Tuesday, October 22, 2019

ملوٹ ٹیمپل کے نقوش




جب مجھے بتایا گیا تھا کہ ملوٹ قلعے سے وادی جہلم پر نظر دوڑائیں تو دریائے جہلم، چناب اور راوی کو الگ الگ منظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔جہلم اور چناب کا نام تو ہضم ہوگیا تھا لیکن راوی والی بات مبالغہ لگی لیکن جس دن ملوٹ قلعے سے وادی میں جھانکا تو اندازہ ہورھا تھا کہ اگر مطلع صاف ہو اور روشنی مناسب ہو تو یقینا نظر راوی تک رسائی حاصل کرسکتی ہے۔
انتہائی بلندی پر موجود ہونے کی وجہ سے ملوٹ قلعے پرپہنچے تو تیز یخ ہوائوں نے استقبال کیا۔ پہاڑوں سے ٹکڑاتی، گونج پیدا کرتی آواز اور آبادی سے ہٹ کر موجود مندر ایک ہیبت ناک منظر پیش کررھےتھے۔
لیکن کچھ دیر ٹھہریں۔کسی نے انباکس ایک سوال کیا ہے کہ سالٹ رینج۔ سکیسر، وادی سون، کلرکہار، پوٹھوہار کے الفاظ بار بار سنتے ہیں ان کی وضاحت کردیں؟
سالٹ رینج ایک پہاڑی سلسلے کا نام ہے۔ جس میں نمک اور چونا بکثرت ملتا ہے اور کوئلہ بھی کسی حد تک پایا جاتا ہے۔ کھیوڑہ کی نمک کی کانیں اسی سلسلے کا حصہ ہیں ۔ اسلام آباد جاتے ہوئےبھیرہ سے موٹر وے کے بعد جو مشکل رستہ شروع ہوتا ہے وہ سالٹ رینج کا ہی حصہ ہے۔ جسے عبور کرکے ہم میدانی علاقے سے سطح مرتفع پوٹھوہار میں داخل ہوتے ہیں۔ سطح مرتفع پوٹھوہار اونچی نیچی زمین کا ایک خطہ ہے جوچکوال جہلم ، پنڈی ، اسلام آباد اٹک اضلاع اور خوشاب اور میانوالی اضلاع کے کچھ حصوں پر مشتمل ہے۔۔
سالٹ رینج میں کم بلندی کی پہاڑیاں ہیں جن میں سب سے اونچی سکیسر ہے۔ جہاں پر پاکستان فضائیہ کا دفاعی نظام نصب ہے۔خوشاب کے ایک قصبے پدھراڑ سے سکیسر کی پہاڑی کے درمیان جو وادی پھیلی ہوئی ہے اس کا نام وادی سون ہے۔ جو کوئی سات سو اسی مربع کلومیٹر کے لگ بھگ رقبہ پرپھیلی ہوئی ہے۔ اگر کسی نے امریکہ کی ایریزونا سٹیٹ کے بارے میں سنا ہوا ہے جو اپنی مخصوص سطح مرتفع اور مٹی کی سرخ رنگت کی وجہ سے مشہور ہے تو یہ وادی اس سے بہت حد تک ملتی جلتی ہے۔ وادی سون اپنی آبشاروں اور جھیلوں اور لینڈ سکیپ کی وجہ ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ پہلی بار جانا ہوا تو حکومتی بے حسی پر بہت افسوس ہوا۔ حکومتی توجہ کے بعد دوبارہ جانا ہوا تو لوگوں کا علاقے کے ساتھ سلوک دیکھ کر احساس ہوا قدرتی ماحول کی بقا کیلئے حکومتی غفلت کس قدر ضروری ہے۔
کلرکہار ضلع چکوال کی ایک تحصیل اور سیاحتی مرکز ہے۔ جس کو ہم موٹر وے سے نظر آنے والی جھیل کے حوالے سے جانتے ہیں ۔
ملوٹ قلعہ پہنچے تو قلعہ تو کہیں نظر نہیں آیا لیکن دو بلند وبالا مندروں نے اپنی اجڑی تاریخ کے ساتھ استقبال کیا۔جنجوعہ قوم کے جد امجد راجہ مل 980 میں ہندوستان کے علاقے متھرا سے نقل مکانی کرکے اس علاقے میں آباد ہوئےتو یہاں ایک قلعے کی بنیاد رکھی۔ یہ مندر اسی قلعے کے اندر تعمیر کروائے گئے تھے۔
مندروں کی تعمیر کیلئے چبوترہ مقامی پتھر سے بنایا گیا۔لیکن مندر کی تعمیر کیلئے سرخ پتھر انڈیا سےمنگوایا گیا تھا ۔مندروں کی ناگفتہ حالت کے باجود پتھروں پر کندہ مینا کاری ، آرائشی مورتیاں اور نقش ونگار کے آثار ایک ہزار سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک موجود ہیں۔
محمود غزنوی نے جب جہلم کے اس حصے پر حملہ کیا تو راجہ مل نے شکست کھائی اور گرفتار ہوگیا۔ لیکن محمود غزنوی کے حسن سلوک کی وجہ سے مسلمان ہوگیا۔ راجہ مل نے کوئی چالیس سال حکومت کی۔اسلام قبول کرنے کے بعد راجہ مل کی اولاد علاقے میں پھیل گئی۔لیکن آئندہ سے کسی بھی حملہ آور کے خلاف مزاحمت سے بھی توبہ کرلی۔جب منگول سردار تیمور شاہ نے ہندستان پر حملہ کیا تو اس علاقے کے حکمرانوں نے اسے خوش آمدید کہا۔ بابر کی ہندوستان پر حملے میں جس طرح مدد کی اس کا بھی ذکر بابر نامہ میں بھی ملتا ہے
چھت پھاڑ کر دولت حاصل کرنے والے لوگ آج بھی موجود ہیں ۔لیکن کسی نے بتایا نہیں دولت چھت پھاڑ کرملتی ہے صحن پھاڑ کر نہیں ۔جس مندر کے آثار کچھ بہتر ہیں اس کے کے اوپر چڑھ کر اندر جھانکا تو معلوم ہوا نوادرات کی تلاش میں پورا فرش کھودا ہوا ہے جس سے یقینا چبوترے کو مزید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے،۔
میم.سین

چنیوٹ کا کنہ




بابا شہزاد اویسی تحفہ نہ بھیجتا تو کبھی معلوم نہ ہوتا کہ ملتان سے زیادہ اچھا سوہن حلوہ میلسی میں بنتا ہے۔لیکن پھر بھی سوہن حلوہ ملتان کی ہی سوغات ہے۔ایک نئی سوغات آجکل ملتان کی شناخت بنا رہی ہے اس کا نام ہے سرائیکی اجرک۔ پہلی بار نام سنا تو کچھ تذبذب کا شکار ہوا۔ ایک مہربان تنویر مجید صاحب سے ذکر کیا تو اتنی جلدی افتخار چوہدری سوؤ موٹو نوٹس نہیں لیتا تھا جتنی جلدی انہوں نے خرید کر بھیجوا دیں۔ سرائیکی اجرک سندھی اجرک جیسی چادر ہے لیکن اس کا نیلا رنگ بہت دلفریب اور دلکش ہے۔ اس لیئے ملتان سے سوہن حلوہ کی بجائے سرائیکی اجرک کو ٹرائی کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ کمالیہ جائیں تو کھدر کی سوغات۔ گوجرہ مند اور جٹ کی برفی ۔ تاندلیانوالا ماہی کا من پسند ۔ میاں چنوں خوشی کی برفی اور گلاب جامن۔ چکوال کی ریوڑی ایسے ہی بہت سےشہروں کے ساتھ کوئی نہ کوئی سوغات جڑی ہوتی ہے۔جو کچھ لوگوں کو پسند نہیں بھی آتی لیکن سوغات تو سوغات ہوتی ہے۔
ایسے ہی چنیوٹ جائیں تو وہاں کی پہچان ان کا فرنیچر ہے لیکن اگر چنیوٹ جائیں اور کنہ نہ کھائیں تو پھر بہتر ہے چنیوٹ شہر جانے کی بجائے دریائے چناب کا پل عبور کر جائیں۔
کنہ چنیوٹ کی ایک روایتی ڈش ہے۔جو کوئی دو سو سال پرانی ہے اور بادشاہوں اور امرا کی مرغوب تھی۔ بکرے اور بیف دونوں سے بنتی ہے لیکن ہڈی کے بغیر بکرے کے گوشت کا ذائقہ لاجواب ہوتا ہے اور گوشت میں بھی بکرے کے مچھلی کا گوشت زیادہ استعمال کیا جائے تو ذائقہ کے کیا کہنے ۔ کنہ بنانے کے ماہر بزرگ بتاتے ہیں کہ اصل کنہ چربی میں بنایا جاتا تھا اور پکانے کیلئے زیر زمین چولہے استعمال ہوتے تھے ۔ لیکن اب مٹی کی ہانڈی میں آئل ڈال کر اس میں گوشت اور مصالحے ڈال کر اسکو آدھا پونا گھنٹہ پکایا جاتا ہے۔ہانڈی کو مٹی سے لیپ کر رکھا جاتا ہے تاکہ ہانڈی لمبی عمر پائے کیونکہ ہانڈی جتنی پرانی ہوگی کنہ اتنا مزیدار بنے گا۔اس کی تیاری میں سبز مرچ ادرک ٹماٹر یادھنیے کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس کے بعد بادام مغز اور دوسری اشیا سے بنا دودھی ملا کر پکایا جاتا ہے۔اور کنہ کی گریوی کے ذائقے میں سارا کمال اسی دودھی کا ہوتا ہے۔ہانڈی کا منہ مٹی لگا کر بند کردیا جاتا ہے اور تین سے چار گھنٹے تک پکایا جاتا ہے۔۔ بوٹی کو ٹوٹنے سے بچانے کیلئے مخصوص ڈوئی استعمال کی جاتی ہے۔اور پھر مٹی کی ہانڈیوں میں ہی ڈال کر پیش کیا جاتا ہے۔ گرم گرم تنور کی روٹی کے ساتھ ہو. دھی کا رائتہ اور تازہ سلاد ۔کنہ کا ذائقہ ساری عمر یاد رہے گا
میم سین

ہیر رانجھا ..میڈ ایزی


...

