Monday, June 10, 2019

clinic


یہ ابھی کچھ دیر پہلے کی بات کی ہے۔سرددر اور کمزوری کی شکائیت سے آنے والی مریضہ کو جب میں نے ٹینشن کم لینے اور خود کو مصروف رکھنے کا کہا تو مسکرا کرجواب دیا۔ کوشش تو کرتی ہوں لیکن کیا کروں؟ کبھی کبھی سوچ خود ہی آجاتی ہے ۔ اللہ نے تین بیٹے اور ایک بیٹی عطا کی تھی۔ ایک بیٹا قتل ہوگیا ، دوسرا ایکسیڈنٹ میں چلا گیا اور تیسرے کو بیماری کے بہانے اللہ نے واپس بلا لیا ۔ ایک بیٹی ادھر بیاہی ہوئی ہے۔ اس سے ملنے آئی تھی۔ کسی نے آپ کا بتایا تو چیک اپ کروانے ادھر آگئی۔
ایک دوست کے والد کہا کرتے تھے ۔کچھ باتیں ہم کتابوں سے سیکھتے ہیں کچھ تجربے سے اور کچھ لوگوں سے ۔
اور جو صبر کا سبق مجھے آج تک کوئی کتاب، کوئی وعظ ،کوئی نصیحت نہیں سکھا سکی تھی ۔وہ مجھے اس خاتون کی ایک مسکراہٹ نے سکھا دیا

clinic

چار پانچ سال کا بچہ کھانسی کی شکائیت کے ساتھ آیا ۔موٹی سی جیکٹ پہن رکھی تھی۔ جب اس کی ماں اس کی زپ کھولنے میں ناکام ہورہی تھی تو میں نے تھوڑا سا مدد کیلئےزور لگایا تو وہ ٹوٹ گئی۔ اتنے میں اسکا باپ کمرے میں داخل ہوا تو بچے نے چیختے ہوئے اسے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے میری جیکٹ کی زپ توڑ دی ہے ۔اس کے باپ نے مجھے گھور کر دیکھا ہے تب سے بڑا ہی شرمندہ شرمندہ سا محسوس کررھا ہوں

tabsra

کتابوں پر تبصرہ...
مکہ مکرمہ کے ہزار راستے
مائیکل وولف
ترجمہ تصدق حسین
تاریخ سے دلجسپی رکھنے والوں کیلیئے ایک بہت ہی دلچسپ کتاب ..جس میں مکہ شہر اور حج کے حوالے سے لکھے گئے لگ بھگ تئیس سفرناموں سے اقتباسات کو اکھٹا کیا گیا ہے.. پہلا سفرنامہ 1050 عیسوی اور آخری 1990سے منتخب کیا گیا ہے....
ہر دور کا ایک شعور ہوتا ہے اور اس دور کے شعور کو سمجھے بغیر اس دور کے فیصلوں اور واقعات کو سمجھا نہیں جاسکتا۔اور کسی دور کے شعور کو سمجھنے کیلئے سفرنامے اور خود نوشت سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے
ایک ایسا شہر جہاں کوئی فصل نہیں ہوتی نہ ہی کوئی اناج پیدا ہوتا ہے ۔ ایک ایسا شہر جہاں پینے کا پانی بھی بارشوں کا محتاج ہے اور ایک ایسا شہر جس کے لوگوں کو اپنی زندگی کی ساری ضروریات کیلئے باہر کی دنیا کی طرف دیکھنا پڑتا ہو ۔ اور ایک ایسا شہر جہاں تک پہنچنے کیلئے خطرات کے پل صراط موجود ہو۔ اس شہر کو اللہ تعالی اپنا شہر قرار دے کر وہاں سے ایک ایسی دعوت کو کھڑا کرتا ہے کہ جس کی بازگشت چند ہی صدیوں بعد پوری دنیا میں گونج رہی تھی۔ اور وہ دعوت کس قدر جامع اور مضبوط تھی کہ راستوں کی سختیاں اور موسم کی نا مہربانیاں بھی کوئی رکاوٹ پیدا نہ کرسکیں ۔ایسے ہی سمجھ لیں اگر لاہور سے ایک کام شروع کیا جائے تو اس کو لوگوں تک پہنچانا کس قدر آسان ہوگا اور تھر کے صحرا میں کھڑی کسی بستی سے ایک پیغام کو دنیا تک پہنچانے کیلئے حالات کتنے ساز گار ہوسکتے ہیں ؟ ۔
مکہ شہر ویسا نہیں تھا جیسا اب ہے ۔اس شہر میں زندگی کس قدر مشکل تھی اور وہاں رہنے اور پہنچنے کیلئے کن آزمائشوں سے گزرنا پڑتا تھا ۔مکہ شہر کا حدود اربعہ وہاں کے صعوبتیں اور مسافروں کو در پیش مسائل اور تکالیف کا ادراک مجھے ان سفرناموں کو پڑھ کرہوا جو اس کتاب میں جمع کیئے گئے ہیں
عرب چھوٹے چھوٹےقبائل میں تقسیم تھے۔ اور ان قبائل کو عبور کرکے مکہ آنا یا پھر عرب کے اس خطے سے باہر نکلنا ایک بہت جان جوکھوں کا کام تھا۔ اس کے علاوہ خوراک اور پانی کی کمیابی اور موسم کی سختی الگ سے مسئلہ ہمیشہ سے درپیش رھا ہے۔ مکہ تک پہنچنے کیلئے کون کون سے راستے تھے اورحکمران طبقے کی طرف سے حاجیوں کو کیلئے کیا کیا سہولتیں مہیا کی جاتی تھیں۔اور حاجیوں کی راہ میں کیسے روڑے اٹکائے جاتے تھے۔یہ محض ایک کتاب نہیں ہے بلکہ مکہ شہر ، حج اور حج کے سفر کے ارتقا کی ایک دستاویزی ڈاکومنٹری ہے۔
ایک اور اہم چیز جو اس کتاب کے مطالعے سے حاصل ہوتی ہے ، وہ ہماری مسلم تاریخ کی معتدل تصویر ہے جو کتابوں میں درج قتل غارت سے بھرپور تاریخ کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔
میں نے یہ کتاب رومیل پبلیکیشنز کے فیس بک پیج سے آرڈر کرکے منگوائی تھی..
https://www.facebook.com/romailpublications/
میم سین

