Saturday, March 28, 2015

میرے قلم سے

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں ممتا کے مسائل بھی عجیب ہوتے ہیں جن کو سمجھنا آسان کام نہیں ہے ۔وہ اپنے بچوں کو ہمیشہ پہلے درجے پر دیکھنا چاہتی ہے۔۔۔بچوں کی ناکامی ماں اپنی ناکامی سمجھتی ہے۔۔لیکن مقابلہ بازی اور غیر صحت مندانہ تقابل کی وجہ سے غیر ارادی طور پر ممتا شدت پسندی کا روپ ڈھال کر ایک مضحکہ خیز شکل اختیار کر لیتی ہے۔۔۔
اس کے چچا کے بیٹے کے دانت تو ساتوں مہینے نکل آئے تھے لیکن ہمارا ببلو تو نو مہینے کا ہوگیا ہے لیکن ابھی تک ایک بھی دانت نہیں نکالا۔
ہمارا مون دو لفظ بھی صحیح طرح سے ادا نہیں کرتا اوراس کی پھوپھو کی بیٹی  اس کی ہم عمر ہے اور فر فر بولتی ہے۔
حامد صاحب کا بچہ چھ سال کا ہے اور دوسری جماعت میں ہے لیکن ہماراچاند بھی تو اس کا ہم عمر ہے لیکن ابھی پہلی جماعت میں ہے۔
ایک خاتون اپنے بچے کو میرے پاس لیکر آئی اور کہنی لگی کہ اس کو کیلشیم کی کمی ہے کوئی اچھا سا کیلشیم کا شربت تو لکھ دیں۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ محترمہ آپ کو اس کمی کا کہاں سے علم ہوا ؟تو تو کہنے لگی یہ مٹی جو بہت کھاتا ہے۔
ایک خاتون کا کہنا تھاکہ بچہ ویسے تو سب کچھ کھا لیتا ہے لیکن انڈہ شوق سے نہیں کھاتا کوئی ایسی دوائی دیں کہ یہ انڈہ شوق سے کھانا شروع کردے۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا ، ہوسکتا ہے یہ اپنے ننہیال سے پیار کم کرتا ہو اس کی دوا بھی ساتھ ہی لکھ دیتا ہوں۔
ایک خاتون اپنی تین سالہ بچی کیلئے دوائی لینے آئیں کہ یہ بستر پر پیشاب کر دیتی ہے۔ میں نے پوچھا تو آپ چاہتی ہیں کہ یہ کموڈ کا ستعمال شروع کردے؟

ایک خاتون کا کہنا تھا اس کے بچے کیلئے کوئی ایسی دوائی تجویز کریں کہ اس کا دل پڑھائی میں لگنا شروع جائے۔ میں نے بے ساختہ پوچھا کونسے مضمون میں دل نہیں لگتا تاکہ اس کے مطابق دوائی تجویز کروں۔
آٹھویں جماعت کی ایک بچی کے بارے میں جب اس کی ماں نے انکشاف کیا کہاس کی بھوک پہلے سے بہت کم ہوگئی ہے اور سونے سے پہلے اپنا فیڈر مکمل نہیں کرتی۔ میں نے بے ساختہ پوچھا پہلے یہ بتائیں۔ اس کے ابا نے فیڈر چھوڑ دیا ہے؟
ایک خاتون چھ ماہ کے ایک بچے کے ساتھ جس کاوزن دس کلو تھا ۔ اس شکائیت کے ساتھ لائی تھی کہ اس کی بھوک پہلے سے بہت کم ہوگئی ہے اور صحت بھی پہلے جیسی نہیں رہی۔
میم سین