یہ داستان مغلوں کے ہندوستان آنے سے کچھ سال پہلے کی ہے۔ضلع سرگودھا میں ایک قصبہ تخت ہزارہ تھا۔ جس کے چوہدری موجو کے آٹھ بیٹے تھے جن میں سب سے چھوٹا رانجھا تھا۔ کام کا نا کاج کا بس بانسری خوب بجاتا تھا۔لمبے لمبےبال، سوہنا گھبرو ۔بھائیوں بھابیوں نے کام نہ کرنے پر پہلے پہل تو باتیں سنائیں ۔ لیکن پھر تنگ آکر زمین کا بٹوارہ کرلیا اور سب سے نکمی زمین رانجھے کو دے دی۔ نازک اندام رانجھا۔ مشقت اس کے بس کاکام نہیں تھا اورجلد ہی مایوس ہوگیا

ادھر جھنگ شہر میں سیال قوم رہتی تھی ۔ ان کے کے سردار مہر چوچک کی بیٹی کا نام ہیر تھا جس کے حسن کی شہرت دور دور پھیلی ہوئی تھی۔یہ شہرت رانجھے تک بھی پہنچی ہوئی تھی۔ گھر کے طعنوں اور مشقت سے تنگ آکر رانجھے نے جھنگ کے سفر کی ٹھانی۔راستے میں ایک گاؤں کی مسجدمیں رات ٹھہرا تو پہلے تو اس کا مسجد کے امام سے جھگڑا ہوگیا اور صبح جب اٹھا تو کنوئیں پر پانی بھرنےآئی لڑکیوں نے اسے دیکھ لیا اور ایک نے کھلم کھلا اعلان کردیا۔ ویاہ کروں گی تو صرف اس نوجوان سے۔ ورنہ نہیں۔ اور رانجھے کو چھپ چھپا کروہاں سے نکلنا پڑا۔چلتے چلتے دریائے چناب پر جاپہنچا۔ ایک کشتی کنارے پر آکر رکی تو اس میں سے دوسرے مسافروں کے علاوہ پانچ پیر بھی نکلے اوررانجھے کو بنسری بجاتے دیکھ کر سیالوں کی ہیر اسے بخش دینے کا کہہ کر چل دیئے۔

رانجھا کشتی پر سوار ہوا تو دیکھا کہ کشتی پر ایک پلنگ بھی ہے۔ ملاح نے بتایا کہ ہیر اپنی سہیلیوں کے ساتھ جب کشتی پر سیر کیلئے آتی ہے تو اس پلنگ پر آرام کرتی ہے۔ رانجھے نے اجازت مانگی کہ کچھ دیر اس پر سستا لوں تو ملاح جو اس کی بنسری پر فدا ہوچکا تھا انکار نہ کرسکا اور رانجھے کو اس پر لیٹتے ہی نیند آگئی۔ ہیر جب سہیلیوں کے ساتھ کشتی پر پہنچی تو اپنے پلنگ پر ایک اجنبی کو دیکھ کر سخت غصہ آیا۔ سہیلیوں نے اسے مارکر جگایا تو شانوں تک جھولتے سیاہ بال اور رانجھے کے حسین چہرے نے ہیر سے اسکا دل وہیں چھین لیا۔ہیر کو جب پتا چلا اجنبی ہے تو اسے اپنی بھینسوں کی دیکھ بھال کیلئے ملازم رکھ لیا

اور یوں دونوں کی ملاقاتیں ہونے لگیں۔ہیر کا ایک چاچا تھا ۔کیدو، لنگڑا تھا، اسے رانجھا ایک آنکھ نہ بھایا اور ہیر کے ابا کے کان بھرتا رھا۔ ایک دن کیدو کی باتوں میں آکررانجھے کو نوکری سے نکال دیا۔ لیکن بھینسیں جو رانجھے کی بنسری کی عادی ہوچکی تھیں۔ وہ قابو سے باہر ہونے لگیں تو مجبورا رانجھے کو دوبارہ ملازمت پر رکھنا پڑا۔ لیکن اب دونوں پر گہری نظر رکھنا شروع کردی گئی ۔ اورایک دن کیدو کی وجہ سے دونوں کو اکھٹے پیار محبت کی باتیں کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا۔

اور مظفر گڑھ کے ایک گاؤں رنگ پور کے کھیڑوں کے طرف سے آئے ہوئے رشتے کو قبول کرکے شادی کی تیاریاں شروع کردیں ۔لیکن جب نکاح کے وقت رضامندی پوچھی گئی تو ہیر نے صاف انکار کردیا کہ میرا نکاح پانچ پیروں نے رانجھا کے ساتھ کردیا تھا ۔لیکن اس کے اس سارے ہنگامے کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور سیدا کھیڑا اسے بیاہ کر لے گیا۔

رانجھا کو نوکری سے نکالا گیا تو واپس اپنے گاؤں تخت ہزارہ واپس لوٹ گیا۔ وہاں اسے ہیر کے بیاہ کی خبر پہنچی تو دل برداشتہ گھر سے نکل گیا۔جہلم کے قریب جوگیوں کا ٹلہ تھا جہاں گوروگال ناتھ کا آستانہ تھا۔ جس نے رانجھے کے کانوں میں مندریاں ڈال کر اسے اپنا جوگ دے دیا اور عشق کی آگ میں رانجھا پہلے ہی تپا ہوا تھا اسلئے ساری منزلیں بہت جلد طے پاگیا۔گورو سے اجازت لیکر رانجھے نے جوگی بن کر رنگ پور جاکر ایک باغ میں ڈیڑہ ڈال لیا اورایک دن ہیر کی نند سہتی جو خود مراد بلوچ کے عشق میں مبتلا تھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ جوگی کو ملنے آئی اسے جوگی کی باتوں میں پراسرایت نظر آئی جس کا ذکر اس نے ہیر سے بھی کیا۔

ایک دن رانجھا جوگی کے روپ میں ہیر کے گھر جاپہنچا اور اللہ کے نام کی صدا لگائی۔سہتی نے اس کے کشکول میں اناج ڈالا تو اس نے گرا دیا جس پر دونوں کے درمیان تکرار ہوگئی جسے سن کر ہیر باہر نکلی تو دونوں کی نگائیں چار ہوگئیں اور ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ہیر نے اپنی نند کو ساری بات بتائی اور رانجھے سے چھپ کر ملنے لگی۔ایک دن ہیر سہیلیوں کے ساتھ کھیتوں میں گئی ہوئی تھی کہ اس کے پاؤں میں کانٹا چبھ گیا۔ لیکن اس کی نند نے شور ڈالا کہ زہریلا سانپ کاٹ گیا ہے. اس لیئے کسی جوگی کو بلایا جائے۔ یوں رانجھے کو بلایا گیا۔ جس نے ہیر کے کمرے سے کنواری لڑکیوں کے علاوہ سب کو نکل جانے کا کہا۔ یوں ہیر سہتی اور رانجھا اکیلے کمرےمیں رہ گئے۔مراد بلوچ سے بھی ربطہ کرلیا گیا اور یوں دم کے بہانے فرار ہونے کا پروگرام مکمل بنا لیا گیا۔صبح جب ناشتہ کیلئے کمرے پر دستک دی گئی تو ان کے فرار کی اطلاع پورے گاؤں میں پھیل گئی اور گھوڑوں پر ان کا پیچھا کیا گیا۔ مراد بلوچ کی مدد کو ان کا قبیلہ پہنچ گیا اور ان کو پناہ میں لے لیا لیکن رانجھے کو پکڑ کر خوب مارا گیا اور ہیر کو لیکر واپس چلے گئے۔ رانجھا روتا پیٹتا وہاں کے راجہ عدلی کے پاس جا پہنچا۔ جہاں کھیڑوں کو بلایا گیا اور دونوں فریقوں کی بات سن کر قاضی نے فیصلہ کھیڑوں کے حق میں دے دیا۔ جس پر رانجھے نے بددعا دی تو سارے شہر کو آگ لگ گئی۔جس پر راجہ ڈر گیا اور کھیڑوں کو بلا کر ہیر کو رانجھے کے حوالے کر دیا گیا۔ جب رانجھا واپس تخت ہزارہ کو جانے لگا تو ہیر کے گھر والوں نے کہا اس طرح تو تیرے گھر والے ہیر کو قبول نہیں کریں گے تو ایسا کر اپنے گھر جا اور بارات لیکر جھنگ آ۔جو سب ایک بہانہ تھا۔

جھنگ لیجا کر ہیر کو زہر دے کر مار دیا اور مشہور کردیا گیا کہ بیمار ہوکر ہیر چل بسی ہے اور رانجھا بارات لیکر تخت ہزارے سے نکلنے لگا تھا جب اسے ہیر کی موت کی خبر ملی .اسے یقین نہ آیا لیکن جب قبر دیکھی تو زمین پر گرا اور دوبارہ نہ اٹھ سکا
میم.سین

گردوارہ چووا صاب اور ہمارا ذوق جمال


آوارہ گرد کی ڈائری..
..

مجھے نہیں معلوم استھیٹک سینس کو اردو میں کیا کہتے ہیں ۔ شائد احساس جمال ؟ جمالیاتی ذوق یا پھر رعنائی خیال
خوراک انسان کیلئے ضروری ہے اور اس کا پہناواہ بھی ۔ لیکن جو ضرورت انسان کو ممتاز بناتی ہے وہ ہے احساس جمال ۔

بات کو کچھ گہرائی سے دیکھنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا یونانیوں نے نیکی اور حسن کو ایک ہی چیز کانام دیتے ہوئے کہا کہ حسن روحانی اضطراب کی تسکین کیلئے ضروری ہے اور نیکی زندگی کی بقا کے لیئے۔حسن ہماری خوشی کی معروضی شکل ہے یعنی ہمارے احساسات کا حصہ۔اس حسن اور اس حسن کی اہمیت کو سمجھنے کانام ایستھیٹک سینس ہے ۔ جمالیاتی ذوق

سبزہ گل کہاں سے آئے ہیں

ابر کیا ہے ؟ ہوا کیا ہے؟

رضائے فطرت کیا ہےْ؟

ادائے زیست کیا ہے؟

تقاضائے بشریت کیا ہے؟

محبت خدا کا ہی ایک روپ ہے۔اس روپ کو کیسے دیکھیں گے؟

فطرت لذت آفریں احساس ہے اس احساس تک رسائی کیونکر ممکن ہوگی

سربکف پہاڑوں کے کیا معنی؟ دریاؤں سمندروں کے سینوں میں چہل قدمی کیا معنی؟ کائنات کا سارا دم خم کہاں ہے؟ روح کی سرشاری کیا ہے؟ روح سے ہمکلامی کیسے؟

لیکن ٹھہریئے۔پہلے ایک واقعہ سن لیں۔

سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک نے اپنے زندگی میں پیدل پانچ بڑے سفر کیئے تھے۔ اپنے چوتھے سفر کے دوران اپنے بہت قریبی دوست اور عقیدت مند بھائی مردانہ کے ہمراہ سفر کررہے تھے۔جب وہ ٹلہ جوگیاں سے کچھ آگے پہنچے تو بھائی مردانہ کو پیاس لگ گئی لیکن اس علاقے میں پانی بہت کمیاب تھا اور جب کہیں سے پانی نہ مل سکا تو بابا گرونانک نے اپنی عصا زمین پر مار کر ایک پتھر کو ہٹایا تو ایک چشمہ بہنے لگا۔ اس چشمے کا پانی اتنا زیادہ تھا کہ جب اس کے قریب قلعہ روہتاس تعمیر ہوا تو اس کے پانی کو قلعے کے اندر پہنچانے کی کئی بار کوشش کی گئی لیکن ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔چرت سنگھ نے اس جگہ ایک عبادت گاہ تعمیر کروائی اور پانی کو محفوظ بنانے کیلئے تالاب بنوادیا گیا۔ گرو نانک سے نسبت کی وجہ سے راجہ رنجیت سنگھ نے اس پر ایک گردوارہ تعمیر کروادیا جس کی عمارت آج بھی موجود ہے۔

اب آئیں اپنے اصل موضوع کی طرف۔ اس واقعہ میں ساری اہمیت اس چشمے کی ہے. جس کی نسبت بابا گرو نانک سے ٹھہری۔

لیکن تزئین و آرائش کے نام پر سیمنٹ سے پلستر کرکے اس کو ایک کنواں نما کی شکل دے دی گئی ہے ۔ گوردوارے کی عمارت کا مرکزی دروازہ ایلومینئیم کا لگا دیا اور اور بحالی کا اسلم مستری سے کروا کر تاریخ کے ساتھ جس طرح کا مذاق کیا گیا ہے اس پر ذہن سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے جس قوم میں ایستھیٹک سینس ہی موجود نہ ہو ۔اسے تاریخ کے حسن کا شعور کیسا؟
میم سین

کچھ شاہی حمام کے بارے میں


...

دھلی گیٹ سے داخل ہوں تو کوتوالی تک کی سڑک کو شاہی گزرگاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ یہ راستہ بہت سے بادشاہوں کے زیراستعمال رھا ہے۔ یہ راستہ کس قدر اہم تھا اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب شاہجاں نے لاہور شہر میں پہلی بڑی مسجد کی خواہش کا اظہار کیا تو اس وقت کے گورنر وزیر خان نے اس سڑک کا انتخاب کیا۔

مسجد کے انتظام کے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے شہر کے داخلی مقام پرہی حمام قائم کئے گئے۔ جن کو شاہی حمام کا نام دیا گیا لیکن حقیقت میں یہ صرف شاہی استعمال کیلئے مختص نہیں تھے بلکہ عام لوگ بھی اس سے مستفید ہوتے تھے۔دروازے کے ساتھ حمام بنانے کی وجہ مسافروں کو شہر میں داخل ہوکر تروتازہ ہونے کا موقع دینا تھا۔حمام کے ساتھ ایک سرائے بھی تعمیر کی گئی تھی لیکن اس کے آثار اب کہیں نظر نہیں آتے۔

شاہی حمام محض سادہ حمام نہیں تھے بلکہ بھٹیوں کے انوکھے نظام، پانی کی پیچیدہ گزرگاہوں،گرمی کو محفوظ کرنے والی اینٹوں ، بھاپ کے انتظام، پانی کے فواروں پر مشتمل قدیم انجینئرنگ کا حیرت انگیز کارنامہ تھے۔

اگرچہ عدم توجہی اور غفلت کی وجہ سے حمام اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں رہے ہیں ۔پہلے سکھوں نے اس کو نقصان پہنچایا ، پھر انگریزوں نے من مانی تبدیلیاں کیں۔ اور رہی سہی کسر ہمارے ارباب اختیار نے یہاں ایک سکول کھول کر اور شادی حال قائم کرکے کر دی۔ لیکن 2012میں ناروے کی مدد سے آثار کو کافی حد تک محفوظ کرلیا گیا ہے۔شاہی حمام کی بحالی کے دوران ایک حیرت انگیز دریافت مغلیہ عہد کے زیر زمین نکاسی آب کے اصل نظام کا پتا چلنا تھا۔
میم.سین

ایک المناک داستان کے نقوش




یہ کوئی ایک صدی پہلے کی بات ہے۔ ایک بہت امیر شخص تھا۔ جس کی دولت کا کوئی حساب نہیں تھا۔ ایک دن اس کو ایک ہنر مند کے بارے میں پتا چلا جس کی شہرت بکنگھم پیلس تک پہنچی ہوئی تھی۔اس نے ہنر مند کو بلا کر ایک گھر تعمیر کرنے کو کہا جو شان و صورت اور خوبصورتی کا ایسا امتزاج ہو ۔ جو اپنی مثال آپ ہو۔ پیسوں کی بوریوں کے منہ کھول دیئے گئے۔ چودہ مرلے پر واقع پانچ منزلوں پر مشتمل اس عمارت کی تعمیر کے بعد اس کے اندر لکڑی کا کا ایسا باریک کام کیا گیا کہ انسانی آنکھ دیکھ کر ورطہ حیرت میں ڈوب جاتی۔ اٹلی سے رنگین شیشہ منگوا کر بام ودر کوسجایا گیا۔ ستونوں سے لیکر برجیوں تک اور چٹخنیاں، دروازے کھڑکیاں، روشندان ہنرمندوں کی صناعی کی منہ بولتی تصویر پیش کررہے تھے۔رنگوں کی پچی کاری، لکڑی پر نقش ونگاری دیواروں سے لیکر ہر چوکھٹ کاریگروں کی شاعری کا نمونہ پیش کررہی تھیں ۔
نو سال بعد جب محل کی تعمیر مکمل ہوگئی تو ایک سال کے اندر ہی مالک جہان فانی سے کوچ کر گیا۔ کچھ عرصے بعد بیوہ ماں نے بیٹے کی شادی کا اہتمام بڑی دھوم دھام سے کیا۔ لیکن ولیمے کے روز بیٹا غسل خانے میں نصب حمام میں دم گھنٹے سے انتقال کر گیا۔ ماں صدمے سے ایسی گری کہ ایک سال بعد وہ بھی چل بسی ۔۔۔

یہ کہانی ہے چنیوٹ شہر کے بیچ وں بیچ ریختی محلہ میں واقع عمر حیات محل کی۔ جس کو اس کے مالک شیخ عمر حیات نے بہت چاہت کے ساتھ بنوایا اور بیٹے کے نام پر گلزار منزل رکھا۔ الہی بخش برجھا وہ کاریگر تھا جس نے اس عمارت پر اپنے فن کا جادو جگایا۔ بیٹے اور ماں کو انتقال کے بعد اسی گھر کے مرکزی کمرے میں دفن کر دیا گیا گھر کے باقی ورثا نے نحوست قرار دے کر اس میں رہنے سے انکار کردیا۔ پہلے ایک یتیم خانہ کھلوا گیا پھر اس پر قبضہ گروپ مافیہ کا راج رھا۔ جس کے بعد ایک ڈپٹی کمشنر کو اس کی تاریخ اہمیت کا احساس ہوا تو اس کی تزئین و آرائش کا کام کروا کر اس کو ایک لائبریری کا درجہ دے دیا گیا۔۔

عمارت کے اندر داخل ہوکر پہلی اداسی تو ماں اور بیٹے کی قبروں کو دیکھ چھا جاتی ہے۔ ۔لیکن پھر رنگوں اور میناری کاری کا طلسم آپکو جلد ہی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ لیکن مرکزی کمرے سے نکل کر سامنے کے کمرے میں داخل ہوں تو آتش دان پر عمارت کی تعمیر کے تکمیل کے موقع پر کھینچی گئی تصویر فریم میں لگی دیکھ کر دل ایک دم سے بوجھل ہوجاتا ہے۔ تصویر میں نظر آنے والی عمارت کی بالائی منزلیں اب گر چکی ہیں۔
حسرت خواب اور خواہش۔ زندگی اور بے ثباتی، نامہربانی ، نزاکت احساس کا روگ۔ استددلال۔ فسوں کے جال۔۔
میم سین

قلعہ روہتاس (حصہ اول)




ہندوستان کی تاریخ میں جس نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ شخصیت سیر شاہ سوری کی ہے۔ بہت دلیر، زیرک انسان۔ بہترین کمانڈر بلکہ بہترین منصوبہ ساز۔ ناصرف دشمن کی طاقت پر نظر رکھتا تھا وہیں پر علاقائی جغرفیہ پر بھی گہری نظر تھی اور جغرافیہ کے علم کو اپنی دفاعی حکمت عملی میں ھرپور انداز میں استعمال کیا۔ شیر شاہ نے ناصرف عوام کی جان ومال کے تحفظ کیلئے کام کیئے بلکہ ان کی فلاح بہبود پر جس قدر توجہ دی اس کی مثال نہیں ملتی ۔۔۔

