Thursday, August 17, 2017

کٹاس کے مندر


یہ پچھلی سردیوں کی بات ہے جب پہلی بار کٹاس جانے کا پروگرام بنایا ۔طیب کو ساتھ چلنے کی دعوت دی تو اس نے خوش دلی سے  قبول کرلی لیکن جس دن جانا تھا اس سے ایک دن پہلے ایک قریبی عزیزہ کے انتقال کرجانے کی وجہ سے پروگرام کینسل ہوگیا۔پھر دھند کا سلسلہ شروع ہوا تو پورا مہینہ رکنے کا نام نہیں لیا۔ پھر خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا طیب بیوی کو پیارا ہوگیا۔یوں کٹاس دیکھنے کا خواب خواب ہی رہ گیا۔

چند دن پہلے کسی کام سے اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا تو واپسی پر اچانک کٹاس کی یاد دوبارہ جاگ اٹھی اور یوں کٹاس کے دیومالائی مندر دیکھنے کی خواہش مکمل ہوگئی
کٹاس کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ کہ مقدس جگہ ہے وہاں پر سیاحوں کو بھی ننگے پاؤں جانا پڑتا ہے۔چونکہ یہ جگہ ناصرف ہندوؤں بلکہ بدھ مت اور سکھ مذہب کے ماننے والوں کیلئے بھی مقدس ہے اس لیئے  ہزاروں لوگ بھارت سے ہر سال اس جگہ کی زیارت کیلئے آتے ہیں ۔اس لیئے ذہن میں ایک بہت صاف شفاف اور پرسکون جگہ کا تصور تھا
لیکن وہاں جانے کے بعد معلوم ہوا یہ جگہ بھی  پاکستان کی دوسری تاریخی جگہوں سے زیادہ مختلف نہیں۔ ایک مندر کے ساتھ لوگ باربی کیو کا اہتمام کرچکے تھے اور دوسرے مندر کے ساتھ چاول پک رہے تھے۔ ایک جگہ کچھ نوجوان چپس کھا رہے تھے اور کولڈ ڈرنکس کی خالی بوتلوں سے مندر کی دیواروں کا نشانہ لے رہے تھے۔ایک جگہ ایک فیملی دستر خوان بچھائے کھانے کا اہتمام کررہی تھی۔ کچھ نوجوان مندر کے اوپر چڑھنے کی شرط پوری کرنے کی کوشش کررہے تھے تو کسی کو کھڑکیوں پر چڑھ کر سیلفی بنانے کا شوق ستا رھا تھا۔ اور یوں ایک دیومالائی جگہ کی تصویر جو کئی سالوں سے میں اپنے ساتھ لیے پھر رھا تھا وہ ٹوٹ گئی۔
متعدد ہندو دیو مالائی داستانوں کے مطابق شیو نامی دیوتا نے ستی نامی دیوی کے ساتھ اپنی شادی کے بعد کئی سال کٹاس راج میں ہی گزارے تھے۔ ہندو عقیدے کے مطابق کٹاس راج کے تالاب میں نہانے والوں کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ دو ہزار پانچ میں جب بھارت کے سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن ایڈوانی پاکستان آئے تھے تو انہوں نے خاص طور پر کٹاس راج کی یاترا کی تھی۔
چوہاسیدن شاہ سے کچھ ہی دوری پر کٹاس کا کمپلکس واقع ہے۔ جو سات مندروں اور بدھ مت اور سکھوں کی عبادت گاہوں کا ایک سلسلہ ہے۔ہندو عقیدے کے مطابق شیو کی بیوی سیتا کا جب انتقال ہوا تھا تو شیو کے آنسوؤں سے دو لڑیاں جاری ہوگئی تھیں جن سے پانی کے دو تالاب وجود میں آئے تھے ۔ ایک تو بھارت میں  پشکارجو اب نینی تال کہلاتا ہے نامی علاقے میں پیدا ہوا تھا اوردوسرا کٹاشکا  میں بنا،جو بگڑتے بگڑتے کٹاس رہ گیا ہے میں وجود میں آیا تھا۔لیکن کچھ داستانوں میں ذکر ہے کہ شیو جی پتنی کے مرنے پر نہیں بلکہ اپنے سب سے پسندیدہ  گھوڑے کے مرنےپر روئے تھے،۔ بحرحال وجہ جو بھی ہو شیو جی روئے تھے، یہ سب روایات میں ذکر ملتا ہے۔ اس تالاب کے پانی کو مقدس جانا جاتا ہے اور ہندوؤں اور دوسرے مذاہب  کے عقیدے کے مطابق  مخصوص تہواروں کے موقع پر اس میں نہانے سے گناہ دھل جاتے ہیں ۔
ایک ہندو روایت کے مطابق کوروں کے ساتھ لڑائی کے بعد شکست کے بعد پانڈوں نے بارہ سال کٹاس میں گزارے تھے۔ جس دوران انہوں نے متعدد مندر تعمیر کروائے اس سے ان مندروں کی تاریخی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کوروں اور پانڈوں یعنی مہا بھارت کے زمانے میں بھی موجود تھے۔
کٹاس کی شہرت کی ایک بہت اہم وجہ وہ قدرتی چشمے بھی ہیں، جن کے پانیوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مل جانے سے گنیا نالہ وجود میں آیا تھا۔کٹاس راج کے تالاب کی گہرائی تیس فٹ ہے اور یہ تالاب آہستہ آہستہ خشک ہوتا جا رہا ہے۔جس کی وجہ علاقے میں  قائم سیمنٹ فیکٹریاں بتائی جاتی ہیں۔  شری کٹاس راج کے مندروں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ تالاب کے ارد گرد یا قریب ہی یہ مرکزی مندر اور دیگر عبادت خانے دو دو کے جوڑوں کی شکل میں بنائے گئے ہیں۔۔
سکھ جنرل نلوا نے کٹاس راج میں جو حویلی تعمیر کروائی، اس کے چند جھروکے آج بھی کافی حد تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔شری کٹاس راج کے مندروں اور دوسری عمارات کے کئی حصوں میں مونگے کی چٹانوں، جانوروں کی ہڈیوں اور فوصل شدہ آبی حیات کی ایسی قدیم باقیات دیکھی جا سکتی ہیں، جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان صدیوں پرانے آثار کی تعمیر میں سمندری یا دریائی پانی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
مقامی لوگوں سے یہ بھی سننے میں آیا کہ البیرونی نے اسی جگہ پر کھڑے ہو کر کرہ ارض کا قطر ماپا تھا۔
میم سین

Tuesday, August 8, 2017

میرا شہر



سنا ہے کہ چھوٹی اینٹ سے بنے اس دو منزلہ مکان کو جس میں، میں نے اپنی آنکھ کھولی تھی ، ایک سکھ پولیس انسپکٹر نے بہت محبت  سے بنایا تھا۔ بھارت میں رہ جانے والی تحصیل نکودر سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تو دادا جی نے جب کمالیہ میں بسیرا ڈالا تو یہ مکان ان کو الاٹ ہوگیا تھا۔ اونچی چھت کے اس مکان کو چھوڑے اگرچہ اب کئی برس بیت گئے ہیں لیکن میں اور میرا ناسٹیلجیا آج بھی وہیں آباد ہیں۔ گھر کی پہلی منزل کی کچی مٹی سے بنی چھت سردیوں میں دھوپ سینکنے اور گرمیوں میں رات کو سونے کے کام آتی تھی اور دوسری منزل سردیوں میں پتنگ بازی کے اور گرمیوں میں ویران رہتی تھی۔دوسری منزل سے میرے بھائی باقائدہ ڈور کو مانجھا لگا کر خوب پیچ لڑایا کرتے تھے اور میں کبھی کبھار کسی پلاسٹک کے شاپر سے پتنگ بنا کر سلائی کے دھاگے سے باندھ کر بلند کیا کرتا تھا۔ چونکہ ہمارے گھر کی چھت اردگرد کے گھروں سے کافی بلند تھی اس لیئے جب کبھی تیز ہوا چلا کرتی تھی تو کاغذ کے ہوائی جہاز بنا کر خوب اڑایا کرتے تھے۔
گھر کی چھت کی ایک خاص بات ابابیلوں کی شام کے وقت آسمان پر پروازیں تھیں۔گروہ کے گروہ تیکھی آواز کے ساتھ  ہوا میں تیرتے ہوئے  جو سماں بناتے تھے وہ میرے ذہن کے گوشوں میں اس طرح آج بھی محفوظ ہے کہ جب کبھی کسی ابابیل کو دیکھ لوں تو اسی گھر کی چھت پر قید ہوجاتا ہوں۔میرے کانوں میں ابابیلوں کی تیکھی آواز اور پروں کی سرسراہٹ گونجنے لگتی ہے۔چھت پر ہی ایک برساتی کمرہ تھا جس کا مقصد بارش  کی صورت میں سر چھپانا تھا لیکن اس برساتی میں ان ابابیلوں نے اپنے گھونسلے جما کر قبضہ کررکھا تھا۔ یہی وہ برساتی تھی جہاں چھت سے رسی باندھ کر میں نے پینگ بنائی تھی جس پر جھولا جھولتے میں اپنا بیلنس برقرار نہ رکھ سکاتھا اور گر کر اپنے بازو کی ہڈی تڑوا بیٹھا تھا۔ہڈی کی تکلیف تو یاد نہیں لیکن اماں نے میری چیخیں سن کر جو دھنائی کی تھی کہ منع کرنے کے باوجود کیوں پینگ بنائی وہ آج بھی یاد ہے۔  پہلی منزل کے ہی ایک خالی کمرے میں سالانہ امتحان کی تیاری کیلئے بسیرا ڈالا کرتا تھا۔یہ وہی کمرہ تھا جس میں میرا وہ صندوق رکھا تھا جس کے بارے میں ایک بار لکھا تھا۔۔۔۔
یہ کوئی ساتویں یا آٹھویں جماعت کی بات ہے جب مجھے وہ اٹیچی کیس ملا تھا جو میری امی نے بوسیدہ جان کر پھینک دیا تھا۔ لیکن یہ بوسیدہ باکس میری کائنات بن گیا۔اس میں میری کل متاعِ حیات تھی۔اس میں پیپل کے وہ پتے تھے جو میں نے جاڑے کے دنوں میں اس ویران ریلوے سٹیشن سے اٹھائے تھے جہاں ریل گاڑی خراب ہو کر ساری رات کھڑی رہی تھی۔ اس میں نیل کانٹھ کے وہ دو پر بھی تھے جسے میں زخمی حالت میں پکڑ کے لایا تھا اور جب وہ صحت یابی کے قریب تھا تو ایک بلی کا نوالہ بن گیا تھا۔اس میں وہ چھوٹا سا پودا بھی کاغذوں کے درمیان محفوظ کر رکھا تھا جو کول تار کی سڑک کا سینہ چیڑ کر اگ آیا تھا، اس میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کے وہ تعریفی خطوط بھی موجود تھے جو انہوں نے میرے بنائے ہوئے پوسٹرز کے جواب میں بھیجے تھے۔اس بکس میں اس کالے بھنورے کا حنوط شدہ جسم بھی تھا جسے میں نے جیم کی خالی بوتل مین ڈھکن میں سوراخ کر کے رکھا تھا مگر ایک دن ٹھنڈ میں باہر بھول گیا اور وہ سخت سردی برداشت نہ کر پایا تھا۔ اس میں میرے ہاتھ سے بنے اور دوسروں کے بھیجے عید کارڈ بھی تھے اور اخباروں اور میگزینوں کے تراشے بھی بھی ،جو گاہے بگاہے میں جمع کرتا رہتا تھا۔ایسی ہی بے شمار چیزیں جن سے میری گہری یادیں وابستہ تھیں۔جب ہم اپنے آبائی گھر سے ذیشان کالونی والے گھرشفٹ ہوئے تو میرے گھر والوں نے فالتو سامان کے ساتھ میری اس کل کائنات کو مجھ سے جداکر دیاتھا۔۔
  اسی چھت پر بارش کے بعد ٹوکرہ  کی مدد سے چڑیا پکڑا کرتا تھا۔کئی بار ایسا ہوا کہ چڑیا پکڑ بھی لی لیکن ان کو پکڑ کر کرناکیا ہے،یہ آج تک بات  سمجھ میں نہیں آئی اور کچھ گھنٹوں بعد اسے آزاد کر دیا کرتا تھا۔ گھر کا بڑا سا دلان وہ مرکزی کمرہ تھا جو گرمیوں میں لڈواور کیرم کی بازی جمانے کے کام آتا تھا اور سردیوں میں کوئلوں کی انگھیٹی کی مدد سے اسے گرم رکھا جاتا تھا ۔ وہی انگھیٹی جس میں ہم بہن بھائی آلو بھون کر کھایا کرتے تھے.اورجس کے گرد بیٹھ کر مونگ پھلی کا دور چلا کرتا تھا۔ یہ وہی گھر تھا جس کی سیڑھوں کے سامنے چھت سے آتی ہوا میں بیٹھ کر گرمیوں کی چھٹیوں کا کام کیاکرتے تھے اور دوپہر کو جب بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ ہوتی تھی تو گھر کا بیرونی دروازہ کھول کرکراس ونٹیلیشن کا اصول اپناکر دوپہر کی گرمی سے خود کو محفوظ بنانے کی کوشش کی جاتی تھی  اور جب کھوئے والی قلفی کی آواز کانوں میں گونجا کرتی تھی تو سب گلی کی جانب بھاگتے تھے
 ۔۔ 

اگر کسی نے پرانا لاہور دیکھا ہوا ہے تو اس کیلئے کمالیہ شہر کا نقشہ سمجھنا  مشکل نہیں ہوگا۔ تنگ سی گلیاں اوراونچے اونچے مکان۔جہاں دن بھر کھوے سے کھوا چھلک رھا ہوتا ہے۔ گلیوں کی نکڑ پر کھڑے نوجوان کی ٹولیاں،اور ننگے بدن نیکریں پہنے لکڑی کی چھڑیاں تھامے ایک دوسرے کا پیچھا کرتے بچے،کسی کونے میں لٹو گھمانے کا کھیل تو کسی نکڑ پر موبائل تھامے کوئی نوجوان، گھروں سے باہر جھانکتی عورتیں،گلیوں میں جھاڑو دیتی چھوٹی بچیاں ، گندی نالیوں سے چھلکتا پانی،اور گلیوں میں کھڑے پانی کے تالاب۔دہلیز پر وقت کی چادر اوڑھے پنکھا جھلتی بوڑھی عورتیں،سٹاپو کھیلتی ڈانٹ کھاتی بچیاں۔  گھروں کے دروازے پر عموما کسی کپڑے کی آڑ اور بیٹھکوں کے کھلے دروازے جن میں کسی زمانے میں تاش کی بازیاں ہوا کرتی تھیں توکبھی اکھٹے ہوکر ریڈیو سنا جاتا تھا، اب ایل سی ڈیز پر نیوز یا سپورٹس چینل چلتے ہیں ۔ لوگ آج بھی اتنے ہی بے فکرے اور سہل پسند ہیں جتنے آج سے تیس سال پہلے تھے۔
 کہا جاتا  ہے کہ لگ بھگ سوا گیارہ لاکھ کی آبادی کا کمالیہ شہر آج جس جگہ آباد ہے کسی زمانے میں بڈھا راوی، جو شائد اس زمانے میں جوان تھا   بہا کرتا تھا۔ لیکن اب بیس کلومیٹر دور مسکن بنا چکا ہے ۔شہر کی اونچی نیچی گلیوں کو دیکھتے ہوئے اس مفروضے کومضبوط بنیاد ملتی ہے۔ 

ضلع ٹوبہ سنگھ کی تحصیل کمالیہ ایک تاریخی شہر ہے۔جس کے ایک طرف رجانہ شہر دوسری طرف چیچہ وطنی ہے۔ اسی طرح پیرمحل اور مامونکانجن بھی ہمسائے بنتے ہیں ۔کہا جاتا ہے جب سکند اعظم ہندوستان میں داخل ہوا تھا تب بھی راوی کے کنارے یہ شہر آباد تھا۔کہنے والے تو اور بھی بہت کچھ کہتے ہیں لیکن اب سب کی کون سنے۔ تاریخی لحاظ سے کوٹ کمالیہ کے نام سے مشہور  شہر کا نام کمال خان کھرل کے نام پر رکھا گیا تھا۔ جو کھرل برادری کے آباو اجداد میں سے تھے۔یہ بھی مشہور ہے کہ ایک دفعہ ایک بزرگ کو سخت سردی کے موسم میں ایک شخص نے کمبل دیا اور ان کی خدمت کی تو انہوں نے اس کو دعا دی کہ تمہارے نام پر یہاں ایک شہر آباد ہوگا اس طرح کمالیہ شہر کا نام اس شخص کے نام پر پڑا۔لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا ہے کہ اٹھارہ  سوستاون کی بغاوت میں کمالیہ شہر نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کمالیہ کے اس چھوٹے سے قصبے نے ایک ہفتے تک علم بغاوت اٹھائے رکھا تھا۔جہانگیر کے زمانے کی تاریخی جامعہ مسجد آج بھی کمالیہ کی تایخی اہمیت کی گواہی دینے کیلئے موجود ہے۔
کمالیہ شہر کی آبادی کو پہلے تو لوکل اور مہاجر کی بنیاد پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ایک گروہ وہ ہے جو تقسیم ہند سے پہلے یہاں آباد تھا ۔ان کو لوکل یا مقامی لوگ کہا جاتا ہے۔مقامی لوگوں کی برادریوں
میں کھرل، فتیانہ، کاٹھیہ گادھی کافی مشہور ہیں  اور دوسرا گروہ وہ ہے جو تقسیم کے بعد یہاں آباد ہوا۔جن کی برادریوں  میں  ارائیں اکثریت میں سمجھے جاتے ہیں لیکن گجر،جاٹ،راجپوت بھی بڑی تعدادمیں ہیں ۔ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مہاجر طبقہ مقامی لوگوں کو جانگلی پکاڑتا ہے اور مقامی لوگ مہاجرطبقے کو پناہی یعنی پناہ لینے والے۔  
کمالیہ ایک زرعی علاقہ ہے ۔شہر میں شوگر مل ہونے کی وجہ سے گنا ایک اہم جنس کی حیثیت رکھتا ہے۔لیکن گندم ، کپاس، مکئی بھی بڑی مقدار میں کاشت کی جاتی ہیں ۔ لیکن کمالیہ شہر کی پہچان اجناس سے زیادہ  سبزیوں کی پیداوار  ہے۔خاص طور پر ٹنل فارمنگ کے بعد سبزیوں کی پیداوار میں ایک اہم شہر سمجھا جاتا  ہے۔ کہا جاتا ہے بھنڈی کی سب سے بڑی منڈی کمالیہ ہے۔

لیکن کمالیہ کی اصل پہچان کھدر ہے۔کسی زمانے میں شائد ہی کوئی محلہ یا گلی ایسی ہوا کرتی تھی جس میں کھدر بنانے والی کھڈی نہیں لگی ہوتی تھی لیکن اب شہر میں اکا دکا کھڈیاں رہ گئی ہیں ۔ شروع میں کھدر صرف سفید اور کیمل/زرد رنگ میں ہی دستیاب ہوا کرتا تھا ۔ وقت کے ساتھ نت نئے رنگوں کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہونا شروع ہوا تو کپڑے کو ڈائی کرنے کیلئے  ملتان بھیجا جانے لگا۔ بدقسمتی سے کپڑے کو رنگنے کی صنعت کمالیہ میں نہ قائم ہوسکی اور ملتان کپڑے کو ڈائی  کیلئے بھیجنے کی وجہ سے کپڑے کی لاگت میں اضافہ ہونے لگا۔ جس کو کنٹرول کرنے کیلئے  کپڑا بننے کی صنعت ملتان منتقل  ہوگئی ۔لیکن کھدر کی فروخت کا سب سے بڑا مرکز آج بھی کمالیہ شہر ہی ہے اور کمالیہ کا کھدر کے نام سے ہی جانا جاتا ہے

