تم بھی جاناں عجیب باتیں کرتی ہو۔بھلا تکمیل کیا ہے اور رشتوں کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ دو متضاد لہجوں کی دو متضاد باتیں ۔کمال کی باتیں کرتی ہو۔۔۔۔تم بھی نا۔۔ بھلا انسان بھی مکمل ہوسکتا ہے ؟ وہ تو موت ہے جو اسے ختم کر سکتی ہے اور وہی اس کی تکمیل ہے۔
تم ابھی معصوم ہو۔ انجان ہو۔ تم وہ دیکھ کر سوچتے ہو جو تمہیں نظر آتا ہے۔ لیکن انسان کا ایک چہرہ وہ ہے جو تم دیکھتے ہو اور دوسرا وہ روحانی جسم ہے جسے ہم محسوس کرتے ہیں۔ عورت کا ظاہر مکمل ہے لیکن اس کی روح ادھوری ہے وہ تلاش میں ہے ،وہ تکمیل کیلئے سرگرداں ہے ۔اس کے اس ادھورے پن کو آپ جبلی بھی کہہ سکتے ہیں اور سماجی بھی۔ہمارا سماج عورت کی پیدائش پر اس کے اندر ایک زخم لگا دیتا ہے اور وہ زخم کسی ناسور کی شکل میں اس کی روح کو بے چین رکھتا ہے۔۔۔۔ کچھ ادھوراپن فطری ہے،جو نسل در نسل اور پشت در پشت چلا آرہا ہے۔اس کی ہنسی کے پیچھے ایک کرب ہوتا ہے ۔وہ کرب،جس کو مرد کبھی محسوس نہیں کرسکتا۔لیکن اس کی تکمیل کا رستہ مرد کے اندر سے ہوکر جاتا ہے۔اس لئے اپنی روحانی اور نفسانی الجھنوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے وہ مرد کی طرف دیکھتی ہے۔عورت ایک بے جان بت کی مانند ہوتی ہے۔ وہ مرد کے ذریئے اس میں جذبات بیدار کرتی ہے۔ اسے احساسات سے بھر دیتی ہے
جاناں تم بھی کمال کرتی ہو!! تم کہتی ہو کہ عورت کا رشتہ مرد کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے وہ مرد کے ذریئے اپنی تکمیل چاہتی ہے ۔ اس کی تکمیل ہوجاتی ہے تواس کی ہراساں روح کو اطمینان نصیب ہوجاتا ہے۔لیکن جاناں! جب وہ مکمل ہوگئی تو۔ بھلا وہ مرد کا ساتھ کیوں چاہے گی ؟جب تکمیل ہوگئی تو مرد کا سہارا کیسا ؟
عورت کی گاڑی کا انجن مرد ہوتا ہے۔ وہ جب تک سانس لیتی رہتی ہے اس کوہواکی ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ جب دھوپ کی تپش سے پریشان ہو جاتی ہے تو اس کو سایے کی ضرورت ہوتی ہی ۔جب تھک کر نڈھال ہوجاتی ہے توایک بچھونے کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ چاہتی ہے کہ مرد اس سے باتیں کرے۔ باتیں نہیں کرسکتا ہے تو اس کی بات توجہ سے سنے۔وہ تو اپنی محرومیوں کا ذکر بھی اسی سے کرنا چاہتی ہے۔وہ اپنی حساسیت اورکمزوریوں کا مداوہ بھی اسی سے چاہتی ہے۔ ۔ وہ تو اپنے پل پل کے لئے اس کی محتاج ہوتی ہے۔۔ ۔وہ موزوں الفاظ کی تلاش میں رہتی ہے جن کا حصول مرد کے قرب کا سبب بنتا ہے ۔ وہ ہمیشہ انجانے فیصلوں کے خوف میں گرفتار رہتی ہے جو کسی بھی وقت اس کی جنت کو کسی آزمائش میں مبتلاکر سکتے ہیں
