Monday, October 16, 2017

قصہ ایک مثالی گائوں کا


کسی زمانے میں ماموں کانجن شہر کی شناخت اہل حدیثوں کا مشہور مدرسہ اور کجھور مارکہ صابن ہوا کرتے تھے۔ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ بہت بڑی عمارت میں صوفی محمد عبداللہ کے ہاتھوں وجود میں آنے ادارہ آج بھی موجودہے۔ کسی زمانے میں دنیا بھر سے طالب علم حصول علم کی خاطر اس چھوٹے سے قصبے کا رخ کیا کرتے تھے۔ جس کے زیر اہتمام ہونے والے سالانہ اجتماع میں ملک بھر سے لوگ شرکت کیا کرتے تھے اور میزبانی کی ذمہ داریاں صرف مدرسہ کی انتظامیہ ہی نہیں بلکہ پورا شہر اور ارد گرد کے گاؤں سنبھالا کرتے تھے لیکن حالات نے کروٹ بدلی تو اجتماع بھی ختم ہوگیا اور بیرونی ممالک سے طلبہ کے آنے پر بھی پابندی لگ گئی۔ 
اسی جامعہ کی عمارت کے سامنے حاجی دین محمد صاحب کےکجھور مارکہ صابن کے کارخانے کی بلڈنگ ہے۔جو اپنے معیار کی وجہ سے ایک عرصے تک اپنی پہچان آپ تھا ۔ فیکٹری تو خیر اب بھی چل رہی ہے اور کاروبار بھی لیکن اب مارکیٹنگ کا دور ہے اور اس کے مالکان آج بھی معیار کی بنیاد پر صابن بیچنے کی کوشش کررہے ہیں اور کچھ حاجی صاحب کی کاروبار سے علیحدگی کے بعد پہچان دھندلکوں میں گم ہوتی جارہی ہے۔
حاجی دین محمد صاحب سے آخری دنوں میں ان کے علاج معالجے کے سلسلے میں ملاقاتیں رہی ہیں ۔ بہت ہی نفیس انسان تھے۔آخری عمر میں گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے۔ ان کے ہاں جانے کا اتفاق ہوتاتو ان کی آنکھوں میں ایک چمک آجاتی۔جب  پوری ہمت جمع  کرکے بیٹھ کر سلام لینے کی کوشش کرتے تو بے ساختہ ان پر پیار آجاتا تھا۔اس قدر جامع انسان تھے کہ ان کی شخصیت  پر لکھنے کیلئے ایک الگ مضمون کی ضرورت ہے۔
لیکن چند سال پہلے سوشل میڈیا پر ایک مثالی گاؤں کی اخباری رپورٹ شائع ہوئی ۔جس  کے بعد مامونکانجن کی شناخت میں اس گاؤں کا ذکر ملنا شروع ہوگیا ہے۔کہیں بھی مامونکانجن شہر کا تذکرہ  نکل پڑے تو فورا مثالی گائوں کے بارے سوالات اٹھائے جاتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا کوئی گائوں علاقے میں موجود ہے۔چند دن پہلے انباکس بنوریہ ٹاؤن  مدرسے کے ایک طالب علم نے اس گاؤں کے بارے کچھ سوالات کیئے تو سوچا کہ اس پر کچھ لکھا جانا چاہیئے۔
صوفی عبداللہ صاحب نے 1931 میں اپنے مدرسے کی بنیاد اوڈاں والی 493 گ ب میں ہی رکھی تھی لیکن اس زمانے کے اکلوتے ذریعہ مواصلات ریلوے  سے کافی دور ہونے کی وجہ سے لوگوں کو مدرسے تک پہنچنے کیلئے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس کے پیش نظر  ریلوے سٹیشن کے قریب زمین خرید کر مدرسے کو    1964 میں وہاں منتقل کردیا گیا۔ لیکن گاؤں والوں نے پرانے مدرسے کو بند نہیں ہونے دیا اور مولانا یعقوب صاحب نے اس مدرسے کو جاری رکھا۔ ان کی رحلت کے بعد ان کے بیٹے حافظ امین صاحب نے اپنے والد کی ذمہ داریوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔
مامونکانجن میں کلینک شروع کرنے کے کچھ عرصے بعد  میں ٹریفک حادثے میں جانبحق ہونے والے ایک جواں سال  کے جنازے میں شرکت کیلئے اوڈاں والی جانے کا اتفاق ہوا۔ امام صاحب نے جس رقت آمیز لہجے میں مرحوم کیلئے دعائیں کرنا شروع کیں تو بے اختیار آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ایسے لگا جیسے اللہ سے مغفرت کا وعدہ لیکر ہی دعائیں ختم کریں گے۔ میرا اندازہ تھا کہ چونکہ جوان موت تھی اور وہ بھی ناگہانی تو شائد اسلیئے اتنے خشوع خضوع سے دعائیں کی گئیں ہیں لیکن دوبارہ پڑھنے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا وہ ہر جنازہ ہی اتنے خلوص اور درد کے ساتھ پڑھاتے ہیں۔
حافظ امین صاحب سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔ اور اوڈاں والی کو ایک مثالی گاؤں کی حیثیت دینے اور اسے برقرار رکھنے میں انہی باپ اور بیٹے کا سارا کردار ہے۔
ہمارے ہاں مثالی کا لفظ سن کر ذہن میں فورا خیال آتا ہے کہ شائد گاؤں کی ہر گلی پختہ ہوگی۔ پورے گاؤں کو سیوریج کی سہولت میسر ہوگی۔گھر گھر سوئی گیس موجود ہوگی ۔ بھرے بازار ہونگے۔ ہر گھر پکا ہوگا۔ ۔خواندگی کا تناسب سو فیصد ہوگا اور ہر دوسرا بندہ اعلی تعلیم یافتہ  ہوگا۔گائوں کی معیشت بہت بلند ہوگی۔ ہر گھرانے کا شمار صاحب ثروت لوگوں میں ہوتا ہوگا۔
 تو ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔ 
یہ وہ گاؤں  ہے جس کا کوئی جھگڑا آج تک تھانے نہیں پہنچا۔ہر تنازعہ مسجد میں طے پاجاتا ہے۔یہ وہ گاؤں ہے جس کی دکانوں پر سگریٹ کی فروخت ممنوع ہے۔جہاں صرف دو مسجدیں ہیں ایک تو وہ جس کے ساتھ مدرسہ منسلک ہے اور دوسری لوگوں کی سہولت کی خاطر گاؤں کے دوسرے کنارے کچھ عرصہ پہلے تعمیر کی گئی تھی لیکن اذان کیلئے اس کا سپیکر مرکزی مسجد سے منسلک ہے۔ یہ وہ گاؤں ہے جہاں بارات کے ساتھ بینڈ باجا لانے کی اجازت نہیں ۔اگر کسی نے ایسا کیا تو پورا گائوں اس گھرانے کا بائیکاٹ کردیتا ہے۔ ہر نکاح مسجد میں ہوتا ہے اور گاؤں کی اپنی جنازہ گاہ ہے ۔ وفات کا صدمہ کسی بھی گھرانے کو اٹھانا پڑے لیکن اس کے جنازے میں پورا گائوں شرکت کی کوشش کرتا ہے۔ گاؤں کا قبرستان انتہائی منظم اورقبریں انتہائی ترتیب کے ساتھ بنائی جاتی ہیں ۔پورے قبرستان میں کوئی قبر پختہ نہیں دکھائی دے گی۔ کیبل کا داخلہ تو ممنوع  تو ہے ہی ۔لیکن دوسرے گاؤں جانے کیلئے بھی کیبل کو گاؤں سے گزرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ پورے گاؤں میں ناجائز تجاوزات نظر نہیں آئیں گی ۔اس لیئے گاؤں کی گلیاں اور بازار آج بھی کشادہ نظر آتے ہیں اور کسی چوک میں نوجوانوں کی ٹولیاں کھڑی دکھائی نہیں دیں گی۔ ہاں بیٹھکیں آباد ہیں، جہاں خوب محفلیں جمتی ہیں۔ حافظ امین صاحب کے زیر نگرانی ایک انجمن کام کرتی ہے جو غریب بچیوں کیلئے شادی کا اہتمام کرتی ہے۔۔۔

