Saturday, January 31, 2015

میں لکھنا کیوں چاہتا ہوں

میں لکھنا کیوں چاہتا ہوں۔۔۔

یہ عاجزی، تحمل، بردباری ہی تو ہے جس نے ایسے شعور میں رہنے کا حوصلہ دے رکھا ہے جو ابھی اٹھارویں صدی میں جی رھا ہے۔ بات محض اپنے احساسات اور جذبات کو دوسروں تک پہنچانے کی نہیں ہے بلکہ ان مسائل کی نشاندگی کرنا ہے جس سے ہمارے پسماندہ علاقوں میں خدمات سرانجام دینے والے افراد کو گزرنا پڑتا ہے۔ 
اور شائد اس گہری خلیج کی طرف بھی نشاندھی کرنا ہےجو ہماری عوام اور حکام بالا کے درمیان موجود ہے۔ جب تک ہمیں اپنے مسائل سے آگاہی نہیں ہوگی ۔اس شعور کو سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے جن کا ہمیں سامنا ہے۔ہم اپنے مسائل کو حل نہیں کر سکتے۔
ہمارے لوگوں کی ذہن سازی آج بھی درباروں پر ہوتی ہے ۔توہم پرستی ان کی گھٹی میں اتر ہوچکی ہے۔ ان کی تربیت جس تعلیم کے ذریئے ہورہی وہ اس قدر فرسودہ اورروایتی ہے کہ اس میں تبدیلی لائے بغیر کوئی بھی انقلابی قدم اٹھانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے
ہمارے دیہاتوں قصبوں اور گائوںمیں رہنے والے ابھی جس شعور میں رہ رہے ہیں وہ اس قدر فرسودہ ہے کہ جس میں عزم واستقلال سے مزین معاشرہ تشکیل ہی نہیں دیا جاسکتا۔ جس میں آگہی کی گردان بے معنی ہے اور جس نے لوگوں کو ایسی بندھنوں میں جکڑ رکھا ہے جن کا تعلق نہ مذہب سے ہے نہ ثقافت سے اور نہ روایات سے ۔ بس کسی ویرانے میں اگی خرد رو جڑی بوٹیوں کی طرح معاشروں میں رچ بس گئی ہیں
یہ لوگوں کی سادگی کا مذاق نہیں ہے نہ ہی کم فہمی پر طنز ہے۔یہ تو دھرکتے دل کے ساتھ بڑے مہذبانہ، شاعرانہ اندازمیں معاشرے کے نامسائد حالات کی عکاسی ہے۔جس میں ہم لوگ جی رہے ہیں
میم سین

Friday, January 30, 2015

کاش ایسا ہو

کیا ہی اچھا ہو اگر ہم حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے مظاہروں کے ذریعے احتجاج ریکارڈ کروانے کے ساتھ ساتھ پکے اور سچے مسلمان بن جانے کے وعدے کے ساتھ اس احتجاج کو موثر بھی بنا ئیں۔ اور اسلام کے عملی نمائندے کی حیثیت سے اپنا تعارف یقینی بنائیں۔کاش ایسا ہو۔۔۔ ہم جس بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اس کے وقار کے تحفظ کی قسم اسلام کے ایک نمائندے کی حیثیت سے اٹھائیں۔کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اپنی نمازوں کا اہتمام کرنے کا وعدہ کریں۔وعدہ کریں کہ زکواۃ اور عشر کی ادائیگی کو مقدم بنائیں گے۔اپنے زبان کی قینچی سے کسی کی آبرو کو نہ کاٹنے کا عہد کریں۔۔
کیا ہی اچھا ہو اگرآقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو کائنات کیلئے نمونہ سمجھنے والے اپنی عملی زندگی سے اپنی محبت اور عقیدت کا مظاہرہ کریں۔
جو ہستی آپ کو بتاتی ہو کہ مومن نہیں ہوتا وہ شخص جو طعنہ دینے والا ہواور بے ہودہ بات کرنے والا ہو۔۔۔۔ہمسائے کو ایذا دینے والا ہو۔۔۔۔،دوسروں پر رحم نہ کھانے والا ہو۔۔۔۔۔
جو یہ کہتا ہو تم میں سے بہترین وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اعلی ہے۔۔۔۔۔ جو معاشرے سے فساد ختم کرنے کیلئے کہتا ہو۔۔۔جو کہتا ہو،جنت میں شریر انسان اور چغل خور داخل نہیں ہو پائے گا۔۔۔۔۔پہلوان تو وہ ہے جو غصے میں اپنے اوپر قابو رکھ سکے
جو ترغیب دیتا ہو،بدگمانی سے بچو۔۔۔۔ کھوج نہ لگاؤ۔۔۔ عیب نہ ڈ ھونڈو۔۔۔۔۔ حسد نہ کرو۔۔۔۔بغض نہ رکھو۔۔۔۔ عداوت نہ کرو۔۔۔۔۔جس کو معاشرے کی عزت اور آبرو کا اس قدر بھرم ہو کہ وہ حکم دیتا ہوبے حیائی سے بچو۔۔ حیا کو قائم رکھو۔۔۔دوسروں کے عیب چھپا کر رکھو۔۔ جو خود سلیم الفطرت ہو اور کہتا ہو ا نکسار پسند جنت میں جائے گا،تین دن سے زائد کوئی کسی سے ناراضگی جاری نہ رکھے ۔۔۔۔
جو اخوت کا جذبہ یہ کہہ کر بیدار کرتا ہو ، ، جب بھی ملو سلام میں پہل کرو۔۔۔کسی کا مرض پتا چلے۔۔عیادت کو پہنچو، کسی کے جنازہ کا علم ہوجائے تو پیچھے نہ رہو۔۔۔۔۔ جو محبت بڑھانے کے بہانے ڈھونڈ کر دیتا ہو کوئی دعوت کرے تو انکار نہ کرو۔۔۔۔۔کھانا کھلاؤ جسے جانتے ہو یا نہیں۔۔۔ جو غلط فہمیوں کو بھگاتا ہو۔۔۔
کیا کہنے اس ہستی کے جو بتاتا ہو کہ جب مل کر بیٹھتے ہو تو سرگوشیوں میں بات نہ کرو۔۔۔۔۔ جو ہر شخص کو یہ کہہ کر ذمہ داری سونپتا ہو کہ دوسروں کی اصلاح میں پیچھے نہ رہو،۔۔۔ جس کے نذدیک جھگڑالو شخص قابل نفرت ہے۔۔
جو بتا تا ہو کہ کاہلی ، بزدلی اور کنجوسی مومن کی شان نہیں ہے۔
کیا ہی اچھا ہو ہم اس ہستی کی باتوں کو بھی سمجھ سکیں جس کی خاطر اپنی تن من دھن قربان کرنے کا دعوی کرتے ہیں۔۔۔کاش ایسا ہی ۔۔۔۔۔
میم سین

Monday, January 26, 2015

نیکیاں

اگر انسان مکمل ہوتا تو پیغمبروں کی ضرورت نہ پڑتی۔ آسمانی کتابوں کو نازل نہ کیا جاتا ۔انسان کو فطرت نے نامکمل پیدا کیا ہے۔ لیکن فطرت کا دیا ہوا یہ ادھورا پن ہی انسانی زندگی کا سب سے لطیف پہلو ہے۔یہ ادھورا پن اسے سیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔وہ جب فریب کھاتا ہے تو سچائی کی تلاش کرتا ہے۔وہ جب چوٹ کھاتا ہے تو برداشت سیکھتا ہے۔جب جنگ کرتا ہے تو امن کو ڈھونڈتا ہے۔وہ جب گناہ کرتا ہے تو ثواب ڈھونڈتا ہے۔ ۔انسان کا یہی ادھورہ پن اس کی زندگی کو اگر مایوسیوں سے دوچار کرتا ہے تو وہیں پر اس کی امنگوں کو بیدار کرتا ہے ۔اس کے من کے اندر ہلچل مچاتا ہے، اسے سچ اور جھوٹ کی پڑکھ سکھاتا ہے۔اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلا کر صراط مستقیم دکھاتا ہے اور یوں وہ گناہ اور نیکی کے درمیان فرق سیکھ جاتاہے۔
جہاں لوگ گناہوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں وہیں پرکچھ لوگ نیکیاں کمانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔مسجدیں اللہ کا گھر ہیں اور اللہ کے گھر آنے والوں کی خدمت کرنے میں لوگ ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ کچھ لوگ مسجدوں میں گرم پانی کیلئے گیزر لگوا کر دیتے ہیں ۔ کچھ لوگ بجلی کی مسلسل فراہمی کیلئے یو اپی ایس یا پھر جنریٹر کا اہتمام کر کے دیتے ہیں۔ کچھ پنکھے لگوا کر دیتے ہیں ۔اور کچھ ٹھنڈی ہوا کیلئے بندو بست کرتے ہیں۔سچی بات ہے کہ نمازیوں کو سہولت فراہم کرنے میں لوگ خرچ کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔
کل شام ایک مسجد میں مغرب کی نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ نماز سے فارغ ہوا تو نظر سامنے لگے نما زوں کے اوقات کے کیلنڈر پر پڑی جس کے ساتھ ایک بورڈ لگا ہوا تھاجس پر ہندسوں میں ایک ڈیڑھ، دو تین و غیرہ لکھا ہوا تھا۔ تجسس نے مجبورکیا  تو قریب  جا کر دیکھا تو چھوٹے چھوٹے خانے بنے ہوئے تھے اور ہر خانے میں ایک قریب کی نظر کی عینک رکھی ہوئی تھی۔ میرے لئے یہ نئی بات تھی۔ سوچا پتا نہیں ان کو استعمال کون کرتا ہوگا؟ ۔لیکن اتنے میں ایک بزرگ نے اپنی نماز مکمل کی اور  چار نمبروالے خانے  سے ایک عینک نکالی اور الماری سے قرآن پاک نکال کر ایک طرف ہوکر بیٹھ کر مطالعہ شروع کردیا۔ سوچ کے اس نئے انداز کو دیکھ کر خوشی ہوئی
میم سین

Sunday, January 25, 2015

بلاوہ

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ شائد زندگی اتنی مختصر بھی نہیں ہے کہ آرزوؤں اورامنگوں کیلئے جستجو نہ کی جائے۔ تمناؤں اور خواہشوں کی تلاش کی پر مسرت کیفیتوں کا تعاقب نہ کیا جائے۔لیکن زندگی جب اپنی تمام تر نزاکتوں ، راحتوں اور پرکشش ولولوں کے باوجود میرے سامنے ڈگمگاتی، لڑکھڑاتی میری بے چارگی کا تمسخر اڑاتی نظر آتی ہے تومیں اس کے سامنے اپنی بے بسی  اوردنیا سے بیزاری کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہوں۔
یہ کل شام کی بات ہے جب بابا صدیق میرے پاس آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ ایک ماہ پہلے فیصل آباد کے ایک ڈاکٹرسے چیک اپ کروایا تھا اس نے میرے گھٹنوں میں انجکشن لگائے تھے اور ایک ماہ بعد دوبارہ آنے کو کہا تھا ۔ میری گھٹنوں کی تکلیف پہلے سے بہت بہتر ہے۔لیکن سردی اور دھند کی وجہ سے سفر کرنا میرے لئے ممکن نہیں ہے۔ کسی نے مجھے بتایا ہے کہ آپ بھی انجکشن لگاتے ہیں ۔ میں نے ڈسپنسر کو بلا کر انتظام کرنے کو کہا اور انجکشن لگوا کر بابا صدیق دوبارہ میرے کمرے میں آیا اور کہنے لگا ۔ میں آپ کیلئے گنے بھیجوں گا۔میرے کھیت کےبہت میٹھے او رس دار بھی ہیں اور نرم بھی ۔ایک نئی نسل کاشت کی تھی اس دفعہ۔ میں نے مسکرا کر کہا میں انتظار کروں گا۔

لیکن آج صبح بابا صدیق کے گاؤں کا ایک مریض میرے پاس آیا  اور جب اس نے مجھے بابا جی کی موت کی خبر سنائی تو میں چند لمحوں کیلئے سناٹے میں آگیا ۔ اس نے بتایا کہ جب بابا جی آپ سے انجکشن لگوا کر گاؤں کے قریب پہنچے تھے تو رکشہ الٹ گیا ۔اور سڑک سے سر ٹکرنے کی وجہ سے موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔
میم سین

Friday, January 23, 2015

المیہ

ہم سب سنی ہیں یا پھر شیعہ ہیں۔۔کہیں بریلوی،دیوبندی کی تشخیص ہے ۔۔۔کسی کو اہلحدیث اور وھابی کہہ کر الگ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔۔۔کوئی خود کو نقشبندی ، اویسی کہلوانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔۔۔کہیں امام الگ ہیں تو کہیں مسائل میں اختلاف ہے۔۔۔۔ہر ایک کا اپنا موقف ۔۔ اپنا عقیدہ۔سب کی مساجد بھی الگ۔۔۔سب کی نمازیں اور جماعتیں بھی الگ ہیں۔۔۔خوشیاں اور غم منانے کے طریقے اور اطوار بھی الگ ہیں۔۔۔
لیکن یہ ساری مایوسیاں ایک طرف ۔۔سارے خدشے اورما یوسیاں ایک طرف۔۔کچھ تو ایسا ہے جو ہم میں مشترکہ ہے۔۔ہمارا رب تو ایک ہی ہے۔۔ ہمارا نبی تو ایک ہی ہے۔۔۔۔۔۔
لیکن گستاخٰ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جماعتوں کے الگ الگ مظاہرے دیکھ کر یوں لگ رھا ہے کہ شائد ہمارا نبی بھی الگ الگ ہے
میم سین

ایک سوچ

سارا زور سکولوں کی دیواریں اونچی کرنے ، گارڈ رکھنے اور ایمرجنسی گیٹ بنانے پر ہے۔ کسی کے ذہن میں بچوں کو گھر سے نکلنے سے پہلے مسنون دعائیں پڑھنے کیلئے تاکید کرنےکا خیال کیوں نہیں آتا ؟ حکومتی حلقوں میں کسی کے ذہن میں اس بات کا خیال کیوں نہیں آتا کہ ایک نوٹیفیکشن جاری کر کے روزانہ تدریس کا آغاز آیت لکرسی سے کیا جائے۔یاہمیں صرف حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی ہی ہے اور اپنے اسلامی تشخص سے شرمندگی ہوتی ہے؟کیا یہ سکول انتظامیہ کا کا م ہے وہ اپنی سیکورٹی کرتے پھریں ؟؟؟؟ واہگہ بارڈر اور آرمی سکول کی سیکیورٹی کس کے ذمے تھی؟؟؟؟ سیکیورٹی اداروں کا کام صرف اطلاع دینا ہوتا ہے؟ ؟؟؟؟
دو دو فٹ دیواریں اونچی کرنا اور سیکیورٹی گارڈ کھڑا کرنا.ٹرک کی لال بتی نہیں تو اور کیا ہے....؟؟؟
میم سین

Monday, January 19, 2015

ذمہ داریاں

چند ماہ پہلے کی بات ہے ایک دوست کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ جنہوں نے آبادی سے باہر اپنی زمینوں میں ہی گھر بنا رکھا ہے۔ فصلیں اور باغ دکھانے کے بعد مجھے وہ اپنے ڈیرے پر لے آیا جہاں چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں اورمجھے بیٹھنے کا کہہ کر خود گھر کے اندر چلا گیا ۔ میں ارد گرد لگے پودوں اور پھولوں کو دیکھنے اور پرندوں کی چہچہاہٹ سے لطف اندوز ہونے لگ گیا۔ اتنے میں ایک پھلواری کے پیچھے سے ایک مرغی برآمد ہوئی اور اس کے پیچھے پیچھے چھوٹے چھوٹے چھ سات چوزے برآمد ہوئے۔ادھر ادھر منہ مارتے صحن کے وسط تک آگئے ۔مجھے ان کی حرکات و سکنات بہت دلچسپ معلوم ہو رہی تھیں کہ اچانک مرغی جن قدموں سے پھلواری کے پیچھے سے آئی تھی انہی قدموں پر واپس لوٹ گئی۔ مجھے اس کی اس حرکت پر کچھ تجسس ہوا ۔لیکن کچھ ہی لمحوں بعد وہ دوبارہ برآمد ہوئی تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس کے ساتھ ایک اور چوزہ بھی تھا
چند دن پہلے لاہور کی ایک مسجد میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا۔شوشل میڈیا میں گردش کرتی تصویروں پر نظر پڑتی تو کلیجہ کانپ کانپ جاتا۔مضطرب ذہن گھائل روح پر لگے کانٹوں کو نکالنے میں ناکام رہتا۔ ایک ماں کے آنکھوں کا نور اندھیروں میں ڈھل گیا۔ ایک باپ چلتی سانسوں کے ساتھ مر گیا۔درندگی کے ایسے مجرم کو جینے کیلئے چھوڑ دینا خود ایک جرم ہوگا۔جس نے ایک معصوم پھول کو مسل کر اسے سفید چادر میں سلا دیا۔
کچھ لوگوں نے جہاں مسجدوں اور مدرسوں پر اپنا بغض نکالا تو وہاں پر کچھ نے مساجد کے انتظامات بہتر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔کچھ نے نے اپنا نزلہ پولیس اور انتظامیہ کی نااہلی پر نکالا۔ کچھ کے خیال میں ایسے واقعات کی ساری ذمہ داری میڈیا پر جاتی ہے جس نے قوم کو بے راہ روی کی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ لیکن کسی نے ان والدین کی ذمہ داریوں پر زور نہیں دیاجو اپنے بچوں کی تربیت اور نگرانی میں کوتاہی برتتے ہیں۔
درندگی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔آئے روز ہم ایسے واقعات کے گواہ بنتے ہیں جو ہمارے سماج کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ بنتے رہتے ہیں۔ نسل در نسل اور پشت در پشت خاندان بے حرمتی کے یہ داغ لئے اپنے آپ کو سولی پر چڑھائے پھرتے ہیں۔ جب میں ڈیڑھ سے دو سال کی عمر کے بچوں کی ماؤں سے کہتا ہوں کہ ان کو دکان کی گندی چیزوں سے بچاؤ تو ان کی اس بے بسی پر کہ اب بچہ خود محلے کی دکان سے ٹافیاں لے آتا ہے تو میں کیا کروں؟ تو میرا سر پیٹنے کو دل کرتا ہے۔ کسی بھی گلی محلے میں چلے جاؤ۔ سڑک کے بیچ وبیچ چھوٹے چھوٹے بچے کھیلتے ہوئے ملیں گے۔بچے گھر سے کب نکلے، سڑک پر کتنا رش ہے؟ والدین اکثر اس معاملے میں بے خبر ہوتے ہیں۔
بچے گلے میں بستے لٹکائے سکول جارہے ہوتے ہیں۔ وہاں سے نکلتے ہیں تو ٹیوشن پر چلے جاتے ہیں ۔ پڑھائی کیسی جارہی ہے؟ کون سے ٹیسٹ ہوئے ہیں؟ امتحان کب ہوں گے؟ بچے کی تعلیمی کارگردگی کیسی جارہی ہے؟ کتنے والدین ہیں جو سکول انتظامیہ اور اساتذہ کے ساتھ رابطہ میں رہتے ہیں؟ 
گورنمنٹ سکولوں اور کالجوں کی ابتر حالت کی ذمہ داری تومحض گورنمنٹ پر ڈال کر ہم اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔لیکن حالات پرائیویٹ اداروں میں پڑھنے والے والدین کے بھی ایسے نہیں ہیں کہ ہم انہیں ستائش کی نظر سے دیکھتے رہیں۔
بہت کم والدین ایسے ہیں جو ان باتوں کا خیال رکھتے ہیں کہ بچہ سکول کن رستوں سے جاتا ہے؟ سکول سے چھٹی کتنے بجے ہوتی ہے؟ سکول سے واپسی پر دیر سے کیوں آیا؟ ٹیوشن کے نام پر بچہ کہاں جارھا ہے؟ ورنہ انہیں ہوش اسی وقت آتا ہے جب کوئی سانحہ رونما ہوجاتا ہے۔
شائد میرا یہ سوچنا بجا ہے کہ کیا ہم اپنے بچوں کی اتنی بھی حفاظت نہیں کر سکتے جتنی ایک مرغی اپنے بچوں کی کرتی ہے؟؟؟
میم .سین

Thursday, January 15, 2015

ایک تجویز

اقبال مسیح ایک عرصے سے ہمارے ساتھ ہے۔کلینک کی صفائی کیلئے اس سے عمدہ بندہ پچھلے دس سال سے نہیں مل سکا۔ لیکن ایک  ذمہ دار  جمعہ دار ہونا اس کی خوبی نہیں ہے۔ بلکہ اصل کمال یہ کہ پیسے دے کر اس سے کوئی بھی کام کروا لو۔دیواروں پر سفیدی   کی ضرورت ہے تو سفیدی اور برش لئے کھڑا ہوگا۔ کہیں کوئی پلستر اکھڑا ہوا ہے تو وہ بھی جیسے تیسے لگا لیتا  ہے۔اگرکہیں کوئی بجلی کا سوچ خراب ہو، وہاں بھی اپنا اٹکل پچو  استعمال کر لیتا ہے۔ کیاریوں میں گوڈی کی ضرورت ہے تو کھڑپا ہاتھ میں ہوگا ۔ یا پھر گملوں کیلئے تازہ مٹی کی ضرورت ہے تو نا صرف مٹی ،بھل اور گوبر کااہتمام کرے گا بلکہ ان کو مکس کے گملوں میں بھر بھی دے گا۔۔ پودوں کی کٹائی کرنا ہو تو بھی انکار نہیں ۔ پرانی اینٹیں چاہیئے ہوں تو وہ بھی ڈھونڈ کر لا دے گا۔ پرانا لوہا یا فالتو سامان بیچنا ہو تو بھی اس کی خدمات حاضر ہیں۔ایک دن ہم لوگ نماز پڑھنے لگے تو میں اور میرا ایک دوست کافی دیر سے صف پر کھڑے اس انتظار میں تھے کہ کوئی تیسرا بندہ شامل ہوجائے تو جماعت شروع کریں۔ تو میرے دوست نے شرارت سے کہا۔بالے کو پچاس روپے دیتے ہیں تاکہ ہماری صف تومکمل جائے گی۔
پچھلے چند سالوں میں ایک بات تو واضح ہوگئی کہ کہ ہمارا میڈیا کسی کا ایجنٹ نہیں ہے۔ نہ ہی ان کے پیچھے کوئی بیرونی ہاتھ ہے۔ہمارے میڈیا کا کوئی ایجنڈہ نہیں ہے کوئی مقصد یا اصول بھی نہیں ہے۔اور یہ جو صیہونی سازشوں والی تھیوریاں ہیں وہ بھی غلط ثابت چکی ہیں۔ ہمارا میڈیا صرف پیسے پر چلتا ہے ۔اس کا قبلہ صرف پیسہ ہے۔پیسہ دے کرآپ کسی بھی مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم بنا سکتے ہیں۔ تعلیمی نظام پر قدغن لگا سکتے ہیں۔اپنے ملک کے قوانین کو مشکوک بنا سکتے ہیں۔ کسی ادارے کا استحصال کر سکتے ہیں۔ پیسے لے کر ہیرو بنا سکتے ہیں۔صحیح کو غلط یا غلط کو صحیح قرار دے سکتے ہیں۔ پیسے دے کر کسی کو حقوق دلوا بھی سکتے ہیں اور کسی سے چھین بھی سکتے ہیں۔جب چاہے یہ میڈیا پورے ملک کو یرغمال بنا سکتا ہے۔ جب میڈیا اتنا مضبوط ہوچکا ہے اور اتنا آسانی سے دوسروں کے کام آسکتا ہے تو کیوں نہ ہم سب مل کر پیسے اکھٹے کریں اور شریعت کے نفاذ کیلئے ان سے کام لے لیں۔لے بھائی جتنے پیسے تم روشن خیالی کے فروغ کیلئے لیتے ہو ہم اس سے دگنے دیتے ہیں کچھ قرآن وسنت کے حق میں بھی ایک کمپین چلا دو
میم سین 

Wednesday, January 14, 2015

ضرورت ہے محبت کے چند بولوں کی۔۔۔۔

معاشرہ نام ہے کچھ حدود وقیود کا جس کا وہ پابند ہوتا ہے اور اس معاشرے میں رہنے کا نام زندگی ہے ۔ ہم میں سے ہر شخص ایک زندگی گزار رھا ہے۔زندگی کے ہر لمحے  ہم کسی نہ کسی تعلق یا رشتے میں کسی کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔ کچھ وابستگیاں اختیاری ہوتی ہیں اور کچھ مجبوری۔لیکن زندگی کا سارا حسن انہی وابستگیوں سے قائم ہوتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ انسان نامکمل ہوتا ہے۔اپنے اختیارات میں اپنی فطرت میں۔اور اس کی وابستگیاں اسے مکمل بناتی ہیں۔ یہ وابستگیاں اس کے بھائی بہن ہوسکتے ہیں۔ رشتے دار بھی۔ اس کے دوست احباب یا پھر اس کی بیوی بچے۔۔۔ لیکن نہیں ٹھہریئے یہ وہ رشتے ہیں جن کے ساتھ ہمیں اپنی وابستگیوں کا  احساس  ہمیشہ ہوتا ہے۔ لیکن کچھ وابستگیاں معاشرے میں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا ساتھ ہمارے ساتھ ہمیشہ سے ہوتا ہے لیکن ہم انہیں وہ مقام یا اہمیت نہیں دیتے جن کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔
کبھی کسی مچھلی فروش کو مچھلی کی صفائی اور کٹائی کرتے دیکھا ہے؟ کیسا ہنر ہے اس کے پاس۔چھوٹی سی چھڑی کی باریک نوک سے اس کے پیٹ کو چیڑ کر اگلے ہی لمحے اس کا پیٹ ایک انگلی سے صاف کر دینا اور ایک بڑی چھڑی لیکر چند لمحوں میں اسے ٹکڑوں میں تبدیل کر دینا۔
 اس دن جب میں اپنے نئے بوٹ کیچڑ میں لت پت کر بیٹھا تو رشید موچی نے چند منٹوں میں اسے ایسے نکھار دیا جیسے ابھی خریدے ہوں۔
جس دن گھر کا سیورج بند ہوا اور مستری نے اس کا حل نئے پائپ بتایا تو ایک بار تو دل ڈوب گیا۔لیکن جب حمید مسیح نے بانس کے ایک لمبے ٹکڑے کے ساتھ سارا نظام دوبارہ چالو کر دیاتو میں اس کے ہنر کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکا۔
جب آپ صبح کسی سڑک سے گزریں یا پھر کسی پارک میں جائیں۔ وہاں پر کچھ لوگ لمبے جھاڑو لئے صفائی کر رہے ہوتے ہیں۔ چند لمحے ان کو کام کرتا دیکھیں اور اس حصے پر نظرد وڑائیں جہاں سے وہ صفائی کر کے خشک پتوں اور دوسری کچڑے کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریاں بنا چکے ہوتے ہیں۔ اتنے وسیع رقبے پر صرف ایک جھاڑو کی مدد سے اتناکام کرنا ایک ہنر سے کم نہیں ہے
اس دن ایک ریسٹورنٹ سے کھانا کھانے گیا۔ کسی کام سے باہر نکلا تو نظر ان کے تنور پر پڑی۔ جس سرعت سے ایک آدمی آٹے کے پیڑے بنا رھا تھا اور دوسرا بندہ ان پیڑوں کو تنور کے اندر لگا رھا تھا،مجھے رکنے پر مجبور کر دیا۔ چند منٹ تک ان کے مشینی انداز میں روٹیاں لگا نے کے کام کو دیکھتا رھا۔اتنے گاہکوں کو فوری اور گرم روٹی پہنچانا ایک ہنر سے کم نہیں
اس دن گاڑی کی سروس کیلئے ورکشاپ جانا ہوا۔ تین بچوں نے جس چابک رفتاری سے نٹ پیچ کھولے ۔ اس نے مجھے حیران کر دیا۔ ہر چابی، پانے، رینچ، پلاس کا نام اور سائز انہیں اس طرح یاد تھا کہ استاد کی ہلکی سی آواز پر متعلقہ اوزار اس کے ہاتھ میں موجود ہوتا تھا۔
صبح سویرے کھیتوں کے پاس سے گزر ہوا تو منظور نے نہری پانی کو اپنے کھیت تک پہنچانے والے کھال کی صفائی کا آغاز کیا تھا۔دوپہر کو دوبارہ گزرا تو تو مجھے اچنبھا ہوا یہ دیکھ کرکہ صرف ایک کدال کی مدد سے اس نے لگ بھگ ایک کلومیٹرلمبا کھال، گھاس پھونس اور فالتو مٹی سے پاک کرکے اسے استعمال کے قابل بنا لیا تھا۔
جامن کے درختوں کے پاس سے اس وقت گزریں جب ان کا پھل اتارا جا رھا ہوتا ہے۔جامن کے درخت کی لکڑی بہت کمزور ہوتی ہے اس لئے اس کے اوپر چڑھ کر پھل نہیں اتارا جاتا بلکہ درخت کے ارد گرد بانسوں اور لکڑیوں کا ایک ڈھانچہ کھڑ ا کیا جاتا ہے اور اس پر چڑھ کر ایک ایک پھل اتارا جاتا ہے۔ ایک بار اس سارے منظر کو دیکھیں تو ا نسان دنگ رہ جاتا ہے۔
ہمارے ہاں بیری کا ایک درخت تھا۔ ایک بار اس پر شہد کا چھتا لگ گیا ۔شہد اتارنے والے کو بلایا تو وہ اپنے ساتھ کچھ گھاس بھی لایا اور چھتے کے بالکل نیچے اسے آگ لگا دی۔اس کا دھواں مکھیوں تک پہنچا تو مکھیاں نہ تو پاگل ہوئیں اور نہ ہی انہوں نے کسی پر حملہ کیا۔ چپ چاپ چھتا چھوڑ کر چلی گئیں۔ سیڑھی لگائی۔ چھتا اتارا اور شہد نچوڑ کر حوالے کر دیا۔اور میں دم بخداس بندے کا کمال دیکھتا رھا
ایسے ہی بیسیوں لوگ جن میں ترکھان بھی ہیں اور معمار بھی،موچی اور جمعدار بھی۔ان میں نانبائی بھی ہوگا اور گھروں میں کام کرنے والی مائی بھی اور ایسے ہی بہت سے لوگ جن کے ساتھ ہماری وابستگیاں ہوتی ہیں۔یہ تعلق یہ ناطے ہمارے ساتھ جڑے ہوتے ہیں لیکن ہمیں شائد ان کا احساس نہیں ہوتا۔ ان وابستگیوں کی وجہ سے معاشرے کا انسان کسی زنجیرکی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے سے جڑا ہوتا ہے۔انسانی فطرت میں چاہے جانے کی آرزو پائی جاتی ہے۔۔۔ ستائش کی آرزو۔۔ تسلیم کئے جانے کی آرزو۔۔۔تو کیا ہوگا اگر ہم اپنے ارد گرد پھیلے ہنر مندوں کے ہنر کو تسلیم کریں ۔اور اقرار کریں ان کے سامنے۔یہ سچ ہے کہ ہر تعلق کے ساتھ قلبی لگاؤ نہیں رکھا جا سکتا لیکن نیک جذبات کے اظہار کیلئے حوصلہ بحرحال نکل آتا ہے۔محبت کے چند بول بہی خواہوں میں اضافہ کریں گے۔ بہی خواہوں کے دوست آپ کے قریب آئیں گے۔اورآپ کو مضبوط کریں گے اور معاشرے کی یہ زنجیر مضبوط سے مضبوط ہوتی چلی جائے گی
میم سین

Tuesday, January 13, 2015

ہم کس طرف جا رہے ہیں؟

کبھی کبھی میں جھنجلا جاتا ہوں ۔جب رشتوں کے پاکیزہ جذبوں میں خود غرضی اور بے اعتناعی برتی جاتی ہے۔ ایسی باتوں پر جوانسانی معراج کا کا تمسخر اڑاتی نظر آتی ہیں۔بہت سے جرم ایسے ہوتے ہیں جن کا اگر اقرار کر لیا جائے تو ان کی حیثیت شائدجرم والی نہیں رہتی۔لیکن ضمیر کی خلش ہمیشہ اس کا احساس دلاتی رہتی ہے۔جب مرد اور عورت ایک لطیف بندھن سے جڑتے ہیں تو اولاد زندگی کی راعنائیوں کو ایک دوام بخشتی ہے۔لیکن جب فطری تقاضوں سے منہ موڑیں گے تو کسی دن چاروں افق اپنی بے بسی اور مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہونگے۔
ابھی بچی کی عمر ہی کیا ہے کہ اس کی شادی کر دی جائے پہلے کچھ زمانے کے رنگ تو سیکھ لے۔۔۔کیا کہا شادی کر رہی ہو کچھ دن دونوں کو مل تو بیٹھنے تو دو ،کچھ ذہنی ہم آ ہنگی آجائے تو شادی بھی کر دینا۔۔۔شادی تو بہن کر رہی ہو لیکن ابھی بچہ نہیں ہونا چاہیئے ۔۔ جب سسرال میں قدم جم جائیں تو پھر دیکھ لینا۔۔۔۔ہم کدھر جارہے ہیں؟ کیا ہم سمجھتے ہیں ۔ہم اس طلم اور زیادتی کا ازالہ کرنے جارہے ہیں جو ہمارے آباؤ اجداد کے ساتھ روا رکھا گیا
جس دن ممتاز نے بتایا تھاتو میں نے اس واقعے کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔ کہ شادی کے بعد جب وہ پہلی بار میکے آئی تو اسے معلوم ہواتھا کہ وہ حاملہ ہوچکی ہے لیکن اس کی ماں اسے ایک دائی کے پاس لے گئی اور یہ کہہ کر حمل ضائع کروا دیا کہ ابھی سسرال میں پاؤں تو جما لو۔ لیکن شائد قدرت کا انتقام بھی عجیب ہوتا ہے کہ وہ نہ تو دوبارہ ماں بن سکی اور اور نہ ہی اپنے خاوند کو قابو کر سکی، جو گھر سے زیادہ دوسرے معمولات میں زیادہ دلچسپی لینے لگا تھا
کچھ ایسا ہی واقعہ میرے ایک دوست نے سنایا کہ جس نے شادی کے تیسرے مہینے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی ۔ میرے بے حد اصرار پر اس نے بتایا کے شادی کے بعد جب ماہواری کی مسلسل بے قائدگی ختم نہیں ہورہی تھی تو ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس لیکر گیا تو اس کی معمول کی تسلی میرے لئے ایک انکشاف سے کم نہیں تھی۔لیڈی ڈاکٹر نے بتایا کہ مانع حمل کے ٹیکے کا اثر ہے جونہی وہ ختم ہوگا تو ماہوراری میں باقائدگی آ جا ئے گی۔اور جب بیوی سے وضاحت چاہی تو معلوم ہوا کہ اس کی ماں نے اس نیت سے ٹیکہ لگوایا تھا کہ کہیں جلد اولاد نہ ہوجائے اوربعد میں مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔لیکن اس دوست نے غصے میں آکر تعلق ہی توڑ دیا
بانو اپنے موٹاپے کے علاج کیلئے میرے پاس آئی توجب اولاد کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ جب ہماری شادی ہوئی تھی تو ہم میاں بیوی نے بچوں کی ذمہ داری کو کچھ سالوں کیلئے التوا میں ڈالنے کا فیصلہ کیا ۔ تین سال بعد جب بچوں کی خواہش کی تو شائدقدرت ہم سے ناراض ہوچکی تھی۔ پچھلے چھ سال سے دوائیاں کھا رہی ہوں لیکن بچہ کی ابھی کوئی امید نظر نہیں آرہی اور موٹاپے کا مرض الگ سے گلے لگ گیا ہے۔
میاں بیوی کے رشتے کے درمیان محبت اور تعلقات میں ایک ٹھہراؤ کسی اصول پر ہوتا ہے۔ اس اصول کی بنیاد کسی عقیدت کسی جذبے پر ہوتی ہے اور وہ جذبہ اولاد بناتی ہے۔بچہ شائد یہ نہ جانتا ہو کہ وہ عدم سے وجود میں کیسے آیا تھا لیکن جس لمحے وہ پہلی سانس لیتا ہے ماں ایک ہی جست میں فرش سے عرش کا سفر طے کر جاتی ہے۔اور باپ کا تکمیلِ محبت کا آخری باب لکھ دیا جاتا ہے۔سب جانتے ہیں کہ اولاد پیار کا ایک ایسا تحفہ ہے جوسچی لگن کا پھل ہے۔شادی کے بعد ایک امتیاز اور فخر کی علامت۔سدا بہار درخت کی چھاؤں۔ایک ایسا نور جو تاریکی سے اس کے سارے اندھیرے چھین لے۔کسی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند جو زندگیوں کو مخمور کر دے۔ایک ایسا خواب جو ہزاروں دعاؤں اور امنگوں کی تکمیل سے ملتا ہے
لیکن یہ کیسے والدین ہیں۔ کیسی مائیں ہیں؟ کیسے باپ ہیں۔ جنہوں نے پیار اور چاہت کا مفہوم بدل دیا ہے ۔ تعلقات کی گہرائیوں کی کسوٹی تبدیل کر دی ہے۔اپنی ذاتی انا کیلئے ،خوشیوں کے معیار بدل دیئے ہیں۔
فہم و ادراک اور جذبات میں شدت پسندی ہمیشہ نقصان پہنچاتے ہیں۔فطرت کے تقاضوں کو مصلحت کے اصولوں سے سیکھیں گے توصرف تخریب جنم لیتی ہے۔ جب ہم فطرت کو اپنے نظریات سے شکار کرتے ہیں تو فریب کے مشکوک حلقے ہمیں نقصان پہنچائے بنا نہیں رہ سکتے۔۔اپنی حد سے بڑھی مصلحت انسانی تہذیب کو بربادیوں کے سوا کچھ نہیں دے سکتی۔
میم سین

Monday, January 12, 2015

تعجب

.کل سے میں حیران بھی ہوں اور کسی حد تک پریشان بھی۔کیونکہ میرے یقین کی نبض ایک بار رک گئی تھی
میں ایک عرصے سے اس فلسفہ پر یقین رکھتا تھا کہ یہ جو مرد اپنی بیویوں سے ڈرتے ہیں اس کی وجہ وہ خلا ہے جو ان کی شخصیت میں رہ جاتا ہے۔وہ خلا جو پہلے ماؤں کے ہاتھوں باپ کا خوف پیدا کرتا ہے۔ گھر میں باپ کے داخل ہوتے ہی سناٹا چھا جانا۔ اگر بچے کھیل رہے ہوتے تھے تو فوراً اپنی گیند چھپا لیتے تھے۔ اگر کوئی دھینگا مشتی جاری ہوتی تو سب بھاگ کر کونوں کھدروں میں پناہ ڈھونڈ رہے ہوتے تھے ۔اور باپ کا دبدبہ اور خوف بغیر کسی مار پیٹ کے گھر میں قائم ہوجاتا تھا۔
اور پھر سرکاری سکولوں میں ماسٹر وں کا خوف۔ کسی کو خبر نہیں ہوتی تھی کہ کب اور کس بات پر مولا بخش حرکت میں آسکتا ہے۔ اور مساوات کا اصول ایسا کہ حرکت کوئی بھی غلط کرے لیکن مرغا ساری کلاس بنتی تھی۔
یہ خوف اور ناانصافیاں، احساس محرومی کو جنم دیتی ہیں اور یہ احساس محرومی تحت الشعور میں کہیں کوئی خلا پیدا کر دیتی ہیں ہے۔جب بیوی زندگی میں داخل ہوتی ہے تو وہ خود کو مرد کے سپرد کر دیتی ہے لیکن بہت جلد وہ اس خلا کو ڈھونڈ لیتی ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے ۔یوں اس کا خارجی روپ سامنے آتاہے۔ اور مرد اپنے اس خلا کے زیر اثربیوی کی ہر بات میں ہاں جی کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
یہ باتیں تو تھیں پرانے دور کیں۔ اب تو سکولوں میں مار نہیں پیار کا نعرہ ہے۔ گھروں میں بھی بچے اپنے والدین سے ڈرنے والے نہیں بلکہ ان کو اپنی فرمائشوں پر نچاتے ہیں ۔ لیکن کل ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی جو آدھی عمر لندن میں گزار کر پاکستان آیا تھا، نسٹ سے گریجویٹ تھا۔ اسے اپنی بیوی کے سامنے بھیگی بلی بنا دیکھ کر حیرت ہوئی اس کی شخصیت میں کون سی کمی رہ گئی تھی
میم سین

Sunday, January 11, 2015

سوچنے کی بات

کل کمالیہ جاتے ہوئے سخت سردی اور دھند میں مغرب کے بعد سڑک کے دونوں جانب لگے روشنی میں نہائے سٹالوں، سپیکروں سے بلند ہوتی موسیقی اور لوگوں کا جم غفیر دیکھ کر حیرت ہوئی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا ، بابا روشن شاہ کا میلہ لگا ہوا ہے۔
ہمارے دیہاتوں میں میلے عام طور پر کسی بزرگ کے عرس پر منعقد ہوتے ہیں۔ کھانے پینے کے، برتنوں کے، کھلونوں کے سٹال لگتے ہیں۔۔۔ موت کا کنواں بھی آتا ہے۔ اگر انتظامیہ ہمت کرے تو سرکس بھی آجاتی ہے۔ رنگ برنگی دنیا۔کوئی کھانے پینے کیلئے سجے سٹال دیکھ رھا ہے۔ تو کوئی بچوں کو جھولے دلوا رھا ہے۔کہیں چڑیا گھر قائم ہے اور لوگ ٹکٹ کیلئے کھڑے ہیں۔ تو کوئی بھوت بنگلے کے اندر جانے کیلئے بے چین ہے۔۔ لوگ اپنے بچوں اور اہل خانہ کے ساتھ ان میلوں کا رخ کرتے ہیں اورپیسوں کے خرچ میں کنجوسی بھی نہیں کرتے ہیں۔
لیکن اس بات سے اختلاف نہیں ایسی جگہیں شرک کی آماجگاہیں ہیں، غیر اخلاقی سرگرمیوں کیلئے محفوظ مقامات۔ جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہیں۔شہر کا آوارہ اور بے راہ روی کا شکار ہر نوجوان ان میلوں کا رخ کرتا ہے۔کوئی گالیاں نکال رھا ہے تو کہیں حیا سوز گانے چل رہے ۔تو کہیں ذو معنی فقرے کسے جارہے ہیں۔  کیا ایسے میلوں میں لوگوں کو شرکت کرنا چاہیئے، جہاں غیر اخلاقی سرگرمیاں عروج پر ہوں؟۔۔

لیکن سب اعتراضات کے باوجود میں یہ سوچتا ہوں کہ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں رہنے والوں کیلئے تفریح کیلئے  مواقع کون سے ہیں؟ نہ تو کوئی پارک ہیں اور نہ ہی فن لینڈ کی طرز پر کوئی جھولے یا بچوں کو باہر لے جانے کا کوئی اور بہانہ ۔ حکومتی سطح پر لوگوں کی تفریح کیلئے کبھی انتظامات ہی نہیں کئے گئے۔شہروں کے اندر پارک بنانا تو دور کی بات، بچوں کے کھیلنے کیلئے گراؤنڈ کیلئے جگہ چھوڑنے کا رجحان ہی نہیں ہے۔اور اگر کہیں خوش قسمتی سے ایسے میدان موجود ہیں جہاں بچے کھیل سکتے ہیں تو ان پر قبضہ مافیہ پراجمان ہوتا ہے۔ چند سال پہلے تک سرکاری سکولوں میں وسیع میدان تھے۔ جہاں پر طلبا کے ساتھ ساتھ شہر کے دوسرے نوجوان کرکٹ، فٹبال ، والی بال کھیلے آجایا کرتے تھے۔ لیکن سکولوں میں نئے کمروں کی تعمیر اور خالی جگہوں کا دوسرے مقاصد کیلئے استعمال کے بعد اب سکولوں میں کھیلنے کیلئے بھی گراؤنڈ میسر نہیں رہے۔ یہ میلے ٹھیلے نہ ہوں تو لوگ تفریح کیلئے کہاں جائیں؟
میم سین

Saturday, January 10, 2015

مردوں کیلئے

جب مرد چالیس کا یا پھر اس سے اوپر کا ہوجائے۔یا پھر شادی کو آٹھ سے دس گزر جائیں یا پھر دو تین بچے ہوجائیں تو عام طور پر خواتین اپنے مردوں کے بارے میں لاپروہ ہوجاتی ہیں۔ کہاں جاتا ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ دفتر میں دیر تک باس نے کیوں روکا؟ اس لئے جب خواتین اپنے شوہروں کی طرف سے لاپروہ ہوجائیں تو ان کا فون چیک کرنا، میسجز پر نظر رکھنا، گھر آنے جانے کی نگرانی کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔ لیکن چند دن سے کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ خواتین کے یہ تحفظات اشکالات کا شکار ہو گئے ہیں۔ سر میں درد اور بے خوابی کی شکایات عام ہوگئی ہیں۔دفتر فون کرکے خاوند کی طبیعت کا کا پوچھنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ فون کالز اور میسجز کی نگرانی بھی دوبارہ سے شروع ہوگئی ہے۔ اسلئے مرد حضرات دفتر جانے سے پہلے اپنی تیاری پر زیادہ وقت ضائع کرکے کے اپنی پوزیشن کو مزید مشکوک نہ بنائیں۔ 
میم سین