yadoon ka


یادوں کا جھروکہ......
پانچ منٹ تک مرغا بنے رہنے کے بعد کھڑا ہوا تو اوسان بحال ہونے میں کچھ وقت لگ ہی گیا
بہت دنوں بعد جب دھند سےآسمان صاف ہوا تو چمکدار دھوپ دیکھ کر ریاضی کی کلاس گراؤنڈ میں لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جس گراؤنڈ میں ہماری کلاس نے ڈیڑہ ڈالا اس کے ساتھ والی گرائونڈمیں سالانہ کھیلوں کی تیاری کیلئے طالب علم کرکٹ کی پریکٹس کررہے تھے۔ ماسٹر صاحب جونہی بلیک بورڈ پر لکھنے کیلئے رخ بدلتے، میں فورا بالر اور بیٹس مین کی کارکردگی دیکھنے میں مصروف ہوجاتا اور ماسٹر صاحب کے کلاس کی طرف مڑنے سے پہلے دوبارہ اپنی توجہ کلاس میں مرکوز کرلیتا۔
بیٹسمین نے ایک سٹروک کھیلا اور گیندہوا میں کافی بلند ہوگئی ۔ فیلڈر اس کے نیچے تھا۔ میری نگائیں بال اور فیلڈر پر مرکوز تھیں ۔ کیچ کرسکے گا یا نہیں۔
اور جب میں کلاس کی طرف متوجہ ہوا تو ماسٹر صاحب اشارے سے مجھے اپنے پاس بلارہے تھے۔۔۔۔۔
ریاضی کے یہ ماسٹر صاحب ناصرف پڑھائی کے معاملے میں کافی سخت مزاج تھے بلکہ وقت کے بھی بہت پابند تھے۔ چھٹی کا لفظ شائد ان کی ڈکشنری میں نہیں تھا ۔ سکول شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے زیرو پیریڈ کے نام پر اضافی کلاس بھی لیا کرتے تھے ۔ جس کی وجہ سے ان کی طالب علموں میں مقبولیت حکومتی کارکردگی کی طرح کافی کم رہتی تھی۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک دن سکول سے بنا کسی اطلاع کے غائب ہوگئے۔دوپہرکو خبر ملی، لقوہ ہوگیا ہے۔ محمد بخش تو کہہ کر گیا تھا
دشمن بیمار پوے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی بیمار پر جاناں
ٹیگر تے دن ہویا محمد اوڑک نوں ڈب جانا
لیکن خوشی وہی، جو چھپائے نہ چھپے ۔باوثوق ذرائع سے پتا چلا، دو ہفتے سے پہلے ان کا سکول آنا ممکن نہیں ۔اور کلاس میں جشن کی گھٹا چھا گئی۔ ۔لیکن سانحہ یہ ہوا کہ تیسرے دن ہی منہ پر کپڑا لپیٹ کر کلاس میں چلے آئے اور سرپرائز ٹسٹ کا علان بھی کردیا
ولی محمد صاحب کو اللہ غریق رحمت کرے اور جنت کے بلند مقام پر جگہ دے۔ ایک بار کلاس میں میرے بارے کہا تھا کہ اس کو سعادت مندی کی وجہ سے اللہ ہمیشہ کچھ نمبر تیاری کے بغیر ہی دے دیا کرے گا ۔اور اللہ تب سے کچھ نہیں، سے کچھ زیادہ ہی نواز رھا ہے۔۔۔
میم.سین