صوبہ بہار میں ایک بہت بڑا قلعہ تھا جس کا نام روہتاس تھا۔ مغلوں کے ساتھ ابتدائی لڑائیوں میں جب کچھ پسپائی اختیار کرنا پڑی تو دشمن سے محفوظ رکھنے کیلئے اپنی فیملی کو روہتاس بھیج دیا۔ اور اس کا یہ فیصلہ بہت درست ثابت ہوا۔ ہمایوں کو ہندوستان سے نکالنے کے بعد اسے خدشہ تھا کہ پوٹھوہار کے علاقے سے گکھڑوں کی مدد سے وہ دوبارہ حملہ آور ضرور ہوگا۔ اور مقامی جنگجوؤں اور ہمایوں کا راستہ روکنے کیلئے ٹلہ جوگیاں سے کچھ آگے ایک قلعہ تعمیر کرنے کا ارادہ کیا۔شیر شاہ بہار قلعہ روہتاس کی طرز تعمیر سے بہت متاثر ہوا تھا۔ اس لیئے اسی قلعہ کے نقشے کو سامنے رکھتے ہوئے پوٹھوہار میں قلعے کی تعمیر شروع کی گئی ۔۔ شیر شاہ کی زندگی میں جو قلعہ اس جگہ مکمل کیا گیا تھا اسے قلعہ اندر کوٹ کہا جاتا ہے ۔ لیکن جب شیر شاہ سوری اس قلعے کے معائینے کیلئے آیا تو اس نے ایک بڑے قلعے کی تعمیر کا حکم دیا جس کا نام روہتاس رکھا گیا جو شیر شاہ کی وفات کے بعد مکمل ہوا۔ لگ بھگ آٹھ سال میں اور تین لاکھ مزدوروں کی محنت کے بعد وجود میں آنے والا یہ قلعہ عہد رفتہ کی ایک عظیم یادگار اور فن سنگ تراشی کی ایک حیرت انگیز مثال ہے۔جاہ وجلال کی ایسی مثال بہت کم قلعوں میں نظر آتی ہے۔ قلعے کی تعمیر میں بڑے بڑے پتھر استعمال کیئے گئے ہیں جو عام طور پر قلعوں کی تعمیر میں استعمال نہیں کیئے جاتے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس علاقے کی قوم بڑی جنگ جو تھی اور ان پتھروں کو چوری کرکے لیجاتی تھی جس پر قلعے کی تعمیر کے اخراجات میں خاصا اضافہ ہوگیا تھا۔

اگرچہ روہتاس قلعہ عالمی ورثہ میں شامل ہے لیکن اس کی تزئین آرائش کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ کم ازکم مرمت کا کام اس قدر ذمہ داری سے کیا جارھا ہے کہ اس کی اصل شناخت قائم رہے۔
میم سین(جاری ہے)

روہتاس کی بائولی..



آوارہ گرد کی ڈائری..


بائولی زیر زمین اس کنوئیں کو کہتے ہیں. جس میں پانی حاصل کرنے کیلئے سیڑھیاں بنائی جاتی ہیں اور پانی تک پہنچنے کیلئے ان سیڑھیوں کا استعمال کیا جاتا ہے.

روہتاس کے قلعے میں تین بائولیاں تھیں۔ جن سے قلعے کے مکین پانی کی ضروریات پوری کیاکرتے تھے۔دوبائولیوں کے تو آثار اب موجود نہیں لیکن تیسری بائولی اپنے شاندار طرز تعمیر کے ساتھ اب بھی موجود ہے۔اگرچہ اس بائولی میں قابل استعمال نہیں لیکن پانی اب بھی موجود ہے۔ کوئی سو فٹ گہرئی تک پہنچنے کیلئے ایک سو سنتالیس سیڑھیاں طے کرکے پانی تک پہنچا جاسکتا ہے۔ چالیس فٹ تک چوری محرابوں کے سائے میں پانی تک جاتی سیڑھیوں کا منظر ناصرف پراسرار ہے بلکہ ان کا استعمال ایک منفرد تجربہ بھی ہے۔...

میم.سین

روہتاس کی عمارتیں...(آخری قسط)


آوارہ گرد کی ڈائری...


قلعہ روہتاس میں جن عمارات کے آثار ابھی کسی حد تک موجود ہیں ان میں شاہی دربار، مان سنگھ کی حویلی، پھانسی گھاٹ، شاہی مسجد شامل ہیں۔

مان سنگھ کی حویلی اکبر بادشاہ کے خاص جرنیل مان سنگھ کے نام پر ہے اس کی خاص بات یہ ہے کہ اسے قلعہ کی بلند ترین چٹان پر قائم کیا گیا تھا۔ اور اس کی طرز تعمیر بھی روایتی عمارات سے مختلف تھی۔

حویلی کے بالکل سامنے کی چار منزلہ عمارت پھانسی گھاٹ کی ہے جس کی چھت میں اڑھائی فٹ کا قطر ہے۔جہاں سے مجرم کو لٹکایا جاتا تھا۔ اور پھانسی کے عمل کی حویلی مان سنگھ سے نگرانی کی جاتی تھی۔

کابلی دروازے کے نزدیک ایک صحن اور چھوٹے سے ہال پر مشتمل مسجد ہے ۔ لیکن انمول اور دیدہ زیب تعمیرات میں شمار کیا جاسکتا ہے

کہا جاتا ہے کہ جب ہمایوں بادشاہ بن کر دوبارہ ہندوستان آیا ۔تو روہتاس قلعہ کی طرز تعمیر دیکھ کر دنگ رہ گیا تھا۔ لیکن شیر شاہ سوری سے لگے زخموں کو یاد کرکے اسے مسمار کردینے کا حکم دے دیا تھا۔بادشاہ کے خاص ساتھی بیرم خان نے سمجھایا کہ اس پر اتنا خرچ ہوچکا ہے تو اسے رہنے دیا جائے۔ممکن ہے مستقبل میں آپ کے بھی کام آئے۔ اگر غصہ ہی ٹھنڈا کرنا ہے تو کچھ حصوں کو گرا دیتے ہیں ۔ جس پر قلعے کےایک دروازے کے پانچ گنگرے گرا کر بادشاہ کے غصے کو ٹھنڈا کیا گیا

سکھوں نے اس قلعہ کو دفاعی نقطہ نظر سے کافی اہمیت دی ۔ رنجیت سنگھ کے زمانے میں قلعے کو تو زیادہ نقصان نہیں پہنچایا گیا لیکن قلعے کے سارے قیمتی پتھر اکھاڑ لیئے گئے

موسمی حالات اور حوادث زمانہ کے باوجود قلعے کے آثار ایک عظیم الشان اور پروقار قلعے کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں
میم.سین

کلینک


چند سال پہلے ہمیں ایک تعریفی خط موصول ہوا تھا..خوشی سے ہم پھولے نہ.سمائے تھے..پھر ایک غزل نما بھی موصول ہوئی جس میں ہماری تعریف کچھ کچھ ڈبے میں کیک رکھ کر کی گئی تھی...پاس ہی عید تھی .عید کا کارڈ بھی ملا...جس پر ایک چھوٹا سا دل بھی بنا ہوا تھا.سرخ مارکر کے ساتھ جس میں ایک تیر بھی پیوست تھا...جس دن غائبانہ مداح نے اپنا تعارف کروایا تو معلوم ہوا ان کی تو پوری فیملی ہی ذہنی مریض ہے اور خود بھی ڈیپریشن کا ہی علاج کروا رہی تھی....

ایک فیملی اپنی لڑکی کو بے ہوش حالت میں لائے جس نے زہر پی لیا تھا.چونکہ پرانا تعلق تھا اس لیئے ریفر نہ کرسکا .جب معدہ واش کرنے کیلئے نالی لائی گئی تو لڑکی نے کن اکھیوں سے موٹی سی نالی دیکھی تو اوسان خطا ہوگئے اور جونہی موقع ملا کہ تو ہاتھ جوڑ دیئے. میں نے تو اسے پریشان کرنا تھا جو کئی دن سے میری کال نہیں سن رھا تھا اور میرے میسجز کا جواب نہیں دے رھا تھا..

ایک لڑکی چہرے کی دوائی لینے آئی.ہاتھ میں موبائل تھا.جونہی سٹول پر.بیٹھی تو سکرین آن ہوگئی...اس پر اس کی تصویر لگی تھی....بڑی گلاسز ...سیلفی سٹائل .. سفید شفاف جلد کے ساتھ ...
نقاب ہٹایا تو سارا چہرہ دانوں اور سیاہیوں سے بھرا ہوا تھا..بےساختہ منہ سے نکلا..
دیتے ہیں دھوکہ یہ موبائل کے فلٹر کھلا..

یہ ابھی کل کی بات ہے..ایک پٹھان فیملی کو بچے کے بارے سمجھایا کہ گھر جاکر پہلے گرم.پانی سے نہلانا ہے پھر اس کو دوائی پلانی ہے اس کے آدھے گھنٹے بعد دودھ پلانا ہے...
اور آج خان صاحب کافی غصے میں تھے..ہمارے بچے کو کوئی افاقہ نہیں ہوا..
گھر جا کر ہم نے دوائی سے نہلایا پھر اس کوگرم.پانی کرکے پلایا ..آدھے گھنٹے بعد دودھ پلایا لیکن اس نے پھر الٹی کر دی...