بتانے کو شائد کچھ اور باتیں بھی ہوں  لیکن اہم بات یہ ہے کہ نظریات یا نظریاتی ہم آہنگی کسی بھی سماج کے دو فیصد سے بھی کم افراد کا مسئلہ ہوتا ہے۔ جو کہ حل کا متقاضی بھی نہیں ہوتا۔ اور معلوم تاریخ سے ہمیں یہ بھی پتا چلا ہے کہ نظریاتی ہم آہنگی ممکنات میں شائد کم ہی آتی ہے۔اوڈاں والی گائوں سے  میں دو سبق ڈھونڈتا ہوں ایک تنظیم اور دوسرا لیڈرشپ۔لہذا اگر اس گاؤں کو ایک چھوٹی اکائی تصور کر کے اس ڈھانچہ پر بڑے لیول پر ضروری تبدیلیوں کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے تو کیا وجہ ہےکہ ہم ایسے مثالی "گاؤں" تخلیق نہ کر سکیں۔
میم سین

Wednesday, October 11, 2017

تبصرہ کتب


Shelter Of The Golden Rosewood by Pritam Singh Mahna


فرام سپاہی ٹو صوبیدار، آٹوبائیوگرافی آف لطف اللہ اور ٹریولز ان انڈیا ایسی کتابیں تھیں کہ جنہوں نے مجھے سوانح عمریاں پڑھنے پر لگا دیا تھا۔اگرچہ ٹریولز ان انڈیا کا دوسرا والیم کوشش کے باوجود مل نہیں سکا اس لیئے اس کتاب کی تشنگی ابھی تک باقی ہے۔اور اب فیس بک کے توسط سےملنے والے پریتم سنگھ ماہنا کی اس کتاب نے ایک بار پھر سحر پھونکا ہے کہ کتاب کا پہلا صفحہ شروع کیا تو پھر ختم کرکے کی ہی اٹھا۔
شیلٹر آف دا روزوڈ جدوجہد کی ایک لازوال داستان ہے ہے۔جو پریتم سنگھ ماہنا کی زندگی پر مبنی ہے پاکستان میں منڈی بہاؤلدین کے ایک گاؤں میں ایک غریب کسان کے گھر آنکھ کھولی تو خود کو مصائب اور مسائل کے لمبے سلسلوں میں خود کو قید پایا۔لیکن یہ داستان ان کی پیدائش سے شروع نہیں ہوتی بلکہ کہانی کے سرے ان کے والد کی پیدائش سے بھی پہلے جڑےہوئے ہیں ۔مصنف نے واقعات کو غیر ضروری طوالت سے بچایا ہے۔ واقعات کے بیان میں بھی مقصدیت کو سامنے رکھا ہے۔ اسے کوئی افسانوی رنگ دینے کی کوشش نہیں کی ہے۔ کتاب کا آغاز ہی کچھ ایسا دلچسپ ہے کہ ایک بار جب پڑھنا شروع کریں تو پھر کتاب بند کرنے کی خواہش پیدا نہیں ہوتی۔تقسیم سے پہلے کی زندگی کی تلخیاں ،ہجرت اور اس دوران پیش آنے والے اندوھناک واقعات ۔ پناہ گزیں کیمپوں کے دردناک حالات، مسائل در مسائل۔پناہ گزیں کیمپ سے نکل کر جھگیوں تک کا سفر۔ اور تعلیمی مشکلات لیکن کوئی بھی تکلیف کوئی بھی رکاوٹ پریتم سنگھ ماہناکو آگے بڑھنے سے نہ روک سکی۔ 

