Wednesday, February 28, 2018

ہسٹری میڈ ایزی


چلیں آج پھر ایک بادشاہ کی کہانی سناتے ہیں ۔جس کے عروج وزوال کو دیکھتے ہوئے سیکھنے والوں کیلئے بڑی نصیحت ہے۔

یہ انیس سو انیس کی بات ہے افغانستان پر امیر حبیب اللہ کی حکومت تھی ایک دن اس کو کسی نے سوتے میں قتل کردیا ۔جس کا فائدہ اٹھا کر سردار نصراللہ نے اپنی حکومت کا اعلان کر دیا۔ ان دنوں کابل کا گورنر امان اللہ تھا۔اس نے ہمت دکھائی اور تخت پر قبضہ کرکے بادشاہت کا اعلان کردیا۔ 
امان اللہ چونکہ روس کے بہت قریب تھا اس لیئے شہ پا کر برطانوی انڈیا پر حملہ کردیا۔ پہلی جنگ عظیم کی وجہ ایک تو برطانوی حکومت پہلے ہی کافی کمزور تھی اور کچھ انڈیا کے حالات بھی کروٹ کھا رہے تھے اس لیئے زیادہ مزاحمت نہ کرسکے اور افغانستان سے صلح پر مجبور ہوگئی ۔جس کے بعد کابل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے سٹک اینڈ کیرٹ والی پالیسی کا آغاز ہوا۔
امان اللہ ایک انتہائی آزاد خیال انسان تھا اور ملک کو مغربی طرز پر چلانے کا ارادہ رکھتا تھا۔کافی آزاد خیال پالیسیوں پر گامزن ہوا۔ نہ صرف طرز حکومت بلکہ مغربی کلچر بھی نافذ کرنے پر تلا ہوا تھا۔ملک میں امن امان بحال ہوا تو امان اللہ نے ملکہ کے ساتھ یورپ کا قصد کیا۔ انڈین گورنمنٹ کیلئے کیرٹ پالیسی کیلئے اس سے بہتر کوئی موقع نہیں ہوسکتا تھا۔فوری طور پر لاہور میں  ریل کے چار سپیشل ڈبے تیار کرکے چمن پہنچائے گئے۔جہاں سے بادشاہ سلامت اپنی فیملی کے ہمراہ کراچی پہنچے اور کراچی سے فرانس کی بندرگاہ مارسیلز پہنچے۔ماسیلز پہنچنے پر امان اللہ کا استقبال فرانسیسی صدر نے اپنی کابینہ کے ساتھ بھرپور انداز میں کیا اور ملکہ ثریا بھی مغربی لباس میں داد تحسین وصول کرتی رہیں ۔بادشاہ کو نپولین کے بستر پر سونے کا اعزا بخشا گیا۔ اس کے بعد جس شہر بھی گیا بھرپور استقبال کیا گیا ۔بہت سے شہروں کی اعزازی چابیاں حوالے کی گئیں۔فرانس کا دورہ مکمل کرکے برطانیہ پہنچے تو کنگ جارج بمع اپنی ملکہ  استقبال کیلئے واٹرلو کے اسٹیشن پر موجود تھا۔تین دن شاہی مہمان رہے اس کے بعد ایک ہفتہ سرکاری مہمان ۔برطانیہ سے بلجیئم کے دورے کا ارادہ تھا اور اندازہ یہی تھا کہ بلجیم کا دورہ مکمل کرکے  واپسی کا سفر شروع کریں گے۔ لیکن ابھی برطانیہ میں ہی تھے کہ بادشاہ سلامت نے اعلان کردیا کیا بلجیم کے بعد وہ روس کا دورہ بھی کریں گے۔حکومت برطانیہ نے اپنے نمائیندو ں کے ذریئے اشاروں کنایوں میں سمجھانے کی کوشش کی کہ عالی جاہ بندے بن جاؤ۔ یہ ساری شان شوکت جو آپ کو دی ہے وہ روس سے دور رکھنے کیلئے ہی دی تھی لیکن بادشاہ پھر بادشاہ ہوتا ہے اورمرضی کا مالک ۔ اور اپنی ضد پر اڑا رھا اور روس کا دورہ کرکے ہی واپس گیا۔