۔ تم بھی جاناں اپنے فلسفہ کے تحفظ کیلئے کیسی کیسی تاویلیں ڈھونڈتی ہو۔تم بھی نا !!!۔ اگر عورت کی تکمیل ہوسکتی ہے تو مرد کب مکمل ہوتا ہے؟۔ کیا مرد اندھا ہے؟یا بہرہ ہے؟ جو یہ سب نہیں جانتا کی عورت اس کو اتنا چاہتی ہے۔ کیا وہ ہمیشہ یہی نہیں سمجھتا کہ عورت احمدشاہ ابدالی کی طرح اس کی ذات میں آتی ہے اور اینٹ سے اینٹ بجا کر خود کو فاتح منواتی ہے۔ وہ اپنی شخصی محرومیوں کو کو کبھی تسلیم نہیں کرتی ہے ۔ وہ تو حقیقتوں کی ان گہرائیوں سے بھی واقف نہیں ہوتی جو مرد کی روح کو دکھی کرتی ہیں۔وہ ہمیشہ اپنے شک کے رویے سے احساس کمتری کا بیج بوتی ہے۔ وہ مرد کو سہارا تو سمجھتی ہے لیکن کبھی اس کے اندر جھانک کر نہیں دیکھتی ہے۔ وہ مرد کو مکمل نہیں دیکھنا چاہتی ۔ مرد مکمل ہوگیا تو مرد کے پاس اس کیلئے جگہ کہاں ؟ وہ تو اپنے قطعی لہجے کے ساتھ مرد کے گرد ایک حصار بنا کر رکھتی ہے۔عورت جب مرد کو پا لیتی ہے تو وہ ا ساری کھڑکیاں بند کر دیتی ہے ۔ یہاں تک کہ مرد تک آنے والے رستوں اور دروازوں کو بھی۔ وہ تو یہ بھی بھول جاتی ہے کہ گھرکو اگر آگ لگ گئی تو اس کو بجھایا کیسے جائے گا۔
عورت مکمل ہو بھی جائے تو تنہا پرواز کرنے کے قابل نہیں ہوتی ۔وہ تو محبت کرکے بھی مرد کو مظلوم نہیں سمجھتی۔ وہ کبھی مرد کو کمزور نہیں دیکھنا چاہتی۔وہ مرد کو کمزور کرکے اپنی سرشاری کو داؤ پر نہیں لگاسکتی ہے۔اس کی تمنائیں اور خواہشیں اس کیلئے ایک امید کا درجہ رکھتی ہیں اور وہ انہیں اپنا فرض سمجھتے ہوئےان سے وابستہ شخص کو کمزور نہیں کرسکتی۔وہ تو مرد کے سکوت سے بھی ھراساں ہوجاتی ہے۔کہیں کوئی خاموشی کسی طوفان میں نہ ڈھل جائے۔
یہ بھی خوب کہی تم نے جاناں۔ایک پھونک مار کر محبت جگاتی بھی ہو ۔اپنےسحر میں جکڑ بھی لیتی ہو اور پھر خود ہی اس سحر کو توڑ بھی دیتی ہو۔عورت اپنی تکمیل کی خاطر مرد کی اخلاقی اقدار اور عزت نفس کو داؤ پر لگا دیتی ہے۔اس کی آزادی اور اپنی وارفتگی کا دعوی بھی کرتی ہے لیکن اپنے کردار اور اپنےرویوں سے ان اصولوں کی نفی بھی کرتی ہے
بچہ یہ نہیں جانتا کہ وہ عدم سے سے کیسے وجود میں آیا تھا۔لیکن جس لمحے وہ اپنی پہلی سانس لیتا ہے۔ عورت ایک ہی جست میں فرش سے عرش پر پہنچ جاتی ہے۔وہ فرشتوں سے ہمکلام ہوجاتی ہے۔اس کی روح جس بالیدگی کومحسوس کرتی ہے وہ لافانی ہوتی ہے۔وہ جن جذبوں کا سامنا کرتی ہے،وہ اسے وجود کا جواز بخشتے ہیں۔وہ زندگی کی رمزوں سے آشنائی کا دعوی کر سکتی ہے۔وہ خود کو قوی اور توانا محسوس کرتی ہے۔ عدم سے وجود کا یہ سفر عورت کی تکمیل کا سفر ہے۔لیکن عورت کی یہ تکمیل مرد کی راہ میں حائل ہوجاتی ہے وہ مرد کی زندگی میں کنول کھلا کر اس کی آبیاری کرنا بھول جاتی ہے۔ اور وہ ہمیشہ بہار کی آمد کے انتظار میں اپنی تمناؤں کا ہجوم خاک میں ملاتا رہتا ہے۔وہ زندگی بھر اخلاق، اقدار اور زندگی کی آدرشوں کے ساتھ محاذ آرا رہتا ہے۔ ہمیشہ متانت اور اطمینان کی اس لہر کے لمس سے محروم رہتا ہے جس میں محرومی یا مصلحت کے احساس کی نمی موجود نہ ہو۔
