جرمنی کی دیکھا دیکھی یورپ کے کئی دوسرے ممالک نے بھی ڈالر کی بجائے سونے میں کاروبار شروع کرنے کا مطالبہ کر دیا جن میں فرانس سرفہرست تھا۔
انیس سو اکہتر میں آخری شائع ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق امریکہ اپنے اصل سونے کی قیمت سے تین گنا زیادہ نوٹ چھاپ چکا تھا ۔ لیکن اس کے بعد کتنے نوٹ چھپے ہیں کسی کو کچھ علم نہیں۔ اور عربوں سے تیل کی ساری تجارت ہی نوٹ چھاپ کر کی گئی ہے۔2007 کے معاشی بحران سے لیکر آج تک تو کھربوں کےحساب سے ڈالر چھاپا جا چکا ہے ۔لیکن امریکہ نے پوری دنیا میں دھونس اور دھاندلی مچا کر ساری دنیا کو ڈالر کی اصل مالیت سے بے خبر رکھا ہوا ہے۔اگرچہ جرمنی کی جانب سے معاہدہ توڑے جانے کے بعد بریٹن وڈز کا معاہدہ ختم ہوگیا تھا اورآج ہر ملک اپنی کرنسی چھاپ سکتا ہے لیکن آج بھی بین الاقوامی کرنسی کا درجہ امریکہ کے ڈالر کو حاصل ہے۔اسلئے کسی ملک کی مضبوط معیشت کا اندازہ اسکے پاس موجود امریکی ڈالر کے ذخیروں سے لگایا جاتا ہے
سونے کی بات آئی تو معلومات کیلئے عرض کروں کہ سونے کے معیار کی اکائی قیراط ہوتی ہے اور خالص ترین سونا چوبیس قیراط کا ہوتا ہے لیکن عملی طور پر دستیاب نہیں ہوتا۔مشرق وسطی میں زیورات میں بائیس قیراط والاسونا استعمال ہوتا ہے جب کہ یورپ میں زیورات میں اٹھارہ قیراط سے کم اور امریکہ میں چودہ قیراط سے کم کا سونا استعمال کیا جاتا ہے۔دس قیراط سے کم کے سونے کو سونا نہیں کہا جاتا
میم سین

