Sunday, March 31, 2019

ناسٹیجیا

شفیق الرحمن کی نیلی جھیل کا طلسم میرے اوپر بہت دیر تک رہا۔جھیل کی دوسری جانب کیا ہے؟ وہاں پریوں کے ڈیڑے ہیں۔بونے وہاں رہتے ہیں یا سمرفس وہاں آباد ہیں ۔جھیل کی دوسری جانب ایلس ان ونڈر لینڈ آباد تھا۔یا سنہرے بالوں والی شہزادی اپنے شہزادے کے انتظار میں بہتی کرنوں کو ڈھونڈ رہی تھی یا پری تھی کوئی ، کسی دیو کی قید میں ،کسی بہادر لکڑہارے کے بیٹے کے انتظار میں ۔ وہ کب آئے گا اور اسے رہائی دلائے گا۔ نیلی جھیل کی پراسراریت ایک رومانوی معنویت کے ساتھ ہمیشہ میرے ساتھ رہی ہے۔کسی ان دیکھی منزلوں کا متلاشی، کسی دیو ملائی حقیقتوں کا منتظر۔کبھی ٹی وی پر کسی انگلش فلم میں دکھائی دینے والے معصوم چہرے کے ذہن پر ثبت ہوتے نقوش، تو کبھی راہ چلتے کسی دوشیزہ کا دلوں کو مغموم کر دینے والا نگاہوں کا سکوت
ایڈورڈ دنیا سے مایوس ہو کر خودکشی کے ارادے سے جمپ لگانے دریا پر پہنچا اور اپنے ماضی کی یادوں کو دھرا رہا تھا اور ہاتھ سے پاس پڑی کنکریوں کو اٹھا کر پانی میں پھینک رہا تھا۔  اچانک پانی سے سنہرے بالوں والی لڑکی نکلی اور چلائی۔ کیا کر رہے ہو۔ دیکھ نہیں سکتے۔ میں پانی میں ہوں۔ جل پری کو دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے ابل پڑیں۔اور پھر دونوں کے درمیان تکرار سے ان کی دوستی کا آغاز ہوا۔ اور پھر کیسے دنیا سے چھپتے اور ایک ایڈونچر سے گزرتے رہے، ناول کو تو 262 صفحے لگے اور فلم کو ڈیڑھ گھنٹہ۔
یہ چند سال پہلے کی بات ہے ۔قلم سے کیمرے تک کے پیج کی بنیاد رکھے چند دن گزرے تھے۔  جمعہ کی نماز پڑھ کر نکلا تو مسجد کے باغیچے میں کھلے گلابوں کو دیکھ کر میری رگ فوٹو گرافی پھڑکی ۔اور پھولوں کی ڈھیڑوں تصویریں کھینچیں ۔وہ پھول  ایک عام سا پھول تھا۔سیدھا سادہ سا گلاب کا پھول۔ بہار کی آمد کی نوید  سناتا ہوا۔ لیکن مجھے  معلوم  نہ تھا یہ پھول ایک کردار میں ڈھل جائے گا اور آنے والے دنوں میں میری زندگی کے معیار بدل کے رکھ دے گا۔  اس کردار  میں ایک طلسماتی حسن تھا۔ ایک رومانوی نکھار تھا۔ ایک جذباتی ٹھہراؤ تھا۔ کردار نے میرے وجود کے ارد گرد یوں حصار  باندھا کہ میں چلتے پھرتے،سوتے ، جاگتے اس حصار کا پابند ہوگیا تھا۔۔
وہ  ٹھنڈی ہوا کی تازگی کے احساس کا ایک جھونکا تھا۔اس کی موجودگی سرشاری اور شادمانی کا سبب۔ امید کا اک دیا  ۔ کسی پینٹر کا درخت پر بنایا گیا پتا جو جاں بلب مریض کے اندر زندگی کا جذبہ پیدا  کرتا ہے۔ شعور کی ایسی علامت جہاں سے ذہانت کی شعائیں پھوٹتی ہیں۔جہاں سے زندگی اپنا مفہوم اجاگر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ایسی علامت، ایسی بلاغت جن کی تکمیل سے مسرتوں کے جام پھوٹتے ہیں۔میرے لئے وہ زندہ رہنے کے بہانوں میں سے ایک بہانہ بن گیا۔مجھے نیلی جھیل کی دوسری جانب جانے پر اکسایا۔میں ایلس ان ونڈر لینڈ کے سفر پر نکلا تو پھر واپس نہ لوٹ سکا۔ 
میری زندگی کے شب و روز بدل گئے۔کبھی میکسیکو امریکہ کے بارڈر پرکسی ویران گرجا گھر میں ویمپائرز دیکھنے نکل پڑتا۔تو کبھی برمود ا ٹرائینگل کے اسرار ڈھونڈنے کی تگ و دو میں لگ جاتا۔کبھی شخصی اور مذہبی آزادی کی بحث ۔تو کبھی فکری اور تخلیقی کشمکش کا توڑ۔کبھی مزاح سے علاج غم اور کبھی اعتراف عجزو ہنر سے مورال کا نباہ۔میں کیا کہوں ، میں کیا سوچوں جنت گمگشتہ کے تعاقب میں بھٹکتے رستوں پر جب میں، حدت جذبات سے کانپ رہا تھا، وہ پھول شجرسایہ دار بن گیا۔جب حبس جنوں تھا، وہ ابرباراں بن گیا۔ جب سوچ کے دروازوں پر پہرے لگے نظر آتے تو سارے قفل ٹوٹ جاتے۔۔
میں ہوس اقدار سے بیگانہ ہوں، میرے جینے کی تمنا سطحی ہے۔جہاں دولت کی فراوانی درکار ہے اور نا مجھے نمودونمائش سے کوئی سروکار ہے۔ زندگی کا مقصد میرے نزدیک جذبوں کا احترام ہے۔انسانیت سےپیار ہے۔اور مجھے لگا میرے ان جذبوں کو ایک زبان مل گئی ہے۔
  آنکھوں میں بلا کی گویائی آگئی۔  یکسوئی میں بے نیازی  جھلکنے لگی۔ زندگی کی معنویت بدلنے لگی۔ مسرت کی نئی حدیں متعین ہونے لگیں ۔ ہوسکتا ہے ،یہ میرے وِجدان کا قصور ہو۔میر ی ذہنی تخلیق ہو۔مگر اتنی پرکشش تخلیق اور ان سے وابستگی میں کوئی حرج تو نہیں ہے۔
اس دن کے بعد میں نے جسم میں اپنی روح کو پہلی بار محسوس کیا ۔مجھے معلوم ہوا روح کا جسم کے ساتھ رشتہ کیا ہے۔رواں رواں مسرت،اور  ایک سرشاری۔اک ادائے دلنوازی  ۔جسم و جاں کی الاؤ روشن ہو گئی ۔تلخئی سوچ و فکر کسی گلیشئر سے آتی سرد ہوا میں جم گئی ۔روح کو درپیش اتھل پتھل تھم گئی ۔میں جو اپنی ذات کا عرفان جاننے سے قاصر رہا تھا ۔مجھے یوں لگا جیسے کسی نے میری دکھتی رگوں پر مرہم رکھ دیا ہے
میں انسانی تضادات سے پڑے کسی قدم پر آباد ہوگیا۔ میرا ظرف کشادہ  ہوگیا اور وسعت پذیر بھی۔ مزاج میں ایک یکسوئی نظر آنے لگی۔ باتوں میں استقامت ۔آنکھیں جھیل سے نظارے دیکھنے لگیں۔ میں جستجو کا مسافر تھا لیکن کسی جمود کا شکار ہوچکا تھا لیکن ایک نئے سفر کا آغاز کردیا۔ تاریخ کے بوجھ کو اپنا بوجھ سمجھ کر فاصلوں کو کم کرنا شروع کر دیا۔ وِجدان کی باتیں  کرنے لگا۔روح کی بالیدگی کو پھر سے ماننے لگ گیا ۔فرشتے اور انسان میں فرق سیکھ لیا ہے۔
یہ سب زندگی کا بہلاوہ بھی  ہو سکتا تھا۔محض دلاسے بھی ۔بچے کو سلانے کیلئے ماں کی سنائی ہوئی کوئی لیلہ رخ پری کی داستان بھی۔جو رات بھر آپ کے ساتھ سفر کرتی ہے اور صبح ہوتے ہی رخصت ہو جاتی ہے ۔مگر یہ بہلاوہ تھا تو کیا حرج تھا؟ ذہنی تخلیق تھی تو اعتراض کیوں؟ یہ زندگی بھی تو اک دھوکہ ہے۔ بہت اندھیرے کے بعد روشنی ملے توخواب بنتے ہی ہیں۔ تو کیا حرج تھا اگر خوابوں سے حقیقت اور حقیقتوں سے خوابوں کا سفر چلتا رہتا۔۔۔۔
لیکن   ایڈونچر کتنا ہی دلچسپ کیوں نہ ہو ۔ ایک انجام دیکھنا ہوتا ہے ۔کتاب  کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو۔ ایک اختتام لکھا ہوتا ہے۔فلم کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو ۔اس کا ایک دورانیہ ہوتا ہے ہے  ۔اور آج شام اس پھول کو بھی کسی نے چرا لیا۔