Wednesday, March 4, 2015

کچھ پرانی باتیں

پچھلے پندرہ سالوں  کے دوران ہمارے رویے، ترجیحات اور اقدار بہت کچھ بدل گیا ہے۔زندگی کا قدرتی پن اور بے ساختگی پہلے جیسی نہیں رہی ہے۔لیکن یہ زمانہ طالب علمی کی بات ہے۔ اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر بچوں کی کمنٹس بک سے متاثر ہو کر ایک سروے بنایا ۔جس میں ہر شعبہ زندگی سے متعلق سوال رکھے گئے تھے۔جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ نظام یا عوام؟ اگر آپ کو پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں رہنے کی آپشن دی جائے تو کس ملک کا انتخاب کریں گے؟اگر آدھی رات کو آپ کے گھر کے دروازہ پر گھنٹی بجے اور دروازہ کھولنے پر کوئی اجنبی لڑکی ہوتو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ امتحان سے ایک دن پہلے پیپر آپ کے ہاتھ لگ جائے تو کیا کریں گے؟ اگر ایک دفتر میں کلین شیو اورایک باریش کلرک موجود ہو تو مدد کیلئے کس سے رجوع کریں گے؟ اگر ایک دن گداگری کرنی پڑے تواچھی کمائی کیلئے لاہور میں کس جگہ کا انتخاب کریں گے؟ مرد اور خواتین اساتذہ میں سے کس کے ساتھ اپنے مسائل پر تبادلہ خیال میں آرام دہ محسوس کرتے ہیں؟ کسی مسئلے پر ننھیال یا ددھیال میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے توکس کا انتخاب کریں گے؟ 
یہ سوال نامہ اپنے دوستوں اور قریبی حلقہ احباب میں تقسیم کیا گیا ۔ کچھ نے واپس کئے کچھ نے نہیں۔ اگرچہ نتائج بھی تیار کئے تھے لیکن وقت کی گرد میں کہیں کھو گئے۔چند دن پہلے پرانی فائلیں جھاڑتے ہوئے اس سروے فارم کے کچھ بچے  کھچے اوراق ملے تو باقی نتائج اپنی جگہ لیکن ایک نتیجے نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا ۔اگر ایک دفتر میں کلین شیو اورایک باریش کلرک موجود ہو تو مدد کیلئے کس سے رجوع کریں گے؟تو پچپن میں سے ترپن نے باریش کے حق میں رائے دی تھی۔ کل ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میں سوال اور اس کے نتائج پراپنی حیرت کا اظہار کیا تو میرے دوست نے بڑی مختصر لیکن بڑی جامع بات کی۔ کہنے لگے۔اس سوال پر آج بھی رائے عامہ شائد زیادہ مختلف نہ ہو۔آج بھی ایک عام آدمی دکانوں پرمعاملات ہوں، رستہ پوچھنے کی باری ہو، یا پھر کوئی مشورہ درکار ہو۔ہمیشہ باریش انسان کو ترجیع دیتا ہے۔ انسان ہمیشہ فطرت کی طرف جھکتا ہے۔اور داڑھی فطرت سے ہے۔اسی لئے اسلام میں داڑھی رکھنے کی ترغیب اور حکم دیا گیا ہے کیونکہ اسلام خود دین فطرت ہے
میم سین

Tuesday, March 3, 2015

ایک مردِ درویش کی وضاحت

میں مزاح پر یقین رکھتا ہوں۔اس لئے اگر میری اپنی  کوئی حرکت ایسی ہو جس سے کسی کے چہرے پر مسکراہٹ آجائے تو میں اسے سنانے سے دریغ نہیں کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوںمزاح دوسروں کے تجربات کے ایسے مشاہدات ہوتے ہیں جو ہمیں مسکرانے پر مجبور کر دیتے ہیں تو وہ تجربات دوسروں کے ہوں یا پھر میرےاپنے ہوں۔اگر وہ ایک اچھا مزاح جنم  رہےہیں۔تو مسکرانے میں تعصب کیسا؟
ایک محفل میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ بات برادریوں اور ان کی عادات اواطوار کی طرف نکل گئی۔ اور ارائیں گھرانے سے تعلق کے باوجود، جب میں نے ارائیوں کے بارے میں بھی کئی لطیفے اور ایسی باتیں سنائیں جن کو سن کر سب خوب محظوظ ہوئے تو وہاں سےرخصت ہوتے ہوئے ایک دوست نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ میں تو آج تک آپ کو ارائیں سمجھتا رھا ہوں۔

میاں بیوی کے لطیفے سن کر اکثر عورتیں اس نتیجے پر پہنچتی ہیں کہ شائد مرد اپنی زندگیوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ یا شائدایسی لطیفوں کا مقصد مرد کو مظلوم بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے۔یا پھر ایسی باتوں سے بیویوں کی توہین مقصود ہوتا ہے۔لیکن یہ سب باتیں سچ نہیں ہیں۔
 مزاح ادب کا ایک لطیف پہلو ہے۔ ادب کی تخلیق کا تعلق بڑی فہم وفراست سے ہوتا ہے۔اور جو روزمرہ کے لطائف ہم سنتے ہیں وہ اسی تخلیقی ادب کا ایک حصہ ہیں،روز مرہ کے مشاہدات  ہیں۔لیکن کیا کیا جائے قلم کا توازن مرد نے اپنے حق میں کر رکھا ہے اس لئے مزاح کا ایک ہی پہلو سامنے آتا ہے۔جس میں مرد ہمیشہ مظلوم اور عورت ایک جابر انسان کےروپ میں نظر آتی ہے۔عورت نے اگرچہ ہر میدان میں خوب مقابلہ کیا ہے لیکن اس میدان میں بحرحال ابھی بہت پیچھے ہے اس لئے میری تو بڑی شدت سے خواہش ہوتی ہے کہ مردوں کے لطیفے سننے میں ملیں۔ملتے بھی ہیں لیکن ابھی آٹے میں نمک کے برابر۔۔ ۔
لیکن ہمارا ادب کچھ عرصے سے آزاد اظہار اور حقوق نسواں کا  جس طرح پرچار کر رھا ہے وہ بھی تو نامناسب ہے۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ موجودہ دور میں افسانہ لکھنے کیلئے آزاد خیال اور مذہب بیزار ہونا بہت ضروری ہے۔لیکن بحرحال موجودہ ادبی رجحان جس معاشرے کا تاثر دے رھا ہے اس  کے وجود سےبھی کلی طور پر اتفاق ممکن نہیں ہے۔۔


میاں بیوی کے رشتے کے ساتھ مزاح کیوں؟؟
میاں بیوی کا رشتہ ایک روحانی تقاضا ہے۔یہ رشتہ بھی کتنا عجیب ہوتا ہے۔ترغیب کا جزو ، پاکیزگی کے عنصر کے ساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے اورایک شگفتہ جیون جنم لیتا ہے۔ جس کے تحت الشعور میں کیسے بھی جذبے کارفرما ہوں لیکن شعوری قوتیں انہیں کسی لطیف اور حسین احساس میں ڈھال دیتے ہیں۔شادی سے پہلے عموماً مرد کیلئے عورت کے ساتھ سے زیادہ ،اس کے جسم کی ضرورت ہوتی ہے لیکن شادی کا رشتہ جلد ہی جسم کی چاہت کو کہیں تحلیل کر دیتا ہے۔ایک دیوانگی جنم لیتی ہے جو جسم میں خون کی حرارت بن کر عورت کے  دلفریب اور دلکش پہلوؤں سے روشناس کراتی ہے۔اس رشتے کے اس آفاقی پہلو کو بحرحال کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ شادی کے بعد دو اجنبی انسان ایک دوسرے کے بہی خواہ اور سچے ہمدرد بن جاتے ہیں۔
کتنا حیا پرور رشتہ ! خود سپردگی کے ایک منفرد احساس کے ساتھ ایک عزت ، احترام کا رشتہ۔ قلبی تعلق۔ایک بے ریا خلوص ہے۔۔جو قربت، جو محبت، ، جو بے تکلفی، جو اپنائیت اس رشتے میں پائی جاتی ہے کیا وہ کسی اور رشتے میں ممکن ہے؟ یہ رشتے کا تقاضا ہے کہ جس قدر دونوں کے درمیان بے تکلفی بڑھے گی اسی قدر محبت کی فطرت پہاڑ کی طرح ٹھوس اور سخت ہوگی۔ لیکن اگر اس رشتے کو بھی مصلحتوں کا شکار رکھیں گے، تکلفات کی دھیمی آنچ پر سجائے رکھیں گے تو پھر یہ رشتہ بھی روایتی رشتوں کی طرح محبت کا دھوکا ہوگا۔ذہنی اور روحانی طور پر انتشار کا شکار۔ایک ایسی بانجھ زمین میں تبدیل ہوجائے گا جس میں صرف شک کے بیج اگ سکیں گے۔میرا مشاہدہ ہے سب سے گہرا رشتہ ان دوستوں کے درمیان ہوتا ہے جن کے درمیان حد سے زیا دہ بے تکلفی ہوتی ہے۔۔ مرد و زن دونوں میں۔۔ اگر کوئی غلط فہمی جنم بھی لےتو وہ بھی  جلد زائل ہوجاتی ہیں۔

یہ سچ ہے کہ انسان زندگی کے ہر موڑ پر محبوب بننا پسند کرتا ہے اورجو اسے محبوب کا درجہ دیتا ہے اس کیلئے اس کے دل میں عزت کا مقام خود ہی پیدا ہوجاتاہے۔بلکہ محبت کا صلہ بھی محبت کی صورت میں دیتا ہے۔اور یہی فطری جذبہ شادی کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔لیکن شادی کے بعد محبت کے اظہار بدل جاتے ہیں۔ اٹھنے والے قدم اور ایک دوسرے کیلئے برداشت  اور قربانی کے جذبے لفظوں کی جگہ سنبھال لیتے ہیں۔شادی کے بعد یہ بات بے معنی ہوجانا چاہیئے کہ مرد یا عورت جب تک ایک دوسرے کے زانوں پر اپنا سر نہیں ٹکائیں گے اور اپنی زبان سے محبت کا دعوی نہیں کریں گے تو اسے محبت نہیں سمجھا جائے گا۔ بالکل بیکار کی باتیں ہیں۔

میاں بیوی کے درمیاں مزاح اکثرترجیحات کے فرق کی وجہ سے وجود میں آتا ہے۔مرد کی زندگی کیلئے پہلی ترجیع کئی دفعہ بیوی کیلئے عیاشی کے ضمرے میں آتی ہے۔ اور بیوی کے ناگزیر امور ، میاں کیلئے ہنسی کھیل سے زیادہ نہیں ہوتے۔اور جو زندگی کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے قائل ہوتے ہیں وہ ان  ترجیحات کے فرق سے محظوظ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس میں شامل کر لیتے ہیں۔ لہذا ایسی باتیں پر تلملانا محض اس رشتے کے راستے میں کانٹے بکھیر نے سے زیادہ کچھ نہیں۔ نہ تو ترجیحات تبدیل ہوسکتی ہیں اور نہ ایک دوسرے پر انحصار کم ہوسکتا ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے پر انحصار بڑھتا جارھا ہے۔اور یہی ایک دوسرے پر انحصار اس رشتے کا حسن بھی ہے اور لطیف پہلو بھی۔
اور ایسے مسائل کا واحد حل ایک دوسرے کی ترجیحات کو سمجھتے ہوئے ان کو اہمیت دینے میں ہے۔۔
ایک گھر سے ہمیشہ قہقوں اور ہنسنے کی آوازیں آتی تھیں۔ایک دن کسی نے صاحب خانہ سے پوچھا۔اتنی خوشگوار زندگی کا  راز کیاہے؟ ؟۔صاحب نے جواب دیا۔جب ہماری لڑائی ہوتی ہے تو میری بیوی  برتن مجھے مارتی ہے۔اگرمجھے وہ نہ  لگے تو میں ہنستا ہوں اور اگر وہ مجھے لگ جائے تو وہ ہنستی ہےاور یوں ہنستے ہنستے ہماری زندگی گزر رہی ہے۔
میم سین