moulvi

بھولی بسری یاد...
گزرے دنوں کی بات ہے کالج کی مسجد میں ایک صاحب جمعہ پڑھایا کرتے تھے..کالج کی مسجد تھی تو مقتدی زیادہ تر طالبعلم ہی ہوا کرتے تھے لیکن.جمعہ کے موضوعات کافی اڈلٹ نوعیت کے ہوتے تھے..جیسے ایک سے زائد شادی کی شرعی حیثیت، مسئلہ لعان، شوہر کے ازدواجی حقوق، حلالہ کیا ہے..
ایک ایسے ہی جمعہ میں نقشہ کھینچ رہے تھے ایک اچھی بیوی کا... کہنے لگے ایسی بیوی ملے تو دل کرتا ہے ایسی ایک اور بیوی ہو، دو نہیں تین.ہوں اور تین بھی کیا چار بھی کم ہونگی...
لیکن یہ بات کنواروں کو سمجھ نہیں آسکتی..
اور ہم نے بے ساختہ ارد گرد نظردوڑائی کہ یہاں شادی شدہ کون ہے؟

Sunday, June 9, 2019

ایک لمحے کے تعاقب میں

آوارہ گرد کی ڈائری...
ایک لمحے کے تعاقب میں
کچھ لمحے لافانی ہوتے ہیں۔ فردوسی لمحے ۔ وہ لمحے جن میں انسان قید ہوجاتا ہے ۔وہ لمحے جو تنہائی میں بھی مسرت کا سامان مہیا کرتے ہیں ۔وہ لمحے جو پروں کے بغیر اڑان بھرنے پر مجبور کردیتے ہیں ۔ایک انوکھی روحانیت، ایک انوکھی راحت۔وہ لمحہ بھی کچھ ایسا ہی تھا جس نے مجھے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔ جس سے رہائی کا سوچ کر روح کانپ جاتی ہے۔
فطرت کے نظام میں کبھی ترتیب نہیں ہوتی لیکں اس ترتیب میں ایک حسن ہوتا ہے۔اور اس حسن کی تلاش میں ابوزر کے ہمراہ ایک بار پھر محو سفر تھا ۔کلرکہار انٹر چینج سے اتر کر چکوال روڈ پر سفر شروع کیا تو چند کلومیٹر کے فاصلے پر جلیبی چوک سے بیسٹ وے سیمنٹ فیکٹری کو جانے والے راستے پر سفر شروع کیا۔ اس روڈ پر کوئی تین کلومیٹر چلنے کے بعد دائیں جانب ایک سڑک نکلتی ہے جو موٹر وے کے نیچے سے گزر کرکلرکہار ایریا کی سب سے خوبصورت سیوک جھیل کوجانے والے ٹریک کو ملاتی ہے جس پر پچھلے سال ایڈونچر کیا تھا لیکن بدقستی سے جہاں سے پیدل ٹریک شروع ہوتا ہے وہاں تک پہنچتے پہنچتے شام ہوچکی تھی اور سیوک جھیل کو ،پھر آئیں گے کہہ کر واپس لوٹ آئے تھے۔ بیسٹ وے سیمنٹ فیکٹری کے بعد سڑک سنگل ہوجاتی ہے ۔کٹی پھٹی لیکن اس قابل ہے کہ آسانی سے اس پر سفر کیا جاسکے۔ چڑھائی دھیرے دھیرے بڑھتی ہے اس لیئے ڈرائیونگ میں کوئی زیادہ مشکل پیش نہیں آتی ۔
میلوٹ ٹیمپل کے قریب پہنچ کر گاڑی کو ایک طرف پارک کیا۔باہر نکلے تو منظر ہی بدلا ہوا تھا۔ گہرے بادل اور یخ بستہ ہوائوں نے جسم میں ایک سنسناہٹ پھیلا دی۔ اور ہیبت ناک ہزاروں سال پرانے ٹیمپل کے آثار کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتے ہوئے جب دوسری طرف نکلا تو سفید چٹانوں کے اوپر سے گزرتے ہوئے قدموں کے نیچے سے جیسے چھت ختم ہوگئی ہو اور سامنے جہلم کا وسیع و عریض ڈیلٹا تاریخ کے ہزاروں صفحوں کو اپنے اندر سموئے اپنی بے پناہ تابناکیوں کے ساتھ کسی آرٹسٹ کے کینوس کی مانند میری نظروں کے سامنے پھیلا ہواتھا۔
ٹھنڈی یخ ہوا ایک عجیب پر اسرایت پیدا کررہی تھی ۔میرے سامنے فطرت کی رعنائی اپنی بھرپور دلفریبی کے ساتھ میرے اوپر ایک سحر طاری کرچکی تھی ۔جس میں بل کھاتی ندیاں اور موٹر وے ایک لکیر کی صورت دکھائی دے رہی تھی۔تاحد نظر سر سبز و شاداب وادی بکھری ہوئی تھی۔ ہواؤں کے سرد تھپرے کسی نظر نہ آنے والے ہیولوں کی مانند جسم کو سہلاتے اٹھکیلیاں کرتے کبھی سامنے سے دھکا دیتے تو کبھی سائیڈ سے۔
میں وادی کی طرف منہ کرکے ایک چٹان پر بیٹھ گیا۔یہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان تنہائی میں مسرت محسوس کرتا ہے۔ امنگیں اور ولولے ایک ہجوم بپا کردیتے ہیں۔یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جو انسانی فطرت کی تاریخ رقم کرتے ہیں۔انسانی احساسات کے گمشدہ گوشوں کو روشن کرتے ہیں ۔انسانی ذہن کی متضاد کیفیتوں کی آماجگاہ کو ایک نقطے پر سمیٹ دیتے ہیں۔
میں سرشار تھا۔ایک مدھر ترنگ سرشاری دکھا رھا تھا۔پہلا لمحہ دوسرے میں ڈھل رھا تھا اور دوسرا تیسرے میں، تیسرا ایک احساس میں ۔اور میں ایک وجدانی کیفیت اور خودفراموشانہ محویت سے ایک جذبے میں ڈھل رھا تھا۔ اس جذبے کا کوئی نام نہیں تھا ۔ جس جذبے کو آپ کوئی نام نہ دے سکیں اس کو خوشی کہتے ہیں ۔ روحانی خوشی۔
وہ لافانی لمحے تھے ۔وجدانی لمحے۔وہ لمحے جن کا کوئی مول نہیں
وہ لمحے ، جن کے اختتام پر احساسات کا ہجوم ہوتا ہے، ناقابل بیان ہیجان ہوتا ہے۔
امید، حزن، توقعات، ملال، حسن، اداسی، خوشی، سرشاری، جوش۔
جذبات و احساسات کا ہجوم ہوتا ہے جو انسانی وجود اور زندگی کے ضامن ہیں وہ جذبات جن کے دم سے انسانی زندگی چل رہی ہے اور اپنے اپنے محور میں زندہ ہے۔
زندگی اسی کا نام ہے شائد ہر جذبے کا احساس، اس کا ظہور اور اس ظہور کا احساس۔
اور انسانی زندگی کی معراج شائد ان جذبوں کو زبان دینا ہے ۔
احساسات کے اظہار کی لگن روز ازل سے انسان کے خمیر میں ہے۔.....کیمرہ سے قلم تک
سفر کریں۔ خوش رہیں۔ احساسات لکھیں اور خوشی محسوس کریں
میم سین

haqeeqat

یہ چند دن پہلے کی بات ہے .اپنے بھائی ابوزر کے ہمراہ چورپرجی والے خان بابا کے ریسٹورنٹ پر کھانا کھانے پہنچا...خان بابا کا مٹن قورمہ ذائقے میں اپنی نوعیت کی منفرد ڈش ہے.. سالوں بعد بھی جائیں تو وہی ذائقہ ملتا ہے جو آپ کی زبان.محسوس کررہی ہوتی ہے....اس دن بھی کچھ ایسا ہی ذائقہ زبان.پر رکھے وہاں پہنچے اور قورمہ آرڈر کردیا..سروس کا بھی جواب نہیں اور چند ہی لمحوں بعد کھانا میز پر موجود تھا..اس دن ذائقہ تو ہمیشہ کی طرح ویسے ہی اعلی لگ رھا تھا لیکن گوشت کی کوالٹی بھی معمول سے زیادہ اچھی دکھائی دے رہی تھی..
لیکن ہوا کچھ یوں کہ ابھی ابتدائی لقمے ہی چل رہے تھے کہ گردے کا درد شروع ہوگیا..جووقفے وقفے سے اٹھتا اور پھر کچھ سنبھل جاتا... جیسے تیسے کھانا ختم.کرلیا..لیکن.کھانے کا ذائقہ یاد رھا نہ گوشت کی کوالٹی..درد بھی کچھ دیر بعد کافی سنبھل گیا
لیکن اس سارے واقعے سے میں نے ایک نتیجہ نکالا...
دوسری شادی کا فیصلہ کتنا بھی اچھا کیوں نہ ہو لیکن اگر اس کے ساتھ کوئی گردے کے درد جیسی بدمزگی پیدا ہوجائے تو سارا مزہ کرکراہ ہوجانا ہے..