Sunday, March 24, 2019

ہیر رانجھا میڈ ایزی


یہ داستان مغلوں کے ہندوستان آنے سے کچھ سال پہلے کی ہے۔ضلع سرگودھا میں ایک قصبہ تخت ہزارہ تھا۔ جس کے چوہدری موجو کے آٹھ بیٹے تھے جن میں سے سب سے چھوٹا رانجھا تھا۔ کام کا نا کاج کا بس بانسری خوب بجاتا تھا۔لمبے لمبےبال، سوہنا گھبرو تھا ۔بھائیوں بھابیوں نے کام نہ کرنے پر پہلے پہل تو باتیں سنائیں  ۔ لیکن پھر تنگ آکر زمین کا بٹوارہ کرلیا اور سب سے نکمی زمین رانجھے کو دے دی۔ نازک اندام  رانجھا۔ مشقت اس کے بس کاکام نہیں تھا اورجلد ہی مایوس ہوگیا

ادھر جھنگ شہر میں سیال قوم رہتی تھی ۔ ان کے کے سردار مہر چوچک کی بیٹی کا  نام ہیر تھا جس کے حسن کی شہرت دور دور پھیلی ہوئی تھی۔یہ شہرت رانجھے تک بھی پہنچی ہوئی تھی۔ گھر کے طعنوں اور مشقت سے تنگ آکر رانجھے نے جھنگ کے سفر کی ٹھانی۔راستے میں ایک گاؤں کی مسجدمیں رات ٹھہرا تو پہلے تو اس کا مسجد کے امام سے جھگڑا ہوگیا اور صبح جب اٹھا تو کنوئیں پر پانی بھرنےآئی لڑکیوں نے اسے دیکھ لیا اور ایک نے کھلم کھلا اعلان کردیا۔  ویاہ کروں گی تو صرف اس نوجوان سے۔ ورنہ نہیں۔ اور رانجھے کو چھپ چھپا کروہاں سے نکلنا پڑا۔چلتے چلتے دریائے چناب پر  جاپہنچا۔ ایک کشتی کنارے پر آکر رکی تو اس میں سے دوسرے مسافروں کے علاوہ پانچ پیر بھی نکلے اوررانجھے کو بنسری بجاتے دیکھ کر سیالوں کی ہیر اسے بخش دینے کا کہہ کر چل دیئے۔
رانجھا کشتی پر سوار ہوا تو دیکھا کہ کشتی پر ایک پلنگ بھی ہے۔ ملاح نے بتایا کہ ہیر اپنی سہیلیوں کے ساتھ جب کشتی پر سیر کیلئے آتی ہے تو اس پلنگ پر آرام کرتی ہے۔ رانجھے نے اجازت مانگی کہ کچھ دیر اس پر سستا لوں تو ملاح جو اس کی بنسری پر فدا ہوچکا تھا انکار نہ کرسکا اور رانجھے کو اس پر لیٹتے ہی نیند آگئی۔ ہیر جب سہیلیوں کے ساتھ کشتی پر پہنچی تو اپنے پلنگ پر ایک اجنبی کو دیکھ کر سخت غصہ آیا۔ سہیلیوں نے اسے مارکر جگایا تو شانوں تک جھولتے سیاہ بال اور رانجھے کے حسین چہرے نے ہیر سے اسکا دل وہیں چھین لیا۔ہیر کو جب پتا چلا اجنبی ہے تو اسے اپنی بھینسوں کی دیکھ بھال کیلئے ملازم رکھ لیا
اور یوں دونوں کی ملاقاتیں ہونے لگیں۔ہیر کا ایک چاچا تھا ۔کیدو، لنگڑا تھا، اسے رانجھا ایک آنکھ نہ بھایا اور ہیر کے ابا کے کان بھرتا رھا۔ ایک دن کیدو کی باتوں میں آکررانجھے کو نوکری سے نکال دیا۔ لیکن بھینسیں جو رانجھے کی بنسری کی عادی ہوچکی تھیں۔ وہ قابو سے باہر ہونے لگیں تو مجبورا رانجھے  کو دوبارہ ملازمت پر رکھنا پڑا۔ لیکن اب دونوں پر گہری نظر رکھنا شروع کردی گئی ۔ اورایک دن کیدو کی وجہ سے  دونوں کو اکھٹے پیار محبت کی باتیں کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا۔
اور مظفر گڑھ کے ایک گاؤں رنگ پور کے کھیڑوں کے طرف سے آئے ہوئے رشتے کو قبول کرکے شادی کی تیاریاں شروع کردیں ۔لیکن جب نکاح کے وقت رضامندی پوچھی گئی تو ہیر نے صاف انکار کردیا کہ میرا نکاح پانچ پیروں نے رانجھا کے ساتھ کردیا تھا ۔لیکن اس کے اس سارے ہنگامے کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور سیدا کھیڑا اسے بیاہ کر لے گیا۔
رانجھا کو نوکری سے نکالا گیا تو واپس اپنے گاؤں تخت ہزارہ واپس لوٹ گیا۔ وہاں اسے ہیر کے بیاہ کی خبر پہنچی تو دل برداشتہ گھر سے نکل گیا۔جہلم کے قریب جوگیوں کا ٹلہ تھا جہاں گوروگال ناتھ کا آستانہ تھا۔ جس نے رانجھے کے کانوں میں مندریاں ڈال کر اسے اپنا جوگ دے دیا اور عشق کی آگ میں رانجھا پہلے ہی تپا ہوا تھا اسلئے ساری منزلیں بہت جلد طے پاگیا۔گورو سے اجازت لیکر رانجھے نے جوگی بن کر رنگ پور  جاکر ایک باغ میں ڈیڑہ ڈال لیا اورایک دن ہیر کی نند سہتی جو خود مراد بلوچ کے عشق میں مبتلا تھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ جوگی کو ملنے آئی اسے جوگی کی باتوں میں پراسرایت نظر آئی جس کا ذکر اس نے ہیر سے بھی کیا۔
