Thursday, December 27, 2018

صبر


یہ ابھی کچھ دیر پہلے کی بات کی ہے۔سرددر اور کمزوری کی شکائیت سے آنے والی مریضہ کو جب میں نے ٹینشن کم لینے اور خود کو مصروف رکھنے کا کہا تو مسکرا کرجواب دیا۔ کوشش تو کرتی ہوں لیکن کیا کروں؟ کبھی کبھی سوچ خود ہی آجاتی ہے ۔ اللہ نے تین بیٹے اور ایک بیٹی عطا کی تھی۔ ایک بیٹا قتل ہوگیا ، دوسرا ایکسیڈنٹ میں چلا گیا اور تیسرے کو بیماری کے بہانے اللہ نے واپس بلا لیا ۔ ایک بیٹی ادھر بیاہی ہوئی ہے۔ اس سے ملنے آئی تھی۔ کسی نے آپ کا بتایا تو چیک اپ کروانے ادھر آگئی۔
ایک دوست کے والد کہا کرتے تھے ۔کچھ باتیں ہم کتابوں سے سیکھتے ہیں کچھ تجربے سے اور کچھ لوگوں سے ۔
اور جو صبر کا سبق مجھے آج تک کوئی کتاب، کوئی وعظ ،کوئی نصیحت  نہیں سکھا سکی تھی ۔وہ مجھے اس خاتون کی ایک مسکراہٹ نے سکھا دیا

Sunday, December 2, 2018

ادھر ادھر سے

میرا سوچنے سمجھنے کا انداز بچپن سے ہی بہت سائینٹفیک رھا ہے۔مشاہدات کی روشنی میں پہلے ایک مفروضہ تیارکرنا اور پھر اس مفروضے کی تائید یا مخالفت میں شواہد ڈھونڈنا اور پھر نتیجہ اخذ کرنا۔ اس سائنٹفک اپروچ سے اخذ شدہ نتائج حتمی اور دیر پا ہوتے ہیں
یہ میرے بچپن کے بہت ابتدائی دنوں کی بات ہے جب ہم لوگ جہلم سے گرمیوں کے چھٹیاں گزارنے کمالیہ آیا کرتے تھے۔ ایک بار اپنے سلیپر کمالیہ بھول گیا۔ اگلے سال چھٹیاں گزارنے آئے تو سلیپر سائز میں بہت چھوٹے رہ گئے تھے جس سے میں نے مفروضہ بنایا کہ جوتے وقت کے ساتھ چھوٹے ہوتے جاتے ہیں اور چھوٹے ہوتے ہوتے وہ غائب ہوجاتے ہیں اور اس مفروضے کو تقویت اس بات سے بھی ملی کہ میں نے گھر میں پرانے جوتے کبھی نہیں دیکھے تھے
زمین کے گول ہونے کے بارے میں تھیوری کو کبھی میرے ذہن نے قبول نہیں کیا۔ اور بہت سال پہلےجس دن مسجد کے سب سے اونچے مینار پر چڑھ کر شہر کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تو میرا یقین اور بھی بڑھ گیا۔ کچھ عرصہ پہلے ڈرون اڑا کر میں نے اپنے مفروضے کی تائید میں مزیدشوائد اکھٹے کرنے کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ زمین ایک سیدھی پٹی ہے لیکن چونکہ فزکس کے بے شمار مسائل ایسے ہیں جن کو سمجھنے کیلئے زمین کو گول یا بیضوی قرار دینا ضروری ہے۔اس لیئے زمین کو فرضی طور پر گول قراردے دیا گیا ہے
سنا ہے کہ جس گھر میں کنیر۔ایلوویرا کا پودا ہو۔وہاں مچھر نہیں آتا۔ اس لیئے ایک گملے میں کنیر کا پودا لگا کر صحن میں رکھ دیا۔ جلد ہی بڑا ہوگیا بلکہ اس سے دو چار گملے اور بھی تیار کرلیئے ۔ جونہی گھر میں داخل ہوتا تو ان کی ہری بھری رنگت دیکھ کر موڈ پر ایک خوشگوار اثر پڑتا۔ جو بھی رشتہ دار ملنےآتا وہ ایک آدھ پودا مانگ لیتا ۔ سوشل سرکل بھی اس کے بہانے پھیلنا شروع ہوگیا اور فون پر سیاست اور موسم کی بجائے ایلوویرا کی ا فادیت پر بات چیت کیلئے ایک نیا موضوع مل گیا۔ جہاں تک اس پودے کی گھر میں موجودگی کے بعد مچھروں کی آمد کی بات ہے تو میرا خیال ہے وہ ابھی تک جاہل ہی ہیں اور پودے کی افادیت نہیں سمجھتے
مور چھپکلی شوق سے کھاتے ہیں اور اس لیئے سنا ہے جس کمرے میں مور کے پر ہوں اس کمرے میں چھپکلی نہیں آتی۔ کہیں سے دس پندرہ مور کےپر حاصل کرکے کمرے میں لگا دیئے ۔لیکن اکیلے پروں نے کچھ اثر نہ دکھایا لیکن جب ان کواکھٹا اس سوراخ پرپھنسا دیا جہاں سے وہ داخل ہوتی تھی تب سے غائب ہے۔ اور دھشت کچھ ایسی پھیلی ہے جب سے دسمبر شروع ہوا ہے سارے گھر سے غائب ہوچکی ہیں
کل شام سے لوگوں کے پرزور اصرار پر انڈےکے معیشت پر اثرات اور کٹے کے بنیادی حقوق کے حوالے سے سائنٹیفک بنیادوں پر سوچنا شروع کردیا ہے ۔ نتائج جلد شیئر کیئے جائیں گے
میم سین

Sunday, October 14, 2018

مغلوں کا ملک ریاض




میر جملہ کو ہم اورنگزیب کی آسام کی اس مہم کے حوالے سے جانتے ہیں جس میں عظم اور ہمت کی ایک ایسی داستان رقم کی گئی  جس کی نظیر تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ میر جملہ نے برسات کے موسم میں سپلائی لائن کٹ جانے کے بعد اپنی فوج کے ہمراہ جس طرح چھ ماہ جنگلوں میں گزارے اس پر ہالی وڈ کی ایک فلم ضروربننی چایئے تھی۔ 
میر جملہ ایک ایسا کردار جس کے بارے میں ہندستانی تاریخ میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں لیکن ایک فرنچ تاجر نے اپنی کتاب میں کافی تفصیل سے اس کے بارے میں لکھا ہے۔
 اونچے لمبے قد کا مالک ایک ایرانی تاجر جو ہیروں کی تجارت کرتا تھا۔گولکنڈہ کی ریاست میں کلرک بھرتی ہوا اور ترقی کرتے کرتے وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچ گیا ۔
 اس کی اپنی ذاتی جائیداد کا حساب نہیں تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ بیس من ہیروں کا مالک تھا۔ اس کی ذاتی جاگیر پانچ سو کلومیٹر لمبی اور آٹھ کلومیٹر چوڑی تھی۔ جس کی سالانہ انکم چالیس لاکھ روپے تھی۔سرکاری فوج کی سربراہی کے علاوہ اس کی ذاتی پانچ ہزار افراد پر مشتمل فوج تھی ۔جس کے پاس اسلحہ کے علاوہ گھوڑوں اور ہاتھیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ اور یوں ایک ریاست کے اندر ایک ریاست بنا رکھی تھی۔اس کے تجارتی جہازوں کا وسیع بیڑا تھا جن کے ذریعے دنیا بھر میں تجارت کی جاتی تھی۔ اپنے تجارتی راستوں کو سہولت دینے کیلئے دریاؤں پراپنے ذاتی خرچ سے پل بنوائے۔
میر جملہ کے اگر اورنگزیب کے ساتھ اچھے تعلقات تھے تو شاہجہاں اور دار کا بھی ہم رکاب تھا۔ہمسائیہ ریاستوں کے سربراہوں سے ذاتی دوستی تھی ۔بہت زیرک انسان تھا۔دنیا بھر میں تجارت کی وجہ سے ہر کلچر اور اور مختلف قسم کے معاشروں سے واسطہ تھا جس نے اسے ایک وسیع وژن دے رکھا تھا۔ جس کی وجہ سے ریاستوں کے گورنر اس کے مشوروں کو بہت اہمیت دیتے تھے بلکہ شاہجہاں خود اس کا کافی مداح تھا۔
اورنگزیب کے دھلی کے تخت پر بیٹھنے کے بعد اس کو باقائدہ فوج کی کمانڈ دے دی گئی اور پہلا مشن شجاع کی بغاوت کو کچلنے کا دیا گیا جو اس نے کامیابی سے پورا کیا۔ جس پر اسے بنگال کا گورنر تعینات کردیا گیا۔اور اپنی گورنر شپ کے دوران اورنگ زیب کو بہت سے علاقے فتح کرکے دیئے۔آسام کی غیر معمولی اعصاب کی اس جنگ میں بارشوں کے سیزن کے بعد جب دوبارہ آسام کی طرف مارچ شروع کیا تو آسام کے حاکم نے گھٹنے ٹیک دیئے ۔۔ حکومت کے دوران اس نے عوام کو بہت سی سڑکوں اور پلوں کا تحفہ دیا جو فوج کیلئے بھی ضروری تھے اور عوام کو بھی ان کا بہت فائدہ ہوا
اونگ زیب کی بدقسمتی میر جمعہ جیسا ذہین شخص اوررنگ زیب کے حکومت سنبھالنے کے صرف چھ سال بعد آسام کی مہم سے واپسی پر چل بسا
پس ثابت ہوا ہر دور میں ایک ملک ریاض ہوتا ہے جس کے کندھوں کو اس وقت کے حکمران استعمال کرتے ہیں۔

Thursday, September 20, 2018

قصہ ایک محبت کا


مغلیہ عہد میں ایک شہزادے کی ایک کنیزکے ساتھ عشق کی داستان اپنے دور میں اس قدر مشہور ہوئی تھی کہ زباں زد عام، اس کے قصے تھے۔ حتی کہ اس کی بازگشت دھلی کے شاہی دربار میں بھی  سنائی دیتی تھی۔

دکن کو جاتے ہوئے شہزادہ حضور، برہان پور اپنے ایک رشتہ دار کو ملنے کیلئے رک گئے۔  سیر  کرتے کرتے ایک دن اس باغ کی طرف نکل گئے جو حرم کی عورتوں کے لیئے مختص تھا۔ شہزادے کو اتنے قریب سے دیکھا تولڑکیاں بالیاں تو اپنے کام چھوڑ کر اسے تکنے لگیں اور سرد آہیں بھرنے لگیں لیکن ایک نوجوان لڑکی نے شہزادے کے موجودگی کو یکسر نظر انداز کردیا اور  بےنیاز قدموں سے چلتی ہوئی  آم کے ایک درخت پر چڑھ کر آم توڑنے لگ گئی۔سورج کی کرنیں گھنے درخت کے پتوں سے  چھن چھن کر اس کے شوخ سیمیں بدن کے ساتھ کھیل رہی تھیں ۔ کیا روح فرساں انداز تھا ماہ جبیں کا۔داخلی اور خارجی کشمکش کا حسین امتزاج ۔اور اتنی سنگین حقیقت کی تاب نہ لاتے ہوئےعالم وارفتگی میں شہزادہ بے ہوش ہوگیا۔

پتا چلا گیا کہ یہ حور صفت کون ہے؟ تو معلوم ہوا، عیسائی مغنیہ اوررقاصہ ہے جو برہان پور کے گورنر کی ملکیت ہے۔ نام اس کا ہیرا بائی ہے۔شہزادے نے اسے اپنے لیئے مانگ لیا اور نام اسکا زین آبادی محل رکھا۔کیونکہ جس باغ میں ایک روح دوسری روح سے ہمکلام ہوئی تھی۔ وہ زین آباد میں واقع تھا ۔
شہزادے پر اس کا عشق سر چڑھ کے ایسا دوڑا کہ ساری کائینات ہیچ ہوگئی۔اس کا قرب زندگی کی سعادت  بن گیا۔عشق بھی تھا اور صحبت بھی میسر تھی۔کئی ماہ تک، نہ دن کا ہوش رھا نہ راتوں کی خبر رہی۔شہزادہ بادہ کش نہ تھا لیکن ایک دن ماہ جبین نے شہزادے کا امتحان لینے کیلئے جام بڑھا دیا کہ مجھ سے کتنی محبت ہے؟ شہزادے نے ہاتھ میں پکڑ کر جام منہ کے قریب ہی کیا تھا کہ اس نے ہاتھ سے الٹ دیا اور کہا میں تو بس آپ کی محبت کا امتحان لے رہی تھی
لیکن صدیوں  کے اھساس سے سرشار، ان لمحوں کو گزرے ابھی ایک سال بھی نہ ہوا تھا کہ زینب آبادی محل چل بسی۔
شہزادہ اس کے غم میں کئی ماہ تک امور سلطنت سے بیگانہ رھا۔ کہتے ہیں شہزادہ اورنگزیب عالمگیر کی رقص اور موسیقی سے عداوت اس کے مرنے کے بعد شروع ہوئی تھی
لیکن اس بات کو سمجھنے سے میں قاصر ہوں کہ چار بیویوں، دس بچوں اور حرم میں سینکڑوں لونڈیوں، کنیزوں کی موجودگی کے باوجود وہ ایسی کونسی ایسی ماوارئی طاقت ہے کہ دنیا اور مافیہا کو بھول کر کوئی انسان کسی  ہستی  میں ایسے کھو جاتا ہے کہ جیسے  جسم ہی نہیں روحیں بھی ایک دوسرے میں تحلیل ہوگئی ہوں ۔کیا یہ بھی کوئی حقیقت ہے یا سچائی ہے جو پلک جھپکتے دل میں کپکپی اور روح میں گدگدی پیدا کردیتی ہے۔وجدان میں اتر کر اعصاب کو معطل کردیتی ہے۔
عشق نہ پچھے ذات، نہ دیکھے تخت، نہ ویکھے تاج۔



اوہ عشقا ! جیون جوگیا ، سانوں مار دِتّا ای تھاں

اسیں ماہی ماہی کُوکدے ، تیرا اُچّا کر گئے ناں


اوہ ہجرا ! مگروں لیہنیا ، ساڈے سِر تے تیرا وار

اسیں تیرے قیدی بن کے ، اج بازی بیٹھے ہار


اوہ رُتے نی مستانئیے ! نہ نویں بھلیکھے پا

فیر سانوں سجری مہک دے ، نہ ایویں پِچھّے لا


اوہ ویلیا ! ظالم ویلیا ، کیہ تیرا اے دستور

دو ہانی کھیڈاں کھیڈدے ، کر دِتّے کاہنوں دور


اوہ ویرنے ! دل دئیے ویرنے ایہ سارے تیرے غم

توں ہان بھُلایا ہان دا ، ایہ چنگا کیتا کم


اوہ موسما ! چیتر موسما ، اسیں بُھلّے تیرے پُھل

توں ساڈے پِچھّے سوہنیا ! نہ ککھاں وانگوں رُل


اوہ یار صفی مستانیا ، نہ عشق دی تار ہلا

اسیں تھکّے ٹُٹے ہجر دے ، تے مُکی پئی اے وا

Thursday, September 13, 2018

ہسٹری میڈ ایزی


شاہجہاں کے چار بیٹے تھے ۔ دارالشکوہ ، شجاع ، اورنگ زیب اور مراد۔
شاہجہاں کی ساری ہمدردیاں دارا کے ساتھ تھیں ۔دارا ایک پڑھا لکھا ،سمجھدار شہزادہ تھا لیکن اس کا ہندومت کی طرف رجحان بہت زیادہ تھا جس کی وجہ سے دوسرے شہزادوں، امرا اور عوام میں کافی تحفظات پائے جاتے تھے۔ اور یہی بات اس کے خلاف بغاوت اوراسکی شکست کا سبب بنیں ۔
پھر ایک دن اچانک بادشاہ بیمار ہو گیا اور اتنا بیمار کہ اس کے بچنے کی امید نہ رہی جس سے فائدہ اٹھا کر دارا نے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ جس کے مقابلے میں شجاع نے اپنے صوبے میں اور مراد نے اپنے علاقے میں اپنی تخت نشینی کا اعلان کردیا۔ اورنگزیب نے بادشاہت کا اعلان تو نہ کیا لیکن دارا کو وارننگ بھیجتا رھا کہ یہ سب کچھ قبل از وقت ہے۔ ابھی ایسا اعلان کردینا صرف جلد بازی ہے۔
ادھر شاہجاں کی صحت بہتر ہونا شروع ہوگئی لیکن اس نے دارا کا بھرپور ساتھ دیا۔ جس پر اورنگ زیب نے مراد کے ساتھ صلح کرکے دھلی پر فوج کشی کی تیاری شروع کردی۔ دارا  اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ شجاع کی سرکوبی کیلئے اپنے بیٹے سلیمان کے زیرنگرانی بھیج چکا تھا۔ اور شجاع شکست کھا کر پیچھے ہٹا تو سلیمان تعاقب میں دھلی سے بہت دور نکل چکا تھا۔  دارا جب  نگزیب اور مراد کے ساتھ لڑائی کیلئے نکلا تو بیٹے کیلئے اس کی مدد کیلئے پہنچنا ممکن نہیں رھا تھا۔ شاہ جہاں کی نصیحت کے برخلاف کہ بیٹے کی واپسی تک دھلی انتظار کرو، فوج لیکر اورنگ زیب سے لڑنے نکل پڑا۔
گھمسان کی جنگ ہوئی ابتدا میں پلڑا دارا کا بھاری تھا لیکن پھر مراد کی غیر معمولی بہادری سے جنگ کا نقشہ بدل گیا اور دارا کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ 
مراد اور اورنگزیب نے  جنگی میدان سے  آگرہ پہنچ کر شاہجہاں کے قلعے کا پانی بند کردیا۔جس پر بادشاہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگیا ۔اسی قلعے میں بادشاہ کو نظر بند کردیا گیا۔جہاں شاہجہاں نے زندگی کے باقی دس سال قید میں گزارے۔آگرہ سے اورنگ زیب اور مراد نے دھلی کیلئے سفر شروع کیا۔رستے میں اورنگ زیب نے دھوکے سے مراد کو اغوا کیا اور گوالیار کے قلعے میں نظر بند کردیا۔اور بعد میں ایک مقدمہ میں قصاص کی ادائیگی میں پھانسی پر چڑھا دیا
دارا کے خلاف ایک اور جنگ لڑی گئی اور وہ بھاگتا ہوا سندھ کے رستے افغانستان جارھا تھا لیکن بلوچستان میں ایک بلوچ سردار نے پکڑ کر اسے اورنگ زیب کی خدمت میں پیش کردیا جس کے بعد اس کا سرقلم کرکے شاہجہاں کی ناشتے کی میز پر سجا دیا گیا
شجاع کی بغاوت کچلنے کیلئے فوج بھیجی گئی اوروہ شکست کھا کر بھاگتا بھاگتا بنگال سے اراکان کے جنگلوں میں جا نکلا جہاں کہا جاتا ہے کہ وہاں کے مقامی لوگوں نے اسے قتل کر دیا
اور یوں اورنگزیب کے انچاس سالہ عہد کا آغاز ہوا
دارا کے بیٹے جس نے شجاع کی بغاوت کو کچلا تھا اسے گرفتار کرے جیل میں ڈالا دیا گیا جہاں زہر دے کر اسے مار دیا گیا
اپنے بیٹے محمد سلطان کو بھی بغاوت کے الزام میں گرفتار کرکے اسے زندان میں ڈال دیا تھا اورزندان خانے میں ہی انتقال کرگیا
ایک اور بیٹے محمد اکبر نے اورنگ زیب کے خلاف بغاوت کی تو شکست کھا کر باقی زندگی ایران میں گزاری
اور اورنگ زیب نے اپنی زندگی میں کسی بھی ایسے قابل بندے کو زندہ نہیں چھوڑا تھا جو اس کی بادشاہت کیلئے خطرہ ہو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے مرنے کے بعد ایک بھی شخص ایسا نہیں تھا جس کے اندر  صلاحیت ہوتی کہ وہ مغلیہ سلطنت کو سنبھال سکتا اور نتیجہ یہ نکلا کہ مغل سلطنت اورنگ زیب کی وفات کے بعد چند سالوں میں بکھر گئی اور ہندوستان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گیا اور انگریزوں کو ہندستان پر قبضہ کیلئے آسانی ہوگئ

Wednesday, September 12, 2018

المیہ


میں بہت کم سوچتا ہوں ۔لیکن کبھی کبھی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں۔
لگ بھگ ایک سال پہلے ایک نوجوان لڑکی میرے پاس آئی . جب اسے کہا کہ خود کو خوش رکھا کرو، ذہنی تناؤ سے بچا کرو، تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ تین ماہ پہلے میری شادی ہوئی تھی اور اپنے سسرال کافی خوش تھی ۔ ایک دن والد مجھے ملنے کیلئے آئے اور باتوں باتوں میں، میرے سسر کے ساتھ لڑائی ہوگی۔اور مجھے اپنے ساتھ لے آئے کہ اس گھر میں اپنی لڑکی نہیں چھوڑ سکتا۔سارے خاندان نے صلح کیلئے کوشش کی لیکن میرے والد اور سسر اپنی انا سے دستبردار نہیں ہوئے اور اب خلع کا دعوی کردیا گیا ہے۔
میں نے اسے سمجھایا کہ اپنے خاوند سے بات کرو کہ وہ الگ گھر لے کر تمہیں لے جائے ۔جس پر اس نے بتایا کہ وہ تو کئی بار چھپ کر مجھے ملنے آچکا لیکن اس میں پنے والد کی ناراضگی مول لینے کی ہمت نہیں ۔
خیر سمجھا بجھا کر بھیجا کہ حوصلہ رکھو انشاللہ کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔
کل جب ایک لڑکی کو شدید ذہنی ٹینشن میں لایا گیا تو پہلی نظر میں اس کو پہچان نہیں سکا کیونکہ نقاب نہیں لیا ہوا تھا اور اس کے ساتھ اس کی بوڑھی ماں اور ایک چھوٹی عمر کا ایک بھائی تھا۔ کچھ سنبھلی تو بتایا کہ اس کی خلع ہوگئی ہے اور آج جہیز کا سامان واپس پہنچ گیا ہے۔
میں تب سے سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ قصور کس تھا؟
 لڑکی یا لڑکے کے باپ کا۔جنہوں نے ایک بسا ہوا گھر اجاڑ دیا یا پھر اس لڑکے کا جس نے اپنی بیوی کو تحفظ دینے سے انکار کردیا۔۔
یا پھر اس سماج کا جس کی بندشیں روایات کے نام پر استحصالی نظام کی وہ بدترین شکل قائم کئے ہوئے ہیں جسمیں کوئی شخص ذاتی فیصلے لینے کا اہل بھی نہیں رہتا۔
یا قصور وار یہ معاشرہ ہے جس میں دو افراد جن کی زندگیوں کی شروعات کے ضامن رب اور رسول ہیں لیکن وہ دو افراد بھی اپنی زندگیوں کے فیصلے خود نہیں کرسکتے۔
 یا قصور وار وہ نظام ہے جس میں ہم اپنے بچوں کو محبت کے نام پہ اتنا مفلوج اور معاشی طور پر اپاہج کردیتے ہیں کہ نہ وہ مکمل جنم لیتے ہیں نا آزادی۔
میم سین

Monday, September 10, 2018

ہسٹری میڈ ایزی


اکبر بادشاہ کو ہماری نئی نسل زیادہ تر جودھا بائی کے حوالے سے جانتی ہے جو شہزادہ سلیم کی ماں تھی ۔ لیکن مغلیہ تاریخ کی کسی بھی مستند کتاب میں جودھا بائی کا نام نہیں ملتا۔ بلکہ شہزادہ سلیم کا نام بھی یا بالکل بچپن کے دنوں میں ملتا ہے یا اس کا تذکرہ ملتا ہے جب  شہزادے نے فرسٹیٹ ہوکر  اپنے باپ کے خلاف بغاوت کردی تھی

