جب تم میرے ساتھ تھے
میں نے سیکھنا چھوڑ رکھا تھا
چاند کے ہیولوں میں
تیری تصویر بن لیتا تھا
ساحل کی گیلی ریت پر ہاتھ رکھ کر
میں تجھے سوچ لیتا تھا
سرد ہوا کے جھونکے مجھے چھونے آتے
تو
تیرے ہاتھوں کی لمس جان لیتا تھا
پانیوں سے ٹکراتی کرنیں دیکھ کر
میں
تیری مسکراہٹ پہچان لیتاتھا
جب سائے تھک کر نڈھال ہو جاتے
میں
تیری آنکھ سے نظارے دیکھ لیتا تھا
مگر
اب تم نہیں ہو
مجھے کچھ سیکھنا پڑے گا
تنہائی کس کو کہتے ہیں
ہجرکا روگ کیاہے
رت جگے کس کو کہتے ہیں
دیوانگی کیا ہے
وحشت کس کو کہتے ہیں
بے بسی کیا ہے
اجنبی کس کو کہتے ہیں
آج میں اداس بھی ہوں
اور
تنہا بھی
تیرا ساتھ ہے
نہ تیری واپسی کا سہارا
جینے کیلئے سیکھنا پڑے گا
اور سیکھنے کی اب عمر نہیں ہے
میم ۔ سین
No comments:
Post a Comment