سولہویں صدی کے بعد تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ایک طرف یورپ بیداری کیلئے کروٹ لے رھا تھا . اور دوسری طرف امریکہ کی دریافت کے بعد ایک نیا معاشرہ جنم لے رھا تھا جس کی بنیاد صاحب ثروت لوگ، چور اچکے ،مجرم اور مہم جو افراد رکھ رہے تھےجس کی اساس فرد واحد کی بجائےاداروں پر تھی۔
ایک علم ہوتا ہے جو ہم کتابوں سے ڈھونڈتے ہیں۔ دوسرا علم ہم استاد سے حاصل کرتے ہیں ۔لیکن ایک تیسرا علم ایسا بھی ہے جو ہم سفر سے حاصل کرتے ہیں۔ لوگوں سے مل کر حاصل کرتے ہیں اور وہ علم بہت بہتر اور تیار حالت میں ہوتا جن سے نتائج اخذ کرنا آسان ہوتا ہے ۔اور امریکی معاشرے کی بنیاد ایسے ہی مہم جو افراد نے رکھی تھی ۔جن کے پاس دنیا گھوم پھر کر تجربہ بھی تھا اور وژن بھی
ایشیا کے بیشتر ممالک اپنی ضروریات کیلئے چونکہ کسی کے محتاج نہیں تھے اس لیئے وہ تیزی سے ہونے والی دنیا کی سیاسی اور فکری تبدیلی سے بے خبر رہے اور نتیجہ نوآبادیاتی نظام کا حصہ بننے کی صورت میں نکلا۔
تیسری طرف یورپ تھا جو چرچ کی گرفت میں تھا جب یورپ میں چرچ کے اثرورسوخ کو کم کرنے کی کوششیں شروع کی گئیں تو ان شعبوں کو چلانے کا مسئلہ سامنے آیا جن کی ذمہ داری چرچ نے سنبھال رکھی تھی۔ ان شعبوں کو چلانے کیلئے ادارے بنائے گئے ۔ وقت کے ساتھ ادارے مضبوط ہوتے گئے ۔اختیارات فرد کےہاتھوں سے نکل کر اداروں کو منتقل ہوتے گئے اور ایک وقت ایسا آیا ہے کہ ریاستوں کا مکمل انتظام ان اداروں نے سنبھال لیا اورفرد کی اہمیت علامتی رہ گئی۔ریاستوں کا انتظام اداروں کے ہاتھ میں جانے کے بعد ایک تو انصاف کی فراہمی ممکن ہوئی دوسرا مساوات نے عملی شکل اختیار کرنا شروع کی۔اور انصاف اور مساوات دو ایسے خواص ہیں جو کسی بھی فلاحی معاشرے کی لیئے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔ اور یوں ان اداروں کے سہارے یورپ اپنے ڈارک ایجز سے نکل کر دنیا کے سامنے ایک مستحکم پوزیشن میں سامنے آیا۔ اتنا مستحکم کہ دو عظیم جنگیں اور شدید ترین کساد بازاری اور معاشی بحرانوں کے باوجود دنیا کی حکمرانی سے یورپ کے قدم نہیں اکھڑے. کیونکہ یہ سب ان اداروں کی مرہون منت تھا جو یورپ نے مستحکم کر لیے تھے۔ انصاف کا نظام ہو یا پھر پارلیمنٹ کی بالادستی، تعلیم کا شعبہ ہو یا پھر صحت کا میدان یہ وہ شعبے ہیں جنہیں ہمارے ہاں سب سے سے زیادہ نظر انداز کیا جاتاہے.لیکن مغرب نے ان کو خصوصی توجہ کا مرکز بنایا۔ ان اداروں نے یورپ کو اندھیروں سے نکالااور ایک نئی روح پھونکی۔ ابن خلدون کی عصبیت کی مجسم شکل یورپ کے وہ ممالک نظر آئے جو پانچ پانچ سو سال اسی "قومیت" کے چکر میں حالت جنگ میں رہے تھے لیکن جب ادارے مضبوط کر لیے تو پھر تمام تر اختلافات بھلا کر معاشی و معاشرتی ترقی پر اپنی توجہ مبذول کرلی اور ان اداروں نے لوگوں کو نا صرف ترقی دی بلکہ شعور دیااوروہ مجموعی قومی عرفان بھی جس سے آج ہمارہ معاشرہ یکسر محروم نظر آتا ہے
