یہ ان دنوں کی بات ہے جب سبزی فروشوں نے پرائیویٹ سیکورٹی رکھنا شروع کر دی تھی
جب ٹماٹر کے کاشکاروں نے کھیتوں کے اردگرد خاردار تار بجھا کر کرنٹ چھوڑ رکھا تھا
یہ ان دنوں کی بات ہے جب جہیز کی فہرست میں لوگوں نے ٹماٹروں کو سرفہرست رکھنا شروع کردیا تھا
جب ڈاکو گھروں میں گھس کر لوٹ مار کرنے سے پہلے گھر کے کچن میں ٹماٹروں کو تلاش کیا کرتے تھے
یہ ان دنوں کی بات ہے جب نوجوان اپنی پہلی تنخواہ سے ٹماٹر خرید کر والدین کو گفٹ کرنے کے خواب دیکھا کرتے تھے
جب خاوند ناراض بیویوں کو منانے کیلئے دفتروں سے گھر کا رخ کرنے سے پہلے ٹماٹر خریدنے کیلئے منڈی کو نکل جایا کرتے تھے
یہ ان دنوں کی بات ہے جب سبزی کی دکان پر کھڑے ہوکر ٹماٹروں کو دیکھ کر لوگ سرد آہیں بھرا کرتے تھے
جب لڑکے آسمان سے تاڑے توڑ کر لانے کا وعدہ کرنے کی بجائے ٹماٹر لا کر دینےکی آس دلا کر لڑکیاں پھنسایا کرتے تھے
یہ ان دنوں کی بات ہے
جب ہم نے دوبارہ ٹماٹر اگانے کا فیصلہ کیا۔
جہاں ہمارے اس فیصلے پر گردونواح میں خوشی کی شدید لہر دوڑ گئی وہیں اس فیصلے سے ہمارے ضمیر نے ہمیں تھپکی دے کر بتایا کہ اس قوم کا اگر کوئی مسیحا ہے تو وہ صرف تم ہی ہو۔ ہم جو مصیبت کی ہر گھڑی میں، مشکل کی ہر دوڑ میں اس قوم کے مسائل کے سامنے سینہ سپر ہوئے ہیں تو اس بہادری عزم صمیم اور لازوال قربانیوں نے ہمیں یہ رتبہ عظیم بخشا کہ ہم اس قوم کی مسیحائی کرسکیں۔
لہذا ہم صبح تہجد کے وقت اٹھے اس قوم کے گناہوں کی معافی مانگی۔ اوزار سنبھالے، بیج لیےاکیلے ہی جانب منزل گامزن ہوئے۔
منزل مقصود پر پہنچ کر ہم نے زمین کے ساتھ مختصر خطاب کیا جس میں اسے بتایا گیا کہ اس کی ذمہ داری کیا ہے اور ہماری اس سے کیا توقعات ہیں۔پانی دے کر زمین کی صدیوں کی پیاس بجھائی۔ بیج ڈال کر اسے معتبر کردیا اور مٹی اور کھاد کے ساتھ زمین کی آبیاری کی۔
پھر کسی پریمی کی طرح ان کے گرد منڈالتے کئی ہفتے گزار دیئے۔ کبھی چھپ چھپ کر اور کبھی سامنے آکر دیکھتے رہے۔مستقبل کا خوف دل میں چھپائے۔اردگرد پھیلی ناکامیوں کے درمیان امید کے دیئے کو بجھنے سے بچانے کی جستجو میں لگے رہے ۔مجھے معلوم ہے بدھ نے ایک درخت کے نیچے نروان کا گیان پایا تھا ۔اب میری آتما بھی شانتی کی تلاش میں تھی اور مجھے محسوس ہوتا تھا کہ ٹماٹروں کے یہ ننھے ننھے پودے میرے لیئے نروان کا سندیسہ لانے والے ہیں
ایک دیہاتی صبح یہ اطلاع ملی کہ ہماری تپسیا رنگ لائی ہے اور ہمارے لگائے پودوں کی گود بھرنے لگیں ہیں۔ پھول کھلنے لگے اور پھولوں سے پھل بننے لگا تو ٹہنیاں جھکنے لگیں۔ سبز ٹماٹر محنت کے سرخ رنگ کو پانے کے قریب پہنچ گیا۔ گویا ہماری زندگی میں سرخ انقلاب کا زمانہ آنے ہی والا ہے۔
ہم سوچتے ہیں یہ قوم کیسے احسان مند ہوسکتی ہے ہماری۔
لیکن یہ سوچ کر درگزر کردیتے ہیں کہ ناداں ہیں سمجھ جائیں گے۔ کبھی تو قدردان ہوں گے ہمارے۔
تب تک ہم ٹماٹروں کے اترنے کا انتظار کرتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment