Monday, September 25, 2017

کچھ نکسیر کے بارے میں



کچھ نکسیر کے بارے میں

ناک میں سے خون کا آجانا ایک ایسا مسئلہ ہے جو اکثر وبیشتر دیکھنے کو ملتا ہے۔یہ ایک معمول کا مسئلہ ہے جس کا اکثر بچوں کو سامنا کرنا پڑتاہے۔ اگر بچوں میں یہ مسئلہ کبھی کبھار پیش آئے تو زیادہ فکرمندی کی بات نہیں ہوتی لیکن بار بار ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیئے۔۔ کئی بار بڑوں میں بھی دیکھنے میں آجاتا ہے

نکسیر کیا ہے؟
اس مرض میں ناک کے اندر دباؤ بڑھ جانے سے کوئی کمزور یا نازک شریان پھٹ جاتی ہے جو اوپر والی جھلی کو پھاڑ کر بہنا شروع ہوجاتا ہے۔۔ خون کبھی قطروں اور کبھی دھار کی صورت میں بہتا ہے۔موسم گرما میں یہ تکلیف زیادہ ہوتی ہے تاہم موسم سرما میں بھی ہو جاتی ہے۔ عام طورپر چھوٹی عمر کے بچے اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

نکسیر کیوں پھوٹتی ہے؟
نکسیر کو اکثر گرمی سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن طبی طور پر نکسیر پھوٹنے کا سبب بچوں کی ناک کے اندر خون لے جانے والی نسوں کا کمزور ہونا ہے۔ اس عارضے میں مبتلا بچوں کی ناک کی خون کی نسیں پھول جاتی ہیں اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے یا پریشر بڑھنے ان سے خون بہنے لگتا ہے۔ دوسری وجوہات میں 
سر یا ناک پر چوٹ لگنا
ناک میں انگلی مار کر زخم کرلینا
ناک میں بہت زیادہ الرجی والے سپرے کا استعمال
ہڈی کا ٹیڑھا ہونا
ناک میں کسی انفیکشن یا پھنسی پھوڑے کا ہونا
اس کے علاوہ کچھ بچوں میں خون جمنے کا عمل سلو ہوتا ہے ان میں بھی ناک سے خون آنے کی شکائیت اکثر ہوتی ہے
بڑی عمر کے افراد میں نکسیر کی بڑی وجہ چوٹ کے بعد عام طور پر ہائی بلڈ پریشر کا مرض ہوتا ہے۔

خون کو کیسے روکا جائے:
اس کیلئے ڈھیڑوں ٹوٹکے بتائے جاتے ہیں لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عارضی فائدہ کسی مستقل عارضے کی بنیاد رکھ دیتا ہے۔اس لیئے سنے سنائے ٹوٹکوں سے مریض کو دور رکھیں 
ناک کو بہت زور سے نہ جھاڑیں
منہ کے ذریئے سانس لینے کا کہیں اور ناک کو دوانگلیوں کی مدد سے مضبوطی سے دس منٹ تک دبا کر رکھنے کو کہیں،اگر بچہ چھوٹا ہے تو خود دبا کر رکھیں
سر میں پانی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔البتہ ٹھنڈے پانی میں پٹیاں بھگو کر نتھنوں پر رکھیں. روئی سے بھی نتھنوں کو بند کیا جا سکتا ہے۔
دس منٹ بعد ناک کو چھوڑ کر دیکھیں اگر خون رک گیا ہے تو ٹھیک ورنہ دس منٹ مزید دبا کر رکھیں۔ناک کو 5 سے 10 منٹ تک مسلسل دبا کر رکھنا ضروری ہے
درمیان میں یہ نہ دیکھیں کہ خون رک گیا یا نہیں۔ اگر آدھے گھنٹے کے بعد بھی خون نہ رکے تو فوری طور پر قریبی میڈیکل سنٹر تک پہنچیں
بچاؤ:
عام طور پر عمر کے ساتھ یہ مسئلہ خود بخود بہتر ہوجاتا ہے۔
ناک کی جھلی خشک نہیں رہنی چاہیے. اس سے بچنے کیلئے سردیوں میں بھاپ کا استعمال کریں یا نارمل سیلائین کے قطرے ڈالیں. یا کاٹن بڈ پر ویزلین لگا کر ناک میں لگائیں۔یا انگلی کی مدد سے سرسوں کا تیل ناک میں لگا کر رکھیں
ایسے بچے جن کو نکسیر پھوٹنے کی اکثر شکائیت ہوجاتی ہے ان کو سٹرس پھل جیسے مالٹا کینو گریپ فروٹ کا استعمال زیادہ کروایا جائے تو نکسیر پھوٹنے کے واقعات کافی کم ہوجاتے ہیں
کچھ بچوں کا مرض خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ 
اس لیے بار بار نکسیر پھوٹنے کی صورت میں
یا نکسیر کے بہت زیادہ دیر سے رکنے کی صورت میں 
بچے کا اسپیشلسٹ سے تفصیلی معائنہ کروالیں، کیوں کہ ایسے بچوں کو مستقل اور بھرپور علاج کی ضرورت ہوسکتی ہے۔۔ 