چلتے چلتے ایک بھولی بسری کہانی سناتا چلوں۔یہ کہانی ہے ایک چار جوان بچوں کی ماں کی جو ایک نوجوان ڈاکٹر کی اداؤں پر فریفتہ ہوگئی تھی۔خاتون کو اس نوجوان سے محبت ہوگئی تھی یا پھر صرف عقیدت تھی۔ اس کا جواب شائد اتناآسان نہیں ۔ ہوا کچھ یوں کہ نوجوان ڈاکٹرنے ایک قصبے میں نیا نیا کلینک کھولا تو وہ خاتون جو اپنے ایک سو بیس کلو وزن سے نالاں تھی ۔ اس ڈاکٹر کو بھی آزمانے پہنچ گئی۔ اور نوجوان جو نیا نیا ڈگری لیکر کالج سے نکلا تھا۔ پوری توجہ سے اسکی رہنمائی کی۔ اور خاتون اس توجہ پر کچھ اس طرح فدا ہوئیں کہ ناصرف ہدایات کو وحی سمجھ کر عمل کرنا شروع کردیا بلکہ ڈاکٹر کیلئے کبھی تازہ پھلوں کا جوس، کبھی ملک شیک، کبھی گاجروں کا حلوہ کے تحفے میں لانا شروع کردیئے۔ نوجوان ڈاکٹر تکلف کا مارا انکار تو نہ کرتا لیکن خاتون کے جانے کے بعد وہ کلینک کے عملے میں تقسیم کر دیتا۔ اور یوں خاتون نے چند مہینوں میں پورے تیس کلو وزن کم کرلیا۔ اور پھر ایک دن کچھ یوں ہوا کہ وہ خاتون بہت محبت کے ساتھ میووں میں بنا سوجی کا حلوہ بنا کرلائی۔ اورڈاکٹر نے حسب عادت اس کے جانے کے بعد پلیٹ عملے کے حوالے کر دی۔ لیکن خاتون کو کسی کام سے واپس لوٹ کر آنا پڑااور سویپر کے ہاتھ میں سوجی کے حلوہ کی پلیٹ دیکھ کر اس کے دل پر کیا گزری اس کا تو پتا نہیں لیکن وہ دوبارہ لوٹ کر کلینک پر نہیں آئی۔ راوی لکھتا ہے کہ ایک ماہ بعد ہی خاتون کا وزن دوبارہ ایک سو بیس کلو ہوگیا تھا اور وہ نوجوان ڈاکٹرآجکل کلینک سے کتاب تک لکھنے کے بعد اس کے اگلے حصے کی تیاری میں مصروف ہے۔

میم سین

کلینک



اماں حاجرہ اپنی بیماری کی فائلوں کے ساتھ پہلی بار آئیں تو ان کی ایک سال سے پخانے کے ساتھ خون آنے کی شکائیت ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے اور ہر ٹیسٹ کروانے اور کئی ڈاکٹرز کو چیک اپ کروانے کے باوجود رفع نہیں ہوسکی تھی..چیک اپ کرنےاور رپورٹس دیکھنے کے بعد میں نے ان کو ان کی بتائی ہوئی علامات پر سوچنے کی بجائے ذہنی امراض کی ادوایات شروع کرنے کا فیصلہ کیا..اور ہفتے بعد ہی کافی مطمئن واپس آئیں کہ اب خون آنا کافی کم ہوگیا ہے..چند ملاقاتوں کے بعد اماں سے بے تکلفی بڑھی تو ان کا میرے اوپر اعتماد بھی بڑھ گیا...جب اپنی اس کیفیت سے باہر نکل آئیں تو ایک دن بتانے لگیں....
میرے چار بیٹے ہیں..زمینوں کا انتظام اور کاروبار کے سلسلے میں صبح گھر سے نکل جاتے ہیں ..سب کی شادی میری مرضی اور پسند سے ہوئی ہے . شام کو جب واپس آتے ہیں تو ہم سب اکھٹے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں..اس دن بھی جب سب کھانا کھانے لگے تو مجھے اپنا بیٹا ماجد یاد اگیا جو پانچ سال پہلے خونی پیچش لگنے کے بعد فوت ہوگیا تھا.. اور اس خیال کو اپنے ذہن سے نکال نہ سکی..اگر وہ زندہ ہوتا تو آج وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رھا ہوتا.....
ماں تو آخر ماں ہی ہوتی ہے....اسکے سارے بچے ایک جیسے
میم سین

آوارہ گردی کے تین سال۔۔۔




لوگ سمجھتے ہیں شائد ایک اچھا کیمرہ ایک اچھی تصویر کی ضمانت ہے اور میں بھی یہی سمجھتا تھا۔ لیکن وقت اور تجربے نے سکھایا ایک اچھا کیمرہ ایک اچھے ہتھیار کی طرح ہوتا ہے لیکن اسکو کب استعمال کرنا کیسے کرنا اور کس اینگل سے کرنا یہ سب کچھ تجربہ اور وقت سکھاتا ہے۔

ایک اچھی تصویر کیلئے مناسب روشنی ، مناسب زاویہ, رنگوں کا امتزاج، اور بہت سارے دوسرے اجزا کے ساتھ فوٹو شاپ کا استعمال ضروری ہے

فوٹو شاپ کا استعمال ضروری کیوں؟ روشنی کو کم زیادہ کرنا، زاویہ درست کرنا،غیر ضروری ابجیکٹس کو غائب کرنا، کراپ کرنا، بلرحصوں کو کلیئر کرنا۔وغیرہ وغیرہ

انسانی شعوراور علم وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ہم جس بات پر کل یقین رکھ رہے ہوتے ہیں اس پر آج سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں اور جس بات کو کل ماننے سے انکاری ہوتے ہیں اس کو آج ایمان کا حصہ بنا چکے ہوتے ہیں۔ شعور ہمیشہ ارتقا کا سفر کرتا ہے۔ ایسے ہی علم وقت کے ساتھ بالیدگی کی سیڑھیاں طے کررھا ہوتا ہے۔۔ باقائدگی سے شروع کی ہوئی اس فوٹوگرافی کو لگ بھگ تین سال ہوچکے ۔اورہر سال جب اپنی پرانی تصویروں کو نکال کر دیکھتا ہوں تو آدھی سے زائد تصویروں کو نظر آنے والی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ریجیکٹ کردیتا ہوں۔

میں کوئی بہت اچھا فوٹو گرافر نہیں ہوں نہ ہی مجھے کوئی ایسا دعوی ہے بس ایک ایگزاسٹ ہے جو قلم اور کیمرے کی مدد سے نکالتا رہتا ہوں لیکن جب مجھے کوئی فوٹو گرافی کے بارے پوچھتا کہ اچھی تصویر کیلئے کیا ضروری ہوتا ہے تو میرا جواب ہوتا ہے ۔ زندگی کے ہر کام کی طرح مستقل مزاجی۔۔

میم سین

شاہی مسجد چنیوٹ ۔۔




میں اس وقت چنیوٹ شہر میں جس تاریخی عمارت میں کھڑا ہوں اس کا نام شاہی مسجد ہے۔۔ اور مسجد کو اپنی اصل حالت کے قریب دیکھ کر خوشی ہورہی ہے کہ تزئین و آرائش کے نام پر اس کے ساتھ روایتی سلوک نہیں کیا گیا۔ رنجیت سنگھ کے دور میں اس مسجد کو گھوڑوں کے اصطبل کے طور پر استعمال کیا گیا اور اس کے بعد کئی سال مسجد عدم توجہی کا شکار رہی۔ پاکستان کے قیام کے کوئی دس سال بعد اس مسجد کی اہمیت کے پیش نظر ایک بحالی کمیٹی تشکیل دی گئی اور پھر مختلف ادوار میں اس کو اپنی اصل شکل کی طرف واپس لیجانے کیلئے کوششیں کی گئیں۔۔
صحن میں کھڑے ہوکر ابھی دو چار تصویریں ہی کھینچی تھیں کہ ایک باریش آدمی نے پاس آکر سلام لیا اور مصافحہ کیلئے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ میرا نام عبدالوھاب ہے اور میں یہاں مسجد کا خادم بھی ہوں اور اوقاف کے دفتر میں بھی ذمہ داریاں ادا کرتا ہوں ۔ جب میں نے اپنا تعارف کروایا تو ایک بار پھر مصافحہ لیتے ہوئے بہت خلوص کےساتھ ہاتھ تھاما اور کہنے لگے آئیں پہلے چائے پیتے ہیں پھر مسجد دیکھتے ہیں۔ میں نے مسکرا کر ان کا شکریہ ادا کیا ۔
یہ مسجد کس کے عہد میں بنی تھی؟ ابتدائی چند باتوں سے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ مجھے ایک اچھے ٹورسٹ گائیڈ کا ساتھ مل چکا ہے۔
یہ تو طے ہے کہ یہ مسجد شاہجہاں کے عہد میں تعمیر ہوئی تھی لیکن اس کی تعمیر وزیر خان یا پھر سعداللہ خان کے دور میں ہوئی اس بارے تاریخ خاموش ہے۔ لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ اس مسجد کی تعمیر سعد اللہ کے عہد میں ہوئی تھی۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ سعد اللہ خان اسی شہر میں مصائب سے گزر کر پلا بڑھا تھا۔ شہر سے انسیت فطری تھی۔ دوسرا دھلی کا قلعہ سعداللہ کی زیر نگرانی تعمیر ہوا تھا۔اور قلعہ کے دیوان خاص اور مسجد کی نقشے میں بہت مماثلت ہے۔ تیسرا یہ کہ اگر مسجد کی تعمیر کے سال کو دیکھا جائے تو وزیر خان اس وقت فوت ہوچکا تھا۔اور چوتھا یہ کہ دروازوں کا اندازتعمیر، اور دیوروں پر تزئین آرائش ان عمارات سے ملتی جلتی ہے جو سعد اللہ خان کے عہد میں تعمیر ہوئی تھیں۔

میں ایک ستون پر لگے پتھر کا جائزہ لے رھا تھا جب خادم صاحب نے لقمہ دیا کہ اس مسجد کی عمارت میں سرخ پتھر ہی نہیں استعمال ہوا بلکہ چنیوٹی پتھر کا استعمال بھی جابجا ملتا ہے۔۔

ہال کی تصوریں لینے کے بعد کچھ سستانے کیلئے بیٹھا تو عبدلوہاب صاحب نے میری توجہ حاصل کی۔ اگر آپ مسجد کی صدر دروازے کو دیکھیں ، اس کے دروازوں کا انداز، محرابیں ، گنبدوں کا سٹائل،دیوروں پر کی گئی پچی کاری کو بغور دیکھیں تو جامع مسجد دہلی آپ کی نظروں کے سامنے آجائے گی۔۔
اگر آپ پسند کریں تو چھت کیلئے سیڑھیوں کا دروازہ کھول دیتا ہوں جہاں سے ناصرف مسجد کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ ملے گا بلکہ پورے شہر پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑا سکتے ہیں۔

