Thursday, December 31, 2015

عطائیت


بھکر کے علاقے میں ایک عطائی ڈاکٹر کے ہاں ایبٹ کمپنی کی ایک گولی ایری برون بہت لکھی جارہی تھی ۔ایریبرون کے بارے میں بتاتا چلوں ایک انٹی بائیوٹک ہے اور عام طور پر گلے کی خرابی ،کھانسی وغیرہ میں استعمال کی جاتی ہے۔بڑےسائز  میں دستیاب ہے۔۔۔ 

کمپنی کی نئی انتظامیہ تعینات ہوئی تو انہیں تجسس ہوا کہ ایک بار اس پریکٹشنر سے ملا جائے جو کمپنی کو پورے علاقے میں سب سے زیادہ سیل دے رھا ہے۔۔ دور دراز کے ایک گائوں میں جب اسے ملنے پہنچے تو وہاں مریضوں کا ایک جم غفیر تھا۔ جب اسے بتایا گیا کہ دوائیوں کی کمپنی سے آئے ہیں تو اس نے بھرپور استقبال کیا۔ کمپنی کے سینئر نے اپنے روایتی انداز میں اپنی سیل مزید بڑھانے کیلئے بتایا کہ اس گولی کا استعمال کان کی انفیکشن اور جلد پر پھوڑوں اور پیشاب کی نالی کی سوزش کیلئے بھی کیا جاسکتاہے۔۔۔

 یہ سن کر کوئیک نے بڑی حیرت سے پوچھا۔۔۔۔۔


 تو کیا یہ طاقت کی گولی نہیں ہے ؟؟؟؟؟؟ْْ
میم سین
یہ واقعہ اسی کمپنی سے وابستہ ایک سابق نمائیندے نے سنایا ہے 

Tuesday, December 22, 2015

دلائل


میاں فیضان احمد خان صاحب کی خوش بختی کہہ سکتے ہیں کہ حکیم شجاع  صاحب جو چند دن پہلے لکھنو سے کراچی تشریف لائے تھے، پیغام بھیجا کہ وہ ان کے ہاں  رہنے کیلئے چند دن کیلئے حیدرآباد تشریف لا رہے ہیں۔۔ گھر بھرمیں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔ ان کے استقبال کیلئے تیاریاں شروع کر دی گئیں۔ کھانوں کیلئے خاص اہتمام کیا جا رھا تھا۔جس کیلئے باورچی کو ضروری چیزوں کی فہرست تھما کر بازار روانہ کر دیا گیا۔۔۔۔۔ مہمانوں کی فہرست بنائی جارہی تھی جن کی حکیم صاحب سے ملاقات کروانی تھی۔۔۔۔۔ گھر کے خادموں کو بار بار یاددھانی کروائی جارہی تھی کہ کن کن باتوں کا خیال رکھنا ہے۔۔
 میاں صاحب نے گھر کے سارے بچوں کو اکھٹا کیا اور ان کو سمجھانے لگے کہ حکیم صاحب بہت وضع دار بندے ہیں۔اس لئے ان کے سامنے شراتیں کرنے سے پرہیز کرنا ۔ فارسی اور اردو کے بہت بڑے شاعر ہیں۔ ۔اردو زبان کے اتنے بڑے قدر دان ہیں کہ گالی تو برداشت کر لیتے ہیں ہیں لیکن غلط اردو نہیں۔۔اس لئے  سوچ سمجھ کر بولنا


اور حکیم صاحب نے اپنی آمد کے دوسرے دن ہی برھم مزاج کے ساتھ  رخت  سفرباندھ لیا۔ 
سارے بچوں کا بلا لیا گیا کہ یقیناً حکیم صاحب کی برھمی کا تعلق بچوں کے ساتھ ہے
ڈرتے ڈرتے منوں میاں نے راز کھولا کہ مریم نے احمد کو  الو بولا تھا 
مریم نے فوراً جواب دیا احمد نے مجھے الی کہا  تھا
احمد نے اپنی صفائی پیش کی
  آپ ہی نے تو کہا تھا کہ حکیم صاحب گالی تو برداشت کر لیتے ہیں لیکن غلط اردو نہیں
میاں صاحب اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے بولے لیکن بیٹا الو کا مونث بھی الو ہی ہوتا ہے
تو میرے لبرل بھائیو۔ آپ بے شک اپنے نظریات پر قائم رہیں لیکن کم از کم لبرل ازم کے حق میں دلائل تو درست دیا کریں
میم سین

Tuesday, December 15, 2015

المعروف


فیصل آبا میں ایک اہل حدیث شخص نے ایک شیعہ کو گھر کرائے پرچڑھایا...نئے کرائے دارنے گھر کے دروازے پر سے یااللہ مدد مٹا کر یا علی مدد لکھوا دیا...چونکہ ایڈوانس لے چکا تھا اور معاہدہ ہوچکا تھا اس لئے اسے بے دخل تو کر نہیں سکتا تھا اس لئے مالک مکان نے پینٹر کو لے جا کر یا علی مدد مٹا کر دوبارہ یا اللہ مدد لکھوا دیا...کرائے دار نے پھر مٹا کر یا علی مدد لکھوا دیا...دو تین بار ایسا ہی ہوا...
جس کے بعد کرائے دار نے یااللہ مدد تو نہیں مٹایا ہاں نیچے لکھوا دیا
یا اللہ مدد
المعروف 
یا علی مدد
میم سین

Monday, November 30, 2015

دوسرے خط کے جواب میں


پیاری شیریں

سدا خوش رہا کرو
تمہار مکتوب ملا ۔کئی گھنٹے میرے وجود سے خوشیوں کے بکھرتے ساز نے میری ارد گرد کی فضا کو کسی سحر نے اپنی آغوش میں سمیٹے رکھا۔ کہیں اس سحر سے نجات ملی تومیں پڑھنے بیٹھا تو فکر کے جھوٹے پلندوں نے مجھے اپنے لپیٹ میں لے لیا ۔
پیاری شیریں ! میں اتنے  نئے الفاظ کہاں سے لاؤں؟ ان کو نئے نئے معنی کہاں سے پہناؤں ؟ جو حقیقت کے بوجھ کو سہارا دینے کی سکت رکھتے ہوں۔۔۔جو ایسے جذبوں کی ترغیب دیتے ہوں جن سے خلش اور کسک کو تسکین میں بدلا جا سکے۔۔۔۔چند لمحے پہلے تمہارے خط کو دیکھ کرمیرے وجود میں کود آنے والا ترنم تمہارے الفاظ پڑھ کر کسی بے آواز موسیقی میں ڈھل گیا تھا لیکن جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ میں بھی دیوانہ ہوں جو اپنے اندر موجزن حقیقتوں کے ہوتے ہوئے بھی لفظوں کی ہلکی سی تپش سے جل اٹھا۔ لیکن اس تپش میں بھی ایک لذت کا احساس تھا۔ایک اپنائیت تھی۔۔۔۔
کہتے ہیں پرانے زمانے میں لوگ جب لوگ لمبے سفر کیلئے نکلتے تھے تو ایک دوسرے کو داستانیں سناتے تھے ۔اس سے سفر کی تھکاوٹ اور مسافت کا احساس نہیں رہتا تھا۔چلو میں بھی اس تھکاوٹ کو کم کرنے کیلئے ایک داستان سناتا ہوں 
تمہیں شائد معلوم نہیں ہے کہ جب مجھے ایم بی اے کرنے کے بعد دو سال تک جاب نہیں ملی تھی تو زندگی مجھے خشک تصورات کے بوجھ تلے میری جستجو کی حس کو اپاہج بنانے پر آمادہ کر رہی تھی۔جوں جوں وقت گزرتا جا رھا تھا میرا دل اس مندر کی طرح ویران ہوتا جا رھا تھا جہاں صدیوں سے انتظار کے دیئے روشن تھے ۔لیکن سنسان خاموشیوں اور اجاڑ ادسیوں نے ڈیڑے کچھ ایسے جمائے کہ راتیں تنہائیوں کے ہجوم میں بسر ہونے لگیں تھیں اور دن اپنے آپ کو ڈھونڈنے میں۔ جب حبس جنوں حد سے بڑھا تو میں نے کینیڈا شفٹ ہونے کی ٹھانی
لیکن میری داستان یہاں ختم نہیں ہوتی
جس دن میں کینڈین ایمبیسی اپلائی کرنے جا رھا تھا ۔شائد کوئی سرکاری چھٹی ختم ہوئی تھی اس لئے بس اسٹاپ پر بہت رش تھا۔ ٹکٹ لینے کیلئے قطار میں لگا تو نقاب میں ملبوس ایک لڑکی نے پانچ سو کا نوٹ میری طرف بڑھایا اور اسلام آباد کیلئے ایک ٹکٹ خریدنے کی درخواست کی۔ رش زیادہ تھا اوردرخواست اتنی اچانک  کہ مجھے سوچنے کا موقع نہیں ملا اور ٹکٹ خرید کر اس کے حوالے کیا اور خود ایک خالی بنچ پر جا کر بیٹھ گیا
لیکن اس قصے میں کوئی بھی نئی بات نہیں ۔ایسی واقعات زندگی میں جنم لے لیتے ہیں
بھیرہ پہنچ کر بس کچھ وقت کیلئے رکی تو میں بھی بس سے اتر کر ایک چائے کے سٹال پرچلا گیا۔چائے لیکر ایک میز کے قریب خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔ جب اچانک ایک نسوانی آواز میں کسی نے شکریہ ادا کیا تو اسے اپنے قریب پا کر کچھ اچنبھا ہوا۔ اور اس کے بات کرنے پر خوشگوار حیرت بھی۔میں قائداعظم یونیورسٹی میں اسلامیات کے شعبے میں پڑھتی ہوں۔ پارٹ ٹائم کوچنگ کلاسز بھی جوائین کر رکھی ہیں ۔ بس کچھ ضروری اسائنمنٹس تھیں جن کی وجہ سے میرا یونیورسٹی پہنچنا بہت ضروری تھا۔
جی بیٹھئے ۔اس کے ہاتھ میں بھی چائے کاکپ تھا ۔شکریہ کے رسمی جملے کے ساتھ وہ بیٹھ گئی اور بائیں ہاتھ سے چینی کپ میں ڈال کرنقاب کچھ ڈھیلا کیا ۔ اس کے نقاب ہٹانے پر میں نے پہلی بار اس کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھا تو مجھے اس کے چہرے پر فقط آنکھیں نظرآئیں
وہ کپ میں سے چسکیاں لے رہی تھی اور میں ان آنکھوں کے پیچھے گہرے سمندر میں جھانکنے کی کوشش کر رہا تھاکچھ دیر پہلے بچوں کی طرح گول گول آنکھیں اب مجھے کسی بیقرار روح کی بے عقیدہ آنکھیں نظر آئیں۔۔۔۔ مجھے لگا یہ آنکھیں نہیں ہیں تشنہ کاموں کی پیاس ہے۔۔۔ کسی عفریت کے خوف میں ۔۔روح کی بالیدگی کی تلاش میں ہیں۔۔۔۔کسی فاتح کی ذہنی مسرت کا خمار ہیں۔۔۔یہ آنکھیں نہیں ہیں مہیب غار ہیں، ۔۔یہ آنکھیں نہیں کائینات کا اسرار ہیں۔۔۔۔ناقابلِ فہم ہیں۔۔۔ بے پایاں وسعتیں ہیں۔۔۔نہ ختم ہونے والے فاصلے ہیں۔۔۔۔امنگوں او ر ولولوں کے سفر میں پہلا سنگِ میل ہیں۔۔۔۔یہ آنکھیں نہیں ہیں انکشافات کا پہلا قدم ہیں۔۔۔یہ آنکھیں نہیں ہیں لعزشِ ماہ وآفتاب ہیں جو زندگی کی معنویت ڈھونڈ ھ رہی ہیں۔۔۔۔۔انسانی مقام کو ارفع و اعلی دیکھنا چاہتی ہیں۔۔۔۔۔یہ آنکھیں نہیں ہیں جمالیات اور تخلیقات کی علامت ہیں۔۔۔۔۔۔ گوشہ عافیت کا شعور ہیں۔۔۔۔ جنوں کی تسخیر ہیں ۔۔۔۔مسرتوں کا جزو ہیں۔۔۔
اگر ہماری بس کے ڈرئیور نے ہارن بجا کر مسافروں کو واپسی کیلئے متوجہ نہ کیا ہوتا تو میں شائد ان آنکھوں کی پراسرایت کے بھید جاننے کیلئے ایلس ان ونڈرلینڈ کے ایڈونچر کا آغاز کر چکا ہوتایا ہیپناٹائز ہو کر جنگلوں میں نکل جاتا یا کسی گیان میں لگ جاتا یا کسی ان دیکھے سفر پر نکل جا
لیکن میں یہ داستان ان آنکھوں کیلئے نہیں لکھ رھا
اگر آپ برا نہ محسوس کریں تو ایک سوال کر سکتا ہوں۔ میرے اس اچانک سوالیہ لہجے پر وہ چونکی اور پھر مسکر اکر بولی پوچھئے؟
آپ کے انداز اور اطوار میں بھی ایک شائستگی پائی جاتی ہے۔اسلامیات کے شعبے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن چائے پیتے ہوئے کپ بائیں ہاتھ میں ہے؟
لیکن میں ابھی اپنا سوال مکمل نہیں کر سکا تھا کہ اس کے چہرے کی رنگت اڑ گئی۔ لرزاں آنکھیں اور ان آنکھوں کے نیچے کانپتے ہونٹ۔
اس کے چہرے کے بدلتے نقوش نے منوں زنجیریں میرے پاؤں میں باندھ دی تھیں۔
چند لمحے اسی خاموشی میں گزر گئے۔ میں اپنی چائے مکمل کر چکا تھا اس لئے اٹھنے کی اجازت لی۔ جب میں اٹھنے لگا تو وہ بولی
آپ کو چند سال پہلے توبہ ٹیک سنگھ میں گیس پائپ لائن پھٹنے کا حادثہ یاد ہے؟ 
میرے سب گھر والے اس میں چل بسے تھے۔ میرے دائیں بازو کا بھی زخم خراب ہوگیا تھا اور ڈاکٹروں کے پاس اس کو میرے جسم سے آزاد کرنے کے سوا کوئی حل موجود نہیں تھا۔۔
اور مجھے یوں لگا جیسے میرے جسم میں جان باقی نہیں رہی ہے۔ میری آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔میں بے یقینی کی کیفیت میں اس احساس کے ساتھ شائد رات کے کسی پہر کسی غلط اور ویران سٹیشن پر اتر گیا ہوں۔ میں بے یقینی میں کھڑا رھا کہ میں اگلا قدم بڑھاؤں یا پھر وہیں کھڑا رہوں
لیکن یہ داستان یہاں ختم نہیں ہوتی
میں نے سوچا مجھ میں کونسی کمی ہے ؟ میں کیوں خود کو بے یارو مدد گار بنائے بیٹھا ہوں۔میں تلخی فردا کو شیرینی امروز میں بدل کیوں نہیں سکتا؟۔اور کینیڈا جانے کا ارادہ کینسل کر دیا اور اپنی آبائی زمینوں کو آباد کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا
اور چند سالوں میں ، میرا شمار جدید زراعت کے بانیوں میں ہونے لگا۔اور اتنا کمانا شروع کردیا کہ شائد کینیڈا جاکر بھی ممکن نہیں ہوتا 
لیکن یہ داستان یہاں بھی ختم نہیں ہوتی
اس دن جب امی نے خالہ حشمت کے بیٹے کی اچانک وفات پر تعزیت کیلئے شکار پور جانے کا پروگرام بنایا تو تو میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ ہو لیا تھا۔
جیسے کچھ لمحے آپ کو کھینچ کر بھیرہ پہنچا دیتے ہیں ایسے ہی کچھ مہربان فرشتے کمال پر آئیں تو وہ آپ کو شکار پور لے جاتے ہیں جہاں ایک پری اپنی قسمت سے نالاں پریشان بیٹھی تھی۔
 تو میری نادان پری تمہیں اظہار کے بعد کی بے توقیری سے ڈر لگتا ہے ؟  تمہیں ان فرشتوں پر یقین نہیں جنہوں نے بھیرہ سے اٹھا کر مجھے تمہارے پاس شکار پور بھیجا تھا۔ کیا وہ فرشتے تمہیں بے توقیر ہونے دیں گے؟مجھے دل کی دھڑکنوں میں انجانی آہٹیں سنائی دیتی ہیں۔کسی نئے دور کی آوزیں۔۔کسی نئی بہار کے گیت ۔۔کسی دن ان کو محسوس کرنے کی کوشش کرو تو شائد تمہیں بھی ان کا سراغ مل سکے؟ حقیقت اور تصنع کے بیچ کا مقام مل سکے۔۔۔
پیاری شیریں یہ درست ہے تم نے مجھے ایک ایسی زبان سے آشنائی دلوائی ہے جس سے میں پہلے ناواقف تھا۔تاریخ کی گرد میں لپٹی کتاب کی مانند تم نے جس طرح میری ذات کی بستی کو ڈھونڈنے میں میری مدد کی ہے میں اس کا احسان بھلا نہیں سکتا۔کیا اس بات کو حوصلہ افزانہیں کہنا چاہیئے کہ تم اپنی ذات کی مسخ تاریخ لیکر اپنی نامکمل تہذیب کو مکمل کرنے کے خواب دیکھتی ہو۔ تم خواب دیکھتی ہو تو پھر ان پر یقین رکھنے میں اتنا تذبذب کا اظہارکیوں؟
تم پوچھتی ہو میرا کولسٹرول کیوں بڑھ گیا ہے؟ میرے پھولوں کے شوق کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔ میرے شوق تو وہیں ہیں لیکن آگہی کا عذاب کبھی کبھی ستانے لگتا ہے ۔۔ 
ذہنی بالیدگی بھی ایک المیہ ہے اور ایک لافانی المیہ۔ جب آپ زندگی کو مضبوطی سے دبوچ کر کرب سے نجات سے تگ دو کر رہے ہوتے ہیں۔چہرہ تھکن سے چور اور اعصاب کسی لڑکھڑاتے غمگین لہجے سے دوچار ہو اور سستانے کیلئے ایک جھٹکے سے زندگی سے دامن کو چھڑا کر پل بھر کو سانس لینے کیلئے آزاد ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ جس فرط وانسباط کیلئے آپ کا رواں رواں پھڑک رھا تھا۔وہ سب کسی اجنبی دیس کے مکین ہیں۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر آپ کسی نئی سمت کو نکل گئے ہیں اور اب تنہائی اور اداسی کا ایک لامتناہی سلسلہ آپ کیلئے دامن پھیلائے ہوئے ہے۔
اور یہ تمہیں کب سے احساس ہونے لگا ہے کہ تم غلط دور میں پیدا ہوئی ہو؟ تمہاری جگہ پر آج سے سو سال پہلے بھی لوگ ہونگے ان کے بھی مسائل ہونگے اور ایک سو سال بعد بھی لوگ ہونگے ان کے بھی مسائل ہونگے۔لیکن ہم زندگی اپنے اس حدود کے تعین میں گزار دیتے ہیں کہ شائد ہم نفرتوں کی صدی میں جنم لے لیا ہے جہان جینا بھی مشکل ہے اور مرنا بھی۔یہ سب بہلاوے ہیں جھوٹے بہلاوے۔خوف، دھشت اور محرومیت کے بہلاوے۔
کل کرن آئی تھی ہمارے ہاں۔اس کے ابا ایک بڑی گدی کے جانشین ہیں۔ میٹرک کے امتحان کی تیاری کیلئے اس کا امی کے ہاں اکثر آنا جانا رہتا تھا۔لیکن ایف ایس اے کے دوران اس کے ابا نے اپنا سیاسی اثرورسوخ بڑھانے کیلئے اس کی کا رشتہ جڑانوالہ کے ایک ایم این کے بیٹے کے ساتھ کر دیا تھا۔ کرن نے خود کشی کی بھی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہی۔ آج برسوں بعد اس کے بے روح جسم، بے رنگ آنکھیں اور خزاں زدہ چہرہ دیکھ کر دل بہت دیر تک اداس رھا ۔ تین بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ اور شوہر دسری کے بعد تیسری شادی بھی کر چکا تھا۔اسے دیکھ کر مجھے یوں لگ رھا تھاکہ جیسے اسے قبرستان  کی وحشت میں جانے کی بہت جلدی ہے۔لیکن پیاری شیریں تم تو خود مختار ہو۔اپنے فیصلوں میں آزاد ہو۔قدرت نے تمہیں جن لازوال نعمتوں سے نوازا ہے۔اس میں ایک ذہن بھی ہے ۔ جب تم اپنی سوچ کی و سعتوں کو آزاد چھوڑ دیتی ہو تو دھرتی اور آکاش کافاصلہ سمٹ جاتا ہے۔زمانے کی فاصلے تمہارے قدموں تلے سمٹ جاتے ہیں۔تم نزاکت رعنائی کے خوف سے اپنے اشتعاروں اور تشبیہات کو مرنے کیوں دیتی ہو؟
پیاری شیریں ! مجھے معلوم ہے تمہارے ولوے اور جذبے کتنے نرالے اور مقدس ہیں۔تم ایک بے ریا، بے غرض اور معصوم لڑکی ہو۔ تم تعلیم یافتہ اور باشعور بھی ہو۔  اگرفطرت کی مجبوریوں کو دلائل سے سمجھنے کی کوشش کرو گی تو درد کے گہرے سایوں سے کیسے جان چھڑا پائو گی
خط نامکمل چھوڑ رھا ہوں کہیں ڈاک والے مجھے خط بھیجنے کیلئے کارگو سروس سے رابطہ کرنے کیلئے نہ کہ دیں
میم سین

Tuesday, November 24, 2015

ٹینشن

بظاہر دیکھنے میں آپ کوکوئی بیماری نہیں ہے۔ ۔۔۔۔ آپ کی رپورٹس بھی بالکل ٹھیک ہیں۔ ۔۔۔۔بس تھوڑا خوش رہنے کی کوشش کیا کریں۔ ۔۔۔ٹینشن کم لیا کریں۔۔۔ سب کے درمیان رہیں۔۔۔۔ تنہائی سے بچیں

لیکن ڈاکٹر صاحب مجھے کیا ٹینشن ہو سکتی ہے؟ 
اپنا گھر ہے ۔۔بچے ہیں۔۔ زمینیں ہیں۔۔ جائیداد ہے۔۔۔کاروبار ہے ۔۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے ۔۔۔
مجھے کیسے ٹینشن ہو سکتی ہے؟
خاوند نے بھی بے یقینی میں پوچھا۔۔
انہیں کیا ٹینشن ہو سکتی ہے؟؟؟؟
!!اب تو ہمارے چھوٹے بیٹے کی ضمانت بھی ہونے والی ہے جو قتل کے مقدمے میں اندرہے
میم سین

Monday, November 16, 2015

بوکی


کل ایک بابا جی نے میرے پاس آکر بڑی لمبی تمہید باندھی

پتڑ!   کچھ عرصہ پہلے مجھے پیشاب کا مسئلہ ہوگیا تھا... رک رک کر آتا تھا اور بہت کم آتا تھا۔... میں تمہارے پاس بھی آیا تھا اور شہر بھر کے  ڈاکٹروں کو آزما کردیکھا ۔۔۔ مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا۔۔۔۔۔ میرے بڑے بیٹے کا بیاہ کسووال ہوا ہے جب میری بیماری کا علم اس کے سسر کو ہوا تو اس نے مجھے فون کرکے کہا۔ فتح محمدا ۔اگر تجھے آرام نہیں آرھا تو میرے پاس آجا۔۔۔ ہمارے علاقے میں ایک بہت قابل حکیم ہے۔۔۔۔ مجھے تو پہلے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ میری بیماری کا علاج ڈاکٹروں کے بس کی بات نہیں ہے۔۔۔۔اس لئے اگلے روز ہی سراجے کے سسرال چلا گیا ۔۔حکیم نے نبض پکڑتے ہی کہا بابا جی تمہاری بوکی کام نہیں کر رہی۔۔۔ دو ہفتے کیلئے ایک سفوف استعمال کرنے کو دیا اور میں بھلا چنگا ہوگیا
چند لمحوں کیلئے میں بابا جی کی بات سن کر اپنے اوسان کھو بیٹھا تھا ۔جب کچھ حواس بحال ہوئے تو پوچھا بابا جی اب میرے پاس کیسے آنا ہوا؟
بابا جی جواب دیا
ذرا الٹراساؤنڈ کرکے بتاؤ میری بوکی اب ٹھیک کام کر رہی ہے؟
میم سین
(جو لوگ پنجابی سے واقف نہیں ہیں ان کیلئے عرض ہے کہ بوکی نلکے میں ایک پرزہ ہوتا ہے جو پانی کو اٹھا کر باہر پھینکتا ہے)