اب کیرٹ والا معاملہ توہوگیا تھا ختم اور اب شروع ہونی تھی کہانی سٹک والی
لارنس آف عریبیہ کے نام سے کون واقف نہیں ۔ جس نے ترکوں کے خلاف عربوں کو اکسایا اور خلافت سے نکال کر اپنی حکومت قائم کرنے میں مدد کی ۔ ترکی کا عربوں سے رابطہ ہجاز ٹرین کے ذریعے تھا ۔اور اس ٹریں کی پٹری کو نقصان پہنچانے کیلئے لارنس نے جس حکمت عملی پر عمل کیا وہ کسی ہالی وڈ کی فلم کی کہانی سے مختلف نہیں۔ لیکن یہاں ہم لارنس کا عرب مشن نہیں سنائیں گے بلکہ  آپ کو افغانستان لیئے چلتے ہیں
سٹک پالیسی پر عمل کرنےکیلئے لارنس آف عریبیہ کی خدمات لی گئیں اورایک بزرگ کا روپ دھار کر پشتو سیکھی ۔عربی پر پہلے ہی کمال حاصل تھااور جگہ جگہ وعظ دینا شروع کر دیا ۔جلد ہی ایک نیک بزرگ کی حیثیت سے افغان لوگوں میں اپنا نام بنالیا۔ اس کے معجزوں نے جلد ہی لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔جب اپنے معتقدین کا ایک اچھا حلقہ قائم ہوگیا تو اس کے بعد اس نے امان اللہ کے خلاف وہی کام شروع کیا جو آئی جے آئی نے اٹھاسی کے الیکشن میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا تھا۔اور نوائے وقت اخبار نے رعنا لیاقت علی کے خلاف مہم چلائی تھی۔ یورپ کے دورے کی ملکہ کے مغربی لباس میں ملبوس، غیر ملکیوں سے ہاتھ ملانے کی تصویریں اور ایکٹرسز کی تصویروں کو ملکہ کی تصویر کے ساتھ ملا کر بنائی گئی تصویریں عوام میں تقسیم کی گئیں۔ اور بادشاہ کے بارے میں  زوردار پرپیگنڈہ کیا گیا کہ روس جا کر کافر ہوگیا ہے۔ اور اب الحاد کو ملک میں نافذ کرنے کے درپر ہے۔اور یوں بادشاہ کے خلاف نفرت کی ایک ایسی فضا بنا دی گئی کہ اسے عوامی حمایت سے یکسر محروم ہونا پڑ گیا
ایسے حالات میں ایک سابقہ افغان فوجی نظام سقہ نے انگریزوں کے تعاون سے شہروں میں ماڑ دھاڑ شروع کردی اور جلد ہی اپنا اثر و رسوخ قائم کرلیا۔اور پھر ایک اور ڈاکو سید حسین کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک رات سرکاری محل پر حملہ کردیا۔اب یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ سب کچھ کیسے ممکن ہوگیا ہے لیکن امان اللہ کو محل سے فرار ہونا پڑا اور نظام سقہ کابل کے تخت پر قابض ہوگیا۔ امان اللہ اپنی فیملی کے ہمراہ چھپتا چھپاتا چمن پہنچا۔وہی چمن جہاں سے چند سال پہلے انتہائی لگزری ڈبوں میں اور سرکاری پروٹوکول میں کراچی کیلئے روانہ ہوا تھا اب بے یارومددگار عام مسافروں کے ساتھ بیٹھ کر بمبئی پہنچا اور اور پھر وہاں سے نکل کر باقی عمر اٹلی گزارنے پر مجبور ہوگیا۔

