Sunday, January 22, 2017

ترجیحات کا فرق


بات یہ نہیں ہے کہ ہم خود کو مسلمان نہیں کہلووانا  چاہتے 

اور نہ یہ بات درست ہے کہ ہماری مذہب بیزاری کی وجہُ ملا ہے
وجہ یہ بھی نہیں کہ ہم  اسلام کو سمجھنا نہیں چاہتے 
اور بات یہ بھی درست نہیں کہ ہمیں  اسلامی تشخص پر تحفظات ہیں
بات یہ ہے کہ زندگی کے تقاضے بدل گئی ہیں ترجیہات  بدل گئی ہیں۔جن کی وجہ سے ضروریات بدل گئی ہیں جن کی خاطر مفہوم بدلنے پڑ رہے  ہیں
کیونکہ ہماری زندگیوں میں وہ آواز دم توڑ گئی ہے جو کوہ صفا سے بلند ہوئی تھی
اے جماعت قریش اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، اے بنی کعب اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ
سب ہی کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں۔سب ہی عشق رسول کی بات کرتے ہیں۔ سب کا ہی دعوی ہے کہ قرآن الہامی کتاب ہے۔
لیکن 
مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے کامیابی کے معیار بدل لیئے ہیں
ہماری لگن، جستجو، محنت اس کامیابی کیلئے مختص ہوکر رہ گئے ہیں جو انسان کو سٹیٹس دیتا ہے۔شہرت دیتا ہے۔ دنیا میں مقام دیتا ہے ۔ اچھا گھر، محفوظ مستقبل کے خواب دکھاتا ہے
 جو معیار قرآن نے مقرر کیا تھا وہ اب بدل چکا ہے 
 جو جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں
 ہماری جستجو کی دوڑ اور ترقی کیلئے استدلال اونچی عمارتیں اور پرتعیش زندگی رہ گئے ہے جس کے بارے میں قرآن نے کہا تھا
دنیا کے شہروں میں اللہ کے نافرمان لوگوں کا خوش حالی سے چلنا پھرنا تمہیں ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے یہ تو تھوڑا سا لطف اور مزہ ہے جو یہ لوگ اڑا رہے ہیں پھر انکا ٹھکانہ جہنم ہے جو رہنے کی بدترین جگہ ہے 
بات چھوٹی سی ہے لیکن بات سمجھنے کی ہے وہ بھی ٹھنڈے دل سے
جب کامیابی کے معیار ہی بدل گئے تو پھر اس کی ضرورتیں اور تقاضے بھی بدل جائیں گے۔ پھر ہم نئی توجیحات اخذ کریں گے، ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے
صفائیاں پیش کریں گے اس معیار پر پورا اترنے کیلئے
جب نئی توجیہات سامنے آئیں گی تو مفہوم بدلیں گے ۔جب صفائیاں پیش ہونگی تو حسرتیں بدلیں گی ۔انفرادی خواہشات اور ارادے تکمیل چاہیں گے اور ہم غیرارادی طور پرراہ راست سے دور ہوتے چلے جائیں گے 
جب معیار ہی بدل گئے تو پھر گمراہی کا احساس کیسا ؟
طلب کیسی کہ
راہ نجات کونسی سی ہے؟ اور راہ حیات کہاں سے شروع ہوتی ہے؟

میم سین

No comments:

Post a Comment