چند سال پہلے امریکہ میں ایک کسان کے حوالے ایک کیس بہت مشہور ہوا تھا جو اپنے بچے کو گائے کا کچہ دودھ پلانا چاہ رھا تھا لیکن صحت کے اداروں نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا تھا کہ بچے کی صحت کے ساتھ کوئی نہیں کھیل سکتا خواہ وہ اس کے والدین ہی کیوں نہ ہوں
ایسے ہی چند سال پہلے فرانس میں کھلونے بنانے والے ایک ادارے نے ان کے ایک کھلونے کی کاپی بنانے پر دوسرے ادارے پر کیس کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کا نہیں کیا تھا بلکہ اس پرلکھے پانچ سے بارہ سال کی بجائے دو سے بارہ سال کے بچوں کیلئے لکھنے پر کیا تھا کہ یہ چھوٹے بچوں کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ قانون کی نظر میں بچوں کی صحت سے کھیلنا بڑا جرم ہے۔
مغرب میں عوام کی صحت کے بارے میں حکومتی فکر اور اقدامات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔جتنے سخت قوانین صحت کے حوالے سے موجود ہیں شائد ہی کسی اور شعبے کے متعلق ہوں۔غیر معیاری خوارک ہو یا مضرصحت اجناس اس پر کسی رعائیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارے لیئے مغرب کی صحت کے معاملے میں اتنی فکر سمجھنا مشکل کام ہے ۔ چند دن پہلے ایک دودھ پیک کرنے والی کمپنی کو انسانی جانوں سے کھیلنے پر دس لاکھ روپے جرمانہ کرکے کے سپریم کورٹ نے پوری قوم کے منہ پر جوطمانچہ مارا ہے۔ اس کے بعد ہمیں صحت کے بارے میں مغرب کی ہر بے چینی میں کوئی سازش ہی نظر آئی گی۔اور آئل و گھی اور منرل واٹرکی کوالٹی کے حوالے سے آنے والی تشویش ناک رپورٹ ویسے ہی منظر نامے سے ہٹا دی گئی ہے۔ورنہ ہماری صحت کے بارے میں بے حسی کو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے
۔
یہ ساری تمہید میں نے باندھی ہے پولیو ویکسین کے حوالے سے کہ ہمارے ہاں آج بھی پولیو ویکسین کے حوالے سے نہ صرف کنفیوژن پائی جاتی ہے بلکہ پھیلائی بھی جاتی ہے اور آئے دن بہت سے سازشی نظریات کوجنم دیا جاتا ہے
لوگوں کے اس مہم کے بارے میں بہت سے تحفظات ہیں
جیسے آخر مغرب کو ہمارے ملک سے پولیو کے خاتمے میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟
اربوں روپے وہ صرف پولیو کے خاتمے کیلئے خرچ کر رہے ہیں جبکہ یہاں کروڑوں لوگ بھوک اور غربت سے متاثر ہیں
انتظامیہ کی طرف سے پولیس کا استعمال اور سختی اس مہم کو مشکوک بنا رہی ہے
چلیں ایک نظر اس مہم پر ڈال لیں تو شائد بہت سے سوالوں کے جواب خود ہی مل جائیں
پولیو کا وائرس انسانی جسم سے باہر زندہ نہیں رہ سکتا اور اگر اس وائرس کو رہنے کو کوئی جسم نہیں ملے گا تو وہ خود ہی اپنے موت مر جائے گا اس حقیقت کو لیکر پولیو کے خاتمے کیلئے مہم کا آغاز 1988 میں شروع کی گئی تھی اس وقت ہر سال ساڑھے تین لاکھ افراد وائرس سے متاثر ہوجایا کرتے تھے لیکن اگلے بیس سالوں میں لگ بھگ دنیا کے تین چوتھائی ممالک سے اس وائرس کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ 2016 میں صرف 37 کیس رپورٹ ہوئے جن میں سے 20 پاکستان سے تھے۔ 2015 میں 74 کیس رپورٹ ہوئے تھے جن میں سے 54 پاکستان سے تھے۔ 2013میں 416 اور دو ہزار بارہ میں 223کیس رپورٹ ہوئے اور ان میں سےبھی بیشتر مریضوں کا تعلق پاکستان سے تھا
ہم سے کئی گنا بڑا اور مسائل میں الجھا بھارت بھی بہتر منصوبہ بندی کی بدولت دوہزار چودہ میں پولیو فری ملک قرار پا چکا ہے ۔لیکن اربوں ڈالر خرچ کرکے بھی پاکستان پولیو کے دوبارہ پھیلاؤ کیلئے دنیا کا سب سے خطرہ بنا ہوا ہے
دوہزار پانچ میں امریکہ میں پولیو کے کیس کی موجودگی نے صحت کے اداروں کیلئے الارم بجا دیا تھا جس کے بعد اس پروگرام کو پہلے سے زیادہ متحرک کر دیا گیا اور یہی وہ خوف ہے جو مغرب کو پاکستان پر اتنی زیادہ توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کررھاہے کہ کہیں پولیو واپس نہ لوٹ آئے
کیونکہ جب تک دنیا سے پولیو کا خاتمہ نہیں ہوگا تب تک یہ مغرب کے حواسوں پر خوف بن کر چمٹا رہے گا۔
کیونکہ جب تک دنیا سے پولیو کا خاتمہ نہیں ہوگا تب تک یہ مغرب کے حواسوں پر خوف بن کر چمٹا رہے گا۔
ان مختصر سے اعداد وشمار سے اندازہ ہوجانا چاہیئے کہ پولیو کی اس مہم پر اربوں روپے کیوں خرچ ہورہے ہیں اور انتظامیہ اس معاملے میں بیرونی دباؤ کیوں برداشت نہیں کر پا رہی
یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ پولیو ویکسین کے حوالے سے جن تحفظات کا اکثر انٹر نیٹ کے صفحات کے حوالے سے ذکر کیا جاتا ہے وہ تحفظات لگ بھگ ہر ویکسین کے ساتھ پایا جاتا ہے۔
ہاں جن تحفظات کا ذکر ہونا چاہیئے جن پر سوال اٹھنے چاہییں وہ
ویکسین کی کوالٹی کی یقین دھانی
ایک بچے کے کورس کو مکمل کرنے کے باوجود اسے بار بار قطرے پلانے سے متعلق خدشات کے بارے میں یقین دھانی
فیکٹری سے بچے کو پلانے تک ویکسین کی کولڈ چین کو محفوظ بنانا
ویکسین پلانے والےورکرز کی مکمل تربیت اور ان کی ذمہ داریوں سے آگاہی اور ان کی ڈیوٹی کے دوران پائی جانے والی کوتاہیوں سے نبٹنا
میم سین
میم سین
No comments:
Post a Comment