Monday, February 26, 2018

تاریخ کے جھروکوں سے


چلیں آپ کو ایک کہانی سناتے ہیں ایک بادشاہ کی ۔ بادشاہ بھی ہندستان کا یعنی میرا  آپ کا سب کا بادشاہ۔
 نام تھا اس کا علاؤالدین خلجی ۔ ارے نہیں یہ بالی وڈ کی باتوں میں آکر پہلے ہی منہ نہ بنالیں ۔میں اس کی کسی ملکہ یا غلام کی کہانی نہیں سنانے جا رھا۔بلکہ بادشاہ کی  زندگی کا ایک واقعہ بیان کرنے جا رھا ہوں  ۔علائوالدین  ایک ان پڑھ حکمران تھا جس نے بیس سال تک ہندستان کے ایک وسیع علاقے پر حکومت کی۔انتظامی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے حروف  پہچاننا  سیکھ لیئے جس سے تحریر کا مدعا سمجھ جاتا تھا ۔ 
ہندستان پر مسلمان حکمرانوں کی تاریخ اگر کھولی جائے تو صرف تین یا چار حکمران  نظروں سے گزریں گے جن کو آپ مضبوط حکمران قرار دے سکتے ہیں۔ان میں سے ایک علائوالدین کا دور بھی تھا۔ اس کا عہد انتظامی حوالے سے بہترین عہد سمجھا جاتا ہے۔اگرچہ کچھ لوگ اس کی سفاکی اور ظلم کے واقعات بہت بڑھا چرھا کر پیش کرتے ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ ہندستان کو ایسے اعلی منتظم کم کم ہی نصیب ہوئے ہیں۔جس کے فیصلوں اور طرز حکومت سے ایک عام آدمی کو بھی کچھ فائدہ مل سکا تھا۔
ہاں تو بات ہورہی تھی بادشاہ کی ۔بادشاہ قسمت کا کچھ ایسا دھنی ثابت ہوا کہ جو مہم شروع کرتا  وہ کامیاب ہوجاتی ۔ ایک طرف فتوھات اور دوسری طرف کسی میں بغاوت کی جرات نہ ہوئی ۔کچھ امرا ایسے میسر آئے کہ وہ بادشاہ  سے  وفاداری کی اپنی مثال آپ تھے ۔  