میم سین
تم ابھی معصوم ہو۔ انجان ہو۔ تم وہ دیکھ کر سوچتے ہو جو تمہیں نظر آتا ہے۔ لیکن انسان کا ایک چہرہ وہ ہے جو تم دیکھتے ہو اور دوسرا وہ روحانی جسم ہے جسے ہم محسوس کرتے ہیں۔ عورت کا ظاہر مکمل ہے لیکن اس کی روح ادھوری ہے وہ تلاش میں ہے ،وہ تکمیل کیلئے سرگرداں ہے ۔اس کے اس ادھورے پن کو آپ جبلی بھی کہہ سکتے ہیں اور سماجی بھی۔ہمارا سماج عورت کی پیدائش پر اس کے اندر ایک زخم لگا دیتا ہے اور وہ زخم کسی ناسور کی شکل میں اس کی روح کو بے چین رکھتا ہے۔۔۔۔ کچھ ادھوراپن فطری ہے،جو نسل در نسل اور پشت در پشت چلا آرہا ہے۔اس کی ہنسی کے پیچھے ایک کرب ہوتا ہے ۔وہ کرب،جس کو مرد کبھی محسوس نہیں کرسکتا۔لیکن اس کی تکمیل کا رستہ مرد کے اندر سے ہوکر جاتا ہے۔اس لئے اپنی روحانی اور نفسانی الجھنوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے وہ مرد کی طرف دیکھتی ہے۔عورت ایک بے جان بت کی مانند ہوتی ہے۔ وہ مرد کے ذریئے اس میں جذبات بیدار کرتی ہے۔ اسے احساسات سے بھر دیتی ہے
جاناں تم بھی کمال کرتی ہو!! تم کہتی ہو کہ عورت کا رشتہ مرد کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے وہ مرد کے ذریئے اپنی تکمیل چاہتی ہے ۔ اس کی تکمیل ہوجاتی ہے تواس کی ہراساں روح کو اطمینان نصیب ہوجاتا ہے۔لیکن جاناں! جب وہ مکمل ہوگئی تو۔ بھلا وہ مرد کا ساتھ کیوں چاہے گی ؟جب تکمیل ہوگئی تو مرد کا سہارا کیسا ؟
عورت کی گاڑی کا انجن مرد ہوتا ہے۔ وہ جب تک سانس لیتی رہتی ہے اس کوہواکی ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ جب دھوپ کی تپش سے پریشان ہو جاتی ہے تو اس کو سایے کی ضرورت ہوتی ہی ۔جب تھک کر نڈھال ہوجاتی ہے توایک بچھونے کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ چاہتی ہے کہ مرد اس سے باتیں کرے۔ باتیں نہیں کرسکتا ہے تو اس کی بات توجہ سے سنے۔وہ تو اپنی محرومیوں کا ذکر بھی اسی سے کرنا چاہتی ہے۔وہ اپنی حساسیت اورکمزوریوں کا مداوہ بھی اسی سے چاہتی ہے۔ ۔ وہ تو اپنے پل پل کے لئے اس کی محتاج ہوتی ہے۔۔ ۔وہ موزوں الفاظ کی تلاش میں رہتی ہے جن کا حصول مرد کے قرب کا سبب بنتا ہے ۔ وہ ہمیشہ انجانے فیصلوں کے خوف میں گرفتار رہتی ہے جو کسی بھی وقت اس کی جنت کو کسی آزمائش میں مبتلاکر سکتے ہیں