ایک دن رانجھا جوگی کے روپ میں ہیر کے گھر جاپہنچا اور اللہ کے نام کی صدا لگائی۔سہتی نے اس کے کشکول میں اناج ڈالا تو اس نے گرا دیا جس پر دونوں کے درمیان تکرار ہوگئی جسے سن کر ہیر باہر نکلی تو دونوں کی نگائیں چار ہوگئیں اور ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ہیر نے اپنی نند کو ساری بات بتائی اور رانجھے سے چھپ کر ملنے لگی۔ایک دن ہیر سہیلیوں کے ساتھ کھیتوں میں گئی ہوئی تھی کہ اس کے پاؤں میں کانٹا چبھ گیا۔ لیکن اس کی نند نے شور ڈالا کی زہریلا سانپ کاٹ گیا اس لیئے کسی جوگی کو بلایا جائے۔ یوں رانجھے کو بلایا گیا۔ جس نے ہیر کے کمرے سے کنواری لڑکیوں  کے علاوہ سب کو نکل جانے کا کہا۔ یوں ہیر سہتی اور رانجھا اکیلے کمرےمیں رہ گئے۔مراد بلوچ سے بھی ربطہ کرلیا گیا اور یوں دم کے بہانے فرار ہونے کا پروگرام مکمل بنا لیا گیا۔صبح جب ناشتہ کیلئے کمرے پر دستک دی گئی تو ان کے فرار کی اطلاع پورے گاؤں میں پھیل گئی اور گھوڑوں پر ان کا پیچھا کیا گیا۔ مراد بلوچ کی مدد کو ان کا قبیلہ پہنچ گیا اور ان کو پناہ میں لے لیا لیکن رانجھے کو پکڑ کر خوب مارا گیا اور ہیر کو لیکر واپس چلے گئے۔ رانجھا روتا پیٹتا وہاں کے راجہ عدلی کے پاس جا پہنچا۔ جہاں کھیڑوں کو بلایا گیا اور دونوں فریقوں کی بات سن کر قاضی نے فیصلہ کھیڑوں کے حق میں دے دیا۔ جس پر رانجھے نے بددعا دی تو سارے شہر کو آگ لگ گئی۔جس پر راجہ ڈر گیا اور کھیڑوں کو بلا کر ہیر کو رانجھے کے حوالے کر دیا گیا۔ جب رانجھا واپس تخت ہزارہ کو جانے لگا تو ہیر کے گھر والوں نے  کہا اس طرح تو تیرے گھر والے ہیر کو قبول نہیں کریں گے تو ایسا کر اپنے گھر جا اور بارات لیکر جھنگ آ۔جو  سب ایک بہانہ تھا۔ 
جھنگ لیجا کر ہیر کو زہر دے کر مار دیا اور مشہور کردیا گیا کہ بیمار ہوکر ہیر چل بسی اور رانجھا بارات لیکر تخت ہزارے سے نکلنے لگا تھا  اسے  اطلاع ملی تو یقین نہ آیا لیکن جب قبر دیکھی تو زمین پر گرا اور دوبارہ نہ اٹھ سکا

Wednesday, March 13, 2019

اٹھارہ سو اٹھاون کا حجاز


پچھلے پندرہ دن جس کتاب کے نشے میں گزارے ہیں اس پر تفصیلی تبصرہ نہ لکھا گیا تو شائد اس کتاب سے زیادتی ہوگی

یہ صرف ایک کتاب ہی نہیں بلکہ ایک ڈاکومیٹری ہے جو آپ کواپنے ساتھ سفر کرواتی ہے
رچرڈ برٹن کا لکھا ہوا یہ ایک سفرحج ہے۔جو اٹھارہ سو ترپن میں مسلمانوں کے مقدس جگہوں کی تفصیلات حاصل کرنے کیلئے رائل سوسائٹی آف انگلینڈ کے تعاون سے مسلمان کے بھیس میں کیا گیا اور پھر  سارے سفر کی روداد ایک کتاب کی شکل میں ترتیب دی جو اٹھارہ سو چھپن میں شائع ہوئی۔کتاب میں صرف حجاز کے حوالے سے ہی معلومات نہیں دی گئیں بلکہ مختلف قوموں،عمارتوں، بیماریوں، رسموں، جغرافیائی   خدوخال کے حوالے سے پوری دنیا سے ریفرنس جابجا ملتےہیں ۔
قاہرہ میں قیام سے  کتاب کے باقائدہ آغاز  کے بعد جس طرح شہر کے بارے میں تفصیل ملتی ہے..لوگوں کے رہن سہن اور سرکاری دفاتر کا احوال۔بازاروں کی کیفیت، عمارتوں کے ڈیزائن۔۔لوگوں کے رویئے ،مساجد کا نقشہ ۔غیر ملکیوں سے سلوک ۔رہائش کے مسائل، سفر کی صعوبتیں۔ ہر اہم جگہ کے تاریخی حوالے ۔سیاسی منظرنگاری۔۔۔۔۔اور ابتدائی ابواب میں ہی انسان دم بخود رہ جاتا ہے
اور پھر مصر سے بحر احمر کے رستے مدینہ منورہ تک کا سفر ۔۔اور سفر کی مشکلات ۔۔مدینہ پہنچ مسجد نبوی کی جس باریک بینی سے تفصیلات فراہم کرتا ہے وہ غیر.معمولی ہے۔مدینہ کی اہم.مساجد سے لیکر شہر کے گلی کوچوں تک اور گھروں کے ڈیزائن سے لیکر مدینہ شہر کے لوگوں کی عادات واطوار،خوارک تک ، مدینہ شہر کے ارد گرد پائی جانے والی بیماریوں سے ان کےعلاج تک ۔مدینے کے ارد گرد آباد قبائل اور ان کے رسم ورواج ۔شہر میں دستیاب پھلوں اور اجناس ۔اور کونسی جنس کہاں سے آتی ہے۔مدینہ میں پائی جانے والی کجھوروں کی اقسام پر طویل مکالمہ ۔  مدینہ شہر میں پائے جانے والے جانور اوراور ان کی اقسام ، علاقے میں اگنے والے پودے،درخت اور پھلوں پر بحث۔۔جنت البقیع میں موجود قبروں اور مزاروں کے سائز اور حدواربعہ پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ہر جگہ اور مقام کے بارے تاریخی حوالوں سے جس طرح قاری کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے وہ ناقابل یقین ہے ۔کم ازکم میرے لیئے ایک بالکل نیا اور پرسحر تجربہ
حجاز کے بدئوں پر جس تفصیل کے ساتھ اس نے باب باندھا ہے وہ بھی غیر معمولی ہے۔ان کی عادات واطوار رہن سہن ان کی رسموں ،ان کی خواراک ، ان کے عقائد پر بڑی تفصیل سے لکھا ہے
مدینہ سے مکہ تک کا سفر پھر حج اور حج کے ارکان کی تفصیل اور پھر ان کی ادائیگی کا احوال...کعبہ اور حرم شریف پر ایسا رواں تبصرہ کہ ایسا لگتا آپ وہاں کھڑے ہوکر ڈیڑھ صدی پرانے حرم کو  اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔خانہ کعبہ کا حدود اربعہ ، اس کی اندرونی اور بیرونی کیفیت  اور ساتھ ہی اس کی مکمل تاریخ ..۔۔جنت المولی کا تفصیلی بیان ۔۔.مکہ شہر کے اہم مقامات، اس کا جغرافیہ ، اس کی تاریخ ، لوگوں کے رویئے،مکہ اور مدینہ شہر کے جغرافیے اور لوگوں کے رہن سہن میں  فرق پر بحث۔۔