جب بادشاہ اپنی غیر معمولی اور مسلسل فتوحات کے نشے میں تھا۔منگول حملہ آوروں کا قلع قمع کر چکا تھا ۔ملک میں غلے اور سامان معیشت کی فراوانی تھی ۔ملک کا انتظام اس قدر مضبوط ہوچکا تھا کہ سلطنت کے راستے اور شہر گڈ گورنس کی بہترین مثال پیش کررہے تھے تو ایسے میں بادشاہ کو خیال آیا کہ قسمت اتنی مہربان ہے تو کیوں نہ سکندر کی طرح پوری دنیا کو فتح کرنے نکلوں یا پھر کچھ ایسا کام کروں کہ میرا نام قیامت تک رہے۔
اس کے چار بہت معتمد ساتھی تھے جن کو وہ چار یار کہا کرتا تھا ان کی مدد سے پہلے نئی شریعت جاری کرنے کا سوچا۔پھر  دنیا کو فتح کرنے کا خبط ذہن پر سوار ہوگیا تھا۔بلکہ مسلسل فتوحات کے بعد سکندر ثانی کا لقب اختیار کرلیا اورناصرف جمعہ کے خطبوں میں  یہ لقب بولا جانے لگا بلکہ سکوں پر بھی کھدوا دیا گیا۔ بادشاہ کے غیص و غضب سے ڈرنے والے درباریوں نے بھی ہاں میں ہاں ملا کر بادشاہ کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچا رکھا تھا۔ ایسے میں ایک دن کوتوال دھلی علاؤالدین علاؤلملک ملنے کیلئے آیا۔ بادشاہ اس کی بڑی قدر کرتا تھا اسلئے  اپنے دونوں منصوبوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے بادشاہ کے چاروں یاروں کے علاوہ سب کو محفل سے اٹھوا دیا شراب کی بوتلیں بھی ہٹا دی گئیں اور بادشاہ کو جو دلائل دیئے وہ سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہیں اور بادشاہ جیسا بھی تھا جہاندیدہ تھا اور باتیں سمجھ میں آگئیں۔
جب نئی شریعت نافذ کرنے کے بارے میں سوال کیا تو علائوالدین گویا ہوا
شریعت کا تعلق وحی آسمانی سے ہوتا ہے اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکی ہے اور یہ بات سب خاص و عام کو پتا ہے ۔اگر آپ ایسا کوئی سلسلہ شروع کرنے کی کوشش کریں گے تو فساد اور بدنظمی ہوگی۔چنگیز خان اور اس کی اولادکی اسلام دشمنی ایک مثال ہے۔ انہوں نے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا لیکن وہ اسلام کی روشنی کو ختم نہ کر پائے بلکہ ان کی اولاد مسلمان ہوگئی اور کفار سے جنگ بھی کی 
بادشاہ علاالملک کے جواب سے خاصا مطمئن ہوا اور دنیا کو فتح کرنے کے ارادے کے بارے میں مشورہ طلب کیا تو جواب ملا
بادشاہ سلامت پہلے تو یہ سوچیں کہ کس کو دھلی کی حکومت سونپ کر جائیں گے جو آپ کی عدم موجودگی میں سلطنت کا انتظام بھی سنبھالے اور آپ کی واپسی پر حکومت بھی آپ کے حوالے کر دے۔اور سکندر کے زمانے میں تو بغاوتوں کی مثال شاذ ونادر ہی ملتی تھی اور آج تو حالات ہی مختلف ہیں۔سکندر کے پاس ارسطو جیسا وزیر باتدبیر تھا جس نے نہ صرف سکندر کی عدم موجودگی میں انتظام سنبھالا بلکہ سکندر کی واپسی پر محفوظ حکومت واپس بھی کر دی ۔اگر بادشاہ کو اپنے امرا پر اس قدر اعتماد ہے تو ضرور اپنے ارادے پر عمل کریں ۔بادشاہ مشورہ ماننے میں کچھ ہچکچاہٹ کا شکار ہوا اور پوچھا کہ پھر میرا یہ ساز وسامان ہاتھی گھوڑے لاؤلشکر کس کام کا؟ تو علاؤلملک نے توجہ ہندستان کی بہت سے مہمات کی طرف دلوائی کہ وہاں بہت ساز وسامان درکار ہوگا بہت توانائی اور پیسے کی ضرورت ہوگی اگر آپ وہی مہمات مکمل کرلیں تو آپ کا نام رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا ۔ بادشاہ نے علاءالملک کو بہت سے انعام اکرام سے نوازا اور اپنے دونوں ارادے ترک کردیئے ۔
 علاؤالدین خلجی ایک جہاندیدہ بادشاہ تھا ۔ جب منگولوں کا ایک سپہ سالار دھلی پر چڑھ دوڑا تھا توعلاالملک نے لڑائی سے بچنے کا مشورہ دیا تھا لیکن بادشاہ نے اس مشورے کو رد کرکے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا اور تاریخ نے بادشاہ کے اس فیصلے کو درست قرار دیا 

