مغلیہ عہد میں ایک شہزادے کی ایک کنیزکے ساتھ عشق کی داستان اپنے دور میں اس قدر مشہور ہوئی تھی کہ زباں زد عام، اس کے قصے تھے۔ حتی کہ اس کی بازگشت دھلی کے شاہی دربار میں بھی سنائی دیتی تھی۔
دکن کو جاتے ہوئے شہزادہ حضور، برہان پور اپنے ایک رشتہ دار کو ملنے کیلئے رک گئے۔ سیر کرتے کرتے ایک دن اس باغ کی طرف نکل گئے جو حرم کی عورتوں کے لیئے مختص تھا۔ شہزادے کو اتنے قریب سے دیکھا تولڑکیاں بالیاں تو اپنے کام چھوڑ کر اسے تکنے لگیں اور سرد آہیں بھرنے لگیں لیکن ایک نوجوان لڑکی نے شہزادے کے موجودگی کو یکسر نظر انداز کردیا اور بےنیاز قدموں سے چلتی ہوئی آم کے ایک درخت پر چڑھ کر آم توڑنے لگ گئی۔سورج کی کرنیں گھنے درخت کے پتوں سے چھن چھن کر اس کے شوخ سیمیں بدن کے ساتھ کھیل رہی تھیں ۔ کیا روح فرساں انداز تھا ماہ جبیں کا۔داخلی اور خارجی کشمکش کا حسین امتزاج ۔اور اتنی سنگین حقیقت کی تاب نہ لاتے ہوئےعالم وارفتگی میں شہزادہ بے ہوش ہوگیا۔
پتا چلا گیا کہ یہ حور صفت کون ہے؟ تو معلوم ہوا، عیسائی مغنیہ اوررقاصہ ہے جو برہان پور کے گورنر کی ملکیت ہے۔ نام اس کا ہیرا بائی ہے۔شہزادے نے اسے اپنے لیئے مانگ لیا اور نام اسکا زین آبادی محل رکھا۔کیونکہ جس باغ میں ایک روح دوسری روح سے ہمکلام ہوئی تھی۔ وہ زین آباد میں واقع تھا ۔
شہزادے پر اس کا عشق سر چڑھ کے ایسا دوڑا کہ ساری کائینات ہیچ ہوگئی۔اس کا قرب زندگی کی سعادت بن گیا۔عشق بھی تھا اور صحبت بھی میسر تھی۔کئی ماہ تک، نہ دن کا ہوش رھا نہ راتوں کی خبر رہی۔شہزادہ بادہ کش نہ تھا لیکن ایک دن ماہ جبین نے شہزادے کا امتحان لینے کیلئے جام بڑھا دیا کہ مجھ سے کتنی محبت ہے؟ شہزادے نے ہاتھ میں پکڑ کر جام منہ کے قریب ہی کیا تھا کہ اس نے ہاتھ سے الٹ دیا اور کہا میں تو بس آپ کی محبت کا امتحان لے رہی تھی
لیکن صدیوں کے اھساس سے سرشار، ان لمحوں کو گزرے ابھی ایک سال بھی نہ ہوا تھا کہ زینب آبادی محل چل بسی۔
شہزادہ اس کے غم میں کئی ماہ تک امور سلطنت سے بیگانہ رھا۔ کہتے ہیں شہزادہ اورنگزیب عالمگیر کی رقص اور موسیقی سے عداوت اس کے مرنے کے بعد شروع ہوئی تھی
لیکن اس بات کو سمجھنے سے میں قاصر ہوں کہ چار بیویوں، دس بچوں اور حرم میں سینکڑوں لونڈیوں، کنیزوں کی موجودگی کے باوجود وہ ایسی کونسی ایسی ماوارئی طاقت ہے کہ دنیا اور مافیہا کو بھول کر کوئی انسان کسی ہستی میں ایسے کھو جاتا ہے کہ جیسے جسم ہی نہیں روحیں بھی ایک دوسرے میں تحلیل ہوگئی ہوں ۔کیا یہ بھی کوئی حقیقت ہے یا سچائی ہے جو پلک جھپکتے دل میں کپکپی اور روح میں گدگدی پیدا کردیتی ہے۔وجدان میں اتر کر اعصاب کو معطل کردیتی ہے۔
عشق نہ پچھے ذات، نہ دیکھے تخت، نہ ویکھے تاج۔
اوہ عشقا ! جیون جوگیا ، سانوں مار دِتّا ای تھاں
اسیں ماہی ماہی کُوکدے ، تیرا اُچّا کر گئے ناں
اوہ ہجرا ! مگروں لیہنیا ، ساڈے سِر تے تیرا وار
اسیں تیرے قیدی بن کے ، اج بازی بیٹھے ہار
اوہ رُتے نی مستانئیے ! نہ نویں بھلیکھے پا
فیر سانوں سجری مہک دے ، نہ ایویں پِچھّے لا
اوہ ویلیا ! ظالم ویلیا ، کیہ تیرا اے دستور
دو ہانی کھیڈاں کھیڈدے ، کر دِتّے کاہنوں دور
اوہ ویرنے ! دل دئیے ویرنے ایہ سارے تیرے غم
توں ہان بھُلایا ہان دا ، ایہ چنگا کیتا کم
اوہ موسما ! چیتر موسما ، اسیں بُھلّے تیرے پُھل
توں ساڈے پِچھّے سوہنیا ! نہ ککھاں وانگوں رُل
اوہ یار صفی مستانیا ، نہ عشق دی تار ہلا
اسیں تھکّے ٹُٹے ہجر دے ، تے مُکی پئی اے وا
No comments:
Post a Comment