صبح جس خاتون کو بڑی مشکل سے تسلی دے کر بھیجا تھا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں..بچے میں پانی کی کمی نہیں ہے.. دوائی استعمال کرائیں... بہتر ہوجائے گا..اور اب دو گھنٹے بعد خاتون دوبارہ بچے کو لیکر آگئی ہے کہ بالکل پانی نکالے جارھا ہے... نڈھال ہوچکا ہے... کچھ کھایا پیا بھی نہیں صبح سے..اور مجبورا مجھے اس کو ڈرپ لگانا پڑی.
اور کچھ دیر پہلے ہی ایک کونسلر صاحب کی اپنے بھتیجے کے بارے میں کال موصول ہوئی تھی کہ اس بچے کو اس وقت تک چھٹی نہیں دینی جب تک اس کے پخانے بہتر نہیں ہوجاتے...
اور میں اپنے علم فہم اور ابزرویشن کے درمیان الجھا ہوا تھا.کہ میرابیماری کی شدت بارے اندازہ غلط ہے یا پھر والدین کے تفکر میں انتہاپسندی ہے...
کوئی دو گھنٹوں بعد ایک نوجوان نے خاتون کا ڈرپ لگوانے کے معاملے کا ڈراپ سین کیا..
اس نے بتایا کہ مصروفیات کی وجہ سے گھر فون کیا تھا اس ویکنڈ نہیں آسکوں گالیکن بچے کی بیماری کا سن کر سب کچھ چھوڑ کر آنے پر مجبور ہوگیا ہوں.....
.اگلے چند گھنٹوں میں کونسلر صاحب کے بھتیجے کی بیماری کی نوعیت بارے بھی علم ہوگیا..اتوار کی چھٹی کو بچے کی بیماری کے سہارے ہفتہ کے ساتھ ملایا جارھا تھا..
لیکن میرے ذہن میں سوال یہ پیدا ہورھا ہے کہ بچوں کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلانے والے والدین کی اس کوشش کو میڈیکل سائنس کس نظر سے دیکھتی ہے؟؟
No comments:
Post a Comment