لاہوری گیٹ سے داخل ہوں یا پھر
رنگ محل یا پھر شاہ عالمی والی سائیڈ سے...سنہری مسجد سے گزر کر ٹیکسالی گیٹ کی طرف
بڑھیں تو ایک نام سننے کو ملتا ہے پانی والا تالاب...اب پہلی غلطی تو یہ ہوجاتی ہے
. آپ ایک عدد تالاب کی تلاش شروع کردیتے ہیں.اور دوسری غلطی مقامی لوگوں سے اس کے بارے
میں دریافت کرکے کرتے ہیں .جن کو اگر اس کے بارے معلوم.بھی تو بھی ان کے اندر کا لاہوری
جاگ جاتا ہے...
ویسے میرا لہوریوں بارے اچھا
گمان رھا...بس سمجھانے کاانداز کچھ ایسا ہوتا ہے کہ پتا نہیں چلتا بتانا کیا چاہ رہے
ہیں...
اب تو خیر.. رہے نام گوگل کا...گوگل
میپ نے بہت آسانی کردی ہے..رستہ پوچھنے کی بہت کم ہی نوبت آتی ہے...اس دن بھی گوگل
نے عمارت کے دروازے تک پہنچا دیا تھا لیکن چونکہ ذہن میں تالاب گھوم رھا تھا اسلیئے
تالاب کو ڈھونڈنے کے چکر میں لہوریوں سے مدد لے لی...عمارت کے لگ بھگ دروازے پر ایک
بندے نے کچھ دور ایک سکول کا رستہ سمجھایا اور اس کے ساتھ ہی تالاب کی موجودگی کا عندیہ
دیا...وہاں پہنچ کر رہنمائی کی گئی آپ غلط روڈ پر آگئے ہیں..یہاں سے اگے جائیں .جوتوں
کی ایک بڑی دکان ائے گی وہاں سے جو گلی اندر جائے گی وہ تالاب تک لیجائے گی..اس دوران
گوگل مسلسل آوزیں دیتا رھا
...پیچھے دیکھو پیچھے دیکھو..
.لیکن ہم نے لہوریوں کی زبان پر
یقین کیا اور گوگل کو شٹ اپ کال دے دی...کوئی آدھا گھنٹہ خواری کے بعد ایک بابا جی
نے تالاب کے حوالے سے غلط فہمی دور کی تو گوگل سے رجوع کرنے پر مجبور ہوگئے.....
اٹھارہ سو اسی تک لاہور شہر
میں گھروں کو پانی کی سپلائی کا ذریعہ صرف کنوئیں تھے... ماشکی معاشرے میں ایک اہم.مقام.رکھتے
تھے..جو مشکیزوں میں پانی بھر کر گھروں تک پہنچاتے تھے یا پھر لوگ اپنی مدد آپ کے تحت
برتنوں میں پانی بھر کر گھروں میں سٹور کرتے تھے...اٹھارہ سو اکیاسی میں پہلے باقائدہ
سینٹری سسٹم کی تنصیب کا آغاز ہوا.اس نطام کے ذریئے اگلے ایک سوسال تک پانی کی ضروریات
پوری کرنے کیلئے منصوبہ بندی کی گئی..جس کیلئے شہر کی سب سے اونچی جگہ کا انتخاب کیا
گیا اور پلرز بنا کر ان پر دس ہزار گیلن پانی سٹور کرنے کیلئے بڑے بڑے ٹینک رکھے گئے
اور کنوئوں سے پانی لفٹی پمپس کے ذریئے ان میں جمع کیا جاتا تھا اور وہاں سے نلوں کی
مدد سے گھر گھر پانی پہنچانے کا آغاز ہوا..ابتدا میں کنووں سے پانی اکھٹا کیا جاتا
تھا.بعد میں ٹیوب ول لگائے گئے اور اجکل ٹربائنوں کے ذریئے پانی ان ٹینکوں تک پہنچایا
جاتا ہے.....
کافی دیر تالاب کی تلاش میں
ادھر ادھر بھٹکنے کے بعد ایک بزرگ نے ایک عمارت کی طرف رہنمائی کی. غیر متعلقہ افراد
کا داخلہ منع ہے کا بورڈ دیکھ کر وہاں کے ڈائریکٹر سے رابطہ کیا اور اس بات کی یقین
دھانی کے بعد کہ ہمارا تعلق کسی اخبار یا ٹی وی چینل سے نہیں ہے تو اندر جانے کی اجازت
مل گئی. عمارت کی زبوں حالی دیکھ کر اندازہ ہوا کہ عمارت کو دیکھنے کی اجازت کیوں نہیں
دی جاتی...ڈیرھ سو سال پرانی عمارت جو ناصرف فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے بلکہ ایک
تاریخی ورثہ کی حیثیت رکھتی ہے .اس کی چھت بوسیدہ ہوکر دو جگہ سے گر چکی ہے اور چھت
پر جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے..بڑے بڑے پانی کے پائپ اب بھی دیکھے جاسکتے جن پر
1880کنندہ ہے...
ایک سو چالیس سال گزر جانے کے
باوجود پانی والے تالاب کا یہ نظام اب بھی کام کررھا پے لیکن عمارت کی زبوں حالی دیکھتے
ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا کہ جلد یہ تاریخی ورثہ اپنی عمر مکمل کر لے گا...کسی بھی
باشعور قوم کیلئے ایسے ورثے ان کے اثاثے ہوتے ہیں.اور ان اثاثوں کی حفاظت کرنا وہ اپنا
اولین فرض سمجھتی ہیں..لیکن نہیں معلوم.خود کو باشعور قوم ثابت کرنے میں ہمیں ابھی
کتنا وقت مزید لگے گا.....
میم سین
No comments:
Post a Comment