Monday, June 30, 2014

ایک احساس

جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس (کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے۔ وہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے( سورۃ بقرہ آیت 261

میں ایسے الفاظ کا سہارا نہیں لے سکتا جن میں میرا دل دھڑکتا ہو۔کیونکہ الفاظ کی روح کو میں نے بھاری پتھر کے نیچے دبا دیا ہے۔میں ہمیشہ سے سنگ بہاروں کی تلاش میں رہتا تھا۔گل پوش وادیوں کی سحر انگیزیاں ڈھونڈنے کی سعی میں رہتا تھا۔صبح کی فضائوں میں شبنم کے قطروں سے پیاس بجھانا چاہتا تھا۔لیکن یہ کیسا شعلہ لپکا ہے کہ جس نے میرے سحر انگیز خوابوں کو جھلسا کر رکھ دی ہے۔ میری تمنائوں میں ایک بھونچال  لے آیا ہے۔یہ کیسی بپتا ہے کہ جس نے تاریخ کا منہ موڑ کے رکھ دیا ہے۔
بات بہت سادہ اور آسان ہے لیکن بات سمجھنے کی ہے۔میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ طالبان خارجی ہیں یا صحیح العقیدہ مسلمان ہیں۔ وہ اسلام کی اصل چہرے کو پیش کر رہے ہیں یا پھر وہ گمراہ گروہ ہے۔ یا پھر یہ کہ فوج کا اقدام درست ہے یا پھر وہ بھی کسی کے اشاروں پر چل رہی ہے لیکن اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ لاکھوں افراد اپنے گھروں سے نکل کر کھلے آسمان کے نیچے بے سروسامانی کا شکار ہیں۔کیا وہ ہمارے مسلمان بھائی نہیں ہیں؟کیا وہ انسان نہیں ہیں۔؟ اآخر ان کو کس بات کی سزا دی گئی ہے؟؟

اگر ہم نماز پڑھتے ہیں۔ روزے رکھ رہے ہیں۔تو یقیناً ہم مسلمان ہیں ۔ اور مسلمان ایک جسم کی مانند ہوتے ہیں۔اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارے جسم میں درد محسوس ہوتا ہے۔ تو آئیے اس درد کو محسوس کریں۔یہ کوئی فریاد نہیں ہے کوئی التجا نہیں ہے۔یہ زندگی کے حق کی پکار ہے۔اس جذبے کی تلاش ہے جس کے بنا فطرت کے سارے رنگ پھیکے ہیں۔بے رنگ ہیں۔ادھورے ہیں۔ وہ جذبہ ہے اخوت کا، بھائی چارے کا۔ہم اس سارے درد کا کوئی علاج نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار ضرور کر سکتے ہیں۔تشفی کے دو بول تو بول سکتے ہیں۔ نیکی کے جس جذبے سے فطرت نے ہمیں مالا مال کیا ہے اس جذبے کو بروئےکار لا کر ان کے سروں پر شفقت کا ہاتھ تو رکھ سکتے ہیں۔۔کیا ایسا نہیں ہوسکتا،اس سال اپنے عمرے کا خرچ ان مسلمان بھائیوں کے نام کر دیں۔ دوستوں کیلئے مختص افطاری پر اٹھنے والے اخراجات کو ان بے گھر افراد کے نام کر دیں۔ہماری نیکیوں کا سہارا وہ لوگ بنیں جو اپنے گھروں سے بے گھر ہوگئے ہیں۔ پر تکلف سحروافطار کے وقت ان مظلوم گھرانوں کو یاد رکھیں جو اس وقت مصیبت سے گزر رہے ہیں۔بےشمار ادارے اور فلاحی تنظیمیں ان بےسہارا افراد کی مدد کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔فلاح انسانیت فائونڈیشن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ کتنے احسن طریقے سے ان بے سہارا افراد کی مدد کر رہے ہیں۔ الخدمت والوں کا کام بھی قابل تعریف ہے۔اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں ایسی ہی بےشمار تنظیمیں ہیں جن کے ذریعے سے آپ اپنےبھائیوں تک پہنچ سکتے ہیں۔

لیکن مجھے ڈر لگتا ہے۔ کہیں اپنی امنگوں کے گھوڑے دوڑاتے ، حالات سے لاتعلقی کے مسلسل رویے، ہماری زندگیوں میں بھی وہ دن نہ لے آئیں، جب ہمارے شہروں میں بھی صبا کی بجائے صرصر چلے گی۔ کوئل کی کوک میں آہ ہوگی اور بلبل گیتوں کی بجائے نوحے گائیں گی۔کلیاں چٹخنے سے پہلے نوچ لی جائیں گی۔مسرتیں دھندلا جائیں گی۔ نگہتیوں سے محروم کر دیا جائے گا۔مجھے ڈر لگتا ہے جب میرے بدن میں کانٹے چبھ رہے ہونگےاور کسی کا اس تکلیف کا احساس تک نہ ہوپائے گا۔۔۔۔۔
میم سین