flowers

بہار آئی توجیسے یک بار۔۔۔۔
کچھ قربتیں , کچھ تعلق زبان کے محتاج نہیں ہوتے۔ لیکن پھر بھی ہم ان سے باتیں کرتے ہیں ۔ آبشار کے پتھروں سے ٹکرا کر نکلتی ترنم کی زبان ، ہوا سے ٹکراتے، سرسراتے پتوں کی زبان، ندی کے پانی کی، پتھروں سے ٹکرا کر پیدا ہوتی گونج کی زبان۔ خشک مٹی پر پڑنے والے بارش کے پہلے چھینٹوں سے اٹھتی خوشبو کی زبان۔ پسینے سے شرابور جسم سے ٹکرانے والی ہوا کے پہلے جھونکے کی زبان۔ ساحل پر سمندر کے پانی کے پاؤں پر پہلے لمس کی زبان ۔ پتوں میں سے چھن چھن کر آتی سورج کی شوخکرنوں کی زبان ۔
جذبات اور احساسات خود ساختہ نہیں ہوتے۔ یہ فطری ہوتے ہیں۔ فطرت جب فطرت سے باتیں کرتی ہے تو تو روحیں تحلیل ہوجاتی ہیں ۔ایک خودفراموشی کا عالم ہوتا ہے۔ مسرت، طمانیت، ایک جذباتی یگانگت، اپنائیت۔
پرندوں کی خوش الحانی میں صدا سنائی دیتی ہے۔ درختوں کے پتوں کے رنگوں میں سانسوں کا گماں ہوتا ہے۔پھول کی پنکھڑیوں میں خوشبو کسی سنگیت میں رنگ بھرتی نظر آتی ہیں۔ یہ کتنا دلکش احساس ہے۔ کس قدر دل نشیں۔
چلیں پھر پھولوں سے باتیں کریں ۔ایک نیا رنگ ایک نیا روپ ایک نیا کیف محسوس کریں۔ ایک الہام کو۔ ایک وجدان کو ۔محبت کے اس اھساس کو جو لہو کی طرح ہمارے جسموں میں رواں ہے۔کائنات کی ان بہاروں کو جو ہمارے ارد گرد سماں باندھے کھڑی ہیں۔ زندگی کی ان گنت رعنائیوں کو جو آرزوئوں کو پروان چڑھاتی ہیں۔اس ابدی خوشی کیلئے جس کو زوال نہیں ۔
میم سین

clinic

یاداشتیں....
چند سال پہلے ہمیں ایک تعریفی خط موصول ہوا تھا..خوشی سے ہم پھولے نہ.سمائے تھے..پھر ایک غزل نما بھی موصول ہوئی جس میں ہماری تعریف کچھ کچھ ڈبے میں کیک رکھ کر کی گئی تھی...پاس ہی عید تھی .عید کا کارڈ بھی ملا...جس پر ایک چھوٹا سا دل بھی بنا ہوا تھا.سرخ مارکر کے ساتھ جس میں ایک تیر بھی پیوست تھا...جس دن غائبانہ مداح نے اپنا تعارف کروایا تو معلوم ہوا ان کی تو پوری فیملی ہی ذہنی مریض ہے اور خود بھی ڈیپریشن کا ہی علاج کروا رہی تھی....
ایک فیملی اپنی لڑکی کو بے ہوش حالت میں لائے جس نے زہر پی لیا تھا.چونکہ پرانا تعلق تھا اس لیئے ریفر نہ کرسکا .جب معدہ واش کرنے کیلئے نالی لائی گئی تو لڑکی نے کن اکھیوں سے موٹی سی نالی دیکھی تو اوسان خطا ہوگئے اور جونہی موقع ملا کہ تو ہاتھ جوڑ دیئے. میں نے تو اسے پریشان کرنا تھا جو کئی دن سے میری کال نہیں سن رھا تھا اور میرے میسجز کا جواب نہیں دے رھا تھا..
ایک لڑکی چہرے کی دوائی لینے آئی.ہاتھ میں موبائل تھا.جونہی سٹول پر.بیٹھی تو سکرین آن ہوگئی...اس پر اس کی تصویر لگی تھی....بڑی گلاسز ...سیلفی سٹائل .. سفید شفاف جلد کے ساتھ ...
نقاب ہٹایا تو سارا چہرہ دانوں اور سیاہیوں سے بھرا ہوا تھا..بےساختہ منہ سے نکلا..
دیتے ہیں دھوکہ یہ موبائل کے فلٹر کھلا..
یہ ابھی کل کی بات ہے..ایک پٹھان فیملی کو بچے کے بارے سمجھایا کہ گھر جاکر پہلے گرم.پانی سے نہلانا ہے پھر اس کو دوائی پلانی ہے اس کے آدھے گھنٹے بعد دودھ پلانا ہے...
اور آج خان صاحب کافی غصے میں تھے..ہمارے بچے کو کوئی افاقہ نہیں ہوا..
گھر جا کر ہم نے دوائی سے نہلایا پھر اس کوگرم.پانی کرکے پلایا ..آدھے گھنٹے بعد دودھ پلایا لیکن اس نے پھر الٹی کر دی...
چلتے چلتے ایک بھولی بسری کہانی سناتا چلوں۔یہ کہانی ہے ایک چار جوان بچوں کی ماں کی جو ایک نوجوان ڈاکٹر کی اداؤں پر فریفتہ ہوگئی تھی۔خاتون کو اس نوجوان سے محبت ہوگئی تھی یا پھر صرف عقیدت تھی۔ اس کا جواب شائد اتناآسان نہیں ۔ ہوا کچھ یوں کہ نوجوان ڈاکٹرنے ایک قصبے میں نیا نیا کلینک کھولا تو وہ خاتون جو اپنے ایک سو بیس کلو وزن سے نالاں تھی ۔ اس ڈاکٹر کو بھی آزمانے پہنچ گئی۔ اور نوجوان جو نیا نیا ڈگری لیکر کالج سے نکلا تھا۔ پوری توجہ سے اسکی رہنمائی کی۔ اور خاتون اس توجہ پر کچھ اس طرح فدا ہوئیں کہ ناصرف ہدایات کو وحی سمجھ کر عمل کرنا شروع کردیا بلکہ ڈاکٹر کیلئے کبھی تازہ پھلوں کا جوس، کبھی ملک شیک، کبھی گاجروں کا حلوہ کے تحفے میں لانا شروع کردیئے۔ نوجوان ڈاکٹر تکلف کا مارا انکار تو نہ کرتا لیکن خاتون کے جانے کے بعد وہ کلینک کے عملے میں تقسیم کر دیتا۔ اور یوں خاتون نے چند مہینوں میں پورے تیس کلو وزن کم کرلیا۔ اور پھر ایک دن کچھ یوں ہوا کہ وہ خاتون بہت محبت کے ساتھ میووں میں بنا سوجی کا حلوہ بنا کرلائی۔ اورڈاکٹر نے حسب عادت اس کے جانے کے بعد پلیٹ عملے کے حوالے کر دی۔ لیکن خاتون کو کسی کام سے واپس لوٹ کر آنا پڑااور سویپر کے ہاتھ میں سوجی کے حلوہ کی پلیٹ دیکھ کر اس کے دل پر کیا گزری اس کا تو پتا نہیں لیکن وہ دوبارہ لوٹ کر کلینک پر نہیں آئی۔ راوی لکھتا ہے کہ ایک ماہ بعد ہی خاتون کا وزن دوبارہ ایک سو بیس کلو ہوگیا تھا اور وہ نوجوان ڈاکٹرآجکل کلینک سے کتاب تک لکھنے کے بعد اس کے اگلے حصے کی تیاری میں مصروف ہے۔
میم سین