کون جانتا تھا گھر سے بے گھر، ہمایوں کے ہاں سندھ میں عمرکوٹ کے مقام پر پیدا ہونے والا بچہ آنے والے دنوں میں پورے ہندستان میں حکومت کرے گا ۔جو  ایک ایسی مضبوط حکومت کی بنیاد رکھے گا جسکی وجہ سے مغلیہ حکومت کو ہندستان سے اگلے تین سو سال نکالا نہیں جاسکے کا۔ کابل سے قندھار تک ، بہار سے بنگال تک۔ کشمیر سے مکران   تک ۔ دھلی سے گجرات اور راجھستان دکن تک کی ریاستوں تک ایک عظیم اور مضبوط سلطنت کی ناصرف بنیاد رکھی بلکہ اس کو بہترین ایڈمنسٹریشن مہیا کی۔ اکبر کے زمانے  کا ہندستان دنیا کی سب سے طاقتور ریاست کا درجہ حاصل کرچکا تھا۔
بادشاہ تھا مرضی کا مالک۔ جہاں بے شمار بڑی بڑی عمارتیں بنوائیں وہیں اس کو اپنے باپ کا دارلحکومت پسند نہ آیا تو آگرہ سے کچھ فاصلے پر سکری میں ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی اور اسے اپنا دارلحکومت بنالیا۔ بادشاہ سارے مذاہب کو اہمیت دیتا تھا۔کبھی لگتا تھا بادشاہ پارسی ہوگیا ہے تو کبھی جین مت میں داخل ہوگیا ہے۔ کبھی ہندؤں کے قریب لگتا تھا تو کبھی پرتگال سے آئے راہبوں کو یقین مل جاتاتھا جلد بادشاہ عیسائیت قبول کرلے گا۔ لیکن بادشاہ کو اپنی حکومت مضبوط کرنا تھا سو سب کو لالی پاپ دے کر رکھتا تھا۔ اپنی حکومت کو مضبوط رکھنے کیلئے ۔ہندو گھروں میں بھی شادیاں کیں ۔ اور ہندؤں کو کلیدی عہدوں پر ترقی دی ۔ہندوئوں کو خوش رکھنے کیلئے بے شمار اقدامات جیئے۔ لیکن جس طرح مسلمان علما اور اولیا کرام کا احترام کرتا تھا اور ان کی خدمت میں حاضری دیا کرتا تھا اس سے اس کی اسلام پسندی کا جذبہ بھی رد نہیں کیا جاسکتا تھا۔
بہت زیرک انسان تھا جب جہانگیر نے بغاوت کی تو اس کے خلاف جنگ نہیں کی۔ اس نے اکبر کے بہترین دوست ابولفضل جس شمار اکبر کے نورتنوں میں ہوتا تھا، کو مروا دیا جس کے غم میں بادشاہ کی کمر ٹوٹ گئی لیکن پھر بھی جہانگیر کے خلاف فوج کشی سے پرہیز کیا ۔ حرم کی عورتوں  نے تعاون کیا اورجہانگیر سے معافی دلوائی۔ کیونکہ اکبر جانتا تھا کہ آپس کی لڑائی سلطنت کو کمزور کردی گی اور اور عالمگیر کےمقابلے میں اس کے  بیٹے خسرو کو بادشاہ بنانے کی خواہش سے دستبردار ہوکر مغل عہد کو دوام بخشا۔ 
میں جب تاریخ کے صفحے کھنگال رھا  ہوتا ہوں تو مجھے عموما اس سے کوئی سبق حاصل کرنے کا زیادہ شوق نہیں ہوتا ۔میری  ماضی کے شعور کو سمجھنے کی ایک کوشش ہوتی ہے جن کے زیر اثر اس زمانے کی فیصلے کیئے گئے ہوتے ہیں۔ ماضی کی ضروریات کو سمجھنا اور ان کیلئے اقدامات کو اس زمانے کے شعور کے ساتھ سمجھنا۔ لیکن اس کوشش کے دوران بہت سے واقعات ایسے مل جاتے جن سے محظوظ بھی ہوتا ہوں اور کبھی کبھی عبرت بھی ملتی ہے
 کئی دن سے اکبر کی زندگی  پڑھ رھا تھا۔ اس کے کی زندگی کے اہم واقعات، فیصلے ، لڑائیاں بغاوتیں، انتظام کوئی پچاس سالہ حکومت اور تریسٹھ سالہ زندگی کے جب سارے باب ختم ہوگئے تو ایک ایسا واقعہ نظر سے گزرا جس کو پڑھ کر ناصرف ایک اداسی چھا گئی بلکہ انسانی بے چارگی لاچارگی کا پہلو سامنے آگیا۔
اکبر کے انتقال کے بعد اس کو آگرہ کے شہر سکندرہ میں ایک مقبرہ میں دفن کردیا گیا تھا۔جو اس نے اپنی زندگی میں ہی بنوا رکھا تھا۔ جس پرسونے چاندی کا کافی کام کیا گیا تھا۔قیمتی قالین بچھائے گئے تھے۔ جہانگیر بادشاہ بنا پھر اس کے بعد شاہجہاں اور اس کے بعد اورنگ زیب عالمگیر۔اکبر کے مرنے کے کوئی پجھتر سال بعد مقامی جاٹ قوم نے راجارام جاٹ کی قیادت میں اورنگ زیب سے بغاوت کردی اور آگرے پر قابض ہوگئے۔ انہوں نے نہ صرف تاج محل کو نقصان پہنچایا بلکہ اکبر کے مقبرے پر جاکر سونا چاندی قالین لوٹ کر قیمتی لکڑی کو آگ لگا دی ۔ میناروں پر توڑ پھوڑ کی اورعمارت کو بھی کافی نقصان پہنچایا  اور قبر سے بادشاہ کی ہڈیاں نکال کر ان کو جلا دیا گیا۔ 

Saturday, September 8, 2018

تاریخ کا المیہ



تاریخ کا المیہ:

اگر میں اپنی زندگی کے گزارے گئے چالیس سالوں کو تین سو پینسٹھ دن شمار کروں اور پھر زندگی کے اہم واقعات کی فہرست بنا کر اس پر کوئی کتاب لکھوں تو ایسے واقعات زیادہ سے زیادہ تیس دن بن جائیں گے چلیں مزید کچھ اضافہ کرلیں تو یہ پچاس دن بن جائیں گے۔اور جب دنیا میری زندگی کو پڑھے گی تو ان کو وہ پچاس دن معلوم ہوجائیں گے لیکن میری زندگی کے جو تین سو پندرہ دن باقی رہ جائیں گے اس سے کسی کو شناسائی نہیں ہوگی اور ان کے بارے میں کوئی نہیں سوچے گا۔حالانکہ وہ میری اصل زندگی ہے جو میں نے گزاری ہے۔

اور یہی تاریخ کاالمیہ ہے
جب ہم خاندان عباسیہ ، خاندان امیہ کی تاریخ کو مرتب کرتے ہیں تو ہمیں سال کے پچاس دن مل جاتے ہیں جو ظلم، جبر اور قتل وغارت سے بھری پڑی ہے لیکن وہ تین سو پندرہ دن جن میں راز پوشیدہ تھے ،مدینہ سے سے شروع ہونے والے ریاست کی سرحدیں افریقہ اور یورپ تک پہنچنے کے ،وہ کسی کو دکھائی نہیں دیتے

یہی حال ہندستان کی تاریخ کا ہے اور یہی سلطنت عثمانیہ کا۔ ہمارے سامنے وہ پچاس دن رکھ کر باقی سوا تین سو دن نظروں سے اوجھل کردیئے جاتے ہیں۔

اکبر کے دین الہی کو تو سبھی جانتے ہیں۔اسے کافر قرار دینے والوں کی بھی کمی نہیں۔کیونکہ وہ سب پچاس دنوں پر لکھا گیا ہے لیکن ہمارے علم میں وہ انتظامی فیصلے،ادارے، وہ اصلاحات سامنے نہیں آتیں جن کی بدولت پچاس سال تک کابل سے بنگال تک حکومت کی رٹ قائم رکھی گئی کیونکہ وہ سب بھی تین سو پندرہ دنوں پر مشتمل تھے ۔۔

میرا سلطان کی بدولت حرم کی سازشوں اور حرص اور ہوس کی داستانیں تو سب جانتے ہیں۔ لیکن سلطان کو سلیمان دا مگنیفیشنٹ کس نے بنایا تھا۔ہمیں ان سے کبھی آگائی نہیں ہوئی۔ شائد بہت کم لوگ جانتے ہیں میرا سلطان کے بادشاہ کی سلطنت اپنے زمانے کی روئے زمین پر سب سے بڑی، مضبوط اور طاقتور ریاست سمجھی جاتی تھی۔ اور اس کے پیچھے کون سے کون سے راز تھے ہم تاریخ کے ان سوا تین سو دنوں میں میں کھو دیتے ہیں ۔

تاریخ ہمیں آئس برگ کی صرف ٹپ دکھاتی ہے اور ہمارے ذہنی مرعوبیت کا شکار، احساس کمتری میں مبتلا دانشور اس ٹپ کو اٹھا کر پورے آئس برگ کی ساکھ کو گہنا دیتے ہیں

اور یہی تاریخ کا ایک دردناک المیہ ہے

میم سین

Tuesday, September 4, 2018

ہسٹری میڈ ایزی...