Monday, March 17, 2014

یاد دھانی

طب کے شعبے سے منسلک ہونے کی وجہ سے میں نے زندگی اور موت کے درمیان جس قرب کو  محسوس کیا ہے، اس نے زندگی کی نزاکت اور بے ثباتی کا احساس بارہا دل میں ڈالا ہے۔ موت کے ساتھ پہلی بار واسطہ محمد موسی کے انتقال کے وقت ہوا تھا۔ محمد موسی،  لگ بھگ اسی برس کے قریب ایک بھرپور بڑھاپا گزار رہے تھے، ہمارے بزرگوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے اکثر کلینک پرآجاتے اور چائے کی فرمائش ہوتی تھی۔لیکن ان کی آمد ہمیشہ مغرب کی نماز کے بعد ہوا کرتی تھی۔ اپنے ماضی کے قصے، کچھ حالات حاضرہ پر تبصرہ ، کچھ اپنی طبیعت کا موضوع۔ لیکن اس دن ظہر کی نماز کے بعد آئے تو مجھے کچھ اچنبھا ہوا۔ سلام دعا کے بعد کہنے لگے کہ آج جب میں نماز پڑھ رھا تھا تو مجھے ایسے لگا جیسے میرا جسم ایک لمحے کو سن ہوگیا ہے،لیکن پھر سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ میں نے مذاق سے کہا کہ آپ نے میرے ساتھ چائے پینے میں کافی غیر حاضریاں کر ڈالی ہیں ،اسلئے ایسا ہوا ہوگا۔ پہلے چائے پیتے ہیں ، پھر طبیعت بھی چیک کر لیتے ہیں۔ لیکن ابھی میری بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ کہنے لگے بالکل ایسے ہی ہوا تھا اور ان کا جسم ڈھلک گیا، ڈسپنسر کی مدد سے بستر تک لے کر گیا تو ان کا جسم روح سے خالی ہوچکا تھا۔
اس دن بیس بائیس سال کے نوجوان کو سینے میں معمولی درد کے ساتھ لیکر آئے تو چیک اپ کے بعد میں نے بتایا کہ دل کے اٹیک عموماً اس عمر میں نہیں ہوتے لیکن اس کی ساری علامات کچھ غیر معمولی ہیں۔اس لئے ایک بار دل والے ہسپتال ضرور چیک کروا لیں۔لیکن جونہی نوجوان کمرے سے نکلنے لگا توگر گیا ۔اٹھا کر بسترتک لیجایا گیا تو اس کی روح اور جسم کا ناطہ ٹوٹ چکا تھا۔ 
لیکن جس موت نے میرے احساسات کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا وہ ایک ایسے نوجوان کی موت تھی،جس نے گھریلو جھگڑے کے بعد گندم میں رکھنے والی زہریلی گولیاں کھا لی تھیں اورمیں کرب کے ان لمحوں کو زندگی بھر فراموش نہیں کر سکتا جب تکلیف اور اذیت میں وہ ہاتھ جوڑ جوڑ کر منتیں  کر رہا تھا کہ میری جان بچا لو۔ ابا مجھے معاف کر دو۔ اماں میرے لئے کچھ کرو۔ڈاکٹر مجھے سے غلطی ہوگئی مجھے بچا لو۔۔۔لیکن اگلے چند لمحوں میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکا تھا۔
ایسے ہی کتنے ہنستے بستے لوگوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے اس دنیا سے رخصت ہوتے دیکھ چکا ہوں۔ کچھ اتنے اچانک اور کچھ عمر کے اس حصے میں جب ابھی زندگی کی کونپلیں بھی صحیح طرح سے نہیں کھلی تھیں ۔بیس سالہ عائشہ میرے کلینک سے دوا لیکر نکلی ابھی کچھ دور ہی گئی تھی کہ ڈوپٹہ موٹر سائکل کے پہیے میں آگیا اور سر سڑک سے ٹکڑایا اور زندگی کا ساتھ ختم۔
 ننھا مہتاب اس دنیا میں آیا توسارے آنگن میں روشنی پھیل گئی۔کیس گھر پر ہی ہوگیا۔سب بچے کی خوشیوں میں لگ گئے لیکن جب ماں کے زرد چہرے پر نظر پڑی تو سب کے اوسان خطا ہوگئے۔ میرا کلینک قریب تھا، اٹھا کر میرے پاس لے آئے، لیکن اس وقت تک ممتا روٹھ چکی تھی۔
  پتا ہی نہیں چلا کہ عثمان کھیلتے کھیلتے کیسے پانی کے ٹب تک جا پہنچا، جب ماں کی نظر پڑی تو ننگے پاؤں لیکر دوڑی۔ لیکن میرے سامنے اس نے اپنی آخری سانس لی تو میرے اندر اس کی ماں کو کچھ بھی بتانے کا حوصلہ نہیں تھا۔
عبدللہ اپنے باپ کی دوائی کے بابت پوچھنے میرے پاس آیا۔ اورکچھ دیر بعد ڈکیتی کی وادات میں اس کے قتل کی خبر سنی تو دیر تک، میں سکتے میں رھا۔
پندرہ سولہ سالہ فاطمہ کو اپنے باپ کے ساتھ گنے کی ٹرالی کے ساتھ موٹر سائیکل کے ایکسڈینٹ کے بعد جب کلینک پر لایا گیا تو ابتدائی طبی امداد کے بعد سی ٹی سکین کیلئے ریفر کیا تو وہ خود اپنے قدموں پر چل کر بیرونی گیٹ تک  گئی۔ لیکن پھر چکر کھا کر ایسی گری کہ دوبارہ اٹھ نہیں پائی۔افضال صاحب کا گھر میرے کلینک کے بالکل قریب ہے۔ جب لائٹ اپنے مقرہ وقت پر نہیں آئی تو جنریٹر سٹارٹ کرنے لگے تو اچانک بجلی آگئی اور کرنٹ لگنے سے کوئی آواز بلند کئے بغیر اپنے حقیقی مالک سے جاملے ۔
 ایسے ہی کتنے لوگوں کے زندگی سے تعلق ٹوٹنے کا گواہ ہوں اور شائد ہم سب ہی موت کے ایسے سینکڑوں، ہزاروں واقعات کے عینی شاہد ہوتے ہیں۔ ہم ہر روز جنازوں کا اعلان سنتے ہیں۔ اپنے پیاروں اور قریبی رفقا کے کندھوں کو سہارا دیتے ہیں۔لیکن پھر بھی سماج کی بنائی ہوئی مصنوئی آلائشوں کیلئے زندگی کی اس سب سے بڑی حقیقت اور سچائی سے منہ موڑ لیتے ہیں۔اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھیں تو فریب کا حلقہ اور زندگی کا طلسم دونوں ٹوٹ جائیں گے۔زندگی ایک روکھی حقیقت کی نمائندہ بن جائے گی۔موت دنیا کی سب سے بڑی اور اٹل حقیقت ہے۔دنیا میں خدا اور مذہب کے منکرین تو بہت مل جائیں گے لیکن موت سے انکاری شائد ہی مل سکے۔

