Thursday, September 20, 2018

قصہ ایک محبت کا


مغلیہ عہد میں ایک شہزادے کی ایک کنیزکے ساتھ عشق کی داستان اپنے دور میں اس قدر مشہور ہوئی تھی کہ زباں زد عام، اس کے قصے تھے۔ حتی کہ اس کی بازگشت دھلی کے شاہی دربار میں بھی  سنائی دیتی تھی۔

دکن کو جاتے ہوئے شہزادہ حضور، برہان پور اپنے ایک رشتہ دار کو ملنے کیلئے رک گئے۔  سیر  کرتے کرتے ایک دن اس باغ کی طرف نکل گئے جو حرم کی عورتوں کے لیئے مختص تھا۔ شہزادے کو اتنے قریب سے دیکھا تولڑکیاں بالیاں تو اپنے کام چھوڑ کر اسے تکنے لگیں اور سرد آہیں بھرنے لگیں لیکن ایک نوجوان لڑکی نے شہزادے کے موجودگی کو یکسر نظر انداز کردیا اور  بےنیاز قدموں سے چلتی ہوئی  آم کے ایک درخت پر چڑھ کر آم توڑنے لگ گئی۔سورج کی کرنیں گھنے درخت کے پتوں سے  چھن چھن کر اس کے شوخ سیمیں بدن کے ساتھ کھیل رہی تھیں ۔ کیا روح فرساں انداز تھا ماہ جبیں کا۔داخلی اور خارجی کشمکش کا حسین امتزاج ۔اور اتنی سنگین حقیقت کی تاب نہ لاتے ہوئےعالم وارفتگی میں شہزادہ بے ہوش ہوگیا۔

پتا چلا گیا کہ یہ حور صفت کون ہے؟ تو معلوم ہوا، عیسائی مغنیہ اوررقاصہ ہے جو برہان پور کے گورنر کی ملکیت ہے۔ نام اس کا ہیرا بائی ہے۔شہزادے نے اسے اپنے لیئے مانگ لیا اور نام اسکا زین آبادی محل رکھا۔کیونکہ جس باغ میں ایک روح دوسری روح سے ہمکلام ہوئی تھی۔ وہ زین آباد میں واقع تھا ۔
شہزادے پر اس کا عشق سر چڑھ کے ایسا دوڑا کہ ساری کائینات ہیچ ہوگئی۔اس کا قرب زندگی کی سعادت  بن گیا۔عشق بھی تھا اور صحبت بھی میسر تھی۔کئی ماہ تک، نہ دن کا ہوش رھا نہ راتوں کی خبر رہی۔شہزادہ بادہ کش نہ تھا لیکن ایک دن ماہ جبین نے شہزادے کا امتحان لینے کیلئے جام بڑھا دیا کہ مجھ سے کتنی محبت ہے؟ شہزادے نے ہاتھ میں پکڑ کر جام منہ کے قریب ہی کیا تھا کہ اس نے ہاتھ سے الٹ دیا اور کہا میں تو بس آپ کی محبت کا امتحان لے رہی تھی
لیکن صدیوں  کے اھساس سے سرشار، ان لمحوں کو گزرے ابھی ایک سال بھی نہ ہوا تھا کہ زینب آبادی محل چل بسی۔
شہزادہ اس کے غم میں کئی ماہ تک امور سلطنت سے بیگانہ رھا۔ کہتے ہیں شہزادہ اورنگزیب عالمگیر کی رقص اور موسیقی سے عداوت اس کے مرنے کے بعد شروع ہوئی تھی
لیکن اس بات کو سمجھنے سے میں قاصر ہوں کہ چار بیویوں، دس بچوں اور حرم میں سینکڑوں لونڈیوں، کنیزوں کی موجودگی کے باوجود وہ ایسی کونسی ایسی ماوارئی طاقت ہے کہ دنیا اور مافیہا کو بھول کر کوئی انسان کسی  ہستی  میں ایسے کھو جاتا ہے کہ جیسے  جسم ہی نہیں روحیں بھی ایک دوسرے میں تحلیل ہوگئی ہوں ۔کیا یہ بھی کوئی حقیقت ہے یا سچائی ہے جو پلک جھپکتے دل میں کپکپی اور روح میں گدگدی پیدا کردیتی ہے۔وجدان میں اتر کر اعصاب کو معطل کردیتی ہے۔
عشق نہ پچھے ذات، نہ دیکھے تخت، نہ ویکھے تاج۔