آپ نے بچپن میں اکثر ایسی کہانیاں سنی ہونگی. جس میں شہزادی کو ایک جن اٹھا کر لیجاتا ہے اور پھر کوئی لکڑہارا یا کسی دور کی بستی کا شہزادہ اسے بازیاب کرواتا ہے اور بادشاہ اور ملکہ اپنی بیٹی کی شادی اس سے کروا کر خود حج کرنے چلے جاتے تھے ۔ تو آج ہم آپ کو بادشاہوں کے اس حج کے راز کے بارے میں بتاتے ہیں ۔
اگر بیرم خان نہ ہوتا توآج تاریخ کی کتابیں مغلیہ عہد کا سرسری ذکر کرکے آگے بڑھ گئی ہوتیں ۔جس دن ہمایوں سیڑھیوں سے گرنے کے بعد کچھ دن زخمی رہنے کے بعد انتقال کرگیا تو اس وقت اکبر صرف چودہ سال کا تھا اور بیرم خاں کے ساتھ ستلج کے کنارے پنجاب کے علاقے میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ہمایوں کی وفات کو کافی عرصے تک خفیہ رکھا گیا۔ ایک شخص روزانہ ہمایوں کے حلیہ میں تمام ضروری کاروائیوں کا حصہ بنتا جو ہمایوں کے معمولات کا خاصہ تھا۔ اور بیرم خان برق رفتاری سے اکبر کو لیکر دھلی کی طرف روانہ ہوا اور ہمایوں کی وفات کا اعلان کرکے اکبر کی تخت نشینی کا اعلان کردیا۔
بیرم خان ترک النسل اور بخارہ کا باشندہ تھا اور ایرانی بادشاہ کا سالار تھا۔ بابر بادشاہ کی سمرقند مہم میں بیرم خان کو مدد کیلئے بھیجا گیا۔ بابر اس کی صلاحیتوں سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے بیرم خان کو اپنے ساتھ کام کرنے کی درخواست کی اوریوں بیرم خان بابر کے ساتھ ہندستان آگیا۔بابر کے ساتھ اس نے کیا کارنامے سرانجام دیئے تاریخ خاموش ہے ۔ لیکن جب ہمایوں نے گجرات کی مہم کا آغاز کیا تو بیرم خان پہلی مرتبہ ایک اہم کمانڈر کی حیثیت سے سامنے آیا۔ اس کے بعد جب ہمایوں کو سیر شاہ سوری سے شکست ہوئی تو یہ یہ بیرم خان ہی تھا جس نے ہمایوں کو سندھ تک پہنچایا اور پھر ایران کے بادشاہ کے ساتھ تعلقات بنا کر دیئے اور بادشاہ کو ایران میں سیاسی پناہ دلوائی۔ اور پھر ایرانی شاہ کی مدد سے ہمایوں نے اپنی فتوحات کا دوبارہ آغاز کیااور دوبارہ دہلی کی سلطنت پر قابض ہوا۔اکبر کی پیدائش ہمایوں کی جلاوطنی کے دور میں ہوئی تھی. کابل کی فتح کے بعد اکبر کو باقائدہ بیرم خان کی سرپرستی میں دے دیاگیا۔
جس وقت ہمایوں کی موت واقع ہوئی بیرم خان کیلئے سلطنت پر قابض ہوجانا کوئی مشکل کام نہیں تھا لیکن اس نے نمک حلالی کا ثبوت دیتے ہوئے اکبر کو دھلی لاکر اسے تخت پر بٹھایا اور اگلے چار سالوں میں پنجاب، گوالیار، اجمیر اور بہت سے علاقے فتح کرکے دھلی کی سلطنت کو وسیع کر کے دیا۔۔
لیکن اکبر بادشاہ کو بیرم خان کی یہ چاپکدستی اور سلطنت کے امور میں مداخلت کچھ پسند نہیں آرہی تھی اور دبے الفاظ میں اسے اپنی اوقات میں رہنے کیلئے اشارہ دیتا رہا لیکن جب بیرم خان نہیں مانا تو پھر ایک دن اسے بلا کر کہا ..
تسی سلطنت دی بہت خدمت کرلئی جے۔ تے ہن کچھ اللہ اللہ کرو
جاکر حج کرکے آؤ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب حج کا سفر بہت طویل اور بہت پر خطر سمجھا جاتا تھا۔حج پر جانے سے پہلے آخری ملاقاتیں کر لی جاتی تھیں۔اورآج بھی حج پر جانے سے پہلے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقات کی یہ رسم کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ ۔ بے یقینی ہوتی تھی کہ پتا نہیں حاجی صاحب کا دوبارہ چہرہ دیکھنا بھی نصیب ہوگا یا نہیں ۔بیرم خان گھاگ بندہ تھا بادشاہ کی نیت جان گیا اورحج پر جانے سے انکار کرکے بغاوت کردی لیکن شکست کھائی اور چاروناچارحج کیلئے نکلنا پڑا۔
بیرم.خان نے ساری دنیا سے پنگے لیئے ہوئے تھے اور ہر جگہ دشمنیاں پال رکھی تھیں . گجرات سے گزرتے ہوئے اس کی علاقے میں موجودگی کی مخبری ہوگئی کہ اور سوریوں کے ایک کمانڈر کی موت کا بدلہ بیرم خان کو قتل کرکے لے لیا گیا اوراطلاع ملنے پربادشاہ سلامت نے "جو اللہ کی مرضی " کہہ کر اپنے دربار میں مصروف ہوگیا..
میم.سین

Wednesday, June 13, 2018

بات سے بات


کل عید ہے ۔ چلیں کل اگر عید نہ بھی ہوئی تو پرسوں تو ہوہی جائے گی۔
عید کے موقع پر ایک دوسرے کو تحفے بھیجنے ، مٹھائیاں، بانٹنے اورآجکل کیک بھیجنے کی روایت کافی پرانی ہے۔یہ کافی پرانی بات ہے شائد ہمارے بچپن کی.جی ہمارا بھی ایک.بچپن تھا ۔ ابو کے ایک دوست کے ہاں کسی نے سپیشل مٹھائی بھیجی جو انہوں نے عید کی مناسبت سے ہماری طرف بھیج دی ۔ شائد ہم بھی کہیں فارورڈ کردیتے لیکن کسی وجہ سے پیکنگ کھولنی پڑی۔ بہت خوبصورت گفٹ پیپر میں لپٹے ڈبے کو اگرچہ کھولنے کو دل تو نہیں کر رھا تھا لیکن جب گفٹ پیپراتارا تو اندر سے ایک عید کارڈ اور پانچ سو روپے عیدی نکلی۔جس کے بعد ہمیشہ کیلئے ایسے گفٹ فارورڈ کرنے سے پہلے نئی پیکنگ کی روایت رکھ دی ۔
تایا کی بیٹی کی شادی میں شرکت کیلئے ہوسٹل سے سیدھا ان کے ہاں پہنچا تو انہوں نے میرے اس قدم کی خوب پزیرائی کی اور واپسی پر سب خوبصورت پیکنگ والا مٹھائی کا ڈبہ ساتھ دیا جو وزن میں بھی یقیناًسب سے بھاری تھا۔لیکن جب ہوسٹل آکر دوستوں کو مٹھائی تقسیم کرنے کی غرض سے ڈبہ کھولا گیا تو اندر سے لڈو نکلے اور دوستوں نے تاحیات ہوسٹل سے شادیاں اٹینڈ کرنے پر پابندی لگا دی۔
ہمارا ایک دوست تھا ۔وہ جب وجد میں آتا تھا یا موڈ کے انتہائی اونچے نوڈز میں ہوتا تھا تو بلند آواز میں کاریڈور میں یا باتھ روم میں گانا شروع کردیتا تھا لیکن آواز کے سر اتنے خراب تھے کی ایک بار سب دوستوں نے اس کے گانے پر پابندی لگا دی کہ آئیندہ سے کمرہ بند کرکے بھی نہیں گانا۔ اس معاملے میں, میں خوش قسمت واقع ہوا تھا کہ مجھے کمرے کو کنڈی لگا کر گانے کی اجازت مل گئی تھی۔ کسی زمانے میں یقین کی حد تک وہم تھا کہ میری آواز سہگل سے بہت ملتی ہے۔ چھپو نہ چھپو نہ او پیاری۔۔۔۔ ایک دن اپنے یقین کے بارے ایک دوست سے مشورہ کیا تو اس نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا کہ اس میں قصور سہگل کی آوازکا نہیں تھا بلکہ اس زمانے میں ریکارڈنگز ہی اتنی خراب ہوتی تھی۔
ابھی جب ان پیج پر لکھنے کا ہنر نہیں آیا تھا تو اس وقت اپنی تحریریں اپنی آواز میں ریکارڈ کرکے ایک ویب پیج پر اپلوڈ کردیتا تھا۔ یہ فیس بک کے ابتدائی دنوں کی بات ہے جب اپنی گھریلو سبزیوں کی کاشت کے حوالے پوسٹیں لگائیں تو ایک خاتون نے رہنمائی کیلئے انباکس رابطہ کیا۔باتوں کے دوران جب انہوں نے پوچھا کہ باغبانی کے علاوہ کیا مصروفیات ہیں تو جھٹ سے اپنی آڈیو فائلز کا لنک بھیج دیا۔چند دن بعد ان کی طرف سے ایک ریکوئسٹ موصول ہوئی کہ اگر فلاں آڈیو والی تحریر ان پیج کردیں تو مہربانی ہوگی۔ اور اگلے ہی لمحے ان پیج پر مصروف ہوچکےتھے۔دو تین دن لگا کر ایک ڈیڑھ صفحے کی تحریر کو کی بورڈ سے کمپیوٹر سکرین پر منتقل کردیا۔ ٹاسک تو مکمل ہوگیا لیکن ہاتھ کی انگلیاں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں اور اپنی ساری تحریریں اپنی ڈائری سے اٹھا کر کمپیوٹر میں محفوظ کرلیں۔ 
ایک بلاگ بنا رکھا تھا جو دراصل میری ڈیجیٹل ڈائری تھی جس میں تصوریریں ویڈیوز، اقتباسات، شاعری پوسٹ کیا کرتا تھا۔وہ سب وہاں سے ڈیلیٹ کیا اور اپنی تحریریں وہاں سجانا شروع کردیں۔کچھ دوستوں کو لنک بھیجا تو ایک مہربان نے مشورہ دیا کہ کہاں چھپے بیٹھے ہو ۔ ان کو فیس بک پر شیئر کرو۔ ڈرتے ڈرتے فیس بک پر شیئر کرنا شروع کیا تو حوصلہ افزائی پا کر باقائدہ لکھنا شروع کردیا۔
پھر ایک دن کسی نے چورنگی نام کے ایک گروپ میں ایڈ کردیاتو فیس بک کی ایک نئی دنیا کا علم ہوا۔وہاں سے آواز سے ہوتے ہوئے بے شمار گروپوں تک رسائی حاصل ہوئی۔ ان گروپس کی بدولت بہت سے نئے لوگ ملے ۔ نئی سوچ، نئے انداز زندگی اور نیا فہم ملا۔ان لوگوں کے بارے میں کسی دن تفصیل سے لکھوں گا کہ جن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ جن کی بدولت دماغ کی بہت سے بتیاں روشن ہوئیں۔ اور سوچ کے بے شمار نئے زاویے دریافت ہوئے۔
کل عید ہے۔ اور اگر کل عید نہ بھی ہوئی تو پرسوں ہوجائے گی اور ہماری فیس بک سے وابستگی کے دس سال بھی مکمل ہوجائیں گے.
میم.سین