میں نے ہنس کرکہا نیکی اور پوچھ پوچھ؟

اور عبدلوہاب صاحب ایک مسکراہٹ کے ساتھ اٹھے اور ایک کمرے سے چابی لے آئے اور سیڑھیوں کا دروازہ کھول کر پہننے کو سلیپر دیئے ۔ چھت پر گنبدوں کی بناوٹ اور چھوٹے میناروں کی دیدہ زیب آرائش کی تصویریں لے رھا تھا جب عبدالوھاب صاحب ہاتھ کے اشارے سے بتانے لگے وہ سامنے چنیوٹ کی پہاڑی ہے جو یہاں کا بلند ترین مقام ہے اور وہاں سےپورا شہر نظرآتا ہے۔ یہ جو سامنے ایک عمارت کے پیچھے سے پرانا سا برج دکھائی دے رھا ہے۔ یہ ایک مندر کےآثار ہیں ۔ادھر جس گھر پر پیلے رنگ کا چونا کیا ہوا ۔ یہ کوئی سو سال پرانی عمارت ہے اور اس کی بالکونی دیکھیں ۔ لکڑی پر کیا ہوا کام ابھی تک کافی حد تک محفوظ ہے۔ سامنے گورنمنٹ سکول کی عمارت ہے۔ اس کے بعد مجھے ایک طرف لے گئے اور ہاتھ کے اشارے سے بتایا یہ اس رہٹ کے آثار ہیں جہاں سے بیلوں کی مدد سے پانی نکالا جاتا تھا۔ اورناصرف مسجد کی پانی کی ضرورت کو پوری کی جاتی تھی بلکہ علاقے کے لوگ بھی مستفید ہوتے تھے۔

میں سمجھتا ہوں قومیں ہمیشہ اپنی ماضی کو اون کرنے سے بنا کرتی ہیں۔ تاریخ کے صفحے آپ کی شناخت ہوتے ہیں ۔ یہ ممکن ہے کچھ صفحے آپ کیلئے شرمندگی کا باعث ہوں اور کچھ قابل فخر۔۔ لیکن قوم بننے کیلئے اپنے شجرہ نسب کو ہر حالت میں قبول کرنا پڑتا ہے۔
میم سین

کمالیہ کی ہاتھ کی کھڈی


آوارہ گرد کی ڈائری...


چند دن پہلے ڈاکٹر رابعہ درانی نے لکھا تھا

چاند پر چرخا کاتنے والی بی بی اگر حقیقت ہوتی تو وہ چاند پر چرخا کیوں کاتا کرتی اسے زمین پر آنا چاہیے تھا کپاس تو یہاں اگتی ہے ۔۔ دراصل چاند
والی اماں اپنے محبوب" بہت پہنچی ہوئی سرکار" کے مزار کی مجاور ہے ۔
پھر بھی ہزارہا صدیوں کا وقت کیسے کاٹے تو چاند بی جی چرخے والی نے'وقت کاٹنے' کی بجائے ''چرخا کاتنے '' کا فیصلہ کیا ۔سمارٹ چوائس ازنٹ اٹ ! اپنے ہاتھوں سے بٹی سوت کی کیا ہی بات ہے۔

عشق کی قیمت ملے نہ ملے۔۔۔

اپنی پہچان سے عشق،اپنی شناخت، اپنی مٹی سے عشق، اپنی ثقافت اپنی تہذیب ۔۔ ۔انسان جب عشق کے زیر اثر آتا ہے تو یہ خوشی کا لمحہ ہوتا ہے۔ایک دنیا جاگ رہی ہوتی ہے ایک آلائو روشن ہوچکا ہوتا ہے۔سچائی کی قندیل آپ کی رہنمائی پر مامور ہوچکی ہوتی ہے۔پھر عشق کی کیا قیمت ۔ عشق کا کیا صلہ۔

کمالیہ شہر کی پہچان کھدر ہے۔ اور اصلی کھدر وہی تھا جو ہاتھ کی کھڈی پر بنایا جاتا تھا۔ کمالیہ کے ہی ایک رہائشی اعظم بانکا کو بھی اپنی اس شناخت سے عشق ہے۔ اور اس نے مشینی دور میں اپنے عشق کو دیکھا۔اور ہاتھ سے دو کھڈیاں بنا کر ان پر کپڑا بننا شروع کیا۔

عشق کی قیمت ملے یا نہ ملے۔

اعظم بانکا ہمارے ہی آبائی محلے بلکہ آبائی گلی کا مکین ہے۔اس سے ملا تو دلچسپ انکشاف ہوا کہ یہ کھڈیاں اس نے اپنے ہاتھ سے اس لکڑی سے بنائی ہیں جو ہمارے آبائی گھر کے نئے مالکان کی جانب سے تعمیر نو کیلئے پرانے گھر کو گرانے کے بعد فروخت کی تھی

ہاتھ سے بنا کھدر کا دھاگہ کچھ موٹا ہوتا ہے اس لیئے اس سے بنا ہوا کپڑا عموما سردیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔کپڑے کی بنتی میں ایک تانا ہوتا ہے اور ایک بانا۔ تانا وہ دھاگہ ہوتا ہے جو ورٹیکل باندھا ہوتا ہے اور بانا وہ دھاگہ ہوتا ہے جسے ایک ایک لکڑی کے بنے چوہا نما کی مدد سے تانے میں سے گزارا جا رھا ہوتا ہے۔ہاتھ سے بنی کھڈی کا کپڑا ایک تارہ یا دو تارہ یا پھر تین تارہ ہوتا ہے۔ تارہ کہتے ہیں رنگوں کے ان شیڈز کو جو بانا کے ذریئے پیدا کیا جاتا ہے۔ایک تھان میں انچاس سے چھپن میٹر کپڑا ہوتا ہے۔ اور ایک دن میں آٹھ سے دس گھنٹے محنت کے بعد ایک کھڈی پر سات سے دس میٹر کپڑا بنا جاسکتا ہے۔کاروباری لوگ ان کاریگر لوگوں سے اڑھائی سو سے تین سو روپے میٹر میں کپڑا خرید کر پانچ سے آٹھ سو روپے میٹر تک فروخت کرتے ہیں۔کچھ لوگوں کے نزدیک قیمت بہت زیادہ ہے۔
لیکن یہ قیمت کپڑے کی نہیں ہے اس عشق کی ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی ۔۔۔
میم سین

ہرن مینار کی کہانی۔۔


۔

دھلی کے پرانے قلعے میں ایک عمارت شیر مندل کے نام سے موجود ہے۔یہ عمارت بابر بادشاہ نے بنوائی تھی ۔جسے ایک رصد گاہ اور لائبریری کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ آٹھ کونوں والی دومنزلہ عمارت کے اندر سیڑھیاں تھیں۔اور چھت پر چھ کونوں والا چھتری نماگنبد۔۔بابر نے تو اس عمارت کو کچھ خاص استعمال نہیں کیا لیکن ہمایوں کو ستاروں کے ساتھ خاص دلچسپی تھی اور ایک دن اسی عمارت سے نیچے اتر رھا تھا تو سیڑھیوں سے پائوں پھسلا اور نیچے گر گیا۔ دو دن زخمی رہنے کے بعد چل بسا۔ ہندستان میں مغلیہ حکومت کا یہ ایک نازک دور تھا۔ ہمایوں کی حکومت ابھی مستحکم نہیں تھی۔ ولی عہد اکبر ایک تو ابھی کم سن تھا ۔دوسرا ہمایوں کی وفات کے وقت دھلی سے بہت دور دریائے ستلج کے کنارے ڈیڑے ڈالے ہوئے تھے ۔ ہمایوں کی وفات کو کئی دن تک خفیہ رکھا گیا۔بیرم خان نے جیسے تیسے اکبر کو دھلی پہنچا کر اس کی تخت نشینی کا اعلان کرکے ملک کی بھاگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں سنبھال لی۔ اور یوں اگلی چند صدیوں کیلئے مغل ہندستان میں پائوں جمانے میں کامیاب ہوگئے

جس وقت میں ہرن مینار کے سامنے کھڑا ہوا تو میری نظروں کے سامنے شیر مندل کی عمارت آگئی ۔ اس کا نقشہ ہوبہو اس کی نقل ہے ۔ جہانگیر بادشاہ نے شکار کیلئے اس جگہ کو مختص کررکھا تھا۔ پانی کا ایک بڑا سا تالاب تھا جہاں سے پانی پینے کیلئے آنے والے جانوروں کا شکار کیا جاتا۔ بادشاہ کا ایک چہیتا ہرن تھا، ہنس راج۔باشاہ کو بہت عزیز تھا ۔اس ہرن کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ دوسرے جانوروں کو ورغلا کر پانے پینے کیلئے اس تالاب پر لاتا تھا۔ اور یوں یہ جگہ شکار کرنے والوں کیلئے جنت بن چکا تھا۔ایک دن شکار کے دوران جہانگیر کا تیر اس ہرن کو جالگا اور ہرن بے بسی میں جہانگیر کے پاس آیا اور قدموں میں جان دے دی۔ جہانگیر بادشاہ کو اس کے مرنے کا اتنا دکھ ہوا کہ اس نے اس کا علامتی مزار ایک مینار کی شکل میں بنا ڈالا ۔شاہجاں نے یہاں آٹھ کونوں والی عمارت بنوا کر اس کے گرد پانی کا خوبصورت تالاب بنوایا اور اس جگہ کو ایک تفریح گاہ کی شکل دے ڈالی۔

موٹر وے سے ہرن مینار تک پہنچنے کیلئے ہرن مینار انٹرچینج موجود ہے ۔ خوبصورت یادگار کی بحالی پر کافی محنت کی گئی ہے ۔اس کی صفائی ستھرائی اور باغیچوں کی ٖحفاظت دیکھ کرخوشی کا احساس ہوتا ہے