Tuesday, November 10, 2015

مشورہ


ملک وسیم صاحب بہت اچھے دوست ہیں ۔دلچسپ آدمی ہیں ۔دوستی نبھانا خوب جانتے ہیں ۔کہیں بھی کسی کی خوشی میں شرکت کرنا ہو یا پھر کہیں افسوس پر جانا ہو تو ہمیشہ ساتھ نبھاتے ہیں۔ یہ کل دوپہر کی بات ہے جب لوگ انہیں تقریباً بے ہوش حالت میں اٹھا کر میرے پاس کلینک پر لائے۔ معلوم ہوا کہ ایک جنازے پر گئے ہوئے تھے کہ شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا۔ میں نے کچھ انجیکشن وغیرہ لگوائے ۔لگ بھگ ایک گھنٹے بعد اس قابل ہوئے کہ بات چیت کر سکتے۔ 
انہوں نے بتایا کہ جنازے کے بعد میں میت کے ساتھ قبرستان تک گیا ہوں۔ قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد کسی نے اگربتیاں جلا کر کر قبرپر لگادیں ۔قبر کے بالکل اوپر درخت پر شہد کا چھتا لگا ہوا تھا۔ دھویں نے مکھیوں کو برانگیختہ کر دیا اور جنازے کے ساتھ آئے لوگوں پر حملہ کر دیا۔۔
میں نے ساری داستان سن کر بہت افسوس کا اظہار کیا اورکہا اگر آپ کو یاد ہو تو مرزا صاحب کے بیٹے کی شادی پر جب ایک شہد کی مکھی نے ہمیں تنگ کرنا شروع کیا تھا تو حاجی زکریا صاحب نے ایک مشورہ دیا تھا کہ جب بھی شہد کی مکھی حملہ کرے تو کبھی اس کی طرف ہاتھ سے اشارہ نہیں کرتے اور فوراً ساکت ہوجانا چاہیئے۔ مجھے لگتا ہے مکھیوں کے حملے کے وقت اس حفاظتی تدبیر عمل نہیں کیا۔ ملک صاحب نے روہانسی صورت بنا کر جواب دیا
میں نے تو عمل کیا تھا ۔ لیکن حاجی صاحب نے مشورہ صرف ہمیں دیا تھا ، شہد کی مکھیوں کو کچھ نہیں سمجھایا تھا
میم سین

نصیحت


کل شام میاں رفیق  صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا ۔ہماری ملاقات کے دوران ہی ان کا بھانجا ان سے ملنے کیلئے آگیا۔پنجاب یونیورسٹی میں انجینئر نگ کے شعبہ میں دوسرے سال کا طالب علم ہے۔پنجاب یونیوسٹی ، جمیعت اور دوسرے حوالوں سے اس سے گفتگو ہوتی رہی۔چونکہ میاں صاحب زیادہ پڑھے لکھے آدمی نہیں ہیں اس لئے ہماری گفتگو کے درمیاں خاموش رہے۔ لیکن پھر اچانک بولے میاں عثمان ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے تمہیں یونیورسٹی جاتے ہوئے۔ کوئی اپنے لئے لڑکی بھی پسند کی ہے یا نہیں ؟ اس غیر متوقع سوال پر عثمان  نےجھینمپ کر سر جھکا لیا اور بڑے شرمیلے سے لہجے میں بولا ماموں وہ کیا ہے کہ ساری کلاس فیلو مجھے عثمان بھائی کہہ کر پکاڑتی ہیں۔ میاں صاحب نے بڑی لاپرواہی سے جواب دیا ۔ بیٹااس میں دل چھوٹا کرنے والی کیا بات ہے؟۔ شادی سے پہلے تمہاری ممانی بھی مجھے بھائی جان ہی کہا کرتی تھی
میم سین

Monday, November 9, 2015

ایک قصہ


..کل ایک بہت سبق آموز قصہ پڑھنے کو ملا

قاہرہ میں ایک بہت امیر شخص رہتا تھا۔ ایک دن دفتر میں بیٹھا تھا کہ اس کو پسینے آنا شروع ہوگئے اور سانس رکنا شروع ہوگیا۔ فوری طور پر ہسپتا ل لے جایا گیا ۔ ڈاکٹروں نے کچھ ٹسٹوں کے بعد انکشاف کیا کہ اس کی تو دل کی آدھی شریانیں بند ہیں۔ علاج کے بعد جب کچھ طبیعت سنبھل گئی تو اسے چند دن بعد کچھ مزید ٹسٹ کروانے کیلئے دوبارہ ہسپتال سے رجوع کرنے کیلئے کہا گیا۔ٹسٹوں سے دو دن پہلے اس امیر شخص کا ایک غریب علاقے سے گزر ہوا۔ اس نے ایک بوڑھی اماں کو دیکھا جو اپنے گھر کے باہر سوپ کا برتن لے کر گاہکوں کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ اس امیر شخص کو بوڑھی اماں پر ترس آگیااور گاڑی روک کر اس نے بوڑھی اماں سے سوپ پیا اور یہی نہیں اپنے دفتر کے سارے عملے کیلئے بھی پیک کروا لیا۔ دو دن بعد جب وہ ہسپتال اپنے ٹسٹ کروانے گیا تو ڈاکٹراس کی نئی رپورٹیں دیکھ کر کافی پریشان ہوگئے۔ اس نے ڈاکٹروں کو پریشان دیکھا تو وجہ دریافت کی؟ ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ اس کی رپورٹیں بالکل ٹھیک آئی ہیں۔ لیکن ہماری میڈیکل سائنس یہ کہتی ہے کہ ایسا آپریشن کے بغیر ممکن نہیں ہے اور ہم اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ امیر آدمی کو بے اختیار بوڑھی عورت کا سوپ یاد آگیا
کل شام کچھ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ماجرہ پیش آیا۔ ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ کے باہر سے گزر ہوا جس نے اپنے بیرونی دروازے پر نمایاں الفاظ سے لکھ رکھا تھا ۔ہر طرح کا سوپ دستیاب ہے۔ میں نے ریسٹورنٹ کے اندر جھانک کر دیکھا کوئی گاہک نظر نہیں آیا۔میں نیکی کے اسی جذبے سے سرشار جو فیس بک پر قاہرہ کے امیر شخص کا قصہ پڑھنے سے ملا تھا،ریسٹورنٹ کے اندر چلا گیا اور سوپ کا آرڈر دے دیا۔ جب میں نے نوٹ کیا کہ میرے سوپ پینے کے دوران وہاں کوئی اور گاہک نہیں آیا  ہےتو میں نے اپنے گھر والوں کیلئے بھی سوپ پیک کر وا لیا۔ 
صبح سے گلے میں اتنی سوزش آگئی ہے کہ آواز نہیں نکل رہی اور پورا جسم کسی پھوڑے کی طرح درد کر رھا ہے
میم سین

Thursday, November 5, 2015

ایک خط کے جواب میں


پیاری شیریں

خوش رہو

تمہارا خط ملا خوشی ہوئی ۔ میں نے تو بہت ڈرتے ڈرتے چند لفظ لکھے تھے لیکن تمہارے طویل جواب نے دل کے سارے وسوسے دور کر دیئے۔لیکن دیر سے جواب دے رھا ہوں ۔اس لئے کہ میں خود فیصلہ نہیں کر پا رھا تھا کہ میں کیا لکھوں۔

