یہ داستان مغلوں کے ہندوستان آنے سے کچھ سال پہلے کی ہے۔ضلع سرگودھا میں ایک قصبہ تخت ہزارہ تھا۔ جس کے چوہدری موجو کے آٹھ بیٹے تھے جن میں سے سب سے چھوٹا رانجھا تھا۔ کام کا نا کاج کا بس بانسری خوب بجاتا تھا۔لمبے لمبےبال، سوہنا گھبرو تھا ۔بھائیوں بھابیوں نے کام نہ کرنے پر پہلے پہل تو باتیں سنائیں ۔ لیکن پھر تنگ آکر زمین کا بٹوارہ کرلیا اور سب سے نکمی زمین رانجھے کو دے دی۔ نازک اندام رانجھا۔ مشقت اس کے بس کاکام نہیں تھا اورجلد ہی مایوس ہوگیا
ادھر جھنگ شہر میں سیال قوم رہتی تھی ۔ ان کے کے سردار مہر چوچک کی بیٹی کا نام ہیر تھا جس کے حسن کی شہرت دور دور پھیلی ہوئی تھی۔یہ شہرت رانجھے تک بھی پہنچی ہوئی تھی۔ گھر کے طعنوں اور مشقت سے تنگ آکر رانجھے نے جھنگ کے سفر کی ٹھانی۔راستے میں ایک گاؤں کی مسجدمیں رات ٹھہرا تو پہلے تو اس کا مسجد کے امام سے جھگڑا ہوگیا اور صبح جب اٹھا تو کنوئیں پر پانی بھرنےآئی لڑکیوں نے اسے دیکھ لیا اور ایک نے کھلم کھلا اعلان کردیا۔ ویاہ کروں گی تو صرف اس نوجوان سے۔ ورنہ نہیں۔ اور رانجھے کو چھپ چھپا کروہاں سے نکلنا پڑا۔چلتے چلتے دریائے چناب پر جاپہنچا۔ ایک کشتی کنارے پر آکر رکی تو اس میں سے دوسرے مسافروں کے علاوہ پانچ پیر بھی نکلے اوررانجھے کو بنسری بجاتے دیکھ کر سیالوں کی ہیر اسے بخش دینے کا کہہ کر چل دیئے۔
رانجھا کشتی پر سوار ہوا تو دیکھا کہ کشتی پر ایک پلنگ بھی ہے۔ ملاح نے بتایا کہ ہیر اپنی سہیلیوں کے ساتھ جب کشتی پر سیر کیلئے آتی ہے تو اس پلنگ پر آرام کرتی ہے۔ رانجھے نے اجازت مانگی کہ کچھ دیر اس پر سستا لوں تو ملاح جو اس کی بنسری پر فدا ہوچکا تھا انکار نہ کرسکا اور رانجھے کو اس پر لیٹتے ہی نیند آگئی۔ ہیر جب سہیلیوں کے ساتھ کشتی پر پہنچی تو اپنے پلنگ پر ایک اجنبی کو دیکھ کر سخت غصہ آیا۔ سہیلیوں نے اسے مارکر جگایا تو شانوں تک جھولتے سیاہ بال اور رانجھے کے حسین چہرے نے ہیر سے اسکا دل وہیں چھین لیا۔ہیر کو جب پتا چلا اجنبی ہے تو اسے اپنی بھینسوں کی دیکھ بھال کیلئے ملازم رکھ لیا
اور یوں دونوں کی ملاقاتیں ہونے لگیں۔ہیر کا ایک چاچا تھا ۔کیدو، لنگڑا تھا، اسے رانجھا ایک آنکھ نہ بھایا اور ہیر کے ابا کے کان بھرتا رھا۔ ایک دن کیدو کی باتوں میں آکررانجھے کو نوکری سے نکال دیا۔ لیکن بھینسیں جو رانجھے کی بنسری کی عادی ہوچکی تھیں۔ وہ قابو سے باہر ہونے لگیں تو مجبورا رانجھے کو دوبارہ ملازمت پر رکھنا پڑا۔ لیکن اب دونوں پر گہری نظر رکھنا شروع کردی گئی ۔ اورایک دن کیدو کی وجہ سے دونوں کو اکھٹے پیار محبت کی باتیں کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا۔
اور مظفر گڑھ کے ایک گاؤں رنگ پور کے کھیڑوں کے طرف سے آئے ہوئے رشتے کو قبول کرکے شادی کی تیاریاں شروع کردیں ۔لیکن جب نکاح کے وقت رضامندی پوچھی گئی تو ہیر نے صاف انکار کردیا کہ میرا نکاح پانچ پیروں نے رانجھا کے ساتھ کردیا تھا ۔لیکن اس کے اس سارے ہنگامے کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور سیدا کھیڑا اسے بیاہ کر لے گیا۔