clinic

اماں حاجرہ اپنی بیماری کی فائلوں کے ساتھ پہلی بار آئیں تو ان کی ایک سال سے پخانے کے ساتھ خون آنے کی شکائیت ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے اور ہر ٹیسٹ کروانے اور کئی ڈاکٹرز کو چیک اپ کروانے کے باوجود رفع نہیں ہوسکی تھی..چیک اپ کرنیاور رپورٹس دیکھنے کے بعد میں نے ان کو ان کی بتائی ہوئی علامات پر سوچنے کی بجائے ذہنی امراض کی ادوایات شروع کرنے کا فیصلہ کیا..اور ہفتے بعد ہی کافی مطمئن واپس آئیں کہ اب خون آنا کافی کم ہوگیا ہے..چند ملاقاتوں کے بعد اماں سے بے تکلفی بڑھی تو ان کا میرے اوپر اعتماد بھی بڑھ گیا...جب اپنی اس کیفیت سے باہر نکل آئیں تو ایک دن بتانے لگیں....
میرے چار بیٹے ہیں..زمینوں کا انتظام اور کاروبار کے سلسلے میں صبح گھر سے نکل جاتے ہیں..سب کی شادی میری مرضی اور پسند سے ہوئی ہے. شام کو جب واپس آتے ہیں تو ہم سب اکھٹے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں..اس دن بھی جب سب کھانا کھانے لگے تو مجھے اپنا بیٹا ماجد یاد اگیا جو پانچ سال پہلے خونی پیچش لگنے کے بعد فوت ہوگیا تھا.. اور اس خیال کو اپنے ذہن سے نکال نہ سکی..اگر وہ زندہ ہوتا تو آج وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رھا ہوتا.....
ماں تو آخر ماں ہی ہوتی ہے....اسکے سارے بچے ایک جیسے
میم سین