یہ ایک لمبی بحث ہوجائے گی کہ مغرب کے عروج کے پیچھے اور کون کون سے عوامل کارفرما تھے لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ ان سب عوامل نے اداروں کو ہی استحکام بخشا اورآج مغرب جس مقام پر کھڑا نظر آتاہے وہ ان ہی اداروں کی مرہون منت ہے ۔اور آج جس قوم نے بھی اداروں کے سہارے ملک چلانے کی کوشش کی ہے وہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں نظر آئیں گے۔ دبئی سمیت ایشیا کے کئی ممالک کا نام لیا جاسکتا ہے ۔
لیکن جب میں ملک عزیز میں انتہائے تضادات کی نئی نئی راہیں دیکھتا ہوں ۔اور فریب ہنر بنا کر کیسے کیسے شعور سینوں میں اتارے جا رھے ہیں ۔تو میری سمجھ میں آتا کہ ہمارا علم بے کار کیوں ہوجاتا ہے ہماری تہذیب بے بسی کی تصویر کیوں بنی دکھائی دیتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ علم سے انسان میں صرف بھلائی کا بیج جنم لیتا ہے۔لیکن جو علم مرعوبیت کے سائے میں حاصل ہو وہ بھلائی سے زیادہ شر پھیلاتا ہے ۔ ایساباخبر شخص زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔اس میں ایک لچک آجاتی ہے ۔وہ نفع اور نقصان کو بہتر طور پر جذب کرسکتا ہے ۔وہ اگر اچھائی کو اپنانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو بدی کو بھی یکساں جذب کرتا ہے۔ دوسری طرف انسان میں نیکی اور محبت کی تلقین عام ہے لیکن عملی طور پر انسانی رویہ مختلف ہے۔ اور نصیحت اور عمل کا یہی تضاد ہمہ گیر مذہبی سچائی کو بھی مشکوک بنا دیتی ہے۔جب مذہب مشکوک ٹھہرا تو تو پھر ذاتی آدرشوں کو زندگی کا عرفان ٹھہرایا جانے لگتا ہے۔ اور یوں مرعوبیت کا شکارافراد نے ترقی کی راہ میں حائل سب سے پہلا الزام مذہب پر لگایا۔
مذہب سے نکلے تو عورت کے حقوق کو آزادی کے راہ میں رکاوٹ پایا۔ عورت کی آزادی کا مسئلہ۔ حجاب کا مسئلہ ،عورت کی ڈرائیونگ کا مسئلہ ۔عورت۔عورت عورت ۔ترقی کی طرف اٹھنے والا ہر قدم عورت کی شخصی مجبوریوں سے شروع ہوکر ہوکر عورت کی جنسی محرومیوں سے نکلنے لگا۔
علم میں غرق اور مذہب سے دورشخص نفع و نقصان کے معیار اپنی سوچ کے مطابق بناتا ہے۔نفع و نقصان کے یہ ترازو خواہشات پر مبنی ہوتے ہیں جن کا دائرہ تکمیل ذات سے آگے نہیں بڑھتا۔ ہمارا شعور ،ہمارا ادراک مغرب کی ترقی سے متاثر تو ضرور ہوا ہے لیکن اس کے اسباب ڈھونڈ نکالنے کے لیئے جو معیار ترتیب دیئے ہیں وہ اس کے ذاتی عرفان کے تابع ہیں ۔اور ذاتی عرفان کے تابع معیار ذاتی تو ہو سکتے ہیں، معاشرتی یا اجتماعی نہیں۔ ریاستوں اور معاشروں کے معاملات اجتماعی نوعیت کے حامل ہوتے ہیں اور اجتماعی دانش وعمل کے متقاضی بھی اور مذہب کی ضد میں بنائے گئے ذاتی نفع و نقصان کو ناپتے تولتے معیارات کس حد تک کسی قوم یا معاشرہ کے لیے سود مند ہو سکتے ہیں ہماری موجودہ بدحالی کو دیکھتے ہوئے اس کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں
میم سین
No comments:
Post a Comment