تم نے لکھا ہے کہ میرے الفاظ تمہارے لئے جام کا پیالہ بن گئے۔۔۔۔۔۔چند لفظ اور کئی دن کی خماری۔۔۔۔۔تم کہتی ہو میں مسیحا ہوں میں نے اپنے لفظوں کے مرہم سے تمہاے احساسات، تمہاری کیفیات کو، تمہاری کسک ، تمہاری خلش ،تمہارے غموں کو ایک نیا راستہ دکھا دیا ہے۔۔۔۔۔ تم نے لکھا ہے کہ تمہاری باتوں میں کیا کشش تھی کہ میں اپنے سارے غم و الم تمہارے سامنے کھول بیٹھی تھی۔۔۔۔لیکن اگر تم میرے غم کو حقیر سمجھ کر نظر انداز کر دیتے تو میں جس خول میں بند تھی اس کی آخری کھڑکی بھی بند کر لیتی۔۔۔۔لیکن تمہاری باتوں اور دلاسوں نے میرے من میں ایک قندیل روشن کر دی ہے۔۔۔۔ہر طرف ایک روشنی کا سماں ہے۔۔۔میرے اندر کسی بچے کی خوشی سمو گئی ہے۔۔ معصوم سی، چیخل، شوخ سی، بھولی بھالی۔۔پیاری پیاری ۔۔جن پر کوئی اختیار ہوتا ہے اور نہ قابو۔۔
پیاری شیریں ۔۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے خلوص اور باتوں کی سچائی میں اس قدر اثر ہوگا کہ وہ اتنی جلدی تمہارے من کو اجالوں سے بھر دیں گی۔جب ہم اپنے احساسات و جذبات کو لفظوں میں پڑونا شروع کر دیتے ہیں تو لا شعوری طورپر ذہن پر لگی گڑھیں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں۔مجھے نہیں معلوم تھا تاریخ سے تمہاری غیر معمولی دلچسپی مجھے تمہارے اتنا قریب کر دے گی۔ مجھے خوشی ہے کہ تمہارے اعتماد میں وسیع النظری بھی ہے اور اعلی ظرفی بھی۔ جس نے مجھ حقیر کے غرض سے بے نیاز جذبے کو پہچانااور اپنے احساسات کو لفظوں کی زنجیر میں ڈھال کر میرے سپرد کر دیا۔
خیر میں بھی کیا جذباتی باتیں لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ کل ماسی نذیراں نے بوہلی بھیجی تھی۔ بڑا دل کر رھا تھا پینے کو لیکن تمہاری کچھ نہ لگنے والی نے سختی سے روک دیا کہ ایک تو پہلے ہی کو لیسٹرول کی گولیاں کھا رہے ہو اور اوپر سے پیٹ خراب ہوگیا تو اسپغول ڈھونڈتے پھرو گے۔ ویسے اسپغول بھی کیا خوب چیزہے جب ڈاکٹر منشا نے قبض کیلئے مجھے چھلکے سمیت سیب کھانے کا مشورہ دیا تھا تو میں نے ہنس کرجواب دیا تھا۔ اب اتنے مضبوط دانت کہاں سے لاؤں جو سیب کے چھلکے کو روز کاٹ سکیں۔ تو ڈاکٹر نے گرم دودھ میں روزانہ چھلکا ملا کر کھانے کا مشورہ دیا۔ چھلکا کچھ ایسا راس آیا کہ سالوں کی شکایئت دور ہوگئی۔ تم کہو گی کیا فضول باتیں لے کر بیٹھ گیا ہوں ۔ لیکن سوچتا ہوں یہ فضول فضول باتیں ہی تو زندگی ہیں اگر ان کو زندگی سے نکال دیں تو باقی کیا بچتا ہے۔
اتنی کمسنی میں تاریخ جیسے دقیق موضوع پر تمہارے غیر معمولی علم نے جہاں مجھے تمہاری شخصیت نے متاثر کیا وہیں اس مضمون کو گہرائی میں دیکھنے پر بھی اکسایا۔ میں نے تمہارے مشورے پر ہندستان کی تاریخ پڑھنی شروع کی ہوئی ہے ۔ جب سے پڑھ رھا ہوں قسم سے مجھے لگتا ہے میں اس لدھڑ اور دقیانوسی صحافی کیا نام ہے اس کا؟ حسن نثار۔۔ہاں اس کی رائے کا قائل ہوتا جا رھوں ۔جس نے کہا تھا ہماری تاریخ میں قتل و غارت کے علاوہ کیا قابل فخر بات ہے؟ حسن سردار ستر منٹ کے کھیل میں مخالف ٹیم کی گول پوسٹ پر اتنے حملے نہیں کرتا تھا جتنے حملے ہندستان پر قبضے کیلئے کئے گئے تھے۔محمود غزنوی سے لیکر سلطان غوری تک۔خلجیوں سے لودھی اور مغلوں سے نادر شاہ احمدشاہ ابدالی تک۔۔ہر کسی نے سروں کی فصلیں کاشت کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا۔۔ سازشیں، حکومت، شراب اور شباب ا۔۔بس یہی سمجھ لیں کہ جو کچھ آج پاکستان میں ہورھا ہے وہ صدیوں سے اس خطے میں جاری ہے۔۔بس قتل و غارت گری کے انداز بدل گئے ہیں ۔۔ ۔۔۔۔۔ 
جب میں بادشاہوں کے حالات پڑھتا ہوں تو بے ساختہ وہ ڈرامہ سیریل یاد آجاتی ہے۔باادب باملاحظہ۔۔ کسی دن یو ٹیوب کھول کرڈرامے کی قسطیں ڈھونڈ کر دیکھنا ۔بہت دلچسپ ڈرامہ تھا۔۔جن دنوں ڈرامہ سیریل با ادب با ملاحظہ آن ایئر تھا ،ان دنوں ہم لوگ خالہ سرداراں کی بیٹی کی شادی پر خیر پور اکھٹے ہوئے تھے۔سب کی زبان پر بس با ادب با ملاحظہ کی باتیں تھیں۔ اور ڈرامے کی وجہ سے سب نے مہندی کا پرگرام رات نو بجے کے بعد رکھا تھا۔اس وقت تو سب باتیں ایسی اچھی لگتی تھیں کہ بے اختیار ان پر ہنسی آجاتی تھی۔لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ اس ہنسی مزاح کے پیچھے کتنے تلخ حقائق ہوتے تھے۔۔۔۔
جس دن میں خالہ حشمت کے گھر ان کے جواں سال بیٹے کی رحلت پرافسوس کیلئے پہلی بار شکار پور آیا تھا تو رات کو انکل بابر مجھے اپنے ساتھ لیکر تمہارے گھر والوں سے ملوانے لے گئے تھے۔تمہیں شائد یاد نہ ہو لیکن میں کیسے بھول سکتا ہوں۔تم نے جو پیلے رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا تھا ۔ اس میں تم کتنی خوبصورت دکھائی دے رہی تھی کہ بار بار میری نگاہیں تمہاری طرف اٹھ جاتی تھیں ۔ لیکن میں تمہارے اندر کی اداسی کو پڑھ نہیں سکا تھا۔ لیکن تمہارے چہرے میں بلا کی گویائی تھی۔ سیاہ گھنی پلکوں کے پیچھے سے جھانکتی آنکھیں مجھے سمندر سے زیادہ گہری دکھائی دے رہی تھیں۔میں تمہارے سنجیدہ چہرے کے پیچھے تمہاری آواز کو سننے کو بیتاب تھا ۔ لیکن جب تم اپنی امی کی آواز سن کر کمرے سے اٹھ کر گئی تھی تواس وقت مجھے معلوم ہوا تھا ہمیشہ ان چہروں میں قوت گویائی کیوں ہوتی ہے ۔جو بہت دکھی ہوتے ہیں۔لیکن مجھے یقین ہے تم نے جس نظریے اور عقیدے کو اپنا لیا ہے وہ تمہیں اب کبھی دکھی ہونے نہیں دے گا
تمہیں شکایئت ہے کہ تم الجھنوں کا شکار ہوجاتی ہو۔ الجھنیں سب کا تعاقب کرتی ہیں کئی دنوں سے میرے دماغ کو بھی الجھا رکھا ہے۔ جب بھی لکھنے بیٹھتا ہوں تو ذہن اور قلم میں ربط ٹوٹ جاتا ہےْ ۔ چند دنوں سے محسوس ہو رھا ہے کہ میں دائیں بازو سے نکل کر بائیں بازو کی طر ف جا رھا ہوں۔ کبھی مجھے لگتا ہے میراجھکاؤ لبرلز کی طرف ہورھا ہے اور کبھی مجھے احساس ستاتا ہے کہ شائد میں اشتراکیت کا قائل ہوتا جارھا ہوں۔ لیکن بھلا ہو الرحیق المختوم کا جس نے مجھے ایک کھونٹے سے باندھ رکھا ہے۔۔ جہاں مرضی گھوم آؤں لوٹ کر اپنے ٹھکانے پر آجاتا ہوں۔ورنہ حقائق اس قدر تلخ ہیں کہ انسان کو بہکنے میں زیادہ دیر نہ لگے
اچھا چلو کچھ مزے کی بات سناؤں۔میں جن باتوں کو قصے کہانیاں سمجھتا تھا وہ سب تاریخ کا حصہ ہیں۔ہمارے ہندستان میں ایسے ایسے نیک اور درد دل رکھنے والے حکمران گزرے ہیں کہ خون ناحق گرانے کی بجائے دشمنوں کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیر کر زندان میں ڈال دیتے تھے۔ ۔۔کچھ ایسے بھی بادشاہ گزرے ہیں جنہوں نے کبھی نماز نہیں چھوڑی اور نہ ہی کوئی بھائی۔کئی ایسے پارسا بادشاہ بھی گزرے ہیں جنہوں نے پوارا پورا رمضان شراب کو ہاتھ نہیں لگایا۔ کچھ شریعت کے ایسے پاسدار کہ جن کے دور میں رقص کے ساتھ موسیقی پر سخت پابندی تھی۔ایک لطیفہ بھی سن لو۔ فقیہ شہر کو دربار میں بلا کر چند فتوی طلب کئے گئے۔ کچھ بادشاہ کو پسند آئے کچھ پر ناراض ہوگیا۔اور غصے میں جیل میں ڈال دیا۔۔ چند ماہ بعد نکال کر ایک مسئلے پر رائے طلب کی تو وہ درویش صفت خود ہی دربار سے چل دیا ۔ بادشاہ نے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟؟ تو جواب ملا۔۔۔۔ زندان