camera

آوارہ گردی کے تین سال۔۔۔
لوگ سمجھتے ہیں شائد ایک اچھا کیمرہ ایک اچھی تصویر کی ضمانت ہے اور میں بھی یہی سمجھتا تھا۔ لیکن وقت اور تجربے نے سکھایا ایک اچھا کیمرہ ایک اچھے ہتھیار کی طرح ہوتا ہے لیکن اسکو کب استعمال کرنا کیسے کرنا اور کس اینگل سے کرنا یہ سب کچھ تجربہ اور وقت سکھاتا ہے۔
ایک اچھی تصویر کیلئے مناسب روشنی ، مناسب زاویہ, رنگوں کا امتزاج، اور بہت سارے دوسرے اجزا کے ساتھ فوٹو شاپ کا استعمال ضروری ہے
فوٹو شاپ کا استعمال ضروری کیوں؟ روشنی کو کم زیادہ کرنا، زاویہ درست کرنا،غیر ضروری ابجیکٹس کو غائب کرنا، کراپ کرنا، بلرحصوں کو کلیئر کرنا۔وغیرہ وغیرہ
انسانی شعوراور علم وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ہم جس بات پر کل یقین رکھ رہے ہوتے ہیں اس پر آج سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں اور جس بات کو کل ماننے سے انکاری ہوتے ہیں اس کو آج ایمان کا حصہ بنا چکے ہوتے ہیں۔ شعور ہمیشہ ارتقا کا سفر کرتا ہے۔ ایسے ہی علم وقت کے ساتھ بالیدگی کی سیڑھیاں طے کررھا ہوتا ہے۔۔ باقائدگی سے شروع کی ہوئی اس فوٹوگرافی کو لگ بھگ تین سال ہوچکے ۔اورہر سال جب اپنی پرانی تصویروں کو نکال کر دیکھتا ہوں تو آدھی سے زائد تصویروں کو نظر آنے والی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ریجیکٹ کردیتا ہوں۔
میں کوئی بہت اچھا فوٹو گرافر نہیں ہوں نہ ہی مجھے کوئی ایسا دعوی ہے بس ایک ایگزاسٹ ہے جو قلم اور کیمرے کی مدد سے نکالتا رہتا ہوں لیکن جب مجھے کوئی فوٹو گرافی کے بارے پوچھتا کہ اچھی تصویر کیلئے کیا ضروری ہوتا ہے تو میرا جواب ہوتا ہے ۔ زندگی کے ہر کام کی طرح مستقل مزاجی۔۔
میم سین

summer

ہمارے ہاں بہت سی خواتین کے نزدیک پچے کی پیدائش کے بعد سوا مہینے بعد پاک ہونے کیلئے جو غسل کیا جاتا ہے اس سیپہلے نہانا منع ہوتا ہے...ایسے ہی بہت سی عبایا پہننے والی خواتین سمجھتی ہیں کہ عبایا کا کپڑا شائد دھونے سے خراب ہوجاتا ہے....
اور دونوں باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے..
اپنے اوپر نہ سہی دوسروں پر رحم کھائیں جو مروت کے مارے بدبو کو برداش کرنے مجبور ہوتے ہیں..
میم سین کلینک سے کتاب تک والے 
#عبایا #عبایادھونا #پسینا #گرمیاں #شاور

اضافی حاشیہ بشکریہ شہباز ملک صاحب..

حضرات سے بھی گذارش کہ گرمی کے موسم میں وضو کرتے ہوئے ایک گیلا ہاتھ اپنی کَچھ میں بھی مار لیا کریں۔ 
اسی طرح سردی کے موسم میں جرابوں کی دھلائی پر بھی تھوڑی توجہ کی ضرورت ہے۔ دوران جماعت اگر اگلی صف میں کوئی“مجرب”بھائی سجدہ ریز ہوں تو پچھلی صف والے بندے کے لئے سانس بند کر کے سبحان ربی الاعلیࣿ کا 
ورد مشکل ہو جاتا ہے۔

عمومی تاثر یہی ہے کہ سادگی دراصل اپنے حال اور آپٹکس سے بے خبری کا نام ہے۔ 
ذاتی صفائی سے بے اعتنا بندے کو پتہ نہیں کیوں سادہ مزاج سمجھا جاتا ہے۔

clinic

ایک شکل اور حلیئے سے کافی معقول اور پڑھے لکھے بندے نے آکر بتایا.چند دن پہلے آپ سے دوائی لی تھی لیکن ایک تیلے دا وی فیدہ نہ ہویا (اس سے کوئی افاقہ نہیں ہوا).پھر ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر کے پاس چلا گیا تو اس کی صرف ایک خوارک سے ٹھیک ہوگیا.کم ازکم تہانو ایڈا تے پتا ہونا چاہی دا سی کہ مرض ایلوپیتھک اے کہ ہومیوپیتھک(آپ کو اتنا تو پتا ہونا چاہیئے تھا کہ بیماری ہومیوپیتھک ہے یا ایلوپیتھک)..
اب چیک اپ کے بعد میرا تجربہ تو رھنمائی کرنے میں ناکام ہوچکا.. گوگل نے بھی کسی قسم کی مدد کرنے سے انکار کر دیا ہے..اب مجھے سمجھ نہیں آرہی رہنمائی کیلئے کس سے رجوع کروں...
فیلنگ کنفیوزڈ ود بابا کی ڈول اینڈ نائنٹی ایٹ ادرز
میم سین