Saturday, February 10, 2018

ایک خط کے جواب میں


سدا خوش رھو!

اتنے عرصے بعد خط ملا پہلے تو اچنبھا ہوا پھر وہ خوشگوار حیرت میں بدل گیا
دوبارہ پڑھا تو ناسٹیلجیا کے گہرے بادلوں میں خود کو محبوس پایا
میں دیر تک اسی سوچ میں اٹکا رھا کہ تم کہاں ہو؟ کیونکہ یہ خط تو تمہارا ہے لیکن یہ لفظ تمہارے نہیں
وہی انداز لیکن بے روح تحریر۔جیسے تم اداس رہنے لگی ہو، جیسے تمہارا دھیان زندگی میں نہیں رھا۔جیسے تمہارے قدم راستے کی گرد سے بوجھل ہوگئے ہوں۔ جیسے تمہارا سنگ میل تمہاری نظروں سے کسی نے اوجھل کر دیا ہو۔
لیکن جب میں نے تمہاری یاد کے بادلوں میں جھانکا تو تو مجھے تمہارے الفاظ کی روح پر وہ سب بھاری پتھر نظر آنے لگے۔ جنہون نے تمہارے لہجے کو یہ تھکاوٹ بخشی ہے۔ 
تم پوچھتی ہو کہ وہ کونسی امپلس ہے جو تمہیں چٹھیاں لکھنے پر مجبور کرتی ہے تو سنو تمہیں خدا نے ایک امتیاز بخشا ہے، تمہاری سوچ کو ایک جلا دی ہے لکھنے کی قدرت عطا کی تم خیالات کی شمعیں جلا سکتی ہو تم وہ صلاحیت رکھتی ہو کہ جو بن مانگے اپنے حصے کی روشنی دوسروں میں بانٹ دیتے ہیں۔ اس لیئے مجھے یقین ہے کہ تم کبھی لکھنے سے نہیں رک سکتی ۔ تم اب بھی سنگ بہاروں کی تلاش میں نکل سکتی ہو تم ہمالیہ کے شفاف پہاڑوں پر چڑھنے کا حوصلہ رکھتی ہو۔ کم زور تو میں تھا جب تم نے گل پوش وادیوں کی سحرانگیزیاں ڈھونڈنے کیلئے مجھ سے وعدہ مانگا تھا تو میں وہ حوصلہ ڈھونڈ نہیں پایا تھا جس کو پا کر میں تمہارے ساتھ شبنی قطروں کی راہ میں ساتھ چلنے کیلئے ہاں کرتا ۔ میں عذر ڈھونڈ سکتا تھا ۔لیکن میں میں ان دیکھی ان کڑیوں کو توڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا جنہوں نے میرے وجود کو باندھ رکھا تھا
تم واقعی بربت ہو۔ تمہاری سوچ تمہارے ارادے واقعی پربتوں کی طرح بلند اور سنگلاخ چٹانوں کی طرح پائیدار ہیں۔ تمہیں یاد ہے میں کہا کرتا تھا میں کسی دن وہ حوصلہ وہ عظم ڈھونڈ لاؤں گا جو تمہیں تسخیر کرنے کیلئے کافی ہوگا تو تم نے مسکرا کر کہا تھا کہ تم صرف ارادہ باندھ لو میں خود تمہیں سرسبز وادی کے دامن میں بنی اپنی جھونپڑی میں لے جاؤں گی جو چیل اور چنار کے درختوں سے اٹی ہوگی۔ جس کے اوپر نیلا آسمان ہوگا جس کے ساتھ شفاف اور میٹھے پانی کے چشمے بہتے ہونگے ۔لیکن وہ سب باتیں دھرانے کا اب کیا فائدہ ؟
تمہاری باتیں ویسی ہی ہیں جیسی تم پہلے کیا کرتی تھی۔وہی خواب بسنانے کی باتیں، وہی ہوا میں معلق آشیانوں کو ڈھونڈنے کی باتیں ۔ پہلے تم آسمان کے تارے اس سے جدا کرنے کی باتیں کرتی تھی اور اب آسمان کی ریشمی چادر کی بات کرتی ہو لیکن کچھ نہیں ہونے والا ۔ کوئی نئی دنیا دریافت نہیں ہونے والی ۔کوئی تعلق نیا نہیں ملنے والا 
ہم میں سے کوئی بھی غلط نہیں تھا۔ اپنی جگہ ہم دنوں درست تھے ۔ میں مجبوریوں کا پابند تھا تم اپنی خواہشوں کی۔ بالوں میں چاندی اتر اائی تو کیا ہوا مجھے یقین ہے تمہارے خواب آج بھی تمہارے ارد گرد آباد ہیں تمہارے خط میں موجود وارفتگی اور اضطراب بتا رھا ہے کہ تم اپنے افسانوں کے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے آج بھی بے تاب ہو
تم پہلے بھی خواب دیکھتی تھی، خیالوں کے اڑن کھٹولے لیئے پھرتی تھی تم زندگی کو کو بھی خیالی آنکھوں سے دیکھنے کے قائل تھی ۔ تم امنگوں پر جیتی تھی اور تمہارے تصور کی جنت بھی ایسے ہی حسیں تصورات کے سہارے مہک جاتی تھی ۔ مجھے یقین ہے تم آج بھی خواب دیکھتی ہو انہی خوابوں نے تمہیاری جستجو کی حس کو تمہیں ایک بار پھر میرے سامنے لاکھڑا کیا ہے 
لیکن کیا کیا جائے میرا اور تمہارا رشتہ زمین اور آسمان کا ہے جو ایک ساتھ نظر آنے کے باوجود ہمیشہ دور رہتے ہیں ۔ ہم دونوں ایک بینچ پر اکھٹے بیٹھ کر ایک دوسرے کو تنگ نہیں کر سکتے ایک دوسرے کو قائل نہیں کر سکتے لیکن میں سمجھ سکتا ہوں تڑپ کے کنول کھلنے سے روکناکسی کے بس میں نہیں ہوتے ۔ایک مجروح مسکان کی طرح ،روح کی تسکین کیلئے 
لیکن میری جان! زندگی چند رنگینیوں کا نام نہیں ہے یہ یکطرفہ خیالوں کا مجموعہ نہیں ہے ۔مجھے ڈر لگتا ہے جس دنیا کو تم آسمانوں کے پڑے ڈھونڈتی تھی کہیں وہ جیون کے سپنوں کا سحر توڑ نہ دے ۔ مجھے ڈر ہے ریشمی چادر کے پیچھے کی دنیا تمہاری بسائی جنت کو تحلیل نہ کر دے۔ تمہارے نازک سے دل کا آبیگینہ کہیں دوبارہ نہ ٹوٹ جائے
کیونکہ اب تمہارے دل کا ٹوٹنا کافی دردناک ہو سکتا ہے.میں بتا نہیں پایا کبھی لیکن یہ مجھے بھی بہت عزیز رہا ہے.تمہارا دل تمہارے قلم ہی کی طرح تتلیاں بناتا ان میں رنگ بھرتا ہے خواہشوں کی تتلیوں کے پیچھے بھاگتا ہے تو دوسری طرف آس کے جگنو بھی بناتا ہے جو رستے کو پرنور کر کے مسافروں کے لیے آسانی کر دیتے ہیں.
نا چاہتے ہوئے بھی خط ختم کرنا پڑ رہا ہے. کیونکہ صفحہ کتنا بھی لمبا کیوں نہ ہو ختم ہوجاتا ہےزندگی کا ہو چاہے کتاب کا صفحہ پلٹنا تو پڑتا ہے.
فقط
تمہارا