اوہ عشقا ! جیون جوگیا ، سانوں مار دِتّا ای تھاں

اسیں ماہی ماہی کُوکدے ، تیرا اُچّا کر گئے ناں


اوہ ہجرا ! مگروں لیہنیا ، ساڈے سِر تے تیرا وار

اسیں تیرے قیدی بن کے ، اج بازی بیٹھے ہار


اوہ رُتے نی مستانئیے ! نہ نویں بھلیکھے پا

فیر سانوں سجری مہک دے ، نہ ایویں پِچھّے لا


اوہ ویلیا ! ظالم ویلیا ، کیہ تیرا اے دستور

دو ہانی کھیڈاں کھیڈدے ، کر دِتّے کاہنوں دور


اوہ ویرنے ! دل دئیے ویرنے ایہ سارے تیرے غم

توں ہان بھُلایا ہان دا ، ایہ چنگا کیتا کم


اوہ موسما ! چیتر موسما ، اسیں بُھلّے تیرے پُھل

توں ساڈے پِچھّے سوہنیا ! نہ ککھاں وانگوں رُل


اوہ یار صفی مستانیا ، نہ عشق دی تار ہلا

اسیں تھکّے ٹُٹے ہجر دے ، تے مُکی پئی اے وا

Thursday, September 13, 2018

ہسٹری میڈ ایزی


شاہجہاں کے چار بیٹے تھے ۔ دارالشکوہ ، شجاع ، اورنگ زیب اور مراد۔
شاہجہاں کی ساری ہمدردیاں دارا کے ساتھ تھیں ۔دارا ایک پڑھا لکھا ،سمجھدار شہزادہ تھا لیکن اس کا ہندومت کی طرف رجحان بہت زیادہ تھا جس کی وجہ سے دوسرے شہزادوں، امرا اور عوام میں کافی تحفظات پائے جاتے تھے۔ اور یہی بات اس کے خلاف بغاوت اوراسکی شکست کا سبب بنیں ۔
پھر ایک دن اچانک بادشاہ بیمار ہو گیا اور اتنا بیمار کہ اس کے بچنے کی امید نہ رہی جس سے فائدہ اٹھا کر دارا نے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ جس کے مقابلے میں شجاع نے اپنے صوبے میں اور مراد نے اپنے علاقے میں اپنی تخت نشینی کا اعلان کردیا۔ اورنگزیب نے بادشاہت کا اعلان تو نہ کیا لیکن دارا کو وارننگ بھیجتا رھا کہ یہ سب کچھ قبل از وقت ہے۔ ابھی ایسا اعلان کردینا صرف جلد بازی ہے۔
ادھر شاہجاں کی صحت بہتر ہونا شروع ہوگئی لیکن اس نے دارا کا بھرپور ساتھ دیا۔ جس پر اورنگ زیب نے مراد کے ساتھ صلح کرکے دھلی پر فوج کشی کی تیاری شروع کردی۔ دارا  اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ شجاع کی سرکوبی کیلئے اپنے بیٹے سلیمان کے زیرنگرانی بھیج چکا تھا۔ اور شجاع شکست کھا کر پیچھے ہٹا تو سلیمان تعاقب میں دھلی سے بہت دور نکل چکا تھا۔  دارا جب  نگزیب اور مراد کے ساتھ لڑائی کیلئے نکلا تو بیٹے کیلئے اس کی مدد کیلئے پہنچنا ممکن نہیں رھا تھا۔ شاہ جہاں کی نصیحت کے برخلاف کہ بیٹے کی واپسی تک دھلی انتظار کرو، فوج لیکر اورنگ زیب سے لڑنے نکل پڑا۔
گھمسان کی جنگ ہوئی ابتدا میں پلڑا دارا کا بھاری تھا لیکن پھر مراد کی غیر معمولی بہادری سے جنگ کا نقشہ بدل گیا اور دارا کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ 
مراد اور اورنگزیب نے  جنگی میدان سے  آگرہ پہنچ کر شاہجہاں کے قلعے کا پانی بند کردیا۔جس پر بادشاہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگیا ۔اسی قلعے میں بادشاہ کو نظر بند کردیا گیا۔جہاں شاہجہاں نے زندگی کے باقی دس سال قید میں گزارے۔آگرہ سے اورنگ زیب اور مراد نے دھلی کیلئے سفر شروع کیا۔رستے میں اورنگ زیب نے دھوکے سے مراد کو اغوا کیا اور گوالیار کے قلعے میں نظر بند کردیا۔اور بعد میں ایک مقدمہ میں قصاص کی ادائیگی میں پھانسی پر چڑھا دیا
دارا کے خلاف ایک اور جنگ لڑی گئی اور وہ بھاگتا ہوا سندھ کے رستے افغانستان جارھا تھا لیکن بلوچستان میں ایک بلوچ سردار نے پکڑ کر اسے اورنگ زیب کی خدمت میں پیش کردیا جس کے بعد اس کا سرقلم کرکے شاہجہاں کی ناشتے کی میز پر سجا دیا گیا
شجاع کی بغاوت کچلنے کیلئے فوج بھیجی گئی اوروہ شکست کھا کر بھاگتا بھاگتا بنگال سے اراکان کے جنگلوں میں جا نکلا جہاں کہا جاتا ہے کہ وہاں کے مقامی لوگوں نے اسے قتل کر دیا
اور یوں اورنگزیب کے انچاس سالہ عہد کا آغاز ہوا
دارا کے بیٹے جس نے شجاع کی بغاوت کو کچلا تھا اسے گرفتار کرے جیل میں ڈالا دیا گیا جہاں زہر دے کر اسے مار دیا گیا
اپنے بیٹے محمد سلطان کو بھی بغاوت کے الزام میں گرفتار کرکے اسے زندان میں ڈال دیا تھا اورزندان خانے میں ہی انتقال کرگیا
ایک اور بیٹے محمد اکبر نے اورنگ زیب کے خلاف بغاوت کی تو شکست کھا کر باقی زندگی ایران میں گزاری
اور اورنگ زیب نے اپنی زندگی میں کسی بھی ایسے قابل بندے کو زندہ نہیں چھوڑا تھا جو اس کی بادشاہت کیلئے خطرہ ہو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے مرنے کے بعد ایک بھی شخص ایسا نہیں تھا جس کے اندر  صلاحیت ہوتی کہ وہ مغلیہ سلطنت کو سنبھال سکتا اور نتیجہ یہ نکلا کہ مغل سلطنت اورنگ زیب کی وفات کے بعد چند سالوں میں بکھر گئی اور ہندوستان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گیا اور انگریزوں کو ہندستان پر قبضہ کیلئے آسانی ہوگئ

Wednesday, September 12, 2018

المیہ


میں بہت کم سوچتا ہوں ۔لیکن کبھی کبھی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں۔
لگ بھگ ایک سال پہلے ایک نوجوان لڑکی میرے پاس آئی . جب اسے کہا کہ خود کو خوش رکھا کرو، ذہنی تناؤ سے بچا کرو، تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ تین ماہ پہلے میری شادی ہوئی تھی اور اپنے سسرال کافی خوش تھی ۔ ایک دن والد مجھے ملنے کیلئے آئے اور باتوں باتوں میں، میرے سسر کے ساتھ لڑائی ہوگی۔اور مجھے اپنے ساتھ لے آئے کہ اس گھر میں اپنی لڑکی نہیں چھوڑ سکتا۔سارے خاندان نے صلح کیلئے کوشش کی لیکن میرے والد اور سسر اپنی انا سے دستبردار نہیں ہوئے اور اب خلع کا دعوی کردیا گیا ہے۔
میں نے اسے سمجھایا کہ اپنے خاوند سے بات کرو کہ وہ الگ گھر لے کر تمہیں لے جائے ۔جس پر اس نے بتایا کہ وہ تو کئی بار چھپ کر مجھے ملنے آچکا لیکن اس میں پنے والد کی ناراضگی مول لینے کی ہمت نہیں ۔
خیر سمجھا بجھا کر بھیجا کہ حوصلہ رکھو انشاللہ کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔
کل جب ایک لڑکی کو شدید ذہنی ٹینشن میں لایا گیا تو پہلی نظر میں اس کو پہچان نہیں سکا کیونکہ نقاب نہیں لیا ہوا تھا اور اس کے ساتھ اس کی بوڑھی ماں اور ایک چھوٹی عمر کا ایک بھائی تھا۔ کچھ سنبھلی تو بتایا کہ اس کی خلع ہوگئی ہے اور آج جہیز کا سامان واپس پہنچ گیا ہے۔
میں تب سے سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ قصور کس تھا؟
 لڑکی یا لڑکے کے باپ کا۔جنہوں نے ایک بسا ہوا گھر اجاڑ دیا یا پھر اس لڑکے کا جس نے اپنی بیوی کو تحفظ دینے سے انکار کردیا۔۔
یا پھر اس سماج کا جس کی بندشیں روایات کے نام پر استحصالی نظام کی وہ بدترین شکل قائم کئے ہوئے ہیں جسمیں کوئی شخص ذاتی فیصلے لینے کا اہل بھی نہیں رہتا۔
یا قصور وار یہ معاشرہ ہے جس میں دو افراد جن کی زندگیوں کی شروعات کے ضامن رب اور رسول ہیں لیکن وہ دو افراد بھی اپنی زندگیوں کے فیصلے خود نہیں کرسکتے۔
 یا قصور وار وہ نظام ہے جس میں ہم اپنے بچوں کو محبت کے نام پہ اتنا مفلوج اور معاشی طور پر اپاہج کردیتے ہیں کہ نہ وہ مکمل جنم لیتے ہیں نا آزادی۔
میم سین

