:-
گزشتہ
کئی روز سے رنگوں پر لکھنے کی کوشش میں ہوں..تحریر دلچسپ تو ہو لیکن طوالت کے بغیر.لیکن
جب لکھنے بیٹھتا ہوں تو خیال بکھر جاتے ہیں. مانو کسی پرندے کی طرح ـ، جو آپ کے سامنے
بیٹھا ہے اور آپ اس کو پکڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن جب پکڑنے کی کوشش شروع کرتے ہیں
تو وہ اڑ جاتا ہے..
میرے
لئے وہ بہت اَہم ہے جو میں نے ابھی لکھنا ہے کیونکہ وہ اگلا قدم ہے میرے شعوری ارتقا
کا... اور جو میں لکھ چکا ہوں وہ میرا سرمایہ ہے، مگر میں اس سے اچھا لکھنا چاہتا ہوں.جب
انگور کی بیل سے پہلا پھل میٹھا حاصل ہوجائے تو آئندہ سال اُس سے زیادہ امیدیں بندھ
جایا کرتی ہیں...
لکھنے
کے معاملے میں جو چیز مجھے اُکساتی ہے وہ تڑپ، درد، خوشی یا مسرت کا داخلی احساس ہے.
کیونکہ اِسکے معاملے میں، میری مرضی نہیں چلتی، خود کو بے بس پاتا ہوں....
مجھے
اس لئے نہیں لکھنا کہ لوگوں کی یہ ایما ہے یا مجھے لوگوں کو دِکھانا ہے، میں درحقیقت
لکھتا نہیں، میں اپنی ذات کا عرفان حاصل کرتا ہوں...
رنگ
میری پہچان ہیں اور مجھے لکھنے پر اُبھارتے ہیں.لیکن کبھی کبھی ان کا رنگ ماند پڑ جاتا
ہے..آندھی اور طوفان سے پیڑ ٹوٹ جاتے ہیں پر جب بہار آتی ہے تو نئی شاخیں نکل آتی ہیں.
بارش نہ ہو لمبے عرصے تک تو ہریالی پیلا رنگ اوڑھ لیتی ہے.
اِسی
طرح زندگی میں بھی وقت کے نشیب و فراز میں یہ رنگ مدھم پڑنا شروع ہوجاتے ہیں مگر جونہی
کوئی واقعہ کوئی خواہش ان کی آبیاری کرتی ہے تو رنگ زندگی کے کینوس میں پھر سے اُبھرنا
شروع ہوجاتے ہیں. اور قلم اپنا کام شروع کردیتا ہے.
رنگوں
سے میرا پہلا تعارف پرائمری کلاس میں اس وقت ہوا تھا جب ایک بچے کے پاس رنگوں والے
مارکر کا سیٹ دیکھا تھا...لیکن ان رنگوں سے تعارف ملاقات میں اس وقت بدلا تھا جب مڈل
کلاس میں خریدنے کے قابل ہوا.اور پھر ہفتے کے سات دنوں کے نام انگریزی اور اردو میں
لکھنے کیلئے ان کا استعمال کیا تھا.ہر دن کیلئے ایک الگ رنگ. یہ پہلی خواہش تھی جس
نے تکمیل دیکھی تھی
زندگی
بہت سی کروٹیں بدل کر بہت اگے نکل چکی ہے لیکن قدم قدم پر آج بھی میری اپنے بچپن سے
ملاقات ہوجاتی ہے..کسی سٹیشنری کی دکان پر رکھے رنگوں کو دیکھتا ہوں تو رنگوں کا رقص
شعلوں کی طرح میری یادوں میں جاری ہوجاتا ہے.اور میں دیوانہ وار ناسٹیلجیا کی بھول
بھلیوں میں اس کوشش میں بھاگنا شروع کردیتا ہوں کہیں مجھے یہاں سے نکلنے کا رستہ نہ
مل جائے. میں جب بھول بھلیوں سے نکلتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے وقت پرکسی نے ٹھنڈی
راکھ پھیلا دی ہو..