Sunday, March 18, 2018

ایک لازوال داستان


یہ ان دنوں کی بات ہے جب  سبزی فروشوں نے پرائیویٹ سیکورٹی رکھنا شروع کر دی تھی

جب ٹماٹر کے کاشکاروں نے کھیتوں کے اردگرد خاردار تار بجھا کر کرنٹ چھوڑ رکھا تھا

یہ ان دنوں کی بات ہے جب جہیز کی فہرست میں لوگوں نے  ٹماٹروں کو سرفہرست رکھنا شروع کردیا تھا

جب ڈاکو گھروں میں گھس کر لوٹ مار کرنے سے پہلے گھر کے کچن میں ٹماٹروں کو تلاش کیا کرتے تھے

یہ ان دنوں کی بات ہے جب نوجوان اپنی پہلی تنخواہ سے ٹماٹر خرید کر والدین کو گفٹ کرنے کے خواب دیکھا کرتے تھے

جب خاوند ناراض بیویوں کو منانے کیلئے دفتروں سے گھر کا رخ  کرنے سے پہلے  ٹماٹر خریدنے کیلئے منڈی کو نکل جایا کرتے تھے

یہ ان دنوں کی بات ہے جب سبزی کی دکان پر کھڑے ہوکر ٹماٹروں کو دیکھ کر لوگ سرد آہیں  بھرا کرتے تھے

جب لڑکے آسمان سے تاڑے توڑ کر لانے کا وعدہ  کرنے کی بجائے  ٹماٹر لا کر دینےکی آس  دلا کر لڑکیاں پھنسایا کرتے تھے

یہ ان دنوں کی بات ہے

جب ہم نے دوبارہ ٹماٹر اگانے کا فیصلہ کیا۔

جہاں ہمارے اس فیصلے پر گردونواح میں خوشی کی شدید لہر دوڑ گئی وہیں اس فیصلے سے ہمارے ضمیر نے ہمیں تھپکی دے کر بتایا کہ اس قوم کا اگر کوئی مسیحا ہے تو وہ صرف تم ہی ہو۔ ہم جو مصیبت کی ہر گھڑی میں، مشکل کی ہر دوڑ میں اس قوم کے مسائل کے سامنے سینہ سپر ہوئے ہیں تو اس بہادری عزم صمیم اور لازوال قربانیوں نے ہمیں یہ رتبہ عظیم بخشا کہ ہم اس قوم کی مسیحائی کرسکیں۔

لہذا ہم صبح تہجد کے وقت اٹھے اس قوم کے گناہوں کی معافی مانگی۔ اوزار سنبھالے، بیج لیےاکیلے ہی جانب منزل گامزن ہوئے۔

منزل مقصود پر پہنچ کر ہم نے زمین کے ساتھ مختصر خطاب کیا جس میں اسے بتایا گیا کہ اس کی ذمہ داری کیا ہے اور ہماری اس سے کیا توقعات ہیں۔پانی دے کر زمین کی صدیوں کی پیاس بجھائی۔ بیج ڈال کر اسے معتبر کردیا اور مٹی اور کھاد کے ساتھ زمین کی آبیاری کی۔

پھر کسی پریمی کی طرح ان کے گرد منڈالتے کئی ہفتے گزار دیئے۔ کبھی چھپ چھپ کر اور کبھی سامنے آکر دیکھتے رہے۔مستقبل کا خوف دل میں چھپائے۔اردگرد پھیلی ناکامیوں کے درمیان امید کے دیئے کو بجھنے سے بچانے کی جستجو میں لگے رہے ۔مجھے معلوم ہے بدھ نے ایک درخت کے نیچے نروان کا گیان پایا تھا ۔اب میری آتما بھی شانتی کی تلاش میں تھی اور مجھے محسوس ہوتا تھا کہ ٹماٹروں کے یہ ننھے ننھے پودے میرے لیئے نروان کا سندیسہ لانے والے ہیں

ایک دیہاتی صبح  یہ اطلاع ملی کہ ہماری تپسیا رنگ لائی ہے اور ہمارے  لگائے پودوں کی گود بھرنے لگیں ہیں۔ پھول کھلنے لگے اور پھولوں سے  پھل بننے لگا تو ٹہنیاں جھکنے لگیں۔ سبز ٹماٹر محنت کے سرخ رنگ کو پانے کے قریب پہنچ گیا۔ گویا ہماری زندگی میں سرخ انقلاب کا زمانہ آنے ہی والا ہے۔

ہم سوچتے ہیں یہ قوم کیسے احسان مند ہوسکتی ہے ہماری۔

لیکن یہ سوچ کر درگزر کردیتے ہیں کہ ناداں ہیں سمجھ جائیں گے۔ کبھی تو قدردان ہوں گے  ہمارے۔

تب تک ہم ٹماٹروں کے اترنے کا انتظار کرتے ہیں۔

Wednesday, February 28, 2018

ہسٹری میڈ ایزی


چلیں آج پھر ایک بادشاہ کی کہانی سناتے ہیں ۔جس کے عروج وزوال کو دیکھتے ہوئے سیکھنے والوں کیلئے بڑی نصیحت ہے۔

یہ انیس سو انیس کی بات ہے افغانستان پر امیر حبیب اللہ کی حکومت تھی ایک دن اس کو کسی نے سوتے میں قتل کردیا ۔جس کا فائدہ اٹھا کر سردار نصراللہ نے اپنی حکومت کا اعلان کر دیا۔ ان دنوں کابل کا گورنر امان اللہ تھا۔اس نے ہمت دکھائی اور تخت پر قبضہ کرکے بادشاہت کا اعلان کردیا۔ 
امان اللہ چونکہ روس کے بہت قریب تھا اس لیئے شہ پا کر برطانوی انڈیا پر حملہ کردیا۔ پہلی جنگ عظیم کی وجہ ایک تو برطانوی حکومت پہلے ہی کافی کمزور تھی اور کچھ انڈیا کے حالات بھی کروٹ کھا رہے تھے اس لیئے زیادہ مزاحمت نہ کرسکے اور افغانستان سے صلح پر مجبور ہوگئی ۔جس کے بعد کابل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے سٹک اینڈ کیرٹ والی پالیسی کا آغاز ہوا۔
امان اللہ ایک انتہائی آزاد خیال انسان تھا اور ملک کو مغربی طرز پر چلانے کا ارادہ رکھتا تھا۔کافی آزاد خیال پالیسیوں پر گامزن ہوا۔ نہ صرف طرز حکومت بلکہ مغربی کلچر بھی نافذ کرنے پر تلا ہوا تھا۔ملک میں امن امان بحال ہوا تو امان اللہ نے ملکہ کے ساتھ یورپ کا قصد کیا۔ انڈین گورنمنٹ کیلئے کیرٹ پالیسی کیلئے اس سے بہتر کوئی موقع نہیں ہوسکتا تھا۔فوری طور پر لاہور میں  ریل کے چار سپیشل ڈبے تیار کرکے چمن پہنچائے گئے۔جہاں سے بادشاہ سلامت اپنی فیملی کے ہمراہ کراچی پہنچے اور کراچی سے فرانس کی بندرگاہ مارسیلز پہنچے۔ماسیلز پہنچنے پر امان اللہ کا استقبال فرانسیسی صدر نے اپنی کابینہ کے ساتھ بھرپور انداز میں کیا اور ملکہ ثریا بھی مغربی لباس میں داد تحسین وصول کرتی رہیں ۔بادشاہ کو نپولین کے بستر پر سونے کا اعزا بخشا گیا۔ اس کے بعد جس شہر بھی گیا بھرپور استقبال کیا گیا ۔بہت سے شہروں کی اعزازی چابیاں حوالے کی گئیں۔فرانس کا دورہ مکمل کرکے برطانیہ پہنچے تو کنگ جارج بمع اپنی ملکہ  استقبال کیلئے واٹرلو کے اسٹیشن پر موجود تھا۔تین دن شاہی مہمان رہے اس کے بعد ایک ہفتہ سرکاری مہمان ۔برطانیہ سے بلجیئم کے دورے کا ارادہ تھا اور اندازہ یہی تھا کہ بلجیم کا دورہ مکمل کرکے  واپسی کا سفر شروع کریں گے۔ لیکن ابھی برطانیہ میں ہی تھے کہ بادشاہ سلامت نے اعلان کردیا کیا بلجیم کے بعد وہ روس کا دورہ بھی کریں گے۔حکومت برطانیہ نے اپنے نمائیندو ں کے ذریئے اشاروں کنایوں میں سمجھانے کی کوشش کی کہ عالی جاہ بندے بن جاؤ۔ یہ ساری شان شوکت جو آپ کو دی ہے وہ روس سے دور رکھنے کیلئے ہی دی تھی لیکن بادشاہ پھر بادشاہ ہوتا ہے اورمرضی کا مالک ۔ اور اپنی ضد پر اڑا رھا اور روس کا دورہ کرکے ہی واپس گیا۔
اب کیرٹ والا معاملہ توہوگیا تھا ختم اور اب شروع ہونی تھی کہانی سٹک والی
لارنس آف عریبیہ کے نام سے کون واقف نہیں ۔ جس نے ترکوں کے خلاف عربوں کو اکسایا اور خلافت سے نکال کر اپنی حکومت قائم کرنے میں مدد کی ۔ ترکی کا عربوں سے رابطہ ہجاز ٹرین کے ذریعے تھا ۔اور اس ٹریں کی پٹری کو نقصان پہنچانے کیلئے لارنس نے جس حکمت عملی پر عمل کیا وہ کسی ہالی وڈ کی فلم کی کہانی سے مختلف نہیں۔ لیکن یہاں ہم لارنس کا عرب مشن نہیں سنائیں گے بلکہ  آپ کو افغانستان لیئے چلتے ہیں
سٹک پالیسی پر عمل کرنےکیلئے لارنس آف عریبیہ کی خدمات لی گئیں اورایک بزرگ کا روپ دھار کر پشتو سیکھی ۔عربی پر پہلے ہی کمال حاصل تھااور جگہ جگہ وعظ دینا شروع کر دیا ۔جلد ہی ایک نیک بزرگ کی حیثیت سے افغان لوگوں میں اپنا نام بنالیا۔ اس کے معجزوں نے جلد ہی لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔جب اپنے معتقدین کا ایک اچھا حلقہ قائم ہوگیا تو اس کے بعد اس نے امان اللہ کے خلاف وہی کام شروع کیا جو آئی جے آئی نے اٹھاسی کے الیکشن میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا تھا۔اور نوائے وقت اخبار نے رعنا لیاقت علی کے خلاف مہم چلائی تھی۔ یورپ کے دورے کی ملکہ کے مغربی لباس میں ملبوس، غیر ملکیوں سے ہاتھ ملانے کی تصویریں اور ایکٹرسز کی تصویروں کو ملکہ کی تصویر کے ساتھ ملا کر بنائی گئی تصویریں عوام میں تقسیم کی گئیں۔ اور بادشاہ کے بارے میں  زوردار پرپیگنڈہ کیا گیا کہ روس جا کر کافر ہوگیا ہے۔ اور اب الحاد کو ملک میں نافذ کرنے کے درپر ہے۔اور یوں بادشاہ کے خلاف نفرت کی ایک ایسی فضا بنا دی گئی کہ اسے عوامی حمایت سے یکسر محروم ہونا پڑ گیا
ایسے حالات میں ایک سابقہ افغان فوجی نظام سقہ نے انگریزوں کے تعاون سے شہروں میں ماڑ دھاڑ شروع کردی اور جلد ہی اپنا اثر و رسوخ قائم کرلیا۔اور پھر ایک اور ڈاکو سید حسین کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک رات سرکاری محل پر حملہ کردیا۔اب یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ سب کچھ کیسے ممکن ہوگیا ہے لیکن امان اللہ کو محل سے فرار ہونا پڑا اور نظام سقہ کابل کے تخت پر قابض ہوگیا۔ امان اللہ اپنی فیملی کے ہمراہ چھپتا چھپاتا چمن پہنچا۔وہی چمن جہاں سے چند سال پہلے انتہائی لگزری ڈبوں میں اور سرکاری پروٹوکول میں کراچی کیلئے روانہ ہوا تھا اب بے یارومددگار عام مسافروں کے ساتھ بیٹھ کر بمبئی پہنچا اور اور پھر وہاں سے نکل کر باقی عمر اٹلی گزارنے پر مجبور ہوگیا۔