Sunday, June 15, 2014

اور بھی غم ہیں زمانے میں

ضرورت ہے ایک ایسےنوٹس بورڈ کی، جو ہر کلینک میں موجود ہو۔ جس پر تنبیہ ہو کہ اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے مریضوں کا آپس میں گفتگو کرنا سخت منع ہے ۔ورنہ ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ جب تک مریض کی باری نہیں آجاتی تب تک یقین سے کہنا مشکل ہوتا ہے کہ مریض ڈاکٹر سے چیک اپ کروا کر ہی کلینک سے نکلے گا۔ اگر باری آنے میں زیادہ دیر ہوجائے تو کسی پیر فقیر، حکیم یا کسی دوسرے قابل ڈاکٹر کی اطلاع بمع ایڈریس اور کرامات کے مل چکی ہوتی ہےیا پھر کوئی مجرب نسخہ ہاتھ آچکا ہوتا ہے ۔۔۔
اف توبہ ہے!!! پانچ دن کے بچے کو یوں لوگوں کے درمیان لیکر بیٹھی ہو، نظر لگ گئی تو؟؟؟ ۔۔۔۔۔ یہ کیا ؟    تم یہاں کس کے پاس علاج کروانے آگئے ہو، یہ پاس کی بستی میں ڈاکٹر جمن ہے نا۔اللہ نے بڑی شفا دے رکھی ہے،ان کے ہاتھ میں۔ بس ایک بار جائو دوبارہ دوائی لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی !!! تو بھائی تم یہاں کیا کر رہے ہو؟؟  :) ۔۔۔۔ اوئے ہوئے۔بچے کو خسرہ نکلا ہوا ہے اور تم دوائی لینے آگئی ہو، اس کو منکا کھلائو۔۔کوئی سوگی کھلائو تاکہ اس کے دانے باہر نکلیں اوراس بات کا خصوصی خیال رکھو کہ بچے کو نہلانا ہر گزنہیں ہے۔۔۔شوگر کیلئے کریلوں کا پانی بہت مفید ہوتا ہے۔دوائی بند کرو اور آج سے ہی یہ نسخہ شروع کردو اور اگر کولیسٹرول بھی زیادہ ہے تو بھائی تھوم چبایا کرو اور ادرک کا پانی پیا کرو۔۔۔۔۔ مجھے تو تمہارے بچے پر سایہ نظر آرھا ہے، اسے ڈاکٹر کی نہیں کسی دم کرنے والے کی ضرورت ہے ۔۔۔ڈاکٹر تو ایسے ہی شوگر کو ہر تکلیف کی وجہ قرار دیتے رہتے ہیں۔ نیم کے پتوں والا پانی لو اور دن میں تین چار دفعہ زخم کو دھو دیا کرو۔ دیکھنا کیسے زخم ٹھیک نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ تمہیں گرمی کا بخار ہے اور گرمی کا توڑ گرمی سے ہی ہوسکتا ہے اس لئے آم کا ملک شیک بار بار استعمال کرو۔۔۔۔۔تمہارے بچے کا سر بڑھ رھا ہے۔بابادھونی شاہ ہر جمعرات کو سر بڑھنے کا دم کرتا ہے۔بخار کی دوا بعد میں لے لینا۔ پہلے دم کروا لو کیونکہ آج جمعرات ہے۔۔۔۔ تمہارے بچے کو سوکڑہ ہے ، فلاں پیر صاحب کے پاس بڑ ا پکا دم ہے اس کا ۔۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے تمہیں جگر کی گرمی ہے، اور ڈاکٹر نے دوائیاں لکھ چھوڑنی ہیں ، بہتر ہے گنے کا رس پیئو۔ میری پھوپھو کو بھی یہی علامتیں تھیں ۔ وہ اور بات ہے اللہ نے ان کی عمر ہی اتنی لکھی ہوئی تھی۔ ۔۔یہ کیا ؟؟ بخار میں روٹی کھاتے رہے اور اوپر سے گرم دوائیاں کھانے کیلئے ڈاکٹر کے پاس آگئے ہو۔۔۔کنجوانی موڑ والے حکیم شادے کی پھکی استعمال کرو۔جگر کی ساری گرمی دور   نہ ہوئی تو مجھے کہنا۔معدے کا سارا ضعف دور ہوجائے گا۔۔۔۔بواسیر ہے تو کیا ہوا۔توڑکمُوں کا رس نکال کر دن میں تین چار دفعہ استعمال کرو۔بواسیر رہے گی یا پھر۔۔۔۔۔ جگر اور معدے کا علاج تو ایلوپیتھک طریقہ علاج میں ہے ہی نہیں۔رات کواسپغول کا برادہ دودھ میں ڈال کر استعمال کیا کرو اور صبح کو باداموں کی سردائی نہار منہ پیا کرو ۔۔۔ گردے میں پتھری ہے تو یہاںکیا لینے آئے ہو؟ ہومیوپیتھک کے قطرے پیئو، تین دن میں پتھری نکل جائے گی۔گارنٹی کے ساتھ۔۔۔ڈاکٹر جو بھی دوائی کی مقدار بتائے اس سے آدھی لینا چاہیئے، ورنہ خواہمخواہ انتریوں میں خشکی ہوجائے گی۔۔۔ بچہ دو ماہ کا ہوگیا ہے اور ابھی تک دوسرا دودھ نہیں دیا؟ ابھی سے فیڈر شروع کر دو ، ورنہ بعد میں بڑی مشکل ہوگی۔ دودھ نہ سہی کوئی گلوکوز یا پھر شیزان کی بوتل ہی پلا دیا کرو۔۔۔۔
میم سین