کبھی
کبھی یہ خیالات اس قدر شدید ہوتے ہیں جیسے کوئی دشمن میرا پیچھا کررھا ہے اور مجھے
اپنی خواہش کے حصول کیلئے اندھا دھند بھاگنا پڑرھا ہے.
پھر
ایک دن بہت تیز کی آندھی آئی... اور آندھی کے بعد تیز بارش...
بارش
اس قدر کہ ہر طرف جل تھل... گھر کی چھت پہ آسمان پہ تیرتی بدلیوں کو دیکھا تو رنگوں
کی اک کمان سے آنکھیں چار ہوئیں... گھر کے آگے درخت کی اوٹ سے شروع ہوتے آسمان پر دور
تک پھیلاؤ تھا.کچھ عرصے بعد معلوم ہوا قوس قزاح سے یہ میرا پہلا تعارف تھا. اب بھی
جب میں قوس قزاح دیکھتا ہوں تو وہ ست رنگی کمان میری یادوں کے نقوش پہ اُبھر آتی ہے.
یہ نقش امی کی سلائی مشین کے ساتھ رکھے رنگا رنگ دھاگوں کی طرح ہوتے ہیں.جن سے ایک
خوش رنگ تصویر اُبھرتی ہے .جو کسی رومانوی خیال کی طرح مجھے اپنی طرف کھینچتی ہے. اور
میرا جی چاہتا ہے سب چھوڑ کر گھر کی اُس چھت کے قوس قزاح کے سب رنگ سمیٹ لوں..
نیا
نیا رنگین ٹی وی گھر آیا تو ایک دن ٹیوننگ کرتے ہوئے دور درشن سامنے آگیا. کوئی ہندی
فلم لگی ہوئی تھی، ہولی کا سین تھا. ہیرو، ہیروئین ان کے دوست، سہیلیاں ایک دوسرے پر
رنگ پھینک رہے تھے. سلو موشن میں فلمائے گئے بکھرتے رنگوں کے کچھ سین اور
ایک
عرصے تک ہولی کے یہ رنگ دماغ میں کہیں بکھرے رہے... اب بھی جب میں ہولی کے تہوار کا
ذکر سنتا ہوں تو میرے اندر ستاروں سی چمک آجاتی ہے. پھولوں جیسی مہک ستانے لگتی ہے،
میرا ماضی مجھ سے سرگوشیاں کرنے لگتا ہے.میں ان سرگوشیوں میں یادوں کی جھاڑ سے رنگ
برنگ اور خوبصورت پھول چننے لگتا ہوں. ان پھولوں سے یادوں کا اک گلدستہ بناتا ہوں.
اس گلدستے کو اک آتشدان کے اوپر رکھ دیتا ہوں. کیونکہ ان پھولوں کے خدوخال میں، میں
زندہ ہوں. میری یادیں میرے خیالات، میرے افکار زندہ ہیں. جب تک میں زندہ ہوں یہ گلدستہ
یونہی تروتازہ رہے گا، مہکتا رہیگا...
عید
سے ایک دن پہلے، زندگی میں پہلی بار ایک رنگ ساز کی دکان کے پاس سے گزرا..مختلف رنگوں
کے ڈوپٹے رنگنے کے بعد خشک ہونے کیلئے ایک تار پرلٹکا رکھے تھے اور ہوا سے لہراتے بکھرتے
رنگوں نے مجھے روک لیا..پانی کا ایک تسلہ چولہے پر چڑھایا ہوا تھا.. پاس رکھے ایک ڈبے
میں بے شمار خانے تھے اور ہر خانے میں الگ رنگ موجود تھا.اس نے چمچ کی مدد سے سے ایک
رنگ اٹھا کر تسلہ کے پانی میں پھینکا، چھڑی سے خوب ہلایا اور پھر ایک ڈوپٹے کو اس.میں
ڈال کر گھمایا ..نکال کر ایک سرے کو نچوڑا اور نمونے کے کپڑے سے ملایا ..شائد ابھی
مطلوبہ رنگ حاصل نہیں ہوا تھا.اس لیئے پھر سے ابلتے رنگ دار پانی میں پھینک دیا...کچھ
دیر کام کرتے دیکھ کر اگے بڑھ گیا لیکن ہوا میں لہراتے ڈوپٹے کئی دن تک میری آنکھوں
کے سامنے لہراتے رہے...
