Wednesday, September 12, 2018

المیہ


میں بہت کم سوچتا ہوں ۔لیکن کبھی کبھی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں۔
لگ بھگ ایک سال پہلے ایک نوجوان لڑکی میرے پاس آئی . جب اسے کہا کہ خود کو خوش رکھا کرو، ذہنی تناؤ سے بچا کرو، تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ تین ماہ پہلے میری شادی ہوئی تھی اور اپنے سسرال کافی خوش تھی ۔ ایک دن والد مجھے ملنے کیلئے آئے اور باتوں باتوں میں، میرے سسر کے ساتھ لڑائی ہوگی۔اور مجھے اپنے ساتھ لے آئے کہ اس گھر میں اپنی لڑکی نہیں چھوڑ سکتا۔سارے خاندان نے صلح کیلئے کوشش کی لیکن میرے والد اور سسر اپنی انا سے دستبردار نہیں ہوئے اور اب خلع کا دعوی کردیا گیا ہے۔
میں نے اسے سمجھایا کہ اپنے خاوند سے بات کرو کہ وہ الگ گھر لے کر تمہیں لے جائے ۔جس پر اس نے بتایا کہ وہ تو کئی بار چھپ کر مجھے ملنے آچکا لیکن اس میں پنے والد کی ناراضگی مول لینے کی ہمت نہیں ۔
خیر سمجھا بجھا کر بھیجا کہ حوصلہ رکھو انشاللہ کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔
کل جب ایک لڑکی کو شدید ذہنی ٹینشن میں لایا گیا تو پہلی نظر میں اس کو پہچان نہیں سکا کیونکہ نقاب نہیں لیا ہوا تھا اور اس کے ساتھ اس کی بوڑھی ماں اور ایک چھوٹی عمر کا ایک بھائی تھا۔ کچھ سنبھلی تو بتایا کہ اس کی خلع ہوگئی ہے اور آج جہیز کا سامان واپس پہنچ گیا ہے۔
میں تب سے سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ قصور کس تھا؟
 لڑکی یا لڑکے کے باپ کا۔جنہوں نے ایک بسا ہوا گھر اجاڑ دیا یا پھر اس لڑکے کا جس نے اپنی بیوی کو تحفظ دینے سے انکار کردیا۔۔
یا پھر اس سماج کا جس کی بندشیں روایات کے نام پر استحصالی نظام کی وہ بدترین شکل قائم کئے ہوئے ہیں جسمیں کوئی شخص ذاتی فیصلے لینے کا اہل بھی نہیں رہتا۔
یا قصور وار یہ معاشرہ ہے جس میں دو افراد جن کی زندگیوں کی شروعات کے ضامن رب اور رسول ہیں لیکن وہ دو افراد بھی اپنی زندگیوں کے فیصلے خود نہیں کرسکتے۔
 یا قصور وار وہ نظام ہے جس میں ہم اپنے بچوں کو محبت کے نام پہ اتنا مفلوج اور معاشی طور پر اپاہج کردیتے ہیں کہ نہ وہ مکمل جنم لیتے ہیں نا آزادی۔
میم سین

No comments:

Post a Comment