Thursday, June 12, 2014

محاورے

میرا ہمیشہ سے خیال رھا ہے کہ محاورے لفظوں کا وہ گھورکھ دھندہ ہیں، جن کی حقیقت تو مشکوک ہوتی ہے لیکن ہمیشہ کسی بھی بحث میں دلائل کا وزن بڑھانے کے کام آتے ہیں ۔ لیکن اب مجھے یقین آگیا ہے کہ محاورے عاریتاً لئے الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتے بلکہ وقت کی آنچ میں پک کر سچائی کا ایک اظہار ہوتے ہیں
ناہید نے بی اے کر لیا تو گھرداری کی ذمہ داری اس کے حوالے کر دی گئی۔ ہر متوسط گھرانے کی طرح اس کے والدین کو بھی اس کے رشتے کی فکر شروع ہوگئی۔ کچھ وچولنوں سے بھی مدد چاہی تھی ۔ خاندان میں بھی لڑکے دیکھے جارہے تھے،۔کچھ دوستوں اور قریبی احباب کو بھی اس معاملے میں مدد کرنے کو کہہ رکھا تھا۔ لیکن بی اے کئے چار سال گزر چکے تھے لیکن ابھی تک کوئی مناسب لڑکا مل نہیں سکا تھا۔اور ناہید کی ماں ایک روایتی ماں کی طرح اس غم میں گھٹی جارہی تھی کہ سب سے بڑی کا رشتہ کہیں طے پائے تو دوسروں کی بھی باری آئے۔
فروری کا مہینہ تھا  اور دوپہر کا وقت  ۔ بچے سکول گئے ہوئے تھے کہ گھر پر دستک ہوئی ۔ دروازہ کھولا تو ایک مرد اور دو خواتین سامنے کھڑی تھیں۔ سلام کے انداز اور ظاہری حلئے سے کسی معزز گھرانے سے لگ رہے تھے۔ جب اپنی آمد کی وجہ اپنے بیٹے کیلئے رشتے کی تلاش بتایا تو    ناہید کی ماں نے فوراً ہی ڈرائینگ روم کا دروازہ کھولا اور ان کو اندر بٹھا دیا ۔ بوتلیں پیش کیں ،چائے کا پوچھا۔جب بات چیت شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ مہمان غلط گھر میں آگئے ہیں اور جس گھرانے کے بارے میں ان کو بتایا گیا تھا وہ اگلی گلی میں تھا۔ مہمانوں نے اپنی شرمندگی کااظہار کیا اور معذرت بھی کی اور درست پتا معلوم کرکے اجازت چاہی ۔
ایک دو دن اس بات کا چرچا گھر میں رھا لیکن پھر سب نے فراموش کر دی۔ لیکن یہ کوئی لگ بھگ پندرہ دن بعد کا واقعہ ہے جب وہی مہمان دوبارہ دروازے پر کھڑے تھے۔ اور پہلی بات جو انہوں نے ناہید کی ماں سے کہی وہ یہ تھی ۔ آج ہم لوگ غلطی سے آپ کے گھر تشریف نہیں لائے۔ بلکہ اپنے بیٹے کیلئے آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے آئے ہیں۔ بات چیت آگے بڑھی اور چند دن بعد منگنی میں بدل گئی۔
اور پرسوں جب ناہید کی ڈولی اٹھی تو مجھےاس محاورے پر یقین آگیا ہے کہ رشتے آسمانوں پر ہی بنتے ہیں
میم سین