Monday, February 26, 2018

تاریخ کے جھروکوں سے


چلیں آپ کو ایک کہانی سناتے ہیں ایک بادشاہ کی ۔ بادشاہ بھی ہندستان کا یعنی میرا  آپ کا سب کا بادشاہ۔
 نام تھا اس کا علاؤالدین خلجی ۔ ارے نہیں یہ بالی وڈ کی باتوں میں آکر پہلے ہی منہ نہ بنالیں ۔میں اس کی کسی ملکہ یا غلام کی کہانی نہیں سنانے جا رھا۔بلکہ بادشاہ کی  زندگی کا ایک واقعہ بیان کرنے جا رھا ہوں  ۔علائوالدین  ایک ان پڑھ حکمران تھا جس نے بیس سال تک ہندستان کے ایک وسیع علاقے پر حکومت کی۔انتظامی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے حروف  پہچاننا  سیکھ لیئے جس سے تحریر کا مدعا سمجھ جاتا تھا ۔ 
ہندستان پر مسلمان حکمرانوں کی تاریخ اگر کھولی جائے تو صرف تین یا چار حکمران  نظروں سے گزریں گے جن کو آپ مضبوط حکمران قرار دے سکتے ہیں۔ان میں سے ایک علائوالدین کا دور بھی تھا۔ اس کا عہد انتظامی حوالے سے بہترین عہد سمجھا جاتا ہے۔اگرچہ کچھ لوگ اس کی سفاکی اور ظلم کے واقعات بہت بڑھا چرھا کر پیش کرتے ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ ہندستان کو ایسے اعلی منتظم کم کم ہی نصیب ہوئے ہیں۔جس کے فیصلوں اور طرز حکومت سے ایک عام آدمی کو بھی کچھ فائدہ مل سکا تھا۔
ہاں تو بات ہورہی تھی بادشاہ کی ۔بادشاہ قسمت کا کچھ ایسا دھنی ثابت ہوا کہ جو مہم شروع کرتا  وہ کامیاب ہوجاتی ۔ ایک طرف فتوھات اور دوسری طرف کسی میں بغاوت کی جرات نہ ہوئی ۔کچھ امرا ایسے میسر آئے کہ وہ بادشاہ  سے  وفاداری کی اپنی مثال آپ تھے ۔  

جب بادشاہ اپنی غیر معمولی اور مسلسل فتوحات کے نشے میں تھا۔منگول حملہ آوروں کا قلع قمع کر چکا تھا ۔ملک میں غلے اور سامان معیشت کی فراوانی تھی ۔ملک کا انتظام اس قدر مضبوط ہوچکا تھا کہ سلطنت کے راستے اور شہر گڈ گورنس کی بہترین مثال پیش کررہے تھے تو ایسے میں بادشاہ کو خیال آیا کہ قسمت اتنی مہربان ہے تو کیوں نہ سکندر کی طرح پوری دنیا کو فتح کرنے نکلوں یا پھر کچھ ایسا کام کروں کہ میرا نام قیامت تک رہے۔
اس کے چار بہت معتمد ساتھی تھے جن کو وہ چار یار کہا کرتا تھا ان کی مدد سے پہلے نئی شریعت جاری کرنے کا سوچا۔پھر  دنیا کو فتح کرنے کا خبط ذہن پر سوار ہوگیا تھا۔بلکہ مسلسل فتوحات کے بعد سکندر ثانی کا لقب اختیار کرلیا اورناصرف جمعہ کے خطبوں میں  یہ لقب بولا جانے لگا بلکہ سکوں پر بھی کھدوا دیا گیا۔ بادشاہ کے غیص و غضب سے ڈرنے والے درباریوں نے بھی ہاں میں ہاں ملا کر بادشاہ کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچا رکھا تھا۔ ایسے میں ایک دن کوتوال دھلی علاؤالدین علاؤلملک ملنے کیلئے آیا۔ بادشاہ اس کی بڑی قدر کرتا تھا اسلئے  اپنے دونوں منصوبوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے بادشاہ کے چاروں یاروں کے علاوہ سب کو محفل سے اٹھوا دیا شراب کی بوتلیں بھی ہٹا دی گئیں اور بادشاہ کو جو دلائل دیئے وہ سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہیں اور بادشاہ جیسا بھی تھا جہاندیدہ تھا اور باتیں سمجھ میں آگئیں۔
جب نئی شریعت نافذ کرنے کے بارے میں سوال کیا تو علائوالدین گویا ہوا
شریعت کا تعلق وحی آسمانی سے ہوتا ہے اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکی ہے اور یہ بات سب خاص و عام کو پتا ہے ۔اگر آپ ایسا کوئی سلسلہ شروع کرنے کی کوشش کریں گے تو فساد اور بدنظمی ہوگی۔چنگیز خان اور اس کی اولادکی اسلام دشمنی ایک مثال ہے۔ انہوں نے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا لیکن وہ اسلام کی روشنی کو ختم نہ کر پائے بلکہ ان کی اولاد مسلمان ہوگئی اور کفار سے جنگ بھی کی 
بادشاہ علاالملک کے جواب سے خاصا مطمئن ہوا اور دنیا کو فتح کرنے کے ارادے کے بارے میں مشورہ طلب کیا تو جواب ملا
بادشاہ سلامت پہلے تو یہ سوچیں کہ کس کو دھلی کی حکومت سونپ کر جائیں گے جو آپ کی عدم موجودگی میں سلطنت کا انتظام بھی سنبھالے اور آپ کی واپسی پر حکومت بھی آپ کے حوالے کر دے۔اور سکندر کے زمانے میں تو بغاوتوں کی مثال شاذ ونادر ہی ملتی تھی اور آج تو حالات ہی مختلف ہیں۔سکندر کے پاس ارسطو جیسا وزیر باتدبیر تھا جس نے نہ صرف سکندر کی عدم موجودگی میں انتظام سنبھالا بلکہ سکندر کی واپسی پر محفوظ حکومت واپس بھی کر دی ۔اگر بادشاہ کو اپنے امرا پر اس قدر اعتماد ہے تو ضرور اپنے ارادے پر عمل کریں ۔بادشاہ مشورہ ماننے میں کچھ ہچکچاہٹ کا شکار ہوا اور پوچھا کہ پھر میرا یہ ساز وسامان ہاتھی گھوڑے لاؤلشکر کس کام کا؟ تو علاؤلملک نے توجہ ہندستان کی بہت سے مہمات کی طرف دلوائی کہ وہاں بہت ساز وسامان درکار ہوگا بہت توانائی اور پیسے کی ضرورت ہوگی اگر آپ وہی مہمات مکمل کرلیں تو آپ کا نام رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا ۔ بادشاہ نے علاءالملک کو بہت سے انعام اکرام سے نوازا اور اپنے دونوں ارادے ترک کردیئے ۔
 علاؤالدین خلجی ایک جہاندیدہ بادشاہ تھا ۔ جب منگولوں کا ایک سپہ سالار دھلی پر چڑھ دوڑا تھا توعلاالملک نے لڑائی سے بچنے کا مشورہ دیا تھا لیکن بادشاہ نے اس مشورے کو رد کرکے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا اور تاریخ نے بادشاہ کے اس فیصلے کو درست قرار دیا 

No comments:

Post a Comment