Monday, September 10, 2018

ہسٹری میڈ ایزی


اکبر بادشاہ کو ہماری نئی نسل زیادہ تر جودھا بائی کے حوالے سے جانتی ہے جو شہزادہ سلیم کی ماں تھی ۔ لیکن مغلیہ تاریخ کی کسی بھی مستند کتاب میں جودھا بائی کا نام نہیں ملتا۔ بلکہ شہزادہ سلیم کا نام بھی یا بالکل بچپن کے دنوں میں ملتا ہے یا اس کا تذکرہ ملتا ہے جب  شہزادے نے فرسٹیٹ ہوکر  اپنے باپ کے خلاف بغاوت کردی تھی

کون جانتا تھا گھر سے بے گھر، ہمایوں کے ہاں سندھ میں عمرکوٹ کے مقام پر پیدا ہونے والا بچہ آنے والے دنوں میں پورے ہندستان میں حکومت کرے گا ۔جو  ایک ایسی مضبوط حکومت کی بنیاد رکھے گا جسکی وجہ سے مغلیہ حکومت کو ہندستان سے اگلے تین سو سال نکالا نہیں جاسکے کا۔ کابل سے قندھار تک ، بہار سے بنگال تک۔ کشمیر سے مکران   تک ۔ دھلی سے گجرات اور راجھستان دکن تک کی ریاستوں تک ایک عظیم اور مضبوط سلطنت کی ناصرف بنیاد رکھی بلکہ اس کو بہترین ایڈمنسٹریشن مہیا کی۔ اکبر کے زمانے  کا ہندستان دنیا کی سب سے طاقتور ریاست کا درجہ حاصل کرچکا تھا۔
بادشاہ تھا مرضی کا مالک۔ جہاں بے شمار بڑی بڑی عمارتیں بنوائیں وہیں اس کو اپنے باپ کا دارلحکومت پسند نہ آیا تو آگرہ سے کچھ فاصلے پر سکری میں ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی اور اسے اپنا دارلحکومت بنالیا۔ بادشاہ سارے مذاہب کو اہمیت دیتا تھا۔کبھی لگتا تھا بادشاہ پارسی ہوگیا ہے تو کبھی جین مت میں داخل ہوگیا ہے۔ کبھی ہندؤں کے قریب لگتا تھا تو کبھی پرتگال سے آئے راہبوں کو یقین مل جاتاتھا جلد بادشاہ عیسائیت قبول کرلے گا۔ لیکن بادشاہ کو اپنی حکومت مضبوط کرنا تھا سو سب کو لالی پاپ دے کر رکھتا تھا۔ اپنی حکومت کو مضبوط رکھنے کیلئے ۔ہندو گھروں میں بھی شادیاں کیں ۔ اور ہندؤں کو کلیدی عہدوں پر ترقی دی ۔ہندوئوں کو خوش رکھنے کیلئے بے شمار اقدامات جیئے۔ لیکن جس طرح مسلمان علما اور اولیا کرام کا احترام کرتا تھا اور ان کی خدمت میں حاضری دیا کرتا تھا اس سے اس کی اسلام پسندی کا جذبہ بھی رد نہیں کیا جاسکتا تھا۔
بہت زیرک انسان تھا جب جہانگیر نے بغاوت کی تو اس کے خلاف جنگ نہیں کی۔ اس نے اکبر کے بہترین دوست ابولفضل جس شمار اکبر کے نورتنوں میں ہوتا تھا، کو مروا دیا جس کے غم میں بادشاہ کی کمر ٹوٹ گئی لیکن پھر بھی جہانگیر کے خلاف فوج کشی سے پرہیز کیا ۔ حرم کی عورتوں  نے تعاون کیا اورجہانگیر سے معافی دلوائی۔ کیونکہ اکبر جانتا تھا کہ آپس کی لڑائی سلطنت کو کمزور کردی گی اور اور عالمگیر کےمقابلے میں اس کے  بیٹے خسرو کو بادشاہ بنانے کی خواہش سے دستبردار ہوکر مغل عہد کو دوام بخشا۔ 