رانجھا کو نوکری سے نکالا گیا تو واپس اپنے گاؤں تخت ہزارہ واپس لوٹ گیا۔ وہاں اسے ہیر کے بیاہ کی خبر پہنچی تو دل برداشتہ گھر سے نکل گیا۔جہلم کے قریب جوگیوں کا ٹلہ تھا جہاں گوروگال ناتھ کا آستانہ تھا۔ جس نے رانجھے کے کانوں میں مندریاں ڈال کر اسے اپنا جوگ دے دیا اور عشق کی آگ میں رانجھا پہلے ہی تپا ہوا تھا اسلئے ساری منزلیں بہت جلد طے پاگیا۔گورو سے اجازت لیکر رانجھے نے جوگی بن کر رنگ پور جاکر ایک باغ میں ڈیڑہ ڈال لیا اورایک دن ہیر کی نند سہتی جو خود مراد بلوچ کے عشق میں مبتلا تھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ جوگی کو ملنے آئی اسے جوگی کی باتوں میں پراسرایت نظر آئی جس کا ذکر اس نے ہیر سے بھی کیا۔
ایک دن رانجھا جوگی کے روپ میں ہیر کے گھر جاپہنچا اور اللہ کے نام کی صدا لگائی۔سہتی نے اس کے کشکول میں اناج ڈالا تو اس نے گرا دیا جس پر دونوں کے درمیان تکرار ہوگئی جسے سن کر ہیر باہر نکلی تو دونوں کی نگائیں چار ہوگئیں اور ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ہیر نے اپنی نند کو ساری بات بتائی اور رانجھے سے چھپ کر ملنے لگی۔ایک دن ہیر سہیلیوں کے ساتھ کھیتوں میں گئی ہوئی تھی کہ اس کے پاؤں میں کانٹا چبھ گیا۔ لیکن اس کی نند نے شور ڈالا کی زہریلا سانپ کاٹ گیا اس لیئے کسی جوگی کو بلایا جائے۔ یوں رانجھے کو بلایا گیا۔ جس نے ہیر کے کمرے سے کنواری لڑکیوں کے علاوہ سب کو نکل جانے کا کہا۔ یوں ہیر سہتی اور رانجھا اکیلے کمرےمیں رہ گئے۔مراد بلوچ سے بھی ربطہ کرلیا گیا اور یوں دم کے بہانے فرار ہونے کا پروگرام مکمل بنا لیا گیا۔صبح جب ناشتہ کیلئے کمرے پر دستک دی گئی تو ان کے فرار کی اطلاع پورے گاؤں میں پھیل گئی اور گھوڑوں پر ان کا پیچھا کیا گیا۔ مراد بلوچ کی مدد کو ان کا قبیلہ پہنچ گیا اور ان کو پناہ میں لے لیا لیکن رانجھے کو پکڑ کر خوب مارا گیا اور ہیر کو لیکر واپس چلے گئے۔ رانجھا روتا پیٹتا وہاں کے راجہ عدلی کے پاس جا پہنچا۔ جہاں کھیڑوں کو بلایا گیا اور دونوں فریقوں کی بات سن کر قاضی نے فیصلہ کھیڑوں کے حق میں دے دیا۔ جس پر رانجھے نے بددعا دی تو سارے شہر کو آگ لگ گئی۔جس پر راجہ ڈر گیا اور کھیڑوں کو بلا کر ہیر کو رانجھے کے حوالے کر دیا گیا۔ جب رانجھا واپس تخت ہزارہ کو جانے لگا تو ہیر کے گھر والوں نے کہا اس طرح تو تیرے گھر والے ہیر کو قبول نہیں کریں گے تو ایسا کر اپنے گھر جا اور بارات لیکر جھنگ آ۔جو سب ایک بہانہ تھا۔
جھنگ لیجا کر ہیر کو زہر دے کر مار دیا اور مشہور کردیا گیا کہ بیمار ہوکر ہیر چل بسی اور رانجھا بارات لیکر تخت ہزارے سے نکلنے لگا تھا اسے اطلاع ملی تو یقین نہ آیا لیکن جب قبر دیکھی تو زمین پر گرا اور دوبارہ نہ اٹھ سکا
No comments:
Post a Comment