کتاب کی زبان اگرچہ کچھ  آسان انگلش میں.نہیں اور پرانے ناموں کی وجہ سےجگہوں کو سمجھنے کیلئے بھی بار بار گوگل کا سہارا لینا پڑتا...لیکن کتاب کا پہلا باب آپ کو اپنی گرفت میں لیتا ہے تو پھر آخری صفحے تک آپ ڈیڑھ سو سال پرانے حجاز سے واپس آنے کو تیار نہیں ہوتے
ڈئون لوڈ کرنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں
http://www.mediafire.com/file/20cavw9obua63vz/Pilgramage_Makka_1856.pdf/file

آوارہ گرد کی ڈائری... شالیمار باغ کی کہانی....




جوڑوں کا درد محسوس کرنا ہوتو اس کیلئے سب سے بہترین جگہ ہمارے تاریخی مقامات اور پبلک پارکس ہیں ۔جہاں بھی نظر ڈالو ،اپنے درد کی تصویر سجائے کسی نہ کسی کونے، کسی راہداری کے پاس، آپ کو کوئی جوڑا بیٹھا ضرور نظر آئے گا۔اور میرے جیسا ٹورسٹ خواہ مخواہ احساس شرمندگی کاشکار ہوجاتا ہے کہ شائد ان کی خلوت میں مداخلت کرکے کسی جرم کامرتکب ہورھا ہوں۔ کٹاس میں بھی ایک مندر کے اندرشہد کی مکھیوں سے ڈرتے ڈرتے گھسا تو ایک جوڑے کی خلوت میں مداخت پر کئی دن تک 
شرمندگی کا احساس ہوتا رھا تھا۔
خیر جوڑوں کے درد پر پھر کبھی بات کریں گے پہلے آتے ہیں آج کے موضوع کی طرف...
ایک شالیمار باغ وہ ہے جس کو ہم لاہور کے حوالے سے جانتے ہیں لیکن اصل باغ وہ تھا جو جہانگیر بادشاہ نے کشمیر میں بنوایا تھا جس میں دن بھر فوارے بہتے تھے۔پھل دار درختوں کی بہتات تھی جس کی وجہ رنگ برنگ کے پرندوں نے باغ کو ایک منفرد سماع بخشا تھا۔
جب شاہجاں کی توجہ لاہور پر مرکوز ہوئی تو دہلی سے لاہور آنے والے مہمانوں کے استقبالئے کیلئے لاہور سے باہر ایک باغ بنانے کا ارادہ کیا اور اس کے ذہن میں نقشہ کشمیر کے شالیمار باغ کا تھا۔ لیکن ادھر مسئلہ یہ تھا کہ کشمیر کا پہاڑی علاقہ فواروں کو مسلسل رواں رکھنے کیلئے کافی سازگار تھااور پانی کی بھی خوب فراوانی تھی۔لیکن لاہور میں حالات مختلف تھے۔لیکن انجینیرز نے یہ چیلنج قبول کرلیا اور ناممکن کو ممکن کر دکھایا ۔
جس جگہ آج شالیمار باغ کھڑا ہے یہ علاقہ لاہور شہر سے کوئی پانچ کلومیٹر دور باغبانپورہ کے علاقے میں آتا ہے۔باغ کیلئے جس جگہ کو پسند کیا گیا وہ ایک ارائیں فیملی کی ملکیت تھی۔ پہلے تو یہ خاندان اراضی دینے پر راضی نہ ہوا لیکن پھر دھمکا کر اورکچھ لالچ دے کر راضی کرلیا گیا۔اس وقت خاندان کے سربراہ محمد یوسف مانگا تھے جنہوں نے اراضی حکومت کے حوالے کردی۔جس پر حکومت نے ناصرف ہمیشہ کیلئے اس خاندان کو باغ کا نگران مقرر کردیا بلکہ میاں کے خطاب سے بھی نوازا ۔اور یوں اگلے ساڑھے تین سو سال تک یہ باغ میاں خاندان کی ملکیت رھا تاآنکہ ایوب خان نے 1962 میں اسے قومیا لیا۔پاکستان کے پہلے چیف جسٹس میاں عبدلرشید اور پاکستان ٹائمز اور روزنامہ امروز کے مالک میاں افتخار الدین کا تعلق اسی خاندان سے تھا ۔۔
باغ کو تین ڈھلوانوں پر بنایا گیا اور ان کے الگ الگ نام رکھے گئے۔باغ کے گرد اونچی چار دیواری بنائی گئی جو مغلیہ عہد کی ہر عمارت کی پہچان رہی ہے۔410 فواروں کی تنصیب کی گئی اور سفید اور سرخ سنگ مرمر سے باغ کو سجایا گیا۔
تمام فواروں کو ہر وقت رواں رکھنے کیلے جو نظام نصب کیا گیا وہ آج بھی مکمل طور پر سمجھا نہیں جاسکا ہے۔خیر وہ نظام تو اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے ۔آجکل ٹربائنوں کے ذریئے فواروں کو چلایا جاتا ہے۔۔
مرکزی دروازے سے آپ جب ٹکٹ لیکرباغ میں داخل ہوتے ہیں تو یہ باغ کا پہلا حصہ ہے جو امرا اور عام لوگوں کیلئے کھولا جاتا تھا۔مربع شکل کے اس حصے کو فواروں کی ترتیب سے چار میدانوں میں تقسیم کردیا گیا ہے جس جگہ فواروں کی قطاریں ایک دوسرے کوکراس کرتی ہیں وہاں سے آپ دائیں جانب مڑ جائیں تو ایک سفید پتھر سے بنی بارہ دری نظر آئے گی۔ جس پر کھڑے ہوکر آپ کو بادشاہ اور حرم کیلئے مختص حصہ نظر آتا ہے۔ یہ دونوں حصے کافی نشیب پر بنائے گئے ہیں۔جہاں تک پہنچنے کیلئے آپ کو سیڑھیاں اتر کر پہنچنا پڑتا ہے۔ 
