Tuesday, October 22, 2019

کھیوڑہ کان کی ناک




جونہی ہم کان کے داخلی دھانے پر پہنچے ٹرین نے رینگنا شروع کردیا تھا..اگلی ٹرین کے بارے پوچھا تو پتا چلا کہ آدھا پونا گھنٹا لگ سکتا ہے.اگر پیدل جانا چاہیں تو کوئی مشکل کام نہیں..
باہر چلچلاتی دھوپ میں آدھا پونا گھنٹا گزارنا آسان کام نہیں تھا.پیدل چلنے کا اردہ کرکے کان میں گھسے تو ایک دم سے خنکی اور.نمی کے خوشگوار احساس کا سامنا ہوا..
بہت سے لوگ پیدل واپس آرہے تھے.ان کی باتوں سے اندازہ ہوا ٹریک ہموار ہے لیکن طویل ہے.چونکہ ابھی کچھ مزید مقامات تک پہنچنا تھا اس لیئے اپنی توانائیاں پیدل چلنے پر ضائع کرنے کی بجائے وہیں کھڑے ہوکر ٹھنڈک کے احساس میں گزار کر ٹرین کی واپسی کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا....
کہتے ہیں سکندر اعظم کے تھکے ہارےگھوڑے یہاں پتھروں کو چاٹتے پائے گئے تھے.جس پر تحقیق کی گئی تو پتا چلا یہ نمک کے پہاڑ ہیں.خوردنی نمک کی سب سے قدیم.اور دنیا کی دوسری بڑی کان میں نمک نکالنے کا کام اس جگہ سے بہت دور ہورھا ہے جس جگہ کو سیاحت کیلئے استعمال کیا جاتا ہے.
ضلع جہلم میں واقع کھیوڑہ کان تک پہنچنے کیلئے اگرچہ للۂ انٹرچینج سے اتر کر پنڈ دادن پہنچنے کا آسان رستہ موجود ہے...لیکن اگر سفر سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو پھر چوا سیدن شاہ والی سائیڈ سے پنڈ دادن خان کا سفر کریں..بہت خوبصورت اور منفرد لینڈ سکیپ سے ہوتے ہوئے کھیوڑہ پہنچیں گے اور کان کی سیر کی یادیں ہمیشہ کیلئے امر ہوجائیں گی.سبزے سے ڈھکے میدان، ڈھلوانیں، پانی کے تالاب اور سرخ چٹانوں کے منفرد مناظر آپ کی یاداشت سے کبھی محو نہیں ہونے پائیں گے.

کوئی پونے گھنٹے بعد ٹریں واپس آئی تو انتظار میں کھڑے لوگوں نے منٹوں میں اسے بھر دیا اور ٹرین کان کے اندر چل پڑی.منچلوں کی چیخوں، سیٹیوں اور ہلے گلے کی آوازوں کے ساتھ تنگ سے غار سے ہوتے ہوئے ایک بڑے سے ہال میں آکر رک گئی.

جدید طریقہ کان کنی کو استعمال کرتے ہوئے اٹھارہ سو اڑتالیس میں سرنگوں کی مدد سے نمک نکالنے کا آغاز کیا گیا تھا.نمک نکالنے کا کام کوئی ایک سو دس مربع کلومیٹر کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے.اور سرنگوں کی لمبائی نکالی جائے تو چالیس کلومیٹر سے زائد بنتی ہے..

جونہی آپ کان کے مرکزی حصے میں پہنچتے ہیں.رنگا رنگ روشنیوں سے سجائے غار نمکین پانی کے تالاب اور کان کے اندر بنے ٹریکس اپ کو خوش آمدید کہتے ہیں.ویسے میرے ذاتی خیال میں رنگ دار روشنیوں کے استعمال کی بجائے صرف اچھی سفید روشنی کا استعمال کیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا.کیونکہ نمک کے پتھروں کا اپنا قدرتی رنگ اور ڈیزائن بہت دیدہ زیب اور متاثر کن ہے... نمک سے بنے ڈیکوریشن پیس اور دوسری اشیا کے سٹال بھی موجود ہیں جن پر لوگون کا کافی ہجوم ریتا ہے.
نمک سے بنا مینار پاکستان اور.مسجد لوگوں کی توجہ کا خصوصی مرکز بنتے ہیں..
دیواروں سے پانی رستا رہتا ہے جس کے نکاس کیلئے باقائدہ نالیاں بنائی گئی ہیں.کچھ جگہوں پر رِستے ہوئے پانی سے خشک ہوکر نمک کے خوبصورت آرٹ کے نمونے دیدہ زیب ہیں.
یہاں کا ٹمپریچر گرمیوں اور سردیوں میں یکساں رہتا ہے جو اٹھارہ ڈگری بتایا جاتا ہے..
.
کان کے اندر ایک دمہ سنٹر بھی قائم ہے جہاں پر تجرباتی بنیادوں پر دمے کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے لیکن معلومات کی کمی کی وجہ سے بہت کم لوگ اس بارے جانتے ہیں.

اگرچہ سیاحوں کی سہولت کیلئے خاطر خواہ انتطام موجود نہیں ہیں.اور پٹری کے ساتھ پیدل ٹریک پر بھی حفاطتی اقدامات کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا ہے. بجلی کی تاروں کو سنبھالنے پر بھی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے.کھیوڑہ کی کان میں دیکھنے کو بہت زیادہ ورائٹی نہیں ہے.اور بہت سے لوگوں کو یہاں آکر مایوسی کا اظہار کرتے بھی دیکھا لیکن پھر بھی یہاں کی سیر ایک منفرد تجربہ ضرور ہے.اور زندگی کا ہر تجربہ انسانی سوچ کے کینوس کو وسیع کرتا ہے..
بچوں کے مطالعاتی دورے کیلئے بہترین جگہ ہے. مائنز کی سیر کیلئے ان کو ضرور لیکر جانا چاہیئے

میم.سین

No comments:

Post a Comment