جب مجھے بتایا گیا تھا کہ ملوٹ
قلعے سے وادی جہلم پر نظر دوڑائیں تو دریائے جہلم، چناب اور راوی کو الگ الگ منظر میں
دیکھا جاسکتا ہے۔جہلم اور چناب کا نام تو ہضم ہوگیا تھا لیکن راوی والی بات مبالغہ
لگی لیکن جس دن ملوٹ قلعے سے وادی میں جھانکا تو اندازہ ہورھا تھا کہ اگر مطلع صاف
ہو اور روشنی مناسب ہو تو یقینا نظر راوی تک رسائی حاصل کرسکتی ہے۔
انتہائی بلندی پر موجود ہونے
کی وجہ سے ملوٹ قلعے پرپہنچے تو تیز یخ ہوائوں نے استقبال کیا۔ پہاڑوں سے ٹکڑاتی، گونج
پیدا کرتی آواز اور آبادی سے ہٹ کر موجود مندر ایک ہیبت ناک منظر پیش کررھےتھے۔
لیکن کچھ دیر ٹھہریں۔کسی نے
انباکس ایک سوال کیا ہے کہ سالٹ رینج۔ سکیسر، وادی سون، کلرکہار، پوٹھوہار کے الفاظ
بار بار سنتے ہیں ان کی وضاحت کردیں؟
سالٹ رینج ایک پہاڑی سلسلے کا
نام ہے۔ جس میں نمک اور چونا بکثرت ملتا ہے اور کوئلہ بھی کسی حد تک پایا جاتا ہے۔
کھیوڑہ کی نمک کی کانیں اسی سلسلے کا حصہ ہیں ۔ اسلام آباد جاتے ہوئےبھیرہ سے موٹر
وے کے بعد جو مشکل رستہ شروع ہوتا ہے وہ سالٹ رینج کا ہی حصہ ہے۔ جسے عبور کرکے ہم
میدانی علاقے سے سطح مرتفع پوٹھوہار میں داخل ہوتے ہیں۔ سطح مرتفع پوٹھوہار اونچی نیچی
زمین کا ایک خطہ ہے جوچکوال جہلم ، پنڈی ، اسلام آباد اٹک اضلاع اور خوشاب اور میانوالی
اضلاع کے کچھ حصوں پر مشتمل ہے۔۔
سالٹ رینج میں کم بلندی کی پہاڑیاں
ہیں جن میں سب سے اونچی سکیسر ہے۔ جہاں پر پاکستان فضائیہ کا دفاعی نظام نصب ہے۔خوشاب
کے ایک قصبے پدھراڑ سے سکیسر کی پہاڑی کے درمیان جو وادی پھیلی ہوئی ہے اس کا نام وادی
سون ہے۔ جو کوئی سات سو اسی مربع کلومیٹر کے لگ بھگ رقبہ پرپھیلی ہوئی ہے۔ اگر کسی
نے امریکہ کی ایریزونا سٹیٹ کے بارے میں سنا ہوا ہے جو اپنی مخصوص سطح مرتفع اور مٹی
کی سرخ رنگت کی وجہ سے مشہور ہے تو یہ وادی اس سے بہت حد تک ملتی جلتی ہے۔ وادی سون
اپنی آبشاروں اور جھیلوں اور لینڈ سکیپ کی وجہ ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ پہلی بار
جانا ہوا تو حکومتی بے حسی پر بہت افسوس ہوا۔ حکومتی توجہ کے بعد دوبارہ جانا ہوا تو
لوگوں کا علاقے کے ساتھ سلوک دیکھ کر احساس ہوا قدرتی ماحول کی بقا کیلئے حکومتی غفلت
کس قدر ضروری ہے۔
کلرکہار ضلع چکوال کی ایک تحصیل
اور سیاحتی مرکز ہے۔ جس کو ہم موٹر وے سے نظر آنے والی جھیل کے حوالے سے جانتے ہیں
۔
ملوٹ قلعہ پہنچے تو قلعہ تو
کہیں نظر نہیں آیا لیکن دو بلند وبالا مندروں نے اپنی اجڑی تاریخ کے ساتھ استقبال
کیا۔جنجوعہ قوم کے جد امجد راجہ مل 980 میں ہندوستان کے علاقے متھرا سے نقل مکانی کرکے
اس علاقے میں آباد ہوئےتو یہاں ایک قلعے کی بنیاد رکھی۔ یہ مندر اسی قلعے کے اندر
تعمیر کروائے گئے تھے۔
مندروں کی تعمیر کیلئے چبوترہ
مقامی پتھر سے بنایا گیا۔لیکن مندر کی تعمیر کیلئے سرخ پتھر انڈیا سےمنگوایا گیا تھا
۔مندروں کی ناگفتہ حالت کے باجود پتھروں پر کندہ مینا کاری ، آرائشی مورتیاں اور نقش
ونگار کے آثار ایک ہزار سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک موجود ہیں۔
محمود غزنوی نے جب جہلم کے اس
حصے پر حملہ کیا تو راجہ مل نے شکست کھائی اور گرفتار ہوگیا۔ لیکن محمود غزنوی کے حسن
سلوک کی وجہ سے مسلمان ہوگیا۔ راجہ مل نے کوئی چالیس سال حکومت کی۔اسلام قبول کرنے
کے بعد راجہ مل کی اولاد علاقے میں پھیل گئی۔لیکن آئندہ سے کسی بھی حملہ آور کے خلاف
مزاحمت سے بھی توبہ کرلی۔جب منگول سردار تیمور شاہ نے ہندستان پر حملہ کیا تو اس علاقے
کے حکمرانوں نے اسے خوش آمدید کہا۔ بابر کی ہندوستان پر حملے میں جس طرح مدد کی اس
کا بھی ذکر بابر نامہ میں بھی ملتا ہے
چھت پھاڑ کر دولت حاصل کرنے
والے لوگ آج بھی موجود ہیں ۔لیکن کسی نے بتایا نہیں دولت چھت پھاڑ کرملتی ہے صحن پھاڑ
کر نہیں ۔جس مندر کے آثار کچھ بہتر ہیں اس کے کے اوپر چڑھ کر اندر جھانکا تو معلوم
ہوا نوادرات کی تلاش میں پورا فرش کھودا ہوا ہے جس سے یقینا چبوترے کو مزید نقصان پہنچنے
کا اندیشہ ہے،۔
میم.سین
No comments:
Post a Comment