۔ تم بھی جاناں اپنے فلسفہ کے تحفظ کیلئے کیسی کیسی تاویلیں ڈھونڈتی ہو۔تم بھی نا !!!۔ اگر عورت کی تکمیل ہوسکتی ہے تو مرد کب مکمل ہوتا ہے؟۔ کیا مرد اندھا ہے؟یا بہرہ ہے؟ جو یہ سب نہیں جانتا کی عورت اس کو اتنا چاہتی ہے۔ کیا وہ ہمیشہ یہی نہیں سمجھتا کہ عورت احمدشاہ ابدالی کی طرح اس کی ذات میں آتی ہے اور اینٹ سے اینٹ بجا کر خود کو فاتح منواتی ہے۔ وہ اپنی شخصی محرومیوں کو کو کبھی تسلیم نہیں کرتی ہے ۔ وہ تو حقیقتوں کی ان گہرائیوں سے بھی واقف نہیں ہوتی جو مرد کی روح کو دکھی کرتی ہیں۔وہ ہمیشہ اپنے شک کے رویے سے احساس کمتری کا بیج بوتی ہے۔ وہ مرد کو سہارا تو سمجھتی ہے لیکن کبھی اس کے اندر جھانک کر نہیں دیکھتی ہے۔ وہ مرد کو مکمل نہیں دیکھنا چاہتی ۔ مرد مکمل ہوگیا تو مرد کے پاس اس کیلئے جگہ کہاں ؟ وہ تو اپنے قطعی لہجے کے ساتھ مرد کے گرد ایک حصار بنا کر رکھتی ہے۔عورت جب مرد کو پا لیتی ہے تو وہ ا ساری کھڑکیاں بند کر دیتی ہے ۔ یہاں تک کہ مرد تک آنے والے رستوں اور دروازوں کو بھی۔ وہ تو یہ بھی بھول جاتی ہے کہ گھرکو اگر آگ لگ گئی تو اس کو بجھایا کیسے جائے گا۔
عورت مکمل ہو بھی جائے تو تنہا پرواز کرنے کے قابل نہیں ہوتی ۔وہ تو محبت کرکے بھی مرد کو مظلوم نہیں سمجھتی۔ وہ کبھی مرد کو کمزور نہیں دیکھنا چاہتی۔وہ مرد کو کمزور کرکے اپنی سرشاری کو داؤ پر نہیں لگاسکتی ہے۔اس کی تمنائیں اور خواہشیں اس کیلئے ایک امید کا درجہ رکھتی ہیں اور وہ انہیں اپنا فرض سمجھتے ہوئےان سے وابستہ شخص کو کمزور نہیں کرسکتی۔وہ تو مرد کے سکوت سے بھی ھراساں ہوجاتی ہے۔کہیں کوئی خاموشی کسی طوفان میں نہ ڈھل جائے۔
یہ بھی خوب کہی تم نے جاناں۔ایک پھونک مار کر محبت جگاتی بھی ہو ۔اپنےسحر میں جکڑ بھی لیتی ہو اور پھر خود ہی اس سحر کو توڑ بھی دیتی ہو۔عورت اپنی تکمیل کی خاطر مرد کی اخلاقی اقدار اور عزت نفس کو داؤ پر لگا دیتی ہے۔اس کی آزادی اور اپنی وارفتگی کا دعوی بھی کرتی ہے لیکن اپنے کردار اور اپنےرویوں سے ان اصولوں کی نفی بھی کرتی ہے
بچہ یہ نہیں جانتا کہ وہ عدم سے سے کیسے وجود میں آیا تھا۔لیکن جس لمحے وہ اپنی پہلی سانس لیتا ہے۔ عورت ایک ہی جست میں فرش سے عرش پر پہنچ جاتی ہے۔وہ فرشتوں سے ہمکلام ہوجاتی ہے۔اس کی روح جس بالیدگی کومحسوس کرتی ہے وہ لافانی ہوتی ہے۔وہ جن جذبوں کا سامنا کرتی ہے،وہ اسے وجود کا جواز بخشتے ہیں۔وہ زندگی کی رمزوں سے آشنائی کا دعوی کر سکتی ہے۔وہ خود کو قوی اور توانا محسوس کرتی ہے۔ عدم سے وجود کا یہ سفر عورت کی تکمیل کا سفر ہے۔لیکن عورت کی یہ تکمیل مرد کی راہ میں حائل ہوجاتی ہے وہ مرد کی زندگی میں کنول کھلا کر اس کی آبیاری کرنا بھول جاتی ہے۔ اور وہ ہمیشہ بہار کی آمد کے انتظار میں اپنی تمناؤں کا ہجوم خاک میں ملاتا رہتا ہے۔وہ زندگی بھر اخلاق، اقدار اور زندگی کی آدرشوں کے ساتھ محاذ آرا رہتا ہے۔ ہمیشہ متانت اور اطمینان کی اس لہر کے لمس سے محروم رہتا ہے جس میں محرومی یا مصلحت کے احساس کی نمی موجود نہ ہو۔
میم سین