ایک لمحے کو سوچ دل میں آتی ہے اورزندگی اپنی نزاکتوں کے ساتھ سامنے ڈگمگاتی ہوئی نظر بھی آتی ہے لیکن پھر بھی ہم موت سے اپنی نظریں چرا لیتے ہیں۔وقت ہماری زندگیوں کو کسی دیمک کی طرح کھا رھا ہے۔جب کوئی چیز کم ہورہی ہو تو  وہ ایک دن ختم بھی ہوجائے گی۔جب موت اس قدر برحق ہے اور زندگی اس قدر غیر یقینی ہے ،تو پھر ہم کس لئے اس دنیا میں آئے ہیں؟ ہمارا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟ ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے؟؟
جاری ہے
میم سین

Wednesday, March 12, 2014

میرے قلم سے

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں اپنے پیشہ وارانہ امور کی سرانجام دہی میں ناکام ہوں۔ اور اس بات کا احساس، شدت سے ہوتا ہے ،جب میں مریضوں کے سوالوں کے سامنے لاجواب ہوجاتا ہوں ۔ ابھی کل کی ہی بات ہے کہ ایک خاتون ایک ماہ کے بچے کو پیٹ میں درد اور بہت زیادہ رونے کی شکائیت کے ساتھ لے کر آئی ۔ میں نے جب بچے کے دودھ کے بارے میں پوچھا تو ماں نے جواب دیا، دودھ تو میں صرف ماں کا ہی دیتی ہوں لیکن ویسے یہ جو س بھی پی لیتا ہے اور دہی اور دلیا بھی شوق سے کھا لیتا ہے۔شہد بھی دے دہتی ہوں۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا اسے یخنی بھی پلا دینی تھی۔ماں نے میرے طنز کو نظرانداز کرتے ہوئے بڑے اشتیاق سے پوچھا، ڈاکٹر صاحب دیسی مرغی کی یا پھر برائلر سے بھی کام چل جائے گا؟؟؟
اور اس دن جب تین ماہ کے بچے کو تیز بخار کے ساتھ دوبارہ میرے پاس لایا گیا تو والدین کی زبان پر ایک ہی شکوہ تھا کہ ہم تو بڑی امید کے ساتھ آپ کے پاس آئے تھے۔ تین دن پہلے دوائی لیکر گئے تھے لیکن ذرا سا بھی آرام نہیں آیا بلکہ بچے کی طبیعت تو پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوگئی ہے۔میں نے پوچھا کہ جو دوائی میں نے دی تھی وہ ختم ہوگئی ہے؟ تو جواب آیا وہ تواس دن آپ کے کلینک سے گھر جاتے ہوئے گم ہوگئی تھی ۔لیکن بچے کا آپ سے چیک اپ کروایا تھا، کچھ تو فرق پڑنا چایئے تھا
لگتا ہے طبی علوم کے حصول کے ساتھ ساتھ مجھے سفلی علوم سیکھنے پر بھی توجہ دینی چاہیئے؟؟
میم سین