Tuesday, January 24, 2017

کچھ پولیو ویکسین کے حوالے سے


چند سال پہلے امریکہ میں ایک کسان کے حوالے ایک کیس بہت مشہور ہوا تھا جو اپنے بچے کو گائے کا کچہ دودھ پلانا چاہ رھا تھا لیکن صحت کے اداروں نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا تھا کہ بچے کی صحت کے ساتھ کوئی نہیں کھیل سکتا خواہ وہ اس کے والدین ہی کیوں نہ ہوں

ایسے ہی چند سال پہلے فرانس میں کھلونے بنانے والے ایک ادارے نے  ان کے ایک کھلونے کی کاپی بنانے پر دوسرے ادارے پر کیس کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کا نہیں کیا تھا بلکہ اس پرلکھے پانچ سے بارہ سال کی بجائے دو سے بارہ سال کے بچوں کیلئے لکھنے پر کیا تھا کہ یہ چھوٹے بچوں کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ قانون کی نظر میں بچوں کی صحت سے کھیلنا بڑا جرم ہے۔
مغرب میں عوام کی صحت کے بارے میں حکومتی فکر اور اقدامات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔جتنے سخت قوانین صحت کے حوالے سے موجود ہیں شائد ہی کسی اور شعبے کے متعلق ہوں۔غیر معیاری خوارک ہو یا مضرصحت اجناس اس پر کسی رعائیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔  لیکن ہمارے لیئے مغرب کی صحت کے معاملے میں اتنی فکر سمجھنا مشکل کام ہے ۔ چند دن پہلے ایک دودھ پیک کرنے والی کمپنی کو انسانی جانوں سے کھیلنے پر دس لاکھ روپے جرمانہ کرکے کے سپریم کورٹ نے پوری قوم کے منہ پر جوطمانچہ مارا ہے۔ اس کے بعد ہمیں صحت کے بارے میں مغرب کی ہر بے چینی میں کوئی سازش ہی نظر آئی گی۔اور آئل و گھی اور منرل واٹرکی کوالٹی کے حوالے سے آنے والی تشویش ناک رپورٹ ویسے ہی منظر نامے سے ہٹا دی گئی ہے۔ورنہ ہماری صحت کے بارے میں بے حسی کو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے
۔
یہ ساری تمہید میں نے باندھی ہے پولیو ویکسین کے حوالے سے کہ ہمارے ہاں آج بھی پولیو ویکسین کے حوالے سے نہ صرف کنفیوژن پائی جاتی ہے بلکہ پھیلائی بھی جاتی ہے اور آئے دن بہت سے سازشی نظریات کوجنم دیا جاتا ہے
لوگوں کے اس مہم کے بارے میں بہت سے تحفظات ہیں 
جیسے آخر مغرب کو ہمارے ملک سے پولیو کے خاتمے میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟
اربوں روپے وہ صرف پولیو کے خاتمے کیلئے خرچ کر رہے ہیں جبکہ یہاں کروڑوں لوگ بھوک اور غربت سے متاثر ہیں
انتظامیہ کی طرف سے پولیس کا استعمال اور سختی اس مہم کو مشکوک بنا رہی ہے
چلیں ایک نظر اس مہم پر ڈال لیں تو شائد بہت سے سوالوں کے جواب خود ہی مل جائیں
پولیو کا وائرس انسانی جسم سے باہر زندہ نہیں رہ سکتا اور اگر اس وائرس کو رہنے کو کوئی جسم نہیں ملے گا تو وہ خود ہی اپنے موت مر جائے گا اس حقیقت کو لیکر پولیو کے خاتمے کیلئے مہم کا آغاز 1988 میں شروع کی گئی تھی اس وقت ہر سال ساڑھے تین لاکھ افراد وائرس سے متاثر ہوجایا کرتے تھے لیکن اگلے بیس سالوں میں لگ بھگ دنیا کے تین چوتھائی ممالک سے اس وائرس کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ 2016 میں صرف 37 کیس رپورٹ ہوئے جن میں سے 20 پاکستان سے تھے۔ 2015  میں 74 کیس رپورٹ ہوئے تھے جن میں سے 54 پاکستان سے تھے۔ 2013میں 416 اور دو ہزار بارہ میں 223کیس رپورٹ ہوئے اور ان میں  سےبھی بیشتر مریضوں کا تعلق پاکستان سے تھا
ہم سے کئی گنا بڑا اور مسائل میں الجھا بھارت بھی بہتر منصوبہ بندی کی بدولت دوہزار چودہ میں پولیو فری ملک قرار پا چکا ہے ۔لیکن اربوں ڈالر خرچ کرکے بھی پاکستان پولیو کے دوبارہ پھیلاؤ کیلئے دنیا کا سب سے خطرہ بنا ہوا ہے
دوہزار پانچ میں امریکہ میں پولیو کے کیس کی موجودگی نے صحت کے اداروں کیلئے الارم بجا دیا تھا جس کے بعد اس پروگرام کو پہلے سے زیادہ متحرک کر دیا گیا اور یہی وہ خوف ہے جو مغرب کو پاکستان پر اتنی زیادہ توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کررھاہے کہ کہیں پولیو واپس نہ لوٹ آئے
کیونکہ جب تک دنیا سے پولیو کا خاتمہ نہیں ہوگا تب تک یہ مغرب کے حواسوں پر خوف بن کر چمٹا رہے گا۔
ان مختصر سے اعداد وشمار سے اندازہ ہوجانا چاہیئے کہ پولیو کی اس مہم پر اربوں روپے کیوں خرچ ہورہے ہیں اور انتظامیہ اس معاملے میں بیرونی دباؤ کیوں برداشت نہیں کر پا رہی
یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ پولیو ویکسین کے حوالے سے جن تحفظات کا اکثر انٹر نیٹ کے صفحات کے حوالے سے ذکر کیا جاتا ہے وہ تحفظات لگ بھگ ہر ویکسین کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ 
ہاں جن تحفظات کا ذکر ہونا چاہیئے جن پر سوال اٹھنے چاہییں وہ 
 ویکسین کی کوالٹی کی یقین دھانی 
ایک بچے کے کورس کو مکمل کرنے کے باوجود اسے بار بار قطرے پلانے سے متعلق خدشات کے بارے میں یقین دھانی
فیکٹری سے بچے کو پلانے تک ویکسین کی کولڈ چین کو محفوظ بنانا
ویکسین پلانے والےورکرز کی مکمل تربیت اور ان کی ذمہ داریوں سے آگاہی اور ان کی ڈیوٹی کے دوران پائی جانے والی کوتاہیوں سے نبٹنا
میم سین

Sunday, January 22, 2017

ترجیحات کا فرق


بات یہ نہیں ہے کہ ہم خود کو مسلمان نہیں کہلووانا  چاہتے 

اور نہ یہ بات درست ہے کہ ہماری مذہب بیزاری کی وجہُ ملا ہے
وجہ یہ بھی نہیں کہ ہم  اسلام کو سمجھنا نہیں چاہتے 
اور بات یہ بھی درست نہیں کہ ہمیں  اسلامی تشخص پر تحفظات ہیں
بات یہ ہے کہ زندگی کے تقاضے بدل گئی ہیں ترجیہات  بدل گئی ہیں۔جن کی وجہ سے ضروریات بدل گئی ہیں جن کی خاطر مفہوم بدلنے پڑ رہے  ہیں
کیونکہ ہماری زندگیوں میں وہ آواز دم توڑ گئی ہے جو کوہ صفا سے بلند ہوئی تھی
اے جماعت قریش اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، اے بنی کعب اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ
سب ہی کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں۔سب ہی عشق رسول کی بات کرتے ہیں۔ سب کا ہی دعوی ہے کہ قرآن الہامی کتاب ہے۔
لیکن 
مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے کامیابی کے معیار بدل لیئے ہیں
ہماری لگن، جستجو، محنت اس کامیابی کیلئے مختص ہوکر رہ گئے ہیں جو انسان کو سٹیٹس دیتا ہے۔شہرت دیتا ہے۔ دنیا میں مقام دیتا ہے ۔ اچھا گھر، محفوظ مستقبل کے خواب دکھاتا ہے
 جو معیار قرآن نے مقرر کیا تھا وہ اب بدل چکا ہے 
 جو جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں
 ہماری جستجو کی دوڑ اور ترقی کیلئے استدلال اونچی عمارتیں اور پرتعیش زندگی رہ گئے ہے جس کے بارے میں قرآن نے کہا تھا
دنیا کے شہروں میں اللہ کے نافرمان لوگوں کا خوش حالی سے چلنا پھرنا تمہیں ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے یہ تو تھوڑا سا لطف اور مزہ ہے جو یہ لوگ اڑا رہے ہیں پھر انکا ٹھکانہ جہنم ہے جو رہنے کی بدترین جگہ ہے 
بات چھوٹی سی ہے لیکن بات سمجھنے کی ہے وہ بھی ٹھنڈے دل سے
جب کامیابی کے معیار ہی بدل گئے تو پھر اس کی ضرورتیں اور تقاضے بھی بدل جائیں گے۔ پھر ہم نئی توجیحات اخذ کریں گے، ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے
صفائیاں پیش کریں گے اس معیار پر پورا اترنے کیلئے
جب نئی توجیہات سامنے آئیں گی تو مفہوم بدلیں گے ۔جب صفائیاں پیش ہونگی تو حسرتیں بدلیں گی ۔انفرادی خواہشات اور ارادے تکمیل چاہیں گے اور ہم غیرارادی طور پرراہ راست سے دور ہوتے چلے جائیں گے 
جب معیار ہی بدل گئے تو پھر گمراہی کا احساس کیسا ؟
طلب کیسی کہ
راہ نجات کونسی سی ہے؟ اور راہ حیات کہاں سے شروع ہوتی ہے؟

میم سین