میں جب تاریخ کے صفحے کھنگال رھا  ہوتا ہوں تو مجھے عموما اس سے کوئی سبق حاصل کرنے کا زیادہ شوق نہیں ہوتا ۔میری  ماضی کے شعور کو سمجھنے کی ایک کوشش ہوتی ہے جن کے زیر اثر اس زمانے کی فیصلے کیئے گئے ہوتے ہیں۔ ماضی کی ضروریات کو سمجھنا اور ان کیلئے اقدامات کو اس زمانے کے شعور کے ساتھ سمجھنا۔ لیکن اس کوشش کے دوران بہت سے واقعات ایسے مل جاتے جن سے محظوظ بھی ہوتا ہوں اور کبھی کبھی عبرت بھی ملتی ہے
 کئی دن سے اکبر کی زندگی  پڑھ رھا تھا۔ اس کے کی زندگی کے اہم واقعات، فیصلے ، لڑائیاں بغاوتیں، انتظام کوئی پچاس سالہ حکومت اور تریسٹھ سالہ زندگی کے جب سارے باب ختم ہوگئے تو ایک ایسا واقعہ نظر سے گزرا جس کو پڑھ کر ناصرف ایک اداسی چھا گئی بلکہ انسانی بے چارگی لاچارگی کا پہلو سامنے آگیا۔
اکبر کے انتقال کے بعد اس کو آگرہ کے شہر سکندرہ میں ایک مقبرہ میں دفن کردیا گیا تھا۔جو اس نے اپنی زندگی میں ہی بنوا رکھا تھا۔ جس پرسونے چاندی کا کافی کام کیا گیا تھا۔قیمتی قالین بچھائے گئے تھے۔ جہانگیر بادشاہ بنا پھر اس کے بعد شاہجہاں اور اس کے بعد اورنگ زیب عالمگیر۔اکبر کے مرنے کے کوئی پجھتر سال بعد مقامی جاٹ قوم نے راجارام جاٹ کی قیادت میں اورنگ زیب سے بغاوت کردی اور آگرے پر قابض ہوگئے۔ انہوں نے نہ صرف تاج محل کو نقصان پہنچایا بلکہ اکبر کے مقبرے پر جاکر سونا چاندی قالین لوٹ کر قیمتی لکڑی کو آگ لگا دی ۔ میناروں پر توڑ پھوڑ کی اورعمارت کو بھی کافی نقصان پہنچایا  اور قبر سے بادشاہ کی ہڈیاں نکال کر ان کو جلا دیا گیا۔ 

Saturday, September 8, 2018

تاریخ کا المیہ



تاریخ کا المیہ:

اگر میں اپنی زندگی کے گزارے گئے چالیس سالوں کو تین سو پینسٹھ دن شمار کروں اور پھر زندگی کے اہم واقعات کی فہرست بنا کر اس پر کوئی کتاب لکھوں تو ایسے واقعات زیادہ سے زیادہ تیس دن بن جائیں گے چلیں مزید کچھ اضافہ کرلیں تو یہ پچاس دن بن جائیں گے۔اور جب دنیا میری زندگی کو پڑھے گی تو ان کو وہ پچاس دن معلوم ہوجائیں گے لیکن میری زندگی کے جو تین سو پندرہ دن باقی رہ جائیں گے اس سے کسی کو شناسائی نہیں ہوگی اور ان کے بارے میں کوئی نہیں سوچے گا۔حالانکہ وہ میری اصل زندگی ہے جو میں نے گزاری ہے۔