Monday, February 26, 2018

تاریخ کے جھروکوں سے


چلیں آپ کو ایک کہانی سناتے ہیں ایک بادشاہ کی ۔ بادشاہ بھی ہندستان کا یعنی میرا  آپ کا سب کا بادشاہ۔
 نام تھا اس کا علاؤالدین خلجی ۔ ارے نہیں یہ بالی وڈ کی باتوں میں آکر پہلے ہی منہ نہ بنالیں ۔میں اس کی کسی ملکہ یا غلام کی کہانی نہیں سنانے جا رھا۔بلکہ بادشاہ کی  زندگی کا ایک واقعہ بیان کرنے جا رھا ہوں  ۔علائوالدین  ایک ان پڑھ حکمران تھا جس نے بیس سال تک ہندستان کے ایک وسیع علاقے پر حکومت کی۔انتظامی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے حروف  پہچاننا  سیکھ لیئے جس سے تحریر کا مدعا سمجھ جاتا تھا ۔ 
ہندستان پر مسلمان حکمرانوں کی تاریخ اگر کھولی جائے تو صرف تین یا چار حکمران  نظروں سے گزریں گے جن کو آپ مضبوط حکمران قرار دے سکتے ہیں۔ان میں سے ایک علائوالدین کا دور بھی تھا۔ اس کا عہد انتظامی حوالے سے بہترین عہد سمجھا جاتا ہے۔اگرچہ کچھ لوگ اس کی سفاکی اور ظلم کے واقعات بہت بڑھا چرھا کر پیش کرتے ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ ہندستان کو ایسے اعلی منتظم کم کم ہی نصیب ہوئے ہیں۔جس کے فیصلوں اور طرز حکومت سے ایک عام آدمی کو بھی کچھ فائدہ مل سکا تھا۔
ہاں تو بات ہورہی تھی بادشاہ کی ۔بادشاہ قسمت کا کچھ ایسا دھنی ثابت ہوا کہ جو مہم شروع کرتا  وہ کامیاب ہوجاتی ۔ ایک طرف فتوھات اور دوسری طرف کسی میں بغاوت کی جرات نہ ہوئی ۔کچھ امرا ایسے میسر آئے کہ وہ بادشاہ  سے  وفاداری کی اپنی مثال آپ تھے ۔  

جب بادشاہ اپنی غیر معمولی اور مسلسل فتوحات کے نشے میں تھا۔منگول حملہ آوروں کا قلع قمع کر چکا تھا ۔ملک میں غلے اور سامان معیشت کی فراوانی تھی ۔ملک کا انتظام اس قدر مضبوط ہوچکا تھا کہ سلطنت کے راستے اور شہر گڈ گورنس کی بہترین مثال پیش کررہے تھے تو ایسے میں بادشاہ کو خیال آیا کہ قسمت اتنی مہربان ہے تو کیوں نہ سکندر کی طرح پوری دنیا کو فتح کرنے نکلوں یا پھر کچھ ایسا کام کروں کہ میرا نام قیامت تک رہے۔
اس کے چار بہت معتمد ساتھی تھے جن کو وہ چار یار کہا کرتا تھا ان کی مدد سے پہلے نئی شریعت جاری کرنے کا سوچا۔پھر  دنیا کو فتح کرنے کا خبط ذہن پر سوار ہوگیا تھا۔بلکہ مسلسل فتوحات کے بعد سکندر ثانی کا لقب اختیار کرلیا اورناصرف جمعہ کے خطبوں میں  یہ لقب بولا جانے لگا بلکہ سکوں پر بھی کھدوا دیا گیا۔ بادشاہ کے غیص و غضب سے ڈرنے والے درباریوں نے بھی ہاں میں ہاں ملا کر بادشاہ کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچا رکھا تھا۔ ایسے میں ایک دن کوتوال دھلی علاؤالدین علاؤلملک ملنے کیلئے آیا۔ بادشاہ اس کی بڑی قدر کرتا تھا اسلئے  اپنے دونوں منصوبوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے بادشاہ کے چاروں یاروں کے علاوہ سب کو محفل سے اٹھوا دیا شراب کی بوتلیں بھی ہٹا دی گئیں اور بادشاہ کو جو دلائل دیئے وہ سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہیں اور بادشاہ جیسا بھی تھا جہاندیدہ تھا اور باتیں سمجھ میں آگئیں۔
جب نئی شریعت نافذ کرنے کے بارے میں سوال کیا تو علائوالدین گویا ہوا
شریعت کا تعلق وحی آسمانی سے ہوتا ہے اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکی ہے اور یہ بات سب خاص و عام کو پتا ہے ۔اگر آپ ایسا کوئی سلسلہ شروع کرنے کی کوشش کریں گے تو فساد اور بدنظمی ہوگی۔چنگیز خان اور اس کی اولادکی اسلام دشمنی ایک مثال ہے۔ انہوں نے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا لیکن وہ اسلام کی روشنی کو ختم نہ کر پائے بلکہ ان کی اولاد مسلمان ہوگئی اور کفار سے جنگ بھی کی 
بادشاہ علاالملک کے جواب سے خاصا مطمئن ہوا اور دنیا کو فتح کرنے کے ارادے کے بارے میں مشورہ طلب کیا تو جواب ملا
بادشاہ سلامت پہلے تو یہ سوچیں کہ کس کو دھلی کی حکومت سونپ کر جائیں گے جو آپ کی عدم موجودگی میں سلطنت کا انتظام بھی سنبھالے اور آپ کی واپسی پر حکومت بھی آپ کے حوالے کر دے۔اور سکندر کے زمانے میں تو بغاوتوں کی مثال شاذ ونادر ہی ملتی تھی اور آج تو حالات ہی مختلف ہیں۔سکندر کے پاس ارسطو جیسا وزیر باتدبیر تھا جس نے نہ صرف سکندر کی عدم موجودگی میں انتظام سنبھالا بلکہ سکندر کی واپسی پر محفوظ حکومت واپس بھی کر دی ۔اگر بادشاہ کو اپنے امرا پر اس قدر اعتماد ہے تو ضرور اپنے ارادے پر عمل کریں ۔بادشاہ مشورہ ماننے میں کچھ ہچکچاہٹ کا شکار ہوا اور پوچھا کہ پھر میرا یہ ساز وسامان ہاتھی گھوڑے لاؤلشکر کس کام کا؟ تو علاؤلملک نے توجہ ہندستان کی بہت سے مہمات کی طرف دلوائی کہ وہاں بہت ساز وسامان درکار ہوگا بہت توانائی اور پیسے کی ضرورت ہوگی اگر آپ وہی مہمات مکمل کرلیں تو آپ کا نام رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا ۔ بادشاہ نے علاءالملک کو بہت سے انعام اکرام سے نوازا اور اپنے دونوں ارادے ترک کردیئے ۔
 علاؤالدین خلجی ایک جہاندیدہ بادشاہ تھا ۔ جب منگولوں کا ایک سپہ سالار دھلی پر چڑھ دوڑا تھا توعلاالملک نے لڑائی سے بچنے کا مشورہ دیا تھا لیکن بادشاہ نے اس مشورے کو رد کرکے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا اور تاریخ نے بادشاہ کے اس فیصلے کو درست قرار دیا 