میم سین

کلینک


ایک بچے کی ماں کو کافی دیر سمجھایا کہ اسے ماں کے دودھ کے علاوہ چھ ماہ تک کوئی چیز منہ کو نہیں لگانی..ماں ہلکی سی آواز میں بولی
انگوراں دی کھنڈ دے دیان کراں
میں نے کہا نہیں
پانی منہ نون لا دیاں کراں
نہین
چاروں عرق؟
پھر ایک بار دھرایا سوائے ماں کے دودھ کے، اس کے منہ کو کچھ نہیں لگانا...
شیزان دی بوتل منہ نون لا دیاں کراں..
میں نے مایوس ہوکر ساتھ آئی اماں سے کہا
تسی اینوں کج سمجھا دیو..میری تے کوئی گل ایڈی سمجھ نہین آندی پئی.
وہ خاتون اس کی طرف مڑی اور کہنےلگی..
گل سن. توں اینوں کچھ نہ دیا کر بس ماکھی دے دیا کر..
میں نے حیرت کے ساتھ اماں کو دیکھا تو میرے چہرے پر خفگی کے آثار دیکھ کر بولی
ہن بچہ روندا ہویا ویکھیا وی تے نہین جاندا

میم.سین

بٹ



کچھ سال پہلے ہم کچھ دوست ایک کینٹین پر بیٹھے تھے . گفتگو شیخوں کے لطیفوں سے شروع ہوئی . اور ارائیوں کی طرف نکل گئی اور میں نے بھی بھرپور حصہ لیا.. محفل برخواست ہوئی تو ایک دوست قریب آیا ...
ہاتھ پر ہاتھ مارا...
ایک مزے کی بات بتائوں..
میں اج تک آپ کو ارائیں سمجھتا رہا ہوں.
بات سے بات نکلی تو پوچھا گیا پہلا کرش کون تھا..کہا سنا معاف ..چند گھر دور ایک بٹ فیملی تھی.ان کی ایک مہ جبیں دوسری منزل پر بالوں میں کنگھی کرنے آیا کرتی تھی.. ہوبہو موتیے کا پھول...تب میں ساتویں جماعت میں تھا.اٹھویں میں پہنچا تو اس کی شادی ہوگئی .میں کئی دن اداس رھا..
وقت گزرا تو اس کی یاد بھی محو ہوگئی.ایک دن گھر آیا تو تو دو فربہ خواتین کو گھر میں مہمان پایا..پتا چلا .ان.میں سے ایک موتیے کا پھول بھی ہے جو اب گوبھی کے پھول میں ڈھل چکا تھا...
بٹوں کے حسن سے اعتبار کچھ ایسااٹھا کہ شادی سے پہلے جب کسی لڑکی کومستقبل کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی تو حفظ ماتقدم پوچھ لیتا تھا..
تسی بٹ تے نہیں ہندے؟

میم .سین

کلینک


صبح جس خاتون کو بڑی مشکل سے تسلی دے کر بھیجا تھا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ..بچے میں پانی کی کمی نہیں ہے.. دوائی استعمال کرائیں... بہتر ہوجائے گا..اور اب دو گھنٹے بعد خاتون دوبارہ بچے کو لیکر آگئی ہے کہ بالکل پانی نکالے جارھا ہے... نڈھال ہوچکا ہے... کچھ کھایا پیا بھی نہیں صبح سے..اور مجبورا مجھے اس کو ڈرپ لگانا پڑی.
اور کچھ دیر پہلے ہی ایک کونسلر صاحب کی اپنے بھتیجے کے بارے میں کال موصول ہوئی تھی کہ اس بچے کو اس وقت تک چھٹی نہیں دینی جب تک اس کے پخانے بہتر نہیں ہوجاتے...
اور میں اپنے علم فہم اور ابزرویشن کے درمیان الجھا ہوا تھا.کہ میرابیماری کی شدت بارے اندازہ غلط ہے یا پھر والدین کے تفکر میں انتہاپسندی ہے...
کوئی دو گھنٹوں بعد ایک نوجوان نے خاتون کا ڈرپ لگوانے کے معاملے کا ڈراپ سین کیا..
اس نے بتایا کہ مصروفیات کی وجہ سے گھر فون کیا تھا اس ویکنڈ نہیں آسکوں گالیکن بچے کی بیماری کا سن کر سب کچھ چھوڑ کر آنے پر مجبور ہوگیا ہوں.....
.اگلے چند گھنٹوں میں کونسلر صاحب کے بھتیجے کی بیماری کی نوعیت بارے بھی علم ہوگیا..اتوار کی چھٹی کو بچے کی بیماری کے سہارے ہفتہ کے ساتھ ملایا جارھا تھا..
لیکن میرے ذہن میں سوال یہ پیدا ہورھا ہے کہ بچوں کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلانے والے والدین کی اس کوشش کو میڈیکل سائنس کس نظر سے دیکھتی ہے ؟؟

عبایا



ہمارے ہاں بہت سی خواتین کے نزدیک پچے کی پیدائش کے بعد سوا مہینے بعد پاک ہونے کیلئے جو غسل کیا جاتا ہے اس سےپہلے نہانا منع ہوتا ہے...ایسے ہی بہت سی عبایا پہننے والی خواتین سمجھتی ہیں کہ عبایا کا کپڑا شائد دھونے سے خراب ہوجاتا ہے ....
اور دونوں باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے..
اپنے اوپر نہ سہی دوسروں پر رحم کھائیں جو مروت کے مارے بدبو کو برداش کرنے مجبور ہوتے ہیں..
میم سین کلینک سے کتاب تک والے

کلینک



ایک شکل اور حلیئے سے کافی معقول اور پڑھے لکھے بندے نے آکر بتایا .چند دن پہلے آپ سے دوائی لی تھی لیکن ایک تیلے دا وی فیدہ نہ ہویا (اس سے کوئی افاقہ نہیں ہوا) .پھر ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر کے پاس چلا گیا تو اس کی صرف ایک خوارک سے ٹھیک ہوگیا.کم ازکم تہانو ایڈا تے پتا ہونا چاہی دا سی کہ مرض ایلوپیتھک اے کہ ہومیوپیتھک(آپ کو اتنا تو پتا ہونا چاہیئے تھا کہ بیماری ہومیوپیتھک ہے یا ایلوپیتھک)..
اب چیک اپ کے بعد میرا تجربہ تو رھنمائی کرنے میں ناکام ہوچکا.. گوگل نے بھی کسی قسم کی مدد کرنے سے انکار کر دیا ہے..اب مجھے سمجھ نہیں آرہی رہنمائی کیلئے کس سے رجوع کروں...
فیلنگ کنفیوزڈ ود بابا کی ڈول اینڈ نائنٹی ایٹ ادرز
میم سین

ہمارا دھرم پورہ


کتابوں پر تبصرہ..

مصنف..سید فیضان عباس..

فیضان نقوی سے میرا تعارف فیس بک کے بہت ابتدائی دنوں سے ہے. اپنے ماضی کو جس طرح وہ اون کرتے ہیں اس کی نوجوان نسل سے توقع نہیں کی جاسکتی..انہیں اپنی مٹی اپنی زمین اس سے جڑی تاریخ، ثقافت سے اس قدر محبت ہے کہ وہ اس سے جڑے ہر تعلق کو تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں..اور لاہور شہر کے بارے میں جتنا وہ جانتے ہیں اس پر ان کو اب "لاہور کا کھوجی" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے...
ہندوستان کی تاریخ سے میری دلچسپی کا آغاز اگر یہ کہوں کہ ان کے ماضی سے جڑے تجسس کو دیکھ کر ہوا تھا تو بے جا نہ ہوگا..تاریخ کے گمشدہ نقوش کی تلاش میں ان کو گھومتے پھرتے دیکھ آوارہ گردی کا شوق جو مصروفیات میں کہیں دب چکا تھا ایک بار پھر زندہ ہوگیا..تاریخ کے اوراق ڈھونڈنے شروع کیئے تو ڈاکٹر مبارک علی کی کتابوں سے واسطہ پڑا تو تاریخ جیسا بورنگ اور مشکل مضمون دلچسپ ہوگیا.....
چند دن پہلے فیضان صاحب کی کتاب ہمارا دھرم پورہ شائع ہوئی تو ان سے کتاب بجھوانے کی درخواست کی اور اگلے ہی دن کتاب میز پر موجود تھی.کتاب شروع کی تو پہلے ہی دن آدھے صفحے ختم کر ڈالے اور اگلے دن کتاب مکمل کرچکا تھا..لیکن مصروفیات کچھ ایسی آڑے آئیں کہ اس پر لکھنے کیلئے وقت نکال نہ سکا...
یہ صرف ایک کتاب نہیں ہے کہ جس.میں دھرم پورہ کی تاریخی اہمیت بیان کی گئی ہے بلکہ اس علاقے کا انسائیکلوپیڈیا مرتب کردیا ہے جس میں علاقے سے جڑی شخصیات عمارات اور تاریخی واقعات سب کو ایک جگہ اکھٹا کر دیا گیا ہے..
اور تاریخ سے خصوصا لاہور شہر سے جڑی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے ایک بہت ہی نادر کتاب ہے...بلکہ میں کہوں گا اگر کسی کو تاریخ سے دلچسپی نہیں بھی ہے لیکن دھرم پورے کو کسی بھی حوالے سے جانتے ہیں تو اسے اس کتاب کو ضرور پڑھنا چاہیئے. دلچسپی کا کچھ نہ کچھ سامان ضرور مل جائے گا.....
کم.از کم کتاب کو پڑھنے کے بعد میری لاہور شہر سے عشق کی جو آگ بھڑکی ہے اس کے بعد فیضان صاحب کے ہی توسط سے لاہور کی تاریخ پر لکھی گئی کئی کتب منگوا چکا ہوں..
کتاب منگوانے کیلئے فیضان صاحب سے رابطہ کیا جاسکتا ہے..