کمالیہ کی ایک اور پہچان یہاں جنم لینے والی پولٹری کی انڈسسٹری بھی ہے۔ ایک وقت تھا جب کمالیہ شہر انڈے کی پورے ملک کی ضرورت کا بڑا حصہ پیدا کیا کرتا تھا۔ اگرچہ اب یہ انڈسٹری پورے ملک میں پھیل چکی ہے لیکن اس انڈسٹری نے اپنا ابتدائی جنم یہیں پر لیا تھا ۔۔
جہاں تک شہر کی مشہور شخصیات کا تعلق ہے تو اب اپنا نام لکھتے بندہ اچھا نہیں لگتا۔ ویسے سیاست کے حوالے سے ریاض فتیانہ اور چوہدری اسدالرحمن کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔بھٹو دور میں کافی شہرت پانے والے خالد احمد خاں کھرل بھی کمالیہ سے ہیں ۔چوہدری افتخار کے دنوں میں شہرت پانے والے خلیل الرحمن رمدے صاحب کا تعلق بھی کمالیہ سے ہی ہے۔۔نازیہ راحیل،مخدوم علی رضااورپیر کرمانی بھی کمالیہ کی پہچان ہیں۔کمالیہ کی روحانی شخصیات میں پیر سید منیر احمد شاہ صاحب آف دھولری شریف ،پیر سید شیراز احمد قادری آف قادر بخش شریف،پیر علی بابا آف دربار قطب علی شاہ بہت اہم مقام رکھتے ہیں۔کالعدم سپاہ صحابہ کے راہنما مولا نا محمد احمد لدھیانوی کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔
کمالیہ کے ہائی سکول اور ایلیمنٹری کالج جو پہلے نارمل سکول کہلاتا تھا کافی پرانے اور تاریخی تعلیمی ادارے ہیں۔ گورنمنٹ پی ایس ٹی کالج میں بہت سے شعبوں میں پوسٹ گریجویٹ کلاسز میں جاری ہیں۔ خواتین کا ڈگری کالج بھی اپنے معیار کی لیئے کافی جانا جاتا ہے۔شہر میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کا قیام بھی عمل میں آچکا ہے جو ایک وسیع رقبے پر قائم کی گئی ہے۔ ٹیکنیکل کالج بھی قائم ہے ۔
کمالیہ شہر میں ایک چڑیا گھر بھی قائم کیا گیا تھا جو شروع میں تو جانوروں سے بھرا ہوا کرتا تھا شیر چیتا گیدر ہرن بارہ سنگھے بندر مور ریچھ کیاکیا نہیں موجود ہوا کرتا تھا لیکن اب تو بس شہریوں کیلئےتنگ گلیوں  سے نکل کر ایک کھلی فضا میں جانے کا بہانہ رہ گیا ہے ۔  

Wednesday, August 2, 2017

تعارف کچھ سوانح عمریوں کا


ہر دور کا ایک شعور ہوتا ہے ۔ اور اس شعور کو سمجھے بغیر اس دور کے فیصلوں کو سمجھا نہیں جاسکتا۔ تاریخ کا سرسری مطالعہ ہمیں کسی بھی دور کے فیصلوں سے تو آگاہ کرتا ہے لیکن اس شعور سے آشنائی نہیں دلاتا جس کے زیر اثر وہ فیصلے ہوئے ہوتے ہیں ۔

اگر آپ انیسویں اور بیسویں صدی میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر دوڑائیں اور اکیسویں صدی کے شعور کے ساتھ اس دور کے فیصلوں اور واقعات کو سمجھنا چاہیں تو یہ ممکن نہیں ہوسکتا۔ کمیونزم کی قبولیت کا معاملہ ہو یا کارل مارکس کے نظریات کی مقبولیت کا۔ جنگیں ہوں یاآزادی کی تحریکیں ، مشاعروں کی مقبولیت کا معاملہ ہو یا ادب کی قدردانی کا، اخبار کا ایک عام شہری کی زندگی میں اہمیت کا معاملہ ہو یا پھر ریڈیو کے ارتقا کا معاملہ ، نوآبادیاتی نظام کے کل پرزوں کی بات ہو یا انتظامی ڈھانچے پر عمل درآمد کا معاملہ ۔جب تک ان کے پیچھے کارفرما شعور کو نہ سمجھا جائے، تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔۔
کسی بھی دور کی کی ثقافت، رہن سہن، رسم ورواج ، سیاست، سماج ،تجارت،رواج کو سمجھنے کیلئے میرے نزدیک سوانح عمریوں سے بہتر کوئی چیز نہیں۔لوگوں کی زندگی کی داستان انسانی فکر کا ارتقا دکھاتی ہے۔انسانی معاشرت اور بدلتی ہوئی ذہنیت سکھاتی ہے۔جیسے لفظ قوم کے معنی اور مفہوم ماضی میں وہ نہیں تھے جو آج سمجھے جاتے ہیں۔ آج کا سیاسی شعور اس شعور سے بہت مختلف ہے جو ایک صدی پہلے رائج تھا۔۔
ذیل میں ان سوانح کی فہرست ترتیب دی ہے جن کا تعلق ہندستان اور اس کی تمدن  سے جڑا ہے

یادوں کی بارات۔۔جوش ملیح آبادی
ایک محاورہ اکثر بولا جاتا ہے، لفظوں کی جادوگری۔کسی نے اگر اس جادوگری کا عملی ثبوت دیکھنا ہے تو وہ یادوں کی بارات کھول لے۔بہت سے اخلاقی اعتراضات کے باوجود اس کتاب کا ادبی وزن بہت زیادہ ہے۔ یہ صرف ایک شاعر کی زندگی کی کہانی ہی نہیں بلکہ ہندستان کی تاریخ ثقافت اور تہذیب کی ایک تصویر ہے۔جس قدر دلچسپ انداز میں لکھی گئی ہے ،اس کی تحریر ساری عمر آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتی
جب تک میں زندہ ہوں ۔۔مجید نظامی 
افغان باقی کہسار باقی ۔۔ نوائے وقت گروپ کے سابقہ مدیر مجید نظامی کی داستان حیات جو  عائشہ مسعود نے ترتیب دی ہے۔ اگر کتاب مجید نظامی کی زبانی لکھی جاتی اور محترمہ اپنی اردو علمیت جھاڑنے کیلئے بھاری بھر کم الفاظ کا استعمال کم کرتیں تو کتاب کا انداز بہت دلچسپ ہوجاتا۔ لیکن بحرحال پاکستان کی سیاسی تاریخ کو سمجھنے کیلئے بہت زبردست کتاب ہے 
قبر کی آغوش ۔۔راجہ انور
جھوٹے روپ کے جھوٹے درشن سے شہرت پانے والے پیپلز پارٹی کے جیالے راجہ انور کی کی افغانستان کی بدنام زمانہ جیل پل چرخی میں گزرے دنوں کی داستان ہے۔ یہ صرف جیل کی ایک داستان ہی نہیں بلکہ افغان ثقافت اور جنگ کو سمجھنے کیلئے  بہت دلچسپ کتاب ہے۔
رسیدی ٹکٹ۔ امرتا پریتم
پنجابی زبان سے سے محبت کرنے والوں کیلئے امرتا پریتم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اگرچہ ان کا اپنا ایک مخصوص انداز ان کی پہچان ہے لیکن جو روانی اور اسلوب اس کتاب میں ہے وہ بہت مسحور کن ہے ۔ یہ کتاب امرتا کی زندگی  کے بہت سے پہلوؤں کو کھولتی ہے
وہ بھی کیا دن تھے۔۔حکیم محمد سعید
اگرچہ یہ کتاب بچوں کیلئے لکھی گئی لیکن ہندستان کے رسم ورواج ، گھروں میں رہنے کے سلیقے آداب اور تہذیبی گھرانوں کے ماحول پر گہری روشنی ڈالتی ہے ۔بڑے لوگ بھی کبھی بچے ہوتے تھے وہ بھی شرارتیں کیا کرتے تھے۔ حکیم صاحب نے لکھتے وقت خود کو بالکل ایک بچہ بنا کر اپنی شرارتیں اور زندگی کے پہلوئوں کو قلم بند کیا ہے
رفعتوں کی تلاش۔۔اسد اللہ غالب
امریکی انڈسٹریل ترقی سے متاثر نوجوان رفیع بٹ کی پو شیدہ زندگی کو ڈھونڈنے کی اسداللہ غالب کی ایک کوشش ہے جو بہت کم عمری میں بورے والا کے قریب پرائیویٹ جہاز کے حادثے میں جاںبحق ہوگئے تھے۔رفیع بٹ کو محمد علی جناح کا رائٹ ہینڈ سمجھا جاتا تھا۔
ردر ٹھوکر کھائے۔ ڈاکٹر مبارک علی
تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کیلئے ڈاکٹرمبارک علی کا نام اجنبی نہیں ہے۔ جس دلچسپ انداز سے تاریخ لکھتے ہیں، اتنے ہی دلچسپ انداز میں اپنی زندگی کی کہانی لکھی ہے۔مفلسی کی دہلیز سے اٹھ کر اپنی تعلیم کیسے پائی اور کیسے تاریخ کے شعبے میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتیں صرف کیں ۔ ہمارا نظام کیسے رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے اور کیسے ان کو عبور کیا جاتا ہے،۔یہ کتاب اس بات کو سمجھنے میں بھی کافی مدد دیتی ہے کہ ہماری روایات اور اقدار کسی طرح سماجی ڈھانچے کی نشاندگی کرتی ہیں۔ 
اپنا گریبان چاک۔۔ ڈاکٹر جاوید اقبال
ڈاکٹر جاوید اقبال نے ایک بار کہا تھا کہ جاوید اقبال کو پیدا ہوتےہی جاویدمنزل کے ایک پنجرے میں قید کر دیا گیا تھا اوروہ ساری عمر اقبال کے نام کے ساتھ جیتے رہے۔اس کتاب کو پڑھ کر ان کی یہ بات درست لگتی ہے کہ اقبال کے بیٹے سے وہ توقعات پوری ہوتی نظر نہیں آتیں جن کی توقع وابستہ کرلی جاتی ہیں ۔ پوری کتاب میں کہیں بھی نظر نہیں آتا کہ وہ کوئی غیر معمولی شخصیت تھے۔ ہر جگہ وہ اقبال کا زینہ چڑھتے نظر آتےہیں۔لیکن بہت سے واقعات کے عینی گواہ ہونے کی وجہ سے یہ کتاب  تاریخی دستاویزات کی حیثیت رکھتی ہے 
کچھ یادیں کچھ باتیں۔۔شوکت تھانوی
اردو ادب کے ابتدائی مزاح نگا ر کی حیثیت سے جانے پہچانے ادیب شوکت تھانوی کی اپنی زندگی کے کچھ گوشوں سے پردہ ہٹاتی کتاب 
لمحوں کا سفر۔۔محمد اسلم لودھی
نوائے وقت پڑھنے والے قارئین کیلئے اسلم لودھی کا نام شائد نیا نہ ہو لیکن پھر بھی ان کا نام یا شخصیت اتنی معروف نہیں ۔شائد اسی لیئے  اس کتاب کو وہ پزیرائی نہیں  ملی ،جو اس کا حق تھا۔  اس کتاب میں ہماری غربت کی لکیر سے نیچے رہنے  والے اور مڈل کلاس کے گھروں کے رہن سہن ان کی ثقافت، رواج کو سمجھا جاسکتا ہے۔مصنف نے بہت سے کردار بنائے ہیں پھر ان کے گرد کہانیاں اکھٹی کی ہیں اس طرح یہ کتاب صرف مصنف کی زندگی بیان کرتی نظر نہیں  آتی بلکہ معاشرے میں بکھرے ان گنت کرداروں کی کہانی سناتی ہے یہ محض ایک کتاب نہیں ہے ۔ ایک جدوجہد کی داستان ہے۔ ریلوے کواٹرز کے اردگرد سے شروع ہونے والی داستان نصف صدی پر محیط ہوجاتی ہے



ناقابل فراموش۔۔ دیوان سنگھ مفتوں

ہندستان کی صحافت کا گرو کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اپنے دور میں تحقیقی صحافت کی بنیاد رکھنے والا اور بریکنگ نیوز کا ماہر دیوان سنگھ مفتوں ۔ اس کتاب میں مصنف نے مختلف موضوعات کے حوالے سے یاداشتوں کو یکجا کیا گیا۔ جو ہندستان کی تحریک آزادی اور سیاسی کشمکش کی اندرونی  کہانیوں پر بڑی گہری روشنی ڈالتی ہے۔
علی پور کا ایلی۔۔ ممتاز مفتی
مفتی کے اس اقرار کے بعد کہ یہ کتاب محض ایک ناول نہیں بلکہ اس کی اپنی زندگی کی کہانی ہے ۔اس کتاب کو سوانح کی فہرست میں رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگرچہ ابتدایہ کافی طویل اور اکتا دینے والا ہے۔ کرداروں کو سمجھنے میں بھی کافی وقت لگتا ہے لیکن اس کے بعد آخری صفحے تک آپ ایلی کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ زندگی کی بھول بھلیوں میں کھونے کے بعد جس طرح شہزاد کی یادوں کو نکالتا ہے اس کا احساس ناقابل بیان ہے۔ پوری کتاب میں کردار بکھرے ہوئے ہیں ہر کردار کے ساتھ ایک کہانی شروع ہوجاتی ہے لیکن جو تپش جو خلش شہزاد کا کردار پیدا کرتا ہے اسے پڑھتے ہوئے بار بار دل ڈولتا ہے۔ جو کردار نگاری اور منظر نگاری پوری کتاب میں کی گئی ہے وہ ایک ایسا طلسم  ہے جو آپ کو اپنے حصار سے نکلنے نہیں دیتا۔ 
سرگزشت بخاری۔ذولفقار علی بخاری
پطرس بخاری کے بھائی زیڈ اے بخاری جو  پہلے انڈیا اور بعد میں پاکستان میں ریڈیو براڈکاسٹر رہے ۔ بہت اچھے ادیب، شاعر اور موسیقار بھی تھے۔ یہ داستان مختلف موضوعات کو لیکر یکجا کی گئی ہے۔ ہندستان میں براڈکاسٹنگ کی تاریخ کو بہت خوبصورت اور دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا۔ یہ صرف ایک شخص کی داستان ہی نہیں بلکہ ہندستان کی ثقافت اور تہذیب و تمدن کو سمجھنے کیلئے بہت اعلی کتاب ہےاورتاریخ کے گمشدہ اوراق کو ڈھونڈنے میں مدد دیتی ہے۔
میری کہانی۔۔اشتیاق احمد
انسپکٹر جمشید کے خالق اشتیاق احمد کی ان تھک محنت لگن اور جدوجہد کی داستان۔ ناصرف  ہمیں ایک شخص کی ذاتی زندگی کے پہلوئوں سے روشناس کرواتی ہے بلکہ کتاب کی طباعت اور اس کی راہ میں درپیش مسائل سے بھی آگاہ کرتی ہے 
بجنگ آمد ۔۔ کرنل محمد خاں
یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ نے بجنگ آمد پڑھی ہو اور آپ دیوانہ وار کرنل کی دوسری کتابوں کی تلاش میں نکل نہ پڑے ہوں۔ کرنل محمد خان کا لکھنے کا انداز اس قدر دلچسپ ہے کہ وہ آپ کو اس عورت کی صرف آنکھوں کا حسن بیان کرکے آپ کو عشق میں مبتلا کرسکتا ہے جس کے دانت گرے ہوئے بھی عرصہ گزر چکا ہو۔ مزاح نگاری میں میرا پہلا ووٹ یوسفی کیلئے دوسرا محمد خان اور تیسرا شفیق الرحمن کیلئے ہے اور چوتھے پانچویں نمبر پر بہت سے احباب آتے ہیں۔۔اس کتاب میں ان کی فوج کے ساتھ وابستگی کے ابتدائی دنوں کی داستان ہے
شہاب نامہ۔۔ قدرت اللہ شہاب
شہاب نامہ پر کوئی تبصرہ بنتا ہی نہیں۔ یہ صرف شہاب کی داستان حیات ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ابتدائی سالوں کی تاریخی دستاویزات کا درجہ رکھتی ہے۔ صرف ایک طویل داستان ہی نہیں بلکہ ایک ادبی شہ پارہ ہے