clinic

ایک بچے کی ماں کو کافی دیر سمجھایا کہ اسے ماں کے دودھ کے علاوہ چھ ماہ تک کوئی چیز منہ کو نہیں لگانی..ماں ہلکی سی آواز میں بولی
انگوراں دی کھنڈ دے دیان کراں
میں نے کہا نہیں
پانی منہ نون لا دیاں کراں
نہین
چاروں عرق؟
پھر ایک بار دھرایا سوائے ماں کے دودھ کے، اس کے منہ کو کچھ نہیں لگانا...
شیزان دی بوتل منہ نون لا دیاں کراں..
میں نے مایوس ہوکر ساتھ آئی اماں سے کہا
تسی اینوں کج سمجھا دیو..میری تے کوئی گل ایڈی سمجھ نہین آندی پئی.
وہ خاتون اس کی طرف مڑی اور کہنیلگی..
گل سن. توں اینوں کچھ نہ دیا کر بس ماکھی دے دیا کر..
میں نے حیرت کے ساتھ اماں کو دیکھا تو میرے چہرے پر خفگی کے آثار دیکھ کر بولی
ہن بچہ روندا ہویا ویکھیا وی تے نہین جاندا

میم.سین

clinic

کچھ سال پہلے ہم کچھ دوست ایک کینٹین پر بیٹھے تھے. گفتگو شیخوں کے لطیفوں سے شروع ہوئی. اور ارائیوں کی طرف نکل گئی اور میں نے بھی بھرپور حصہ لیا.. محفل برخواست ہوئی تو ایک دوست قریب آیا... 
ہاتھ پر ہاتھ مارا...
ایک مزے کی بات بتائوں..
میں اج تک آپ کو ارائیں سمجھتا رہا ہوں.
بات سے بات نکلی تو پوچھا گیا پہلا کرش کون تھا..کہا سنا معاف..چند گھر دور ایک بٹ فیملی تھی.ان کی ایک مہ جبیں دوسری منزل پر بالوں میں کنگھی کرنے آیا کرتی تھی.. ہوبہو موتیے کا پھول...تب میں ساتویں جماعت میں تھا.اٹھویں میں پہنچا تو اس کی شادی ہوگئی.میں کئی دن اداس رھا..
وقت گزرا تو اس کی یاد بھی محو ہوگئی.ایک دن گھر آیا تو تو دو فربہ خواتین کو گھر میں مہمان پایا..پتا چلا.ان.میں سے ایک موتیے کا پھول بھی ہے جو اب گوبھی کے پھول میں ڈھل چکا تھا...
بٹوں کے حسن سے اعتبار کچھ ایسااٹھا کہ شادی سے پہلے جب کسی لڑکی کومستقبل کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی تو حفظ ماتقدم پوچھ لیتا تھا..
تسی بٹ تے نہیں ہندے؟

میم.سین

clinic

صبح جس خاتون کو بڑی مشکل سے تسلی دے کر بھیجا تھا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں..بچے میں پانی کی کمی نہیں ہے.. دوائی استعمال کرائیں... بہتر ہوجائے گا..اور اب دو گھنٹے بعد خاتون دوبارہ بچے کو لیکر آگئی ہے کہ بالکل پانی نکالے جارھا ہے... نڈھال ہوچکا ہے... کچھ کھایا پیا بھی نہیں صبح سے..اور مجبورا مجھے اس کو ڈرپ لگانا پڑی.
اور کچھ دیر پہلے ہی ایک کونسلر صاحب کی اپنے بھتیجے کے بارے میں کال موصول ہوئی تھی کہ اس بچے کو اس وقت تک چھٹی نہیں دینی جب تک اس کے پخانے بہتر نہیں ہوجاتے...
اور میں اپنے علم فہم اور ابزرویشن کے درمیان الجھا ہوا تھا.کہ میرابیماری کی شدت بارے اندازہ غلط ہے یا پھر والدین کے تفکر میں انتہاپسندی ہے...
کوئی دو گھنٹوں بعد ایک نوجوان نے خاتون کا ڈرپ لگوانے کے معاملے کا ڈراپ سین کیا..
اس نے بتایا کہ مصروفیات کی وجہ سے گھر فون کیا تھا اس ویکنڈ نہیں آسکوں گالیکن بچے کی بیماری کا سن کر سب کچھ چھوڑ کر آنے پر مجبور ہوگیا ہوں.....
.اگلے چند گھنٹوں میں کونسلر صاحب کے بھتیجے کی بیماری کی نوعیت بارے بھی علم ہوگیا..اتوار کی چھٹی کو بچے کی بیماری کے سہارے ہفتہ کے ساتھ ملایا جارھا تھا..
لیکن میرے ذہن میں سوال یہ پیدا ہورھا ہے کہ بچوں کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلانے والے والدین کی اس کوشش کو میڈیکل سائنس کس نظر سے دیکھتی ہے؟؟