کنہٹی گارڈنز وادی سون




اگر اپ کسی تعلیمی ادارے سے منسلک ہیں اور اپنے طلبا کو کسی مطالعاتی دورے پر سیر و تفریح کی غرض سے کہیں لےجانا چاہتے ہیں تو کنہٹی گارڈنز ایک بہترین انتخاب ثابت ہوسکتا ہے..کلرکہار انٹرچینج سے اتر کر خوشاب روڈ پر ستائیس کلومیٹر سفر کرنے کے بعد جب پیل چوک پہنچ کر نوشہرہ کی طرف سفر شروع کرتے ہیں تو ایک خوبصورت لینڈ سکیپ آپ کا استقبال کرتا پے. جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں.وسیع و عریض میدان اور ڈھلوانیں عبور کرکے کنہٹی کو مڑیں تو سرخ پہاڑیوں اور اریزونا جیسی سرخ چٹانوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے آپ جب کنہٹی گارڈن پہنچتے ہیں تو پنجاب ٹورازم کی جانب سے بہترین انتطامات سے مزین ایک خوبصورت کمپلکس آپ کا استقبال کرتا ہے..جہاں عارضی رہائش کیلئے ریسٹ ہائوس کے کمرے بھی دستیاب ہے.اور کھانے پینے کیلئے کینٹین بھی..زندگی کا ایک بہترین دن گزارنے کیلئے خوبصورت ٹریک اور فطرت سے ہمکلام ہونے کیلئے پانی کے چشمے بھی ..
لیکن خیال رکھیں یہ قدرتی سیرگاہیں ہمارے پاس قدرت کی طرف سے امانت ہیں..ان کی صفائی کے حوالے سے خود بھی خیال رکھیں اور بچوں کی تربیت پر بھی زور دیں..
میم سین

پیر دا کھارا ...تاثرات.


...

ڈپ شریف میں رستہ بھول کر ایک گھنٹہ خواری کے بعد چشمہ تک تو نہ پہنچ سکے لیکن ایک خوبصورت ٹریک سے متعارف ضرور ہوگئے...کوئی رہنمائی کیلئے بندہ دستیاب نہ ہوا اورموبائل سگنل ختم ہوجانے کی وجہ سے گوگل سے رہنمائی بھی میسر نہ تھی....واپسی پر جب ایک چرواہا نظر آیا اور اس سے رستہ پوچھا تو پتا چلا کہ ٹریک درست تھا لیکن سفر ابھی مزید کرنا باقی تھا...
لیکن اس دوران مرید خاص ایک نیا روٹ ترتیب دے چکا تھا...جس کے مطابق ہمیں پیر دا کھارا کا چشمہ دیکھنا تھا.. موٹر وے سے للا انٹرچینج سے اتر کر فاصلہ صرف چودہ کلومیٹر کا تھا لیکن ہم نے خوشاب سرگودھا روڈ کی مدد سے نئے علاقوں سے گزر کر پہنچنے کافیصلہ کیا.کٹھہ سگھرال چوک سے للا کی طرف مڑ کر کاکیاں والی سرکار کے مور ، سارس اور دوسرے پرندے دیکھتے، جب پیردا کھارا پہنچے تو سورج غروب ہونے کے قریب تھا..
اس دوران اس جگہ کے بارے کافی معلومات اکھٹی ہوچکی تھی.چشمے کے پانی کے بارے میں بہت سی کہانیاں اور معجزے سننے کو مل.چکے تھے...کچھ دوستوں نے تو تاکید کی آپ کا عقیدہ اپنی جگہ لیکن وہاں کا پانی ایک بار ضرور پینا ہے..ہر مرض کی شفا موجود ہے اس پانی میں...
وہاں پہنچے تو ایک.میلے کا سماں دیکھنے کو ملا.. پاکستان کے دور دراز علاقوں سے لوگ پانی حاصل کرنے وہاں پہنچے ہوئے تھے..اور اس جگہ کی اہمیت کا اندازہ وہاں موجود عارضی دکانوں سے ہورھا تھا جو عموما میلوں وغیرہ میں لگائی جاتی ہیں اور یہاں لگ بھگ سو سے زائد دکانوں کے سٹال مستقل.بنیادوں پر قائم تھے...جس سے وہاں آنے والے زائرین کی تعداد کا اندازہ بھی ہورھا تھا...
چشمے کا پانی دیکھنے پہنچے تو معلوم ہوا چشمہ
کا پانی ایک ٹینک میں جمع ہوتا ہے اور وہاں سے نلکوں کی مدد سے سے لوگ اپنے کین پانی سے بھرتے ہیں..جس چشمے کے بارے معجزے گنوائے جارہے تھے کہ اس کا پانی اج تک خشک نہیں ہوا .. وہاں پہنچ کر معلوم ہوا جس ٹینک میں پانی اکھٹا ہوتا تھا وہ خالی ہوچکا ہے اور اب صبح تک پانی دستیاب نہیں ہوگا...اور لوگوں کا جم غفیر دھائی دے رھا تھا کہ میں ملتان سے آیا ہوں پانی لینے.. تو کوئی ڈی جی خان سے کوئی پنڈی سے کوئی مردان سے...خواتین کی ایک بڑی تعداد کی وجہ سے وہاں تصویر کشی سے پرہیز کیا..
مزار کے ذمہ داران سے بات چیت ہوئی تو ان سے جو معلومات ملیں اس کے مطابق پیر کرم شاہ صاحب اپنے مرشد کی اجازت سے بھیرہ سے اٹھ کر اس جگہ تشریف لائے تھے اور ایک پہاڑی پر قیام کیا تھا جہاں کی زیارت کیلئے اب چیئر لفٹ لگا دی گئی ہے..وہاں کے مقامی لوگوں کے مطابق یہاں پر موجود چشمے کا پانی پہلے پینے کے قابل.نہیں تھا لیکن پیر صاحب کے قیام کی برکت سے ناصرف میٹھا ہوگیا بلکہ ہر بیماری کی شفا بھی اللہ نے اس پانی میں ڈال دی ہے.. لیکن مزار کے ذمہداران نے اس بات کی مخالفت کی کہ شفا پانی میں نہیں بلکہ پیر صاحب کے دم.میں ہے اور اس کیلئے تعویذ لینا ہوگا......
حقیقت کیا ہے اس بارے کیا کہا جاسکتا ہے....
لیکن شام کے وقت چیئر لفٹ کی مدد سے پہاڑی پر پہنچ کر جب نیچے آبادی پر نظر دوڑائی تو ایک خوابناک منظر موجود تھا.....سالٹ رینج کے آغاز میں واقع وادی کا حسین نظارہ اور دامن میں واقع مزار اور اس کے ارد گرد آباد خوبصورت شہر کا منظر ناقابل فراموش تھا...
میم سین

کھبیکی جھیل اور ہمارے مزاج کا نوحہ




پچھلے سال کی بات ہے علامہ اقبال میڈیکل کالج جانے کا اتفاق ہوا.پرانی یادوں کو دھرانے کیلئے کچھ دیر کینٹین جا بیٹھے...کچھ عرصہ پہلے کالج کینٹین وغیرہ اوول والی سائیڈ پر منتقل کر دی گئی تھیں..
اب ہوتا یہ ہے کہ سٹوڈنٹس کھانے پینے کا سامان لیکر اوول میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں اور اس کے بعد اس گرائونڈ کو ڈسٹ بین سمجھ کر گند وہیں چھوڑ کر اپنی کلاسوں کا رخ کرتے ہیں.
گرائونڈ میں جابجا بکھرے شاپر، چپس کے خالی پیکٹ، جوس کے خالی ڈبے ، اور بوتلوں کے ڈھیر دیکھ کر سوچ میں پڑ گیا کہ اگر معاشرے کے سب سے زیادہ باشعور اور پڑھے لکھے طبقے کا یہ عالم ہے تو کس امید پر دوسرے لوگوں سے توقع رکھوں کہ وہ اپنی ذمہداری کا احساس کریں گے..
لاہور اسلام آباد موٹر وے کا جس دن افتتاح ہوا تھا اس دن کلرکہار جانے کا اتفاق ہوا..جس کمپنی نے سڑک کنارے لائٹس انسٹال کی تھیں.انہوں نے اپنے ملازمین کیلئے پکنک کا اہتمام کلرکہار جھیل کے کنارے کیا تھا.ہمارے ایک دوست کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز تھے. اس نے ہم دوستوں کو بھی مدعو کرلیا تھا..قدرتی پن نے علاقے کی خوبصورتی کو ایک حسین رنگ بخشا ہوا تھا جس نے پہلی ہی نظر میں بہت متاثر کیا..رات کو جھیل کنارے بون فائر کا اہتمام کیا گیا.پکنک پر آئے سب لوگوں نے خوب ہلا گلہ کیا.. علاقائی رقص پیش کیئے گئے، کسی نے ہیر سنائی تو کسی نے لطیفوں سے محظوظ کیا... ہنسی مذاق میں جو وقت گزرا اس کی یاد آج بھی ذہن میں تازہ ہے..چند سال پہلے جھیل کی انہی حسین یادوں کے ساتھ فیملی کے ساتھ اترا تو تعفن زدہ ایک نئی جھیل سے تعارف ہوا..جھیل کے کناروں پر خالی بوتلوں اور دوسرا گند دیکھ کر دل بہت برا ہوا..اس قدر حبس اور بدبو تھی کہ زیادہ دیر ٹھہرنا ممکن نہ تھا...جو خواب لیکر آیا تو وہ چکنا چور ہوچکا تھا.
.اور ایسے ہی کل ایک پوسٹ میں کھبیکی جھیل کے تازہ مناظر دیکھ کر جھیل کا چند ماہ پہلے قائم ہونے والا طلسم ٹوٹنا شروع ہوگیا ..پیل چوک سے نوشہرہ روڈ پر سفر شروع کریں تو چوبیس کلومیٹر کی مسافت پر روڈ کے ساتھ واقع جھیل پر وہی کچڑے کے ڈھیڑ، وہی غلاظت کے مناظر دیکھنے کو ملنا شروع ہوگئے ہیں، جو ہر ٹورسٹ مقام کی شناخت بنتے جارہے ہیں...
اور جلد وہی مناظر متوقع ہے جو کلرکہار جھیل پر نظر آئے تھے..
اس لیئے جتنا جلد ممکن ہو ان قدرتی تفریحی مقامات کا دورہ کرلیں کیونکہ اس کے بعد وہ اس قابل نہیں رہیں گے کہ ان کو دیکھنے کا اہتمام کیا جائے.....
میم.سین