اکبر بادشاہ کو ہماری نئی نسل زیادہ تر جودھا بائی کے حوالے سے جانتی ہے جو شہزادہ سلیم کی ماں تھی ۔ لیکن مغلیہ تاریخ کی کسی بھی مستند کتاب میں جودھا بائی کا نام نہیں ملتا۔ بلکہ شہزادہ سلیم کا نام بھی یا بالکل بچپن کے دنوں میں ملتا ہے یا اس کا تذکرہ ملتا ہے جب شہزادے نے فرسٹیٹ ہوکر اپنے باپ کے خلاف بغاوت کردی تھی
کون جانتا تھا گھر سے بے گھر، ہمایوں کے ہاں سندھ میں عمرکوٹ کے مقام پر پیدا ہونے والا بچہ آنے والے دنوں میں پورے ہندستان میں حکومت کرے گا ۔جو ایک ایسی مضبوط حکومت کی بنیاد رکھے گا جسکی وجہ سے مغلیہ حکومت کو ہندستان سے اگلے تین سو سال نکالا نہیں جاسکے کا۔ کابل سے قندھار تک ، بہار سے بنگال تک۔ کشمیر سے مکران تک ۔ دھلی سے گجرات اور راجھستان دکن تک کی ریاستوں تک ایک عظیم اور مضبوط سلطنت کی ناصرف بنیاد رکھی بلکہ اس کو بہترین ایڈمنسٹریشن مہیا کی۔ اکبر کے زمانے کا ہندستان دنیا کی سب سے طاقتور ریاست کا درجہ حاصل کرچکا تھا۔
بادشاہ تھا مرضی کا مالک۔ جہاں بے شمار بڑی بڑی عمارتیں بنوائیں وہیں اس کو اپنے باپ کا دارلحکومت پسند نہ آیا تو آگرہ سے کچھ فاصلے پر سکری میں ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی اور اسے اپنا دارلحکومت بنالیا۔ بادشاہ سارے مذاہب کو اہمیت دیتا تھا۔کبھی لگتا تھا بادشاہ پارسی ہوگیا ہے تو کبھی جین مت میں داخل ہوگیا ہے۔ کبھی ہندؤں کے قریب لگتا تھا تو کبھی پرتگال سے آئے راہبوں کو یقین مل جاتاتھا جلد بادشاہ عیسائیت قبول کرلے گا۔ لیکن بادشاہ کو اپنی حکومت مضبوط کرنا تھا سو سب کو لالی پاپ دے کر رکھتا تھا۔ اپنی حکومت کو مضبوط رکھنے کیلئے ۔ہندو گھروں میں بھی شادیاں کیں ۔ اور ہندؤں کو کلیدی عہدوں پر ترقی دی ۔ہندوئوں کو خوش رکھنے کیلئے بے شمار اقدامات جیئے۔ لیکن جس طرح مسلمان علما اور اولیا کرام کا احترام کرتا تھا اور ان کی خدمت میں حاضری دیا کرتا تھا اس سے اس کی اسلام پسندی کا جذبہ بھی رد نہیں کیا جاسکتا تھا۔
بہت زیرک انسان تھا جب جہانگیر نے بغاوت کی تو اس کے خلاف جنگ نہیں کی۔ اس نے اکبر کے بہترین دوست ابولفضل جس شمار اکبر کے نورتنوں میں ہوتا تھا، کو مروا دیا جس کے غم میں بادشاہ کی کمر ٹوٹ گئی لیکن پھر بھی جہانگیر کے خلاف فوج کشی سے پرہیز کیا ۔ حرم کی عورتوں نے تعاون کیا اورجہانگیر سے معافی دلوائی۔ کیونکہ اکبر جانتا تھا کہ آپس کی لڑائی سلطنت کو کمزور کردی گی اور اور عالمگیر کےمقابلے میں اس کے بیٹے خسرو کو بادشاہ بنانے کی خواہش سے دستبردار ہوکر مغل عہد کو دوام بخشا۔
بہت زیرک انسان تھا جب جہانگیر نے بغاوت کی تو اس کے خلاف جنگ نہیں کی۔ اس نے اکبر کے بہترین دوست ابولفضل جس شمار اکبر کے نورتنوں میں ہوتا تھا، کو مروا دیا جس کے غم میں بادشاہ کی کمر ٹوٹ گئی لیکن پھر بھی جہانگیر کے خلاف فوج کشی سے پرہیز کیا ۔ حرم کی عورتوں نے تعاون کیا اورجہانگیر سے معافی دلوائی۔ کیونکہ اکبر جانتا تھا کہ آپس کی لڑائی سلطنت کو کمزور کردی گی اور اور عالمگیر کےمقابلے میں اس کے بیٹے خسرو کو بادشاہ بنانے کی خواہش سے دستبردار ہوکر مغل عہد کو دوام بخشا۔
میں جب تاریخ کے صفحے کھنگال رھا ہوتا ہوں تو مجھے عموما اس سے کوئی سبق حاصل کرنے کا زیادہ شوق نہیں ہوتا ۔میری ماضی کے شعور کو سمجھنے کی ایک کوشش ہوتی ہے جن کے زیر اثر اس زمانے کی فیصلے کیئے گئے ہوتے ہیں۔ ماضی کی ضروریات کو سمجھنا اور ان کیلئے اقدامات کو اس زمانے کے شعور کے ساتھ سمجھنا۔ لیکن اس کوشش کے دوران بہت سے واقعات ایسے مل جاتے جن سے محظوظ بھی ہوتا ہوں اور کبھی کبھی عبرت بھی ملتی ہے
کئی دن سے اکبر کی زندگی پڑھ رھا تھا۔ اس کے کی زندگی کے اہم واقعات، فیصلے ، لڑائیاں بغاوتیں، انتظام کوئی پچاس سالہ حکومت اور تریسٹھ سالہ زندگی کے جب سارے باب ختم ہوگئے تو ایک ایسا واقعہ نظر سے گزرا جس کو پڑھ کر ناصرف ایک اداسی چھا گئی بلکہ انسانی بے چارگی لاچارگی کا پہلو سامنے آگیا۔
اکبر کے انتقال کے بعد اس کو آگرہ کے شہر سکندرہ میں ایک مقبرہ میں دفن کردیا گیا تھا۔جو اس نے اپنی زندگی میں ہی بنوا رکھا تھا۔ جس پرسونے چاندی کا کافی کام کیا گیا تھا۔قیمتی قالین بچھائے گئے تھے۔ جہانگیر بادشاہ بنا پھر اس کے بعد شاہجہاں اور اس کے بعد اورنگ زیب عالمگیر۔اکبر کے مرنے کے کوئی پجھتر سال بعد مقامی جاٹ قوم نے راجارام جاٹ کی قیادت میں اورنگ زیب سے بغاوت کردی اور آگرے پر قابض ہوگئے۔ انہوں نے نہ صرف تاج محل کو نقصان پہنچایا بلکہ اکبر کے مقبرے پر جاکر سونا چاندی قالین لوٹ کر قیمتی لکڑی کو آگ لگا دی ۔ میناروں پر توڑ پھوڑ کی اورعمارت کو بھی کافی نقصان پہنچایا اور قبر سے بادشاہ کی ہڈیاں نکال کر ان کو جلا دیا گیا۔
No comments:
Post a Comment