تمہیں یاد ہے ۔ایک بار میں نے ملک رمضان کے شکاری کتوں کی بات سنائی تھی۔ بہت خونخوار تھے۔ کسی کی جرات نہیں ہوتی تھی کہ ان کے گھر کی طرف کوئی نظر اٹھا کر بھی دیکھ لے۔ لیکن اب وہ نہیں رہے۔ جند دن پہلے انہوں نے ملک رمضان کے بڑے بیٹے کو بری طرح نوچ ڈلا تھا۔ اسی دن ان کو گولی مار دی گئی ۔ اولاد انسان کو بہت عزیز ہوتی ہے۔ شائد دنیا میں سب سے بڑھ کر لیکن نہیں جب تخت کی باری آتی ہے تو پھر سب رشتے ہیچ ہو جاتے ہیں۔
تمہیں معلوم ہے چچا رزاق کی میرے بارے میں کیا رائے ہے؟ کہتے ہیں تو آہستہ آہستہ دھریا ہوتا جارھا ہے۔ ۔۔ ہے نا دلچسپ بات۔۔ اس دن ماسٹر فلک شیر کی بیٹھک میں کسی نے منٹو کے حوالے سے بات چھیڑ دی۔ ایسی غضب کی باتیں سننے کو ملیں کہ کہ میرے تو کان سرخ ہوگئے۔بس نہیں چل رھا تھا ان کا کہ اس کو قبر سے نکال کر پھانسی لگا دیں۔ مجھ سے رھا نہیں گیا اور لقمہ دے بیٹھا کہ اس میں منٹو کا کیا قصور ہے کہ کسی نے فٹ پاتھ سے منٹو کے منتخب افسانوں کے علاوہ اس کی کوئی کہانی نہیں پڑھی۔ میری بات سن کر سب منٹو کو چھوڑ کر میرے پیچھے پر گئے۔ اور مجھ سے جب کچھ بن نہ پڑا تو وہاں سے فرار ہونے میں عافیت جانی۔ باقی لوگوں نے تو اس محفل کو فراموش کر دیا لیکن چچا رزاق اب ہر وقت میری ٹوہ میں رہتے ہیں کہ میں آجکل کہاں آجا رھا ہوں کن سے مل رھا ہوں۔۔سچی بات تو یہ ہے کہ منٹو کے مجموعوں سے چند افسانے نکال دیں اور چندکہانیوں میں سے کچھ غیر ضروری جملے نکال دیے جائیں تو یقیناً ایک بہت بڑا غیر متنازعہ افسانہ نگار ہوتا
چچا رزاق کے علاوہ مفتی فقیر اللہ صاحب کو بھی آجکل میری بڑی فکر ہے۔ جب سے میں نے کھلم کھلا مدرسوں پر اعتراض اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ سچی بات ہے کہ یہ درسگاہیں نہیں ہیں ۔ جاگیریں ہیں۔ مسلمانوں کو اسلام کے نام پر بلیک میل کرکے ان کی جیبیں خالی کر کے بنائی گئی ہیں۔ ابھی چند دن پہلے میں نے مسجد میں بیٹھ کر اعتراض اٹھایا کہ مسجد  کے نقشے میں تعمیر کے چند سال بعد اتنی بڑی تبدیلی ناگزیر کیوں ہے؟ جب تک کام چل رھا ہے چلنے دیں۔ کیا کبھی کسی نے اپنے گھر میں بھی تعمیراتی ایڈونچر اتنی عجلت میں کیا ہے؟۔ چند ایک نے میری بات کی تائید کی لیکن باقی لوگ سلام دعا سے بھی گئے۔ حکومت ان پر پابندیاں لگا کر خواہ مخواہ کی بدنامی لے رہی ہے۔ میں نے بہت قریب سے ان کو دیکھا ہے۔اندر سے بالکل کھوکھلے ہیں۔ بس ریت کا سائباں ہے جو اپنے قدموں کی دھمک بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ گنتی کے چند ادارے ایسے ہیں جن کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ ہماری کل کی امید ہیں۔ لکھوں گا تمہیں کبھی اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ۔ 
مجھے معلوم ہے تم تخیل پرست ہو۔۔۔۔۔ تمہیں اپنے تخیلات اتنے ہی پیارے ہونگے جتنے کسی لڑکی کو اپنے خواب پیارے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ تم نے اپنے تخیل کی دنیا میں بیشمار کردار آباد کئے ہونگے۔۔۔۔میں جانتا ہوں تم دنیا کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کی قائل نہیں تھی۔۔۔۔۔ تمہاری خیالی آنکھیں ہر وقت کسی وارفتگی کا انتظار کرتی تھیں۔۔۔۔لوگ کہتے ہیں کہ جب تصورات زندگی کے ٹھوس حقائق کے ساتھ ٹکراتے ہیں تو تخلیل کی دنیا پاش پاش ہوجاتی ہے۔۔۔لیکن لوگ نہیں جانتے یہ تخیل کی دنیا شیریں کی بقا کیلئے ضروری ہے۔۔۔۔لیکن میں سمجھ سکتا ہوں۔۔۔
 تم بھی میری طرح ایک  انسان ہو۔۔۔   میری طرح سوچتی ہوگی۔۔۔۔ میری طرح احساس رکھتی ہوگی۔۔۔۔میں جانتا ہوں تم پڑھی لکھی ہو۔۔۔۔ معاش تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔۔۔لیکن بحرحال تم ایک عورت ہو۔۔۔۔ تم لاکھ مضبوط سہی لیکن تمہیں کسی سہارے کی ضرورت رہے گی۔۔۔ شائد میں وہ سہارا فراہم نہ کر سکوں ۔۔۔لیکن میں نے تمہاری اجلی اجلی آنکھوں میں روشن روشن سپنے دیکھے ہیں ۔۔۔۔۔میں ان سپنوں کی آبیاری کرتا رہوں گا جب تک تم اپنے سپنوں کو تسخیر نہ کر لو۔ ۔۔۔۔میں تمہیں اپنے لفظوں کا سہارا دیتا رہوں گا جب تک تمہارے زعفرانی چہرے پر خوشیوں کی کلیاں کھلنا شروع نہ ہو جائیں اور تمہارا تخیل کسی حقیقت میں ڈھل کرتمہارا سہارا نہ بن جائے۔ ۔
لیکن تمہارے اپنے والدین سے شکوے بے جا ہیں ۔یہ درست ہے کہ حقائق کے نشتر ناصرف تمہاری روح کو چھلنی کر دیتے ہیں بلکہ تمہارے نازک سے دل کے آبگینے ان حقائق کے ساتھ ٹکڑا کر ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔لیکن تمہارے والدین بے قصور ہیں وہ بے خطا ہیں۔۔۔۔جس دور میں تمہیں پولیو نے گھائل کیا تھا اس دور میں نہ تو اس بیماری کے بارے میں شعور تھا اور نہ ہی کوئی سرکاری ایسی مہم کا اہتمام ہوتا تھا کہ وہ تمہیں اس ناگہانی آفت سے محفوظ رکھنے کیلئے کوئی اہتمام کرتے۔
میں مانتا ہوں یہ ایسا شعلہ تھا جس کی حدت نے تمہیں جھلسا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ایک بھونچال تھا جس نے تمہاری زندگی کے چشمے کا رخ موڑ دیا تھا۔۔۔۔۔ ایک ایسی بپتا تھی جس نے تمہاری مسکان کو مجروح کر دیا تھا۔۔۔۔
لیکن پیاری شیریں تمہیں پھر بھی اللہ نے ایک امتیاز بخشا ہے۔ ۔۔۔۔ تمہیں ایک ایسے ذہن سے نوازا ہے جو خیالات کی شمعیں روشن کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔تمہیں رب نے اندھیری راتوں میں اجالے بکھیرنے کا ہنر سکھا رکھا ہے۔۔۔۔۔تم خود ایک شجر سایہ دار ہو تمہیں سنگ بہاروں کی تلاش کی جستجو کیسی۔۔۔۔۔۔ تم خود پوش وادیوں کی سحر انگیزی ہو، تمہیں چنار کے درختوں کے گھنے سائے کی تلاش کیوں۔۔۔۔۔تم زندگی کو حسین بنانے کے ہنر سے واقف ہو تمہیں چاند کی پاکیزہ کرنوں کا انتظار کیسا۔۔۔۔۔تمہاری زبان سے میٹھے اور ٹھنڈے پانی کے چشمے بہتے ہیں تمہیں شبنمی قطروں سے کیا لینا دینا۔۔۔۔۔تم خود ایک بہار ہو تمہیں بہار کا انتظار کیوں۔ ۔۔۔۔۔۔تم ایک پھول ہو تمہیں خوشبو کی تلاش کیسی۔۔۔۔۔۔ قدرت نے تمہیں فردوسی مسکراہٹ سے نوازہ ہے تو محرومیوں کے احساس سے دوری کیلئے کسی طلسماتی گیت کا انتظار کیوں؟
پیاری شیریں ، تم زندگی کے تقاضوں کا شعور رکھتی ہو ۔۔۔۔۔ اس لئے بے بسی کی اس خودساختہ قسم سے خود کو محفوظ رکھنا جو انسان کسی کمزور لمحے ، انجانے میں اپنا لیتا ہے۔۔۔ اور پھر اس سے چھٹکارہ پانا مشکل ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔کبھی زندگی میں ان کمزور لمحوں سے واسطہ پڑے تو خود کو اپنے دل کی دھڑکنیں مجھے سنانیں پر آمادہ کر لینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری متانت اور اپنی پرفریب شائستگی کو سامنے رکھ کر اپنی ہمت کا گلا مت گھونٹ دینا۔ 
سدا خوش رہو 
اپناخیال رکھنا
میم سین

