Saturday, October 15, 2016

آزادی کی تکمیل











امن کی علامت فاختہ اپنی شکل سے تو معصوم نظر آتی ہی ہے لیکن اس دن مجھے معلوم ہوا یہ کہ فطرت میں بھی بہت بھولی بھالی ہے جب فاختہ کے ایک جوڑے نے برآمدے میں لٹکے راڈ سے لگے پردے کے اوپر اپنا گھونسلا بنایا۔ اتنی کمزور جگہ گھونسلا، بھلا پائیدارکیسے ہوسکتا تھا۔ چند دن بعد ہی فرش پر دو ٹوٹے ہوئے انڈے ان کے خاندان کی تباہی کی کہانی سنا رہے تھے۔ لیکن اگلی بار بھی اسی جگہ کا انتخاب کیاتو مجھے فاختہ کی معصوم طبیعت پر یقین آگیا
چند دن بعد ہی دو ننھے منے فاختہ کے بچے منہ کھولے سارا دن اپنے ماں باپ کا انتظار کرتے نظر آنے لگے ۔ ان کے جسم پر بال نکلنا شروع ہوئے تو نا جانے  انہوں نے ہز فرسٹ فلائٹ کہانی پڑھ لی تھی یا پھر والدین کی کوتاہی تھی کہ وہ اپنے گھونسلے سے نکل آئے ۔ ننھے ننھے پروں کے ساتھ وہ اچھل کود تو کرسکتے تھے لیکن واپس اپنے گھونسلے میں جانا یا کسی محفوظ جگہ کا انتخاب کرنا ان کیلئے ممکن نہیں تھا۔
ایک دن تو میں ان کی حرکتیں دیکھتا رھا۔ مجھے لگا اگریہ یونہی آزاد رہے تو کسی پنکھے کے پروں کی زد میں آکر اپنے جان گنوا بیٹھیں گے یا پھر منڈیر سے جھانکتی بلی کا تر نوالہ ثابت ہونگے۔۔ برتنوں والی ٹوکری خالی کی اور ان کو چھپا کر باجرہ اور سرسوں کے بیج کھانے کو دیئے۔ دو دن تک تو ان کے اماں ابا سارا دن اس ٹوکری کے پاس متفکر بیٹھے رہے لیکن پھراچانک غائب ہوگئے۔
چند دن خوب پیٹ بھر کر کھانے کو ملا تو جوانی ان کے جسموں پر ظاہر ہونا شروع ہوگئی۔ ایک ہفتے بعد مجھے لگا کہ اب یہ پروازکے قابل ہوگئے ہیں تو ایک دن ان کے اوپر سے ٹوکری اٹھا دی ۔ کچھ دیر ادھر ادھر گھومنے کے بعد وہ اڑ گئے لیکن شام کو اسی ٹوکری کے قریب پھر موجود تھے۔ 
اور پھر تو یہ معمول ہی بن گیا۔ صبح کو ان کو آزاد کر دیا جاتا لیکن شام کو وہ اسی ٹوکری کے ارد گرد موجود ہوتے۔ جیسے غلامی کے دنوں نے آزادی کے احساس سے نا آشنا کر دیا ہو ۔
یہ لگ بھگ کوئی دس دن بعد کی بات ہے جب ایک دن دوپہر کو میں نے بابا فاختہ اور ماما فاختہ کی موجودگی کو صحن میں محسوس کیا۔ دنوں بچے بھی ان کے ساتھ پھدک رہے تھے۔ کبھی اڑ کر منڈیر پر جاتے تو کبھی کسی تار پر بیٹھ کر زمین کو تکتے۔کچھ دیر ان کا تماشا دیکھتا رھا لیکن پھر اپنے معمولات میں مشغول ہوگیا۔ لیکن اس شام دونوں واپس نہیں آئے۔اپنے بچوں کو آزادی اور غلامی میں فرق ایک دن میں سکھا دیا تھا۔.
فاختہ کے بچے معصوم تھے کمزور بھی لیکن آزادی پر سمجھوتہ ان کی سرشت میں نہ تھا.اور اس بات کا اندازہ ماما بابا فاختہ کو بھی تھا کہ جلد یا بدیر ہمارے بچوں نے مکمل آزادی حاصل کرنی ہے.کیونکہ ادھوری آزادی کی کوئی ویلیو نہیں ہوتی.آزادی خوردرو پودے کی طرح اپنی تکمیل خود کرتی ہے اور بہرصورت کرتی ہے.آپ لاکھ بار جھاڑی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں وہ پھر اسی جگہ اگتا ہے.یہ اصول فطرت ہے آزادی اپنی تکمیل کرتی ہے.
بس دیکھنا یہ ہے کہ انسانوں کی بستی کے یہ مکین کب اپنی آزادی کی تکمیل کر کے ٹوکری سے نجات حاصل کرتے ہیں.کیونکہ ٹوکری کے نیچے چاہے آسائش کا ہر سامان مہیا ہو وہ آزاد فضاؤں کا متبادل نہیں ہوسکتا
میم سین