اور یہی تاریخ کاالمیہ ہے
جب ہم خاندان عباسیہ ، خاندان امیہ کی تاریخ کو مرتب کرتے ہیں تو ہمیں سال کے پچاس دن مل جاتے ہیں جو ظلم، جبر اور قتل وغارت سے بھری پڑی ہے لیکن وہ تین سو پندرہ دن جن میں راز پوشیدہ تھے ،مدینہ سے سے شروع ہونے والے ریاست کی سرحدیں افریقہ اور یورپ تک پہنچنے کے ،وہ کسی کو دکھائی نہیں دیتے

یہی حال ہندستان کی تاریخ کا ہے اور یہی سلطنت عثمانیہ کا۔ ہمارے سامنے وہ پچاس دن رکھ کر باقی سوا تین سو دن نظروں سے اوجھل کردیئے جاتے ہیں۔

اکبر کے دین الہی کو تو سبھی جانتے ہیں۔اسے کافر قرار دینے والوں کی بھی کمی نہیں۔کیونکہ وہ سب پچاس دنوں پر لکھا گیا ہے لیکن ہمارے علم میں وہ انتظامی فیصلے،ادارے، وہ اصلاحات سامنے نہیں آتیں جن کی بدولت پچاس سال تک کابل سے بنگال تک حکومت کی رٹ قائم رکھی گئی کیونکہ وہ سب بھی تین سو پندرہ دنوں پر مشتمل تھے ۔۔

میرا سلطان کی بدولت حرم کی سازشوں اور حرص اور ہوس کی داستانیں تو سب جانتے ہیں۔ لیکن سلطان کو سلیمان دا مگنیفیشنٹ کس نے بنایا تھا۔ہمیں ان سے کبھی آگائی نہیں ہوئی۔ شائد بہت کم لوگ جانتے ہیں میرا سلطان کے بادشاہ کی سلطنت اپنے زمانے کی روئے زمین پر سب سے بڑی، مضبوط اور طاقتور ریاست سمجھی جاتی تھی۔ اور اس کے پیچھے کون سے کون سے راز تھے ہم تاریخ کے ان سوا تین سو دنوں میں میں کھو دیتے ہیں ۔

تاریخ ہمیں آئس برگ کی صرف ٹپ دکھاتی ہے اور ہمارے ذہنی مرعوبیت کا شکار، احساس کمتری میں مبتلا دانشور اس ٹپ کو اٹھا کر پورے آئس برگ کی ساکھ کو گہنا دیتے ہیں

اور یہی تاریخ کا ایک دردناک المیہ ہے

میم سین

Tuesday, September 4, 2018

ہسٹری میڈ ایزی...





