گائوں میں اگرچہ لوگوں کی اکثریت ہمیشہ سے زراعت سے وابستہ رہی ہے لیکن گائوں میں ترکھان کی اپنی اہمیت ہوتی تھی۔ موچی کی بھی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں ۔ جولاہا ، پنساری، حکیم، لکڑہارا ، سب اپنی اپنی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن جو اہمیت گاؤں کے نائی کو حاصل رہی ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آسکتی ۔ گاؤں میں پیغام رسانی کی ضرورت ہو یا پھر کسی تقریب کیلئے کھانا پکانے کی بات ہو۔ بال بھی وہی بناتا تھا۔ بنانا تو خیر نئی اصطلاح ہے ۔ کاٹتا تھا اور شیو کا کام بھی وہی نبھاتا تھا۔ کسی کے زخم وغیرہ ہوجاتے تو اس کی صفائی اور مرہم پٹی کا فریضہ بھی خوب نبھاتا تھا۔ بلکہ سمجھیں کہ گاؤں کا سرجن وہی ہوا کرتا تھا۔ اس لئے شائد نائی گاؤں کا سب سے کارآمد شخص ہوا کرتا تھا۔
اس کی اہمیت اس دن اور بھی بڑھ جاتی تھی جب بچوں کے ختنے کرنے کیلئے اسے بلوایا جاتا تھا۔ مہمان آتے تھے تھے ۔ دیگیں پکتی تھیں۔ صدقہ اتارا جاتا تھا۔خیرات کی جاتی تھی۔بچے کو تحفے تحائف دیئے جاتے تھے۔لیکن یہ نائی بہت حکمت والے اور دانا ہوتے تھے ۔بہت پرانی بات نہیں ہے ۔ہمارے دیہاتوں اور گائوں وغیرہ میں آج بھی یہ منظر دیکھے جاسکتے ہیں ۔
ختنے کرنے کے بعد نائی ایک آواز لگاتا تھا...سوا لے کے آؤ ( راکھ لاؤ)۔۔۔اور ایک بندہ گھر میں لکڑیوں کے جلتے چولہے سے لکڑیاں ہٹا کر نیچے سے گرم گرم راکھ اکھٹی کرتا اور کچھ ٹھنڈی کرنے کے بعد اسے زخم کے اوپر چھڑک دیا جاتا۔ راکھ ڈلنے سے زخم سے بہنے والا خون کچھ دیر بعد رک جاتا اور راکھ گیلی ہوکر زخم کے ساتھ جڑ جاتی اور جونہی ایک دو دن بعد زخم بہتر ہونا شروع ہوتا تو راکھ خود بخود اترنا شروع ہوجاتی تھی
لیکن آجکل کیا ہوتا ہے
نائی ختنے کرکے آواز لگاتا ہے...سوا لیاؤ ( راکھ لے کر آؤ)...اور ایک بندہ پورے پنڈ کا چکر لگا کرکسی گھر سے دو دن پرانی راکھ لا کر زخم پر ڈال دیتا ہے اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے...بتانے کی ضرورت نہیں
کیونکہ اس کے بعد کئی دن تک اس کے خراب زخم کا علاج کسی قریبی ہسپتال یا کلینک پر ہو رھا ہوتا ہے
میم سین
No comments:
Post a Comment