سنا ہے کہ چودھویں رات کو بادشاہ کیلئے مختص حصے میں محفل سجا کرتی تھی۔ اپنے لیئے مخصوص چبوترے پر بادشاہ پراجمان ہوتا تھا ۔ اس کے حرم کی عورتیں جبوترے کے پچھلی جانب بنی سفید سنگ مرمر سے بنی خوبصورت بارہ دری میں کھڑی ہوتی تھیں. جس کے نیچے آگرہ سے منگوایا گیا سنگ مرمر کا ایک ٹکڑے پر مشتمل جھرنا تھا..۔جس پر سے گرتا ہوا پانی بارش کی گرتی بوندوں جیسی آواز پیدا کرتا تھا ۔ باشاہ کے سامنے دائیں اور بائیں جانب بنی سرخ پتھر سے بنی بارہ دریوں کے اندر سازندے اور گویے بیٹھا کرتے تھے۔ اور آج بھی ان کے اندر کھڑے ہوکر تالی بجائی جائے یا اونچی آواز میں بولا جائے تو آواز گونجتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ سامنے سفید پتھر سے بنی بارہ دریوں میں امرا اور مہمانوں کو بیٹھنے کی دعوت دی جاتی تھی اور فواروں کے پانی کیلئے بنے حوض کے ارد گرد بنی مخصوص جگہوں پر رقاصاؤں کو کھڑا کیا جاتا تھا۔.....
مشہور صوفی شاعر شاہ حسین کا مزار شالیمار باغ کے ساتھ ہی ہے اور اس کے نام پر لگنے والا تین روزہ میلہ چراغاں 1958 تک اسی باغ کے اندر لگا کرتا تھا۔ اس میلے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میلے کا اہتمام ناصرف سکھوں نے جاری رکھا بلکہ انگریزوں نے بھی اس کے انعقاد کو جاری رکھنے میں ناصرف توجہ دی بلکہ خصوصی اہتمام کیا جاتا رھا۔
لیکن اب باغ ویسا نہیں ہے.جیسا یہ اپنی تعمیر کے وقت تھا۔کچھ زمانے کے جبر نے اورکچھ تزئین وآرائش کے نام پر اس کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا رھا ہے ۔اس پر تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرسکتی۔ 
باغ میں صنوبر مالٹا سیب، بادام، آلوبخارہ، آڑو،آم، انار، چیری اور بے شمار قسم کے پھل دار درخت لگائے گئے تھے۔مغلوں کے نزدیک صنوبر کا درخٹ ہمیشگی کی علامت ہے اس لیئے صنوبر کے درخت نے مغلیہ عہد میں خوب ترقی پائی۔احمد شاہ ابدالی کے ساتھ لڑائی کے بعد لاہور کے باغوں کے درختوں نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا۔سکھوں کے دور میں باغ کا سنگ مرمر امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کو سجانے کے کام لایا گیا۔امرتسر میں بنایا گیا رام باغ بھی شالامار باغ کے پتھر سے سجایا گیا۔ علاوہ ازیں لہنا سنگھ نے باغ کے انتہائی قیمتی مرکزی دروازے کو بھی اتار کر بیچ ڈالا تھا۔ 1922 میں انگریزوں نے بھی باغ سے درختوں کی ایک بڑی تعداد کا صفایا کرکے وہاں گلابوں کا کا باغ متعارف کروایا۔لیکن 2006 میں باغ کے سٹرکچر کو بچانے کے نام پر ناصرف درختوں کا صفایا کردیا گیا بلکہ گلابوں کا باغ بھی ختم کردیا گیا۔ فواروں کے ارد گرد گھاس اور اور پھول دار پودے سب کچھ ختم کرکے انکو پتھروں کی روش میں تبدیل کردیا گیا
اور سچ بات ہے کہ عہد رفتہ کی اس یادگار کو رونق بخشنے کیلئے صدقے کے گوشت پر پلنے والی چیلیں اور لوگوں کے دانہ پھینکنے کی وجہ سے جنگلی کبوتروں کے غول باقی رہ گئے ہیں ورنہ وہاں سوائے ایک روایتی پارک کے کوئی دلکشی باقی نہیں رہ گئی ہے
میم.سین























آوارہ گرد کی ڈائری۔۔ تلخ حقیقتوں کے تعاقب میں


میں اسوقت ٹکسالی گیٹ کے قریب طبلہ بازار میں کھڑا ہوں.اس سے کچھ آگے جوتوں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ میرے ارد گرد بے شمار دکانیں موجود ہیں جن میں موسیقی کے آلات بنانے والے ہنر بند موجود ہیں جو موسیقی کے ناصرف مختلف قسم کے آلات بناتے ہیں بلکہ یہیں سے دوسرے شہروں کو بھی بھیجے جاتے ہیں۔

اس گیٹ کے ساتھ وہ مشہور بازار ہے جس کو شاہی بازار کہتے ہیں جس کو راجہ رنجیت سنگھ کے ایک وزیر اعظم کے بیٹے ہیرا سنگھ کی حویلی کی وجہ سے ہیرا منڈی بھی کہتے ہیں ۔یہ بازار کب سے قائم ہے؟ اس کے بارے میں اگرچہ تاریخ خاموش ہے لیکن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مغلوں نے جب  لاہور کو اہمیت دینا شروع کی تو تفریح طبع کیلئے یہ بازار قائم کیا گیا۔ اس بازار کا تعلق گانا بجانے اور موسیقی سننے سے تھا۔ اس شعبے سے تعلق رکھنے والی خواتین نہائیت نفیس طبیعت کی مالک گنی جاتی تھیں جن کی زبان دانی ، لہجہ اور رہن سہن بہت سلیقہ مندتھا۔۔اور لوگ اپنے بچوں کی تربیت کیلئے ان کے پاس بھیجا کرتے تھے۔ لیکن جب انگریزوں نے اپنے فوجیوں کی تفریح کیلئے انار کلی کے قریب کوٹھے تعمیر کروائے  گئے اور پھر ان کی شاہی محلے منتقلی سے  بات گانا سننے سے آگے نکل کر جسم فروشی کی طرف نکل گئی۔