آپ نے بچپن میں اکثر ایسی کہانیاں سنی ہونگی. جس میں شہزادی کو ایک جن اٹھا کر لیجاتا ہے اور پھر کوئی لکڑہارا یا کسی دور کی بستی کا شہزادہ اسے بازیاب کرواتا ہے اور بادشاہ اور ملکہ اپنی بیٹی کی شادی اس سے کروا کر خود حج کرنے چلے جاتے تھے ۔ تو آج ہم آپ کو بادشاہوں کے اس حج کے راز کے بارے میں بتاتے ہیں ۔
اگر بیرم خان نہ ہوتا توآج تاریخ کی کتابیں مغلیہ عہد کا سرسری ذکر کرکے آگے بڑھ گئی ہوتیں ۔جس دن ہمایوں سیڑھیوں سے گرنے کے بعد کچھ دن زخمی رہنے کے بعد انتقال کرگیا تو اس وقت اکبر صرف چودہ سال کا تھا اور بیرم خاں کے ساتھ ستلج کے کنارے پنجاب کے علاقے میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ہمایوں کی وفات کو کافی عرصے تک خفیہ رکھا گیا۔ ایک شخص روزانہ ہمایوں کے حلیہ میں تمام ضروری کاروائیوں کا حصہ بنتا جو ہمایوں کے معمولات کا خاصہ تھا۔ اور بیرم خان برق رفتاری سے اکبر کو لیکر دھلی کی طرف روانہ ہوا اور ہمایوں کی وفات کا اعلان کرکے اکبر کی تخت نشینی کا اعلان کردیا۔
بیرم خان ترک النسل اور بخارہ کا باشندہ تھا اور ایرانی بادشاہ کا سالار تھا۔ بابر بادشاہ کی سمرقند مہم میں بیرم خان کو مدد کیلئے بھیجا گیا۔ بابر اس کی صلاحیتوں سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے بیرم خان کو اپنے ساتھ کام کرنے کی درخواست کی اوریوں بیرم خان بابر کے ساتھ ہندستان آگیا۔بابر کے ساتھ اس نے کیا کارنامے سرانجام دیئے تاریخ خاموش ہے ۔ لیکن جب ہمایوں نے گجرات کی مہم کا آغاز کیا تو بیرم خان پہلی مرتبہ ایک اہم کمانڈر کی حیثیت سے سامنے آیا۔ اس کے بعد جب ہمایوں کو سیر شاہ سوری سے شکست ہوئی تو یہ یہ بیرم خان ہی تھا جس نے ہمایوں کو سندھ تک پہنچایا اور پھر ایران کے بادشاہ کے ساتھ تعلقات بنا کر دیئے اور بادشاہ کو ایران میں سیاسی پناہ دلوائی۔ اور پھر ایرانی شاہ کی مدد سے ہمایوں نے اپنی فتوحات کا دوبارہ آغاز کیااور دوبارہ دہلی کی سلطنت پر قابض ہوا۔اکبر کی پیدائش ہمایوں کی جلاوطنی کے دور میں ہوئی تھی. کابل کی فتح کے بعد اکبر کو باقائدہ بیرم خان کی سرپرستی میں دے دیاگیا۔
جس وقت ہمایوں کی موت واقع ہوئی بیرم خان کیلئے سلطنت پر قابض ہوجانا کوئی مشکل کام نہیں تھا لیکن اس نے نمک حلالی کا ثبوت دیتے ہوئے اکبر کو دھلی لاکر اسے تخت پر بٹھایا اور اگلے چار سالوں میں پنجاب، گوالیار، اجمیر اور بہت سے علاقے فتح کرکے دھلی کی سلطنت کو وسیع کر کے دیا۔۔
لیکن اکبر بادشاہ کو بیرم خان کی یہ چاپکدستی اور سلطنت کے امور میں مداخلت کچھ پسند نہیں آرہی تھی اور دبے الفاظ میں اسے اپنی اوقات میں رہنے کیلئے اشارہ دیتا رہا لیکن جب بیرم خان نہیں مانا تو پھر ایک دن اسے بلا کر کہا ..
تسی سلطنت دی بہت خدمت کرلئی جے۔ تے ہن کچھ اللہ اللہ کرو
جاکر حج کرکے آؤ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب حج کا سفر بہت طویل اور بہت پر خطر سمجھا جاتا تھا۔حج پر جانے سے پہلے آخری ملاقاتیں کر لی جاتی تھیں۔اورآج بھی حج پر جانے سے پہلے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقات کی یہ رسم کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ ۔ بے یقینی ہوتی تھی کہ پتا نہیں حاجی صاحب کا دوبارہ چہرہ دیکھنا بھی نصیب ہوگا یا نہیں ۔بیرم خان گھاگ بندہ تھا بادشاہ کی نیت جان گیا اورحج پر جانے سے انکار کرکے بغاوت کردی لیکن شکست کھائی اور چاروناچارحج کیلئے نکلنا پڑا۔
بیرم.خان نے ساری دنیا سے پنگے لیئے ہوئے تھے اور ہر جگہ دشمنیاں پال رکھی تھیں . گجرات سے گزرتے ہوئے اس کی علاقے میں موجودگی کی مخبری ہوگئی کہ اور سوریوں کے ایک کمانڈر کی موت کا بدلہ بیرم خان کو قتل کرکے لے لیا گیا اوراطلاع ملنے پربادشاہ سلامت نے "جو اللہ کی مرضی " کہہ کر اپنے دربار میں مصروف ہوگیا..
میم.سین