میں اور میرے بند دریچے
اور رفاقتوں کا لمبا سفر
تو نے کہا کچھ آغاز میں
نہ میرے جی میں کچھ آیا
اک سناٹا ہے،ایک وحشت ہے
میں ہوں اور اب میری تنہائی ہے
کسی خوف سے سمٹی
کسی درد سے جاگی
شبِ غم تو آشوب ہے
ناسور ہے جسم کا
روح پگھلتی جاتی ہے
جسم گھلتا جاتا ہے
سمے لوٹ بھی آئیں تو
تو نقش کیسے مٹاؤں
خود کو کیسے سمیٹوں
ماضی کو کیسے بھلاؤں
جیؤں تو کس لئے
ارادے کس کے لئے باندھوں
سفر کو نکلوں تو ،کیوں
شہرزادوں سے کس لئے ملوں
ایک ہارہ ہوا سپاہی
اپنے زخموں کے ساتھ
اب کیا حکم چلائے گا۔۔
No comments:
Post a Comment