آپ نے بچپن میں اکثر ایسی کہانیاں سنی ہونگی. جس میں شہزادی کو ایک جن اٹھا کر لیجاتا ہے اور پھر کوئی لکڑہارا یا کسی دور کی بستی کا شہزادہ اسے بازیاب کرواتا ہے اور بادشاہ اور ملکہ اپنی بیٹی کی شادی اس سے کروا کر خود حج کرنے چلے جاتے تھے ۔ تو آج ہم آپ کو بادشاہوں کے اس حج کے راز کے بارے میں بتاتے ہیں ۔
اگر بیرم خان نہ ہوتا توآج تاریخ کی کتابیں مغلیہ عہد کا سرسری ذکر کرکے آگے بڑھ گئی ہوتیں ۔جس دن ہمایوں سیڑھیوں سے گرنے کے بعد کچھ دن زخمی رہنے کے بعد انتقال کرگیا تو اس وقت اکبر صرف چودہ سال کا تھا اور بیرم خاں کے ساتھ ستلج کے کنارے پنجاب کے علاقے میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ہمایوں کی وفات کو کافی عرصے تک خفیہ رکھا گیا۔ ایک شخص روزانہ ہمایوں کے حلیہ میں تمام ضروری کاروائیوں کا حصہ بنتا جو ہمایوں کے معمولات کا خاصہ تھا۔ اور بیرم خان برق رفتاری سے اکبر کو لیکر دھلی کی طرف روانہ ہوا اور ہمایوں کی وفات کا اعلان کرکے اکبر کی تخت نشینی کا اعلان کردیا۔
بیرم خان ترک النسل اور بخارہ کا باشندہ تھا اور ایرانی بادشاہ کا سالار تھا۔ بابر بادشاہ کی سمرقند مہم میں بیرم خان کو مدد کیلئے بھیجا گیا۔ بابر اس کی صلاحیتوں سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے بیرم خان کو اپنے ساتھ کام کرنے کی درخواست کی اوریوں بیرم خان بابر کے ساتھ ہندستان آگیا۔بابر کے ساتھ اس نے کیا کارنامے سرانجام دیئے تاریخ خاموش ہے ۔ لیکن جب ہمایوں نے گجرات کی مہم کا آغاز کیا تو بیرم خان پہلی مرتبہ ایک اہم کمانڈر کی حیثیت سے سامنے آیا۔ اس کے بعد جب ہمایوں کو سیر شاہ سوری سے شکست ہوئی تو یہ یہ بیرم خان ہی تھا جس نے ہمایوں کو سندھ تک پہنچایا اور پھر ایران کے بادشاہ کے ساتھ تعلقات بنا کر دیئے اور بادشاہ کو ایران میں سیاسی پناہ دلوائی۔ اور پھر ایرانی شاہ کی مدد سے ہمایوں نے اپنی فتوحات کا دوبارہ آغاز کیااور دوبارہ دہلی کی سلطنت پر قابض ہوا۔اکبر کی پیدائش ہمایوں کی جلاوطنی کے دور میں ہوئی تھی. کابل کی فتح کے بعد اکبر کو باقائدہ بیرم خان کی سرپرستی میں دے دیاگیا۔
جس وقت ہمایوں کی موت واقع ہوئی بیرم خان کیلئے سلطنت پر قابض ہوجانا کوئی مشکل کام نہیں تھا لیکن اس نے نمک حلالی کا ثبوت دیتے ہوئے اکبر کو دھلی لاکر اسے تخت پر بٹھایا اور اگلے چار سالوں میں پنجاب، گوالیار، اجمیر اور بہت سے علاقے فتح کرکے دھلی کی سلطنت کو وسیع کر کے دیا۔۔
لیکن اکبر بادشاہ کو بیرم خان کی یہ چاپکدستی اور سلطنت کے امور میں مداخلت کچھ پسند نہیں آرہی تھی اور دبے الفاظ میں اسے اپنی اوقات میں رہنے کیلئے اشارہ دیتا رہا لیکن جب بیرم خان نہیں مانا تو پھر ایک دن اسے بلا کر کہا ..
تسی سلطنت دی بہت خدمت کرلئی جے۔ تے ہن کچھ اللہ اللہ کرو
جاکر حج کرکے آؤ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب حج کا سفر بہت طویل اور بہت پر خطر سمجھا جاتا تھا۔حج پر جانے سے پہلے آخری ملاقاتیں کر لی جاتی تھیں۔اورآج بھی حج پر جانے سے پہلے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقات کی یہ رسم کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ ۔ بے یقینی ہوتی تھی کہ پتا نہیں حاجی صاحب کا دوبارہ چہرہ دیکھنا بھی نصیب ہوگا یا نہیں ۔بیرم خان گھاگ بندہ تھا بادشاہ کی نیت جان گیا اورحج پر جانے سے انکار کرکے بغاوت کردی لیکن شکست کھائی اور چاروناچارحج کیلئے نکلنا پڑا۔
بیرم.خان نے ساری دنیا سے پنگے لیئے ہوئے تھے اور ہر جگہ دشمنیاں پال رکھی تھیں . گجرات سے گزرتے ہوئے اس کی علاقے میں موجودگی کی مخبری ہوگئی کہ اور سوریوں کے ایک کمانڈر کی موت کا بدلہ بیرم خان کو قتل کرکے لے لیا گیا اوراطلاع ملنے پربادشاہ سلامت نے "جو اللہ کی مرضی " کہہ کر اپنے دربار میں مصروف ہوگیا..
میم.سین
No comments:
Post a Comment