بے
شک میری یاداشت میں بسے یہ رنگ کسی پہاڑی ندی نالے کی طرح ہیں. جن سے آپ کا اچانک سامنا
ہوجاتا ہے. لیکن یہ رنگ زندگی کے پتھریلے راستوں سے گزر چکے ہیں. گھاٹیوں سے گزر کر
کشادگی میں ڈھل چکے ہیں. رنگوں کے اس تصوّر نے لامحدود وسعتوں کے دروازے کھولے ہیں.
میرے تصوّر کی آنکھ آج بھی ان رنگوں کے سرچشمے کو دیکھتی ہے تو زندگی کا بہاؤ جاری
رکھنے پر مجبور کردیتی ہیں...
کالج
جاتے ہوئے ایک بار ایک زخمی پرندے کو دیکھا..اس پرندے کی خوبی یہ تھی کہ بہت چہچہاتا
ہے..اس کو پکڑ کر اپنے پاس رکھ لیا.زخم تو ٹھیک ہوگیا لیکن اس نے چہچانا شروع نہیں
کیا..بہت دن گزر گئے لیکن اس کی آواز کو ترستا رھا..ایک دن ایک دوست نے بتایا. تم نے
اس سے زندگی کے رنگ چھین لیئے ہیں..اس کا شاخ شاخ، ڈالی ڈالی گھومنا..ہم جولیوں سے
باتیں کرنا..گھات گھات کا پانی پینا.
کچھ
سال پہلے میں نے بھی سیاہ رنگ اوڑھ لیا تھا.میرا خیال تھا یہ رنگ میری ذہنی بالیدگی
کا نتیجہ ہے..لیکن میں بھی اس پرندے کی طرح چپ ہوگیا تھا..پھر ایک شخص ملا .اس نے بتایا
کہ منفیت نے تمہاری زندگی کے رنگوں کو ڈھانپ دیا ہے. رنگ تمہاری زندگی ہیں. تمہیں کمانے
کیلئے باہر نکلنا پڑتا ہے.لیکن رنگ تمہارے بستر پر پہنچ جاتے ہیں.رنگ تمہارے لیئے وہی
اہمیت رکھتے ہیں.جو ایک ادیب کیلئے کہانی، ایک کسان کیلئے گندم.کی بالی، ایک پودے کیلئے
پانی، ایک لوہار کیلئے لوہا.بڑھئی کیلئے لکڑی..
تم
سنگ تراش ہو تو رنگ تم سے نقش ونگار بنواتے ہیں.شاعر ہو تو اشعار لکھواتے ہیں.تم باغبان
ہو تو پودوں کی آییاری کرواتے ہیں. فنکار ہوتو تخلیق کرواتے ہیں.مصور ہو تو تصویر بنواتے
ہیں..شاعر ہو تو اشعار لکھواتے ہیں.پھر اس نے ایک ایک کرکے مجھے رنگ ڈھونڈ کر دیئے
اور مجھے میری زندگی کی چہچہاہٹ مل گئی..جب کبھی مایوسی کا سامنا کرتا ہوں. دم گھٹنے
لگتا ہے تو مجھے یہ الفاظ یاد اجاتے ہیں..
سنو:
زندگی سے ان رنگوں کو کبھی مدھم نہ ہونے دینا.....
میم.سین
No comments:
Post a Comment