Saturday, February 10, 2018

ایک خط کے جواب میں


سدا خوش رھو!

اتنے عرصے بعد خط ملا پہلے تو اچنبھا ہوا پھر وہ خوشگوار حیرت میں بدل گیا
دوبارہ پڑھا تو ناسٹیلجیا کے گہرے بادلوں میں خود کو محبوس پایا
میں دیر تک اسی سوچ میں اٹکا رھا کہ تم کہاں ہو؟ کیونکہ یہ خط تو تمہارا ہے لیکن یہ لفظ تمہارے نہیں
وہی انداز لیکن بے روح تحریر۔جیسے تم اداس رہنے لگی ہو، جیسے تمہارا دھیان زندگی میں نہیں رھا۔جیسے تمہارے قدم راستے کی گرد سے بوجھل ہوگئے ہوں۔ جیسے تمہارا سنگ میل تمہاری نظروں سے کسی نے اوجھل کر دیا ہو۔
لیکن جب میں نے تمہاری یاد کے بادلوں میں جھانکا تو تو مجھے تمہارے الفاظ کی روح پر وہ سب بھاری پتھر نظر آنے لگے۔ جنہون نے تمہارے لہجے کو یہ تھکاوٹ بخشی ہے۔ 
تم پوچھتی ہو کہ وہ کونسی امپلس ہے جو تمہیں چٹھیاں لکھنے پر مجبور کرتی ہے تو سنو تمہیں خدا نے ایک امتیاز بخشا ہے، تمہاری سوچ کو ایک جلا دی ہے لکھنے کی قدرت عطا کی تم خیالات کی شمعیں جلا سکتی ہو تم وہ صلاحیت رکھتی ہو کہ جو بن مانگے اپنے حصے کی روشنی دوسروں میں بانٹ دیتے ہیں۔ اس لیئے مجھے یقین ہے کہ تم کبھی لکھنے سے نہیں رک سکتی ۔ تم اب بھی سنگ بہاروں کی تلاش میں نکل سکتی ہو تم ہمالیہ کے شفاف پہاڑوں پر چڑھنے کا حوصلہ رکھتی ہو۔ کم زور تو میں تھا جب تم نے گل پوش وادیوں کی سحرانگیزیاں ڈھونڈنے کیلئے مجھ سے وعدہ مانگا تھا تو میں وہ حوصلہ ڈھونڈ نہیں پایا تھا جس کو پا کر میں تمہارے ساتھ شبنی قطروں کی راہ میں ساتھ چلنے کیلئے ہاں کرتا ۔ میں عذر ڈھونڈ سکتا تھا ۔لیکن میں میں ان دیکھی ان کڑیوں کو توڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا جنہوں نے میرے وجود کو باندھ رکھا تھا
تم واقعی بربت ہو۔ تمہاری سوچ تمہارے ارادے واقعی پربتوں کی طرح بلند اور سنگلاخ چٹانوں کی طرح پائیدار ہیں۔ تمہیں یاد ہے میں کہا کرتا تھا میں کسی دن وہ حوصلہ وہ عظم ڈھونڈ لاؤں گا جو تمہیں تسخیر کرنے کیلئے کافی ہوگا تو تم نے مسکرا کر کہا تھا کہ تم صرف ارادہ باندھ لو میں خود تمہیں سرسبز وادی کے دامن میں بنی اپنی جھونپڑی میں لے جاؤں گی جو چیل اور چنار کے درختوں سے اٹی ہوگی۔ جس کے اوپر نیلا آسمان ہوگا جس کے ساتھ شفاف اور میٹھے پانی کے چشمے بہتے ہونگے ۔لیکن وہ سب باتیں دھرانے کا اب کیا فائدہ ؟
تمہاری باتیں ویسی ہی ہیں جیسی تم پہلے کیا کرتی تھی۔وہی خواب بسنانے کی باتیں، وہی ہوا میں معلق آشیانوں کو ڈھونڈنے کی باتیں ۔ پہلے تم آسمان کے تارے اس سے جدا کرنے کی باتیں کرتی تھی اور اب آسمان کی ریشمی چادر کی بات کرتی ہو لیکن کچھ نہیں ہونے والا ۔ کوئی نئی دنیا دریافت نہیں ہونے والی ۔کوئی تعلق نیا نہیں ملنے والا 
ہم میں سے کوئی بھی غلط نہیں تھا۔ اپنی جگہ ہم دنوں درست تھے ۔ میں مجبوریوں کا پابند تھا تم اپنی خواہشوں کی۔ بالوں میں چاندی اتر اائی تو کیا ہوا مجھے یقین ہے تمہارے خواب آج بھی تمہارے ارد گرد آباد ہیں تمہارے خط میں موجود وارفتگی اور اضطراب بتا رھا ہے کہ تم اپنے افسانوں کے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے آج بھی بے تاب ہو
تم پہلے بھی خواب دیکھتی تھی، خیالوں کے اڑن کھٹولے لیئے پھرتی تھی تم زندگی کو کو بھی خیالی آنکھوں سے دیکھنے کے قائل تھی ۔ تم امنگوں پر جیتی تھی اور تمہارے تصور کی جنت بھی ایسے ہی حسیں تصورات کے سہارے مہک جاتی تھی ۔ مجھے یقین ہے تم آج بھی خواب دیکھتی ہو انہی خوابوں نے تمہیاری جستجو کی حس کو تمہیں ایک بار پھر میرے سامنے لاکھڑا کیا ہے 
لیکن کیا کیا جائے میرا اور تمہارا رشتہ زمین اور آسمان کا ہے جو ایک ساتھ نظر آنے کے باوجود ہمیشہ دور رہتے ہیں ۔ ہم دونوں ایک بینچ پر اکھٹے بیٹھ کر ایک دوسرے کو تنگ نہیں کر سکتے ایک دوسرے کو قائل نہیں کر سکتے لیکن میں سمجھ سکتا ہوں تڑپ کے کنول کھلنے سے روکناکسی کے بس میں نہیں ہوتے ۔ایک مجروح مسکان کی طرح ،روح کی تسکین کیلئے 
لیکن میری جان! زندگی چند رنگینیوں کا نام نہیں ہے یہ یکطرفہ خیالوں کا مجموعہ نہیں ہے ۔مجھے ڈر لگتا ہے جس دنیا کو تم آسمانوں کے پڑے ڈھونڈتی تھی کہیں وہ جیون کے سپنوں کا سحر توڑ نہ دے ۔ مجھے ڈر ہے ریشمی چادر کے پیچھے کی دنیا تمہاری بسائی جنت کو تحلیل نہ کر دے۔ تمہارے نازک سے دل کا آبیگینہ کہیں دوبارہ نہ ٹوٹ جائے
کیونکہ اب تمہارے دل کا ٹوٹنا کافی دردناک ہو سکتا ہے.میں بتا نہیں پایا کبھی لیکن یہ مجھے بھی بہت عزیز رہا ہے.تمہارا دل تمہارے قلم ہی کی طرح تتلیاں بناتا ان میں رنگ بھرتا ہے خواہشوں کی تتلیوں کے پیچھے بھاگتا ہے تو دوسری طرف آس کے جگنو بھی بناتا ہے جو رستے کو پرنور کر کے مسافروں کے لیے آسانی کر دیتے ہیں.
نا چاہتے ہوئے بھی خط ختم کرنا پڑ رہا ہے. کیونکہ صفحہ کتنا بھی لمبا کیوں نہ ہو ختم ہوجاتا ہےزندگی کا ہو چاہے کتاب کا صفحہ پلٹنا تو پڑتا ہے.
فقط
تمہارا

No comments:

Post a Comment