Saturday, October 15, 2016

آزادی کی تکمیل











امن کی علامت فاختہ اپنی شکل سے تو معصوم نظر آتی ہی ہے لیکن اس دن مجھے معلوم ہوا یہ کہ فطرت میں بھی بہت بھولی بھالی ہے جب فاختہ کے ایک جوڑے نے برآمدے میں لٹکے راڈ سے لگے پردے کے اوپر اپنا گھونسلا بنایا۔ اتنی کمزور جگہ گھونسلا، بھلا پائیدارکیسے ہوسکتا تھا۔ چند دن بعد ہی فرش پر دو ٹوٹے ہوئے انڈے ان کے خاندان کی تباہی کی کہانی سنا رہے تھے۔ لیکن اگلی بار بھی اسی جگہ کا انتخاب کیاتو مجھے فاختہ کی معصوم طبیعت پر یقین آگیا
چند دن بعد ہی دو ننھے منے فاختہ کے بچے منہ کھولے سارا دن اپنے ماں باپ کا انتظار کرتے نظر آنے لگے ۔ ان کے جسم پر بال نکلنا شروع ہوئے تو نا جانے  انہوں نے ہز فرسٹ فلائٹ کہانی پڑھ لی تھی یا پھر والدین کی کوتاہی تھی کہ وہ اپنے گھونسلے سے نکل آئے ۔ ننھے ننھے پروں کے ساتھ وہ اچھل کود تو کرسکتے تھے لیکن واپس اپنے گھونسلے میں جانا یا کسی محفوظ جگہ کا انتخاب کرنا ان کیلئے ممکن نہیں تھا۔
ایک دن تو میں ان کی حرکتیں دیکھتا رھا۔ مجھے لگا اگریہ یونہی آزاد رہے تو کسی پنکھے کے پروں کی زد میں آکر اپنے جان گنوا بیٹھیں گے یا پھر منڈیر سے جھانکتی بلی کا تر نوالہ ثابت ہونگے۔۔ برتنوں والی ٹوکری خالی کی اور ان کو چھپا کر باجرہ اور سرسوں کے بیج کھانے کو دیئے۔ دو دن تک تو ان کے اماں ابا سارا دن اس ٹوکری کے پاس متفکر بیٹھے رہے لیکن پھراچانک غائب ہوگئے۔
چند دن خوب پیٹ بھر کر کھانے کو ملا تو جوانی ان کے جسموں پر ظاہر ہونا شروع ہوگئی۔ ایک ہفتے بعد مجھے لگا کہ اب یہ پروازکے قابل ہوگئے ہیں تو ایک دن ان کے اوپر سے ٹوکری اٹھا دی ۔ کچھ دیر ادھر ادھر گھومنے کے بعد وہ اڑ گئے لیکن شام کو اسی ٹوکری کے قریب پھر موجود تھے۔ 
اور پھر تو یہ معمول ہی بن گیا۔ صبح کو ان کو آزاد کر دیا جاتا لیکن شام کو وہ اسی ٹوکری کے ارد گرد موجود ہوتے۔ جیسے غلامی کے دنوں نے آزادی کے احساس سے نا آشنا کر دیا ہو ۔
یہ لگ بھگ کوئی دس دن بعد کی بات ہے جب ایک دن دوپہر کو میں نے بابا فاختہ اور ماما فاختہ کی موجودگی کو صحن میں محسوس کیا۔ دنوں بچے بھی ان کے ساتھ پھدک رہے تھے۔ کبھی اڑ کر منڈیر پر جاتے تو کبھی کسی تار پر بیٹھ کر زمین کو تکتے۔کچھ دیر ان کا تماشا دیکھتا رھا لیکن پھر اپنے معمولات میں مشغول ہوگیا۔ لیکن اس شام دونوں واپس نہیں آئے۔اپنے بچوں کو آزادی اور غلامی میں فرق ایک دن میں سکھا دیا تھا۔.
فاختہ کے بچے معصوم تھے کمزور بھی لیکن آزادی پر سمجھوتہ ان کی سرشت میں نہ تھا.اور اس بات کا اندازہ ماما بابا فاختہ کو بھی تھا کہ جلد یا بدیر ہمارے بچوں نے مکمل آزادی حاصل کرنی ہے.کیونکہ ادھوری آزادی کی کوئی ویلیو نہیں ہوتی.آزادی خوردرو پودے کی طرح اپنی تکمیل خود کرتی ہے اور بہرصورت کرتی ہے.آپ لاکھ بار جھاڑی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں وہ پھر اسی جگہ اگتا ہے.یہ اصول فطرت ہے آزادی اپنی تکمیل کرتی ہے.
بس دیکھنا یہ ہے کہ انسانوں کی بستی کے یہ مکین کب اپنی آزادی کی تکمیل کر کے ٹوکری سے نجات حاصل کرتے ہیں.کیونکہ ٹوکری کے نیچے چاہے آسائش کا ہر سامان مہیا ہو وہ آزاد فضاؤں کا متبادل نہیں ہوسکتا
میم سین

Tuesday, August 30, 2016

میرے مشاہدات


سگریٹ اور حقے کے شوقین سانس کی بیماریوں میں مبتلا بابا جی کا چیک اپ کرنے کے بعد سمجھایا کہ
بابا جی سگریٹ حقہ سے مکمل اجتناب کریں بلکہ آپ کو تو اس قدر پرہیزکرنا چاہیئے
کہ کوئی بندہ سگریٹ پی رھا ہو تو اس کے پاس بھی نہ بیٹھیں
میں دوائی لکھنے لگ گیا اور اتنے میں اس کا بیٹا جو کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا ، کمرے میں داخل ہوا اور
اپنے باپ سے پوچھنے لگا ڈاکٹر صاحب نے کیا کہا
بابا جی نےجواب دیا
ڈاکٹر کہہ رھا ہے کہ جب کوئی پاس بیٹھا ہو تو سگریٹ حقہ نہیں پینا ہے
میم سین

ادھر ادھر سے


احسن صاحب اب اتنے عمر رسیدہ بھی نہیں تھے کہ بیوی کے انتقال کے بعد باقی عمر تنہا گزار لیتے ۔ چار بچوں کی ذمہ داری نے احساس دلایا تو ایک دن اماں نے بھی ہاتھ اٹھا لیئے کہ اب ان کی بوڑھی ہڈیوں میں اتنی طاقت نہیں کہ بچوں کی شرارتوں کا بوجھ برداشت کر سکیں ۔ احسن صاحب نے حامی بھری اور چند ہی دن میں ایک بیوہ ڈھونڈ نکالی گئی جس کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی۔ چند دن گھر میں خوب رونق رہی۔لیکن ساتویں دن دلہن اچانک بے ہوش ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ بلڈ پریشر کی مریضہ تھی ۔شادی کے چکر میں اپنی دوائی استعمال نہ کر سکی اور اب فالج کا حملہ ہوگیا تھا۔ یوں احسن علی کے کندھوں پر ایک اور ذمہ داری نے اپنا بوجھ ڈال دیا

اس کہانی سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے لیکن یہ کہانی بچوں کیلئے تو لکھی نہیں گئی کہ جس سے کوئی سبق نکالنا ضروری ہو ۔ فرحانہ صادق کی رائے میں اس کو ایک اچھا انشائیہ سمجھ کر پڑھ لیں 
بھائی کی شادی پر ننھے میاں نے اپنا کمرہ سجانے کی فرمائش کر ڈالی۔ فرمائش کیا ضد شروع کر دی تو اسے سمجھایا گیا کہ ہماری روایات صرف دلھن کا کمرہ سجانے کی ہیں لیکن ننھے میاں کے سوالوں نے نے سب کو لاجواب کر دیا کہ قرآن پاک میں ایسا کہیں لکھا ہے یا پھر حدیث میں آیا ہے؟ تو مجبورا اس کاکمرہ سجا دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد جب اس کے ماموں کے بیٹے نے بھی فرمائش کر ڈالی تو اسے زیادہ بحث نہیں کرنا پڑی کیونکہ خاندان میں روایت موجود تھی۔
لیکن بڑی عید پر قربانی کیلئے روایت بھی موجود ہیں اور احکام بھی اس لیئے قربانی کیلئے جانور کی خریداری پر بچوں کی فرمائش پر جیب کی تنگی کا عذر پیش کرنا ممکن نہیں رہتا۔ لیکن اس بار تو کانگو کا بھوت ایسا ذہنوں پر سمایا ہوا ہے کہ مویشی منڈیاں سائیں سائیں کر رہی ہیں۔ حکومتی سختیاں الگ سے آڑھتیوں کو روک رہی ہیں۔ طرح طرح کے میڈیکل سرٹیفکیٹ مانگے جارہے ہیں ۔ بہاولپور میں ایک ڈاکٹر کی موت کی ذمہ داری جس وائرس کے کھاتوں میں لکھی گئی اس کی تصدیق نہ تو مزید کسی کیس میں ہو سکی اور نہ ہی اس کو پورے ہسپتال کے کسی دوسرے بندے میں ڈھونڈا جا سکا۔لیکن کانگو کی روک تھام کیلئے عوامی شعور کی لیئے حکومتی اور میڈیا کوششیں اچھی ہیں لیکن حد سے زیادہ شعور بیدا کر دیا گیاہے ۔ لوگ مویشی منڈیوں کا رخ کرنے سے بھی کترانے لگے ہیں ۔ بہاولپور میں تو لوگ وکٹوریہ ہسپتال کے باہر سے گزرنے ہی گریز کرنے لگے ہیں یا پھر گزرتے وقت اپنی گاڑیوں کا شیشہ چڑھا لیتے ہیں 
ایسی ہی ایک کوشش تھیلیسمیا کے کنٹرول کیلئے بھی کی گئی ہے کہ آئیندہ سے کوئی نکاح اس وقت رجسٹر نہیں ہوسکے گا جب تک ان کے پاس تھیلیسمیا کی سکرینگ کا سرٹیفیکیٹ پیش نہیں کیاجائے گا۔ کیونکہ تھیلیسیمیا کا مرض زندگی بھر کیلئے معذوری ہے۔ اس کی باقی ماندہ زندگی دوسروں کے خون کے سہارے گزرتی ہے۔ لیکن ایسی کئی معذوریوں کا سبب زچگی کے مسائل بھی ہیں۔ جن سے عہدہ برا ہونے کیلئے حاملہ عورتوں کو عطائی دائیوں اور نرسوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہر سال تھیلیسیمیا کے پانچ ہزار بچوں کو معذور ہونے سے روکنے کیلئے تو قانون سازی ہوگئی ہے لیکن جو پانچ ہزار بچہ ہر روز دائیوں، غیر تربیت یافتہ نرسوں اور نامناسب سہولتوں کی وجہ سے
معذور ہورھا ہے ان کیلئے اقدام کب اٹھائے جائیں گے ؟
میم سین

Tuesday, July 12, 2016

میرے مشاہدات


یہ چند دن پہلے کی بات ہے، چار پانچ مرد وخواتین میرے دفتر میں داخل ہوئے اور میرے تعریفوں میں قلابے ملانا شروع کر دیئے۔
 ایک مرد بولا دو سال پہلے میرے بچے کو سب ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا لیکن آپ کی دوائی سے ایسا ٹھیک ہوا کہ آج تک دوبارہ بیمار ہی نہیں ہوا۔
 دوسرا بولا میری بیوی کی خارش ٹھیک نہیں ہورہی تھی لیکن آپ کی صرف ایک خوارک سے چار سال پرانی بیماری ختم ہوگئی ۔۔۔۔
 اس سے پہلے کہ ساتھ آئی خاتون بھی کسی بیمارکے بارے میں میرے معجزے کا ذکر کرتی، میں نے آنے کا مقصد پوچھا تو ایک مرد بولا میں بڑی امید لےکر اپنی ماں کا چیک اپ کروانےآیا ہوں، باہر چارپائی پر لٹایا ہے۔
 مریض کو دیکھنے پہنچا تو دیکھا کہ کوئی  ایک ہفتے سے بے ہوش، اسی سال کی ایک  بوڑھی عورت، ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی لیٹی ہوئی ہے ۔مشکل سے نکلتے سانس دیکھ کر اندازہ ہورھا تھا کہ بوڑھی خاتون کے سانس گنے جا چکے ہیں ۔ مریض کی حالت دیکھ کر میں نے کہا

انہیں غلط جگہ لے آئے ہیں ۔ میں صرف مریضوں کا علاج کرتا ہوں ، جسموں میں جان ڈالنے کی ذمہ داری اللہ پاک نے اپنے پاس رکھی ہوئی ہے ۔لیکن پھر بھی سب کا اصرار جاری رھا کہ نہیں جی!کوشش کریں اللہ نے بڑی شفا دے رکھی آپ کے ہاتھ میں

میں نے پھر سمجھانے کی کوشش کی مریض تو اپنی آخری سانسوں پر ہے۔آکسیجن لگوا رھا ہوں اگر سانس بہتر ہوئی تو پھر دیکھتے ہیں۔
ساتھ آئی ایک خاتون بولی ۔ جلدی سے اسے گیس لگائیں اور اس کا علاج شروع کریں۔
ساڈے دو دن لنگا دیو، کل منڈا ویان جانا اے۔۔بس دو دن کی مہلت مل جائے ، کل ہمارے لڑکے کی بارات جانا ہے
میم سین

Thursday, June 30, 2016

برہمن اور زاویہ


 ساری گڑبڑ پرسپشن کی ہے۔ ہمیشہ وہ رخ ہمیں نظر آتا ہے جو دیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یا ایسے سمجھ لیں ایک ایک نادیدہ قوت سب کو اس زاویے پر بٹھا دیتی ہے جہاں سے سب کو ایک ہی منظر دکھائی دیتا ہے۔ جیسے ایک لیڈر کو کنٹینر پر چڑھا دیا جائے اور ایک قوت سب لوگوں کو اس کی باتیں سننے پر مجبور کرے۔ اور اگر وہ قوت چاہے تو ایک پھانسی کی سزا کی خبر کو نظروں سے اوجھل کر دے 
ایک زاویہ وہ بھی ہے جہاں پر سیاستدان ووٹ کا مینڈیٹ لے کر اختیارات کو روند رھا ہے، کالے کوٹ کی حرمت لیکر بھی کچھ لوگ استحصال کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ ڈگریوں کا سہارا لیکر امراض سے ہراساں کر رہے ہیں۔ تو بے چارے برہمن نے کیا قصور کیا ہے؟ اس کے پاس بھی لوگوں کے چندے کا مینڈیٹ ہے۔ 
سات سو اکیاسی  ارب روپے کا بجٹ رکھنے والے ادارے کی کوتاہیوں کو دکھانے والا زاویہ بھی ڈھونڈیں۔۔ جس کا دعوی ہے کہ جی ایچ کیو، مہران بیس، تباہ کروانے والے بلوچستان اور کراچی کا امن برباد کرنے والے جاسوس کی چودہ سال بعد گرفتاری اس کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔۔۔۔ 
کچھ اس بے بسی کا زاویہ بھی ڈھونڈیں جو سارے گواہان اور رپورٹوں اور ثبوتوں کے باوجود لندن میں ایک شخص کے خلاف کاروائی سے روک رھا ہے۔۔
یقین جانئے فرق صرف پرسپشن کا ہے۔دوسرے معاملات ایک عام آدمی کے ساتھ اتنے ہی گہرے جڑے ہیں جتنے برہمن کے معاملات ۔۔ لیکن ہم ان سب کو نظر انداز کر دیتے ہیں

میں برہمن کو کلین چیک نہیں دے رھا لیکن ہمارے ہر شعبے کے ہاتھ اتنے ہی آلودہ ہیں جتنے کہ برہمن کے ۔۔اور اس کا اندازہ صرف کرکٹ ٹیم کی کارکردگی سے لگایا جا سکتا ہے۔۔۔
۔۔ لیکن ہمارا دیکھنے اور سوچنے کا زاویہ کہیں اور فٹ کر دیا گیا ہے۔
اور صورتحال اس کہانی جیسی ہے جس میں ایک شخص سارے گائوں کو درخت کے اوپر چڑیا کوے کی لڑائی پر لگا کر خود سارے درخت کاٹ دیتا ہے

(نوٹ بجٹ میں اسلحے کی خریداری اور پینشن وغیرہ کی مد شامل نہیں ہے)

Tuesday, June 28, 2016

اندھی گولی



یہ جبر، سفاکیت اور انتقام کی وہ داستان ہے جو آدم کی پیدائش پر لکھی جانا شروع ہوئی تھی اور تاقیامت لکھی جاتی رہے گی۔جس طرح صبح اور رات کا ساتھ ہے، مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ نتھی ہیں ، بھوک اور روٹی کا رشتہ ہے۔ایسے ہی انسانی فطرت میں نیکی اور بدی کا ساتھ ہے۔ایسے ہی خدا کے ساتھ شیطان کا ساتھ ناگزیر ہے۔ایک نصیحت ہے اور دوسرااس کا رد۔ دنیا کا کوئی علم ، دنیا کی کوئی تہذیب، دنیا کا کوئی مذہب اس فطری انسانی تضادات کی خلیج کو پر کرنے کا دعوی نہیں کر سکتا۔ جب خدائی تلقین فتح پاتی ہے تو تہذیبیں جنم لیتی ہیں ۔ انسانی تاریخ کثافتوں کو دھو دیتی ہے ۔ لیکن جب شیطان کا رد تلقین پر غالب آنا شروع ہوجائے تو پھر کوئی بخت نصر، کوئی ہلاکو کوئی نادر شاہ کسی بھوت کے بھیس میں نازل ہوجاتے ہیں۔
انسانی شرست میں نیکی کا جو شائبہ موجود ہے وہ انسانی تضادات کے بہیمانہ طاقتوں کے سامنے جب بے بس ہوجاتا ہے تو عدل اور انصاف کے دروازوں پر قفل ڈال دیئے جاتے ہیں ۔ ضمیر روشنی دیکھنا بھول جاتے ہیں۔ سینوں کے اندر دھڑکتے دل سخت گیر ہوجاتے ہیں ۔تو پھر ہر نئے سورج کے نکلنے کے ساتھ المیوں کی بھی ایک داستان لکھ دی جاتی ہے۔
شادی کے ڈیڑھ سال بعد فاطمہ کا خاوند لاہور میں ہونے والے دھماکے میں مارا گیا تو اس دن مجھے احساس ہوا تھا ایک مرنے والے کے ساتھ کتنے رشتے جڑے ہوتے ہیں۔ اس کی جوان بیوہ اور دو ماہ کے بچے کو تو میڈیا کی آنکھ سے سب دیکھ رہے تھے لیکن فاطمہ کی دل کی مریضہ ماں جو چارپائی سے جا لگی تھی اور اس کا بوڑا باپ جس کی کمر وقت سے پہلے دھری ہوگئی تھی۔ اس کے بہن بھائی جن کے آنسو خشک نہیں ہو رہے تھے ۔ ہلاک ہونے والا کا اپنا بھی خاندان تھا۔ اس کے ماں باپ اس کے بہن بھائی اسکے چچا ، چچا زاد بہن بھائی، اس کا تایا اور ان کی اولاد، پھوپھیاں ۔۔رشتوں کی ایک طویل قطار ہوتی ہے جو ہر شخص کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ جب سے فاطمہ کا دکھ دیکھا ہے تب سے کسی کی ہلاکت کی خبر سنتا ہوں تو نگاہوں کے سامنے درد میں ڈوبے رشتوں کے انبار دکھائی دینے لگتے ہیں۔
کتنی آسانی سے نیوز کاسٹر شہ سرخیوں میں تیرہ افراد کی ہلاکت کی خبر سنا کر انٹرٹینمنٹ نیوز کی طرف بڑھ جاتی ہے۔یہ تیرہ افراد نہیں ہوتے ، تیرہ خاندان ہوتے ہیں جو اجڑ جاتے ہیں۔اور میں پھر بھی جان نہیں سکا کہ استقامت کی روشنی کیونکر لغزش کی تاریکی میں کھو جاتی ہے
انسان میں نیکی اور محبت کی تلقین عام ہے لیکن عملی طور پر انسانی رویہ مختلف ہے۔اور نصیحت اور عمل کا یہی تضاد ہمہ گیر مذہبی سچائی کو بھی مشکوک بنا دیتی ہے۔جب مذہب مشکوک ٹھہرا تو تو پھر ذاتی آدرشوں کو زندگی کا عرفان ٹھہرایا جانے لگتا ہے۔ اخلاقیات اور اقدار کے معیار بدلنے لگتے ہیں ۔وراثت میں ملی نیکیوں کا رنگ بدل جاتا ہے۔تو پھر فرقے جنم لیتے ہیں۔ ہر فرقہ زندگی کو اپنے وجدان، اپنے عرفان سے پڑکھتا ہے۔ 
لوگ سمجھتے ہیں کہ شائد علم سے انسان کے اندر کا درندہ مر جاتا ہے ۔ لیکن نہیں وہ زیادہ مہلک ہورھا ہے۔لوگ کہتے ہیں ہمارا شعور بدل گیا
 ہے۔ ہمارا شعور ،ہمارا ادراک زمین کے سطح سے اٹھ کر آسمان پر کمانیں ڈال رھا ہے ۔ لیکن وہ جو طاقت کا طلسم تھا وہ تو اب بھی موجود ہے۔وہ جو خدا بننے کی آرزو تھی وہ تو اب بھی موجود ہے۔تمکنت شاہی جن اصولوں کو وضع کر دیں ان پر کٹ مرنے کیلئے شاہ کے جنبش ابرو کے اشارے کے منتظر لوگ اب بھی موجود ہیں۔
لوگ کہتے ہیں ہم تہذیب کے سفر میں آگے بڑھ رہے ہیں ۔لیکن وہ اجڈ اور وحشی دور اچھے تھے کہ اجتماعی قتل کے قائل تھے تاکہ کوئی آنسو بہانے والا نہ رہے ۔۔۔جن المیوں کی تاریخ فرعون نے مرتب کی۔ جن جبر کے دنوں کو بخت نصر نے مرتب کیا، جن نوحوں کو چنگیز خان اور ہلاکو خان نے لکھنے پر مجبور کیا ، جن سانحوں کو تیمور لنگ اور نادر شاہ نے جنم دیا ان میں کیا فرق تھا جو المیے دوسری جنگ عظیم ، کوریا، ویتنام ، کولمبیا، لاطینی امریکہ اور مشرق وسطی میں لکھے گئے ہیں۔کیونکہ یہ تاریخ تو بیسویں صدی کی با شعور نسل نے لکھی ہے۔

ہم شائد جبر کو قبول اس لئے کرتے ہیں کیونکہ ہم میں جبر کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اور  مجبوراً آنکھیں بند کرکے ان پرفریب لوگوں کے ظلم کو سہہ کر ان کی اطاعت پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔اوریہی جبر کا ساتھ  ہمارا اصل المیہ ہے اور جب تک یہ المیہ موجود ہے ۔انسانیت کا لہو بکھرتا رہے گا۔ اور ہم شہید اور ہلاک کے درمیان حساب کتاب میں لگے رہیں گے۔تاریخ اپنے اوراق سیاہ کرتی رہے گی۔
کیونکہ یہ مسئلہ نہ مذہبی ہے، نہ سیاسی۔ یہ مسئلہ ہماری اجتمائی بے حسی اور خاموشی کا ہے۔ آفاقی عرفان کی بجائے ذاتی آدرشوں کی پیروی کا ہے
میم سین

Saturday, June 25, 2016

میرے تجربات


ایک خاتون کہنے لگیں بچہ مٹی  بہت کھاتا ہے کوئی دوائی دیں۔
،میں نےکافی سمجھایا کہ مٹی کھانا بچے کی عادت ہوتی ہے۔ ماں باپ کی ذمہ داری ہوتی ہے،بچے پر نظر رکھیں، بروقت روکیں تاکہ مٹی کھانے کی عادت پختہ نہ ہوجائے
لیکن خاتون کا پھر بھی اصرار جاری رھا تو تو میں نے مثال دی
کہ بچے کیلئے مٹی کھانے سے روکنے کیلئے دوائی کا مطالبہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے کل کو آپ کہیں کہ بچہ ننہیال والوں سے کم پیار کرتا ہے کوئی دوائی دیں ؟
جواب میں  خاتون بولیں
جی ضرور، اسکی بھی دوائی ساتھ میں دے دیں 
اور میں  نےجلدی سے پیٹ کی کیڑوں کی دوائی لکھ دی کہ کہیں خاتون یہ فرمائش بھی نہ کر بیٹھیں کہ
بچہ ابلا ہوا انڈہ شوق سے کھاتا ہے ، دوائی دیں کہ یہ فرائی انڈہ بھی شوق سے کھایا کرے،سکول میں یہ اپنے بھائی کی مس سے شوق سے پڑھتا ہے، کوئی دوائی دیں کہ یہ اپنی مس سے بھی اتنے ہی شوق سے پڑھا کرے،انگلش میں تو ٹھیک ہے کوئی دوائی دے دیں کہ حساب میں دلچسپی لینے لگے۔باقی تو سب ٹھیک ہے لیکن ٹی وی بہت دیکھتا ہے کوئی دوائی دیں کہ ٹی وی کم دیکھا کرے
میم سین

میرے تجربات


ایک خاتون پچھلے چند ماہ سے  معدے کی دوائی لینے میرے پاس آرہی ہے

دو دن  دوائی استعمال کرتی  ہے اور اس کے بعد دوائی کا استعمال چھوڑ دیتی ہے۔

جب بھی آتی ہے اتنا سر کھاتی ہے کہ خدا کی پناہ
آج میں نے کافی سمجھانے کی کوشش کی کہ لگاتار دوائی استعمال کریں ورنہ صرف مجھے چیک اپ کروانے سے افاقہ نہیں ہوگا ۔
اورسمجھاتے ہوئے کہا
اگر  چیک اپ کروانے سے آرام آنا ہو تو پھر روزانہ مجھے سے چیک  اپ کروا لیا کرو۔  
خاتون نے بڑی توجہ سے میری بات سنی اور بولی، تو کتنے بجے آیا کروں؟

Tuesday, April 12, 2016

کیا ماں کا دودھ بچے کیلئے ناکافی ہوسکتا ہے؟


کیا ماں کا دودھ بچے کیلئے ناکافی ہوسکتا ہے؟


ایک ایسی شکائیت جوآجکل بہت زیادہ سننے میں آتی ہے۔
وہ یہ کہ
ماں کا دودھ بچے کیلئے ناکافی ہے ۔
بچہ ماں کا دودھ پی کر بھی روتا رہتا ہے۔
بچہ ماں کا دودھ نہیں پیتا۔
ماں کا دودھ خراب ہے۔
کیا واقعی ایسی کوئی بات ہے؟
ماں کا دودھ پورا نہ ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کچھ ٹیکنیکل مسائل کو چھوڑ کر جوکہ بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ زیادہ تروہ غلطیاں ہوتی ہیں جو مائیں ابتدائی دنوں سے کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
پہلے یہ بات کلیئر کر لیں:
ماں کے دودھ کی غذائیت اور مقدار ہمیشہ بچے کی عمر اور ضرورت کے مطابق ہوتی ہے۔اور اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ ماں کا دودھ کم ہے اور بچے کیلئے ناکافی ہے۔ورنہ جتنا دودھ بچہ پیئے گا اتنا دودھ پیدا ہوگا۔ اگر ایک بچہ ماں کا دودھ پی رھا ہے ، ایک اور بچے کو بھی ساتھ پلانا شروع کردیا جائے تو قدرت کی طرف سے جسم میں ایسی صلاحیت ہوتی ہے کہ دودھ اتنا بڑھ جائے گا کہ دوسرا بچہ بھی پیٹ بڑھ کر دودھ پینا شروع کردے گا۔۔
ماں کے دودھ کے ساتھ فیڈر کا ستعمال ماں کا دودھ کم ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ 
ہمارے ہاں ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ماں کا دودھ تیسرے دن اترے گا۔ اور ابتدائی دودھ جو کچھ گہرا زردی مائل پانی کی صورت میں ہوتا ہے۔جسے کلوسٹرم کہا جاتا ہے، غذائیت اور توانائی سے بھرپور ہوتا ہے ۔بلکہ اس دودھ کو بچے کا پہلا حفاظتی ٹیکہ بھی کہا جاتا ہے۔پلانے سے گریز کیا جاتا ہے۔۔ اور پہلے تین دن فیڈر پر رکھا جاتا ہے۔
بچے کے ابتدائی دس سے بارہ دن خوارک کی بہت زیادہ ضرورت نہیں ہوتی۔بلکہ کچھ وجوہات کی بنا پر پہلے ہفتے بچے کا وزن لگ بھگ دس فیصد کم ہوجاتا ہے۔ جو کہ دوسرے ہفتے کے اختتام تک دوبارہ بحال ہوجاتا ہے لیکن بہت زیادہ متفکر مائیں بچے کی پیدائش کے بعداس کمزوری کو دودھ کی کمی سمجھ کر فیڈر کا استعمال شروع کروادیتی ہیں۔
ماں کا دودھ شروع کرنے کے ابتدائی دنوں میں بچہ بار بار پخانہ کر سکتا ہے لیکن ماں کے دودھ میں خرابی قرار دے کر یا تو دودھ روک دیا جاتا ہے یا پھر فیڈر کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔



جب بچے کو فیڈر کا استعمال شروع کیا جاتاہے تو ماں کا دودھ کم پینے کی وجہ سے دودھ خود بخود کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اوردوسرا ماں کا دودھ نکالنے میں بچے کو کافی مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ فیڈر کا دود ھ باآسانی حاصل ہوجاتا ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ رو کر اور ماں کا دودھ نہ پینے کی ضد کرکے فیڈر کے دودھ کی مقداربڑھاتا جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اگر آپ باڑے جا کر دودھ لانے کے عادی ہوں۔ لیکن کوئی گوالا وہی دودھ آپ کے دروازے تک پہنچانا شروع کردے تو کس کا دل کرے گا کہ روز باڑے جا کر دودھ لانے کی تکلیف اٹھائے۔
اور یوں فیڈر کے استعمال کے بعد بچہ ماں کا دودھ کم پیتاہے تو دودھ بھی خودبخود کم ہونا شروع ہوجاتا ہے
تو کیا کرنا چاہیئے؟
۔۔۔بچے کی پیدائش کے بعد بچے کے منہ میں پہلی خواراک ماں کا دودھ ہی ہونا چاہیئے۔ حتی کے آپریشن سے پیدا ہونے والے بچے کو بھی جونہی ماں سنبھلے، بچے کو اپنا دودھ پلانا شروع کردے۔
۔۔۔بچے کو دودھ پلاتے وقت مناسب وقت دیں۔ پیٹ بڑھ کر دودھ پینے کیلئے بچہ پندرہ منٹ سے پونا گھنٹہ تک وقت لے سکتا ہے۔
۔۔۔بچے کے زیادہ رونے یا تنگ کرنے پر فیڈر کا استعمال شروع نہ کروایا جائے بلکہ اپنے قریبی بچوں کے ڈاکٹر سے رہنمائی حاصل کریں۔
۔۔۔ بچے کو ہمیشہ دودھ اس وقت پلانا چاہیئے جب وہ بھوکا ہو اور صحت میں ٹھیک ہے تو اسے اچھی طرح رو لینے دیا جائے۔ تاکہ جب بھی دودھ پیئے تو اتنا دودھ پی لے کہ بار بار دودھ نہ مانگے ۔
۔۔بچے کو صحت مند بنانے کیلئے غیر ضروری ٹوٹکوں سے بچائیں ۔روایتی غیر تصدیق شدہ نسخے بچے کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں
میم سین 

Sunday, April 10, 2016

جہاں علم اپنا رستہ بدل لیتا ہے


چند دن پہلے ایک خاتون  اپنے بچے کا چیک اپ کروانے  کیلئے کلینک تشریف لائیں ۔ میں نے دوائی لکھ کر دی تو کہنے لگیں ۔ اس کو کوئی طاقت کی ڈرپ لگا دیں۔ میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ بچے کا صرف معمولی سا گلا خراب ہے ۔ بچوں کو غیر ضروری ڈرپیں نہیں لگواتے لیکن خاتون کا اصرار جاری رھا۔

 پھر کہنے لگی اس کو دو تین دن انجیکشن لگوا دیں۔میں نے پھر سمجھایا کہ آپ بچے کے بارے میں زیادہ فکر مند نہ ہوں ۔کئی دفعہ ضرورت سے زیادہ حساسیت بھی نقصان دہ ہوتی ہے۔


لیکن مجھے اندازہ ہو رھا تھا کہ وہ میری ساری تسلیوں کے باوجود مطمئن نہیں ہے۔ خیر پر چی سنبھالی اور باہر چلی گئی۔

لیکن چند منٹ بعد دوبارہ میرے پاس آئی اور موبائل فون میری طرف بڑھاتی ہوئے کہنے لگی۔
میں اپنے میکے آئی ہوئی ہوں۔اس کے پاپا نے آج ہمیں لینے آنا ہے۔ جب فون آئے تو پلیزان کو بتادیں کہ بچہ زیادہ بیمار ہے تین دن روزانہ چیک اپ  کیلئے آنا پڑے گا

میم سین

Saturday, April 9, 2016

نائی




گائوں میں اگرچہ لوگوں کی اکثریت ہمیشہ سے زراعت سے وابستہ رہی ہے لیکن گائوں  میں ترکھان کی اپنی اہمیت ہوتی تھی۔ موچی کی بھی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں ۔ جولاہا ، پنساری، حکیم، لکڑہارا ، سب اپنی اپنی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن جو اہمیت  گاؤں کے نائی کو حاصل رہی ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آسکتی ۔ گاؤں میں پیغام رسانی کی ضرورت ہو یا پھر کسی تقریب کیلئے کھانا پکانے کی بات ہو۔ بال بھی وہی بناتا تھا۔ بنانا تو خیر نئی اصطلاح ہے ۔ کاٹتا تھا اور شیو کا کام بھی وہی نبھاتا تھا۔ کسی کے زخم وغیرہ ہوجاتے تو اس کی صفائی اور مرہم پٹی کا فریضہ بھی خوب نبھاتا تھا۔ بلکہ سمجھیں کہ گاؤں کا سرجن وہی ہوا کرتا تھا۔ اس لئے شائد نائی گاؤں کا سب سے کارآمد شخص ہوا کرتا تھا۔

اس کی اہمیت اس دن اور بھی بڑھ جاتی تھی جب  بچوں کے ختنے کرنے کیلئے اسے بلوایا جاتا تھا۔ مہمان آتے تھے تھے ۔ دیگیں پکتی تھیں۔ صدقہ اتارا جاتا تھا۔خیرات کی جاتی تھی۔بچے کو تحفے تحائف دیئے جاتے تھے۔لیکن یہ نائی بہت حکمت والے اور دانا ہوتے تھے ۔بہت پرانی بات نہیں ہے ۔ہمارے دیہاتوں اور گائوں وغیرہ میں آج بھی یہ منظر دیکھے جاسکتے ہیں ۔
ختنے کرنے کے بعد نائی ایک آواز لگاتا تھا...سوا لے کے آؤ ( راکھ لاؤ)۔۔۔اور ایک بندہ گھر میں لکڑیوں کے جلتے چولہے سے لکڑیاں ہٹا کر نیچے سے گرم گرم راکھ اکھٹی کرتا اور کچھ ٹھنڈی کرنے کے بعد  اسے زخم کے اوپر چھڑک دیا جاتا۔ راکھ  ڈلنے سے زخم سے بہنے والا خون کچھ دیر بعد رک جاتا اور راکھ گیلی ہوکر زخم کے ساتھ جڑ جاتی اور جونہی ایک دو دن بعد زخم بہتر ہونا شروع ہوتا تو راکھ خود بخود اترنا شروع ہوجاتی تھی
لیکن آجکل کیا ہوتا ہے
نائی ختنے کرکے آواز لگاتا ہے...سوا لیاؤ ( راکھ لے کر آؤ)...اور ایک بندہ پورے پنڈ کا چکر لگا کرکسی گھر سے دو دن پرانی راکھ لا کر زخم پر ڈال دیتا ہے اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے...بتانے کی ضرورت نہیں
کیونکہ اس کے بعد کئی دن تک اس کے خراب زخم کا علاج کسی قریبی ہسپتال یا کلینک پر ہو رھا ہوتا  ہے
 میم سین

Friday, April 8, 2016

ماں کا دودھ بچے کیلئے ناگزیر کیوں ہے؟

بچے کی پیدائش کے بعد ماں کے ابتدائی دودھ میں قدرت نے بہت طاقت اور صلاحیت پیدا کی ہے۔ اس دودھ میں بیس سے زائد ایسے اجزا پائے جاتے ہیں۔ جو دودھ کے ذریئے بچے میں منتقل ہوکر بچے کو بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت مہیا کرتے ہیں۔یہ دودھ بچے کے پہلے پخانے کو جسم سے خارج کروانے میں مدد دیتا ہے۔ بچے کے جسم میں پیلاہٹ پیدا کرنے والے مادوں کو جسم سے خارج کرواتا ہے۔اس دودھ میں پروٹین ، وٹامن اے اور کچھ ضروری نمکیات کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔جن کی بچے کو پیدائش کے فوری بعد ضرورت ہوتی ہے۔جبکہ کاربوہائیڈریٹ اور چربی کی مقدار ماں کے نارمل دودھ سے کم ہوتے ہیں۔۔اس کے علاوہ گروتھ بڑھانے والے کئی اجزا بھی ماں کے نارمل دودھ سے زیادہ ہوتے ہیں۔اس لئے بچے کی پیدائش کے بعد بچے کی پہلی غذا صرف اور صرف ماں کا دودھ ہونا چاہیئے۔

1۔ماں کا دودھ بچے کو مکمل نیو ٹریشن فراہم کرتا ہے۔جس کی بچے کو ضروت ہوتی ہے

2۔ماں کا دودھ بچے کو مستقبل کی الرجی کی بے شمار اقسام سے محفوظ بناتا ہے۔

3۔بچے کو جراثیموں سے محفوظ رکھتا ہے

5۔سادہ اور زود ہضم ہونے کی وجہ سے بچے کو ہاضمے کے مسائل سے پچاتا ہے

7۔ بچوں کی ذہنی استعداد دوسرا دودھ پینے والوں سے زیادہ ہوتی ہے۔

8۔ماں کے دودھ کی مقدار اور غذائیت بچے کی عمر اور ضرورت کے مطابق خود بخود تبدیل ہوتی رہتی ہے

9۔دودھ کا درجہ حرارت بچے کی ضرورت کے مطابق رہتا ہے

10۔ماں کا دودھ پینا والا بچہ خود کو زیادہ محفوظ تصور کرتا ہے۔ اس لئے اس کی نیند زیادہ پرسکون ہوتی ہے

11۔ابتدائی عمر میں دودھ نکلانے یا دودھ پھینکنے والے مسائل کم ہوتے ہیں۔

12۔اگر بچہ وقت سے پہلے پیدا ہوجائے تو قدرت کی طرف سے اس دودھ کی غذائیت نارمل دودھ سے مختلف اور بچے کی ضروت کے مطابق ہوتی ہے

13۔ماں کا دودھ بچے کی انتڑیوں کی حفاظت کرتا ہے۔

14۔ ماں کا دودھ کم عمری میں لاحق ہونے والے شوگر کے مرض سے بچاتا ہے۔

15۔ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں کان کا انفکشن ہونے کے چانس بہت کم ہوجاتے ہیں۔

16۔ مان کا دودھ پینے والے بچوں میں ڈائیریا کے چانسز حیران کن تک کم ہوتے ہیں

17۔ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں بیکٹریل انفیکشن کے خلاف مدافعت دوسرا دودھ پینے والے بچوں سے زیادہ ہوتی ہے۔

18۔ماں کا دودھ پینے والے بچے نمونیا اور چھاتی کی دوسری بیماریوں سے زیادہ محفوظ رہتے ہیں۔

19۔ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں بچپن کے جوڑوں اور ہڈیوں کی بیماری ہونے کا چانس کم ہوجاتاہے۔

20۔ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں بینائی کی بیماریوں کا چانس بھی کم ہوجاتا ہے۔ 

21۔ماں کا دودھ پینے والے بچے موٹاپے کے مرض سے محفوظ رہتے ہیں۔

22۔ ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں ایچ انفلوئینزا کے حملے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

ْ23۔ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں ویکسین کا اثر بڑھ جاتا ہے۔

24۔بچے کو دھ پلانے کی مدت کے دوران دوبارہ حمل ٹھہرنے کا چانس بہت کم ہوجاتا ہے۔

25۔ ماں کے دودھ میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جو بچے کو درد سے نجات دلواتے ہیں۔ 
ویکسین وغیرہ کے بعد اگر ماں کا دودھ پینے والے بچہ کو کوئی دوائی نہ بھی دیں تو وہ اس کے مضر اثرات کو کم کر دیتے ہیں۔

26۔ ماں کا دودھ پینے والے بچوں کے دانت اور جبڑے دوسرا دودھ پینے والے بچوں کی نسبت زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔دانتوں میں کیویٹی بننے کے چانس نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔

27۔ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں سپیچ پرابلم بہت کم ہوتے ہیں۔

28۔سکن الرجی جسے ایگزیما کہا جاتا ہے ،کے چانس بھی کم ہوجاتے ہیں۔

29۔بچوں کو لگنے والے زخم بھرنے میں مدد دیتا ہے۔

30۔بچے کو دودھ پلانے سے ماں کی بچہ دانی کا سائز جو بچے کی وجہ زیادہ بڑا ہوجاتا ہے ، واپس اپنے اصل سائز میں جلد آجاتا ہے۔

31۔بچے کو دودھ پلانے کی صورت میں ماں کو اپنا وزن کم کرنے میں مدد ملتی ہے

32۔جو مائیں بچوں کواپنا دودھ پلاتی ہیں ان میں ہڈیوں کی کمزوری، بریسٹ اور کچھ دوسرے کینسر اور شوگر کا مرض لاحق ہونے کے چانس کم ہوجاتے ہیں۔


اس لئے یاد رکھیں ، بچے کا پہلا حق صرف اور صرف ماں کا دودھ ہے۔

Wednesday, April 6, 2016

بچوں کی نشوونما کے حوالے سے والدین میں پائی جانے والی توہمات اوران کی حقیقت

:بچوں کی نشوونما کے حوالے سے والدین میں پائی جانے والی توہمات
۔ہمارے ہاں چھ ماہ تک بچے کی ہر بیماری کی ذمہ داری ماں کے کھانے پینے پر ڈال دی جاتی ہے اور چھ ماہ کے بعد ہر بیماری کی جڑ دانت نکالنے کے عمل کو قرار دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ ۔ماں کی سگھڑمندی اور سلیقہ شعاری کا معیار بچے کے سر کی گولائی میں پوشیدہ ہے۔۔۔۔۔ ۔بچے کی رونے کی آواز نحوست ہوتی ہے اور بچے کا رونا ماں کی نااہلی ہے۔۔۔۔۔ ۔بچوں کے ہراس رونے کی وجہ جو والدین ڈھونڈ نہ سکیں نظر لگنا ہوتی ہے۔۔۔۔ ۔بچے کے جسم پر سفید دھبے کیلشیم کی کمی کا واضح ثبوت ہے۔۔۔۔ ۔بچے کے سبز پخانے ٹھنڈ لگنے کی نشانی ہوتے ہیں۔۔۔۔ ۔بچوں کی تیل کے ساتھ جتنی مالش کی جائے گی ، اس کی ہڈیاں اتنی مضبوط ہونگی۔۔۔۔ ۔بچوں کو ٹھنڈ لگنے سے بچانے کیلئے اسے پانی سے جتنا دور رکھ سکیں، اتنا اچھا ہے۔۔۔۔ ۔اگر ماں کپڑے دھونے یا نہانے کے فورا بعد بچے کو دودھ پلا دے تو بچے کو ٹھنڈ لگ جاتی ہے۔۔۔۔ ۔بچے کو ٹھوس غذا جتنی جلد شروع ہو سکے، شروع کر دینی چاہیئے۔۔۔ ۔ماں کے دودھ کے ساتھ بچے کو فیڈر کا استعمال لازمی شروع کروا دینا چاہییے ورنہ بچہ بڑا ہو کر دوسرے دودھ کی طرف توجہ نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔ ۔بچے کی دوائی اگر ماں کو کھلا دی جائے تو وہ دودھ کے ذریئے بچے میں منتقل ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔ ۔بچے میں مٹی کھانے کا رجحان پیٹ کے کیڑوں اور کیلشیم کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ ۔سر کا بڑھنا اورسوکڑہ ایسی بیماریاں ہیں جن کا علاج صرف دم ہے۔۔۔۔ ۔بچے کی اچھی صحت چار عرق، گھٹی یا گرائپ وااٹر کے استعمال کے بغیر ممکن نہیں۔۔۔۔۔ ۔بچوں کو دوائی نقصان پہنچا سکتی ہے ہمیشہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ مقدار سے کم استعمال کروانا چاہیئے۔۔۔۔۔ :حقیقت
اگر بچہ ماں کا دودھ پی رھا ہے تو اس اسکی ماں کے کھانے پینے سے اس کے ہاضمے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس کا نہ تو سائنٹفک ثبوت موجود ہے اور نہ ہی عملی زندگی میں اس کا آپس میں کوئی تعلق ہے۔اس کی وجہ شائد ہماری عام زندگی میں ہر بیماری کا منبع ڈھونڈنے کی خود ساختہ عادت ہے۔ جیسے نزلہ کھانسی سے لیکر گلے کی خرابی تک اورجسم کی الرجی سے لیکر پیٹ کی خرابی تک کوئی نہ کوئی وجہ ڈھونڈی ہوتی ہے۔ جو کبھی درست بھی ہوتی ہے لیکن اکثر اوقات وہم زیادہ ہوتا ہے۔ رہ گئی بات دانت نکالنے کے عمل کی، تودانت نکالنے کے دنوں میں زیادہ سے زیادہ بچہ چڑچڑا اور ضدی ہو جاتا ہے۔ اور اس ٹینشن میں ایک سے دو پخانے معمول سے زیادہ سکتے ہیں۔ دوسری وجہ جو ہو سکتی ہے وہ یہ کہ بچہ ہر چیز منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اور اس کوشش میں کوئی جراثیم اپنے اندر منتقل کر لیتا ہے۔ ناصرف اپنی زندگیوں بلکہ بچوں کو فطرت کے قریب رکھیں۔۔۔ بچے کا رونا فطرت ہے اسے خوب رونے دیا کریں۔ ۔ رونے سے بچے کی ورزش ہوتی ہے اور اور اس سے بچوں کا ہاضمہ اور صحت ہمیشہ اچھی ہوتی ہے۔۔ روتے ہوئے جب بچہ اپنے سر کو بستر پر گھماتا ہے تو اس کا سر خود ہی گول ہوتا ہے اس کیلئے ریت کی تھیلیوں یا کسی گتے کے تکیے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔۔ بچوں کے بلا وجہ رونے کی وجوہات بیماری کے علاوہ بھی کچھ ہو سکتی ہیں ۔ بھوک کی وجہ سے، پیمپر والی جگہ پر ریش کا ہونا، مناسب وقفے کے بغیر بار بار دودھ پلانے کی وجہ سے یا بچے کو بہت زیادہ ہاتھوں میں رکھ کر ہلانے کی وجہ سےپیٹ میں ہوا کا بھرنا، موسم کے مطابق کپڑوں کا نہ ہونا، ہر وقت بہت زیادہ لپیٹ کر رکھنا، گرمیوں میں نہانے سے دور رکھنا، ، بچے کا رونا نحوست نہیں بلکہ اس میں بچے کی صحت مندی پوشیدہ ہوتی ہے۔ ایسے بچے جن کو مناسب رونے کے بعد دودھ دیا جائے ان کی صحت اور نیند ہمیشہ اچھی ہو گی بچوں کے جسم پر سفید دھبے کیلشیم کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ ایک قسم کی فنگس ہوتی ہے سبز پخانے کی میڈیکلی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ بچوں کے پخانے کی ساخت اور رنگت بدلتی رہتی ہے۔ عام طور پر گھروں میں جتنی توجہ مالش پر دی جاتی ہے ۔ اس کی بجائے بچے کو کچھ دیر رو لینے دیا جائے تو اس سے حاصل ہونے والی ورزش بچے کیلئے زیادہ مفید ہوسکتی ہے میرے تجربے کے مطابق تو ایسے بچے جن کی مالش کی گئی اور ایسے بچے جن کی نہیں کی گئی، دونوں کی صحت میں کوئی فرق نہیں دیکھا۔اور نہ ہی اس کا فائدہ میڈیکلی ثابت شدہ ہے ۔۔ میں نے تو ایسے گھر بھی دیکھے ہیں جن کے گھر کھانے کو کچھ نہیں لیکن بچے کی مکھن کے ساتھ روزانہ مالش کی جاتی ہے ۔ بچے کو خواراک کی کمی ہوتی ہے اور اس کی صحت مالش کی ذریئے بنائی جارہی ہوتی ہے۔۔ اس کیلئے مکھن کا استعمال، دم کیا ہوا تیل استعمال کیا جاتا ہے۔۔ آجکل فیس بک سے زیتون کے فوائد پڑھ کر اس کی مالش کرنے کا بھی کافی ٹرینڈ ہوچکا ہے بچوں کو نہلانے سے بھی ان کو ٹھنڈ نہیں لگتی تو ماں کے نہانے یا اس کے جسم کے گیلا ہونے سے بچے کو کیسے ٹھنڈ لگ سکتی ہے؟ نہلانے کے بعد ہمیشہ جسم خشک ہونے تک مناسب کپڑوں میں لپیٹ کر رکھا جائے تو کبھی ٹھنڈ نہیں لگے گی ماں کے دودھ کا کوئی متبادل نہیں ہے۔۔ اگر بچہ صرف ماں کا دودھ پی رھا ہے اور اس کی صحت اچھی ہے تو اس کی ابتدائی خوراک کو چھ ماہ سے موخر کرکے ساتویں آٹھویں مہینے تک لے جائیں۔۔ ایسے بچے ناصرف تندرست رہیں گے بلکہ ایسے بچوں کی قوت مدافعت زیادہ اچھی ہوگی۔۔۔ میرے مشاہدے میں "صرف" ماں کا دودھ پینے والے بچے ہمیشہ خوش اخلاق ہوتے ہیں۔ بچے کو فیڈر کے استعمال سے جتنا زیادہ بچا سکتے ہیں بچا لیں۔ کیونکہ بچوں میں بیماریوں کی ایک بڑی وجہ فیڈر کی مناسب صفائی نہ ہونا ہوتی ہے ماں کے دودھ کے ذریئے کچھ دوائیوں کی تھوڑی سی مقدار بچے کے پیٹ میں جا سکتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ بچے کیلئے تجویز کردہ دوائی ماں کو کھلا دی جائے مٹی کھانے کا پیٹ کے کیڑوں یا کیلشیم کی کمی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ ایک عادت ہوتی ہے جو سیکھنے کے عمل کے دوران ہر چیز منہ میں ڈالنے کی وجہ سے بچے اپنا لیتے ہیں۔ چونکہ مٹی ہر جگہ میسر آتی ہے اس لئے زیادہ تر بچے اس کا شکار ہوتے ہیں ۔ورنہ اگر بچے کو ریت دستیاب ہو ، کاغذ دسترس میں آئیں یا دیواروں کا چونا میسر آجائے تو وہ ان کو کھانے کی عادت میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔۔ عام طور پر مٹی چھڑوانے کیلئے دوائیوں پر اصرار کیا جاتا ہے ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے ماں ضد کرے کی بچہ ننھیا ل والوں سے کم پیار کرتا ہے اس کیلئے کوئی دوائی تجویز کریں
چھٹے ماہ کے بعد عام طور بچے کی گروتھ کے ساتھ جسم اور سر کا تناسب اس طرح ہو جاتا ہے کہ دیکھنے میں سر کچھ بڑا دکھائی دیتا ہے جو لگ بھاگ سال کی عمر کو پہنچنے پر ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر سوا سال کے بعد بھی فرق محسوس ہو تو توجہ دینا چاہیئے ۔ اور بچے کو کسی ماہر ڈاکٹر کو ضرور چیک کروا لینا چاہیئے۔ کیونکہ کیلشیم اور وٹامن ڈی تھری کی کمی کی وجہ سے ایسا ہو سکتا ہے سوکڑہ غذائی قلت کی بیماری ہے۔ بچوں میں کسی بیماری کی موجودگی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے اور عدم موجودگی میں بھی جیسے فیڈر کا دودھ بہت پتلا دینا اور دودھ سے زیادہ عرق اور دوسری چیزوں کے استعمال ۔اس لئے بچوں مین سوکڑے کی علامات نظر آئیں تو دم کئے ہوئے پانی پلانے کے ساتھ کسی ڈاکٹر سے چیک اپ ضرور کروائیں۔ دوائی کی ہمیشہ تجویز شدہ مقدار میں دیں۔ اور دوائی کی اس مقدار کو تجویز شدہ میں شامل کریں جو بچے کے پیٹ میں چلی جائے، جو دوائی بچہ نکال دے یا پلانے کے عمل میں گر جائے ، اتنی مقدار مزید دیں بچوں کو غیر ضروری خاندانی ٹوٹکوں سے بچائیں،روایتی اور غیر تصدیق شدہ نسخے بچے کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں میم سین

Tuesday, March 29, 2016

سیکولر امیج کی ضرورت


چلو ایک لمحے کیلئے، میں مان لیتا ہوں کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ مذہب اور مذہبی تشخص ہے اور اس کا حل سیکولر پاکستان ہے۔چلو میں یہ بھی مان لیتا ہوں کہ ہمار ی آج تک کی ساری پستی اور گرانی کی ذمہ داری مدرسوں کے سر ہے۔ چلیں ایک بار اس مذہبی فیکٹر کو نکال کر بات کرتے ہیں۔
کیا سیکولر پاکستان ہمارے مسائل کا حل ہوگا? جب کہ انصاف کے حصول کیلئے دوھرے معیار قائم رہیں گے؟ 
کیا سیکولر پاکستان ہمارے مسائل کا حل ہوگا؟ جب کہ ہمارا تعلیمی نظام طبقاتی تفریق پر مبنی ہوگا؟
کیا سیکولر پاکستان ہمارے مسائل کا حل ہوگا؟ جب تک مساوات کا نعرہ سڑکوں پر وی آئی پی کلچر کے ٹائروں کے نیچے روندا جاتا رہے گا
کیا سیکولر پاکستان ہمارے مسائل کا حل ہوگا؟ اگر لاہور اور پشاور کے شہریوں میں فرق کیا جاتا رہے گا
کیا سیکولر پاکستان ہمارے مسائل کا حل ہوگا؟ جب تک ترقی کے معیار پل اور سڑکوں کی بجائے تعلیم اور صحت نہیں ہوجائیں گے
کیا سیکولر پاکستان ہمارے مسائل کا حل ہوگا؟ جب تک ہم تھانے کچہری کے غلام رکھے جائیں گے۔
کیا مذہب کو نکال کر جنوبی پنجاب کی محرومیاں کم ہوجائیں گی؟ 
کیا اندرون سندھ کی عوام کو جہالت کے اندھیروں سے نکالا جا سکے گا؟ 
کیا آب گم کے لوگوں کو ٹرین کے ڈبوں سے پانی چوری کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی؟ 
کیا تھر کے لوگوں اور جانوروں کے لیئے پینے کے پانی کے الگ الگ  تالاب میسر آجائیں گے؟ 
کیا ملوں اور فیکٹریوں میں مزدوروں کو اعلان شدہ حقوق میسر آجائیں گے؟
کیا زمیندار مزارعوں کو ان کی محنت، وقت پر ادا کرنا شروع کر دیں گے؟ 
اگر مذہبی تشخص ختم کرنے سے یہ سب کچھ نہیں ہونے والا تو پھرمان لیں کہ مسائل کے پیچھے عوامل وہ نہیں ہیں جن کی نشاندہی کی جارہی ہے
میم سین

بے حسی


بات کچھ تلخ ہے۔لیکن حقیقت یہی ہے
....اس دن اگر بنگلہ دیش سے فتح کا جشن منانے کی بجائے پشاور میں سترہ افراد کی ہلاکت کا سوگ منایا ہوتا تو شائد لاہور کا سانحہ رونما نہ ہوا ہوتا
جن دنوں میں پشاور اور کوئٹہ کے ہزاروں شہری سڑکوں پر نکل کر افغان پالیسی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔  لاہور اور کراچی کی عوام نے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہوتا تو شائد گلشن اقبال لہو میں رنگا نہ جاتا
جس دن پہلا ڈرون حملہ ہوا تھا اس دن پوری قوم نے مل کر یوم سیاہ منایا ہوتا تو اقبال ٹاؤن کا پارک شہ سرخیوں کا مرکز نہ بنتا
بات بے حسی کی ہے۔اجتماعی بے حسی کی ۔ آج حقائق سے نظریں چرائیں گے تو کل سانحے میرے گھر کا رستہ ڈھونڈ نکالیں تو اس میں تعجب کیسا ؟ اس پہ افسوس کیوں
آج گوادر میں سولہ ارب ڈالر کی لاگت سے ہسپتال بن گیا ہے۔لیکن کیا وہاں آج سے پہلے کوئی مخلوق آباد نہیں تھی؟ 
بلوچستان کی کئی تحصلیں آج بھی ایسی ہیں جن سے رابطہ رکھنے کیلئے کوئی سڑک موجود نہیں ہے۔
ملتان سے آگے سفر کریں تو لگتا ہے پنجاب کا علاقہ ختم ہوگیا ہے۔
پشاور سے باہر نکل  جائیں تو ایسا لگتا ہے جیسے نادر شاہ چند ماہ پہلے گزر کر گیا ہے۔
جہاں سے قبائلی علاقوں کی حدود شروع ہوتی ہے۔ وہاں سڑکیں اپنا وجود روک لیتی ہیں۔ بجلی کے کھمبے اپنا رخ موڑ لیتے ہیں۔ سکول کالج تو دورکی بات ان کو کبھی کسی نے صاف پانی بھی نہیں پوچھا۔
جو قوم ترقی کا معیار صحت اور تعلیم کی بجائے میٹرو اور اونچی عمارتوں کو سمجھنا شروع کر دے۔ ۔تہذیب کا معیار فاسٹ فوڈ کھانے اور شاپنگ مال پر خریداری کو سمجھنے لگے ۔۔جہاں انصاف اور مساوات کے قتل سے زیادہ کرکٹ ہارنے کا غم منایا جاتا ہو
 تو اس قوم کے اندر دہشت گردوں کا داخل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا
میم سین

Monday, March 28, 2016

محسن انسانیت


ہم سب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوی دار ہیں۔لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟ شائد اتنا ہی جتنا مسجد کے مولوی سے سن لیا یا شائد جتنا ہمیں ہماری درسی کتابوں میں پڑھا دیا گیا۔ محبت کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہمیں ان کی زندگی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی ہو۔ ان کی تعلیمات کے بارے میں ہم صحیح طور پر جان سکیں۔ اس لئے سیرت کی کتابوں کا مطالعہ ہماری بنیادی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔۔
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں۔ لیکن چند دن پہلے ایک ایسی کتاب کے مطالعے کا شرف حاصل ہوا ہے۔جس کو پڑھنے کے بعد ایک خلش محسوس ہوئی کہ اس کا مطالعہ مجھے بہت پہلے کر لینا چاہیئے تھا۔ ایسی نادر کتاب کہ جس کا اسلوب روایتی کتابوں سے بالکل مختلف ہے۔ابتدا سے ہی ہمیں ایک بہت مختلف شخصیت کا تعارف ھاصل ہوتا ہے۔وہ شخص جس سے ہمیں محبت کا دعوی ہے اس کی وضع قطع کیسی تھی۔۔۔ اس کا چال چلن، تکلم دوسروں سے منفرد کیوں تھا۔۔۔معاملات کیسے تھے۔۔ سماج کے ساتھ رویہ کیسا تھا۔۔۔جذبات کے اظہار میں کیوں کر مختلف تھے۔۔۔ان کی معاشرت جداگانہ حیثیت کیوں اختیار کر گئی۔۔۔۔ ۔۔ہمارے لئے بہترین نمونہ قرار دیئے جانے کے پیچھے کون سا انداز زندگی تھا۔۔۔۔کونسے مسائل کا سامنا تھا اور کس طرح آزمائشوں سے گزرے۔۔۔۔کس طرح دین کو متعارف کروایا اور کس طرح مسائل سے گزرتے ہوئے اسے غالب کرکے دکھایا۔۔۔بعثت کے مقاصد کو جس طرح اجاگر کیا ہے اور جس طرح بہت سی غلط فہمیوں کو سادہ انداز اور جملوں سے رفع کیا ہے وہ اس کتاب کا خاصہ ہے..۔ایک بہت بے ساختہ انداز میں لکھی کتاب جو قاری کو پہلے صفحے سے اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔۔اور جس کا سحر آخری لفظ تک قائم رہتا ہے۔ ایک بہترین کتاب جس کا مطالعہ ہر شخص کیلئے ناگزیر ہے۔۔۔اس کتاب سے متعارف کروانے پر ابو محمد مصعب بھائی کو اللہ جزا دے۔ان کیلئے بہت سی دعائیں۔۔ 
نعیم صدیقی صاحب کی لکھی محسن انسانیت ۔۔پڑھنے سے دلچسپی رکھنے والے اس کتاب کو نیچے دیئے گئے لنک سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں
https://drive.google.com/open?id=0BzAeJGIfHBo8LUZKaDFna0pLVm8م

سپاہی سے صوبیدار تک ۔۔ایک تبصرہ


ہر دور کا ایک شعور ہوتا ہے اور کسی بھی دور کی تاریخ کو سمجھنے کیلئے اس شعور کو سمجھنا ضروری ہوتاہے۔وہ شعور اس دور کی ثقافت ۔سیاست، رہن سہن، تمدن، رسم ورواج کے زیر اثر جنم لیتا ہے۔اور کسی بھی دور کی تاریخ کو سمجھنے کیلئے اس دور کے شعور کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اور ہماری تاریخ کا یہ المیہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ غلط دور کے شعور کے ساتھ لکھی گئی ہے، جہاں تاریخ دان اپنے عہد کے شعور سے ماضی کے شعور کو جانچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور تاریخ لسانی، مذہبی اور سیاسی فرقوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔۔خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔۔
تمہید لمبی ہوگی۔ لیکن کتابوں پر تعارف کے سلسلے میں ایک اور کتاب پیش خدمت ہے
From Sepoy To Subedar
ایک اونچی ذات کے ہندو سیتا رام کی سوانح حیات ہے جس میں 1812 میں فوج میں شمولیت سے لیکر 1860 میں اس کی ریٹائرمنٹ تک کے حالات بیان کئے گئے ہیں۔ایک بہت دلچسپ انداز میں لکھی گئی کتاب انیسویں صدی کے ہندوستان کے عام لوگوں کے رہن سہن اور طرز زندگی پر گہری روشنی ڈالتی ہے۔ بدلتے سیاسی ماحول اور سیاسی ڈھانچوں کو ایک عام شہری کی حیثیت سے بیان کیا ہے۔۔ایک فوجی ہونے کے ناطےکمپنی اوربعد میں برطانوی فوج کے نظم ونسق کے فرق پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ سکھوں کے عہد کو بھی بہت دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ اور افغانستان پر پہلی برطانوی فوج کشی کے واقعات بھی بہت حقیقت پسندانہ انداز میں لکھے گئے ہیں ۔ اسی طرح غدر کے پس منظر پر بھی اپنی رائے دی ہے۔ اور بغاوت کے الزام میں اپنے ہی بیٹے کو گولی مارنے کے حکم اور پنشن کے سلسلے میں مشکلات کو جس افسانوی اسلوب میں بیان کیا ہے اس سے مصنف کیلئے بہت ہمدردی ابھر آتی ہے ۔۔
تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے پڑھنے کیلئے اس کتا ب کو درج ذیل لنک سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں 
https://drive.google.com/file/d/0BzAeJGIfHBo8N2JDcGZFQVhNZDg/view?usp=docslist_api

کتابوں پر تبصرہ



رضا علی عابدی صاحب کا نام صحافت اور براڈکاسٹنگ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کیلئے یقیناًاجنبی نہیں ہوگا۔بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں اور ایک طویل عرصہ تک بی بی سی کی اردو نشریات سے وابستہ رہے ہیں
کتابیں اپنے آباء کی.... بھی ان کی ایک منفرد اور دلچسپ تصنیف ہے جس میں برصغیر میں کتابوں کی باقائدہ اشاعت کے آغاز سے لیکر انسیویں صدی کے اختتام تک سو منتخب کتابوں پر ناصرف تبصرے لکھے ہیں بلکہ کتابوں سے اقتباس بھی شامل کئے ہیں۔
انگریزوں کے ہندوستان میں قدم جمانے کے دوران اور برصغیر میں بکھری طوائف الملوکی کے دنوں میں ہندوستانی ثقافت کون سی قلابازیاں کھا رھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔اردو زبان اپنی شیرخوارگی کی عمر کے بعد کس طرح بلوغت کی طرف گامزن تھی۔ ۔۔۔۔۔۔لوگوں کے رجحان کیا تھے ۔۔۔۔۔۔ کون سا فنون لطیفہ کس کروٹ بیٹھ رھا تھا۔۔۔۔۔۔۔ادب کا معیار کیا تھا۔۔۔۔۔ کون سے موضوعات میں لوگ دلچسپی رکھتے تھے۔۔۔۔۔۔ عنوان کیسے بدلے رہے تھے اور بات کہنے کے انداز میں کیا تبدلیاں آرہی تھیں۔۔۔۔۔۔اور اخلاقی قدروں نے کون سے لبادے تبدیل کئے۔۔۔۔ یہ چند کتابوں پر لکھا گیا تبصرہ ہی نہیں بلکہ پوری ایک صدی کی تاریخ ہے
انیسویں صدی کے ہندستان کے ذہن، سوچ اور مزاج کو سمجھنے کیلئے ایک بہترین کتاب ہے۔۔۔۔
باوجود کوشش کے اس کتاب کا کوئی آن لائن ایڈیشن یا پی ڈی ایف فارمیٹ نہیں مل سکا۔اس لئے اگر ایسی دلچسپ کتاب کو پڑھنا چاہتے ہیں تو سنگ میل پبلیکیشنز سے 2012 میں شائع شدہ ہے۔ آساانی سے مارکیٹ سے مل جائے گی

Sunday, March 20, 2016

دعا


چند دن پہلے کی بات ہے۔ رات کو گھر اچانک مہمان آگئے۔ کھانا تو گھر پر بنا لیا گیا لیکن روٹیوں کے بارے میں طے ہوا کہ کسی ہوٹل سے پکڑ لیتے ہیں۔ گھر سے نکلا ہوٹل ڈھونڈتے ڈھونڈتے بسوں کے اڈے جا پہنچا۔ جہاں ایک ہوٹل کھلا ہوا تھا ۔ انتطارکےکچھ لمحے گزارنے کیلئے اندر جا کر بیٹھ گیا۔۔ سامنے دیوار پر کھانا کھانے سے پہلے کی دعا لکھی ہوئی تھی ۔۔ جسے پڑھ کر دیر تک مسکراتا رھا۔۔ ۔۔۔
بِسْمِ اللهِ الّذِيْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِيْ الأَرْضِ وَلَا فِيْ السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيْعُ العَلِيْمُ،
یہ وہ دعا ہے جس کے بارے میں ارشاد ہے کہ جوشخص یہ دعا صبح شام تین بارپڑھ لے اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی 
ہوٹل کے مالک نے گاہکوں کو اپنے کھانوں کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کےلئے جو انوکھی ترکیب ڈھونڈی، اس سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکا
میم سین


Wednesday, February 10, 2016

مکمل تصویر


کسی پیدائشی اندھے نے جب ہاتھی دیکھنے کی فرمائش کی تھی تو اس نے ہاتھی کی ٹانگوں کو چھوکراندازہ لگا لیا تھا کہ کہ ہاتھی کھمبے جیسا ہے۔ کچھ ایسے ہی ایک عام مسلمان کو آجکل اس غلط فہمی میں مبتلا کیا جارھا ہے کہ اسلام انسانیت کا ہی دوسرا نام ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانیت اسلام کا اہم جزو ضرور ہے لیکن مکمل اسلام نہیں ہے۔
میم سین

گفتگو کا سلیقہ


ہمارے لوگوں کی اکثریت صرف مسلمان ہے ۔۔ ورنہ وہ تبلیغی اجتماع کی دعا میں بھی شرکت کرتے ہیں اور میلاد کی محفلوں میں بیٹھتے ہیں۔۔۔وہ توحید کے گن بھی گاتے ہیں اور کسی عرس میں چادر چڑھانے کو بھی عیب نہیں سمجھتے۔۔۔۔۔۔۔ان کے مسلک کا فیصلہ اس کے علاقے کی مسجد یا اس کے دوست احباب یا پھر خاندانی رجحانات کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔

لیکن کسی کو اپنے نظریے کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں تو اہمیت شائد اس بات کی اتنی نہیں ہوتی کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔ 
لوگ کردار کی زبان کی سچائی کو پہچانتے ہیں۔  ہمارا اخلاق کیسا ہے۔ رویہ کیسا ہے۔ تہذیب کیسی ہیں۔ ہماری عملی زندگی کیسی ہے۔
ایسے ہی فیس بک پر بھی لوگوں کی اکثریت نہ تو لبرل ہیں اور نہ ہی قدامت پرست۔۔۔۔۔۔ ان کا مائینڈ سیٹ دوسروں پر تنقید کی بجائے، موقف کے خوبصورت اظہار پر مبنی ہوتا ہے۔دلائل سے زیادہ فریقین کا طرزعمل، الفاظ کا چنائو، تہذیب کا لباس اور آدابِ محفل زیادہ اہم ہوتا ہے ۔۔ اور طنز کے تیروں سے مسلح ہوکر ذاتیات پر اتر آنے سے نا صرف اپنا مقدمہ کمزور کر لیتے ہیں بلکہ دوسروں کیلئے بھی مسائل کھڑا کر دیتے ہیں جو آپ کے ہی موقف پر کھڑے ہوتے ہیں
جب بھی کسی پوسٹ پر کوئی مسلکی، مذہبی یا پھر فکری بحث کی جاتی ہے تو اس میں کوئی بھی فریق نہ سیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی سیکھنے کے موڈ میں ہوتا ہے۔۔عموما ۔مقصد دوسرے کو مسخر کرنا اور اپنی بات کی تائید میں دلائل دینا ہوتا ہے۔۔۔اور یوں دھیمے لہجوں میں شروع ہونے والی گفتگو غل غپاڑہ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔بات موضوع سے ہٹ کر ذاتیات پر آجاتی ہے اور دلیلیں گالی گلوچ میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ اس ساری بحث میں کوئی فریق متاثر نہیں ہوتا ۔ فرق پڑتا ہے تو اس قاری پر جو خاموش ہوتا ہے۔۔۔
میم سین

Monday, January 25, 2016

موم کا مجسمہ



مجھے نہیں معلوم میرے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا یا پھر کوئی ماورائی طاقت مجھے مجبور کر دیتی ہے کہ میں کھوج میں لگا رہوں۔۔نیلے آسمان اور اس دھرتی کے درمیان جو کچھ بھی موجود ہے میں اسے ٹٹولتا رہوں,۔۔۔پڑکھتا رہوں۔
شائد میں میں اس روشنی اور نمی کی تلاش میں رہتا ہوں جو میرے اندر بھڑکتے ہوئے شعلوں کی تمازت لے کر اس یوٹوپیا کی تخلیق میں میری مدد کریں جو ناممکنات کو امکانات میں ڈھالنے کا سلیقہ جانتے ہوئے میرے لہو میں پھڑپھراتے انسانی فطرت اور جبلت کو فتح کا احساس دلا سکیں۔زندگی کی معنویت کو پہچانتے ہوئے آرزؤں کے ذریئے ناامیدی کے اندھیرں میں تحلیل ہوتی حقیقتوں کو کسی نومولود بچے کی طرح سینے سے لگانے کی تڑپ بیدار کرسکیں۔ 
لیکن میرے یہ تخیل گھمبیر ہوتے چلے جارہے تھے۔ انسانی تفہیم کے اسباب کسی آشوب کا شکار نظر آنے لگے تھے۔ نفسیاتی الجھنوں کے سائے پروان چڑھنے لگے تھے۔ میرا کردار تضادات کا شکار رہنے لگا تھا۔ میں نے تگ ودو کی خوشی کو محسوس کرنا چھوڑ دیا تھا۔ امنگوں نے میرے سینے میں پنپنا چھوڑ دیا تھا۔اورایسے میں میرا وجود کسی گھپ اندھیرے غار میں بند ہوگیا تھا۔
یہ اس رات کا قصہ ہے جب میں نے پہلی بار اس کو قریب ہو کر دیکھا ۔اس مجسمے کے پاس سے روز گزرتا تھا لیکن کبھی اسے غور سے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔میں اس کے قریب آیا۔ کسی نگینے کی طرح سجی چھوٹی سی ناک۔بچوں جیسی حیران ، گہری آنکھیں۔گہرے نیلے لباس میں لپٹا بدن۔جب میں اسے بہت غور سے دیکھ رھا تھا تو اس نے اپنی لمبی گھنی پلکوں کو حرکت دی۔
خوف سے میرے اوسان خطا ہوگئے اور میں ڈر کے بھاگا اور اپنے بستر میں چھپ گیا۔صبح آنکھ بہت دیر سے کھلی۔ایسے لگا میں کسی بہت گہرے خواب سے جاگا ہوں۔اس کو پھر سے قریب سے دیکھا ۔کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ وہی پرانا موم کا مجسمہ۔۔۔وہی نگینے جیسی ناک۔۔بچوں جیسی حیران آنکھیں
دن بھر تو میں یونہی زندگی کے دھندوں میں کھویا رھا ۔ رات کو سونے سے پہلے اس کے پاس جا کھڑا ہوا۔ وہ مرمریں گردن ۔۔۔نچلا ہونٹ تھوڑا سا دبا ہوا اور اس دباؤ کی وجہ سے ایک عمودی لائن۔ اورہاں شانوں کو چھوتے گھنے سیاہ بال۔
اس نے اپنے ہونٹوں کو حرکت دی ۔جس دن تم نے غیر مشروط محبت کرنا سیکھ لیا اس دن ایک نئے سورج نے طلوع ہونا ہے۔۔
میں ڈر کے پیچھے ہٹ گیا لیکن میری نظریں بدستوں اسے تکے جارہی تھیں ۔
دنیا چاہے کتنی ہی نامکمل ہو۔تہذیب کتنی ہی ادھوری ہو۔لیکن اس کا شعور مکمل ہونا چاہیئے۔آپ ڈر کیوں رہے ہیں؟ میں کوئی جن بھوت تھوڑی ہوں یا کوئی دیو ہوں۔ میں ایک وجود ہوں ایک ٹھوس تحریک۔۔اس لئے مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
میں نے خوفزدہ چہرے کے ساتھ کن اکھیوں سے اسے دیکھا اوراپنے اوسان کچھ بحال کئے۔لیکن ابھی تک بے یقینی کی کیفیت نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔
جو لوگ پانے کا مفہوم نہیں جانتے وہ بہت پر سکون زندگی گزارتے ہیں۔مجھے تکلف اور بناوٹ کی اداکاری نہیں آتی اس لئے شائد میری باتیں کچھ کڑوی لگیں ۔لیکن زبان کو کسیلا پن سکھائیں گے تو مٹھاس کا احساس ہوگا۔سب لذتیں عارضی ہوتی ہیں۔سب خواہشیں ایک عرصے بعد اپنا اثر کھو دیتی ہیں،زندگی ہمیں اس وقت خوبصورت لگنے لگتی ہے جب موت کا احساس ساتھ ہو۔
اس کی باتوں نے مجھے مدافعت پر اکسایا۔لیکن وہ جس ترنگ میں بول رھا تھا اس نے جلد ہی مجھے مرعوب کر لیا۔
دن بھر میں اپنے معمولات میں مصروف رہتا لیکن اس کے بارے میں سوچتا رھا ۔نگینے جیسی ناک، شانوں کو چھوتے گھنے سیاہ بال۔۔۔ہلتے ہونٹ اور ہونٹوں سے الہام کی مانند نکلتے الفاظ۔۔
انسان جس قدر زندگی سے وابستگیاں قائم کرتا ہے اسی قدر اسے مایوسی کے صدمے سہنا پڑتے ہیں..جو توقعات نہیں باندھتے وہ کم از کم ان صدموں سے تو بچ جاتے ہیں۔اور تمہارا المیہ بھی یہی وابستگیاں ہیں۔آدھی دنیا مذہب کو مانتی ہے اور آدھی نہیں۔اور مذہب بھی فرقوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔انسان کو مقصد سمجھانا اور اور اسے قائل کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔اور تم اپنے ذہن سے اختراعیں نکالتے ہو اور اختراع قطیعت کا نام نہیں ہے ۔ اور مجھے افسوس ہے تم اپنی اسی فطری کمزوری سے دھوکہ کھاتے ہو۔
وہ کونسا موضوع تھا جس پر اسے دسترس نہیں تھی۔زندگی کا وہ کونسا پہلو تھا جس پر رائے دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ہزار اختلافات کے باوجود اس کی طلسمی شخصیت کے حصار سے نکلنا مشکل ہوجاتا۔
...میں جو کسی طور شعور اور جذبے کو ضم کرنے پر راضی نہیں ہورھا تھا اور ایک نظریاتی مریض کا نیا روگ سامنے رکھ دیتا
نفسیاتی الجھنوں کے سائے تلے پروان چڑھنے والے لوگوں کے کردار مکمل نہیں ہوا کرتے۔اسے مکمل نہیں سمجھا جا سکتا۔اور ہم سب اسکا شکار ہیں۔وہ تضادات کا شکار رہتا ہے۔وہ اس شفتگی کو برقرار نہیں رکھ پاتے جو ان کی بقا کے لئے ضروری ہوتی ہے۔وہ خوشی اور مسرت کی اس گدگدی کو بھی محسوس نہیں کر سکتے جو ان کے ارد گرد جابجا اپنی نوزشیں بکھیرے ہوتی ہیں۔
اس کے کندھوں پر بکھرے بال کسی جھٹکے سے ہوا میں لہراتے اوراوراس کی سیاہ آنکھیں اور گہری ہوجاتیں اورجب بات شروع کرتاتو اس کے نچلے ہونٹ کی عمودی لائن کے گرد ابھار کچھ اور نمایاں ہوجاتے۔
کیونکہ ہم اپنے من کی سچائی کو نظر انداز کرتے ہیں۔خود ساختہ آردشوں اور جھوٹے اصولوں کی پیروی کرتے ہیں۔ذہنی اختراعوں کا پیچھا کرتے ہیں لیکن یہ سچائیاں نہیں ہیں۔ یہ وہ مصنوعی ڈسپلن ہے جس کا ہم پیچھا کرتے ہوئے ہم اپنے من کی سچائی کو بھول جاتے ہیں۔سو اپنے حصے کی خوشیاں پہچانو۔کیونکہ خوشی ایک وجدانی کیفیت کا نام ہے جو محرکات سے زیادہ احساسات کی محتاج ہوتی ہے۔
میں فطرت کو زیر کرنے کی باتیں کرتا۔انسانی فطرت کی کمزوریوں کی باتیں ۔ناامیدی کے اندھیروں میں تحلیل ہونے کی باتیں ۔میں اس سچائی کی باتیں کرتا جو ہمیں کہیں نہیں ملتی ۔ میں ان بہیمانہ اندھیروں کی باتیں کرتا تھا۔جہاں کائینات کے گیت اپنی آواز پہنچانے سے قاصر ہوتے ہیں۔
لیکن موم کا مجسمہ اپنے تصورات کے تند دھاروں سے میرے انتہا پسند خیالات کو کند کر دیتا ۔کبھی میرے جذبے کو رد کردیتا تو کبھی میرے شعور کی نفی۔۔مجھے حیرت ہوتی کہ وہ اتنی روانی اور آسانی سے دنیا بھر کے فلسفوں پر بات کیسے کر لیتا ہے۔وہ اپنے اثبات سے میری منفی کی ایک نہیں چلنے دیتا تھا۔مجھے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا کہ ہم دونوں میں سے کونسا کردار زیادہ دقیق ہے۔اس کی باتوں سے دل ایک انجانی خوشی سے بھر جاتا ۔زندگی کی تلخیاں گلیشیئر سے آئی کسی سرد ہوا کے سامنے منجمند ہوجاتیں، میری روح کسی پرواز کیلئے بے تاب ہوجاتی۔۔۔۔انسان ایسی قیمتی چیزوں کے حصول کیلئے زندگی داؤ پر لگا دیتا ہے لیکن مجھے اس کے صرف قرب کی تمنا رہ گئی تھی ۔ اس کی باتوں کا قرب اس کی سوچوں کا قرب۔لیکن جب موم کے مجسمہ نے اپنے نور سے میرے دل ودماغ کو جگمگا دیا تھا۔۔۔۔ تو میں کسی حساسیت میں ڈھلنا شروع ہوگیا ۔اس حساسیت کی تمازت سے وہ پگھلنا شروع ہوگیا۔
خوشی ۔۔۔ امنگیں۔۔زندگی۔۔۔۔ جذبات۔۔ احساسات۔۔۔ماوریئت۔۔وجدان۔۔عرفان ۔۔۔
میرا لاشعور اس پگھلے ہوئے موم میں اپنی یاداشت سے معنی بھرنے کی کوشش کر رھا ہے لیکن وہ نگینے جیسی ناک اور کندھوں کو چھوتے بال۔۔۔۔
میم سین

Thursday, January 21, 2016

کوتاہیاں

جناح ہسپتال کے باہر ایک پرانی کتابیں بیچنے والا سٹال لگایا کرتا  تھا۔ میری اس سے گاڑھی چھنتی تھی۔جب بھی کوئی نئی کتابیں یا رسالے اس کے پاس آتے تو  اطلاع کر دیتا کہ اپنی پسند کی کتابیں الگ کرلو۔ رمضان کے دن تھے کہ ایک دن اس نے پیغام بھیجا کہ کچھ نئے رسالے آئیں ہیں۔ اس کے پاس پہنچ کر معلوم ہوا کہ مشہور ٹیبلائیڈ، نیوز آف دی ورلڈ اور ایسکائر کا پلندہ موجود ہے۔۔ یوں لگا کہ جیسے کوئی لاٹری نکل آئی ہے۔۔  اس سے ساری بوری خرید کراپنے کمرے میں لاکر رسالوں کا ڈھیر لگادیا ۔۔اور پھر پڑھنے میں کچھ ایسے کھویاکہ وقت  گزرنے کا احساس اس وقت ہوا جب سحری کا وقت نکلنے کے قریب تھا۔۔ جلدی سے سحری کی اور نماز کے بعد نیند کچھ ایسی طاری ہوئی کہ بارہ بجے آنکھ کھلی۔ بھاگم بھاگ تیار ہوکر وارڈ پہنچا تو اقبال صاحب کا وارڈ راؤنڈ جاری تھا۔ اقبال صاحبان دنوں سینئر رجسٹرار تھے ۔بہت شفیق اور قابل انسان۔۔۔ میں بھی چپکے سے  شامل ہوگیا۔ اقبال صاحب نے میری  آمد کو نظر انداز کیا اور راؤنڈ جاری رکھا۔راؤنڈ مکمل ہوا تو مجھے پاس بلا کر کہنے لگے۔ رمضان کا مہینہ بہت برکتوں والا ہے۔ اور اس میں جتنی بھی عبادت کی جائے کم ہے۔ لیکن اپنی عبادات کے دوران اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ذمہ داریوں میں کوئی خلل  نہ پڑے۔ ان کی باتیں سن کرمیں شرمندگی سے  گھٹنوں پانی میں گڑگیا ۔آئیندہ سے احتیاط کا وعدہ کرکے ان سے تو جان چھڑا لی
لیکن آج بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو بے اختیار دل سے یہ دعا نکلتی ہے ۔ کاش کل قیامت والے دن ہمارا رب بھی ہماری کوتاہیوں کو ایسے ہی نظر انداز کردے
میم سین