Saturday, September 5, 2015

جادو

اگر یہ واقعہ ایک آدھ بار رونما ہوا ہوتا تو شائد اسے نظر انداز کر دیا جاتا لیکن یہ تو ہر روز کا معمول بنتا جا رھا تھا ۔ پہلے تو ان واقعات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا لیکن جب ہر روز ایک نئے واقعے نے جنم لینا شروع کردیا تو سارے گھر میں تشویش باقائدہ ایک لہرکی صورت اختیار کر گئی ۔ ایک عجیب سا خوف اور ڈر تھا جس نے سارے گھر کے افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
بات شروع ہوئی تھی بڑے کمرے میں پلنگ پر بچھی چادر سے ۔جس پر ایک صبح دو سکوں کے برابر سوارخ پائے گئے تھے۔ جس گھر میں چھوٹے بچے ہوں وہاں پر ایسے واقعات کا رونما ہونا کوئی اچھنبے والی بات نہیں ہے۔ بچے کھیل کود میں اودھم مچاتے ایسے نقصان کر دیتے ہیں۔ پنسلوں کی نوک سے کپڑوں میں سوراخ کر دینے کو بھی کوئی واقعہ نہیں قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کبھی کبھی بچے اپنے تجسس سے مجبور ہوکر قینچی اور چھری کا استعمال سیکھنے کی کوشش کریں تو ایسے نقصان ہوجاتے ہیں۔ اس لئے چادر میں ہونے والے سوراخ کےاس پہلے واقعےکوبچوںسےمعمولی تفتیش کے بعدنظراندازکردیاگیا۔لیکن تیسرے دن جب ڈرائینگ روم کے صوفے میں اور چوتھے دن ابا جی کے گاؤ تکیے پر بھی ایسے ہی کچھ چھوٹے چھوٹے سوراخ نمودار ہوئے تو گھر میں ایک خوف کی فضا جھانکنے لگی۔ 
اگرچہ مصنوعی تسلیوں سے اس کے خوف کو کم کرنے کی کوشش کی گئی اور ان پراسرار سوراخوں کی وجوہات کو ڈھونڈنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن جس دن کپڑے استری کرنے والے میز پر رکھے آدھے سے زائد کپڑے ان سوراخوں کی لپیٹ میں آگئے تو پورا گھر ایک بار سناٹے میں آگیا۔ بچوں کے قہقہے دب گئے۔ ابا جی کے چہرے پر چمکنے والی ہر وقت کی مسکراہٹ سنجیدگی کے پیچھے دب گئی۔دادی اماں کی تسبیح کے دانے جو زیادہ تر نماز کے اوقات میں گردش کرتے تھے اب سارا دن گرنے لگے۔ اماں نے بھی ہر نماز کے بعد قرآن پاک پڑھنے کومعمول بنا لیا۔ 
ہمارے خاندان کا ماحول روایتی خاندانوں سے یکسر مختلف ہے۔جہاں توہم پرستی کی چڑیا پر مارنے کی جرات نہیں کر سکتی۔پیروں اوران کی کرامتوں پر باقائدہ طنز کیا جاتا ہے۔مزاروں اور ان کے مجاوروں کو انتہائی شکی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جادو ٹونے کو محض انسانی خوف کی پیداوار قرار دیا جاتا ہے۔دسترخوان پر کائینات کی تسخیر اور نت نئی دریافتوں پر بحث روزانہ کا معمول ہے ۔ابا جی محلے میں کھلنے والے نئے جنرل سٹور سے زیادہ مریخ سے آنے والی ناسا کی نئی معلومات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔علاقے میں الیکشن کی سرگرمیوں سے زیادہ الاسکا میں ہونے والی نئی مہمات سے باخبر رہتے ہیں۔ محلے کے گٹر بند ہونے سے زیادہ ایمیزون کے تیزی سے ختم ہوتے جنگلات کے بارے میں تشویش میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایسے میں کسی کے منہ سے جن، بھوت یا جادو کے لفظ کا استعمال کرنا ابا جی کے رعب دبدبے کے سامنے ممکن ہی نہیں تھا۔
لیکن عورتیں کمزور ہوتی ہیں۔ جلد ہتھیار گرا دیتی ہیں۔ گھر میں تو شائدکسی نے جادو وغیرہ کا ذکر نہیں کیا لیکن اماں نے جب گھر میں کام کرنے والی ماسی کے ساتھ اس معاملے پر بات کی تو ماسی نے یہ بتاکر اور بھی پریشان کر دیا کہ اسے تو پہلے ہی شک تھا۔کئی دنوں سے کپڑوں کو اچھی طرح دھونے کے باوجود داغ آسانی سے ختم نہیں ہورہے تھے ۔ماسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب وہ برتن دھو رہی ہوتی ہے تو وہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہوتے ۔ایسے لگتا ہے کوئی گندے برتنوں میں اضافہ کئے جارھا ہے۔ماسی کے علم میں سارا معاملہ آنے کے بعد جہاں یہ بات گھر سے نکل کر سارے محلے تک پہنچ گئی۔ وہیں پر گھر میں جادو پر بحث نے بھی جنم لینا شروع کر دیا۔ اور محلے کی عورتوں نے جہاں اپنی نت نئی کہانیوں اور پراسرار انکشافات سے اماں اور دادی کو پریشان کرنا شروع کر دیا وہیں پر محلے کے اکثر گھرانوں نے ہمارے ہاں آنے سے کترانا شروع کرد یا۔خالہ صغراں کا کہنا تھا کہ اس کی درانی پر بھی کسی نے جادو کروا دیا تھا۔کئی ماہ بعد سخی سرور جا کر چادر چڑھائی اور پچاس چڑیاں آزاد کیں تو کہیں جا کر جان چھوٹی تھی۔ہماری ہمسائی کنیزاں تو قسمیں کھا کر سائیں اللہ دتہ کی کرامتوں کی گواہی دے رہی تھی کہ ایک بار اس سے مل لیں تو ہمارے مسئلے کا ضرورکوئی فوری حل نکل آئے گا۔بابا نورا تو ابا جی سے آنکھ بچا کر ایک تعویذ بھی اماں کو دے گیا جسے پانی کی ٹینکی میں ڈال دینا تھا۔
بات اس دن اور بھی بڑھ گئی جب کوڑا اٹھانے والے نے انکشاف کیا کہ چند دن پہلے اس نے ہمارے گھر کے کوڑے میں سوئیاں اور کالے بکرے کی ہڈیاں دیکھی تھیں۔اگرچہ وہ اس بات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکا کہ ہڈیاں دیکھ کر اسے کیسے اندازہ ہوگیا کہ بکرا کالا تھا۔لیکن اس کے بیان نے گھر میں جنات کی موجودگی کے شک کو یقین میں ڈھال دیا۔
اگرچہ چند دنوں کے بعد ظاہر ہونے والے نشان پہلے جیسے نہیں تھے۔ سائز بھی کم ہوگیا تھا اور اکثر سوراخ ہونے کی بجائے محض کالے رنگ کے نشان نمودار ہوتے رہتے تھے لیکن جادو کے خوف نے سارے گھر کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ اماں کی تو ساری رات گھر کی دیواروں پر آیت الکرسی پڑھ کر پھونکیں مارنے میں گزر جاتی اور دادی سارا دن نفافل پڑھ کر دعائیں کرتی نظر آتیں اور پانی دم کرکے دیواروں پر پھینک رہی ہوتی۔جہاں تک ابا کی بات ہے تو بظاہر اس سارے معاملے میں لاتعلقی کا اظہار کر رہے تھے لیکن جب اپنے دوستو ں سے اس معاملے پر بات کر رہے ہوتے تو اندازہ ہوتا تھا کہ وہ جادو کے اس معاملے کو اگر قبول نہیں کر رہے تو تو واضح طور پر اس کا انکار بھی نہیں کر رہے ہیں۔
آخر اماں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ابا پر برس پڑیں کہ جب اس گھرسے ہماری لاشیں برآمد ہونگی تب آپ یقین کریں گے کہ ہمارے گھر پر کسی نے جادو کروا دیا ہے۔اور ناچار ابا نے اپنے کسی دوست سے مشورہ کیا تو وہ ایک پیر صاحب کو اپنے ساتھ لیکر آگئے اور آتے ہی پیر صاحب نے انکشاف کر دیا کہ آپ پر کسی حاسد نے جادو کروا رکھا ہے۔جادو بہت زور دار ہے اسلئے میں زیادہ دیر یہاں ٹھہر نہیں سکتا۔ اپنے آستانے پر جا کر چلا کاٹنا شروع کرتا ہوں۔ انشااللہ ایک آدھ دن میں اس جادو کا کوئی توڑ مل جائے گا اور دوست کے ذریئے صدقے کیلئے پانچ ہزار روپے لیکر ہمارے گھر سے رخصت ہوگیا۔
پیر صاحب کے جاتے ہی اماں نے واویلا شروع کر دیا ۔ہو نا ہو یہ سارا ماسٹر حمیداللہ کی بیوی کا کا کیا دھرا ہے کیونکہ اماں نے بڑے بھائی ذیشان کیلئے ان کی بیٹی کا رشتہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔اماں کے خیال میں تواس کی بیوی پکی جادوگرنی ہے۔ اس کی تو آنکھیں دیکھ کر ہی انسان ڈر جاتا ہے۔اور ساتھ ہی اس کے ماضی سے کئی داستانیں سنا ڈالیں۔لیکن دادی کا خیال کچھ مختلف تھا ۔ان کے خیال میں یہ جادو کسی کاروباری رقابت کا نتیجہ ہے۔ مجھ سے چھوٹے بھائی نے کچھ عرصہ پہلے زرعی ادویات کا کاروبار شروع کیا تھا۔اور مختصر سے عرصے میں اس نے جہاں مارکیٹ میں اپنی ایک اچھی کاروباری ساکھ بنالی تھی وہیں پر بہت سے کاروباری رقیب بھی پیدا کرلئے تھے۔ اور دادی کے خیال میں یہ ان حاسدوں میں سے کسی کی کاروائی ہے۔
پیر صاحب تو پیسے لیکر چلے گئے لیکن چِلے پر کچھ ایسے بیٹھے کہ دوبارہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ابا جی کے دوست کی زبانی یہ معلوم ہوجاتا تھاکہ سخت محنت جاری ہے لیکن جادو کچھ زیادہ ہی طاقتور ہے اس لئے اس کا زور توڑنے میں سخت مشکل کا سامناکرناپررھا ہے۔ اور ہر روز ہزار، دو ہزار صدقے کے نام پر پیر صاحب تک پہنچا دیئے جاتے۔
اس دن شام کو آندھی کے بعد تیز بارش ہوئی تو شائد بجلی کی تاریں گرنے کی وجہ سے بجلی طویل دورانیئے کیلئے چلی گئی۔ کچھ گھنٹے تو یو پی ایس نے ساتھ دیا لیکن جب اس کا ساتھ ختم ہوا تو گھر کو اندھیرے سے بچانے کیلئے جنریٹر کو سٹارٹ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس نے چلنے سے انکار کر دیا۔ چھوٹے بھائی کو فوراً مستری اسلم کی تلاش میں دوڑایاگیا لیکن جب تک مستری آیا ،یو پی ایس جواب دے چکا تھا۔مستری اسلم نے آتے ہی ٹارچ کا بندوبست کرنے کیلئے کہا۔ میں بھاگ کر ٹیوب لائٹ اٹھا لایا جس کو چند دن پہلے بیٹری خراب ہونے کے بعد موٹر سائیکل کی بیٹری جوڑ کر دوبارہ کارآمد بنایاتھا۔ میرے ہاتھ میں ٹیوب لائٹ  اوراس کے ساتھ جوڑی گئی بیٹری دیکھ مستری اسلم بولا اس کو احتیاط سے استعمال کیا کرو۔ بیٹری میں تیزاب ہوتا ہے ۔جہاں اس کا قطرہ گر جائے وہ جگہ جل جاتی ہے۔
 مستری اسلم کی دو گھنٹے کی محنت کے باوجود ،جنریٹر نے سٹارٹ ہوکر ہمارے گھر میں تو روشنی پیدا کرنے سے انکار کر دیا لیکن مستری کی  بیٹری کے تیزاب سے محتاط رہنے کی  بات نے سارے گھر کے  دماغ کی بتی ضرور روشن کر دی۔
 اور جب اگلے دن کا سورج طلوع ہوا تو جِن اپنا بوریا بستر سمیٹ کر ہمارے گھر سے رخصت ہوچکے تھے۔
میم سین

