Sunday, March 18, 2018

ایک لازوال داستان


یہ ان دنوں کی بات ہے جب  سبزی فروشوں نے پرائیویٹ سیکورٹی رکھنا شروع کر دی تھی

جب ٹماٹر کے کاشکاروں نے کھیتوں کے اردگرد خاردار تار بجھا کر کرنٹ چھوڑ رکھا تھا

یہ ان دنوں کی بات ہے جب جہیز کی فہرست میں لوگوں نے  ٹماٹروں کو سرفہرست رکھنا شروع کردیا تھا

جب ڈاکو گھروں میں گھس کر لوٹ مار کرنے سے پہلے گھر کے کچن میں ٹماٹروں کو تلاش کیا کرتے تھے

یہ ان دنوں کی بات ہے جب نوجوان اپنی پہلی تنخواہ سے ٹماٹر خرید کر والدین کو گفٹ کرنے کے خواب دیکھا کرتے تھے

جب خاوند ناراض بیویوں کو منانے کیلئے دفتروں سے گھر کا رخ  کرنے سے پہلے  ٹماٹر خریدنے کیلئے منڈی کو نکل جایا کرتے تھے

یہ ان دنوں کی بات ہے جب سبزی کی دکان پر کھڑے ہوکر ٹماٹروں کو دیکھ کر لوگ سرد آہیں  بھرا کرتے تھے

جب لڑکے آسمان سے تاڑے توڑ کر لانے کا وعدہ  کرنے کی بجائے  ٹماٹر لا کر دینےکی آس  دلا کر لڑکیاں پھنسایا کرتے تھے

یہ ان دنوں کی بات ہے

جب ہم نے دوبارہ ٹماٹر اگانے کا فیصلہ کیا۔

جہاں ہمارے اس فیصلے پر گردونواح میں خوشی کی شدید لہر دوڑ گئی وہیں اس فیصلے سے ہمارے ضمیر نے ہمیں تھپکی دے کر بتایا کہ اس قوم کا اگر کوئی مسیحا ہے تو وہ صرف تم ہی ہو۔ ہم جو مصیبت کی ہر گھڑی میں، مشکل کی ہر دوڑ میں اس قوم کے مسائل کے سامنے سینہ سپر ہوئے ہیں تو اس بہادری عزم صمیم اور لازوال قربانیوں نے ہمیں یہ رتبہ عظیم بخشا کہ ہم اس قوم کی مسیحائی کرسکیں۔

لہذا ہم صبح تہجد کے وقت اٹھے اس قوم کے گناہوں کی معافی مانگی۔ اوزار سنبھالے، بیج لیےاکیلے ہی جانب منزل گامزن ہوئے۔

منزل مقصود پر پہنچ کر ہم نے زمین کے ساتھ مختصر خطاب کیا جس میں اسے بتایا گیا کہ اس کی ذمہ داری کیا ہے اور ہماری اس سے کیا توقعات ہیں۔پانی دے کر زمین کی صدیوں کی پیاس بجھائی۔ بیج ڈال کر اسے معتبر کردیا اور مٹی اور کھاد کے ساتھ زمین کی آبیاری کی۔

پھر کسی پریمی کی طرح ان کے گرد منڈالتے کئی ہفتے گزار دیئے۔ کبھی چھپ چھپ کر اور کبھی سامنے آکر دیکھتے رہے۔مستقبل کا خوف دل میں چھپائے۔اردگرد پھیلی ناکامیوں کے درمیان امید کے دیئے کو بجھنے سے بچانے کی جستجو میں لگے رہے ۔مجھے معلوم ہے بدھ نے ایک درخت کے نیچے نروان کا گیان پایا تھا ۔اب میری آتما بھی شانتی کی تلاش میں تھی اور مجھے محسوس ہوتا تھا کہ ٹماٹروں کے یہ ننھے ننھے پودے میرے لیئے نروان کا سندیسہ لانے والے ہیں

ایک دیہاتی صبح  یہ اطلاع ملی کہ ہماری تپسیا رنگ لائی ہے اور ہمارے  لگائے پودوں کی گود بھرنے لگیں ہیں۔ پھول کھلنے لگے اور پھولوں سے  پھل بننے لگا تو ٹہنیاں جھکنے لگیں۔ سبز ٹماٹر محنت کے سرخ رنگ کو پانے کے قریب پہنچ گیا۔ گویا ہماری زندگی میں سرخ انقلاب کا زمانہ آنے ہی والا ہے۔

ہم سوچتے ہیں یہ قوم کیسے احسان مند ہوسکتی ہے ہماری۔

لیکن یہ سوچ کر درگزر کردیتے ہیں کہ ناداں ہیں سمجھ جائیں گے۔ کبھی تو قدردان ہوں گے  ہمارے۔

تب تک ہم ٹماٹروں کے اترنے کا انتظار کرتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment