چلیں آج پھر ایک بادشاہ کی کہانی سناتے ہیں ۔جس کے عروج وزوال کو دیکھتے ہوئے سیکھنے والوں کیلئے بڑی نصیحت ہے۔
یہ انیس سو انیس کی بات ہے افغانستان پر امیر حبیب اللہ کی حکومت تھی ایک دن اس کو کسی نے سوتے میں قتل کردیا ۔جس کا فائدہ اٹھا کر سردار نصراللہ نے اپنی حکومت کا اعلان کر دیا۔ ان دنوں کابل کا گورنر امان اللہ تھا۔اس نے ہمت دکھائی اور تخت پر قبضہ کرکے بادشاہت کا اعلان کردیا۔
امان اللہ چونکہ روس کے بہت قریب تھا اس لیئے شہ پا کر برطانوی انڈیا پر حملہ کردیا۔ پہلی جنگ عظیم کی وجہ ایک تو برطانوی حکومت پہلے ہی کافی کمزور تھی اور کچھ انڈیا کے حالات بھی کروٹ کھا رہے تھے اس لیئے زیادہ مزاحمت نہ کرسکے اور افغانستان سے صلح پر مجبور ہوگئی ۔جس کے بعد کابل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے سٹک اینڈ کیرٹ والی پالیسی کا آغاز ہوا۔
امان اللہ ایک انتہائی آزاد خیال انسان تھا اور ملک کو مغربی طرز پر چلانے کا ارادہ رکھتا تھا۔کافی آزاد خیال پالیسیوں پر گامزن ہوا۔ نہ صرف طرز حکومت بلکہ مغربی کلچر بھی نافذ کرنے پر تلا ہوا تھا۔ملک میں امن امان بحال ہوا تو امان اللہ نے ملکہ کے ساتھ یورپ کا قصد کیا۔ انڈین گورنمنٹ کیلئے کیرٹ پالیسی کیلئے اس سے بہتر کوئی موقع نہیں ہوسکتا تھا۔فوری طور پر لاہور میں ریل کے چار سپیشل ڈبے تیار کرکے چمن پہنچائے گئے۔جہاں سے بادشاہ سلامت اپنی فیملی کے ہمراہ کراچی پہنچے اور کراچی سے فرانس کی بندرگاہ مارسیلز پہنچے۔ماسیلز پہنچنے پر امان اللہ کا استقبال فرانسیسی صدر نے اپنی کابینہ کے ساتھ بھرپور انداز میں کیا اور ملکہ ثریا بھی مغربی لباس میں داد تحسین وصول کرتی رہیں ۔بادشاہ کو نپولین کے بستر پر سونے کا اعزا بخشا گیا۔ اس کے بعد جس شہر بھی گیا بھرپور استقبال کیا گیا ۔بہت سے شہروں کی اعزازی چابیاں حوالے کی گئیں۔فرانس کا دورہ مکمل کرکے برطانیہ پہنچے تو کنگ جارج بمع اپنی ملکہ استقبال کیلئے واٹرلو کے اسٹیشن پر موجود تھا۔تین دن شاہی مہمان رہے اس کے بعد ایک ہفتہ سرکاری مہمان ۔برطانیہ سے بلجیئم کے دورے کا ارادہ تھا اور اندازہ یہی تھا کہ بلجیم کا دورہ مکمل کرکے واپسی کا سفر شروع کریں گے۔ لیکن ابھی برطانیہ میں ہی تھے کہ بادشاہ سلامت نے اعلان کردیا کیا بلجیم کے بعد وہ روس کا دورہ بھی کریں گے۔حکومت برطانیہ نے اپنے نمائیندو ں کے ذریئے اشاروں کنایوں میں سمجھانے کی کوشش کی کہ عالی جاہ بندے بن جاؤ۔ یہ ساری شان شوکت جو آپ کو دی ہے وہ روس سے دور رکھنے کیلئے ہی دی تھی لیکن بادشاہ پھر بادشاہ ہوتا ہے اورمرضی کا مالک ۔ اور اپنی ضد پر اڑا رھا اور روس کا دورہ کرکے ہی واپس گیا۔
اب کیرٹ والا معاملہ توہوگیا تھا ختم اور اب شروع ہونی تھی کہانی سٹک والی
لارنس آف عریبیہ کے نام سے کون واقف نہیں ۔ جس نے ترکوں کے خلاف عربوں کو اکسایا اور خلافت سے نکال کر اپنی حکومت قائم کرنے میں مدد کی ۔ ترکی کا عربوں سے رابطہ ہجاز ٹرین کے ذریعے تھا ۔اور اس ٹریں کی پٹری کو نقصان پہنچانے کیلئے لارنس نے جس حکمت عملی پر عمل کیا وہ کسی ہالی وڈ کی فلم کی کہانی سے مختلف نہیں۔ لیکن یہاں ہم لارنس کا عرب مشن نہیں سنائیں گے بلکہ آپ کو افغانستان لیئے چلتے ہیں
سٹک پالیسی پر عمل کرنےکیلئے لارنس آف عریبیہ کی خدمات لی گئیں اورایک بزرگ کا روپ دھار کر پشتو سیکھی ۔عربی پر پہلے ہی کمال حاصل تھااور جگہ جگہ وعظ دینا شروع کر دیا ۔جلد ہی ایک نیک بزرگ کی حیثیت سے افغان لوگوں میں اپنا نام بنالیا۔ اس کے معجزوں نے جلد ہی لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔جب اپنے معتقدین کا ایک اچھا حلقہ قائم ہوگیا تو اس کے بعد اس نے امان اللہ کے خلاف وہی کام شروع کیا جو آئی جے آئی نے اٹھاسی کے الیکشن میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا تھا۔اور نوائے وقت اخبار نے رعنا لیاقت علی کے خلاف مہم چلائی تھی۔ یورپ کے دورے کی ملکہ کے مغربی لباس میں ملبوس، غیر ملکیوں سے ہاتھ ملانے کی تصویریں اور ایکٹرسز کی تصویروں کو ملکہ کی تصویر کے ساتھ ملا کر بنائی گئی تصویریں عوام میں تقسیم کی گئیں۔ اور بادشاہ کے بارے میں زوردار پرپیگنڈہ کیا گیا کہ روس جا کر کافر ہوگیا ہے۔ اور اب الحاد کو ملک میں نافذ کرنے کے درپر ہے۔اور یوں بادشاہ کے خلاف نفرت کی ایک ایسی فضا بنا دی گئی کہ اسے عوامی حمایت سے یکسر محروم ہونا پڑ گیا
ایسے حالات میں ایک سابقہ افغان فوجی نظام سقہ نے انگریزوں کے تعاون سے شہروں میں ماڑ دھاڑ شروع کردی اور جلد ہی اپنا اثر و رسوخ قائم کرلیا۔اور پھر ایک اور ڈاکو سید حسین کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک رات سرکاری محل پر حملہ کردیا۔اب یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ سب کچھ کیسے ممکن ہوگیا ہے لیکن امان اللہ کو محل سے فرار ہونا پڑا اور نظام سقہ کابل کے تخت پر قابض ہوگیا۔ امان اللہ اپنی فیملی کے ہمراہ چھپتا چھپاتا چمن پہنچا۔وہی چمن جہاں سے چند سال پہلے انتہائی لگزری ڈبوں میں اور سرکاری پروٹوکول میں کراچی کیلئے روانہ ہوا تھا اب بے یارومددگار عام مسافروں کے ساتھ بیٹھ کر بمبئی پہنچا اور اور پھر وہاں سے نکل کر باقی عمر اٹلی گزارنے پر مجبور ہوگیا۔
No comments:
Post a Comment