آوارہ گرد کی ڈائری...
قلعہ روہتاس میں جن عمارات کے
آثار ابھی کسی حد تک موجود ہیں ان میں شاہی دربار، مان سنگھ کی حویلی، پھانسی گھاٹ،
شاہی مسجد شامل ہیں۔
مان سنگھ کی حویلی اکبر بادشاہ
کے خاص جرنیل مان سنگھ کے نام پر ہے اس کی خاص بات یہ ہے کہ اسے قلعہ کی بلند ترین
چٹان پر قائم کیا گیا تھا۔ اور اس کی طرز تعمیر بھی روایتی عمارات سے مختلف تھی۔
حویلی کے بالکل سامنے کی چار
منزلہ عمارت پھانسی گھاٹ کی ہے جس کی چھت میں اڑھائی فٹ کا قطر ہے۔جہاں سے مجرم کو
لٹکایا جاتا تھا۔ اور پھانسی کے عمل کی حویلی مان سنگھ سے نگرانی کی جاتی تھی۔
کابلی دروازے کے نزدیک ایک صحن
اور چھوٹے سے ہال پر مشتمل مسجد ہے ۔ لیکن انمول اور دیدہ زیب تعمیرات میں شمار کیا
جاسکتا ہے
کہا جاتا ہے کہ جب ہمایوں بادشاہ
بن کر دوبارہ ہندوستان آیا ۔تو روہتاس قلعہ کی طرز تعمیر دیکھ کر دنگ رہ گیا تھا۔
لیکن شیر شاہ سوری سے لگے زخموں کو یاد کرکے اسے مسمار کردینے کا حکم دے دیا تھا۔بادشاہ
کے خاص ساتھی بیرم خان نے سمجھایا کہ اس پر اتنا خرچ ہوچکا ہے تو اسے رہنے دیا جائے۔ممکن
ہے مستقبل میں آپ کے بھی کام آئے۔ اگر غصہ ہی ٹھنڈا کرنا ہے تو کچھ حصوں کو گرا دیتے
ہیں ۔ جس پر قلعے کےایک دروازے کے پانچ گنگرے گرا کر بادشاہ کے غصے کو ٹھنڈا کیا گیا
سکھوں نے اس قلعہ کو دفاعی نقطہ
نظر سے کافی اہمیت دی ۔ رنجیت سنگھ کے زمانے میں قلعے کو تو زیادہ نقصان نہیں پہنچایا
گیا لیکن قلعے کے سارے قیمتی پتھر اکھاڑ لیئے گئے
موسمی حالات اور حوادث زمانہ
کے باوجود قلعے کے آثار ایک عظیم الشان اور پروقار قلعے کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں
میم.سین
No comments:
Post a Comment