شاہی محلے میں سید قاسم شاہ کا مزار بھی ہے جس کے پہلو میں ایک مسجد بھی ہے۔ چوری چھپے بازارآنے والے لوگ مزار کا سہار لیکر مسجد کے عقب سے نکل جاتے تھے کیونکہ مسجد عموما بند رہتی تھی۔ضیا الحق کے دور میں جب لوگوں کی آمدو رفت کا ریکارڈ رکھا جانے لگا اور تفریح کے اوقات کار صرف دو گھنٹے کر دیئے گئے تو یہاں آنے والے گاہکوں کی تعداد میں غیر معمولی کمی کے بعد محلے کے مکینوں نے لاہور کی نئی کالونیوں کا رخ کیا اور یہ عیاشی کا اڈہ پورے لاہور میں بکھر گیا۔حالات اب اس قدر بدل چکے ہیں کہ میں ایک بازار سےگزر رھا ہوں اگرچہ دن کا وقت ہے لیکن کسی نے   مجھے حیرت سے نہیں دیکھا نہ کسی نے مشکوک نظروں سے میرا تعاقب کیا ہے۔
اس محلے کے مشہور پھجے کے پائےکی دکان کے سامنے سے گزر کر آس پان والے کے سامنے کھڑا ہوا تو چشم زدن میں خود کو بغداد کے عباسی دور کے مشہور بازار سوق الرقیق میں کھڑا پاتا ہوں۔ ترکی، ایران، وسطی ایشیا ، انڈیا اور افریقہ سے نوجوان لڑکیوں کو اغوا کرکے  اس بازار  میں سجایا جاتاہے۔ گاہکوں کی کمی نہیں ہے۔ حسن اور خوبیوں دونوں کے دلدادہ موجود ہیں۔ تاجروں کو ایک اچھی آمدن ہوجاتی ہے۔ریٹ اچھا لینے کیلئے تاجر ان لونڈیوں کی حفاظت اور تربیت میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے تھے اور یہ اس تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ بڑے بڑے موسیقار، عالمہ، فاضلہ ان لونڈیوں میں سے  تھے اور ان کے بطن سے بہت سے خلیفہ اور امرا نے جنم لیا۔
مسلمانوں نے جب حکومت سنبھالی تو فتوھات کا جو سلسلہ چلا تو پھر رکنے کا نام نہ لیا اور ان فتوحات کے نتیجے میں لونڈیوں اور غلاموں کی ایک بہت بڑی تعداد مسلمانوں کو ملتی رہیں جن سے وہ نا صرف کام کاج میں مدد لیتے تھے بلکہ دل بہلانے کیلئے بھی ان کا سہارا لیا جاتا تھا۔محمود غزنوی کے حملوں کے بعد غلاموں  اور لونڈیوں کی اس قدر تعداد بڑھ گئی تھی کہ  دو دو روپے میں   بکنا شروع ہوگئے  تھے۔ لیکن عباسیوں کے عہد میں فتوحات کا سلسلہ کچھ رک گیا اور لونڈیوں کی دستیابی  کمیاب ہوگئی۔ تو بردہ فروشی کی صنعت نے جنم لیا۔ اور بغداد کے بازاروں میں منڈیاں لگنے لگیں ۔اور بغداد کی جس مارکیٹ میں کھڑا ہوں اس کی شہرت دور تک پھیل چکی ہے ۔اورتاریخ کی کتابوں میں اس بازار کی جو منظر نگاری کی گئی ہے وہ پڑھ کر نظریں شرم سے جھک جاتی ہیں۔اور ان منڈیوں کے نتیجے میں تفریح کی محفلیں    محلوں سے نکل کر گلی کوچوں تک پہنچنا شروع ہوگئیں۔ کوئی گانے والی ٹھہری تو کوئی رقاصہ ، اور کسی نے جسم فروشی کا رستہ اختیار کیا۔
خلیفہ ہارون الرشید کے پاس کوئی دو ہزار کنیزیں تھیں ایک کنیز کی خریداری کیلئے اس نے ایک لاکھ دینار خرچ کیئے ۔ امین اپنے باپ پر بازی لے گیا ۔اور ایک کنیز کو سونے میں تول کر خریدا۔نام تو اور بھی بہت سے تاریخ میں موجود ہیں لیکن ہارون الرشید کو سب جانتے ہیں تو بتاتا چلوں اس کی ماں بھی ایک کنیز تھی۔
ہارون الرشید نے ایک کنیز کو چھیڑا تو اس نے بات کو صبح تک ٹالنے کو کہا صبح جب بلایا گیا تو کنیز نے شعر پڑھا
رات کی بات کا مذکور ہی کیا
ہارون  نے اس مصرٖ پر گرہ لگانے کو کہا۔لگانے والے نے گرہ کے ساتھ سارا قصہ بھی آشکار کردیا۔
چھوڑیئے رات گئی بات گئی
مصر کے بادشاہ محمد علی کی بیٹی کا قصہ بھی ہوجائے ۔ جس کے شوہر کے ہاتھ، ایک کنیز نے دھلوئے تو شوہر نے ایک ادا سے کہا روکا۔۔
بس بس پیاری! 
اور یہ الفاظ بیوی تک پہنچ گئے اور اس نے کنیز کو قتل کروا کے اس کی کھوپڑی میں چاول پکوائے اور دستر خوان پر رکھ کر خاوند سے مخاطب ہوئی اپنی پیاری کا بھی ایک لقمہ کھا لو
ہمایوں بادشاہ شکست کھا کر ایران میں پناہ گزیں تھا تو بادشاہ کی حالت زار پر ایک مغنیہ نے فی البدیہ کچھ اشعار چھیڑے کہ بادشاہ کے آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لیکن مغنیہ بادشاہ کے دل کو کچھ ایسا بھائی کہ دہلی کا تخت حاصل کرنے کے بعد سب سے پہلے اس کو طلب کیا لیکن وائے حسرت وہ انتقال کر چکی تھی 
اورنگ زیب بھی زین آباد کی مغنیہ پر کچھ ایسا مر مٹا تھا کہ دو سال تک امور سلطنت سے بیگانہ ہوکر رہ گیا تھا
 باشاہوں کے  محل کے معاملات چلانے میں مدد کیلئے کیلئے لونڈیاں  موجود تھیں ۔لیکن دل کو بہلانے کیلئے  کنیزیں بھی  ضروری تھیں تو  کنیزوں کی مانگ کو پورا کرنے کیلئے  بستیاں بسائی گئیں ۔ان محلوں میں کنیزوں اور لونڈیوں کی تربیت کاخاص اہتمام کیا جاتا تھا کوئی گانے کی ماہر ٹھہری تو کسی کو رقص پر عبور حاصل تھی۔کوئی اشعار کہنے میں ملکہ ہوتی تھی تو کسی کی حاضر دماغی شاہ کے قریب کردیتی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں سلطان تغلق کے زمانے میں اپنی نوعیت کی پہلی بستی  اپنے دارلحکومت دولت آباد کے قریب آباد کی تھی۔ اکبر بادشاہ نے سکری میں شیطان پورہ کے نام سے ایک شہر آباد کیا۔واجد علی شاہ کا شاہی محلہ  بھی اس کے محل کے قریب تھا۔ لاہور کی ہیرا منڈی کو دیکھیں تو وہ بھی شاہی سائے میں آباد ہے۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں سرکاری سرپرستی کا نتیجہ تھی جو یوں چکلے آباد ہوتے رہے اور پھر ترقی کرتے گئے۔
ہندستان میں جسم فروشی کی ابتدا  پرتگیزیوں نے شروع کی ۔ گوا میں ان کی ایک ریاست تو قائم تھی ہی لیکن جب جاپانی فتوحات ہوئیں تو وہاں سے لڑکیوں کو اغوا کرکے اپنے لوگوں کو تفریح پہنچانے کی غرض سے گوا میں کوٹھیاں قائم  کر کے دیں  ۔ اور ہندوستان میں جب مرکزی حکومتیں کمزور پڑنا شروع ہوئیں اور ریاستوں کا شیرازہ بکھڑتا گیا۔ تو ٹوٹتی پھوٹتی ریاستوں سے بے سہارا ہونے والی کنیزیں محلوں سے گلیوں میں منتقل ہونے لگیں اورمارکیٹ ویلیو بڑھانے کیلئے جسم فروشی کا سارا لیا جانے لگا۔
تحریر لمبی ہوتی جارہی لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلےاسلام کی آمد سے پہلے بھی چلتے تھےلیکن پھر کیا ایسا ہوا کہ اسلام ان سلسلوں کو روکنے میں ناکام ہوگیا؟۔  دین اسلام نے ایک دانشمندانہ رویہ اختیار کرکےجنسی تقاضوں کو فطری حیثیت میں تسلیم کیا تھا۔کثرت ازاوج کی گنجائش پیدا کرکے دی۔لونڈی پر بھی اختیار دے دیا۔نبھانے میں کوئی مشکل ہورہی ہے تو  طلاق کا رستہ سکھا دیا۔ اور دوسری طرف زنا کو مشکل بنانے کیلئے سخت سزائیں رکھیں۔لیکن ہوا کچھ یوں کہ ہمارے دینی تقاضے ایک طرف رہے  اور سماجی رویے غالب آئے۔ہوس پرستوں کا کوئی مذہب دین یا عقیدہ نہیں ہوتا  لیکن سماج کی پابندیوں کے بعد عیاشی کے بنے راستوں میں سماج زدہ عام آدمی کو بھی کشش نظرآنے لگتی ہے ہے۔ فطری راستوں کو بند کریں گے تو دریا جن نئے رستوں کو اختیار کرے گا اس کی تباہ کاریوں سے کوئی بھی محفوظ نہیں رھا کرتا




  

Tuesday, March 12, 2019

آوارہ گرد کی ڈائری...


ایک لمحے کے تعاقب میں

کچھ لمحے لافانی ہوتے ہیں۔ فردوسی لمحے ۔ وہ لمحے جن میں انسان قید ہوجاتا ہے ۔وہ لمحے جو تنہائی میں بھی مسرت کا سامان مہیا کرتے ہیں ۔وہ لمحے جو پروں کے بغیر اڑان بھرنے پر مجبور کردیتے ہیں ۔ایک انوکھی روحانیت، ایک انوکھی راحت۔وہ لمحہ بھی کچھ ایسا ہی تھا جس نے مجھے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔ جس سے رہائی کا سوچ کر روح کانپ جاتی ہے۔
فطرت کے نظام میں کبھی ترتیب نہیں ہوتی لیکں اس ترتیب میں ایک حسن ہوتا ہے۔اور اس حسن کی تلاش میں ابوزر کے ہمراہ ایک بار پھر محو سفر تھا ۔کلرکہار انٹر چینج سے اتر کر چکوال روڈ پر سفر شروع کیا تو چند کلومیٹر کے فاصلے پر جلیبی چوک سے بیسٹ وے سیمنٹ فیکٹری کو جانے والے راستے پر سفر شروع کیا۔ اس روڈ پر کوئی تین کلومیٹر چلنے کے بعد دائیں جانب ایک سڑک نکلتی ہے جو موٹر وے کے نیچے سے گزر کرکلرکہار ایریا کی سب سے خوبصورت سیوک جھیل کوجانے والے ٹریک کو ملاتی ہے جس پر پچھلے سال ایڈونچر کیا تھا لیکن بدقستی سے جہاں سے پیدل ٹریک شروع ہوتا ہے وہاں تک پہنچتے پہنچتے شام ہوچکی تھی اور سیوک جھیل کو ،پھر آئیں گے کہہ کر واپس لوٹ آئے تھے۔ بیسٹ وے سیمنٹ فیکٹری کے بعد سڑک سنگل ہوجاتی ہے ۔کٹی پھٹی لیکن اس قابل ہے کہ آسانی سے اس پر سفر کیا جاسکے۔ چڑھائی دھیرے دھیرے بڑھتی ہے اس لیئے ڈرائیونگ میں کوئی زیادہ مشکل پیش نہیں آتی ۔
میلوٹ ٹیمپل کے قریب پہنچ کر گاڑی کو ایک طرف پارک کیا۔باہر نکلے تو منظر ہی بدلا ہوا تھا۔ گہرے بادل اور یخ بستہ ہوائوں نے جسم میں ایک سنسناہٹ پھیلا دی۔ اور ہیبت ناک ہزاروں سال پرانے ٹیمپل کے آثار کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتے ہوئے جب دوسری طرف نکلا تو سفید چٹانوں کے اوپر سے گزرتے ہوئے قدموں کے نیچے سے جیسے چھت ختم ہوگئی ہو اور سامنے جہلم کا وسیع و عریض ڈیلٹا تاریخ کے ہزاروں صفحوں کو اپنے اندر سموئے اپنی بے پناہ تابناکیوں کے ساتھ کسی آرٹسٹ کے کینوس کی مانند میری نظروں کے سامنے پھیلا ہواتھا۔
ٹھنڈی یخ ہوا ایک عجیب پر اسرایت پیدا کررہی تھی ۔میرے سامنے فطرت کی رعنائی اپنی بھرپور دلفریبی کے ساتھ میرے اوپر ایک سحر طاری کرچکی تھی ۔جس میں بل کھاتی ندیاں اور موٹر وے ایک لکیر کی صورت دکھائی دے رہی تھی۔تاحد نظر سر سبز و شاداب وادی بکھری ہوئی تھی۔ ہواؤں کے سرد تھپرے کسی نظر نہ آنے والے ہیولوں کی مانند جسم کو سہلاتے اٹھکیلیاں کرتے کبھی سامنے سے دھکا دیتے تو کبھی سائیڈ سے۔
میں وادی کی طرف منہ کرکے ایک چٹان پر بیٹھ گیا۔یہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان تنہائی میں مسرت محسوس کرتا ہے۔ امنگیں اور ولولے ایک ہجوم بپا کردیتے ہیں۔یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جو انسانی فطرت کی تاریخ رقم کرتے ہیں۔انسانی احساسات کے گمشدہ گوشوں کو روشن کرتے ہیں ۔انسانی ذہن کی متضاد کیفیتوں کی آماجگاہ کو ایک نقطے پر سمیٹ دیتے ہیں۔ 
میں سرشار تھا۔ایک مدھر ترنگ سرشاری دکھا رھا تھا۔پہلا لمحہ دوسرے میں ڈھل رھا تھا اور دوسرا تیسرے میں، تیسرا ایک احساس میں ۔اور میں ایک وجدانی کیفیت اور خودفراموشانہ محویت سے ایک جذبے میں ڈھل رھا تھا۔ اس جذبے کا کوئی نام نہیں تھا ۔ جس جذبے کو آپ کوئی نام نہ دے سکیں اس کو خوشی کہتے ہیں ۔ روحانی خوشی۔
وہ لافانی لمحے تھے ۔وجدانی لمحے۔وہ لمحے جن کا کوئی مول نہیں
وہ لمحے ، جن کے اختتام پر احساسات کا ہجوم ہوتا ہے، ناقابل بیان ہیجان ہوتا ہے۔
امید، حزن، توقعات، ملال، حسن، اداسی، خوشی، سرشاری، جوش۔ 
جذبات و احساسات کا ہجوم ہوتا ہے جو انسانی وجود اور زندگی کے ضامن ہیں وہ جذبات جن کے دم سے انسانی زندگی چل رہی ہے اور اپنے اپنے محور میں زندہ ہے۔
زندگی اسی کا نام ہے شائد ہر جذبے کا احساس، اس کا ظہور اور اس ظہور کا احساس۔
اور انسانی زندگی کی معراج شائد ان جذبوں کو زبان دینا ہے ۔
احساسات کے اظہار کی لگن روز ازل سے انسان کے خمیر میں ہے۔.....کیمرہ سے قلم تک