Saturday, February 10, 2018

ایک خط کے جواب میں


سدا خوش رھو!

اتنے عرصے بعد خط ملا پہلے تو اچنبھا ہوا پھر وہ خوشگوار حیرت میں بدل گیا
دوبارہ پڑھا تو ناسٹیلجیا کے گہرے بادلوں میں خود کو محبوس پایا
میں دیر تک اسی سوچ میں اٹکا رھا کہ تم کہاں ہو؟ کیونکہ یہ خط تو تمہارا ہے لیکن یہ لفظ تمہارے نہیں
وہی انداز لیکن بے روح تحریر۔جیسے تم اداس رہنے لگی ہو، جیسے تمہارا دھیان زندگی میں نہیں رھا۔جیسے تمہارے قدم راستے کی گرد سے بوجھل ہوگئے ہوں۔ جیسے تمہارا سنگ میل تمہاری نظروں سے کسی نے اوجھل کر دیا ہو۔
لیکن جب میں نے تمہاری یاد کے بادلوں میں جھانکا تو تو مجھے تمہارے الفاظ کی روح پر وہ سب بھاری پتھر نظر آنے لگے۔ جنہون نے تمہارے لہجے کو یہ تھکاوٹ بخشی ہے۔ 
تم پوچھتی ہو کہ وہ کونسی امپلس ہے جو تمہیں چٹھیاں لکھنے پر مجبور کرتی ہے تو سنو تمہیں خدا نے ایک امتیاز بخشا ہے، تمہاری سوچ کو ایک جلا دی ہے لکھنے کی قدرت عطا کی تم خیالات کی شمعیں جلا سکتی ہو تم وہ صلاحیت رکھتی ہو کہ جو بن مانگے اپنے حصے کی روشنی دوسروں میں بانٹ دیتے ہیں۔ اس لیئے مجھے یقین ہے کہ تم کبھی لکھنے سے نہیں رک سکتی ۔ تم اب بھی سنگ بہاروں کی تلاش میں نکل سکتی ہو تم ہمالیہ کے شفاف پہاڑوں پر چڑھنے کا حوصلہ رکھتی ہو۔ کم زور تو میں تھا جب تم نے گل پوش وادیوں کی سحرانگیزیاں ڈھونڈنے کیلئے مجھ سے وعدہ مانگا تھا تو میں وہ حوصلہ ڈھونڈ نہیں پایا تھا جس کو پا کر میں تمہارے ساتھ شبنی قطروں کی راہ میں ساتھ چلنے کیلئے ہاں کرتا ۔ میں عذر ڈھونڈ سکتا تھا ۔لیکن میں میں ان دیکھی ان کڑیوں کو توڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا جنہوں نے میرے وجود کو باندھ رکھا تھا
تم واقعی بربت ہو۔ تمہاری سوچ تمہارے ارادے واقعی پربتوں کی طرح بلند اور سنگلاخ چٹانوں کی طرح پائیدار ہیں۔ تمہیں یاد ہے میں کہا کرتا تھا میں کسی دن وہ حوصلہ وہ عظم ڈھونڈ لاؤں گا جو تمہیں تسخیر کرنے کیلئے کافی ہوگا تو تم نے مسکرا کر کہا تھا کہ تم صرف ارادہ باندھ لو میں خود تمہیں سرسبز وادی کے دامن میں بنی اپنی جھونپڑی میں لے جاؤں گی جو چیل اور چنار کے درختوں سے اٹی ہوگی۔ جس کے اوپر نیلا آسمان ہوگا جس کے ساتھ شفاف اور میٹھے پانی کے چشمے بہتے ہونگے ۔لیکن وہ سب باتیں دھرانے کا اب کیا فائدہ ؟
تمہاری باتیں ویسی ہی ہیں جیسی تم پہلے کیا کرتی تھی۔وہی خواب بسنانے کی باتیں، وہی ہوا میں معلق آشیانوں کو ڈھونڈنے کی باتیں ۔ پہلے تم آسمان کے تارے اس سے جدا کرنے کی باتیں کرتی تھی اور اب آسمان کی ریشمی چادر کی بات کرتی ہو لیکن کچھ نہیں ہونے والا ۔ کوئی نئی دنیا دریافت نہیں ہونے والی ۔کوئی تعلق نیا نہیں ملنے والا 
ہم میں سے کوئی بھی غلط نہیں تھا۔ اپنی جگہ ہم دنوں درست تھے ۔ میں مجبوریوں کا پابند تھا تم اپنی خواہشوں کی۔ بالوں میں چاندی اتر اائی تو کیا ہوا مجھے یقین ہے تمہارے خواب آج بھی تمہارے ارد گرد آباد ہیں تمہارے خط میں موجود وارفتگی اور اضطراب بتا رھا ہے کہ تم اپنے افسانوں کے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے آج بھی بے تاب ہو
تم پہلے بھی خواب دیکھتی تھی، خیالوں کے اڑن کھٹولے لیئے پھرتی تھی تم زندگی کو کو بھی خیالی آنکھوں سے دیکھنے کے قائل تھی ۔ تم امنگوں پر جیتی تھی اور تمہارے تصور کی جنت بھی ایسے ہی حسیں تصورات کے سہارے مہک جاتی تھی ۔ مجھے یقین ہے تم آج بھی خواب دیکھتی ہو انہی خوابوں نے تمہیاری جستجو کی حس کو تمہیں ایک بار پھر میرے سامنے لاکھڑا کیا ہے 
لیکن کیا کیا جائے میرا اور تمہارا رشتہ زمین اور آسمان کا ہے جو ایک ساتھ نظر آنے کے باوجود ہمیشہ دور رہتے ہیں ۔ ہم دونوں ایک بینچ پر اکھٹے بیٹھ کر ایک دوسرے کو تنگ نہیں کر سکتے ایک دوسرے کو قائل نہیں کر سکتے لیکن میں سمجھ سکتا ہوں تڑپ کے کنول کھلنے سے روکناکسی کے بس میں نہیں ہوتے ۔ایک مجروح مسکان کی طرح ،روح کی تسکین کیلئے 
لیکن میری جان! زندگی چند رنگینیوں کا نام نہیں ہے یہ یکطرفہ خیالوں کا مجموعہ نہیں ہے ۔مجھے ڈر لگتا ہے جس دنیا کو تم آسمانوں کے پڑے ڈھونڈتی تھی کہیں وہ جیون کے سپنوں کا سحر توڑ نہ دے ۔ مجھے ڈر ہے ریشمی چادر کے پیچھے کی دنیا تمہاری بسائی جنت کو تحلیل نہ کر دے۔ تمہارے نازک سے دل کا آبیگینہ کہیں دوبارہ نہ ٹوٹ جائے
کیونکہ اب تمہارے دل کا ٹوٹنا کافی دردناک ہو سکتا ہے.میں بتا نہیں پایا کبھی لیکن یہ مجھے بھی بہت عزیز رہا ہے.تمہارا دل تمہارے قلم ہی کی طرح تتلیاں بناتا ان میں رنگ بھرتا ہے خواہشوں کی تتلیوں کے پیچھے بھاگتا ہے تو دوسری طرف آس کے جگنو بھی بناتا ہے جو رستے کو پرنور کر کے مسافروں کے لیے آسانی کر دیتے ہیں.
نا چاہتے ہوئے بھی خط ختم کرنا پڑ رہا ہے. کیونکہ صفحہ کتنا بھی لمبا کیوں نہ ہو ختم ہوجاتا ہےزندگی کا ہو چاہے کتاب کا صفحہ پلٹنا تو پڑتا ہے.
فقط
تمہارا