Tuesday, September 19, 2017

کچھ وٹامن ڈی کے بارے میں



کچھ عرصے سے پاکستان میں وٹامن ڈی کی جسم میں کمی کے حوالے سے کافی فکرمندی پائی جارہی ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پچھلے دس سے پندرہ سالوں میں اس کے کمی کے شکار مریضوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔



وٹامن ڈی تھری کیا ہے؟
ہمارے جسم میں مختلف قسم کے وٹامن پائے جاتے ہیں۔جن کا کام جسم کے مختلف نظاموں کو چلانے میں مدد دینا ہے۔ایسا ہی ایک وٹامن ،وٹامن ڈی بھی ہے۔ یہ وٹامن مختلف صورتوں میں پایا جاتا ہے جیسے وٹامن ڈی ون، ٹو، تھری وغیرہ۔۔۔ وٹامن ڈی کا کام خون میں کیلشیم اور فاسفورس کی جسم کو درکار نارمل مقدار کو برقرار رکھنا ہے۔جسم میں پایا جانے والا ایک گلینڈ فیصلہ کرتا ہے کہ جسم کو کتنا کیلشیم درکار ہے اور وہ گردوں کو وٹامن ڈی کی ایکٹوو حالت تیار کرنے کا حکم دیتا ہے اور وٹامن ڈی ایکٹوو فارم میں خون میں کیلشیم اور فاسفورس کی مقدار کو ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کرکے دیتا ہے ۔
بچوں میں ناصرف ہڈیوں کے بننے کے عمل کیلئے کیلشیم بہت ضروری جزو ہےبلکہ دانتوں کی مضبوطی کیلئے بھی ۔ اور بڑوں میں یہ ہڈیوں اور پٹھوں کی مضبوطی کو برقرار رکھنے کیلئے بہت ضروری ہوتا ہے
نئی تحقیقات کے مطابق وٹامن ڈی قوت مدافعت میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس کے علاوہ دل اور پھیپھروں کو صحتمند رکھنے کیلئےاپنا کام کرتا ہے۔ علاوہ ازیں دماغ کی نشوونما میں بھی اس کے کردار کو تسلیم کیا جارھا ہے۔ بلکہ کینسر کی کچھ اقسام کوجسم میں قدرتی طریقے سے روکنے والے عوامل میں بھی وٹامن ڈی کو دیکھا گیا ہے



وٹامن ڈی کہاں سے آتا ہے؟
وٹامن ڈی ہماری کچھ غذائوں میں بکثرت پایا جاتا ہے ۔جیسے دودھ گوشت، مچھلی، دھی، پنیر، انڈہ،پالک،کلیجی، بادام۔
اس کے علاوہ سورج کی روشنی حاصل کرکے جسم خود بھی یہ وٹامن بناتا ہے۔



وٹامن ڈی کی کمی کن افراد کو ہوتی ہے؟
ایسے افراد جو ایسی خوراک کم استعمال کرتے ہیں جن میں وٹامن ڈی بہت کم پایا جاتا ہے۔جیسے سبزی خور
ایسے افراد جن کو سورج کی روشنی بہت کم میسر آتی ہے
بہت زیادہ موٹاپا
بڑھاپا
گردوں اور انتڑیوں کی کچھ پیدائشی بیماریاں 
ماں کا دودھ پینے والے ایسے بچے جن کی مائیں وٹامن ڈی کی کمی کا پہلے سے شکار تھیں یاایسے بچے جن کو لمبے عرصے تک ٹھوس غذا استعمال نہ کروائی جائے اور صرف ماں کے دودھ پر رکھا جائے۔



علامات
بچوں میں چونکہ ہڈیاں بننے کا عمل ابھی چل رھا ہوتا ہے اس لیئے وٹامن ڈی کی کمی کی علامتیں جلد محسوس کی جاسکتی ہیں ہیں۔جیسے ٹانگوں میں دردرہنا،سستی اور کاہلی کا شکار رہنا، تھوڑی سی مشقت پر تھک جانا۔ اگر لمبے عرصےتک کمی رہے تو ہڈیاں نرم اور کھوکھلی رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے ٹانگ کی ہڈیوں کا ٹیڑہ ہونا،ریڑھ کی ہڈی میں خم پڑنا، سر کا بڑھا ہوا محسوس ہونا۔ پسلیوں کا اندر کو دھنسنا۔ بعض اوقات ہڈیوں کا ہلکی سی چوٹ پر ٹوٹ جانا۔
بڑوں میں کمزوری کا احساس رہنا،جلد تھکاوٹ ہونا، کمر درد، پٹھوں میں کچھاؤ، ٹانگوں میں درداورمعمولی نوعیت کی چوٹ پر ہڈیوں کا ٹوٹ جانا 
وٹامن ڈی کی کمی سے قوت مدافعت میں کمی آجاتی ہے اور خصوصا بچے بار بار انفیکشن کا شکار ہورہے ہوتے ہیں



ایک نارمل انسان کو کتنا وٹامن ڈی روزانہ درکار ہے؟
ایک سال تک کے بچے کو 400انٹرنیشنل یونٹ روزانہ۔ ایک سال سے لیکر بڑھاپا شروع ہونے تک 600یونٹ اور بڑھاپے میں 800 یونٹ تک روزانہ درکار ہوتے ہیں۔حمل کے دوران بھی600 یونٹ درکار ہوتے ہیں۔



کمی کیسے پوری کی جائے؟
ایسی غذاؤں کو خوراک کا حصہ بنایا جائے جن میں وٹامن ڈی پایا جاتا ہے۔چونکہ یہ وٹامن چربی میں حل پذیر ہے اس لیئے ایک دفعہ اچھی مقدارکھانے سے کافی عرصے کیلئے جسم میں محفوظ ہوجاتی ہے۔
روزانہ دھوپ میں چہل قدمی یا دھوپ میں کچھ وقت گزارنا۔بچوں کو کپڑے اتار کر دھوپ میں روزانہ لٹایا جاسکتا ہے
وٹامن ڈی کو دوائی کی صورت استعمال کرنا۔



چونکہ وٹامن ڈی کی کمی کافی زیادہ دیکھنے میں آرہی ہے اس لیئے اگر بچوں کو روزانہ کی درکار مقدار باقائدگی سے دینا شروع کردیا جائے تو ان میں کمی سے ہونے والے نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔
یاد رہے وٹامن ڈی کی زیادہ مقدار نقصان دی ہوسکتی ہے۔علاوہ ازیں کچھ مریضوں کو کیلشیم کی کمی کا بھی سامنا ہوتا ہے۔اس کے علاوہ کیلشیم کو انتڑیوں سے جذب کرنے والے کچھ اجزا کی کمی بھی جسم میں کیلشیم کی کمی کا باعث بنتے ہیں ۔صرف وٹامن ڈی کا استعمال سودمند ثابت نہیں ہوگا۔ اس لیئے دوائی کے استعمال سے پہلے اپنی قریبی ڈاکٹر سے ضرور رجوع کرلیں
میم سین