سفر کریں۔ خوش رہیں۔ احساسات لکھیں اور خوشی محسوس کریں
میم سین

(نوٹ..گہرے بادلوں اور نامناسب روشنی کی وجہ کیمرہ وہ مناظر قید کرنے میں یکسر ناکام رھا جو آنکھ محفوظ کررہی تھی.اس لیئے اس دلفریب منظر کی عکاسی کیلئے قلم.کا سہارا لینا پڑا)













Saturday, March 2, 2019

مسجد وزیر خان


یہ بہت سال پہلے کی بات ہے ۔جولائی کا مہینہ تھا اور ایک سنہری شام مون سون نے لاہور میں جل تھل کر دی تھی۔میں اپنے ایک دوست کے ساتھ موٹر سائکل پر نکلا تو گھومتے گھماتے دو موریہ پل کے قریب سے گزر کر شاہ عالمی طرف جارہے تھے تو ایک جگہ  چائے پینے کیلئے رکے تو باتوں باتوں میں پتا چلا کہ قریب ہی دھلی گیٹ ہے اور اس کے اندر مسجد وزیر خان ہے۔اگرچہ شام ہوچکی تھی لیکن ابھی واپسی کا موڈ نہیں تھا اس لیئے چائے ختم کرکے دھلی دروازہ عبور کرکے مسجد تک پہنچے تو پتا چلاکہ ٹرانسفارمر جل چکا ہے اس لیئے مسجد کا اندھیرا چند مصنوعی لائٹوں کے ساتھ دور کیا جارھا ہے۔اوریوں مسجد کو دیکھنے کی حسرت لیئے واپس لوٹ گئے
اور اب کئی سالوں بعددھلی گیٹ سے داخل ہونے کے بعد  شاہی گزرگاہ سے گزر رھا ہوں۔ اتنے سالوں میں بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔رش بہت بڑھ چکا ہے۔دکانوں کی سجاوٹ کا انداز بدل چکا ہے۔کچی پکی، ٹوٹی پھوٹی سڑک اب ہموار ٹائلوں کے فرش میں بدل چکی ہے۔ ۔ اور میں چلتا ہوا  وزیر چوک پہنچتا ہوں ۔میرے  بائیں  جانب مسجد وزیر خان کھڑی ہے ۔وہی مسجد وزیر خان جسے سالوں پہلے  دیکھنے کی حسرت ٹرانسفارمر کی خرابی کی نظر ہوگئی تھی ۔۔۔

 کہتے ہیں کہ ملکہ نورجہاں ایک بار بیمار پر گئی توچنیوٹ کا ایک طبیب علم الدین جو ان دنوں آگرہ  میں مقیم تھا  کو بلایا گیا ۔علم الدین کے علاج سے ملکہ صحت یاب ہوگئی تووہ مغلوں کے قریب آگیا اور شاہجہاں نے اسے وزیر خاں کاخطاب یا ۔ اور یوں علم الدین نے آنے والے دنوں میں وزیر خان کے نام سے شہرت پائی ۔شاہجہاں لاہور آیا  تو اسے لاہور کاگورنر نامزد کردیا۔ لاہور کی گورنر کی حیثیت سے ایک اچھے ناظم کی حیثیت  جو شہرت پائی  وہ اپنی جگہ لیکن اس کی اصل شناخت مسجد وزیر خان ٹھہری۔جو  زیبائش میں اپنی نوعیت کی منفردعمارت تھی۔ 
شاہی گزرگاہ کے پاس اڑھائی سو سال سے اسحاق گازرونی کا مزار تھا ۔اس جگہ کو مسجد کے لیئے پسند کیا گیا اور مزار اب مسجد کے صحن میں موجود ہے۔ مسجد کے اخراجات کو اٹھانے کیلئے دھلی گیٹ کے ساتھ کچھ فاصلے پر شاہی حمام قائم کیئے گئے جن کے آثار اب بھی موجود ہیں۔کہا جاتا ہے کہ وزیر خان کو جتنے بھی قیمتی انعامات ملے تھے وہ اس کی تعمیر پر خرچ کر دیئے تھے۔
مسجد وزیر خان اس لحاظ سے سے بھی اہم ہے کہ جب  بادشا ہی مسجد کی تعمیر کا اعلان کیا گیا مسجد وزیر خان کو بنے تیس سال گزر چکے تھے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ سکھوں نے جہاں مغلیہ عہد کی ہر عمارت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا وہاں مسجد وزیر خان اس توڑ پھوڑ سے محفوظ رہی۔  کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سکھوں کے ایک ایک اہم گرو ارجن کے وزیر خان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور ان اچھے تعلقات کو سکھوں نے قدر کی نظر سے دیکھا۔لیکن تاریخ کی کتابوں میں ایک واقعہ رقم کیا جاتا ہے کہ رنجیت سنگھ ایک طوائف کو لیکر ایک مینار پر سارا دن عیاشی کرتا رھا جس کے بعد راجہ بیمار پر گیا۔ جس پر نجومیوں نے  بیماری کواسحاق  گارزونی کی بددعا کو قرار دیا۔ جس پر راجہ نے ناصرف معافی مانگی۔ صدقہ کیا اور آئیندہ ایسی حرکت کرنے سے توبہ کی تو صحت یاب ہوگیا۔
بحرحال اس مسجد کو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کم ازکم تاریخی عمارت ابھی تک اپنی اصلی حالت   میں موجود ہے اور اپنی مخصوص پچی کاری اور آرائش کی وجہ سے دیکھنے کے لائق  ہے