یہ کتاب محض ایک شخص کی داستان حیات ہی نہیں ہے۔اور نہ ہی ایک شخص کی جدوجہد کا نام ہے۔ بلکہ یہ ایک تاریخی سند کا درجہ رکھتی ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے کا رہن سہن کیسا تھا، ایک عام آدمی کی مشکلات کیا تھیں، اسباب زندگی کیا ہوتے تھے۔ خواراک کے مسائل کیا تھے۔ رشتے کیسے نبھائے جاتے تھے۔ 
اس کتاب کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں تقسیم ہند کے وقت ہونے والی قتل وغارت کا ایک ایسا رخ بھی دکھایا گیا ہے جو شائد ان کیلئے بالکل نیا ہو جو تقسیم ہند کو صرف ایک زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ہندوستان منتقل ہونے کے بعد جن صعوبتوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہ سب کچھ پڑھ کر دل بھر جاتا ہے۔ ایک عجیب بے بسی اور بیچارگی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ لیکن جہدمسلسل، دیانت ، صداقت اور مصمم ارادوں سے سے جس مقام تک پہنچے وہ ناصرف سب کیلئے مشعل راہ ہے بلکہ زندگی میں کامیابی کے بنیادی اصولوں کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے

تقسیم کے بعد جب پہلی بار پریتم سنگھ ماہنا پاکستان آئے تواپنی روداد کو یوں بیان کیا

MY FIRST VISIT TO PAKISTAN AFTER THE PARTITION

In the year 1998, I received a telephonic invitation from the brother of my daughter-in-law's grandfather from Pakistan. After the partition, he had opted to continue to be there after embracing Islam.
To get a visa, I approached the Visa Officer in the office of the High Commission of Pakistan. He was, nevertheless, reluctant to issue the Visa without obtaining a verification from the Ministry of External Affairs in Islamabad and that would have taken about 6 months . I, therefore decided to blackmail him emotionally. I talked to him in Punjabi "Mainu bahut afsos lag riha hai ke saadi jis zameen te tusi Pakistan banaya, asin oh vekhan vi nahi ja sakde" (I am feeling tense to imagine that we cannot see our own land over which you have created Pakistan). Hearing this, he laughed a lot and ultimately, issued to me the visa instantly.
We (I alongwith my two brothers, one sister-in-law and my wife) reached CHAK 19 JANUBI, Padhiyawali, P.S. Kotmoman, Distt. Sargodha on 3rd March, 1998. The affection showered by the entire family there, is beyond description and in case I mention the details, the Post will be in a big volume.
The Head of the family Sheikh Ghulam Rasool (Original Hindu name: Hans Raj Oberoi) took over the charge of our tour to various destinations one of which was my home village Rukkan. He took out his own car and did not allow us to spend even a rupee from our pocket during the entire tour.
After showing us his Kinnoo Gardens in the village, and Sargodha
city, He took us to Rukkan, our native place (our actual native village was "Bhutta Mahnia da", but in the year 1921, my father had shifted to Rukkan). First of all, we entered my school then I studied in. All the teachers were so excited to meet us that they would not allow us to go till such time as we all had been served with tea and snacks. We were then taken to the Pori Family's Haveli. The host's family and friends were about 25 in number. We chatted a lot with them and each of them was overjoyed to meet us all. They served us with LASSI, Tea and snacks. Nevertheless, they were not prepared to believe that our speaking language was the same Punjabi as that of Rukkan.
The head of the Pori family Mr. Ghulam Qadir Pori, took us to our ex-houses. A large mob of people had gathered on the road and outside our ex-houses on learning about our arrival from India. We were then seen off. We had walked about 100 meters when we stopped in front of a shop of utensils. After buying a few, we were still in the process of making payment when the Poris came running and paid the money to the shopkeeper on our behalf.
While leaving Pakistan, we were required to get a clearance certificate from Police Station, Kotmoman. Here too, the Inspector on duty paid a lot of respects and regards and did not allow us to leave without serving refreshment. On coming out of the Police Station, we saw the kiosk owner outside and he too, with tears in his eyes, persuaded us to accept his tea, since, according to him, he was a very poor man and, thus, should not be discarded on account of his poverty. Besides, he gave us a few gifts before we left.
To return to India, we had to take a bus from Kotmoman, The entire family of Sheikh Ghulam Rasool had come to see us off. He purchased the tickets with his money and thus, we had not spent even a rupee while in Pakistan in the first week of March, 1998.The entire family had tears in their eyes.
How great the Pakistanis are in the matter of respecting the guests despite the fact that we were from a rival country.




کسی دوست کو پڑھنے سے دلچسپی ہے تو کتاب کیلئے مجھ سے یا مصنف سے براہ راست رابطہ کر سکتے ہیں 
میم سین
Pritam Singh Mahna