Wednesday, July 29, 2015

آزادی کی قیمت


آجکل دو قومی نظریے کو جس طرح حرف تنقید کا نشانہ بنا یا جا رھا ہےمیں
 سمجھتا ہوں کہ آج اس  کے احیا کا وقت آگیا ہے۔ ہماری موجودہ نسل تو شائداب اس سے آگاہ ہی نہیں ہے ، لیکن  پرانی نسل نے بھی اسے فراموش کر دیا ہے۔ محمد علی جناح جیسا سیکولر انسان بھی ہندستان میں مذہبی کشمکش سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ یورپ کی تعلیم ،ماڈرن اور آزاد ماحول میں رہتے ہوئے بھی جناح ہندستانی قوم کو مذہب سے جدا قرار نہ دے سکا تھا۔ ہر زمانے کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں، فہم اور فراست جدا ہوتی ہے۔ آج انفرمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں بیٹھ کر ہم تاریخ پڑھ تو سکتے ہیں ، سمجھ نہیں سکتے۔ اور تاریخ کے فیصلوں کو اس وقت کے مختلف شعبوں میں نمایاں حیثیت رکھنے والے افراد کی رائے کی روشنی میں پڑکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم جنگ عظیم کے اثرات پر بات کرتے ہیں لیکن کبھی ان کی وجوہات پر غور نہیں کرتے۔ہندستان کی تقسیم ہر انگلیاں اٹھاتے ہیں لیکن اس تقسیم کیلئے مجبور کر دینے والے عناصر کو کبھی زیر بحث نہیں لاتے۔ ہمارے نام نہاد تجزیہ نگاروں کو تو شائد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی بہت سے فیصلوں پر اعتراض ہوگا لیکن اس پر لب کشائی صرف نجی محفلوں میں ہوتی ہے۔ اعتراض تو یار لوگوں کو عیسی اور موسی علیہ السلام کے فیصلوں پر بھی  ہوگا ۔لیکن شائد
ابھی تنقید اور زیادہ اعتراض صرف پاکستان کی مذہبی شناخت پر ہے۔انتظار کریں ابھی اور کون کون سے پنڈورہ بکس کھلنے ہیں۔
 ہاں ایک بار نظر دوڑا لیں اپنے آباء کی ان قربانیوں کی طرف جنہوں نے اپنے خون اس ملک کی تاریخ لکھی تھی۔کیا یہ خون اس قدر بے کار تھا کہ یونہی رائگاں چلا جائے گا؟؟؟






























































میم سین