سوانح خواجہ حسن نظامی۔۔ملا واھدی
اگر کسی نے بیگمات کے آنسو کتاب نہیں پڑھی تو اسے جنگ آزادی کے اسباب اور اس کے نتائج پر تبصرہ کرنے کا بھی کوئی حق نہیں دیاجاسکتا۔ بیگمات کے آنسو اور جنگ آزادی ۱۸۵۷ اور بے شمار کتابوں کے کے خالق خواجہ حسن نظامی کی کی زندگی پر لکھی گئی کتاب اس لحاظ سے کافی دلچسپ ہے کہ یہ ہندستان کے رہن سہن کو سمجھے کیلئے بہت گہرائی مہیا کرتی ہے۔
پرواز۔۔عبدالکلام
بھارتی میزائل ٹیکنالوجی کا بانی سمجھے جانے والے عبدلکلام کی زندگی کی کہانی جو نا صرف ان کی زندگی کے گوشوں کو عیاں کرتی ہے بلکہ بھارت کی میزائل ٹیکنالوجی کو سمجھنے کیلئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے
داستان چھوڑ آئے۔۔رحیم گل
جنت کی تلاش، وادی گمان سے،ترنم، تن تن تارہ، پیاس کا دریا جیسی کتابوں کے خالق رحیم گل کو ہماری ادبی تاریخ میں وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ حق دار تھے۔ وہ نثر میں شاعری لکھنے کا ہنر رکھتے تھے۔اپنے زندگی کی داستان لکھتے وقت بھی اپنے انداز کو نہیں چھوڑا۔ ایڈونچر سے بھرپور اس داستان کو ایک بار شروع کر دیں تو پھر آخری صفحہ تک آپ ساتھ نہیں چھوڑتے
آپ بیتی ۔ موہن داس کرم چند گاندھی
۔ یہ کتاب صرف مہاتمہ گاندھی کی زندگی پر روشنی نہیں ڈالتی بلکہ ان کی جدوجہد اور ہندستان کی آزادی کی تحریک کو سمجھنے میں بھی بہت مدد دیتی ہے 
آزادی ہند ۔۔ابوالکلام آزاد
برصغیر کی تقسیم کو اس وقت نہیں سمجھا جا سکتا جب تک آپ دونوں پارٹیوں کے موقف کو اچھی طرح جان نہیں لیتے۔ لیکن یہ کتاب صرف آزادی یا تقسیم کی کہانی نہیں بلکہ ایک ادبی سرمایہ بھی ہے جو ابولکلام کی زندگی کے سفر کو بیان کرتی ہے ۔ہندستان میں اٹھنے والی اصلاحی تحریکوں اور انقلابی کرداروں سے پردہ اٹھاتی ہے ۔
سچ محبت اور زرا سا کینہ۔۔ خشونت سنگھ
خشونت سنگھ کے نام سے کون واقف نہیں۔ایک ایسے صحافی اور ادیب کی حیثیت سے جانے جاتے تھے جو پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔لاہور سے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک وکیل  کی حیثیت سے کرنے کی وجہ سے کبھی لاہور کو اپنے آپ سے جدا نہ کر سکے ۔ روڈ ٹو پاکستان سے اپنی ادبی شناخت بنانے والے خشونت سنگھ ناصرف ایک ادیب اور صحافی تھے بلکہ سکھ ہسٹری پر ایک مستند تاریخ دان سمجھے جاتے ہیں ۔ بنگلہ دیش کے قیام کو سمجھنے کیلئے بھی خشونت سنگھ کی تحریروں کو ضرور پڑھنا چاہیئے۔ ان کی زندگی کی اس داستان میں وہی بولڈ انداز موجود ہے جو عام طور پر ان کی تحریروں کا خاصہ سمجھا جاتا ہے ۔ اور بہت سے لوگ سڈنی شیلڈن کے ناولوں کی طرح ان متنازعہ حصوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں ٹیبو سمجھے جاتے ہیں
سچ کا سفر: صدرالدین ہاشوانی
زندگی اور کاروبار کے اونچ نیچ پرلکھی ایک دلچسپ داستان۔ لیکن اس سے بڑھ کر پاکستان کے بہت سے گمشدہ اور پردوں میں چھپے انکشافات سے بھرپورکتاب ہے